working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

مطالعہ پاکستان

پاکستانی سیاست ،تاریخ روایت اور رجحانات

اناطول لیوان

زیر نظر مضمون نامور برطانوی صحافی اور مصنف اناطول لیوان کی کتاب ’’Pakistan a Hard Country‘‘ سے اقتباسات کا سلسلہ ہے اس سے قبل بھی تجزیات کے قارئین انہی صفحات پر ان کی تحریروں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں ۔ پاکستانی سیاست ،یہاں کی سیاسی جماعتوں اور ان کے رجحانات کا جس باریک بینی سے انھوں نے جائزہ لیا ہے اس سے ان کاموضوع کے ساتھ لگاؤ کا بھی پتہ چلتا ہے۔انا طول نیو امریکن فاؤنڈیشن اور کنگز کالج لندن سے بھی منسلک ہیں۔(مدیر)


سر پرستی اور برادری کے بندھن پاکستان کے سیاسی نظام کے دو بنیادی عناصر ہیں علم کیمیا کی زبان میں بات کی جائے تو ہمیں معلوم ہے کہ پانی کا فارمولاH2O ہے(یعنی دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن) تو اسی اصول کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا فارمولاP2K ہے یعنی دو حصے سرپرستی(Patronage) اور ایک حصہ برادری(Kinship)۔اس سیاسی نظام میں چھوٹی چھوٹی سیاسی گروہ بندیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن یہ گروہ زیادہ تر مالی سرپرستی حاصل کرنے کیلئے وجود میں آتے ہیں تاہم یہ اپنی برادریوں سے جو ان کیلئے بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں مضبوط تعلقات استوار رکھتے ہیں یہ چھوٹے سیاسی گروہ سیاسی شخصیات کو اپنی حمایت فراہم کرتے ہیں لیکن ان شخصیات کو سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کیلئے مضبوط جڑ والی برادریوں کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
اس کے برعکس نظریاتی وابستگی یا اکثر اوقات برسر اقتدار پارٹی کی مایوسی کن کارکردگی کے رد عمل میں پیدا ہونے والی شدید بیزاری،سمندر کے پانی سے وجود میں آنے والی توانائی کی ان لہروں کی طرح کا کردار ادا کرتی ہے جو بعض اوقات بڑی جسامت اختیار کرکے زبردست تباہی کا باعث بنتی ہیں مگر جب یہ لہریں گزر جاتی ہیں تو سطح آب پہلے کی طرح پرسکون ہو جاتی ہے۔پاکستان میں عوامی غم و غصے اور کبھی کبھی لوگوں کے جوش و خروش کی لہریں حکومت وقت کا تختہ الٹ کر نئے لوگوں کو برسر اقتدار لاسکتی ہیں لیکن اس سے سیاست کا بنیادی ڈھانچہ کبھی تبدیل نہیں ہوا۔
ممکن ہے2010ء میں آنے والے سیلاب اس سیاسی نظام کے اندرونی قوت کے نظام میں کوئی بڑی تبدیلی کا موجب بنے ہوں شاید سیلاب سے مقامی زراعت اور اس کے ڈھانچے کو اس قدر نقصان پہنچا ہو کر(جاگیردارانہ بنیادوں پر قائم) سرپرستی کا پرانا نظام،آمدنی اور وسائل میں مایوس کن کمی کے باعث مفادات تقسیم کرنے کے قابل نہ رہا ہو یا پھر لوگوں کی اکثریت جو دیہات سے شہروں میں مراجعت کرنے پر مجبور ہوئے ان کی وجہ سے قرابت داری اور مقامی رسوم و رواج اور طور طریقوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہو اس باب اور کتاب میں ایسے ہی عوامل کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے جو نہ صرف پاکستان کے قیام کے گزشتہ ساٹھ سالوں کی تصویر کشی کرتا ہے بلکہ ملک کے مستقبل کے متوقع امکانات کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی بنے گا۔
تاہم کوئی نتیجہ اخذ کرنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ مروجہ طور طریقے اور روایات اپنے پیچھے ایک طویل تاریخ اور معاشرے میں گہری جڑیں رکھتے ہیں اور پچھلی دو صدیوں سے بڑی بڑی مخالفانہ تبدیلیوں کو اپنی موافقت کے قالب میں ڈھالتے چلے آرہے ہیں شاید مستقبل قریب میں بھی وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہیں تاوقتیکہ حیاتیاتی بقائے باہمی سے متعلق کوئی اتنی بڑی تبدیلی واقع نہ ہو جو خطے میں انسانی وجود کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے۔
یوں پاکستانی سیاست کے میدان میں مدتوں سے قائم و دائم ایسے کئی طور طریقوں پر لمبی بحث کی جاسکتی ہے جن میں ایک اہم حقیقت عوامی اور فوجی حکومتوں کا بار بار اقتدار پر براجمان ہونے اور پھر دستبردار ہونے کا سلسلہ بھی ہے جو کہ ایک عرصے سے چل رہا ہے بلکہ اس نے پاکستان کے سیاسی نظام میں ایک مستقل راستہ تلاش کرلیا ہے جو کہ عوامی اور فوجی مقتدر طبقات کیلئے ایک معمول بن کر رہ گیا ہے حالات کی کوکھ سے ابھرنے والی فوجی حکومتوں کے ادوار نسبتاً طویل ترین تھے کیونکہ فوجی حکمران زیادہ بااختیار سمجھے جاتے اور وہ پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کے ہرگز پابند نہ تھے لیکن آخر کاروہ بھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر تنگ گھاٹی میں مسدود ہو جاتے اور ہر بار پھنس کر رہ جاتے۔
پاکستانی سیاست میں یہی وطیرہ رہا ہے کہ ہر نئی حکومت دو طرح کے وعدوں کے ساتھ اقتدار سنبھالتی ہے ایک وعدہ عام لوگوں سے کیا جاتا ہے جبکہ خواص سے دوسری نوعیت کا وعدہ ہوتا ہے،عوام الناس سے کیے جانے والے عام وعدوں میں بہتر معیار زندگی،بے روزگاری میں کمی،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی وغیرہ شامل ہیں خصوصی وعدے سیاستدانوں سے انفرادی اور گروہی سطح پر کیے جاتے ہیں یہ وعدے حکومتی پارٹی کی حمایت کے صلے میں سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کیلئے انفرادی مراعات اور ان کے انتخابی حلقوں میں ان کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے ترقیاتی کاموں کا اجرا ہوتا ہے۔
اس تمام صورتحال میں ایک مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے یعنی اس طرح ایک غریب اور کمزور ملک کی حکومت گویا چھوٹی سی چادر میں دو اشخاص کو ڈھانپنے کی کوشش کرتی ہے جن میں سے ایک شخص غیر معمولی موٹا ہے اور بستر میں ایک جگہ ٹھہرتا بھی نہیں بلکہ مسلسل کروٹیں بدلتا اور رخ تبدیل کرتا رہتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہنا بجا ہے کہ مالی سرپرستی کی یہ مقدار اتنی ناکافی ہوتی ہے کہ اس کے فوائد نچلی سطح یا ہر شخص تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ یہ عمل ایک دائرے میں سفر کرتا رہتا ہے اور حکومتی مراعات کا بڑا حصہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ پرکشش تنخواہیں اور دیگر مراعات کے حامل وزیروں اور مشیروں کے عہدے1990) اور پھر2008 کے بعد کی سول حکومتوں میں ان کی تعداد60 کے عددی ہندسے بھی تجاوز کر چکی تھی(،مخصوص افراد،طبقات اور اداروں کو ٹیکس میں رعایت،من مانے ٹھیکے،سرکاری قرضے(جوشائد ہی کبھی واپس کئے گئے) اور ٹیکس کی عدم ادائیگی اور مالی خردبرد کے معاملات میں عام معافی کے اعلانات یہ وہ امور ہیں جو سب کے سب مملکت کی مالی افلاس کا باعث بنتے ہیں۔
اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت،عوام اور سیاسی اشرافیہ سے کیے ہوئے وعدے ایفا نہیں کر پاتی یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ(حکومت کے حامی)سیاستدان،اپنے حامی گروہوں اور ووٹروں تک کوئی فائدہ پہنچانے میں ناکامی کے سبب مایوسی میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔کیونکہ آئندہ انتخابات میں ان کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں یوں کسی سیاسی خاندان کو دی جانے والی بڑی سے بڑی حکومتی رعایت اس نقصان کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔
دیہی علاقوں میں،مقامی سیاسی ڈھانچہ مخصوص جاگیردار خاندانوں یا ان کی ذیلی شاخوں یا خاندان یا برادری کی بنیادوں پر وجود میں آنے والے چھوٹے گروہوں کے گرد گھومتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو ملنے والی سرکاری مراعات نہ صرف زیادہ ہوں بلکہ ان کے رقیبوں اور حریفوں کو ملنے والی مراعات سے واضح طور پر زیادہ نظر آئیں کوئی بڑا ٹھیکہ یا سفارتی عہدہ اس غم کا مداوا نہیں کرسکتا کہ آپ اپنے حریف سیاستدان کو وزارت کا حلف اٹھاتے ہوئے دیکھیں کیونکہ بحیثیت وزیر وہ مقامی طور پر اپنے سیاسی حامیوں اور دوستوں کو مزید سرکاری فوائد پہنچانے میں بازی لے جائے گا۔
پاکستان کی گہری نسلی،ثقافتی،علاقائی اور مذہبی تقسیم کے باعث پارلیمنٹ میں کوئی پارٹی بھرپور اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی چاہے اس کی پشت پر فوجی قوت کی حمایت ہی کیوں نہ موجود ہو اگر کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو اس سے بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ کسی بھی رکن اسمبلی کیلئے اپنی سیاسی پارٹی سے وفاداری،اس کے ذاتی مفادات اور برادری کے مفادات کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی اس لئے حکومتیں یہ بخوبی سمجھتی ہیں کہ ان کی پارلیمانی اکثریت،صحرا میں ہوا کے زور سے جگہ بدلنے والے ریت کے ٹیلوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔
جلد یا بدیر باہر والوں(حکومتی عہدوں سے محروم رہ جانے والے ارکان پارلیمان) کو اکٹھا ہونا پڑتا ہے اور رفتہ رفتہ انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی تعداد اندر والوں(عہدے پانے والے پارٹی کے ارکان) سے زیادہ ہے انہیں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ حکومت عوام الناس کے حالات کو بہتر بنانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اب گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کی بے چینی میں اضافہ ہوگا یا کم از کم حکمرانوں کے بارے میں عوام کی خوش فہمیاں ختم ہونے کے بعد اب جو کوئی بھی حکومت کی مخالفت میں میدان میں اترے گا لوگ اس کی حمایت پر آمادہ ہو جائیں گے پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی جاگیردار سیاستدان عابدہ حسین نے مجھ سے کھل کر بات کی’’آپ جانتے ہیں کہ عام حالات میں ایک عام پاکستانی کبھی بھی حکومت نواز نہیں ہوتا اس بات سے قطع نظر کہ کس کی حکومت ہے کیونکہ حکومتیں ہمیشہ عوام کے مسائل سے چشم پوشی برتتی آئی ہیں‘‘۔
