working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

رپور تاژ

پاکستان میں سماجی ہم آہنگی کیسے ہو ؟ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام کراچی اور لاہور میں ہونے والی تر بیتی نشستوں کا احوال

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈ یز گزشتہ کئی سالوں سے معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہے ۔ اس سلسلے میں معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ مکالمے کا اہتمام تواتر کے ساتھ کیا جاتا ہے تاکہ ان مسائل کے حل کی جانب پیش رفت کی جا سکے جن سے ہم اس وقت دوچار ہیں ۔ سماجی ہم آہنگی کا فقدان بھی ایسا ہی ایک سلگتا ہوا موضوع ہے جس نے ہمارے سماج کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈ یز نے 2015ء میں بین المذاہب اور بین المسالک چار مکالموں کا اہتمام کیا جن میں سے دو کی روداد آپ تجزیات کے گذشتہ شماروں میں پڑھ چکے ہیں ۔دو مزید مکالمے جو اس سال 03اگست کو کراچی اور 05اگست کو لاہور میں منعقد ہوئے ان کی روداد آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے ۔ (مدیر)

کراچی کی نشست کا احوال

3اگست کو کراچی میں منعقدہ تربیتی نشست میں خطب�ۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ سماجی ہم آہنگی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی مذہبی و ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اور مختلف آراء و خیالات کے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں،سماجی ہم آہنگی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ کے اندر مختلف مذاہب، عقیدوں اور ثقافتوں کی وجہ سے جو تنوع ہے،، اس کو ختم کیا جائے بلکہ اس فرق کو قائم رکھتے ہوئے ہم ایک معاشرے میں کیسے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں یہ جاننا بہت اہم ہے۔ہماری خواہش کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہو پاتا

03 اگست2015ء کو کراچی

میں منعقدہ تربیتی نشست کے شرکاء

3حالانکہ ہم سب یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ایسے ایسے کردار اور رویے ہونے چاہئیں جن کے مطابق زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ مگر پھربھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے جہاں ہمارے دماغ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ہمارے خون کی گردش غالب آجاتی ہے۔نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی سطح پر بھی یہی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم رہنمائی کیلئے نہ صرف اپنے دینی مآخذ کی طرف رجوع کریں بلکہ ذہن اور عقل کو بھی استعمال میں لائیں۔آج کی اس نشست کا مقصد یہی ہے کیونکہ پاکستان میں سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم ایک ملک بلکہ ایک شہر اور ایک محلہ میں رہتے ہوئے بھی اپنے سے مختلف نقطۂ نظر کے لوگوں سے جھجک کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ ہمارے تمام مسالک کے بڑے علما کے درمیان ایک دوسرے سے روابط ہیں۔دیگر مذاہب کے علماء کے ساتھ بھی اٹھتے بیٹھتے ہیں لیکن نچلی سطح پر روابط نہیں ہوتے بلکہ نفرت کے رویے بھی پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں۔اعلیٰ سطح پر یہ کیسے ممکن ہوا تو وہ صرف مکالمہ سے ہی ممکن ہوا۔مکالمہ ایسی قوت ہے جو ایک دوسرے کے نقطۂ نظرکو جاننے اور برداشت کرنے کا رویہ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور معروف سماجی کارکن رومانہ بشیر نے شرکاء سے کہا کہ قائداعظم نے پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مملکت میں سب آزاد ہیں اور سب برابر کے شہری ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا،اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مذہب تبدیل کرلیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ مذہبی شناختیں ایک پاکستانی ہونے کی راہ میں حائل نہیں ہوں گی۔مذہبی شناخت برقرار رکھتے ہوئے ایک مساوی شہریت کے ساتھ رہنے کی جو سہولت آئین میں دی گئی ہے اورقائداعظم کے خطاب میں بھی موجود ہے۔ تحریک پاکستان میں اقلیتوں نے بھی قائداعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔یہ تحریک تو اصل میں اقلیتوں کی تحریک تھی کیونکہ مسلمان اس وقت اقلیت میں تھے۔قائداعظم نے اس وقت دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی رابطہ کیا تھا اور خاص کر مسیحی قوم سے ملاقات کے دوران ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ جس یقین کے ساتھ پاکستان کے قیام کیلئے ہمارا ساتھ دے رے ہیں ہم آپ کایہ احسان ہمیشہ یاد رکھیں گے۔یہ بیان ریکارڈ پر ہے مگر یہ کبھی سامنے نہیں لایا جاتا۔یہ وہ بنیادیں ہیں جو لوگوں کو جوڑنے کاکام کرسکتی ہیں۔ پھر جب باؤنڈری کمیشن کا معاملہ آیا تو اس وقت مسیحی قیادت نے کہا کہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔کیا یہ تاریخی حقائق ہم پاکستانی قوم تک نہیں پہنچا سکتے۔اگر یہ باتیں ان تک پہنچا دی جائیں تو اقلیتوں کے خلاف سوچ کا دھارا بدلا جاسکتا ہے۔1940ء میں قرارداد پاکستان جب پیش ہوئی تھی اس وقت اقلیتوں کے حقوق کی بات کی گئی تھی۔اس کا مطلب یہی تھا کہ اس وقت بھی اقلیتوں کیلئے مشکلات تھیں۔آج بھی جب وطن عزیز میں اقلیتوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو پیش نظر وہی مشکلات ہیں کیونکہ کل کی جو اقلیت تھی آج وہ یہاں اکثریت میں ہے اور انہیں اقلیت میں رہنے کا تجربہ بھی ہے اور محرومیوں کا احساس بھی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے یہ اہم اقدام ہے ۔ملکی آئین میں ایسے قوانین ہیں جو مذہبی آزادی اور برابر کے حقوق دینے کی ضمانت دیتے ہیں اور کچھ ایسے قوانین بھی ہیں جن پر اس ضمن میں سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔آئین کا آرٹیکل20 کہتا ہے کہ مذہب کی پیروی اور مذہبی اداروں کے نظم و نسق کی آزادی و تبلیغ ہر شخص کو دی گئی ہے ،مذہب کی پیروی کی حدتک بات درست ہے مگر کیا تبلیغ کی اجازت ہے؟

اسی طرح آرٹیکل21 کے مطابق کسی بھی شخص کو ایسے ٹیکس دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جواس کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی ترویج کیلئے استعمال کیا جارہا ہو۔اسی طرح آرٹیکل22 بھی تفصیل سے مذہبی آزادی پر گفتگو کرتا ہے ۔مذہبی آزادیاں قانون کی رو سے لازم قرار دی گئی ہیں مگرجو ماحول پیداکیا گیا ہے اور تعلیمی نصاب کے ذریعے جو نفرتیں پھیلائی گئی ہیں اور جو قیام پاکستان کی اصل تاریخ ہے جس میں قیام پاکستام میں ایک عیسائی رکن اسمبلی کے ووٹ کی جو حیثیت تھی اور جو اس کا کردار تھا اس بارے میں ہمارے بچوں کو نہیں بتایا گیا

پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں ہر ایک کی اپنی تاریخ اور ارتقاء کا ایک سفر ہے۔اس وقت جو بڑے الہامی مذاہب ہیں ان میں یہودیت،مسیحیت اور اسلام ہے۔اس کے علاوہ ہمارے خطہ میں ہندو مت اور بدھ مت ہے ہم چونکہ مابعد عالمگیریت کے دور سے گزر رہے ہیں ا س کے تقاضے کیا ہیں ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت جو عالمگیریت ہے اس میں سرمایہ دارانہ نظام کو فوقیت حاصل ہے ۔ ہم سب اس کے مخالف ہیں لیکن زمینی حقائق یہی ہیں اور ہمیں اسی نظام میں رہ کر جدوجہد کرنی ہے اس وقت ہم اس نظام کو مکمل منہدم نہیں کرسکتے مگر اپنے لئے بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان میں سماجی ہم آہنگی مذہبی آزادی،شہریت وغیرہ کے تصور اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے معروضات کو حل کرنا ہوگا اب جو چیز آئین میں مقرر کردی گئی وہ ضروری نہیں کہ عملی طور پر بھی نافذ ہو مثلاً امریکہ کے آئین میں تمام شہری برابر ہیں اور اسی بناء پر ایک سیاہ فام کو دو بار امریکی صدر منتخب کیا گیا لیکن کیا امریکہ کے اندر تمام گورے سیاہ فام یعنی کالوں کو اپنے برابر سمجھتے ہیں؟ یا ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں عربی اور عجمی میں کوئی فرق نہیں مگر زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔انھوں نے حاضرین کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ مذہب کی جو اصل روح ہے اس کو روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے، مذہب تو حل کا حصہ ہے،تنازعہ تو لوگ پیدا کرتے ہیں اس لئے لوگوں کو مل جل کر مسائل حل کرنا ہوں گے مثلاً اس وقت آئین پاکستان کے تحت اخلاقیا ت کا جو مضمون ہے اس کا نصاب ترتیب دیتے وقت جید پیغمبران ،مسلم و غیر مسلم نامور شخصیات کے اقوال اور تعلیمات کو شامل کریں جو اخلاقیات سے متعلق ہیں۔ جو ہمارے مقامی بزرگ صوفی رہنما ہیں ان کے اقوال شامل کریں تاکہ ایک مناسب نصاب تشکیل پاسکے۔

دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے نامور کالم نگار اور اینکر پرسن خورشید احمد ندیم نے کہا کہ تین طرح کے چیلنجز اس وقت درپیش ہے ،پہلا علمی و فکری چیلنج ہے جو اقلیتوں کو اجتماعیت کا حصہ بننے میں مانع ہے۔ جب تک ان کے حوالے سے ہم واضح اور متعین موقف اختیار نہیں کرپاتے اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ وہ فکری مسائل بڑی حد تک تفہیم دین کے متعلق ہیں اور اس سے مراد تفہیم اسلام ہے۔ مثلاً کچھ قرآن پاک کی آیتیں ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ دوستی نہیں رکھی جاسکتی ۔کم و بیش تین جگہ پر یہ بات کی گئی ہے کہ آپ انہیں دوست مت بنائیں۔بنیادی سوال اس ضمن میں یہ اٹھتا ہے کہ اگر قرآن مجید میں ہمیں ایک بات سے منع کردیا گیا ہے تو اس کے بعد پھر کیسی دوستی، کیسی ہم آہنگی اور

کیسا تعلق! اگر ہم بطور مسلمان اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر پائیں گے تو اس بحث کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔ یا تو ہم مانیں کہ دوستی ہوسکتی ہے تو پھر ان آیات کی کیا تعبیر و تفسیر ہوسکتی ہے اور اگر یہ آیات ایسے ہی سمجھی جائیں جو معنی ان کے لفظ سے متعین ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس ساری مشق کی کیا افادیت ہے اور یہ کیسے حل ہو پائے گی۔ یہ پہلا نظری اور علمی و فکری چیلنج ہے جن کا تعلق صرف قرآن پاک سے نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کے بہت سے ارشادات اس ضمن میں پیش کئے جاتے ہیں۔ دوسرا فکری چیلنج یہ ہے کہ اس وقت مسلم دنیا میں تفہیم دین کے حوالے سے جو بات عام ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں غلبے کا حق صرف اسلام کو ہے، سیاست اور قوت کا حق اور غلبہ صرف اسلام کیلئے خاص ہے۔ کیونکہ یہی دین اللہ کا سچا اور واحد دین ہے ہم دوسرے ادیان کو برداشت اور گوارا تو کرسکتے ہیں انہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اور جینے کا حق دے سکتے ہیں لیکن ہم دنیا میں انہیں اقتدار نہیں دے سکتے یہ طاغوت کی جتنی شکلیں ہیں حق اقتدار نہیں رکھتیں۔

ہم اس وقت اگر انہیں برداشت کررہے ہیں تو اس کی وجہ ہمارے پاس طاقت نہیں تو جب یہ ہوگی تو اس وقت غلبہ صرف اسلام کو حاصل ہوگا ۔رسالت مآبﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کا اولین مقصد ہے’’ تاکہ وہ اپنے دین کا اظہار تمام کائنات پر کرسکیں‘‘ یعنی اس پیغام کی ہمیں تکمیل کرنی ہے۔اظہار دین کا مطلب ہی یہی ہے کہ دنیا میں کسی اور طاغوتی قوت کا غلبہ تسلیم ہی نہیں کیا جاسکتا اگر یہی تعبیر درست ہے تو ہم مسلسل باقی اقوام و مذاہب کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ جب تک اظہار دین کی شرط مکمل نہیں ہو جاتی جتنا بھی مشرکین اس کو برا سمجھیں، اسی کے تحت جو دنیا میں جہادی تحریکیں ابھر رہی ہیں ان کا بنیادی نظری مقدمہ ہی یہی ہے۔21 ویں صدی کے ابتداء میں ہی اس کی اساس و بنیاد رکھی گئی اور آج اس کے اطلاقات ہم دیکھ رہے ہیں۔فکری اساس تو پہلے رکھ دی گئی تھی اب ہم اس کی عملی شکلیں دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ تعبیر بھی اسی طرح ہے تو کسی ہم آہنگی کا تصور نہیں۔مسلسل حالت جنگ ہی نظر آتی ہے۔

