working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

فرقہ واریت اور مدارس

ثاقب اکبر

ثاقب اکبر ناموعالم دین ،محقق اور البصیرہ ٹرسٹ اسلام آباد کے چیئرمین ہیں ۔اسلام ، تاریخ ، تفسیر اور سیرت پر آپ نے کئی کتب مرتب کر رکھی ہیں ۔متعدد علمی و ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں ۔ ان کا یہ مضمون ان روایات کا جائزہ لیتا ہے جن کے تحت مدارس کو ہر فرقہ اپنے اپنے مسلک کے ایسے پراپیگنڈے کے لئے استعمال کر رہا ہے جس نے پاکستان میں سماجی ہم آہنگی کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔

پاکستان کے دینی مدارس کے حوالے سے مطالعے کے کئی اہم پہلو ہیں ہمارے پیش نظر سطور میں ان مدارس کے ذریعے سماج کی جس انداز سے تشکیل ہو رہی ہے اس پر مختصر بات کریں گے اور اس سے اخذ شدہ نتائج کی روشنی میں ایسی تجاویز تک پہنچا جا سکتا ہے جن سے ایک مطلوب مثبت اور کمال پذیر معاشرہ تشکیل پا سکے۔

پاکستان میں اس وقت پانچ طرح کے دینی مدارس موجود ہیں جن کی نمائندگی مندرجہ ذیل پانچ تنظیمیں کرتی ہیں۔

۱۔ وفاق المدارس العربیہ(دیوبندی مکتب فکر کے مدارس کی تنظیم)

۲۔ تنظیم المدارس اہل سنت (بریلوی مکتب فکر کے مدارس کی تنظیم)

۳۔ رابطۃ المدارس العربیہ(جماعت اسلامی سے وابستہ مدارس کی تنظیم)

۴۔ وفاق المدارس السلفیہ (اہل حدیث مدارس کی تنظیم)

۵۔ وفاق المدارس الشیعہ (شیعہ مدارس کی تنظیم)

ان مدارس کی تعداد کم و بیش 35ہزار ہے جن میں 30لاکھ سے زیادہ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے تقریباً 25ہزار مدارس وفاق المدارس العربیہ سے وابستہ ہیں۔ باقی مدارس دیگر مختلف تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ البتہ مختلف مکاتب فکر کے ایسے کئی سو مدارس موجود ہیں جو ان میں سے کسی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں۔ حفظ و تجوید کے مدارس نیز ابتدائی سطح کے مکتب اور مدرسے ان کے علاوہ ہیں۔

علاوہ ازیں وفاقی سطح پر ایک مدرسہ بورڈ قائم ہے۔ بورڈ کے چیئرمین کے مطابق اس بورڈ سے الحاق کے لیے 650 مدارس نے درخواست دے رکھی ہے۔ بعض صوبائی حکومتیں بھی صوبائی سطح کے مدرسہ بورڈ قائم کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہیں۔ البتہ سرکاری سطح پر ایسے تمام اقدامات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔

مذہبی مدارس چونکہ فرقے کی بنیاد پر قائم ہیں اس لیے ان کے ہاں نصاب کے بعض اجزا کا مختلف ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس کے علاوہ عقائد و کلام کی ایسی کتب بھی شامل نصاب ہیں جن میں دیگر مکاتب فکر کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ جب یہ تنقید مذہبی زبان اختیار کرتی ہے تو مخالف کو منحرف، گمراہ،بدعتی، باطل، کافر وغیرہ جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ اس سے طالب علم کے ذہن کی ساخت دیگر مسالک کے بارے میں ایک خاص طرح کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

دیگر مسالک کے بارے میں مدرسے کا استاد جو تشریحات پیش کرتا ہے اس کے لیے متعلقہ مسلک سے کسی وضاحت یا تاویل کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ غالب دہلوی نے اگرچہ کسی اور پہلو سے بات کی ہے لیکن اس موقع پر ان کا یہ شعر یاد آتا ہے:

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟

مسئلہ فقط نصابی اجزا کے اختلافی پہلوؤں کا نہیں بلکہ ایک خاص مکتب فکر سے متعلق مدرسے کی فضا ایک خاص طرح کے ذہن کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار مسلسل ادا کررہی ہوتی ہے۔ اُسی مسلک کے بڑے علما اور خطیب مدرسے کا دورہ کرتے ہیں اور طلبہ سے خطاب کرتے ہیں۔ اپنے مسلک کی خصوصیات اور امتیازات کے ساتھ ساتھ دیگر مسالک کی بزعم خویش کمزوریوں اور خامیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ طالب علم کی ذہنی فضا عام طور پر خود اسلامی مکاتب فکر کے دیگر گروہوں کے مقابلے میں پروان چڑھتی ہے جب کہ دیگر ادیان کے بارے میں ان کا رویہ بغیر کسی مطالعہ کے ہی مخالفانہ ہوتا ہے۔

