working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

عالم اسلام

مسلمانوں کا شناختی بحران :قومی دھارا بیانئے سے کیوں محروم ہو رہا ہے ؟

کیون میکہم

کیون میکہم ،Brigham Young University ہوائی امریکہ میں سیاسیات کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔اس سے قبل وہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں بھی پڑھا چکے ہیں۔کیون میکہم کو عرب ، ترکی اور اسلامی دنیا کی اسلامی تحریکوں پر دسترس حاصل ہے ، ان کا یہ مضمون بھی اسی سلسلے میں ایک اچھی کاوش ہے۔جس میں وہ ان وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیسے شدت پسندوں کے آنے سے مسلم سیاسی جماعتیں متاثر ہوئی ہیں۔

2011ئکے بعد سے عرب دنیامیں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں نے ڈرامائی انداز میں وہاں پر سیاسی سرگرمیوں اور مکالمے کو نیارنگ دیا ہے۔اور وہاں جاری اسلامی تحریکوں کو سیاسی اور تزویراتی طور پر متاثر کیا ہے۔درحقیقت اس بات میں وزن بہت کم ہے کہ کئی ممالک میں جاری اسلامی تحریکیں بحران کا شکار ہیں۔یہاں مسئلہ ان کی پزیرائی یا ان کے جائز و ناجائز ہونے کا نہیں ہے۔کئی اسلامی تحریکوں کو اس قدر پزیرائی ملی ہے کہ اب وہ ان ممالک کے مستقبل سے جڑ چکی ہیں۔اتنا ضرور ہے کہ اسلامی گروہ سیاسی شناخت کے بحران کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ہی بیانئے کے بارے میں گو ں مگوں کا شکار ہیں۔انھیں بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنے نصب العین سے ہٹ رہے ہیں۔قومی دھارے کی اسلامی تحریکیں اسی صورتحال سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے ان کی سیاسی بنیادوں کو بری طرح سے دھچکا لگ چکا ہے۔جیسے جیسے ان کے بارے میں معلومات سامنے آ رہی ہیں تو معلوم ہو رہاہے کہ اسلامی بیانیہ تیزی سے رجعت پسندی کی جانب گامزن ہے۔ تحریکوں کے اندر سیاسی حمایت حاصل کرنے کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں میں کئی ایسے واقعات ہوئے جنھوں نے شناخت کے اس بحران کو بڑھاوا دیا ہے۔2011۔12کے بعد ، جب سے عرب دنیا میں سیاسی بیداری آئی تب سے مصر ، تیونس ، یمن ، بحرین ،مراکش اور لیبیا میں اسلامی بیانیہ کئی شکلیں بدل چکا ہے۔یہاں اصلاحات کی حامی ایسی جماعتیں بھی تھیں جو اپنا اثر ورسوخ رکھتی تھیں جنھوں نے حکومت سازی میں کردار ادا کیا۔اس دوران اسلامی تحریکوں میں جاں گسل دور بھی آیا جب انھوں نے تنظیمی اور نظریاتی سطح پراپنی اپنی تشکیل نو کی تاکہ وہ خود کو حکومت کرنے کے قابل ثابت کر سکیں۔آگے چل کر جیسے جیسے سیاسی بیداری کی تحریکیں ناکامی سے دوچار ہوئیں تو اس سے اسلامی تحریکوں کو موقع مل گیا کہ وہ حالات سے فائدہ اٹھائیں اور ایسے اقدامات کریں جس سے ان کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہو سکے۔شام ، لیبیااور یمن میں جاری خانہ جنگی نے سیاسی عزائم رکھنے والے پر تشدد جہادی گروہوں کو مظبوط کیا اور قومی دھارے میں شامل اسلامی جماعتوں کے کرادر پر منفی اثرات مرتب کئے جو کہ سیاسی طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرداں تھیں۔اس آگ میں مزید تیل خلیجی ممالک اور ایران نے ڈالا جہاں انھوں نے مسلکی بنیادوں پر اپنے اپنے کارندوں کو اس جنگ میں جھونک دیا۔جس سے اس تنازعہ نے مزید شدت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی بیانئے کو بھی ایک ایسی شکل دی جہاں مسلمان ہی ایک دوسرے کے دشمن ٹھہرے۔

