working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

قومی منظر نامہ

فرقہ واریت کا سد باب

صفدر سیال

نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم حصہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کا قلع قمع کیا جائے ،اس سلسلے میں ایک حکمت عملی وضع کرنی کی کوشش بھی کئی گئی اور اس کے لئے کچھ راہنما اصول بھی دیئے گئے مگر اس جانب پیش رفت کے لئے ایک لمبا سفر طے کرنا پڑے گا کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی جڑیں ہمارے اعتقادات اور جغرافیائی سیاست میں پیوست ہیں ۔صفدر سیال پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیزسے وابستہ محقق ہیں جنھوں نے اس مسئلے پر اب تک کی پیش رفت اور اس سلسلے میں درپیش مسائل کا جائزہ لیا ہے۔(مدیر)

نیشنل ایکشن پلان میں کہا گیا ہے کہ فرقہ واریت کو فروغ دینے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا ۔اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو اقدامات کئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کی سمت متعین کی ہے۔ جس کی بناء پر یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جلد یا بدیران عوامل کا بھی قلع قمع کیا جائے گا جو فرقہ وارانہ ذہن سازی کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں اور فرقہ بندی کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت اور قتل و غارت کا موجب بنتے ہیں ۔

ایکشن

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے 24اگست کو میڈیا کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظلہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت کی کاوشوں سے دہشت گردی میں 70فیصد تک کمی واقع ہو گئی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی کا قلع قمع حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہے ۔ وزیر موصوف نے اس سلسلے میں اپنی حکومت کے ان اقدامات پر بھی روشنی ڈالی جن کے تحت لاؤ ڈ سپیکروں کے غلط استعمال اور منافرانہ تقریروں پر پابندی لگائی گئی تھی ۔در حقیقت منافرانہ تقریروں اور مذہبی منافرت پر مبنی اشاعتی مواد کے خلاف ایکشن ،نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا کیونکہ یہ متشدد اور غیر متشدد فرقہ وارانہ تنظیموں کی جانب سے پراپیگنڈے کا اہم ہتھیار ہے ۔ جنوری میں سامنے آنے والی ایک میڈیا رپورٹ میں کہا گیا تھا منافرانہ تقریریں کرنے والوں کے خلاف ایکشن میں پنجاب سب سے آگے ہے جہاں اس بنا پر 329افراد کو گرفتار کیا گیا یہ تعداد اگست تک بڑھتے بڑھتے 4000تک پہنچ گئی تھی۔مزید براں رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لاؤڈ سپیکروں کے غلط استعمال کی وجہ سے پنجاب میں جنوری تک 1,471 اور اسلام آباد میں 14 افرادکو گرفتا ر کیا گیا تھا۔ پنجاب حکومت نے ان دوکانوں کے خلاف بھی تادیبی ایکشن لیا جو کہ منافرت پر مبنی مواد فروخت کر رہی تھیں ایسی دوکانوں کو سر بمہر کر دیا گیا اور منافرانہ مواد ضبط کر لیا گیا ۔حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں دوسرے صوبوں نے بھی منافرانہ مواد کے خلاف ایسا ہی ایکشن لیا ہے ۔

کچھ فرقہ وارانہ دہشت گرد اور جو اس بنا پر قتل و غارت میں ملوث تھے انھیں گذشتہ سال دسمبر میں پھانسیوں پر عائد پابندی کے خاتمے کے بعد لٹکایا بھی جا چکا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث 200سے زائد افراد کو جرم ثابت ہونے پر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جا چکا ہے ۔

( عطا ء اللہ عارف قریشی اور محمد اعظم کو2003ء میں کراچی میں شیعہ ڈاکٹر کو قتل کرنے پر 3فروری کو پھانسی دی گئی ۔

( اکرام الحق المعروف اکرم لاہوری جو کہ سنی فرقہ وارانہ گروپ لشکر جھنگوی کے بانیوں میں سے ہیں انھیں 2004ء میں ایک شیعہ مسجد کے گارڈ کو گولی مارنے پر سزا سنائی گئی تھی جس پر عمل در آمد 17جنوری کو ہوا اور انھیں پھانسی دے دی گئی ۔

( سپاہِ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے غلام شبیر اور احمد علی کو 7جنوری کو ملتان میں پھانسی دی گئی وہ قتل کی کئی وارداتوں میں ملوث تھے جن میں پولیس کے ایک اعلٰی افسر اور اس کا ڈرائیور بھی شامل تھے ۔