بعض مدارس میں دیگر ادیان اور مخالف فرقوں کے رد کے عنوان سے خصوصی کورسز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جن میں سے بعض کا دورانیہ دو برس تک کا ہوتا ہے۔ اس کے لیے خصوصی سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ پریکٹیکل کے لیے فرضی مناظروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعد میں بیشتر شعلہ بیان خطباء اور مناظر انہی کورسزکے فارغ التحصیلان ہوتے ہیں۔ مناظرے کی ایک معروف کتاب’’ رشیدیہ‘‘ کا ذکر کرنا یہاں مناسب ہوگا جس میں سکھایا جاتا ہے کہ مناظرے میں مجیب(جواب دینے والا اور دفاع کرنے والا) نہیں بننا چاہیے بلکہ سائل(سوال کرنے والا اور اقدام کرنے والا) بننا چاہیے کیونکہ یوں فریق مخالف کو باآسانی زچ کیا جاسکتا ہے۔

ان مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب عام طور پر کہنہ اور قدیمی ہے۔ کتابوں کی عبارتیں بھی قدیمی اور مشکل انداز کی حامل ہیں جن کے بارے میں عموماً خود علمائے مذاہب یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ لکھنے والوں نے ان میں اپنی علمی لیاقت اور قابلیت کامظاہرہ کیا ہے۔ ورنہ جس علم پر مبنی کتب پڑھائی جاتی ہیں ان کی تدریس کا اور ان کے مطالب کی تفہیم کا آسان راستہ اور پیرایہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ دقیق اور عام طور پر لاینحل عبارتوں میں طلبہ کا ذہن الجھا رہتا ہے۔ کتابوں میں دی گئی معلومات اگر انھیں معلومات کہا جائے تو ان میں سے بھی بہت سی عصری معلومات سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔ دین و مذہب کے بارے میں جدید سوالات کے جوابات کے لیے طلبہ کا ذہن تیار نہیں کیا جاتا۔ آج کی دنیا کے بارے میں معلومات دینی طلبہ کو بہم نہیں پہنچائی جاتیں۔

پاکستان میں رائج دینی مدارس کا نصاب بیشتر انگریزوں کے زمانے سے بدستور چلا آرہا ہے۔ اس نصاب کو درس نظامی کہتے ہیں۔ یہ نصاب برطانوی حکومت کے قائم کردہ جدید تعلیمی اداروں میں رائج ہونے والے نصاب کے مقابلے میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس میں زیادہ تر عربی زبان اور مذہبی مسائل کی تعلیم پر مشتمل قدیم کتب شامل کی گئی ہیں۔ مدارس کی تشکیل و تدریس مغربی اور جدید تعلیم کے مقابلے میں روایتی مذہبی تعلیم کے تحفظ کے جذبے سے تھی اس لیے اس میں سائنسی اور عصری مضامین شامل نہ تھے جبکہ انگریزوں کی آمد سے پہلے قدیم مدارس میں یہ مضامین بھی شامل رہے تھے۔ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد بھی یہ مدارس اپنے نصاب میں خاطر خواہ تبدیلی نہ لا سکے بلکہ تعلیم و تدریس کے نئے اسلوب اور نئے تجربات کی روشنی میں اپنے مضامین پر مبنی جدید کتب بھی ترتیب نہ دے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی مدارس کے فارغ التحصیلان اور جدید تعلیم یافتہ افراد کے مابین فکری و عملی اعتبار سے فاصلے بڑھتے چلے گئے۔

مذہبی نصاب کی خامیوں اور کمیوں کو دور کرنے کے لیے معاشرے کے مختلف طبقوں کی طرف سے اظہار خیال ہوتا رہا۔ مختلف ادوار میں حکومتوں نے بھی اس کمی کا احساس کیا اور مذہبی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی کوششیں کیں۔ خود بہت سے مذہبی علما نے بھی اس کا احساس کیا ، اس پر اظہار خیال کیا اور اس کے بارے میں مقالے لکھے لیکن ان سب کوششوں کا اثر بہت سست رفتاری سے دیکھنے میں آیا۔ مدارس کی طرف سے اکثر ایسی کوششوں کی مزاحمت کی گئی اور انہیں اپنی آزادی کے سلب کرنے کی کوششوں کے مترادف قراردیا گیا۔ البتہ خود بہت سے علماء نے اپنے مدارس میں رائج نصاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان میں موجود کمیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اگرچہ یہ نشاندہی کرتے ہوئے وہ بہت محتاط رہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ابن الحسن عباسی اپنی کتاب ’’دینی مدارس‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’مذکورہ خوبیوں کے باوصف اس نصاب تعلیم میں کچھ خامیاں بھی ہیں اور عام علمی حلقوں میں اس بات پر پھر ایک بار زور دیا جارہا ہے کہ موجودہ نصاب میں نئے تقاضوں، عصری مزاج اور ضرورتوں کے پیش نظر مزید تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نصاب میں تبدیلیوں کی یہ آواز بالکل بے جا بھی نہیں اور مختلف حضرات اور حلقوں کی طرف سے پیش کی گئی نئی تجاویز اور تبدیلیوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔(1)