حکومتوں کے خلاف عوامی رد عمل سے مسلسل سلگتے غم و غصے کو بعض مخصوص واقعات یا حالات کی کوئی نئی کروٹ جو کہ کسی معاشی بحران یا کرپشن کے کسی بڑے واقعے کی صورت میں منظر پر آئیں یا پھر آمریت یا خارجہ پالیسی کا کوئی ذلت آمیز مظہر یا پھر یہ سب عوامل مشترکہ طور پر مزید عمل انگیزی کرتے ہیں۔
چونکہ سیاست ترتیب و تنظیم سے عاری اور سیاسی حکومت نظم و نسق میں ناکام ہوتی رہی ہیں لہٰذا فوج اور افسر شاہی کے اعلیٰ عہدیداروں نے سیاسی حکومت کی اقتدار سے رخصتی،اس کی جگہ یاتو نئی سیاسی حکومت کو لانے یا پھر اپنی(فوجی)حکومت بنانے یا پھر چند سالہ فوجی حکومت کے بعد اقتدار کی دوبارہ سیاستدانوں کو منتقلی کا ایک طریقہ کار وضع کرلیا ہے جس سے ایک طرح کے سرپرستانہ رویے کا چکر دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔1990 کے بعد پیش آنے والے حالات نے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ فوج پھر کسی وقت میں آسکتی ہے اس طرح سے ممکن ہے کہ عوامی اور فوجی حکومتوں کی تبدیلی کے طریقہ کار میں کچھ بہتری پیدا ہو جائے لیکن مجھے قوی شبہ ہے کہ کوئی بنیادی تبدیلی واقعی وقوع پذیر ہو سکے گی۔؟
یہ قطعاً غلط ہوگا اگر ہم پاکستان کی مذکورہ صورتحال کے تناظر میں جمہوریت اور قانون میں جدید اقدار کا فقدان سمجھیں جب کہ یہ تمام کچھ حد سے بڑھی ہوئی خاندانی،برادری اور مذہبی لگاؤ کا نتیجہ ہے اور پھر اس وفاداری کو زبردست ترغیب و تلقین فراہم کرنے والے عام معاشرتی رویوں کی مسلسل موجودگی ہے جو دراصل جمہوری اور قانونی اقدار میں رخنے کا باعث بنتی ہیں اس طرح کرپشن بھی کوئی ایسا اچھوت کا مرض نہیں جیسا کہ مغربی تجزیہ نگاروں نے نقشہ کھینچا ہے یہ بھی دیگر دنیا کی طرح انسانی جبلت کی پیداکردہ برائی ہے۔
سرپرستانہ رویوں اور برادری کی پرستش کے ساتھ جڑا ہونے کے سبب کرپشن اس پورے نظام کا حصہ بن چکی ہے اس سلسلے میں ملک میں انقلابی اصلاحات متعارف کرانے کیلئے آبادی کی اکثریت کو پس دیوار زنداں بھیجنا پڑے گا یہی وجہ ہے کہ کرپشن یہاں ایک لاعلاج بیماری بن چکی ہے بلکہ جس طرح جنوبی کوریا اور بعض دوسرے معاشروں میں دیکھنے میں آیا ہے ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اسے بتدریج ایک کم تر نقصان دہ صورت یعنی سرپرستانہ رویے کے تحت ڈھال لیا جائے ایک مقامی ضرب المثل ہے’’بددیانتی آٹے میں نمک کے برابر بھی ہوسکتی ہے اور نمک میں آٹے جتنی بھی‘‘ یہ محض تناسب کا سوال ہے۔
جہاں تلک زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے اس طرح کی نہیں جیسا کہ مغربی ممالک کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ایم کیو ایم اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ تمام سیاسی و جمہوری پارٹیاں دراصل بڑے جاگیرداروں،زمینداروں،برادری کے سرداروں اور دیہی وڈیروں کا مجموعہ ہیں جو اپنے اپنے پیروکاروں کیلئے مخصوص قومی شخصیات اور خاندانی حاکموں کی اطاعت گزاری کرتی ہیں۔اکثر سیاسی جماعتوں کے کلیدی افراد کو سیاسی حیثیت اپنے والد سے یا کچھ نے کسی دوسرے رشتہ دار سے ورثے میں پائی ہوتی ہے جو نئے افراد سیاسی قوت حاصل کرتے ہیں وہ اپنی خاندانی حاکمیت خود بنا لیتے ہیں اور پھر وقت آنے پر سیاسی قوت،اثر و رسوخ اور اپنے حامیوں کی ہمدردی کے بل بوتے پر اپنے بیٹوں یا کبھی کبھار اپنی بیٹیوں کو منتقل کردیتے ہیں۔
جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کو بھٹو خاندان،مسلم لیگ کو نواز شریف فیملی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ولی خان کے خاندان کا مرہون منت سمجھا جاتا ہے ان پارٹیوں کے ذیلی حصے بھی مقامی سیاسی خاندانوں پر مشتمل ہیںیہ لوگ اکثر پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں نئے سیاسی خاندانوں سے اتحاد قائم کرنے کیلئے یا پھر ایک لیڈر اور اس کے خاندان پر مشتمل چھوٹی سی الگ پارٹی بنا لی جاتی ہے جیسا کہ پی پی پی(شیر پاؤ گروپ) کی مثال ہے یا پھر بہت بڑے پیمانے پر جیسے کہ پاکستان مسلم لیگ(قائداعظم) ہے جسے مشرف حکومت نے قائم کیا اور گجرات کے دو چوہدری برادران نے اس پارٹی کو متحد کیا اور اس کی قیادت بھی سنبھالی۔
سیاسی وفاداریوں اور وابستگی کے اعتبار سے نظریہ بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتا ہے تاہم جماعت اسلامی کے علاوہ کسی دوسری پارٹی میں نظریے نے غالب کردار ادا نہیں کیا مزید براں ایک جماعت کے ساتھ طویل المیعاد وابستگی اور وفاداری جسے مبصرین نظریاتی وابستگی خیال کرتے ہیں ممکن ہے یہ ازمنہ وسطیٰ کے سماجی تقاضوں سے زیادہ مماثل ہو یا یہ وفاداری کسی خاص لیڈر یا خاندان کے ساتھ ذاتی تعلق کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے آج کل جس طرح سیاستدانوں کو سراہا جاتا ہے یہ پٹھان روایت کے زیادہ قریب ہے وہ اپنے سردار کی پذیرائی اسی انداز میں کرتے تھے انہی عوامل کی170 سال قبل Mount Stuart Elphinstone نے اس طرح وضاحت کی تھی۔
’’یہ لوگ پر تفاخر،بلند حوصلہ،سرکش ہیں لیکن تنگ دل ہرگز نہیں ہوتے اور قبیلے کے حوالے سے ثابت قدم ہوتے ہیں جبکہ عزت اور وقار کے معاملے میں سخت رویہ اپناتے ہیں کیونکہ یہ ان کا لوگوں کے ساتھ گہری وابستگی کا باعث بنتا ہے۔‘‘
کسی جماعت یا سیاسی شخصیت یا اس کے خاندان کے ساتھ ذاتی وفاداری اس حقیقت سے بھی مترشح ہے کہ ان کے پاس کوئی دوسرا نعم البدل موجود نہیں ہوتا ایک دفعہ سفر کے دوران لوگوں نے انکشاف کیا کہ’’بلاشبہ فلاں اور فلاں خان حکومتی پارٹی میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیونکہ شریف اور بھٹو حکمران ان کے کرتوتوں کی وجہ سے انہیں ہرگز معاف نہیں کریں گے جو اس نے اپنے دور حکومت میں ان کے خلاف انجام دیئے۔اس کے علاوہ مقامی سیاسی رقیب ایک دوسرے کی مخالفت اور دشمنی کی وجہ سے بھی اپنی پرانی پارٹیوں سے چمٹے رہتے ہیں۔
پاکستان کے صرف دو علاقے ایسے ہیں جن کی مثال ان سے مختلف ہے ایک تو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ فاٹا ہے جو کبھی بھی مکمل طور پر حکومتی سرپرستی میں نہیں رہا اور بیشتر علاقے کو تو طالبان نے حکومتی کنٹرول سے علیحدہ کرلیا ہے دوسری مثال کسی حد تک کراچی میں ایم کیو ایم کے ماتحت علاقے کی ہے یہ لوگ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہاں سے ہجرت کے دوران اپنے آباؤ اجداد کے علاقے چھوڑ چھاڑ کر برادری اور قرابت داروں سے کٹ کر اور اپنی ثقافتی رشتوں سے منہ موڑ کر یہاں آئے پھر ان مہاجرین نے اس کا مداوا ایک جدید نسلی اور ثقافتی جماعتی سیاست کی شکل اختیار کرکے پورا کیا ۔
فوج اور سیاست
پاکستان کے سیاسی نظام کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے چار مرتبہ فوج اقتدار پر قابض ہوئی اور ایک طویل عرصے تک اس ملک کو فوج کے دست کرم پر رہنا پڑا۔سیاستدانوں سے سازباز اورصحافیوں پر دباؤ بھی مرضی کی حکومت مسلط کرنے کیلئے روا رکھا گیا۔ریٹائرڈ یا حاضر سروس افسران نے اپنے طور پر فوج کے اس سیاسی کردار پر غیر معذرت خواہانہ رویہ اپنایا جیسا کہ ایڈمرل(ریٹائرڈ)ارشد گیلانی نے نومبر1990ء کی ایک ملاقات میں مجھے آگاہ کیا:
’’جمہوریت ناکام ہو چکی ہے۔یہ ہمارے مزاج کے موافق نہیں مغربی ممالک نے صدیوں کے سفر کے بعد اسے اپنایا جبکہ ہمیں وجود میں آئے محض60 سال کا عرصہ ہوا ہے صرف فوج ہی ملک کی ایک ایسی طاقت ہے جو منظم نظم و ضبط کی مظہر ہے اور یہی ادارہ سالمیت اور اقتصادی ترقی کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے اگر پاکستان کی تاریخ میں فوج کا کردار زیادہ نظر آتا ہے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔بے نظیر کو فوج سے یہ شکایت رہی کہ اسے کام کا موقع نہیں دیا گیا تو بسم اللہ! میدان حاضر ہے۔یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ہمیں مان لینا چاہیے کہ جس کے پاس طاقت ہے وہ اس سے دست کش نہیں ہوگا اگر پی پی پی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تو اسے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ فوج سے بہتر انداز میں حکومت چلانے کی اہل ہے۔‘‘
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ سیاسی قوت کئی مقامی صورتیں اختیار کرچکی ہے اور اس کا دارومدار سرپرستانہ قوتوں کے علاوہ دیگر عوامل پر بھی ہے جو اپنی حدودو قیود کی وجہ سے فوج کو طویل عرصے تک مسلط کرنے کا باعث بنے۔دوسری جانب عوامی حکومتیں اور ایجنسیوں کے اثر انداز ہونے کے مختلف ذرائع دیکھے جاسکتے ہیں جس کی1990 میں سندھ کی نگران حکومت کے ایک وزیر مظہر جتوئی نے کچھ یوں تصویر کشی کی۔
’’اگر کوئی سیاسی حکومت اقتدار میں انتخابی مہم چلا رہی ہو تو پھر پی پی پی کے نمائندے کی زمینوں کا پانی روک دیا جائے گا اور سرکاری قرضہ واپس مانگا جائے گا آصف زرداری کے گھر پر چھاپے مار کراس کے رشتہ داروں کی اس الزام میں پکڑ دھکڑ ہو گی کہ انہوں نے ڈاکوؤں کو پناہ دے رکھی تھی اور ہراساں کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کے جھنڈے اور اسٹکرز والی گاڑیوں کو روک کر ان کے ٹائروں کی کارکردگی جانچی جائے گی اور کاغذات کی جانچ پڑتال ہوگی۔اس ملک میں حکومت پر براجمان پارٹی اس طرح انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔‘‘
