working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

سماج کی سیاسی تشکیل میں دینی مدارس کا کردار

خورشید ندیم

خورشید ندیم کا شمار افکارِ تازہ کے نمایاں قافلہ سالاروں میں ہوتا ہے۔وہ نامور کالم نگار اور پاکستان ٹیلی ویژن سے بطور اینکروابستہ ہیں۔ انھوں نے مدارس کے اس کردار پر روشنی ڈالی ہے جو1980ء کے بعد سامنے آیا اور پھر اس نے پورے منظر نامے کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیاہماری سیاست اور حال آج بھی اسی کے اثرات سے نبرد آزما ہے۔

مدارس کو ہمارے ہاں دو عنوانات کے تحت مو ضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے۔ایک بطور تعلیمی روایت اور دوسرا مسلمانوں کے سیاسی احیا میں ان کا حصہ۔تعلیمی روایت کی حیثیت سے،اس کا تنقیدی جائزہ کم ہی سامنے آ سکا(1)۔دوسرے حوالے سے البتہ بعض اہم تحقیقی کام سامنے آیا ہے۔تاہم اس مطالعہ کوزیادہ تر نوآبادیاتی دور تک محدود رکھا گیا، جب ہندوستان میں مسلم احیاء کے لیے سماجی، سیاسی اورعسکری تحریکیں شروع ہوئیں۔ اہلِ علم نے زیادہ تران تحریکوں کے ساتھ مدارس کے تعلق اور ان سے وابستہ ایسی شخصیات کو موضوع بنایا ہے جو ان تحریکوں میں سرگرم رہیں۔ اس مطالعے کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے۔ تاہم مدارس کے موجودہ کردار کی تفہیم میں اس کی اہمیت جزوی ہے(2)۔

تقسیمِ ہند کے بعد مدارس کی زیادہ تر سرگرمیاں تعلیمی تھیں۔ اس عرصے میں مدارس نے خود کوعلومِ اسلامیہ کی اس روایت کے تحفظ تک محدود رکھا جو نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں عام طور پر نقلی علوم کہا جاتا ہے۔ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک کے بانی مولانا عبدالحق ( م 1998 ) نے 1975 کے ایک انٹرویو میں، اْس دور میں مدارس کے کردار کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

" موجودہ دینی مدارس کا نصب العین بھی صرف یہی ہے کہ دینی تعلیمات کا تحفظ کیا جائے۔ اس سے زیادہ ان مدارس کی بساط نہیں ہے کہ جو دین بزرگوں سے ہم تک پہنچا ہے وہی محفوظ رہے۔ اس سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہیں اور نہ فنڈز‘‘(3)۔

قیامِ پاکستان کے بعدمدارس نے خودکو مربوط کیا۔اس کی اساس مسلکی وابستگی تھی۔اس باب میں تقدم مسلکِ دیوبند کو حاصل ہے۔ اس مسلک کے متعلقین نے،‘وفاق المدارس العربیہ پاکستان’ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اس کا پہلا اجلاس جامعہ خیرالمدارس ملتان میں 22 مارچ 1957ء کو مولانا خیر محمد جالندھری مہتمم خیر المدارس ملتان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ایک تنظیمی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ تنظیمی کمیٹی کے اجلاس منعقدہ 18۔19اکتوبر 1959 میں باقاعدہ طور پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی ، جس میں دستور کی منظوری کے ساتھ ساتھ تین سال کے لئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا۔

وفاق المدارس کے دستور میں درس ذیل اغراض ومقاصدکا ذکرکیا گیا ہے:

(1) ملحقہ جامعات ومدارس عربیہ کے جملہ درجات بشمول تکمیل وتخصص وتدریب المعلمین والمعلمات کیلئے جامع نصاب تعلیم مرتب کرنااورامتحانات میں کامیاب طلبہ وطالبات کوشہادات (اسناد)جاری کرنا۔

(2) مدارس عربیہ وجامعات میں باہمی اتحادوربط پیداکرنیکی کوشش اوران کومنظم کرنا۔

(3) مروجہ نصاب تعلیم میں جدیددینی تقاضوں کے مطابق مناسب وموزوں تصرف کرنااورحسب ضرورت کتب طبع کرانا۔

(4) وہ مدارس وجامعات جواس وفاق سے الحاق کریں ان میں نصاب تعلیم ‘ نظام تعلیم اورامتحانات میں باقاعدگی ‘ یکجہتی اورہم آہنگی پیداکرنا۔

(5) جدیدعصریت قاضوں کے مطابق تعلیمات اسلامیہ کی ترویج اورنشرواشاعت اوراہم موضوعات پرمستنداورتحقیقی کتابیں تالیف وتصنیف کرانا۔

(6) مدارس دینیہ وجامعات کے تحفظ وترقی اورمعیارتعلیم کوبلندکرنے کیلئے صحیح اورموثرذرائع اختیارکرنا۔

