working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عامر طاسین سے گفتگو
مدارس کو مراعات دیئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں

انٹرویو: طارق مسعود

پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈکا آرڈیننس2001ء میں منظور ہوا ‘ جس کا مقصد ماڈل دینی مدارس کے قیام کا عمل لانا تھا ‘ اورپا کستان کے دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ان کی رجسٹریشن کا عمل بھی مکمل کرنا تھا ‘ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ اسلامی نظام تعلیم کو جدید نظام تعلیم سے ہم آہنگ کیا جاسکے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی ترجیحات بھی بدلتی گئیں ۔وفاقی محتسب کے ماہ جولائی ۲۰۱۵ کے ایک فیصلے مطابق ۱۴ سال سے غیر فعال ادارہ کی فعالی کے لیے وزارت مذہبی امور کو سختی کے ساتھ پابند کیا ہے کہ وہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے مقاصد کی تکمیل میں مکمل تعاون کرے اوردینی تعلیم کے معیار کو قائم رکھنے کے لیے بہتر اور سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے پہلی مرتبہ اس ادارے کے باقاعدہ چیئر مین کے انتخاب کے عمل کے لیے کمیٹی کا قیام عمل میں لائے اور اس طرح سے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر قابلیت کی بنیاد پر سلیکشن کمیٹی اور وزیر اعظم پاکستان کی منظوری سے تجربہ کارنوجوان چیئر مین ڈاکٹر عامر طاسین کی صورت میں ملا ہے۔ ادارے کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر عامر طاسین کی تقرری کے بعد ادارے میں بہتری کے آثار کچھ اس طرح نمایاں ہوئے کہ انہوں نے گیارہ سال بعد اپنے بورڈ کا اجلاس بلایا جس کی صدارت وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کی ۔مگر چیئر مین صاحب کوگزشتہ ادوار کی عدم دلچسپی سے منجمد ہونے والے معاملات کو بہتر کرنے میں ابھی بھی مسائل کا سامناہے ۔ اس وقت اس ادارے کے پیش نظر کیا چلنجز ہیں اس حوالے سے ہم نے گزشتہ دنوں پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عامر طاسین کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کے تفصیل سوالاً جواباً ذیل میں رقم کی جارہی ہے ۔

تجزیات: ہمارے ہاں جدید تعلیم اور مدارس کے حوالے سے تضادات ہمیشہ زیر بحث رہتے ہیں اس صورتحال کو ختم کرنے اور مدارس کو عصری تقاضوں میں لانے کے لئے حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے جارے ہیں ؟بالخصوص نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں کیا صورتحال درپیش ہے ؟

ڈاکٹر عامرطاسین : دینی مدارس میں جو نظام تعلیم اور نصاب وضع کیا گیا ہے اس کی ایک پوری تاریخ ہے میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں رائج دینی نصاب کا ہمیں جائزہ لینا چاہیے وہ یہ کہ نصاب میں وقت اور حالات کے مطابق جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں نصاب میں کیا تبدیلی لانی چاہیے ۔اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ہر پانچ یا دس سال بعد نصاب پر نظر ثانی کرتے ہیں اس پر نظر ثانی اس طرح کی جاتی ہے کہ اگر طلبہ کا ذہن اس نصاب یا اس کے کسی حصے کو قبول نہیں کر رہا تو اس کی وجہ تلاش کی جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے مدارس میں جو نصاب تعلیم رائج ہے اس میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔میں کہتا ہوں کہ ہمارے مدارس میں رائج نصاب تعلیم کسی طور پر عصری تقاضوں کو پور ا نہیں کر رہا ۔ ہمارے علما نے ایک خاص فکر اور سوچ کے مطابق اپنے اپنے مسالک کے تناظر میں جو نصاب بنایا وہ محض ایک مکتب یا مسلک کی نمائندگی کرتا ہے جس کے باعث میں معاشرے میں فکری انتشار کا پیدا ہونا ایک یقینی عمل ہے۔اس فکر ی انتشار کو ختم کرنے کے لیے یکساں نصاب تعلیم وقت کی ضرورت ہے جس پر پاکستان مدرسہ بورڈ کام کررہا ہے ۔

تجزیات: ہمارے مدارس کے نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور اس پر کیا کام ہو رہا ہے ۔

ڈاکٹر عامرطاسین :اس حوالے سے پہلی ذمہ داری تو دینی مدارس کی ہے جنہیں اپنا نصاب تعلیم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے ۔دینی مدارس کے تحت وفاق یا بورڈز کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے نصاب کو بہتر بنانے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔میں نصاب میں مکمل تبدیلی کی ہرگزبات نہیں کر رہا ۔ دراصل مدارس میں پڑھائے جانے والے درس نظامی کے نصاب کے ساتھ عصری تعلیم کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے میں سمجھتا ہوں کہ اب مدارس میں اس بات پر توجہ دی جارہی ہے۔ ہمارے علماء نصاب کو نہ صرف بہتر کرنے کی کوشش میں لگے ہیں اوربتدریج اس میں تبدیلی کر رہے ہیں ۔تاہم یہ انفرادی سطح پر ہور ہا ہے جب کہ اس پر اجتماعی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