فوج کی جانب سے سیاست میں سازباز کرنے کیلئے ان کیلئے سیکورٹی کے ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔فوج ایک ایسا ادارہ ہے جو داخلی سلامتی کیلئے سیاست پر نظر رکھنے پر اپنا حق سمجھتی ہے جیسا کہ سینئر ریٹائرڈ جنرل کی سوچ سے بھی واضح تھا اس نے مجھے بتایا کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی صوبہ سرحد،سندھ اور بلوچستان میں ایسی جماعتوں کا قیام عمل میں آ گیا تھا جو ملک توڑنے کے درپے تھیں اور پس پردہ ہندوستان،افغانستان اور روس سے قریبی روابط بھی تھے۔اس نے مجھے بتایا کہ ان حالات میں کوئی ملک بھی مضبوط خفیہ اداروں کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا اور سیکورٹی کے ادارے نے فوجی حکومت کی مقامی مخالفین کے خلاف بدرجہ اتم مدد کی ہے جبکہIB کو کئی عوامی حکومتوں نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔

جولائی2009 میں ایک سیکورٹی ادارے کے سینئر آفیسر نے ادارے کے سیاسی کردار اور اس کی حدود کے حوالے سے دلچسپ تبصرہ کیا۔
’’جب مجھے خفیہ ایجنسی کے متعلق اپنے ہی ملک میں کام کرنے کے مفروضے سے آگاہ کیا گیا تو میں بہت ہنسا اگر ان کا کہنا حقیقت پر مبنی ہوتا تو کیا خیال ہے کہ جنرل ضیا الحق ابھی تک اقتدار پر قابض نہ ہوتے یا نواز شریف اور اس کی پارٹی آنکھیں دکھانے کی بجائے وفاداری کا ثبوت نہ دے رہی ہوتی۔؟ جہاں تک سیاسی ہتھکنڈوں کا تعلق ہے تو میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہر سیاسی حکومت نے ہمیں اورIB کو اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا انتخابات میں دھاندلی کے خود مرتکب ہوئے چنانچہ ان کی شکایات محض مضحکہ خیز لگتی ہیں۔ ہم نے کبھی بھی عوامی حکومت یا فوج کے کہنے پر عام انتخابات میں دھاندلی کا ارتکاب نہیں کیا پاکستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور ہم اتنے طاقت ور نہیں ہیں اور نہ ہی ہماری تعداد کچھ زیادہ ہے مالی حالات بھی مناسب نہیں۔یاد رکھیں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کرنے کیلئے گراں قدر پیسے درکار ہوتے ہیں اور یوں سینکڑوں سیٹوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ہم نے ابھی تک جو کچھ کیا ہے محض نظام کو دھکا دینے کے مترادف ہے بعض دفعہ کسی مخصوص انتخابی حلقے میں کوئی نتیجہ حاصل کرنے کی نوبت آتی ہے تو پھر ہمارے پاس کئی مروجہ طریقے ہیں لیکن تمام ملک کے حوالے سے کبھی ایسا نہیں کیا گیا۔‘‘
مذکورہ ایجنسی کی جانب سے سیاست میں اثر انداز ہونے کے حوالے سے یہ بیان قابل غور تھا کیونکہ یہ بعض حوالوں سے خاصا درست بھی تھا۔پہلی حقیقت تو یہ تھی کہ عوامی حکومتوں نے ہی غیر آئینی کاموں کیلئے ان ایجنسیوں کو استعمال کیا جیسا کہ بے نظیر بھٹو کے مشیر اقبال کنڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ابتدائی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں نے مضبوط سیاسی پارٹیوں پر انحصار کی بجائے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ایجنسیوں پر ہی بھروسہ کیا۔خفیہ ایجنسی میں سیاسی شعبے کے قیام میں ذوالفقار علی بھٹو کا اہم کردار رہا ہے دس سال بعد اسی شعبے کا ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے خلاف بننے والے مسلم لیگی اتحاد اورIJI کے اشتراک میں بھی خاصا عمل دخل رہا۔
موصوف کا یہ کہنا بجا تھا کہ ایجنسی تو محض سیاسی نظام کے عمل میں تخم ریزی کرتی ہے اور وہ اس نظام کے خلاف بھی نہیں ہے انتخابات کے دوران اس کی مداخلت محض مخصوص حلقہ انتخابات تک محدود رہی ہے نہ کہ ملک بھر کی سطح تک انتخابات کے نتائج کو کبھی تبدیل کرنے کیلئے اثر انداز ہونے کی نوبت آئی۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ چھوٹی دوڑ کے اثرات بھی خاصے بڑے ہوتے ہیں اور بڑی تبدیلی کو کوئی روک نہیں سکتا جیسا کہ1988 اور پھر2008 میں پی پی پی اور1997 میں مسلم لیگ کی حکومتیں عمل میں آئیں،2008 میں مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے مجھے بتایا کہ’’فوج اور ایجنسیاں تب تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں جب تک عوام آپ کے ساتھ ہیں اور اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ گھوڑا آپ کو تب تک سواری مہیا کرتا ہے جب تک آپ کی ٹانگوں میں طاقت ہے۔‘‘
سینئر بیوروکریسی پر بھی خفیہ ایجنسی اثر انداز ہوتی رہی ہے کیونکہ سیکورٹی کی منفی رپورٹ ان کے مستقبل کو خراب کرسکتی ہے اس کا مطلب ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے ہی سیاستدانوں نے سرکاری ملازمین(Civil Servents) کو اپنا مطیع بنا لیا ہے چنانچہ ان کی جانب سے فوجی مداخلت کے خلاف کسی سنجیدہ مدافعت کا امکان بھی نہیں اور نہ ہی ان کو اقتدار میں لانے کیلئے راہ ہموار کرنے کی جرات ہے۔
2009 میں فوجی ایجنسی کے ایک سابقہ آفیسر بریگیڈیئر امتیاز کے نام کی بازگشت سنائی دی گئی جنہوں نے1990میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے میں تنظیمی کردار ادا کیا اس کارروائی نے Operation Midnight Jacal کے نام سے شہرت پائی تھی۔
نظام کیسے چلتا ہے
پاکستان اور مغرب کے تجزیہ نگاروں نے پاکستان کی عمومی تصویر منفی انداز میں پیش کی پاکستان کا سیاسی نظام حقیقت میں دو رخی ہے ایک جانب تو ملک کی اقتصادی ترقی کی حالت انتہائی مخدوش ہے اور اس صورتحال پر1988 میں سابقہ وزیر خزانہ محبوب الحق نے تفصیل بتائی تھی اور آج20 سال بعد بھی مجھے اس میں سچائی نظر آتی ہے:
’’پاکستان کی ترقی میں کبھی اقتصادی پہلو کو پیش نظر نہیں رکھا گیا جس کی بنیادی وجہ ہمارا سیاسی نظام ہے ہم محصولات میں دگنا اضافہ کرسکتے ہیں حتیٰ کہ ہندوستان بھی ہم سے50فیصد سے زائد محصولات حاصل کررہا ہے۔
اسی طرح بنیادی ضرورتوں اور تعلیم کے شعبوں میں پیسہ خرچ کیا جارہا ہے لیکن فی الحقیقت زراعت کے شعبے سے پاکستان کو کوئی ٹیکس مہیا نہیں ہورہا کیونکہ موروثی زمیندار ملکی سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں اس لئے ان کی ہر حکومت پر گرفت مضبوط ہوتی ہے تاجروں کو قومی خزانے سے قرض جاری کیے جاتے ہیں اور پھر سیاستدانوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے پر یہ قرض معاف کردیئے جاتے ہیں۔سیاستدان بدعنوان عناصر کی سرپرستی کرتے ہیں تاکہ دونوں فوائد حاصل کرسکیں۔
ہر دفعہ نئی سیاسی حکومت برسر اقتدار آتی ہے وہ اپنے حمایت کرنے والے سیاستدانوں کو قومی پیسے اور ملازمتوں سے نوازتی ہے تاکہ وہ یہ باور کراسکیں کہ ان کے انتخابی وعدوں کا ادراک کیا گیا ہے اس طرح طویل مدتی منصوبوں سے جان چھوٹ جاتی ہے اور جہاں تک ترقیاتی کاموں کا تعلق ہے اس میں بھی افسر شاہی اور جمہوریت نے مل کر برے نتائج کو جنم دیا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں صرف غیر سیاسی فنی ماہرین ہی محصولات کو بڑھاوا دے سکتے ہیں لیکن وہ سیاسی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک حکومت نہیں چلا سکتے۔یہی وجہ ہے کہ ہم جتنا چاہتے تھے اس قدر اقتصادی معاملات کو اپنی ڈگر پر نہیں لا سکے اور سال ہا سال یونہی گزر گئے ادھر سیاستدان اور حکومتی اہلکار بھی بھٹو صاحب کے جاری کردہ نظام کو ہی پسند کرتے ہیں اور یہ ان دونوں عناصر کو اس لئے مرغوب ہے کیونکہ انہیں صنعت اور بینکنگ کے شعبوں میں اپنے رشتہ داروں اور حامیوں کیلئے نوکریاں مل جاتی ہیں۔‘‘
یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ موصوف جنرل ضیا الحق کی مطلق العنان حکومت میں وزیر خزانہ تھے لیکن انہوں نے بے باکی سے اعتراف کیا کہ حکومت پاکستانی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی متعارف کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔محصولات کا فقدان یا سیاسی سرپرستی کی وجہ سے محصولات کی کمی پاکستان کی قومی ڈھانچے کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے خاص طور پر مستقبل میں پانی کے ناکافی ذخائر ملک کی بقا کا مسئلہ بن سکتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی نظام انقلابی تبدیلیوں کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے جیسا کہ طالبان اور ان کے حامیوں کی راہیں مسدودکی گئیں اور یہ رکاوٹیں خام طاقت اور رسوخ محض جاگیرداروں اور شہر کی بااثر شخصیات کے مرہون منت ہی نہیں تھیں بلکہ اس نظام کا حصہ تھا جو سرپرستانہ حرکی قوت کی وجہ سے آبادی کی غریب تعداد کی فلاح و بہبود کیلئے حرکت پذیر ہے۔
Stephen Lyonاور دوسرے محققین کا کہنا ہے کہ سرپرستانہ رویوں کو پاکستان میں امراء کے تحفظ کے طور پر ہی نہیں دیکھنا چاہیے اور ناں ہی اعلیٰ اور ادنیٰ کے تعلقات پر ہی اسے پرکھنا چاہیے،برادری کی وفاداری کی خاصی اہمیت دیکھی گئی ہے جیتنے کیلئے ووٹوں کا حصول، اور بعض دفعہ افواج کی حمایت کو مدنظر رکھیں تو پتا چلتا ہے کہ معاشرے کی کثیر تعداد کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس طرح غریب اور نادار لوگوں کی کثیر تعداد سے بھی ان کے سرپرستوں کی مدد سے مناسب حد تک مدد لی جاسکتی ہے بلکہ دیہاتوں میں تو غریب ترین لوگوں سے دیگ کی روایت اسعتمال کرتے ہوئے فوائد حاصل کرلیے جاتے ہیں جہاں وہ مقامی زمیندار کسی علاقائی تقریب میں اپنی شہرت اور فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا اپنے حریفوں پر رعب جھاڑنے کیلئے تمام گاؤں میں مفت کھانا تقسیم کرتے ہیں۔