(7) تربیت المعلمین والمعلمات کاموثرومناسب انتظام کرنا۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ تعلیمی مقصد کے لیے قائم یہ ادارے کب سیاست میں اہم ہوئے؟عام طور پر1979ء کو اس حوالے سے تبدیلی کا سال قرار دیا جاتا ہے جب پاکستان نے افغان جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔یہ کہا گیا کہ اس کے بعد مدارس کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ 11/9 کے بعد عالمی سطح پر یہ مقدمہ مستحکم ہو گیا کہ مغرب ، بالخصوص امریکہ کے خلاف نفرت اور انتہاپسندی کی جو فضا ہے، اس کا ماخذ دینی مدارس ہیں۔ پھر یہ تاثر بھی دیا گیا کہ جیسے پورا پاکستانی سماج دینی مدارس کے دیے گئے بیانیہ کی گرفت میں ہے۔ اس دور میں اگرچہ اس حوالے سے بہت کتابیں لکھی گئیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان میں جن باتوں کو بطور حقائق بیان کیا گیا، وہ قابل تصدیق(verifiable) نہیں تھیں۔ ایسے ایسے مبالغہ آمیز دعوے سامنے آئے کہ پاکستانی معاشرے کے کسی واقف حال کے لیے یقین کرنا مشکل ہو گیا۔مثال کے طور پرجولائی 2002ء میں ‘انٹرنیشنل کرائسس گروپ’ کی ایک رپورٹ سا منے آئی جس میں یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ہر تیسرابچہ مدرسے میں داخل کیا جا تا ہے(4)۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق،حقیقت یہ ہے کہ مدرسے میں داخلہ لینے والے طالب علموں کی تعداد، کل تعداد کا محض.3 فی صد ہے۔طاہر اندرابی اور دیگر محققین نے اپنے ایک مشترکہ تحقیقی مقالے میں ایسی بہت سی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔آج تک ان مطالعات کے اعداد و شمار بطور حوالہ استعمال ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔1979 کے بعد ،یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں مدارس کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ 2012 میں اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور کے سکالرزکی ایک اجتماعی تحقیق سامنے آئی۔ اس کے مطابق جب پاکستان بنا، یہاں مدارس کی تعداد 245 تھی۔ 2011 تک یہ تعداد 50000تک پہنچ چکی تھی۔

وفاق المدارس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں دیو بندی مدارس و جامعات کی تعداد20560 ہے(5)۔ یہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی تعداد 25لاکھ 10ہزار 482 ہے۔جو اساتذہ ان مدارس میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں،ان کی تعداد1 لاکھ 21 ہزار 879 ہے۔تاہم ہم جانتے ہیں کہ غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جو خواتین عالمات وفاق المدارس کے نظام سے فارغ ہوچکیں ان کی تعداد1لاکھ 72 ہزار 950ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تعداد مردعلما سے زیادہ ہے۔یہ امر ایک الگ تحقیق کا متقاضی ہے کہ خواتین عالمات نے کس طرح سماج پر اپنے اثرات مرتب کیے۔یہاں یہ حوالہ اہم ہو گا کہ اسلام آباد میں جامعہ حفصہ نے لال مسجد کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بطور ماں،وہ ایک خاندان کے فکری رحجانات پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ابھی تک اس نوعیت کا کوئی تحقیقی مطالعہ سامنے نہیں آیا جوعالمات کے سماجی کردار کو متعین کرتا ہو۔‘الہدیٰ’ جیسے اداروں کو تو موضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے مگر دینی مدارس کی فارغ التحصیل عالمات کو نہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ1979ء کے بعد جب جہادِ افغانستان کا آغاز ہوا، مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن یہ دعویٰ محلِ نظر ہے کہ یہی وہ موقع ہے جب مدارس کے سماجی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی مدارس ہماری سیاسی و سماجی فضا کو متاثر کرتے رہیں۔تاہم یہ معاملہ بڑی حد تک دیوبندی مدارس کے ساتھ خاص رہا ہے۔مسلک دیوبند سے وابستہ شخصیات بر صغیر میں برپا ہونے والی ہر سیاسی و عسکری تحریک کا حصہ رہی ہیں۔‘ریشمی رومال’تحریک تو منسوب ہی مولانا محمود حسن سے ہے جو دارالعلوم دیوبندکے صدر مدرس تھے۔جمعیت علمائے ہند کا کردار بھی بر صغیر کی تحریکِ آزادی میں بہت اہم ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم کے حق میں بھی دیوبندی علما اپنا کردار ادا کرتے دکھائے دیتے ہیں اور اس کے خلاف بھی۔