تجزیات: جیسا کہ آپ نے کہا کہ نصاب بہتر بنانے کے لیے بعض ادارے انفرادی طور پر کام کررہے ہیں اس حوالے سے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اپنی ذمہ داریاں کس طرح پوری کر رہا ہے ؟

ڈاکٹر عامرطاسین : دراصل پاکستان مدارس ایجوکیشن بورڈ بنانے کا مقصد ہی یہی تھا جو ادارے ہمارے ساتھ الحاق کریں گے ان کو ہم سرکاری نصاب دیں گے ۔ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے ایک نصاب مرتب کیاتھا اس نصاب کو مدارس میں لاگو کرنا مقصود تھا لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ فعال نہیں رہالہٰذا مدارس نے اس کے ساتھ الحاق بھی نہیں کیا۔ یہ صرف اور صرف اپنے تین ماڈل مدارس تک ہی محدود رہا۔ ہم درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصری نظام کو بھی رائج کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ بہت عرصہ تک فعال نہیں رہا اور میرے آنے کے بعد ڈیڑھ سال کے عرصے میں جہاں بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے وہاں بعض شدید مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا دراصل پاکستان مدارسہ ایجوکیشن بورڈ کے مقاصد میں تمام پاکستان کے مدارس کو شامل ہونے کی دعوت دینا ہے اور ان کو بہتر نصاب مہیا کرنا بھی ہے ۔ میرے خیال میں چودہ سال پہلے بورڈ کا جو نصاب مرتب کیا گیا تھا اس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔جس کی میں نے ابتدا کر دی ہے ۔ دراصل یہ بورڈ عملی طور پر معطل ہو چکا تھا اور گیارہ سال تک اس کا اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا۔ میں نے بورڈ کے باقاعدہ اجلاس کے انعقاد کا اہتمام کیا اور اس کی صدارت کے لیے وفاقی مذہبی امور کو مدعو کیا ۔ہمارا کامیاب اجلاس ہو ا اور اس میں ہم نے منظوری لی کہ پہلے مرحلے میں پانچ سو مدارس کا الحاق کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں اکیڈمک کونسل کی تشکیل نو کریں گے ۔ہم اکیڈمک کونسل کے ذریعے اپنے نصاب کا بھی ازسر نوجائزہ لیں گے اور تجاویز مرتب کریں گے کہ نصاب کو کیسے مزید بہتر بنایا جا سکتاہے۔اس ماہ کے آخر میں بورڈ کی ایک میٹنگ ہو رہی ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ سرکار ی ادارہ سات سو امدارس کا الحاق کرنے جا رہا ہے ۔ ہمیں رجسٹریشن کے لیے درخواستیں موصول ہو چکی ہیں ہم اپنے بورڈ سے منظور ی لے کر پہلے مرحلے میں ان سات سو مدارس کو رجسٹرڈ کریں گے اور نصاب دیں گے یہ ساری صورتحال بہتر ی کی طرف ایک شاندار پیش رفت ہے ۔

تجزیات:نصاب کو عصر حاضر سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آپ کو کس طرح کے چیلجز یا مشکلات کا سامنا ہے ۔

ڈاکٹر عامرطاسین : میں نے کسی بھی قسم کے تنازعہ سے بچنے کے لیے بھر پور کوشش کی ہے کہ اپنے بورڈ میں تمام مکاتب فکر کے مدارس کو لے کر آئیں اب لازمی بات ہے کہ ہم نے ان کو معتدل اور مناسب نصاب دینا ہے اس حوالے سے بے شمار مشکلات ہیں لیکن کوئی بات نا ممکن نہیں۔آنے والے دنوں میں ہم اپنے اکیڈمک کونسل کے اجلاس میں بہت سے اہم فیصلے کریں گے ۔ ہم نے ایک فارمیٹ تیارکر لیا ہے ۔ جس میں نصاب کی بہتر ی اور دیگر مختلف آپشنز پر غور کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے ۔ہم تمام مسالک کے علما ء کو اعتماد میں لے کر اعتدال پسند رویوں کی حامل تحریروں کونصاب کا حصہ بنائیں گے ۔ اکیڈمک کونسل اس معاملے میں بااختیار ہو گی۔ہماری اکیڈمک کونس میں علماء ماہرین تعلیم اور سائنسدان بھی شامل ہوں گے۔

تجزیات:اس وقت مختلف مدارس میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے کیا آ پ کو سرکاری طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ آپ ان کا نصاب چیک کر سکیں ؟