اس چیلنج کی موجودگی میں سماجی ہم آہنگی کیسے ممکن ہے۔ ایک اور سوال دو قومی نظریہ کے حوالے سے ہے ۔تاریخ کی یہ تعبیر کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا اور اس کی اساس یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو ایک نہیں دو قومیں ہیں۔ ان کا مذہب الگ، ان کی پہچان الگ اور ثقافت الگ اس لئے ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ کوئی اس تعبیر سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی۔ پاکستان کو ایک مذہبی شناخت کے اعتبار سے ایک اجتماعی ہندوستان سے الگ کیا گیا۔ مگر پاکستان بننے کے بعد ایک دم آپ لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہاں مذہب کے حوالے سے کوئی تقسیم نہیں۔ آپ چاہے تو مندرجائیں ،مسجد جائیں یا گرجا جائیں یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔10 اگست1947ء تک آپ مسلمان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ تہذیبی شناخت رکھتے ہیں، 11 اگست کو کہتے ہیں کہ آپ مذہبی طور پر آزاد ہیں،بحیثیت قوم ہم سب ایک ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے آپ کہتے ہیں کہ جغرافیہ قومیت کی اساس نہیں ہے بلکہ نظریہ قوم کی اساس ہے۔ پاکستان بننے سے2 دن پہلے اعلان کرتے ہیں کہ جغرافیہ قومیت کی اساس ہے،ایک ملک ہے جس کی جغرافیائی حدود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تضاد کے ساتھ سماجی ہم آہنگی کیسے ممکن ہے۔یہ چند نظری و فکری سوالات ہیں جو ہماری تفہیم دین اور تقسیم تاریخ اور حالات کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ ان سوالات کو زیر بحث لائے بغیر،ان کو اپنی تحقیق اور گفتگو کا حصہ بنائے بغیر ہم مصنوعی طور پر کوئی ہم آہنگی کی فضا بنالیں گے جو دیرپا نہیں ہوگی ۔

حاضرین کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہماری گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ سماجی رویے کیسے د رست ہوں گے۔ سماجی رویے اس وقت تک درست نہیں ہوسکتے جب تک معاملے کی تفہیم درست نہیں ہوگی اس کیلئے علمی و فکری بنیاد قائم کرنا ہوگی۔

جامعہ علوم کراچی کے استاد ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی نے کہا کہ ہم آہنگی سے مراد یہ ہے کہ دو جماعتوں،فرقوں یا گروہوں کے درمیان وہ مشترکہ نکات کیا ہیں جن کو بنیاد بنا کر بہترین معاشرتی تعلقات استوار کئے جاسکیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ان میں غیر مسلم کی پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ ہیں جن کو ہم سماوی مذاہب کہتے ہیں یعنی جو خدا کی طرف سے آئے ہیں جن میں یہودیت اور عیسائیت کے مذاہب ہیں اور دوسرے وہ مذاہب ہیں جن کی بنیاد سماوی نہیں ان میں بدھ مت،ہندو مت،سکھ مت وغیرہ شامل ہیں۔ تو غیر سماوی مذاہب سے ہم آہنگی سے مراد یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان جو مشترکات ہیں ان کو بنیاد بنائیں اور اس کی بنیاد پر ہم ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات قائم کریں۔سماوی مذاہب سے تھوڑے مشترکات اور زیادہ بڑھ جائیں گے کیونکہ ہم بھی سماوی مذہب ہونے کا دعویٰ کرتے اور وہ بھی۔ان تمام مذاہب میں کچھ مشترکات ایسے ہیں جن پر سب کا اتفاق ہے۔ جیسے اخلاقیات کا دائرہ کار جیسے جھوٹ بولنا،قتل کرنا،دھوکہ دینا،بداخلاقی کرنا، کسی کی توہین کرنا کسی بھی مذہب میں جائز نہیں۔

وہ مذاہب جو غیر سماوی ہیں ان سے ہم آہنگی کا معاملہ یہ ہوگا کہ ہم ان کے ساتھ ایسے روابط رکھیں کہ ان کو کسی قسم کی تحقیر یا بداخلاقی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔حتیٰ کہ اگر غیر مسلم کو کافر کہنے سے تکلیف ہوتی ہے تو اس کی بھی اجازت نہیں۔(فتاویٰ عالمگیریہ) آپ اس کو کسی ایسے لفظ سے پکار نہیں سکتے جس سے اس کی دل شکنی ہو۔ اب وہ مذاہب جن سے ہماری مطابقت اور زیادہ ہے وہ اہل کتاب ہیں۔ نجران کے عیسائیوں کا وفد جب آپؐ کی بارگاہ میں آیا تو سب سے پہلے ان نکات پر گفتگو ہوئی جو آپس میں مشترک تھے۔ ’’یعنی جب آپ بنیادی باتوں پر گفتگو کرتے ہیں تو نتائج سامنے آتے ہیں اگر نہ بھی آئیں تو بدمزگی پیدا نہیں ہوتی، اس کے بعد یہودیت و نصرانیت سے اور زیادہ مطابقت ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر ہم ان ہم آہنگیوں کو لے کر چلیں گے تو معاملات درست ہو جائیں گے۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ہم سب ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس صورت میں ہمارے جو اصول ہیں اس پر ہم سب متفق ہیں۔صرف فروع ہیں جن میں ہمارے درمیان تفریق ہے اور ان کو حل کرنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ اپنے مسلک اور طریقہ کار کو چھوڑو نہیں اور دوسرے مسلک اور طریقہ کار کو چھیڑو نہیں۔ ایک ہے فرقہ واریت اور ایک ہے اختلاف یہ دونوں علیحدہ چیزیں ہیں۔ فرقہ واریت کی تو اسلام میں کوئی گنجائش نہیں’’ اور تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو‘‘ فرقہ واریت کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم غیر مسلم کے ساتھ دوستی نہیں کرسکتے تو کسی کے ساتھ بھی تعلق اور دوستی چار درجے کی ہوتی ہے۔ ایک کو ہم کہتے ہیں مواسات یعنی ایثار،دکھ درد اور تکلیف میں کسی کے کام آنا۔ دوسرا درجہ ہے معاملات یعنی کسی کو کوئی چیز دے دیں اور اس سے لے لیں، خرید و فروخت وغیرہ اور ہر ایک سے موافات یعنی بھائی چارہ، ہر ایک کو اپنے ساتھ شریک کرنا اپنے ساتھ بٹھانا آخری درجہ ہے ۔مواجبات یعنی دلی تعلق، جس کو ہم لنگوٹیا یار کہتے ہیں۔ قرآن میں جس دوستی اور تعلق کی ممانعت آئی ہے وہ ہے بہت گہرا تعلق یعنی ایسا تعلق نہ ہو جس میں آپ اپنے راز اس کو بتانا شروع کردیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے گئے تھے تو ان کے جو رشتہ دار مکہ میں تھے ان سے مسلمانوں کے معاملات راز میں رکھنے کیلئے ممانعت آئی لیکن ان کا تعلق برقرار رہا۔ اور اگر ہم قلبی تعلق نکال بھی دیں تو باقی تعلق کے جو تین درجات ہیں ان کو سامنے رکھیں تو ہم آہنگی موجود ہے اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔

آپؐ کی زندگی کے آخری ایام کا ایک واقعہ ہے کہ آپؐ نے ایک یہودی سے قرض لیا ہوا تھا اور ایک زرہ اس کے پاس گروی رکھوائی تھی جس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے ساتھ معاملات میں کتنا اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

انھوں نے سوالوں کے جواب میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کافر انسان ہی ہوتے ہیں اور تمام انسانی حقوق انہیں دیئے گئے ہیں۔ غیر مسلم کی تعریف کے حوالے سے کہا گیا کہ غیر مسلم وہ ہوتا ہے جو ضروریات دین سے انکار کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی ایسی باتیں جس پر ہر ایک مسلمان کا یقین کرنا لازمی ہے جیسے نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ۔ اگر کوئی ان کا انکار کرتا ہے توو ہ غیر مسلم ہے اور کافر بھی اسی کو کہتے ہیں مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر کافر کہنا اسے برا لگتا ہے تو نہیں کہنا چاہیے۔اگر کسی کو کافر کہنا اسے اخلاقی طور پر برا لگتا ہے پھر بھی آپ کہتے ہیں توآپ کو گناہ ہوگا۔

تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ بنوری ٹاؤن کے استاد مولانا سید احمدیوسف بنوری نے کہا کہ میری دلی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس قسم کی نشستیں جوPIPS منعقد کرتا ہے اس قسم کی نشستیں ہم خود منعقد کریں ہماری مسجدوں،عبادت گاہوں اور امام بارگاہوں میں یہ مجلسیں ہوں اور ہم خود اس کیلئے بیٹھیں۔اگر ہم اس کے فلسفیانہ پہلو پر غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ مذہب کی بنیاد پر ہی کیوں مسئلے پیدا ہوتے ہیں اور سماجی ہم آہنگی ممکن نہیں ہوتی۔ میں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے کیا بات کروں۔یہاں جو60سے70 ہزار لوگ مارے گئے ہیں وہ غیر مسلم نہیں تھے مسلمانوں نے ہی مسلمانوں کا خون کیا ہے اور مسلمانوں کے ہی علماء کا قتل ہوا ہے۔ غیرمسلم کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے وہ ان غموں اور دکھ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔جو ہم نے سہے ہیں میں کسی چرچ میں بھی جاسکتا ہوں اور چرچ والا میری مسجد میں بھی آسکتا ہے مگر میری مسجد سے نکلنے والا کسی اور مسجد میں نہیں جاسکتا۔ وہ شدید نفرتیں جو مسلمانوں کے اپنے ہاں ہیں وہ غیر مسلم کے ساتھ تو ہرگز نہیں۔اس لئے مذہبی لوگوں سے میں یہ گزارش کروں گا اگر سماجی ہم آہنگی کیلئے ہمیں آواز دی جارہی ہے تو ہمیں اس کا حل نکالنا ہوگا وگرنہ یہ مان لیا جائے گا کہ کوئی سچائی نہیں ہے۔اس وقت دنیا میں جو الحادیا لادینیت ہے وہ فلسفیانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ ان کا مسئلہ ہمارے اور آپ کے رویے بن رہے ہیں اس کیلئے کبھی وہ ہندو عالم سے بات کرتے ہیں اور کبھی مسلمان عالم سے یا عیسائی عالم سے جو یہ کہتا ہے کہ اس کے مذہب کے علاوہ کوئی کامل سچائی نہیں ہے۔ان کے کہنے کے مطابق سبھی سچ کہہ رہے ہیں اس لئے سب ہی غلط ہیں جیسا کہ دو آدمی ایک دوسرے کو جھوٹا کہہ رہے ہیں تو اصل میں دونوں سچ نہیں کہہ رہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ جب تک ہم مذہبی اعتبار سے مذہبی بنیادوں پر اس بات کی گنجائش پیدا نہیں کریں گے کہ دوسرے لوگوں کو مذہبی اعتبار سے جینے کا حق ہونا چاہیے اور ہم اپنی علمی بنیادیں کھو نہ پائیں۔

صحافی و اینکر پرسن سبوخ سید نے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا کہ اس سیمینار کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل کی مذہبی قیادت اور علمائے کرام کو اکٹھا بٹھایا جائے اور سماجی ہم آہنگی میں درپیش چیلنجز کو زیر بحث لایا جائے۔سماج کسے کہتے ہیں یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ جبکہ ہم آہنگی کا مطلب ہے برابری کی سطح پر ہم آواز ہونا۔جیسے ایک سُرکے تمام ساز جب تک ہم آہنگ نہیں ہوں گے سُرنہیں بنے گا۔مجھے اپنے گھر اور خاندان کے اندر بہت سارے مسائل کا سامنا تھااور اب بھی ہے۔لیکن آخر کار ایک دن میں اس سوچ سے تنگ آگیا اور اپنے بزرگوں کے پاس گیا اور ان سے پوچھا یہ کب تک چلے گا۔ انہوں نے کہا بیٹا یہ چودہ سو سالوں سے چلا آرہا ہے تم اس کو ختم نہیں کرسکتے ۔ تو میں نے کہا کوئی تو ہے جو اس کی بنیاد رکھے اور اس سلسلے کو ختم کرے میں کب تک بچے پیدا کرکے قتل کرواتا رہوں گا۔ ایک نئی سوچ کے پیدا ہونے پر اگر کوئی سوال کردے تو میں اسے مرنے مارنے پر تیار ہو جاؤں۔ بہر حال میں نے ہمت کرکے اپنے خاندان سے ابتداء کی اور وہاں سے چلا گیا اور کوشش کی تاکہ نفرتوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔اب اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنے خاندان کے ان عزیزوں کے گھر جاتا ہوں جن سے ہمارے شدید مذہبی اختلافات ہیں۔میرے والد صاحب ایک عالم دین ہیں ، خطیب ہیں لیکن پھر بھی میں نے کوشش کی معاملہ کو حل کیا جائے چاہے جتنے سال بھی لگتے ہیں۔ چار سالوں کے اندر بہت سارے مسائل حل ہوگئے ہیں۔