لوگ سرپرستی کے سہارے برادری کے بنے جال میں داخل ہو کر سیاستدانوں کیلئے حمایت کی راہ ہموار کرتے ہیں،دفاتر میں براجمان سیاستدان مختلف طریقوں سے یہ قرض چکاتے ہیں وہ اپنی برادری کے افراد یا ان سے تعلق رکھنے والی برادریوں کے تعاون سے تھانے کچہری وغیرہ کے کام میں معاونت کرکے لوگوں کے کام نمٹاتے ہیں ،تمام گاؤں والے بجلی،گیس،سڑکیں اور پانی کے منصوبوں سے مستفید ہوتے ہیں۔اس طرح عوام میں پروپیگنڈا جنگل کی آگ کی طرح پھیلا کر سیاسی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں فیصل آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار کا کہنا ہے کہ:
’’پاکستان کے سیاسی اور حکومتی نظام میں جاگیردارانہ نظام کا اتنا قصور نہیں جس قدر جنوبی ایشیا کی سیاسی ثقافت کا ہاتھ کارفرما ہے یہاں لوگ ہر قیمت پر ذاتی اور خاندانی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کا غلط استعمال بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔‘‘
بے شک پاکستان کے قومی وسائل کو چوہوں کی طرح کتر کتر کر ضائع کیا جارہا ہے لیکن وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور ریاست کے کام کرنے کی استعداد کی نوعیت ایک جیسی ہے لیکن زیادہ تر ثمرات کو مغربی بینکوں کا حصہ بنانے کی بجائے دوبارہ اسی معاشرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔
پاکستان ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات کے ساتھ محدود مقدار میں اسٹیل اور تانبا جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے برآمد کرتا ہے اور نہ ہی قانونی برآمدات بین الاقوامی معیار کا مقابلہ کرتی ہیں کہ جس سے قسمت تبدیل ہو جائے کیونکہ وہ اس قدر نفع آور نہیں ہیں۔پاکستان کے بڑے بڑے زمیندار بھی اپنی زمینوں سے کم ہی فوائد حاصل کرپائے ہیں۔ شہری زمین کے مالک بھی صرف کرایے حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی ملک کی تمام غربت کو ذہن میں رکھیں تو خاصے محدود ہیں کراچی جیسے شہر میں بھی آسمان سے باتیں کرتی کسی عمارت کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
درحقیقت پاکستان میں قسمت بنانے سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ ریاست کا خون نچوڑا جائے اس کے علاوہ بین الاقوامی امداد کے بہاؤ پر نظر رکھی جاتی ہے یہ ایک ایسا اصول ہے جس سے ملک کی اشرافیہ مغرب سے آنے والا پیسہ حاصل کرتی ہے پاکستان کے قانون سے ماورا معاشرے کا یہ ایک ہلکا سا پرتو ہے یعنی آپ کا ریاست میں اثر ورسوخ ہو تو پولیس اور عدالت کو اپنے زیر اثر لاسکتے ہیں کوئی غارت گر یا ریاستی قوت آپ کا گچھ بگاڑ نہیں سکتی۔
یہ تما م معاملات اہم اور واضح نتائج کے حامل ہوتے ہیں اس لئے سب سے پہلے حدود کا تعین کیا جاتا ہے کہ آپ کس قدر فوائد حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں بہت سے سیاستدان طویل عرصے تک اقتدار میں نہیں آتے اور عموماً اس کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے(کیونکہ ان کا سیاسی سرپرست پرکشش عہدہ سنبھال نہیں پاتا) زیادہ تر افسران پرکشش اور نفع بخش دفاتر سے دور رہ جاتے ہیں۔مزید براں کوئی وزیر یا افسر جو اپنے لئے انتہائی حد تک پیسے حاصل کرلیتا ہے تو اس کے ساتھی اس کا متبادل لانے کے درپے ہو جاتے ہیں تاکہ وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں ۔
میری بہت سے ایسے سینئر سیاستدانوں سے شناسائی ہے جنہوں نے لندن کے پوش علاقوں میں اپنی جائیدادیں بنا رکھی ہیں یقیناًان میں سے زیادہ تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو جائز کمائی سے ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ زیادہ تر کے نائٹ برج یاKensington میں فلیٹ تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ دوسرے سیاستدانوں کے خلاف نکتہ چینی نہیں کرتے کیونکہ وہ ان کے اڑوس پڑوس میں ویسے ہی فوائد حاصل کررہے تھے۔تاہم بھٹو صاحبان کی طرح کے دیگر امیر خاندان جو حکومت میں اپنی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ میں پوری پوری مضافاتی اسٹیٹس خرید لیتے ہیں بدنامی کا باعث بنتے ہیں یوں ان کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ریاست میں اثر و رسوخ حاصل کرکے خاصے پیسے حاصل کرنا چاہتے ہیں یعنی سیاسی قوت بننا چاہتے ہیں تو اس کیلئے حمایتی درکار ہوں گے یعنی ایسے لوگ اور خاندان جو طاقت ور ہوں ان کے پاس آپ کی حفاظت کیلئے بندوق بردار محافظ ہوں اور آپ کو ووٹ ڈالنے کیلئے عام لوگوں کی خاصی تعداد ہو اس طرح آپ کی مدد کرنے والے جواباً انعام و اکرام کی توقع رکھیں گے دوسرے لفظوں میں ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی رقوم کا خاصا بڑا حصہ سرپرستی اور تحائف کی صورت میں گردش کرتا ہوا نچلی سطح تک پہنچے گا کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عمل دھیما پڑ جائے گا سرپرستی کے نظام کا ایک مضبوط گردشی پس منظر ہے جو کہ کسی بھی انقلاب کی راہ کو روکنے کیلئے مضبوط کردار کا حامل ہے۔
اگر پاکستان میں برادری کے گروہوں کی سیاسی قوت کا انحصار صرف سرپرستی کی تقسیم پر ہوتا تو یہ طاقت وقت کے ساتھ معدوم ہو چکی ہوتی لیکن اس کی جڑیں تو قدیم سماجی جبر کے زیر اثر اجتماعی دفاع کے فلسفے میں پیوست ہیں۔ریاست کے غارت گروں کا مقابلہ کرنے کیلئے برادری کی طاقت کا مجتمع ہونا ضروری ہے یہی ایک اہم وجہ ہے کہ ان عوامل نے برادری کے گروہوں کی بھی غارت گری کے معیاروں پر پرورش کی ہے اور وہ ریاست میں اپنی طاقت،پیسہ اور فتح کو دوسرے گروہوں پر منواتے ہیں چنانچہ پاکستان کی قدیم برادریوں کے گروہ اور جدید پاکستانی ریاست صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد ساتھ
ساتھ چل رہے ہیں اور اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ایک دوسرے کیلئے فطری عمل کا جزو ہیں۔
اس نظام کے پاکستان پر واضح اثرات دکھائی دیتے ہیں اورGini Co-efficient کی شرح کے مطابق عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ معاشرے میں امیروں کی آمدنی کے مقابلے میں غرباء کی آمدنی کی نسبت خاصی کم ہے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق2002 میں ہندوستان کی36.8، امریکہ کی40.8اور نائیجیریا کی 43.7 کے مقابلے میں پاکستان میں یہ مقدار30.6 تھی ۔فرق صاف ظاہر ہے کہ اگر آپ کسی پاکستانی خاندان کے ساتھ مل بیٹھیں اور ان کی آمدنی اور خرچ کا حساب کتاب لگائیں۔ملازمین،گن مین اور حامیوں اور کفیلوں کی ماہانہ تنخواہیں ہوں گی(بعض اوقات بڑے خاندانوں میں تو مستقل بنیادوں پر رکھے گئے موسیقار بھی شامل ہوتے ہیں جو ان کی مدح و سرائی میں گانے گاتے ہیں) اس کے علاوہ سیاسی آمدورفت(بشمول شادی بیاہ اور موت مرگ پر باقاعدگی سے آنا جانا) سیاسی رکھ رکھاؤ کیلئے رشتہ داروں کے ساتھ گرم جوش تعلقات اور کچھ طاقت ور خاندانوں میں تو یہ اخراجات متوازن نہیں ہوتے جب تک کہ ان کے خاندان کا کوئی فرد کسی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز نہ ہو۔
اس تمام صورتحال کا پاکستانی سیاستدان گھرانوں کی رہائش گاہوں سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اگر تمام آبادی کو مدنظر رکھیں تو ان کا معیار خاصا پرتعیش ہے اگر ان کے رقبے کو بالغ النظری سے دیکھا جائے تو مبالغہ آمیزی کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے کیونکہ ان گھروں کی شان و شوکت کو وہاں رہائش پذیر سیاسی کارکن،نوکر چاکر اور افراد خانہ کی چہل پہل مزید چکا چوند کرتی ہے۔
جھنگ سے تعلق رکھنے والے پیر خاندان کے چشم و چراغ مخدوم فیصل صالح حیات کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جنہوں نے پی پی پی کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا اور پھر مشرف انتظامیہ کے تحت پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرلی اور اب2010 سے دوبارہ اپوزیشن میں بیٹھے ہیں پہلی نظر میں ان کی رہائش گاہ سامنے سے یونانی عہد کی کوئی عمارت نظر آتی ہے رات کو جلتی ہوئی بتیوں کا چراغاں کا منظر دیکھ کر بکنگم پیلس کا گماں ہوتا ہے۔
درحقیقت یہ ایک عظیم الجثہ سیاسی بیریکس ہے زیادہ تر کمرے سنسان پڑے ہیں جو محض سیاسی کارکنوں اور ملنے والوں کیلئے رات گزارنے کا کام دیتے ہیں جبکہ بڑا حال سیاسی اجلاس کیلئے مختص ہے اسی طرح بہت سے سیاستدانوں کے گھروں کے سامنے کا حصہ ذاتی استعمال کیلئے باغ لگانے کی بجائے سیاسی ریلیاں اور تفریح کیلئے وقف کیا ہوتا ہے۔
وہاں ملازمین کی ایک کثیر تعداد چاک و چوبند ملتی ہے میری جتنے بھی جاگیردار گھرانوں سے ملاقات ہوئی میں نے ملازمین کی ضرورت سے زائد فوج ظفر موج دیکھی گو کہ انہیں زیادہ تنخواہ نہیں دی جاتی لیکن مارکیٹ کے سرمایہ دارانہ اصول کی رو سے اتنی تعداد غیر فطری لگتی ہے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مصاحبین کی تعداد سے امارت اور طاقت کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے لاہور کی ایک خاتون نے میرے استفسار پر بتایا:

’’ہمارے ملازمین کے حصے میں زیادہ کام نہیں آتا لیکن تمام لوگ میرے خاوند کے گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے کچھ خاندان تو کئی نسلوں سے ہماری خدمت کررہے ہیں اگر ہم انہیں برطرف کردیں تو یہ گاؤں بھر میں ہمیں بدنام کردیں گے۔‘‘