ڈاکٹر عامرطاسین : مدرسہ بورڈ کو اس حوالے سے کوئی باقاعد ہ اختیار حاصل نہیں مدرسہ بورڈ کے اختیارات اس بات پر محدود ہیں کہ جب تک ہمارے ساتھ کوئی الحاق نہیں کرے گا ہم اسے چیک نہیں کر سکتے ۔ اصولی طور پر تو ہم ریگولیٹری باڈی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس ادارے میں کام نہیں ہوا جس کی بڑی مثال گیارہ برس تک بورڈ کی میٹنگ کا نہ ہونا ہے ۔ مجھ سے پہلے جتنے بھی چیئرمین آئے انہوں نے بورڈ کی میٹنگ تک بلانا گوارا نہ کی جس کے باعث ہم مدارس پر اپنا کنڑول قائم کرنے میں ناکام رہے وفاقی محتسب نے بھی اس ادارے کو غیر فعال کرنے کی ذمہ داری وفاقی وزارت مذہبی امور پر عائد کی تھی ۔تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور ہم بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔

تجزیات: تمام مسلم ممالک میں دینی نصاب پڑھایا جاتا ہے ان ممالک کے مقابلے پر ہم کہاں کھڑ ے ہیں؟

ڈاکٹر عامرطاسین : میرا ذاتی خیال ہے کہ نصاب سے زیادہ ہمارے رویوں کے اثرات ہمارے معاشرے پر زیادہ مرتب ہو رہے ہیں موجود نصاب کو بنے ڈیڑھ سو برس ہوئے ہیں جب کہ ہمارے رویے کچھ برس پہلے تک انتہا پسندانہ نہیں تھے اور مزاج میں شدت پسندی بھی نہیں تھی آج ہمارے ہاں جو مسالک کی جنگ ہے اس کا ذمہ دار کلی طور پر نصاب کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں نصاب کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں پر بھی نظرثانی کرنا ہو گی اگر ہم اپنے مزاج سے نفرت کا خاتمہ کردیں تو پھر دنیا میں ہمارا ثانی کوئی نہیں۔

تجزیات: ہمارے مدارس کے حوالے سے سب سے زیادہ کمی کس چیز کی محسوس کی جاتی ہے اور اس کمی کے ازالے کے لیے کس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔

ڈاکٹر عامرطاسین : ویسے تو ہمیں مدارس کے حوالے سے مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے لیکن مدارس کے طلباء کے حوالے سے فیوچر پلاننگ ایسا موضوع ہے جس پر کبھی کوئی کام نہیں کیا گیا۔ مدارس میں پڑھنے والے طلبا کی ہر گز رہنمائی نہیں کی جاتی کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد حصول روزگار کے لیے کس طرف جائیں گے ۔ اس حوالے میری تجویز یہ ہے کہ ملک میں اسلامک ایجوکیشن کمیشن کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے جس کے تحت کیرئیر کونسلنگ کا اہتمام ہو اور مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کی رہنمائی کامناسب بندوبست ہو۔اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ وہ اخلاص کے ساتھ آگے بڑھے میرا خیال یہ ہے کہ جب تک حکومت مدارس کو سہولیات مہیا نہیں کرے گی اس وقت تک مثبت تبدیلی ممکن نہیں ۔ہمیں مدارس کے نصاب کو بہرحال عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا لیکن مدارس کو مراعات دیئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔

تجزیات:کچھ عرصہ قبل یہ بات سننے میں آئی کہ آپ اپنے بورڈ کا نام تبدیل کر کے پاکستان اسلامک ایجوکیشن کمشن رکھنا چاہتے ہیں، آپ کے ذہن میں یہ خیال کیسے اور کیوں پیدا ہوا کہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا نام تبدیل کرنے سے دینی مدارس میں بہتری آجائے گی؟