یہاں پر میں مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ سیاسی پیش رفت کے حوالے سے ان چار عوامل کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے اسلامی تحریکوں پر اندرونی طور پر اور دنیا بھر میں شدید دباؤ آیا،جنھوں نے اسلامی سیاسی تحریکوں کو تیزی کے ساتھ پارہ پارہ کر دیا۔

نمبر (1)جمہوریت گریز روئیے نمبر(2)تشدد پر اکسانا یا جہاد کی ترغیب دینا

نمبر(3)ریاستی پشت پناہی سے مسلکی در اندازیاں نمبر(4)تحریکوں کے اند کی شکست وریخت

جس کی وجہ سے اسلامی سیاسی تحریکوں کی بیانئے پر گرفت کمزور پڑ گئی ۔اس کے اثرات بہت دیر پا ہوئے ۔جس سے ایک ایسے نظریاتی بیانئے کی تشکیل ہوئی جو بہت زیادہ اشتعال انگیز تھا۔یہ ان اسلامی ممالک کی سلامتی اور سیاست کے لئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی جہاں اسلامی جماعتیں مقبول ہو رہی تھیں۔میں ان چاروں چیلنجوں کا جائزہ لیتا ہوں جو قومی دھارے کی اسلامی جماعتوں کو درپیش ہیں۔

جمہوریت گریز روئیے

وہ ممالک جو حالیہ سالوں میں سیاسی تبدیلیوں کی زد میں ہیں وہاں اسلامی تحریکوں نے تیزی کے ساتھ اپنا بیانیہ بھی بدلا ہے۔اس میں سب سے یکساں بیانیہ وہاں کی حکومت یااشرافیہ پر اس کی نااہلیوں ، بد عنوانی اور روا رکھے جانے والے امتیازات کی وجہ سے اس پر تنقید کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کی تحریک کیسے ان مسائل کا حل دے سکتی ہے۔مگر جلد ہی اس بیانئے کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی اس کی وجہ وہاں کے سیاسی حالات بھی تھے اور ان تحریکوں کی داخلی صورتحال بھی تھی جو قومی امنگوں کی ترجمانی کرنے کے اہل نہ تھی۔اس صورتحال نے ان تحریکوں کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں وہ جمہوریت گریز رویوں کی جانب گامزن ہوگئیں۔ان تحریکوں کا بیانیہ حکومتی اداروں کے لئے باعث تشویش تھا مگر اپنے حالات میں حقیقت پسندانہ تھا گو کہ اس کی نظریاتی بنیادیں خاصی کمزور تھیں۔مصر میں اخوان المسلمین کے بیانئے میں اس لئے تیزی کے ساتھ تبدیلی ہوئی کیونکہ سیاسی طور پر اسے کامیابی مل گئی تھی مگر بعد میں اسے سیاسی نظام سے ہی بے دخل کر دیا گیا۔اس لئے رد عمل کے طور پر یہ خاص نظریئے پر کار بند ہوگئی کیونکہ وہ حکومتی جبر کی زد میں تھی۔بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جہاں حکومتی جبر کے خلاف اس نے قومی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا کیونکہ حکومت ان کے رہنماؤ ں کو گرفتار کر کے انھیں پھانسیاں دے رہی تھی۔