اس کا خاوند سیاستدان نہیں تھا لیکن ان کا بھائی سیاستدان تھا اور وہ اپنے گاؤں اور ضلع سے انتخاب میں حصہ لیتا آرہا تھا اور برادری کی مدد اور حمایت کیلئے یہ سب کچھ ضروری تھا ورنہ مخالف سیاستدان فائدہ حاصل کرسکتا تھا۔
اس خاتون کی پرانی وفادار ملازمہ اسے چھوڑ کر جا چکی تھی اور اب اپنے بچوں کی نگہداشت میں مصروف تھی لیکن اس کے باوجود سابقہ ملازمہ اور اس کے خاندان کی مدد بدستور جاری تھی کیونکہ وہ محرم راز تھی اور جذبات کا تقاضا بھی کچھ ایسا ہی تھا حالانکہ یہ کوئی سیاسی معاملہ بھی نہیں تھا مجھے ملازمین کے ساتھ سخت برتاؤ کا مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا لیکن میرے مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ اشرافیہ اپنے ملازمین کے بچوں کے اسکول کے اخراجات تک برداشت کرتی ہے اور جب کوئی بیمار ہو تو اسے ڈاکٹر کے پاس بھجواتے ہیں اور ان کی بیٹیوں کیلئے مناسب جہیز بھی مہیا کرتے ہیں اور اس طرح کے دیگر کاموں میں بھی ہاتھ بٹایا جاتا ہے۔
پاکستان کے طول و عرض میں ثقافتی اثرات کے زیر اثر لوگ مشترکہ خاندان کی صورت میں اکٹھے ایک ہی گھر میں رہنا پسند کرتے ہیں(جبکہ کچن علیحدہ علیحدہ بھی ہوسکتے ہیں)اس رویے کے پیچھے خاندان کا استحکام ،دشمن اور مخالفین کے خلاف مشترکہ اجتماعی دفاع کی حکمت عملی کا ثقافتی پہلو کارفرما ہوتا ہے ان زمینی حقائق کی وجہ سے زمینوں کی اصلاحات کے باوجود دیہات میں وراثتی زمین کے مالکان زمیندار بہن بھائی اقتصادی بہتری اور سیاسی برتری کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ طور پر ایک ہی منتظم کی زیر نگرانی زمینوں کا حساب کتاب رکھتے ہیں۔
مشترکہ خاندان کا تصور صرف دیہاتی زندگی کا ہی آئینہ دار نہیں بلکہ امیر اور طاقت ور شہری خاندان بھی اسی انداز میں زندگی گزارتے ہیں مثلاً جنرل اختر عبدالرحمن مرحوم کے تینوں بیٹے لاہور میں اکٹھے ہی رہتے ہیں اور ظاہر ہے گھر کو افراد کے مطابق تقسیم کیا گیا ہوگا۔
اسی طرح مشترکہ قیامت پرست خاندانوں میں بچوں اور عورتوں کی ایک کثیر تعداد کا شور وغل سنائی دیتا ہے۔زیادہ روشن خیال گھرانوں میں لامتناہی رشتہ دار ٹھونسے ہوتے ہیں جن میں دو یا تین مائیں،دادی اماں اور بعض اوقات بڑی دادی ماں،چند خادمائیں بچوں کی فوج،خالاؤں کی قطار اندر قطار شامل ہوسکتی ہیں اور ان تمام کا نان نفقہ ،کپڑے ،تعلیم،لڑکوں کیلئے ملازمتیں اور لڑکیوں کیلئے جہیز کا بندوبست بھی برابر ہوتا ہے۔
زیادہ امیر اور روشن خیال گھرانوں میں تو لڑکیوں کیلئے پرکشش ملازمتوں کی ضرورت بھی پیش نظر ہوتی ہے،پرویز مشرف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کیلئے اسناد کی شرائط عائد کرکے اس تبدیلی کو مزید تیز کیا جنرل مشرف کے وضع کردہ تعلیمی معیار نے مردوں کی خاصی تعداد کو نکال باہر کیا لیکن2008 میں پی پی پی کی حکومت نے اس قانون کو ختم کرکے اس کے ثمرات کو دیرپا نہ رہنے دیا۔
دوسری جانب خواتین کا سیاست میں قدم رکھنا متعدد وجوہات کا حامل ہے۔پاکستانی سیاست میں آنے کے لئے کئی صفات کا ہونا ضروری ہے اور یہ قابلیت مختلف خاندانوں میں مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہے اور ضروری نہیں کہ سب سے بڑا لڑکا ہی سیاسی جانشین بنے جو بیٹا زیادہ موزوں ہو سیاست کا مرد میدان بن جاتا ہے اس طرح چھوٹا بھائی یا پھر بیوی بھی انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے اور بڑا بھائی یا خاوند اس سے بہتر اور نفع بخش شعبے میں بطور سول سرونٹ،پولیس آفیسر یا اس طرح کا کوئی اور کام سرانجام دیتا رہتا ہے۔
2002 میں سرگودھا کے ایک زمیندار گھرانے کے سینئر کسٹم آفیسر نے جاگیردارانہ سیاست کے پس منظر میں خاندانی سیاسی حکمت عملی کی عقدہ کشائی کی موصوف الیکشن کے سیاسی ثمرات حاصل کرنے کیلئے اپنی ملازمت سے چپکے ہوئے تھے:
’’ہمارا خاندان تین شعبوں کے اردگرد گھومتا رہتا ہے میرے چچا نے جماعت اسلامی کی سیٹ سنبھال رکھی تھی،میری بیوی پی پی پی کی جانب سے کھڑی ہے اس کا انتخاب اس لئے کیا گیا کیونکہ میں سرکاری ملازم ہوں اور انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے سکتا جبکہ میرا بھائی بیرون ملک میں ملازمت کرتا ہے میری بہن کے پاس گریجویشن کی ڈگری نہیں تھی چنانچہ میری بیوی کا انتخاب عمل میں آیا۔‘‘
اس طرح پاکستان کا مثالی سیاسی خاندان وہ ہے جس کے افراد پراثر شعبوں میں تعینات ہوں جن میں سول سرونٹ،وکیل ،تاجر ہونا اور ممکن ہو تو مختلف سیاسی پارٹیوں کی رکنیت رکھتے ہوں مجھے بتایا گیا کہ سندھ کے جاگیردار گھرانے سومرو کے افراد خانہ متعارف جماعتوں کے ممبر ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں مختلف پارٹیوں کی نمائندگی کرنے کے باوجود وہ آپس میں اتفاق رائے سے رہتے ہیں اور خاندانی وفاداری نبھاتے ہیں۔اسی طرح پشاور کی سیف اللہ فیملی بھی کچھ ایسی ہی شہرت کی حامل ہے۔ان کے بھائی،بیٹے اور بھتیجے مختلف پارٹیوں کے ممبر ہیں جو ایک دوسرے کی سخت مخالف ہیں لیکن مشترکہ خاندانی مفادات،یکجہتی اور وفاداری کی وجہ سے یہ لوگ باہم متحدہ ہیں۔
پاکستان کے سیاسی نظام کے دھارے کو سمجھنے میں یا اس کے ثابت قدمی ثابت ہونے پر اشرافیہ کے گرد گھیرا تنگ کرنا انتہائی غلط قدم ہوگا ملک کے مختلف حصے زمینداروں کی نیم مطلق العنان قوت کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف فطرت کے حامل ہیں جیسا کہ بلوچستان،سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصے کو لیں تو یہاں بالترتیب قبائلی سردار اور موروثی پیروں کا کردار اظہر من الشمس ہے اور ان کی رائے کو اہمیت کا حامل خیال کیا جاتا ہے۔
اگر بلوچستان کے رہنما اور پاکستان کے قبائلی نظام کے ارباب حل و عقد کو بہ نظر غایت دیکھیں تو یہ جزوی طور پر اسکاٹ لینڈ کے قبائلی نظام کی نسبت آئر لینڈ کے قبائلی نظام سے زیادہ قریب نظر آتاہے۔اول الذکر اپنے رومانوی رنگ کی وجہ سے اپنے موروثی سرداروں پر اندھا اعتقاد رکھتے تھے اور بڑے بیٹے سے غیر متزلزل وفاداری نبھاتے جبکہ آئریش قبائل مرد حضرات میں سے موزوں ترین شخص کو اپنا سردار منتخب کرتے۔
پاکستان میں مجموعی طور پر یہ بات نہایت اہم اور مبنی بر حقیقت ہے کہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا کے زیادہ تر حصے پر زمینداروں کا انفرادی تسلط نہیں کچھ تو یہ اصلاحات کے ثمرات ہیں جو کہ موروثی تقسیم کا نتیجہ ہے اور کچھ اقتصادی تبدیلیوں کے زیر اثر سماجی حرکت پذیری کی وجہ سے ہے ان علاقوں میں اہم دیہی سیاستدان چھوٹے زمیندار ہیں جو شاید100ایکڑ کے قریب زمین کے مالک ہیں اور مقامی قبیلوں میں ان کی جڑیں خاصی گہری ہیں،پولیس اور انتظامیہ بھی ان کے زیر اثر ہوتی ہے۔
یہ زمیندار اکثر اوقات شہری سیاست میں حصہ لیتے ہیں اس کی بڑی وجہ ان کی شہروں میں واقع وہ جائدادیں ہیں جو آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں اور دیہات میں اپنی قوم قبیلے سے وابستگی اور برادری کی عزت و توقیر کو خاطر میں لا کر حمایت حاصل کرلیتے ہیں بعض دفعہ نئی بستیاں آباد ہونے سے ان کی زمینیں نگل لی جاتی ہیں تاہم اس طرح سے بھی ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی سیاسی حیثیت اور برادری کے رویے یونہی برقرار رہتے ہیں جیسا کہ بیگم عابدہ حسین نے مجھے بتایا’’زمینوں سے ہمیں نہایت قلیل آمدنی میسر ہوتی ہے لیکن زمین ہی ووٹروں اور ہمارے درمیان ایک ضروری تعلق کا باعث بھی ہے‘‘۔
شمالی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نمایاں گروہوں کی ثقافت،پٹھانوں اور جاٹ قوم کی طرح انسانی مساوات اور اہلیت جیسی خوبیوں پر انحصار کرتی ہیں ان گروہوں میں اکثر موروثی سرداری کی بجائے ان کی بڑائی کے معیار کو ذاتی کردار اور دولت پر پرکھا جاتا ہے1988 میں جب میں نے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے پنجابی جاٹ رکن اسمبلی سے سوال کیا کہ آپ کی طرح چوہدری بننے کیلئے کن مراحل سے گزرناپڑتا ہے کیونکہ میں نے محسوس کیا تھا کہ کئی افراد میں ایسی موروثیت کا عمل دخل نہیں تھا اس نے جواب دیا’’یہ تو بہت آسان ہے جب آپ چوہدری بننا چاہیں تو اپنے آپ کو چوہدری کہلوانا شروع کردیں اور دوسرے جاٹوں کے طنز کو خاطر میں نہ لائیں‘‘ لوگوں نے مجھے بتایا کہ خاندان کا بلند سطح پر جانے کا فیصلہ کن مرحلہ اس وقت آتا ہے جب کوئی سیاسی پارٹی آپ کی علاقائی قوت کو دیکھ کر اپنا نمائندہ منتخب کرلیتی ہے اور اس طرح سرکاری نوکری کے بل بوتے پر آپ رشوت ستانی سے اپنی قسمت چمکا لیتے ہیں۔
سندھ اور جنوبی پنجاب میں زیادہ تر اہم سیاسی خاندان صدیوں سے چلے آتے ہیں جن میں مٹھی بھر نئے آنے والے بھی شامل ہیں شمالی پنجاب میں معاملہ قدرے مختلف ہے تاہم ان نئے خاندانوں نے منفرد طور طریقوں سے جاگیردارانہ نمونے پر طاقت حاصل کرکے اپنی حیثیت منوالی ہے اور یہ ویسے ہی ہوا جیسا ماضی میں انگریز اشرافیہ نے خواص کے ساتھ آپس کی شادیاں کرکے ازدواجی تعلقات استوار کئے،پنجاب کی چند بڑے امرا خاندان نئے تاجر خاندانوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرکے امتحان کا شکار بھی ہوئے۔
جیسا کہ برطانیہ کی مثال سامنے ہے اس کی بنیادی وجہ معاشرتی سماجی اور ثقافتی شہرت ہے جو زمینوں کی ملکیت کی مرہون منت ہے اور ان کے جاگیردارانہ رتبے،قبیلے،قوم اور ذاتی تشخص سے مزید ابھرتا ہے تاہم نئے خاندانوں کو جاگیرداروں کا روپ دھارنے کے بعد ویسی ہی حکمت عملی اختیار کرنا پڑتی ہے جس کے لئے انہیں برادری کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں اور دھڑے بندیاں بنانی ہوتی ہیں۔
