working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

کوئی بنک مدرسے کا اکاؤنٹ ہی نہیں کھولتا ،باہر سے فنڈنگ کیسے آئے گی
علامہ نیاز حسین نقوی ، نائب صدر وفاق المدارس شیعہ سے انٹرویو

پاکستان میں شیعہ مدارس کی تعداد پانچ چھ سو کے لگ بھگ ہے اور ان میں 20 ہزار کے قریب طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ نیاز حسین نقوی سے ہونے والی گفتگو ذیل میں درج کی جا رہی ہے۔

تجزیات: حکومت مدارس کی رجسٹریشن کرانا چاہتی ہے تاکہ انھیں بھی اسی طرح ضابطوں میں لا یا جا سکے جس طرح دیگرتعلیمی ادارے ہیں۔اس حوالے سے آپ لوگ کیوں مخالفت کر رہے ہیں ؟

علامہ نیاز حسین نقوی:ہمارے مدارس تو پہلے سے ہی رجسٹرڈ ہیں بلکہ ہم تو سالانہ تجدید بھی کرواتے ہیں۔ اس سال انھوں نے نہ تو تجدید کی ہے اور نہ ہی ابھی تک کسی نئے مدرسے کو رجسٹر کیا ہے کیونکہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ابھی تک نیا قانون نہیں بنا جس کے تحت مدرسے رجسٹر ہونے ہیں۔

تجزیات: نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کے نصاب میں اصلاحات کی بات کی گئی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے آپ کی ملاقات وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی ہو چکی ہے۔پھر بھی اس حوالے سے حکومت اور مدارس کسی نقطے پر متفق نہیں ہو سکے اس کی کیا وجہ ہے ؟

علامہ نیاز حسین نقوی:ہم قرآن و حدیث اور تفسیر پڑھاتے ہیں۔ اب ہم تاریخ پاکستان جیسے مضامین

کا اضافہ کررہے ہیں۔ مزید اصلاحات کی کوئی تجویز آئے گی تو اس کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

تجزیات: کیا مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے کوئی سفارشات حکومت نے آپ کو دی ہوں یا آپ لوگوں کی جانب سے حکومت کو کوئی تجویز دی گئی ہے ؟

علامہ نیاز حسین نقوی:اس سلسلے میں ابھی تک حکومت کی جانب سے کچھ نہیں کہا گیا۔ انھوں نے ایک فارم بھیجا ہے جس پر ہماری تنظیم اتحاد المدارس کو کچھ تحفظات ہیں۔ ہم سے غیر ضروری معلومات مانگی جارہی ہیں۔ہماری بیویوں اور بچوں کا مدارس کے انتظام سے کیا لینا دینا ہے۔اس لئے ابھی تو یہ طے نہیں ہو سکا اس لئے بات آگے نہیں بڑھ رہی۔

تجزیات:مدارس کی بیرونی ممالک سے فنڈنگ اور آڈٹ کے حوالے سے بھی حکومت تحفظات کا شکار ہے ؟اس مسئلے کو کیسے سلجھایا جا سکتا ہے ؟

علامہ نیاز حسین نقوی:فنڈنگ کہا ں سے آرہی ہے حکومت نام بتائے اور اگر کوئی ملک دے رہاہے تو اس کا نام بھی لیا جائے۔ جب بنکوں میں ہمارا اکاؤنٹ ہی نہیں ہے تو باہر سے فنڈنگ کیسے آئے گی۔

تجزیات:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مدارس کو الگ الگ مسلکی بورڈوں کی بجائے ایک ہی بورڈ کے ماتحت ہونا چاہئے جس کو حکومت نے قائم بھی کر رکھا ہے مگر آپ لوگ وہاں رجسٹریشن نہیں کروا رہے ؟

علامہ نیاز حسین نقوی:حکومت نے جو بے وقعت سا بورڈ بنایا اس کی کہیں سے پزیرائی نہیں ہو سکی۔ 20 ہزار مدرسوں میں اس کے پاس چند سو رجسٹر ہوئے۔اس لئے یہ غیر ضروری مشق ہے۔

تجزیات:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مدارس انتہا پسندی کے فروغ میں کوئی کردار رکھتے ہیں ؟

علامہ نیاز حسین نقوی:ہمیں اس سے یکسر انکار نہیں۔جو مدارس اس میں ملوث ہیں ان کے نام حکومت سامنے لائے اور ان کے مسلک کے بارے میں قوم کو بتائے۔ہم ان کی مزمت کریں گے۔ہماری نظر میں تو ایسا نہیں ہے۔

تجزیات:مدارس کے موجودہ مسئلے کے حل کے لئے آپ کے ذہن میں کیا سفارشات ہیں ؟

علامہ نیاز حسین نقوی:ہمیں توسمجھ نہیں آتا کہ یہ مسئلہ ہے کیا ؟ جب بھی حکومت تبدیل ہوتی ہے وہ مدارس کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔پھر بھی اگر حکومت کے پا س مدارس کو بہتر بنانے کے حوالے سے کوئی سفارشات ہیں تو وہ ہم سے بات کرے۔لیکن حکومت ایسا نہیں کرتی بلکہ وہ مسئلہ بنا کر سیاست کرتی ہے۔