نظریاتی کم اور حقیقت پسندانہ طور پر زیادہ موثر بیانئے کی ایک بڑی مثال تیونس کی انہفہ جماعت ہے اس کا بیانیہ حکومت پر تنقید سے ہٹ کر تعمیری بن گیا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو وہ سیاسی مفادات حاصل نہ کر پاتی۔اردن میں اسلامک ایکشن فرنٹ کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ اس کے ہمسائے میں شام خانہ جنگی کا شکار ہو چکا تھا۔اسلامی تحریکوں کے بیانئے میں ہونے والی یہ تبدیلیاں ان تحریکوں کے اندر ہونے والی تبدیلوں کا بھی اظہار تھیں جو ا س بنیاد پر ہوئی تھیں کہ بدلتے ہوئے حالات میں انھیں بھی اپنی حکمت عملی بدلنی چاہئے۔مگر اس کے باوجود انھیں عوامی پزیرائی نہیں مل سکی کیونکہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے رویئے جمہوریت گریزی پر مبنی ہیں۔اس سے ان حلقوں میں کنفیوژن بڑھی جہاں یہ تحریکیں خود کو مظبوط سمجھتی تھیں۔

پر تشدد جہاد

اگرچہ قومی دھارے میں شامل اسلامی سیاسی جماعتوں کو جہاد کے بارے میں عمومی تاثرسے خطرہ محسوس ہوا ہے اور یہ تاثر 2013ء کے بعد عالمی سطح پر ہونے والی جہادی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا جس سے غیر متشدد اسلامی گروہوں کو بھی مشکلات درپیش ہیں کہ وہ کیسے اپنے بیانئے کو آگے لے کر چلیں۔دولت اسلامیہ کی جانب سے خلافت کا اعلان، عالمی سطح پر اس کی حمایت میں اضافہ اور تشدد پر اکسانے جیسے امور کی وجہ سے اسلامی تحریکیں جس دباؤ میں ہیں وہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ عوامی سطح پر تشدد کا جو پرچار القائدہ ،بوکوحرام اور الشباب نے کیا اس سے اسلام کا پر تشدد چہرہ سامنے آیا۔آمروں اور سیاسی مخالفین کی ہمیشہ یہ دلچسپی رہی کہ وہ کوئی ایسا جواز پیدا کریں جس سے غیر متشدد اسلامی گروہ تشدد پر اتر یں جس سے ان کی بدنامی ہو۔قومی دھارے میں شامل یہ گروہ اپنی زیادہ توانائیاں اس بات پر صرف کرتے رہے کہ وہ خود کو عسکریت پسند گروہوں سے علیحدہ ثابت کر سکیں۔یہ بھی ایک وجہ تھی جس کی وجہ سے قومی دھارے میں شامل مذہبی جماعتیں اپنے بیانئے پر مکمل گرفت برقرار نہیں رکھ سکیں۔چنانچہ وہ توانائیاں جو انھیں عوام تک اپنامثبت پیغام پہنچانے میں صرف کرنی تھیں وہ محض اس بات پر صرف ہوتی رہیں کہ پر تشدد حملے قابل مزمت ہیں۔مثال کے طور پر تیونس کی اسلامی جماعت نہفہ کے 2015ء کے بعد زیادہ تر بیانات اس بات کے ارد گرد گھومتے تھے جن میں پر تشدد حملوں کی مزمت کی گئی تھی بجائے اس کے وہ اپنی فکرو فلسفہ کے بارے میں عوا م کو بتاتے۔یہی صورتحال اخوان المسلمین کو اس وقت درپیش ہوئی جب سیناء میں جہادی حملوں کی خطرناک لہر آئی۔جس کی وجہ سے غیر متشدد جماعتوں کے بارے میں وہی تاثر پید اہوا جو متشدد جماعتوں کے بارے میں تھا ۔چنانچہ حکومتوں نے پرتشدد اور غیر متشدد دونوں جماعتوں کے ساتھ مذ اکرات میں ایک ہی طرح کا رویہ اختیار کیا۔