نامور صحافی ،کالم نگار و اینکر پرسن وسعت اللہ خان نے مہمان مقرر کی حیثیت سے پروگرام کو زینت بخشی انھوں نے شرکاء سے کہا کہ اس وقت جو پاکستان کی صورتحال ہے ان لوگوں کا ایک جگہ بیٹھنا ہی معجزہ لگ رہا ہے ان لوگوں سے ایک فیصد توقع ہے۔ کسی اور کو اس سیمینار کی روئیداد سنانے سے پہلے جب آپ اپنے کمروں میں جائیں یا سفر میں ہوں تو اپنے آپ سے مخاطب ہو کر پوچھیں کہ آپ کے دل میں جو مکڑی کے جالے کے تار تھے اس میں سے کتنے ٹوٹے۔ اور جب آپ کو خود سے سرٹیفکیٹ مل جائے گا کہ کچھ نہ کچھ ہوا ہے تو پھر آپ کے سوچنے کا مرحلہ شروع ہوگا کہ چاروں طرف جو زہر پھیلا ہوا ہے اس سے خود کو بچاتے ہوئے دوسروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں۔جو بھی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی مذہب کے لوگ ہیں جو اپنا نقطۂ نظر رکھتے ہیں زیادہ تر ان اصطلاحات پر قائم ہیں جنہیں ہم الہامی سمجھتے ہیں چونکہ یہ ہمارے بزرگوں سے چلی آرہی ہیں اس لئے ان پر قائم ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ کسی دوسرے مذہب یا مسلک کے بارے میں بات کریں تو خود سے تصدیق کریں کہ یہ بات میں نے پڑھی ہے یا سنی ہے یا کسی چوتھے ،پانچویں یا دسویں حوالے سے مجھ تک پہنچی ہے، تو کیا مجھے اس کے اصل مآخذ یا اس کے ذیلی لٹریچر سے اس کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے۔ یہ جو مائنڈ سیٹ ہے اس کو ہم ہی بدل سکتے ہیں۔میں اپنا ذہن خود ہی بدلوں گا آپ نہیں بدل سکتے۔اس طرح کے سیمینار اگر اس طرح کا شعور اور واقفیت ہی پہنچا دیں تو میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ان اصطلاحات کی دوبارہ چھان پھٹک کی ضرورت ہے تاکہ ہم بہت سارے مسائل سے چھٹکارا پا سکیں۔

لاہور کی نشست کاا حوال

سماجی ہم آہنگی پر دوسری نشست 05اگست کو لاہور میں ہوئی جس میں معلمین کے علاوہ مختلف مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والے چالیس سے زائد نوجوان سکالروں نے شرکت کی اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے خیالات کا تبادلہ کیا ۔پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے خطب�ۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم علمائے کرام کے ساتھ2010ء سے مختلف موضوعات کے ساتھ مکالمہ اور رہنمائی حاصل کیلئے مصروف عمل ہیں ۔تاکہ جو چیلنجز اس وقت درپیش ہیں ان کے متفقہ حل کیلئے کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ جب ہم تنازعات کے حل کی بات کرتے ہیں تو صورتحال اتنی سادہ نہیں ہے اور خاص کر جب ہم سماجی ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات بڑی خوبصورت لگتی ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو یہ بات ممکن بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کی کئی سطحیں اور دائرے ہیں جب تک ہم ان کو زیر بحث نہیں لائیں گے سماجی ہم آہنگی کا قیام ممکن نہیں ہوسکتا۔ پہلی سطح پر علمی و فکری رکاوٹیں ہیں ان رکاوٹوں کی پہچان اور پھر ان کے حل کیلئے کوششیں کرنا اہم ہے۔ کچھ خاص قسم کے مذہبی تصورات اور مذہبی طبقات بھی سماجی ہم آہنگی میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن کا تعلق طبقات اور ثقافت سے ہے۔اس میں شاید مذہب کا اتنا عمل دخل ہو نہ ہی کسی دیگر سیاسی مفادکا ،لیکن ہمارے سماجی و ثقافتی رویے ہمیں ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتے اور ہم ایک دوسرے سے امتیاز برتتے ہیں۔

05 اگست2015ء کو لاہور

میں منعقدہ تربیتی نشست کے شرکاء

 

رومانہ بشیر نے کہا کہ اکثریت اعلیٰ کے معنی میں شمار ہوتی ہے اور اقلیت ادنیٰ کے ۔کیونکہ انہیں اتنا دبا دیا گیا ہے کہ اب وہ خود مانتے ہیں کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ایک عمرانی معاہدہ جو ریاست کے ساتھ ہر شہری کا ہوتا ہے اس میں یا تو آپ اس ریاست کے شہری ہوتے ہیں یا شہری نہیں ہوتے،کوئی درمیانی درجہ نہیں ۔ ریاست پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں جس میں اقلیتیں ذمی شمار ہوں۔اس لئے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے نفرت سے بھری تقریر اور خطاب نے حالات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، یہ بڑے حوصلے کی بات ہے کہ کوئی آپ کو سامنے بٹھا کر گالی دے اور پھر آپ کو کہے کہ یہ گالی نہیں بلکہ یہی آپ کی حقیقت ہے۔ مثلاً کافر کی اصطلاح کا بے دریغ استعمال ہمیں بہت پریشان کرتا ہے ۔ایک اور بات بہت تواتر سے کہی جارہی ہے اور علمائے کرام بھی یہی کہتے ہیں کہ بائبل مقدس تبدیل ہو چکی ہے ٹھیک ہے اگر آپ اس کو نہیں مان رہے، مگر جس کی کتاب ہے اس کا لحاظ کرتے ہوئے اسے مقدس تو مان لیں لیکن اس کی تضحیک نہ کریں۔سماجی ہم آہنگی کیلئے جو مشترکات ہیں ان پر بات کریں اور جو ہمارے درمیان اختلاف ہے جس کی بنیاد پر مسلمان مسلمان ہے اور ہندو ہندو ہے،ایک مسیحی مسیحی ہے وہ اس کے ایمان کا مسئلہ ہے ایمان تو کسی کی مرضی اور تجویز پر تو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ بین المذاہب ہم آہنگی میں یہ کوشش نہیں ہونی چاہیے کہ کمزور پارٹی یا جماعت اپنے عقیدے یا مذہب پر کوئی کمپرومائز کرے۔میرے خیال میں صوفی ازم بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے کیونکہ صوفی ہر مذہب کے ماننے والے کو انسانیت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کسی بھی اسلامی ریاست یا اسلامی معاشرے میں اگر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے تو اس کی سب سے بہترین مثال اور بنیاد میثاق مدینہ ہے۔ جس میں تمام لوگوں کو ایک امت قرار دیا گیا۔11 اگست1947ء قائداعظم کی تقریر کا متن،میثاق مدینہ کے اصولوں کو ہی بیان کرتا ہے۔تو کیا ہم یہاں ایک پاکستانی نہیں بن سکتے۔

سوالوں کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پرانے عہد نامہ کو ہم تورات کہتے ہیں جوJesus سے پہلے کا ہے اور نیا عہد نامہ وہاں سے ہے جہاں سے یسوع مسیح آتے ہیں وہاں سے نیا عہد نامہ شروع ہوتا ہے۔ اسلام ہی اقلیتوں کو حقوق کی ضمانت دیتا ہے تو پھر آپ ان کو تمام وہ حقوق دے دیجئے تاکہ کوئی مسئلہ ہی نہ رہے اور ایسی نوبت ہی نہ آئے۔ آخری بات کہ کسی بھی مسئلہ پر بات کرنے کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف مختلف گروہ بن کر کھڑے ہو جائیں ۔ ہم سب مل کر یہاں اکٹھے ہوئے ہیں کہ ہم ان سب باتوں کے خلاف مل کر کام کریں۔