( محمد سعید اعوان جو کہ لشکر جھنگوی سے منسک تھا اسے کراچی سینٹرل جیل میں 15جنوری کو پھانسی دی گئی ۔اس پر پولیس افسر صادق حسین شاہ اور اس کے بیٹے عابد حسین شاہ کو 2001میں کراچی میں قتل کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا ۔

( 2ستمبر کو ISPRکی جانب سے دیئے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف نے پانچ دہشت گردوں کی سزائے موت کے پروانوں پر دستخط کر دیئے ہیں جن میں سے دو لشکر جھنگوی کے ممبر تھے اور کوئٹہ میں فرقہ وارانہ اموات میں ملوث تھے ۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈیجیٹل یونٹ کی جانب سے اکھٹے کئے جانے والے ڈیٹا بیس کے مطابق جنوری سے اگست کے دوران پاکستان بھر میں فرقہ وارانہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف 20بڑے آپریشن کئے گئے ۔جن میں 133افراد گرفتار کئے گئے ،زیادہ تر کا تعلق اہل سنت والجماعت ، لشکر جھنگوی سے تھا ۔ گرفتار شدگان میں اہل سنت والجماعت کے مرکزی صدر مولانا اورنگ زیب فاروقی بھی شامل تھے جنھیں 5جون کو ٹیکسلا کے نزدیک سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس ضمن میں زیادہ تر گرفتاریاں کراچی ، چکوال ، راولپنڈی ، لاہور اور جھنگ کے اضلاع میں ہوئیں ۔یہی وہ اضلاع ہیں جہاں فرقہ وارارنہ تشدد ، قتل و غارت ،فرقہ وارانہ مواد کی تقسیم زوروں پر ہے یا یہ وہ علاقے ہیں جہاں پر ایسے گروپوں کی حمایت اور سہولت کار بھی موجود ہیں ۔ لیکن خیبر پی کے اور بلوچستان میں اس ضمن میں بہت کم گرفتاریاں ہوئیں ۔اسی طرح نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے بعد فرقہ وارانہ گروپوں کے کچھ اہم کمانڈر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلوں میں مارے گئے ۔15فروری کو لشکر جھنگوی کا صفِ اول کا کمانڈر عثمان سیف اللہ کرد اور اس کے ساتھی کوئٹہ میں ایف سی کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے گئے ۔کرد کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا ۔جولائی میں لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مظفرگڑھ کے نزدیک پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہلاک شدگان میں ان کے گیارہ ساتھی بھی شامل تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں جاری آپریشن کی وجہ سے سنی اور شیعہ فرقہ وارانہ گروپوں کی صلاحیت پر بھی کاری ضرب لگائی گئی ہے ۔

مدرسوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں ۔ اس کے لئے ان میں اصلاحات کی ضرورت ہے مگر نیشنل ایکشن پلان میں اس نقطے پر بہت کم توجہ دی گئی ہے ۔کیونکہ مدارس کا نصاب اوریہاں دستیاب ماحول ایسا ہے جو مذہبی تعلیم کو فرقہ واریت کی جانب لے جاتا ہے ۔وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے اعتراف کیا ہے کہ 2000ء میں جنرل مشرف کے دور سے لے کر اب تک مدرسہ اصلاحات کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے ۔حالیہ ہفتوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پاکستان بھر میں دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مشتبہ لنک کی وجہ سے مختلف مدارس پر چھاپے مارے ہیں ۔اسی طرح پنجاب اور بلوچستان نے مدارس کے بارے میں سروے مکمل کر لیا ہے۔ کے پی اور سندھ میں یہ عمل ہنوز جاری ہے ۔

ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ اعلٰی سول اور فوجی قیادت جس میں آرمی چیف اور وزیر اعظم بھی شامل تھے انھوں نے 7اگست کو مدارس کے نمائندوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ مدرسہ اصلاحات کے مسئلے پر حکومت سنجیدہ ہے ۔اس میٹنگ سے ایک روز قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ مدارس کو یہ اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی کہ وہ مذہبی منافرت پھیلائیں اور دوسروں کو کافر قرار دینے کے فتوے جاری کریں ۔اسی دوران پاکستان نے یمن میں جاری تنازعہ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا جو اس بات کا بھی اظہار تھا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ اس بنا پر پاکستان میں فرقہ وارانہ رد عمل آئے ۔چنانچہ یمن میں شیعہ حوثیوں کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کی سعودی درخواست رد کر دی گئی جس کا جوازپاکستانی پارلیمنٹیڑینز نے یہ بھی بتایا کہ ایسے میں جب پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی جنگ لڑی جا رہی ہے یہ مناسب نہیں ہو گا کہ پاکستان کسی ایسی جنگ میں شریک ہو ۔ اسی دوران نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے فوراً بعد سعودی عرب پر تنقید میں اضافہ ہو گیا جس کے بارے میں خیال کیا جا تا ہے کہ وہ پاکستان میں مدرسوں اور پر تشدد فرقہ وارانہ گروہوں کی مدد کر رہا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہرین کے ایک گروپ نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کرنے والی کمیٹی کو تجویز پیش کی ہے کہ ایران ، سعودی عرب اور عرب امارات کو متنبہ کیا جائے کہ وہ کالعدم مذہبی اور فرقہ وارانہ گروہوں کو پاکستان میں عطیات دینے سے باز آجائیں ۔

اثرات

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کو ’’ڈھونڈو اور مارو ‘‘ کی حکمت عملی جس کو ریاست کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت اختیار کیا گیا ہے نے عسکریت پسندوں اور فرقہ وارانہ گروہوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے ۔ان کے مرکزی رہنماؤں کی ہلاکت یا گرفتاری نے ان گروپوں کو کمزور کیا ہے اور ان کی عملی صلاحیتوں کو کم یا محدود کر دیا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ گزشتہ سال آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد ان پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے اور فرقہ وارانہ دہشت گردوں کے حمایتی اور سہولت کار بھی بہت زیادہ محتاط ہو گئے ہیں ۔

فرقہ وارانہ دہشت گردحملوں کی تعداد میں بھی جنوری اور اگست2015ء کے بعد نمایاں کمی آئی ہے۔(دیکھئے چارٹ اوّل)

چارٹ1: پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد (یکم جنوری تا15 اگست2015)

 

3پاکستان میں کل 46حملے ہوئے جو کہ 2014ء کے مقابلے پر ہونے والے کل حملوں کے مقابلے پر 53فیصد کم تھے ۔2015ء میں ہونے والے کل 46حملوں میں 25ایسے تھے جن میں شیعہ کو ہدف بنایاگیا تھا اور17میں سنی علماء یا ان کے اداروں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ دو حملوں میں عبادت گاہوں اور مزاروں کا نشانہ بنایا گیا اور ایک حملے میں بوہرا اور اسماعیلی برادری کو نشانہ بنایا گیا ۔

اگرچہ 2015ء میں فرقہ وارانہ حملوں کی تعداد میں کمی ہوئی مگر فرقہ وارانہ جنگجو اور ان کے اتحادی جیسا کہ پاکستانی طالبان اور جند اللہ کچھ بڑے حملے کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔شکار پور میں جنوری میں امام بارگاہ پر بہت مہلک خود کش حملہ ہوا جس میں 63افراد مارے گئے ۔ 13فروری کو پشاور کے علاقے حیات آباد میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں23افراد ہلاک اور48زخمی ہوئے ۔جبکہ اس کے بعد مئی میں کراچی میں اسماعیلی برادری پر فرقہ وارانہ نوعیت کا حملہ ہوا جس میں 43افراد اپنی جانوں سے گئے ۔تاہم مجموعی طور پر فرقہ وارانہ تشدد ،حملوں اور جھڑپوں میں 2015ء کے دوران گزشتہ سال کے مقابلے پر خاطر خواہ کمی ہوئی۔(دیکھئے چارٹ 2)

چارٹ 2: پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کابدلتا ہو ا رجحان (2010-2015)

بہرحال 2015ء میں سامنے آنے والے فرقہ وارانہ تشدد کے رجحانات یہ ظاہر کرتے ہیں پاکستان کے چاروں صوبے ہی اس خطرے کا نشانہ ہیں ۔ جس کے سدِ باب کے لئے تمام صوبوں اور وفاق کی جانب سے بھر پور کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ اس خطرے سے نمٹا جا سکے ۔