دوسری جانب شہروں کے پھیلاؤ اور اقتصادی ترقی نے شمالی اور مرکزی پنجاب کے عام لوگوں کو بھی ایسے مواقع فراہم کردیئے ہیں کہ وہ اپنے فوائد کیلئے نظام کا استحصال کرتے ہیں ۔بڑے زمینداروں اور قبائلی سرداروں کی طاقت میں خاصی حد تک کمی واقع ہو چکی ہے اور یہ نچلے زمینداروں اور مقامی منتظمین کو ودیعت ہوگئی ہے اس طرح لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد ملی ہے اور شہر کاری کی وجہ سے بھی برادری کا کردار کم ہوا ہے لیکن یہ اتنا بھی نہیں کہ اسے مثالی نمونہ قرار دیا جاسکے۔
ریاست کی کمزوری اور برادری کی طاقت کے آمیزے پر تنقیدی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کیوں شہری پھیلاؤ کے سیاسی نمونے اور ڈھانچے پر نہایت کم اثر انداز ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہروں میں پولیس سے تحفظ کی ضمانت چاہیے ہوتی ہے عدالتوں اور شہری تنظیموں کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم رکھنا پڑتے ہیں وغیرہ۔
مزید براں نئی شہری آبادیاں ابھر رہی ہیں اور کسانوں کی ایک بڑی تعداد بھی شہروں کا رخ کررہی ہے جبکہ باقی ماندہ ثقافتی طور پر کسانوں کی طرح ہی ہیں وہ اپنی برادریوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور دیہاتوں میں بھی انہیں ایسی ہی مدد درکار ہوتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شہریوں کی خاصی تعداد نیم ملازم ہے یا بے ضابطگی سے کام کرتے ہیں اور اقتصادی حوالے سے جدید شعبوں سے محروم ہیں کیونکہ جدید سہولتیں عموماً مہیا ہی نہیں ہیں۔
میں نے 1988ء میں آفس میں ملازم ایک سیاسی نوجوان کارکن سے پوچھا کہ سیاسی طور پر برادری کا نظام شہروں میں کس طرح کام کرتا ہے اور اس نے آنے والے انتخابات میں کیسے ووٹ کا استعمال کرنا ہے وہ اندرون کراچی میں آباد تھا مگر نسلی طور پر پنجابی تھا۔
’’میں نے پچھلے انتخابات میں اپنے چچا جو کہ خاندان کے سربراہ ہیں کے کہنے پر پی پی پی کو ووٹ دیا حالانکہ میرے خیال میں مسلم لیگ نے حکومت میں رہ کر بہتر کام کیا تھا پچھلے انتخابات میں میں نے کبھی پی پی پی کے حق میں ووٹ دیا اور کبھی مسلم لیگ کو۔یہ ان وعدوں کی وجہ سے تھا جو انہوں نے ماضی میں پورے کیے یہاں اپنے ایک دوست اور رشتہ دار کے کہنے پر ووٹ کا استعمال کیا گیا جو ہمارے لئے اہمیت کا حامل ہے،وہ آٹے کی فیکٹر ی کا مالک ہے وہ ہمیں ملازمتیں دلوانے میں مدد کرتا ہے الیکشن کے دنوں میں ووٹ ڈالنے کیلئے گاڑیوں کا بندوبست کرتا ہے چنانچہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم جواباً’’ اس کے کہنے پر ووٹ کا استعمال کریں وہ امیر ہونے کی وجہ سے عزت دار آدمی ہے اس کی ماں اور خالہ ہمارے خاندان میں سب سے بڑی ہیں گھریلو معاملات میں سب ان سے مشورہ لیتے ہیں، وہ شادیاں کراتی ہیں اور جھگڑے چکاتی ہیں، وہ بہت عزت دار ہیں اور چچا کی عزت بھی اسی طرح مقدم ہے کیونکہ وہ سیاسی جھگڑوں کا فیصلہ کرتے ہیں، عورتیں گھروں میں رہنے کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتیں وہ کسی امیدوار کو نہیں جانتیں یہی وجہ ہے کہ ہماری پارٹیاں انتخابی نشان الاٹ کراتی ہیں چونکہ ہماری خواتین لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں اس لئے ہم انہیں سیاست کے متعلق بتاتے ہیں میں اپنے ذاتی معاملات میں ماں کا حکم کبھی نہیں ٹالتاچاہے اس کیلئے میری نوکری ہی کیوں نہ چلی جائے۔‘‘
یہ بھی نہایت اہم ہے کہ خواتین کا اپنے قبیلے یا قوم سے باہر کوئی سیاسی کردار نہیں ہوتا لیکن جب اندرونی سیاست اور ارکان کے درمیان عزت اور طاقت کے توازن کا مسئلہ پیدا ہو تو ان کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے لیکن اگر یہ معاملہ باہر کے لوگوں کے علم میں آجائے تو پھر اسے باعث شرم اور تضحیک آمیز خیال کیا جاتا ہے لیکن جب تک یہ معاملہ خاندان کے اندر رہتا ہے تو پھر عزت پر کسی قسم کا بٹا لگنے کا ڈر نہیں ہوتا۔
جنسی تعلقات کے حوالے سے یہ بات درست کہی جاسکتی ہے کہ جاٹ قوم جن کی خاصی بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا تھا اگر قبیلے کے کسی فرد کا کسی دوسرے قبیلے کے فرد سے معاشقہ سامنے آئے تو پھر روایت کی پاسداری میں اسے موت کی سزا دی جائے گی یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیا جائے گا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ نہایت مستعدی سے کسی قریبی رشتہ دار سے شادی رچا دی جائے اس پس منظر میں ایک مشہور پنجابی کہاوٹ ہے جو یہاں صادق آتی ہے۔
کہاوت کچھ یوں ہے’’گھر کی بات(عزت)گھر میں ہی رہنی چاہیے‘‘۔
جیسا کہ اس تمام وضاحت سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستانی شہروں کے تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی برادری ازم بدرجہ اتم موجود ہے چاہے اس کی یہ وجہ ہے کہ ان کے موروثی گاؤں کے باسیوں سے رشتہ داریاں قائم رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستانی جو پچاس سالوں سے برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں ان کے آبائی لوگوں سے تعلقات مضبوط اور جوں کے توں ہیں۔
دیہاتی روایت کا شہری سیاسی زندگیوں میں کسی حد تک عمل دخل جاری رہتا ہے،راولپنڈی پٹوار خانے کے ایک سیاسی کارکن نے مجھے2009ء میں بتایا تھا:
’’1950 کی دہائی میں راولپنڈی کی آبادی2لاکھ سے کم تھی اسلام آباد کا وجود عمل میں آگیا،پاک آرمی کا ہیڈ کوارٹر بھی راولپنڈی میں ہے اس وجہ سے یہ شہر دوسرے شہروں کی نسبت تیزی سے پھیلا،2006 کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی تین ملین سے تجاوز کر چکی تھی اس کے شہریوں کی اکثریت کا تعلق دیہات سے ہجرت کرکے آنے والے افراد یا ان کی اولاد پر مشتمل ہے۔‘‘
انہی مہاجرین میں سے مدثر نامی ایک ٹیکسی ڈرائیور سے میری ملاقات ہوئی اس کا تعلق گوجر خان کی راجپوت برادری سے تھا اس کی عمر22 سال سے اوپر لگتی تھی اس کا کہنا تھا کہ پچھلے انتخابات میں اس نے پی پی پی کے سیاست دان اور مقامی برادری کے ایک چھوٹے سرپرست راجہ پرویز اشرف کے ساتھ بطور ڈرائیور خدمات انجام دی تھیں راجا صاحب ایک مقامی صف اول کے راجپوت زمیندار،تاجر اور سیاست دان بھی ہیں جو پی پی پی کی حکومت میں پانی اور بجلی کے وزیر بھی رہے(بعد میں وزیر اعظم بھی بن گئے ) مقامی طور پر سرپرستانہ رویوں کی وجہ سے اسے حکومت میں سب سے اہم سیاسی سیٹ دی گئی میں نے مدثر سے سوال کیا کہ اس نے پرویز اشرف کی کیوں حمایت کی تھی تو اس نے بلا جھجھک کہا’’کیوں کہ انہوں نے مجھے اجرت دی تھی‘‘۔اس نے مزید بتایا:
’’اس کے علاوہ اس کا اور میرا تعلق ایک ہی قوم قبیلے سے ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان اور بہت سے گاؤں کے لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے ہم اب بھی ان کی حمایت کرتے ہیں حالانکہ ہم زرداری صاحب اور پی پی پی کی حکومت سے عمومی طور پر خوش نہیں ہیں۔انتخابات کے بعد راجا صاحب نے ہمارے علاقوں میں نئی سڑکیں بنوائیں اور پہلی دفعہ گیس کی پائپ لائنیں بچھائیں جس سے ہم اسلام آباد کے قریب ہونے کے باوجود محروم تھے۔اس نے ہمیں عزت دی وہ ہر ہفتے ہمارے گاؤں یا کسی مضافاتی گاؤں میں تشریف لاتے ہیں اور ہمیں اخلاقی حمایت کا یقین دلاتے ہیں،عدالتی اورپولیس مقدمات کے حوالے سے مدد کرتے ہیں‘‘۔
میں نے اس سے سوال کیا کہ اگر راجا پرویز اشرف جن کی ایک پہاڑی راجپوت ہونے کی وجہ سے اہمیت ہے کیا اس کا خاندان ہر قیمت پر اسے ہی ووٹ دے گا اس نے کہا’’ہرگز نہیں‘‘ اس نے مزید بتایا:
’’اگر راجا پرویز اشرف ہمارے ساتھ انصاف سے پیش نہ آیا اور اپنے وعدے کے مطابق گوجر خان کے غریب لوگوں کی مدد یا عزت نہ کی تو پھر ہم کسی اور سیاستدان کو ووٹ دیں گے اور یقیناًاس کا تعلق بھی راجپوت خاندان سے ہوگا کیونکہ گوجر خان میں کئی راجپوت رہنما موجود ہیں۔‘‘
مجھے1950 کی دہائی سے آنے والے انتخابی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک پاکستانی جاگیردار کے مشہور الفاظ یاد آئے’’پہلے میں اپنے ناظمین کو اپنے مزارعے ووٹروں کے پاس بھیجا کرتا تھا تاکہ ووٹ کا استعمال میرے حق میں کریں پھر میں خود جا کر انہیں کہتا ہوں کہ میں ووٹ کا کیسا استعمال چاہتا ہوں اور اب میں خود جا کر انہیں کہتا ہوں کہ مجھے ووٹ کی ضرورت ہے۔’’بے نظیر بھٹو کے غم زاد اور ممتاز بھٹو کے بیٹے امیر بخش بھٹو کا کہنا ہے کہ’’ہمارا سندھ کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتا ہے لیکن اگر وڈیروں کے پاس اب بھی وہی قوت ہوتی تو کیا خیال ہے کہ مجھے اس خطرناک صحرا میں ووٹوں کی خاطر یوں مارا مارا پھرنا پڑتا میں بھی گھر بیٹھا ہوتا اور لوگوں کو آشیرباد دے رہا ہوتا‘‘۔
یہ کہنا حق بجانب نہیں ہوگا یہ کسی جدید تبدیلی کا پیشہ خیمہ ہے کسی حد تک یہ اس پرانے نمونے کی نئی قسط ہے جس کے ڈانڈے پرانے یورپی اور دیگر کئی جاگیردار نظاموں سے جا ملتے ہیں جہاں قسمت کے ہاتھوں کئی مقامی خاندانوں کا گراف کبھی اوپر اور کبھی نیچے کی سمت سرکتا رہا ہے اور اس تبدیلی کے پیچھے ان کے لیڈروں کا کردار،الزامات کی بھرمار،مقامی اتحادی قوتوں سے جڑے رہنے میں قابلیت کا فقدان اور حریف لیڈروں کے سامنے مقامی عناصر کی وفاداری میں کوتاہی برتنے سے ان کے پیروکاروں کی بددلی شامل ہو جاتی ہے جیسا کے ضلع اٹک کے1930 کے British Gazetteer میں خاندانی ناکامی کے متعلق درج ہے۔