ادارہ فکر جدید کے پرنسپل صاحبزادہ امانت رسول نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کی بہت بڑی ذمہ داری اہل علم اور علمائے کرام پر آتی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جو گفتگو کی گئی ہمیں ان کے شکوے اور شکایتیں ضرور سننی ہوں گی۔ کیونکہ ہمیں تو پوری دنیا سے ہی شکوے ہیں مگر اپنے ملک کے اندر رہنے والوں کی بات پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ ہم نے مختلف تحریکوں میں کام کیا ہے جہاں پر ہمیں آفاقی سوچ دی جاتی تھی کہ پوری دنیا پر چھا جاؤ۔ عالم اسلام کے غلبہ کیلئے کام کرو لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہم پوری دنیا پر غلبہ کے چکر میں اپنے گھر کو بھی بھول گئے اور انسانی اقدار سے بھی محروم ہوگئے۔ جھوٹ بولنا، کرپشن، بدعنوانی،بدکرداری،عہدوں کی بندر بانٹ ہے۔ اگرچہ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں ہم غیر اسلامی اور سیکولر کہتے ہیں مگر ہمیں سب کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ تین باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے۔ نمبر ایک آئین کی پیروی اور پابندی، مہذب معاشرے کا اصول یہ ہے کہ جب وہ اختلاف کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اختلافات کے باوجود ہم اس ملک کے آئین و قانون کی پیروی کریں گے لیکن اس اختلاف پر مکالمہ جاری رہتا ہے۔اگرچہ آپ کو آئین کے کسی جزو سے یا کسی شق سے اختلاف ہے مگر اس کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ آج کی گفتگو سے جو مسائل ہم نے اخذ کئے ہیں اس حوالے سے اہل مذہب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے سوالات جن کے حوالے سے ہم نے اپنی حتمی رائے قائم کرلی ہے اس پر بھی غور کریں کہ یہ علماء کا یا فقہاء کا استنباط ہے یا قرآن کی وحی قطعی ہے۔

شدت پسندی کو ختم کرنے کیلئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے لوگوں کو بھی مذہب کی تعلیم سے آشنا کریں کیونکہ میرے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ ہم مذہب میں صرف سنی سنائی باتوں پر چل رہے ہیں، نفرت آمیز خطابات ہی معاشرے میں شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔قرآن کریم نے دوسری اقوام کے ساتھ معاملات کے حوالے سے جامع بیان کیا ہے مثلاً قرآن کریم کہتا ہے کہ ’’اے ایمان والو اگر تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آجائے تو اس کی تصدیق کرلیا کرو۔‘‘

دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے خورشید احمد ندیم نے کہا کہ ایک اور فکری سوال جو اس بحث میں اٹھتا ہے کہ دور جدید میں دین کے غالب ہونے کا تصور مسلمانوں میں رائج ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس لئے آیا ہے کہ وہ دنیا پر غالب ہو جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے کسی اور مذہب کو یہ حق نہیں کہ وہ سیاسی طور پر اور فکری سطح پر غالب ہو، یہ قابل قبول نہیں۔نبی کریمﷺ دنیا میں حق کے ساتھ اس لئے تشریف لائے کہ وہ اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کردیں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں ہم حق اقتدار صرف مسلمانوں کا سمجھتے ہیں کسی اور کو یہ حق نہیں دیتے تو پھر ہم آہنگی نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے جب ہم غلبہ چاہتے ہیں تو کوئی بھی دل سے مغلوب ہونا پسند نہیں کرتا یا تو پھر وہ ہم سے لڑے گا یا پھر ہم سے کم تر اور دوسرے درجے کا شہری ہوگا وہ جو برابری یا سماجی ہم آہنگی ہے وہ پیدا نہیں ہوسکتی۔ یا تو ہم نے اس نص کی تفہیم میں غلطی کی اور اہل علم اس کا جواب دے چکے کہ یہاں غلبہ سے مراد عمومی غلبہ نہیں یا یہ صرف خصوصی حالات کی وجہ سے کہا گیا ہے ۔یہ سوالات ہمارے موجودہ دور میں سامنے آئے ہیں اور لوگ اس پر گفتگو بھی کرتے ہیں اس لئے اس کا بھی ہمارے پاس جواب ہونا چاہیے کیونکہ بطور مسلمان ہمارا نقطۂ نظر ایسا ہونا چاہیے جو اسلام یا قرآن مجید سے متصادم نہ ہو۔ ایک اور فکری و نظری مسئلہ ارتداد کی سزا کا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی غیر مسلم مسلمان ہوگا تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے اور جو مسلمان دین چھوڑے گا ہم اسے اس کی اجازت نہیں دیں گے بلکہ اس کیلئے ارتداد کے جرم میں موت کی سزا ہے۔ یہ ریاست میں قانون کے طور پر رائج ہے۔

جیسے ایک روایت ہے کہ جس نے اپنا دین تبدیل کیا اسے قتل کردو۔ جب ہم سماجی آہنگی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو یہ بھی ایک تضاد ہے کہ جب ہم دوسروں کو تو اپنے دین میں آنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن اپنے دین سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتے یعنی تبدیلی یکطرفہ ہے دو طرفہ نہیں ۔ جب برابری کی سطح پر یہ نہ ہو تو پھر سماجی ہم آہنگی کیسی۔ اس سے کیا مراد ہے اس سے مراد کوئی خاص اطلاق ہے اور ہم اسے عموم پر لے آئے یا اس سے مراد یہی ہے جو ہم لیتے ہیں، اہل علم کو اس کا جواب دینا چاہیے اور اگر جواب ہے تو اسے سامنے لے آئیں اور اگر نہیں تو اس پر غور کرنا چاہیے کہ اس تضاد کو کیسے حل کریں۔