فرقہ واریت کی جانب

2011ء میں شروع ہونے والی شام کی خانہ جنگی بھی اسلام پسندوں کے لئے مشکل دور ثابت ہوئی کیونکہ اس سے پر تشدد جہادی چہرہ سامنے آیا۔ یہ علاقہ عربوں اور ایران کے درمیان شیعہ سنی جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ان بیانیوں کے پیچھے عرب بادشاہوں اور ایران کی بھر پور سیاسی اور معاشی حمایت تھی۔شیعوں اور سنیوں کے مابین جو اختلاف صدیوں سے چلا آرہا ہے اس میں ٹھہراؤ آ سکتا تھا مگر موجودہ حالات میں یہ اور بھی زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔اس کی توجیح مذہبی سے زیادہ سیاسی ہے۔مشرق وسطیٰ میں جاری شیعہ سنی تنازعہ کی سیاسی توجیح کی وجہ سے اسلامی گروہوں کو فکری دلائل بھی میسر کر دیئے گئے۔عراق اور لبنان میں شیعہ ملیشیا عراق اور شام میں سنی ملیشا کے ساتھ بر سر پیکار ہے۔جبکہ دولت اسلامیہ کی فکر بھی شیعہ مخالف ہے۔سعودی عرب کوبھی اپنے ملک میں شیعہ اقلیت کی جانب سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔کچھ عرصہ قبل ہی وہاں پر ایک معروف شیعہ رہنما کو پھانسی دے دی گئی تھی جس کی وجہ عالمی سطح پر شیعوں نے کافی احتجاج کیا تھا۔بحرین میں سنی حکومت نے شیعوں کی الوفاق پارٹی کے خلاف اقدامات کئے جسے ایران کی مدد حاصل ہے۔یہی کچھ یمنی حکومت نے حوثی باغیوں کے ساتھ کیا۔سعودی ایران سرد جنگ کی وجہ سے ہی شام اور یمن خانہ جنگی کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ان دونوں ریاستوں کے انہدام کی وجہ سے ہی اسلامی عسکریت پسندی کا پھیلاؤ ہو اہے جو اب فرقہ واریت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔یہی صورتحال لبنا ن میں ہے جہاں سیاسی تنازعہ ، فرقہ وارانہ تنازعہ میں تبدیل ہو گیا اور اب یہ رجحان ایک وبا کی صورت میں پاکستانی سیاست پر بھی اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے۔جس کی نذر ہزاروں شہری ہو چکے ہیں۔اگرچہ فرقہ واریت کی نئی شکل اسلامی عسکریت پسندی سے سامنے آئی ہے اور اس نے ان ممالک کی غیرمتشدد اسلامی تحریکوں پر اپنے اثرات مرتب کئے جہاں پر مسلکی تفریق پہلے سے موجود تھی ۔جن میں عراق ، بحرین اور یمن شامل ہیں۔عراق کی جماعتی سیاست ایک عرصے تک سنی سیاست کے زیر اثر رہی جس نے ریاست کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔یہی حال بحرین کا ہے جہاں کی سنی حکومت نے شیعہ اکثریت کو سیاست سے باہر رکھنے کی کوشش کی۔یمن کی سنی اصلاح پارٹی جس نے سیاسی تبدیلی کے دوران اہم مقام حاصل کر لیا تھا وہ زیدیوں کے خلاف مسلکی تنازعہ کا شکار ہو گئی۔ جس سے بالآخر پورا نظام ہی دھڑام سے گر گیا۔اس مسلکی رجحان کا شکار صف اوّل کی تمام اسلامی جماعتیں ہیں جن کی مجموعی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔اور اب یہ اس مقام پر کھڑی ہیں جہاں یہ سیاسی تبدیلی کے لئے اپنے بیانئے سے دور ہو رہی ہیں کیونکہ انھیں اپنے اندر عسکریت پسندی کے رجحان کا خطرہ ہے۔

اندرونی خطرہ

ہم نے جن تین خطرات کا مندرجہ بالا سطور میں جائزہ لیا جنھوں نے اسلامی تحریکوں کے بیانئے کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کی قیادت کی بھی ناکامی ہے کہ ان کی جماعتیں اندرونی طور پر تفریق کا شکار ہو چکی ہیں۔کامیاب اسلامی تحریکیں جن میں مصر کی اخوان المسلمین، پاکستان کی جماعت اسلامی یا الجیریا کی Front Islamique du Salud (FIS) نے بیرونی دنیا کے اثرات بخوشی قبول کرتے ہوئے سیاسی بیانیہ تخلیق کیا۔مگر اس جاری دباؤ کی وجہ سے ان اسلامی تحریکوں کی فکری اور نظریاتی سرحدیں کمزور ہوگئیں اوران کی توجہ بٹ گئی۔جو بیانیہ ان کے لئے درست ثابت ہو سکتا تھا وہ معاملے کی شدت کی نظر ہو گیا۔