ڈاکٹر عامر طاسین: یہ خیال در حقیقت اس بنیاد پر ہے کہ ۲۰۰۱ میں جب مدرسہ بورڈ بنایا گیا تھاتو پہلے دن سے ہی اس کی مخالفت عروج پر تھی اور پاکستان کے خصوصی طور پر پانچ وفاق المدارس نے اس حکومتی بورڈ کے ساتھ ملنے سے انکار کیا ۔یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ گزشتہ ۱۴ سال میں غیر فعال ادارہ بن چکا تھا ،مقاصد پر خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکی۔اپنے مسائل بھی عروج پر تھے۔ بورڈ کے اجلاس بھی نہ بلائے جا سکے ۔ اور اس طرح کے بے شمار مسائل کو دیکھتے ہوئی یہی خیال ذہن میں پیدا ہوا کہ اس ادارے کی تشکیل نو کی جائے اور صرف نام ہی تبدیل نہ ہو بلکہ اختیارات بھی وسیع ہوں جو کہ ملکی مفاد عامہ کے پیش نظر دینی مدارس کے لیے بھی قابل قبول ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک نئے تخلیقی خیال کے ساتھ یہی تجویز پیش کی گئی کہ اس ادارے کا نام تبدیل کرکے پاکستان اسلامک ایجوکیشن کمیشن رکھا جائے جوکہ ادارہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن طرز کے اختیارات کا حامل ہو۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا ادارہ ہوگا کہ جو کہ پاکستان میں موجود تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کی فلاح اوران کو بہتر سہولت فراہم کرنے والا ادارہ ہواور ان کے مسائل کے حل میں معاون و مددگار ثابت ہوسکے گا اور اس حوالے سے باقاعدہ وزارت تعلیم پیشہ وارانہ و فنی امورنے وزارت مذہبی امور کے توسط سے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ میں ترمیم کے حوالے سے تجاویز مانگی تھیں جوکہ ارسال کی جا چکی ہیں۔انہوں نے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے بتایا کہ مدارس رجسٹریشن توایک مسئلہ ہے جو کہ وزارت داخلہ براہ راست دیکھ رہی ہے مگر اس کے بعد اصل کام تودینی مدارس کے نصاب کو بہتر بنانا ہے ۔ ہم اپنی جانب سے قومی نصاب کمیٹی کو پیشکش کریں گے کہ وہ اگر ہمارے اکیڈمک کونسل سے منظور شدہ نصاب کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیں تو ضرور تعاون کریں گے ۔ یہ ایک انتہائی ضروری عمل ہے کہ وقت کے ساتھ معاشرے میں مسائل بڑھتے ہیں ان کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے ہم ہر پانچ یا دس سال بعد اپنے نصاب کو بہتر سے بہتربنانے کی کوشش کریں یہی وجہ ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر اپنے منظور شدہ نصاب کی مزید بہتری کے لیے ۱۵ سال بعد پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی اکیڈمک کونسل کا اجلاس بلانے والے ہیں ۔

تجزیات: مدرسہ بورڈ کے مقاصد میں دینی مدارس کا آپ کے ساتھ الحاق کرنا تھا اس میں کہاں تک پیش رفت ہوئی ہے؟

ڈاکٹر عامرطاسین :مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے اشتہار دے کریہ سلسلہ پھر سے شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے ہمارے پاس پاکستان بھر کے مختلف مدارس کی اب تک 350سے زائددرخواستیں موصول ہو چکی ہیں ۔جن میں سے 119کو ہم نے منظور کر لیا ہے اور اسی طرح ہم ان تمام مدارس کی درخواستوں کو اپنے آئندہ بورڈ کے اجلاس میں پیش کریں گے مگر میں یہاں یہ بات ضرور بتانا چاہوں گاکہ پاکستان میں اب بھی ایسے ہزاروں مدارس ہیں جن کا پانچ وفاق المدارس سے کسی سے کوئی الحاق نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں اب ایسے میں ان مدارس کے پاس حکومتی بورڈ کا آپشن رہ جاتا ہے۔ہم یہی چاہتے ہیں کہ جو مدارس ہم سے ملنا چاہیں وہ بآسانی ہم سے رجوع کر سکتے ہیں اور مزید کہ آئندہ پانچ مسالک کے بورڈ کو جب سرکاری بورڈ کا درجہ دیا جائے گا تب انہیں بھی ہم سہولتیں فراہم کرنے والا ادارہ بنیں۔میں نے تو گزشتہ دنوں ترکی میں ہونے والی ایشائی سطح پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں بھی یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایشیاء کی سطح پر اسلامک ایجوکیشن کونسل بنائی جائے تاکہ یکساں نصاب کی تشکیل کے لیے کوششیں کی جا سکیں ۔ آخر میں چیئر مین ڈاکٹر عامر طاسین نے اپنے پیغام میں بتایا کہ ہم جب تک اپنی دینی تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ ان اکثریت غریب طلبہ و طالبات کے بہتر مستقبل کی فکر کرنے کے ساتھ مدارس کے اساتذہ کی تربیت نہیں کریں گے تب تک ہم دینی مدارس پر صرف تنقید ہی کرتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت اور دیگر متعلقہ ادارے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ملک میں بڑھتی فرقہ واریت اور انتہاء پسندی کے خاتمہ کے لیے نامور معزز علمائے کرام کو ساتھ لے کر چلیں تاکہ دینی مدارس میں اصلاحات کا عمل جاری رکھا جاسکے اور ساتھ ہی ان کے بہتر مستقبل کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ حکومتی جانب سے مستقل بنیادوں پر سہولت فراہم کرنے کی تدبیر بھی پیدا کرنی چاہیئے جیسا کہ تجویز میں اسلامک ایجوکیشن کمیشن کا نام رکھا گیا ہے ۔