پھر ایک اور مسئلہ ہے کہ ہم مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ہم دنیا میں جہاں چاہیں تبلیغ کریں کوئی ہمیں روک نہیں سکتا۔ ہمارے تبلیغی قافلے ساری دنیا میں جاتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں لیکن کوئی مسیحی مشنری وفد پاکستان میں آکر مسلمانوں کو عیسائیت کی تبلیغ کرے ،یہودی کا یا کسی اور مذہب کا وفد آکر یہاں پاکستان میں تبلیغ کرے ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔اگر یہ بات ایسے ہی ہے تو پھر کون سی سماجی ہم آہنگی ہوگی،اگر ہم صورتحال کو ایسے ہی رکھیں گے تو سماجی ہم آہنگی وجود میں نہیں آسکتی اور بھی فکری و نظری سوالات ہیں ۔ تفہیم و تعبیر کے حوالے سے اگر کوئی ایسی چیز ہے جسے ہم لوگوں تک پہنچا سکیں، سماجی ہم آہنگی کے حوالے سے کوئی امر مانع نہیں ہے تو اچھا ہے اور اگر اس کی تفہیم و تشریح سے مزید سوالات پیدا ہورہے ہیں تو کوئی مفسر یا فقہ اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا۔ اللہ کی طرف سے صرف اللہ کے رسول نازل ہوئے ہیں،مفسر اپنی فقہ فی الدین کرتے ہیں اور اپنی محنت سے قرآن و حدیث پر غور کرتے ہیں اور اپنی رائے دیتے ہیں۔ان کی رائے کی ایک علمی حیثیت ہوسکتی ہے،دینی نہیں۔دینی حیثیت صرف نصوص کی ہوتی ہے ان کی رائے سے ہم اختلاف بھی کرسکتے ہیں یہ ہم نہیں کررہے بلکہ ہمارے اسلاف بھی کررہے ہیں ورنہ ایک تفسیر لکھنے کے بعد کسی دوسری تفسیر کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ تفسیروں کے اندر بھی بہت بڑی تقسیم ہے۔تفسیر کی کتابوں میں آپ کو معلوم ہے کہ ایک آیت کی تفسیر و تعبیر میں26,26 اقوال درج ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام کی رائے بھی نقل ہوتی ہے اور اس میں بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن مفسرین ان میں سے کسی ایک رائے کو ترجیح دیتے ہیں یعنی کسی ایک کی بات کو ترجیح دیتے اور باقی کی آراء کو رد کردیتے ہیں یہ ایک علمی روایت ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اپنے خطاب میں کہا کہ میڈیا کے ذریعے ہمیں مغربی دنیا کے اندر جو نفرت کے واقعات رونما ہوتے ہیں وہ ہم تک پہنچ جاتے ہیں مگر اس کے علاوہ جو یورپ میں اچھے واقعات ہوتے ہیں کیا ہم ان سے واقف ہیں۔ اسلامو فوبیا کا تو ہمیں پتہ ہے کہ لیکن جو مسلمانوں کے حق میں اور مسلمانوں کے حجاب کے حق میں وہاں کے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں۔کیا ہمیں ان کا علم ہے کیا ہمیں اس بات کا علم ہے کہ یورپ کے اندر جتنی بھی مسجدیں ہیں ان میں سے اکثر کی ابتدا چرچوں سے ہوئی ہے۔ چرچوں کو بطور مسجد دے دیا گیا اور چرچ کی عمارت کو مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے اور پھر وہاں مسجد کی تعمیر ہوئی ہے اس چیز کا ہمیں بہت کم علم ہے۔ ایک ذاتی واقعہ آپ کو بتاتا چلوں کہ

ہمارے تعلیمی نصاب کا موضوع ہی جنگ و جدل کی کش مکش اور غلبہ ہے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و ہم آہنگی کا جذبہ ہمارے نصاب کا حصہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کا ذہن بھی ایسے ہی بنتا ہے کہ وہ جب معاشرے میں آتے ہیں تو عدم برداشت کے رویے جنم لیتے ہیں پھر شدت پسندی اور مناظرہ نمایاں نظر آتا ہے،مکالمہ کہیں دکھائی نہیں دیتا اور جہاں جنگ و جدل والے لوگ ہیروہوں وہاں اہل علم و قلم اور امن پسند لوگوں کو کون پوچھتا ہے۔

جرمن سکالر اور اسلام آباد میں جرمنی کے سفارتخانے میں تعینات ڈاکٹر ڈین ٹیڈن نے مہمان مقررکی حیثیت سے شرکت کی اور حاضرین سے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ کانفرنس میرے لئے بہت دلچسپ ہے کیونکہ پاکستان اور پاکستانی قوم اس وقت کئی طرح کے مسائل کا سامنا کررہی ہے اس لئے میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ میں زیادہ تر اس بات پر توجہ دوں جو لوگ یہاں کررہے ہیں ۔ زیادہ اہم یہی ہے کہ آپ کو سنا جائے اور سمجھا جائے کہ آپ کی مشکلات کیا ہیں۔جرمنی بھی بذات خود مذہبی حوالے سے مختلف تنازعات کا شکار رہا ہے۔16ویں صدی اور17 ویں صدی میں فرقہ وارانہ لڑائیاں مختلف عیسائی فرقوں کے درمیان رہی ہیں ۔ مختلف ریاستوں کے درمیان جنگیں جرمنی کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد100 سال پہلے جرمنی میں لوگوں نے صورتحال پر غور شروع کیا اور آپس کے اختلافات کو سمجھنے کی کوشش کی ۔اس وقت جرمنی تمام مذاہب اور مسالک کیلئے پرامن ملک بن چکا ہے۔جہاں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے وہاں مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال قائم کی ہے۔ ہر ملک کی اپنی روایات،ثقافت اور حالات ہوتے ہیں اور سب سے بہتر یہی ہے کہ ہر ملک اپنے حالات کے مطابق سماجی ہم آہنگی کیلئے کام کرے۔

میں نے اپنے ملک کی جامعات میں ہی تمام مذاہب کی تعلیم حاصل کی ہے ۔ چھ ماہ عیسائیت کی تعلیم حاصل کی ہے اور چھ ماہ اسلام کا مطالعہ کیا ہے اس لئے ہمیں دیگر مذاہب کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کی تعلیمات کا بھی مطالعہ کرسکیں یہ کانفرنس قابل تعریف ہے کہ اس میں تمام مذاہب اور مسالک کے افراد شریک ہیں اور آپ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اور مکالمہ میں شریک ہیں۔

تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے وایس پرنسپل مفتی محمد زاہد نے کہا کہ میں نظریاتی اور فکری مباحث کی بجائے آپ کے سامنے عملی نوعیت کی کچھ چیزیں رکھوں گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری اس نشست کے موضوع کا جو مخاطب ہیں وہ نوجوان ہیں۔ نوجوانوں نے جو زندگی میں کردار ادا کرنا ہے وہ آنے والے وقت میں ہے۔ مسلک، عقیدے،مذہب سے لگاؤ بہت اچھی بات ہے مگر ہمیں اس بات پر ضرور غور کرلینا چاہیے کہ کسی بھی مہم کا حصہ بننے سے پہلے کہ کیا واقعی یہ میرے عقیدے یا مذہب کا معاملہ ہے یا اصل مسئلہ کوئی اور ہے اور مفادات یا تنازعہ کوئی اور ہے اور میرے مسلک کو استعمال کیا جارہا ہے۔ ہر وہ شخص جس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اس کا کردار ، انداز تکلم اور ابلاغ بہت خوبصورت اور نرم ہونا چاہیے۔ہمیں قرآن حکیم نے بتلایا ہے اور یقیناًدوسرے مذاہب کی بھی یہی تعلیم ہے۔جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ یہی سخت کلامی اور نامناسب انداز گفتگو ہے۔ جب دعوت کی بات کہی گئی تو کہا گیا کہ اچھے طریقے سے بلاؤ اور جب مکالمہ کرو تو دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرو۔ یہی پیغام ہمیں ہمارے دین نے دیا ہے کہ لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ اور ہمیں کہا گیا کہ دوسروں کے جو معبود ہیں انہیں برا بھلا مت کہو یہ نہ ہو کہ وہ تمہارے خدا کو برا بھلا کہیں۔