ابن الحسن عباسی نے مدارس کے نصاب کے مختلف اجزا پر اظہار خیال کیا ہے اور اس کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کی ہیں۔ انھوں نے بعض اہم علما کے اقوال بھی اپنے نظریے کی تائید میں پیش کیے ہیں۔ چنانچہ مولانا محمد یوسف بنوری کی رائے کو وہ ایک جامع اور جاندار تبصرے کے عنوان سے نقل کرتے ہیں۔ مولانا یوسف بنوری کے چند جملے درج ذیل ہیں:

عربی مدارس کے نصاب تعلیم کی تجدید و ترمیم و اصلاح کی ضرورت ہے، اس لیے نہیں کہ وہ اپنے زمانے میں کافی نہ تھا یا صحیح استعمال پیدا کرنے سے قاصر تھا، بلکہ علوم جدیدہ یا معلومات عامہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے، وقت کے تقاضے بدل گئے، طبیعتوں کے سانچے بدل گئے، اذواق و افکار میں فرق آگیا۔ (2)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کے مدارس سے آہستہ آہستہ معقولات کے اجزا کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ فلسفے کی مخالفت ایک عرصے سے جاری ہے۔ اب علم منطق کی کتب کی مخالفت شروع ہو چکی ہے۔ فلسفے کی کتب تقریباً ناپید ہو گئی ہیں۔ منطق کی جو کتابیں رائج ہیں انھیں بھی ختم کرنے کے لیے آواز اٹھائی جارہی ہے۔ چنانچہ ابن الحسن عباسی لکھتے ہیں:

دینی مدارس کے نصاب کی دوسری خامی یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس نصاب میں عمر کا ایک معتدبہ حصہ ان علوم میں لگایا جاتا ہے جن کی حیثیت عصر حاضر میں آثار قدیمہ سے زیادہ نہیں، اس سلسلے میں منطق، فلسفہ، قدیم علم ہیئت اور قدیم علم کلام کی بعض کتابوں کا نام لیا جاتا ہے۔(3)

ابن الحسن عباسی نے منطق کے خلاف ابن تیمیہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:

میں نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ مامون الرشید عباسی سے در گزر فرمائیں گے، میرا خیال ہے اس کو اس بات کی ضرور سزا ملے گی کہ اس نے امت مسلمہ کو منطق و فلسفے میں مبتلا کیا۔(4)

ان سطور کے حوالے سے ہمارے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک طرف کہنہ اور قدیم کتب اور ازکاررفتہ افکارکی تدریس اور دوسری طرف عقلی اور فکری استعداد میں اضافہ کرنے والے علوم کی تدریس کا رفتہ رفتہ خاتمہ اور جدید علوم اور مختلف حوالوں سے علمی پیش رفت سے بے خبری نیز تدریس اورمطالعہ کے قدیم طریقے یہ سب مل کر کیسا انسان ڈھالتے ہوں گے اور پھر وہ انسان اگر ایک خاص فرقے کے ساتھ بھی شدید گہری نظری اور جذباتی وابستگی بھی رکھتا ہو تو وہ معاشرے کو کس طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

ان مدارس سے فارغ التحصیلان دیگر شعبوں کے علاوہ مساجد کی امامت کا بھی رخ کرتے ہیں۔ یہ مسجدیں بھی فرقوں میں بٹتی چلی جاتی ہیں ہر محلے ہر علاقے ہر گاؤں میں مختلف مسالک کے فارغ التحصیلان یا تارک التحصیلان اپنے فرقے کے افراد کو تلاش کرتے ہیں اور ان کی قوت کو مجتمع کرتے ہیں اور پھر ایک نئی مسجد بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی موجودہ مسجد میں اپنے لیے جگہ تلاش کرتے ہیں۔ انہی مسجدوں سے ان کی شعلہ بیانیاں رنگ لاتی ہیں اور معاشرہ تقسیم در تقسیم میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے یا پہلے سے موجود تقسیم مزید گہری ہو جاتی ہے۔

اس موضوع پر مزید بھی غوروخوض کی ضرورت ہے اور مدارس کے حوالے سے کئی دیگر اہم پہلو بھی ہیں جن کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔

حوالہ جات

1۔ ابن الحسن عباسی:دینی مدارس(کراچی، مکتبہ عمر فاروق،1426ھ)ص 67و77

2۔ ابن الحسن عباسی:دینی مدارس،ص93 بحوالہ میری علمی و مطالعاتی زندگی۔ص94و103

3۔ ابن الحسن عباسی:دینی مدارس،ص88و98

4۔ ابن الحسن عباسی:دینی مدارس،ص90 بحوالہ کشف الظنون،