حکومتوں کی جانب سے اسلامی تحریکوں کو دبانے کے عمل کی وجہ سے جیسا کہ حال ہی میں مصر ، بحرین اور بنگلہ دیش میں دیکھا گیا ہے جہاں پر غیر متشدد اسلامی تحریکوں کو بھی مجبور کیا گیا کہ وہ صرف ویسی سیاست کریں جس کی اجازت حکومت دیتی ہے۔جہاں پر اسلامی تحریکیں تیزی کے ساتھ اپنا اثر کھو رہی تھیں وہاں ا س مسئلے پر کافی اختلاف تھے کہ اس کاکیا جواب دیا جائے ۔آگے بڑھ کر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی جائے یا پھر خاموش رہا جائے۔تقسیم رائے کی وجہ سے بھی ان تحریکوں کی نظریاتی اسا س متاثر ہوئی۔آمریت اور مسلسل غیر یقینی حالات کی کوکھ سے پر تشدد جہاد کو فروغ ملا ،یہی حالات اسلامی تحریکوں میں فرقہ وارانہ سیاست کی ترویج کا سبب بھی بنے۔در اصل یہ تحریکیں ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہیں۔شاید یہ دور صف اوّل کی اسلامی تحریکوں کے لئے کوئی اچھا پیغام نہ لے کر آئے۔کیونکہ اسلامک فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے جمہوری طریقے سے وہ کتنی تبدیلی لا سکتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب ان کے لئے حقیقی چیلنج بن چکا ہے۔یہ وہ شناخت کا بحران ہے جس سے گزر کر اسلامی تحریکوں نے نہ صرف خود کو پہچاننا ہے بلکہ یہ بھی بتانا ہے کہ وہ کیا کر سکتی ہیں۔بیانیہ ان تحریکوں کے لئے اس لئے بھی اہم ہے کہ اس سے ان کی سیاسی اسا س کاپتہ چلتا ہے اس کے بغیر وہ اپنے سماجی اور سیاسی اہداف حاصل نہیں کر سکتیں۔اسلامی دنیا میں بالعموم اور مشرق وسطیٰ میں بالخصوص اسلامی تحریکیں اپنی حیثیت کھو رہی ہیں۔اور اگر وہ مستقبل میں حالات کے مطابق نہ بدلیں تو ان کا مستقبل سوالیہ نشان بن جائے گا۔انھیں اپنا بیانیہ اخذ کرنا پڑے گا، اپنے با اصول رہنماؤں کو اس جانب راغب کرنا پڑے گا کہ وہ تشدد ، انسانی حقوق، اور دوسری اسلامی تحریکوں اور مسالک کے ساتھ تعلق ، معاشرے میں مذہب کے کردار اور ریاست کی عملداری پر اپنی پوزیشن واضح کریں۔ماضی میں یہ تحریکیں ان مسائل پر الگ مؤقف رکھ سکتی تھیں مگر اب ایسانہیں ہے۔کیونکہ حالیہ دنوں میں جو بیانیہ دولت اسلامیہ لے کر آئی ہے وہ قطعی مختلف ہے۔اگرچہ اسلامی تحریکٰیں اس بیانئے کے ساتھ نہیں ہیں اس لئے انھیں یہ ثابت بھی کرنا ہے کہ ان کا نقطہ نظر کیاہے اور وہ کیا اقدامات کریں گی اگر انھوں نے سیاسی حمایت سے اقتدار حاصل کر لیا۔

(تلخیص و ترجمہ :سجاداظہر )