الشریعہ اکیڈمی اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے منسلک نوجوان عالم اور دانشور عمار خان ناصر نے کہا کہ اگر ہم بات فرد کی ذمہ داری سے شروع کریں اور ان کے کردار کو نمایاں کریں اور ہر فرد کو متوجہ کریں تو ہم آہنگی کا فقدان جہاں بھی ہوتنازعہ اور عدم رواداری جہاں بھی ہو ایک فرد جہاں بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔کردار ادا کرے۔نچلی سطح تک ہماری بالائی یا اعلیٰ قیادت یہ کردار ادا نہیں کرسکتی۔بطور خاص نوجوان نسل کا اس ضمن میں اہم کردار ہے ، ہم میں سے یہ کوئی نہ سمجھے کہ جب تک وہ کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کا لیڈر نہ ہو،دوچار ہزار لوگ اس کے پیچھے نعرے مارنے والے نہ ہوں وہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔

دوسری چیز جو میں عرض کرنا چاہوں گا وہ ان نوجوانوں کیلئے ہے جو کچھ عرصے بعد یا چند سالوں بعد قیادت کا منصب سنبھالنے یا لینے والے ہیں، سماج کو کسی سمت آگے بڑھانا اور ان کو کسی رخ کی جانب موڑنا قیادت کا کام ہے اور قیادت سے مراد صرف اعلیٰ سطح کی قیادت نہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو لوگوں کا رویہ بنانے، ان کا رخ متعین کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں وہ قائدین میں شامل ہیں۔ ہم میں سے جتنے لوگوں کو کچھ عرصہ بعد اگر کوئی منصب ملنے والا ہے، جس میں سوسائٹی کا ایک حصہ آپ کی کہی ہوئی بات کو سن کر عمل کرے تو ان لوگوں کے کردار کیلئے یہ چند باتیں ہیں آج کے نوجوان کو ابھی سے وہ کردار ادا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔حضرت عبداللہ ابن عباس کے متعلق روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت سے حصول علم اور اس کی ترویج کی خواہش ظاہر کی تھی اور اس کیلئے کوشش کا آغاز کیا تھا جب میں ابھی نو عمر تھا اور اس وقت کبائر صحابہ اور اہل علم شخصیات کی موجودگی میں اگرچہ میری ضرورت نہیں تھی مگر مجھے علم تھا کہ ایک دور آئے گا جب ہمیں یہ منصب سنبھالنا ہوگا، اس کیلئے میں نے اس وقت سے علم حاصل کرنا شروع کیا۔

اس وقت ہمیں معاشرے اور سماج میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت سماج مختلف قسم کے تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔سب سے پہلی چیز جو ہمیں دیکھنی ہے اور تحقیق کرنی ہے کہ ان تنازعات اور تصادم کے پیچھے اساب کیا ہیں اور اگر کسی نتیجے پر پہنچنا ہے تو ان اسباب کو ختم کرنا ہوگا۔ ہم آہنگی میں رکاوٹیں اور چیلنجز کیا ہیں یہ ابھی سے نوجوانوں کے تجزیے اور تحقیق کا موضوع ہونا چاہیے۔

جب ہم مذہبی تناظر میں سماجی ہم آہنگی کو دیکھیں گے تو ایک بات جو ہمارے سامنے آئے گی وہ مذہبی تصورات میں فکری ابہامات ہیں۔اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ چیزیں اور فکر ہمیں مسئلہ کے ایک رخ کی جانب لے جائیں گی جبکہ کچھ ہمیں اس مسئلہ کے دوسرے پہلو کی جانب موڑیں گی اور یوں ہم درمیان میں لٹک جائیں گے اور کچھ فیصلہ نہیں کر پائیں گے۔

خورشید ندیم صاحب نے جتنے سوالات اٹھائے یہ فکری ابہامات کی مثالیں ہیں اس کے علاوہ بھی کئی ہیں۔ہماری جو14 سو سالہ تاریخ ہے اس میں ہماری دینی،مذہبی اور سیاسی تعبیرات کی ایک تاریخ ہے۔ معاشروں کی تشکیل اور دنیا کی مختلف اقوام کے ساتھ تعلقات اور مسلم و غیر مسلم کے درمیان تعلقات کی نوعیت، اس کا پورا نقشہ ہمیں ملتا ہے لیکن آج ہم جس ماحول اور جدید دنیا میں رہ رہے ہیں اس کے تقاضے اور جبر کسی اور طرح کے ہیں۔اس لئے ابہام اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اس پوری فکری مذہبی و سیاسی تعبیرات کی تاریخ کو ساتھ لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں وہ انہیں قبول نہیں کرتا۔تو اس سے ہم کش مکش اور تضاد کا شکار ہوتے ہیں کہ ہم کس طرف جائیں اور جب تک ہم کھلے دل سے ان تضادات کو زیر بحث لا کر ان کا حل تلاش نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے اور ابہامات موجود رہتے ہیں۔

دوسری چیز میں نوجوانوں کو کہوں گا کہ آپ کو اپنے کردار کا تعین جانبداری کی بنیاد پر کرنا چاہیے،لیڈروں یا سیاستدانوں کی ایک مجبوری یا نفسیات ہوتی ہے کہ انہیں مقبولیت چاہیے ہوتی ہے اور پیروکار بھی چاہیے ہوتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سیاستدان صرف اپنے طبقہ کے نمائندہ ہوتے ہیں، یہ کوئی لیڈر یا رہنما نہیں ہوتے۔موجودہ جمہوری نظام پوری دنیا میں کوئی رہنما پیدا نہیں کرسکا۔اسی نظام کے اثرات ہیں کہ جو ہماری دینی و مذہبی قیادت ہے اس کے اندر بھی اسی سماجی رویے کے اثرات ہیں۔ایک اور بات جو ہماری قیادت کو کرنی چاہیے کہ جس پیغام اور گفتگو کو ہم عوامی فورم پر کہتے ہیں اسی بات کو نجی محفلوں میں بھی کرنا چاہیے۔ اگر ہم وہاں وہ بات نہیں کرتے اور کسی دوسرے مذہب یا مسلک کے بارے میں کوئی بات کی جاتی ہے تو ہم لطف اندوز ہوتے ہیں ہم اسے روکتے یا ٹوکتے نہیں اور صرف ایسی جگہ پر آکر اچھی باتیں کرتے ہیں اس کا منفی اثر ہوتا ہے۔ اس کی اچھی مثالیں موجود ہیں۔