’’رفتہ رفتہ پنڈی گھیب میں خاندان کی طاقت کا شیرازہ بکھر گیا پہلے تو خاندان کو علیحدہ رہنے پر مجبور کیا گیا پھر کھنڈا،کمڑیال اور دندی کے خاندانوں نے بھی اپنی راہ لی اس مشکل گھڑی میں حکمران خاندان کو طاقتور مردوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔سردار سست رو،عیاش اور نااہل ہو چکے تھے اور مواقع سے فائدے نہیں اٹھا پاتے تھے تاہم وہ آج بھی تحصیل بھر کی شرافت کا آئینہ دار ہیں۔‘‘
سیاست دان کے شب و روز
اس تمام صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو ووٹ حاصل کرنے کیلئے خاصی محنت درکار ہوتی ہے کئی حوالوں سے انہیں اپنے مغربی ہم پلہ منصب داروں کی نسبت زیادہ جانفشانی سے کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں ہر شے سیاست کے گرد گھومتی ہے اس میں محض مقدمات،بینکوں کے قرضے،پولیس اور حکومتی ملازمتیں،ٹھیکے وغیرہ ہی شامل نہیں بلکہ سماجی زندگی بشمول پیدائش،موت مرگ،جنازے،سیاسی دھڑے بازیاں،معاہدے یہ تمام ہی موروثی سیاست کا جزو لاینفک ہیں اور یہ سب کچھ از منہ وسطیٰ کے یورپی لاڈوں کی طرح لگتا ہے۔تاہم پاکستانی سیاستدانوں کو بزنس اور ایڈمنسٹریشن کے دقیق معاملات دونوں کو ساتھ ساتھ رکھنا پڑتا ہے یہی وجوہات حکومتی کاموں میں مانع ہیں جو محدود چند سیاستدان کام کرنے کی تعلیمی استعداد رکھتے ہیں ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔پاکستان میں دفتروں کے ملازمین ہوں یا سیاستدان انہیں کام کرنے کیلئے درکار وقت کی فراہمی مسئلہ ہے۔شاید پاکستانی حکومت کی ناقص کارکردگی کا یہی اہم راز ہے۔

مزید براں سماجی معاملات کو مذہبی فریضہ جیسی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اسی لئے زیادہ تر پاکستانی(خاص طور پر پٹھان) پیدائش،شادیاں اور جنازوں پر ضرور جاتے ہیں چاہے رشتہ دار کتنا ہی دور کیوں نہ رہتا ہو۔ ان تمام معاملات کا سیاست سے گہرا تعلق ہوتا ہے بہت سے دوستوں نے شکایت بھی کی کہ یہ وقت کا ضیاع ہے خاص طور پر ان لوگوں کیلئے جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن شادی یا جنازے میں عدم شرکت پر غم زادے کتنے ہی دور کیوں نہ بستے ہوں ایک دوسرے کے نہ آنے سے ان کے مستقبل کے تعلقات انتہائی کشیدہ خاطر ہو جاتے ہیں۔
سرپرستانہ نظام کی وجہ سے وقت کا ضیاع عام ہے،1988 کی پی پی پی حکومت کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ’’وزرا ء ہر وقت اپنے گھروں میں درخواست گزاروں،نوکری کے متلاشیوں اور حمایت یافتگان کے نرغے میں رہتے تھے،قومی اسمبلی میں بھی یہی حال تھا وہاں ان کی سیٹوں کے گرد پچھلے بنچوں سے ہاتھوں میں رقعے تھامے آتے جاتے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اس صورت حال میں وزراء کس طرح حکومتی کام کرتے ہوں گے۔
2009ء میں ملتان سے تعلق رکھنے والے پیر گھرانے کے فرزند مخدوم شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ کے منصب پر فائز تھے ان کے اعزاز میں چیمبر آف کامرس کے عشائیے میں ایک بزنس مین سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا:
’’جونہی تقاریر اختتام پذیر ہوں گی اور لوگ کھانے کیلئے اٹھیں گے تو شاہ محمود قریشی کے متلاشی لوگ نجی کاموں کے سلسلے میں اسے گھیر لیں گے کوئی کہہ رہا ہوگا،’’اوہ قریشی صاحب میرے بھتیجے کو پولیس ناجائز طور پر قتل کے کیس میں پکڑ کر لے گئی ہے آپ بہت بڑے عہدے کے مالک ہیں آپ کی ایک ہی فون کال میرا کام کردے گی۔‘‘دوسرا کہے گا’’اوہ! وزیر صاحب آپ کو تو اس سرکاری قرضے کا علم ہے وہ ابھی تک میرے لئے مسائل پیدا کررہا ہے‘‘ اب تیسرے شخص کی باری ہوگی’’اوہ مخدوم صاحب آپ نے محکمے میں میرے بھائی کی ترقی کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک پورا نہیں ہوسکا فلاں وزیر آپ کا دوست ہے اسے ملیں میرا پورا خاندان آپ کا شکرگزار رہے گا۔‘‘
یہ تمام وہ لوگ تھے جنہوں نے ماضی میں مخدوم صاحب کی ووٹوں کے ذریعے مدد کی تھی ان میں نزدیکی رشتہ دار بھی تھے جن کی مدد کرنا فرض تھا ورنہ پیر صاحب کا ملتان میں سیاسی مستقبل داؤ پر لگ جانے کا اندیشہ تھا۔اگر حریف گروہ کی وجہ سے کوئی مسئلہ ٹیڑھا ہوگیا ہو یا صورتحال قابو سے باہر ہو تو پھر وزیر صاحب اس معاملے کو عام کیس کی طرح ذاتی سٹاف کے حوالے نہیں کرتے بلکہ بروقت نتیجہ حاصل کرنے اور عزت و ناموس کی خاطر خود فون کال ملائیں گے چنانچہ یہیں سے پاکستان بحرانی کیفیت کے بھنور میں پھنس جاتا ہے کیونکہ ہمارا وزیر خارجہ اپنا آدھا وقت تو حلقے کے مسائل حل کرنے میں گزار دیتا ہے جو کہ ملک کو چلانے کیلئے قطعاً موزوں نہیں ہے کیونکہ اس کا اصل کام تو پاکستان کی خدمت کرنا ہے۔
پاکستان میں سیاستدان کے طور پر کام کرنے کے خاص تقاضے ہیں ایک جانب ہر زمیندار اپنے پیروکاروں کو اپنے ساتھ چلانے کیلئے پرکشش اہتمام رکھتا ہے تاکہ اس کا حریف مزاحم نہ ہو اس لئے اسے انتظامیہ پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا پڑتا ہے چنانچہ بغور دیکھا جائے تو زمیندار اور سیاستدان میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔1990 میں سندھ کے ایک بڑے زمیندار خاندان سومرو کے ایک بینک کار نے کامیابی کیلئے مطلوبہ قابلیتوں سے اس طرح پردہ اٹھایا:
’’عدالتوں،پولیس اور حکومت پر اثر اندازہونے کیلئے آپ کو سیاست میں ایک مضبوط کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اس لئے آپ کے پیچھے ایک مضبوط خاندان یا قبیلہ ہونا چاہیے جب آپ جوان ہوتے ہیں تو اس وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ کیا آپ کو سیاست کے میدان کا رخ کرنا ہے۔ بڑے خاندانوں میں کسی بیٹے یا بھتیجے کیلئے سیاست میں آنے کا کوئی خاص اصول نہیں ہے جنید میرا سب سے چھوٹا بھائی ہے یہ وقت فیصلہ کرے گا کہ سیاست کیلئے کون موزوں ہے لیکن ہم سے ایک تو ہوگا۔
میں چونکہ بینکر ہوں اس لئے میں اپنے آپ کو بینکنگ کے شعبے کیلئے بہتر خیال کرتا ہوں،8بجے اٹھ کر بینک جانا ہوتا ہے پھر6 بجے شام واپسی ہوتی ہے جنید رات ایک بجے بھی کسی مزارع یا پیروکار کے بلاوے پر بیدار ہوسکتا ہے’’سر مجھے پولیس تنگ کررہی ہے اور ظاہر ہے آپ کو رد عمل دینا ہے آپ کو ہر کال پر دھیان دینا ہے آپ کو ہر شخص کی پہچان ہونی چاہیے کہ کس کی کتنی،کہاں اور کتنی جلدی مدد کرنا ہے کچھ لوگ جو آپ کے دوست ہیں وہ تو ہر قیمت پر آپ کا ساتھ دیں گے دوسرے فوراً ناراض ہو جاتے ہیں یہ ایک غیر منظم قسم کا کھیل ہے اور ہر شے حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔آپ کو ہمیشہ احتیاط اور صبر سے کام لینا ہے آپ کا معتدل مزاج ہونا ضروری ہے ورنہ نقصان کا احتمال ہوگا۔
زمیندار خاندان یا یک شخصی طاقت اپنا اثر کھو سکتی ہے آپ کو ایک نظریے کے تحت کسی پارٹی سے وابستہ رہنا ہے اگر آپ حزب اختلاف میں بھی ہوں تب بھی بیوروکریسی میں آپ کے دوست ہونا ضروری ہیں تاکہ آپ کے دشمن باخبر رہیں کہ آپ دوبارہ بھی حکومت میں آسکتے ہیں اس طرح وہ آپ سے محتاط رویہ اختیار کریں گے۔
لیکن پارٹی کی سیاست اپنانا زیادہ خطرناک کھیل ہو سکتا ہے کیونکہ جب حکومت بدلے گی تو آپ جیل بھی جاسکتے ہیں یا قتل بھی ہوسکتے ہیں۔خاندان میں میرا ایک بھائی سرجن ہے ،ایک بینکر ہے،ایک وکیل ہے اور ایک سیاستدان ہے اور ہم سب جیل جا چکے ہیں آپ کو تیار رہنا چاہیے کہ کوئی جج ہتھکڑی لگا کر15 دن کیلئے جیل بھیج دے گا۔ہماری سطح کے لوگوں کو عموماً اذیت نہیں دی جاتی لیکن ان میں سے چند ایک ایسا کچھ بھگت بھی چکے ہیں قتل بھی ہوسکتا ہے جس کا الزام کسی مجرم کی گردن پر ہوگا۔ذہنی اذیت دی جاسکتی ہے جھوٹے الزامات کا سامنا ہونے کے ساتھ راتوں کو جگایا جاسکتا ہے یہاں ایسی توقع بھی رکھنا چاہیے آپ جو کچھ بھی ہیں اس ملک میں زندگی گزارنا مشکل ہے اور کمزوروں کیلئے تو سرے سے کوئی پناہ گاہ ہی نہیں‘‘۔
پاکستانی سیاستدان عمومی طور پر اس قدر دباؤ کا شکار رہتے ہیں کہ کبھی کبھی ان کیلئے ہمدردی کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں وہ اکثر کسی صوفی کا کردار تو ادا نہیں کرتے لیکن انہیں صوفیاء کی طرح کا صبر،بھیڑیوں کی طرح کا حوصلہ،ہاتھیوں کی یادداشت اور مگر مچھ کی طرح کا ہاضمہ درکار ہوتا ہے۔آخری خاصیت سے2009ء میں سندھ کے آخری سیاسی دورے کے دوران پردہ اٹھا۔
میرا میزبان بھٹو خاندان کا ایک فرد تھا یعنی بھٹو قبیلے کا موروثی سردار ممتاز علی بھٹو۔وہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کا کزن ہے لیکن خاندان کی دونوں شاخوں میں اب محبت کے جذبات باقی نہیں رہے۔ممتاز علی بھٹو صاحب، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ابتدائی سالوں میں سندھ صوبے کے وزیراعلیٰ بنے لیکن جب یہ دیکھا گیا کہ وہ حریف بن سکتا ہے تو اسے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔وہ تب سے ہی اپنی چھوٹی اور اعتدال پسند جماعت سندھ نیشنل پولیٹیکل پارٹی کے سربراہ چلے آتے ہیں،وہ1996-7 میں بھی سندھ کے نگران وزیراعلیٰ رہے۔
کسی سیاسی جیت پر مجھے ان کے ساتھ سفر کرنے کا اتفاق ہوا گو کہ ان کی پارٹی چھوٹے حجم کی ہے لیکن قصبوں اور گاؤں میں وفود ان سے برابر ملتے رہے لینڈ کروزر پر پھولوں کی پتیاں نچھاور ہوتی رہیں ،نعرہ بازی کے ساتھ اس کے ہاتھ چومتے اور بچوں کی ٹولیاں کھیل تماشے کے طور پر آگے آگے دوڑ رہی ہوتیں کچھ دیر کیلئے موٹر سائیکل سواروں کے جتھے آگئے جنہوں نے ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے مجھے پچھلے انتخابات یاد آگئے جب موٹر سائیکلوں کے جلوس انتخابات کی زینت تھے اگر وقت کی دھند میں ماضی بعید میں جھانکیں تو پگڑیاں پہنے وہ گھوڑ سوار دکھائی دیں گے جو جھنڈے اور بھالے اٹھائے بھاگ رہے تھے۔