پاکستان بننے کے بعد،مسلکِ دیوبند سے وابستہ شخصیات نے انفرادی سطح پرمو ثر سیاسی کردار ادا کیا۔تاہم مدارس کو فی الجملہ سیاسی عمل سے دور رکھا گیا۔جمعیت علمائے اسلام کے فورم سے اہلِ دیوبند نے سیاسی جدو جہد کی لیکن اس میں ہمیں مدارس صفِ اوّل میں دکھائی نہیں دیتے۔تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مدارس کی سماجی قوت کو بالواسطہ طور پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔مو لانا فضل الرحمٰن سے پہلے،اس جماعت کی قیادت جن ہاتھوں میں رہی،ان کا تشخص علمی تھا۔مثال کے طور پر مو لا نا مفتی محمود صوبہ سرحد(خیبر پختون خواہ) کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے، ایک مدرسے میں مدارس تھے۔بطورمدرس ،ان کے کمرہ جماعت میں دیے گئے درسِ حدیث شائع ہوچکے ہیں۔مدارس کی اس سماجی قوت کے سیاسی استعمال کو مو لانا فضل الرحمٰن نے ایک سائنس بنا دیا۔وہ مزاجاً ایک سیاست دان ہیں۔9/11کے پس منظر میں جب مدارس پر دباؤبڑھاتو انہوں نے بہت مہارت کے ساتھ مدارس کے نظام سے سیاسی اثرو رسوخ کشید کیا اور قومی وبین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت کو منوایا۔

اس سے پہلے 1996ء میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی تویہ مدارس کے تاریخی سفر میں ایک نیا سنگِ میل تھا۔ یہ مشہور ہوا کہ یہ طالبان دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طالب علم ہیں اور اس کے مہتمم مو لانا سمیع الحق دراصل ‘پدرِ طالبان’ ہیں تواس سے دینی مدارس کے طلبا میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا۔مدارس کے ذمہ داران نے سوچا کہ جو کام افغانستان میں ہوا،وہ پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہاں ایک امر مانع تھا کہ کسی گروہ کا حقِ اقتدار عوام کی تائید سے مشروط ہے۔پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں بھی سیاسی جد جہد ہی کی قائل ہیں۔اس ولولے میں بعض لوگوں نے جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیا اور عسکری جد وجہد کا راستہ اپنایا۔مو لا نا سمیع الحق جیسے علما نے اگرچہ ان کا ساتھ نہیں دیا لیکن ا ن سے رابطہ رکھا اور ایک حد تک ان کا مقدمہ بھی پیش کیا۔پاکستانی ریاست نے جب ان عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو ان کی طرف سے مو لا نا سمیع الحق ہی ضامن بنے۔مولانا سمیع الحق کا یہ کردار عالمی سطح پر ان کی شناخت کا ایک حصہ ہے(6)۔

دیگر مسالک میں ابھی تک مدارس کا سیاسی کردار اتنا توانا نہیں ہے۔ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد،بعض لوگوں کے نزدیک اس بات کاامکان پیدا ہو گیا ہے کہ بریلوی مسلک کے مدارس کو سیاسی اہداف کی بنیاد بنایا جائے۔تاہم ممتاز قادری کے اقدام پر مسلک کا داخلی اختلاف اس راہ میں مانع ہو سکتاہے۔ بریلوی مسلک کی سیاست مو لا نا شاہ احمد نورانی کے بعد موثر نہیں رہی۔اس وجہ سے بھی یہ امکان کسی سیاسی حقیقیت میں ڈھلتا دکھائی نہیں دیتا۔

9/11 کے بعد مدارس، ہمارے سیاسی ماحول (Discourse) کا حصہ ہیں۔اب اس سماج کی سیاسی و سماجی تشکیل میں ان کے کردار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔

حوالہ جات

-1 تعلیمی جائزے کے حوالے سے مو لانا مودودی کی کتاب’’تعلیمات‘‘ کا ذکر کیا جا سکتاہے۔(لاہور،اسلامک پبلیکیشنز)

-2 تفصیل کے لیے دیکھیے:Metcalf, Barbara Dely, Islamic Revival in British India:Deoband1860۔1900, Karachi, Royal Book Company,1982

-3 احمد، ممتاز،دینی مدارس:روایت اور تجدید،اسلام آباد،ایمل مطبوعات2012،ص 80

4- http://www.crisisgroup.org/~/media/Files/asia/south۔asia/ pakistan/Pakistan%20Madrasas%20Extremism%20And%20 The%20Military.pdf

رپورٹ کے مرتبین کو بعد میں اس کا اندازہ ہوا اور2005 میں اس غلطی کا اعتراف کر لیا گیا۔

5- http://www.hks.harvard.edu/FS/akhwaja/papers/madrassa _CER _dec05.pdf

-6 تفصیل کے لیے دیکھیے,Emal Publications,Islamabad,2015:Haq Samiul, Afghan Talban; War of Ideology