چارٹ3: پاکستان میں 2015ء کے دوران فرقہ وارانہ الاؤ کے مقامات کا جائزہ

آگے کیسے بڑھا جائے

ماہرین کا خیال ہے کہ فرقہ واریت ایک بنیادی مسئلہ ہے جو پاکستان کی مذہبی اساس سے جڑا ہو ا ہے ۔ وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ پر تشدد اور غیرمتشدد فرقہ وارانہ عناصر امن و امان اور سیاسی تناظر میں ایک چیلنج کی صورت میں مسلسل موجود ہے ۔تاہم اگر ریاست ٹھوس اقدامات کرے تو اس خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اس کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس کی بنا پر مدارس اور فرقہ پرست عناصر کو بنیاد پرست بیانیہ پھیلانے او ر دوسرے فرقوں کے خلاف انتہاپسندانہ افکار کی ترویج سے باز رکھا جا سکے ۔

پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی جانب سے مذہبی قیادت اور مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ حالیہ میٹنگ اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہے ۔ جو ریاست کی جانب سے اس عزم کاا ظہار ہے کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کو کسی صورت مزید برداشت نہیں کیا جائے گا ۔جس کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی اس اجلاس میں موجود تھے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عزم کو ادارتی اور عملی سطح پر اصلاحات میں بدل دیا جائے۔ اگرچہ حکومت کی کارروائیوں سے فرقہ وارانہ گروہ کمزور ہو گئے ہیں یا ان کی صلاحیت میں کمی آگئی ہے تاہم اس کے باوجود وہ فرقہ واریت کے خطرے کے طور پر موجود ہیں ۔ سیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی کوششوں کو بڑھانا چاہئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف مؤثر آپریشنز کر کے ان کے تنظیمی ڈھانچے اور دہشت گردی کی استعداد کو مزید کمزور کیا جائے ۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ فرقہ وارارنہ گروہ 2015ء کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں بڑے حملے کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔اس لئے ان کے ملکی اور عالمی دہشت گرد گروہوں القائدہ وغیرہ کے ساتھ ان کے گٹھ جور کو توڑنے کی ضرورت ہے ۔دولت اسلامیہ بھی پاکستانی عسکری گروپوں کو اپنی جانب راغب کر رہی ہے ۔جن میں لشکر جھنگوی اور جند اللہ بھی شامل ہیں جو شیعوں کے خلاف عزائم رکھتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی پر تشدد فرقہ وارانہ گروہ جو اتنے مشہور نہیں ہیں وہ بھی محدود پیمانے پر فرقہ وارانہ وارداتیں کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے کئی گروہوں کا اس وقت سراغ لگایاجب لشکر جھنگوی کے خلاف کراچی میں کارروائیاں کی گئیں جن میں المختار گروپ ،پنجابی طالبان اورخروج گروپ کے نام سامنے آئے ۔تیسرا یہ کہ فرقہ وارانہ گروہوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انھوں نے حکومت کے ایکشن سے بچنے کے لئے ہمیشہ سیاسی چھتری تلے پناہ لی ہے ۔ مثال کے طور پر اہل سنت و الجماعت ، کالعدم سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا دوسرا نام ہے جو اب اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کی تگ و دو میں ہے ۔ اس کی قیادت احمد لدھیانوی کر رہے ہیں اور اس گروپ نے 30جولائی کو لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی ہلاکت پر نہ ہونے کے برابر رد عمل دیا۔گروپ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسلح جدوجہد ، دہشت گردی اورجارحیت پر یقین نہیں رکھتا ۔بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ صرف سیاسی چال ہے کیونکہ اہل سنت و الجماعت کراچی اور راولپنڈی اسلام آباد میں شیعوں کے فرقہ وارانہ گروہوں کے ساتھ برسر پیکار ہے اور اس دوران اس کے اپنے بھی کئی ممبر حالیہ مہینوں اور سالوں میں مارے جا چکے ہیں ۔اسی طرح خیبر پی کے میں KP-95کے حالیہ ضمنی انتخابات میں پاکستان راہِ حق پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے جسے فروری2012ء میں حکیم محمد ابراہیم نے قائم کیا تھا جو کہ کالعدم سپاہِ صحابہ کے سابق صوبائی رہنما ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس بات کا اہتمام کرے کہ کوئی متشدد فرقہ پرست گروہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے سیاسی چھتری استعمال نہ کر سکے ۔اس کے ساتھ ہی مذہبی جماعتوں کو بھی پابند بنایا جائے کہ وہ فرقہ وارانہ بیانیے کواپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں ۔