سردار کی آبائی جاگیر میں ہمیں بار بار ہمدردی جتانے کیلئے رکنا پڑا،تین مقام پر ہم نے مقامی زمیندار اور سیاسی خاندان والوں سے تعزیت کی جن کے سرپرست حالیہ دنوں میں وفات پا گئے تھے،اگر یورپ میں میری طرح کوئی بن بلایا مہمان کسی کے ذاتی مسئلے پر ہمدردی جتانے جا پہنچے تو اسے غیر مہذب رویہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ خالصتاً ذاتی معاملہ ہوتا ہے پاکستان میں یہ سماجی اور سیاسی زندگی کا بنیادی عنصر ہے یہ ایک موقع ہوتا ہے جس میں سیاسی وفاداری کا اظہار ہوتا ہے یہ طرف داری کا اشارہ بھی ہوتا ہے جس میں دیکھنا اور دکھلانا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ممتاز علی بھٹو نے مجھے بتایا:
’’اگر آپ دیہات میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں تو لوگوں سے ہمدردی رکھیں اگر آپ سیاستدان ہیں تو پھر آپ کے پاس کوئی اور چارہ نہیں اگر یہ انتخابی مرحلہ ہوتا تو ہمیں12جگہوں پر کھانے کی پیش کش ہو چکی ہوتی حربہ یہ ہوتا ہے ہر جگہ سے چند لقمے لے لیے جاتے ہیں‘‘۔
اسی دوران ہم نے جس گھر کا وعدہ کیا اس کی سجاوٹ نہایت دیدہ زیب تھی یہ پرانی طرز کا مقامی انداز میں تعمیر شدہ گھر تھا گرمی کی آمد آمد تھی لیکن گرمی اور دھوپ کی چکا چوند کی وجہ سے کھڑکیوں پر دبیز پردے لٹک رہے تھے۔
اگر آپ سندھ کے وڈیروں پر ظنز کریں گے تو یہ نہایت برا ہوگا کیونکہ وہ اپنے معاشرے کے رہن سہن کی قید میں ہیں وہ آنے والے وقت سے آگاہی رکھتے ہیں اور ان کی کامیابی کا راز دولت اور دفاع کے اصولوں میں مضمر ہے جسے قبیلے کے سردار بطور مقامی اور موروثی مذہبی شخصیت کے طور پر بھی نبھاتے ہیں ہمیں ایک مقامی زمین دار سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا پیسے کے حوالے سے وہ بڑے کاشتکاروں میں اونچے درجے کا مقام رکھتا تھا وہ بے رنگ سے کنکریٹ کے گھر میں رہتا تھا جس کی دیواریں اور فرش بھی سیمنٹ سے بنے تھے۔وہ اب پیر کہلاتا تھا اور مقامی شیعہ قوم میں خاصا سیاسی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔
میڈیا
نہایت اہم تبدیلی جس نے پاکستان کی سیاسی تصویر کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا(پاکستانی طالبان کی بغاوت مراد نہیں) وہ مشرف کے دور میں ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن کا کھمبیوں کی طرح اگ آنا ہے۔2009 تک پاکستانی ٹیلی وژن کے تقریباً80 چینلز وجود میں آچکے تھے جس میں صرف حالات حاضرہ اور خبریں نشر کرنے کے12چینلز تھے درمیانی طبقے کے متعدد لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہ خبریں ہماری تفریح طبع کا باعث ہیں اور یہ سب کچھ انوکھا اور نیا ہونے کے باعث ہے رفتہ رفتہ یہ بھی اپنی افادیت کھو بیٹھے گا۔علاوہ ازیں پانچ مذہبی چینلز بھی کام کررہے تھے۔
1980کی دہائی میں صرف پاکستانی ٹیلی وژن(PTV) ہی اپنا وجود رکھتا تھا جو حکومتی سرپرستی میں چلتا تھا( ہندوستان میں بھی اسٹیٹTV ایسے ہی گل کھلاتا تھا) اخبارات اور رسائل ہی خبروں اور تجزیات کے اہم ذرائع تھے عام طور پر جذباتی بحث و مباحثے ہوتے اور بعض اوقات اسکینڈل اچھالے جاتے صحافی ناتجربہ کار اور تحقیقی کام عنقا تھا۔
مشرف اپنے میڈیا پر تنقید کرنے میں حق بجانب تھا جس کی تشکیل نو میں اس نے خود حصہ لیا تھا کیونکہ یہ چینلز ہی تھے خصوصاً جنگ میڈیا گروپ کا خبروں کا چینلGEO جو وکلاء کی تحریک کو عوامی مدد سے ایک بڑی تحریک میں بدلنے میں پیش پیش رہے صحافیوں اور وکلاء کے باہمی اتحاد نے بہت سے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ درمیانی طبقے کی اس نئی سیاسی قوت نے پاکستان میں نئے سیاسی نظام کی داغ بیل ڈالی ہے یا کم از کم مستقبل میں میڈیا ایسا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا جس سے حکومتوں کو بننے اور توڑنے میں مدد ملے گی اور برادریوں کا روایتی سرپرستانہ کردار دم توڑ جائے گا۔
2008-09 میں آزاد خیال عقلیت پسندوں اور ان کا انگریزی زبان کا ترجمان میڈیا( جس میں Friday Times اور Daily Times جو لاہور سے شائع ہوتے) بڑے پیمانے پر نئے میڈیا کی مخالفت پر اتر آئے وہ انہیں طالبان کا حمایتی اور پی پی پی کی زرداری حکومت کے خلاف تعصبانہ رویے اپنانے پر تنقید کرتے میرے چند شناسا روشن خیال لوگوں نے مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ان سازشوں سے آگاہ کیا جو وہ میڈیا سے جوڑ توڑ کیلئے کررہے تھے۔ روشن خیال اور کئی دوسرے مغربی تجزیہ نگار غلطی سے یہ بھول جاتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر مشرف زیدی کا بھی یہ کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا رپورٹنگ کرتے وقت ملکی معاشرے کو کائنات صغیر میں تبدیل کردیتی ہے یہ دراصل پاکستان کی نفسیات کا عکس بھی ہے۔روشن خیال لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ نیا میڈیا جس پر تعلیم یافتہ درمیانے طبقے کے لوگوں کا غلبہ ہے وہ پی پی پی اور مغرب کے مفادات کا حامی ثابت ہوگا۔
اس حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا کہ درمیانے طبقے سے وابستہ تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک معقول تعداد پرانے خیالات کی حامل ہے بلکہ ہمدردی کے حوالے سے مذہب پسند ہے جیسا کہ جماعت اسلامی نے مضبوط اور کامیاب حکمت عملی سے یونیورسٹیوں میں اپنا اثر و رسوخ پھیلایا اور پھر ان طلباء نے میڈیا کے پیشے سے زبردست وابستگی اختیار کی جیسا کہ جیو ٹی وی کے عمران اسلم نے مجھے بتایا:
جب میں نے1990 کی دہائی میںThe News سے آغاز کیا تو پرنٹ میڈیا کے میرے ساتھی اور ہم نئی ٹیکنالوجی سے متعلق بے بہرہ تھے ہم لوگ کرسیوں پر بے حس و حرکت بیٹھے رہتے اور بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں تھا۔ہمیں لوگوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں، ہمارے معیار پر جو لوگ پورا اترے ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا،1980ء کی دہائی میں ان نوجوانوں کوCIA اور پاکستانی ایجنسیوں نے افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے پروپیگنڈا کیلئے تربیت دی تھی چنانچہ یہ لوگ جنہیں روشن خیال دنیاYahoos کے طور پر دیکھ رہی تھی وہ میڈیا میں آکرhotmail کی وضاحت کرنے لگے۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ عام معاشرے کی طرح درمیانہ طبقہ اور یہ صحافی بھی امریکہ کے خلاف ویسا ہی معاندانہ رویہ رکھتے تھے مجھے عام پاکستانیوں کی طرح ان سے بھی امریکہ کے حوالے سے سازشیانہ باتیں سننے کو ملیں اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان صحافیوں کا پس منظر خام خیالی میں گندھا ہوا تھا مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ روشن خیال صحافی بھی اسی درجے کے تھے فرق صرف اتنا تھا کہ وہ فوج کے متعلق اوٹ پٹانگ ہانکتے رہتے تھے۔
میڈیا پاکستان کے درمیانی طبقات کا آئینہ پیش کرتا ہے اور ان کے خیالات کا ترجمان ہے اس کی ایک مثال ٹیلی وژن کا تسلسل سے مذہبی لگاؤ کا اظہار ہے۔کئی روشن خیال لوگ ٹی وی اسٹیشنوں پر مذہبی پروگراموں کی کثرت سے خوفزدہ ہیں تاہم2009 کی نسبت اب یہ80 میں سے صرف5رہ گئے جو کہ اجمالی طور پر امریکی تناسب کے مطابق ہے یہ بھی سچ ہے کہ میں جماعت کے جتنے بھی حامیوں سے ملا وہ بھی ان پروگراموں کی صحت اور جامعیت کے متعلق متفکر نظر آئے۔
چونکہ صحافیوں کو کسی حد تک ناظرین کی خواہشات کا احترام مقصود ہوتا تھا اور اکثریتی مذہب کا عنصر مضبوط ہونے کی وجہ سے صوفیاء کی عزت و تکریم اور ہندوؤں کی ورثے میں چھوڑی ضعیف العتقادی بھی پروگراموں کا حصہ تھی اختلافی بحث مباحثے اور تفریحی پروگرام ان نجی ٹیلی وژن چینلوں کا خاصہ رہا مجھے بتایا گیا کہ مذہبی حوالے سے ایک پروگرام میں براہ راست ٹیلی فون کال سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سنی عالم نے خاتون کو بتایا کہ ناخن کو پالش سے رنگنا گناہ ہے تو شیعہ عالم نے ان سے پوچھا کہ پھر آپ نے ریش مبارک کو کیوں رنگ رکھا ہے(یاد رہے کہ میں خود اس پروگرام کو تلاش کرنے کی لاحاصل سعی کر چکا ہوں)۔
یہ بھی عجب ہے کہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے صحافی عمومی طور پر فوج کی روایتی تعظیم و تقدیس کرتے ہیں(یہ اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ ان کے بہت سے عزیز و اقارب فوجی افسر ہیں) یہ احساسات2007-8 میں بنیاد پرستانہ رویے کی بنیاد پر مشرف انتظامیہ کے خلاف تبدیل ہو جانا چاہیے تھے لیکن اس طبقے نے ان کی حمایت جاری رکھی شاید یہ اس وجہ سے بھی ہو کہ درمیانہ طبقہ قانون کا احترام کرتا ہے اور عدلیہ کی آزادی کا داعی ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فوج کی عزت کرنے کا تعلق براہ راست قوم پرستی سے بھی جڑا ہے مشرف کے حوالے سے یہ ادراک کرلیا گیا کہ وہ امریکہ کی وفاداری میں پیش پیش ہے تو درمیانے طبقے میں بھی عدلیہ کے تحفظات پر وکلاء کی تحریک سے بہت پہلے مشرف کے وقار پر چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔2009-10 میں ہی زرداری انتظامیہ کے خلاف بھی اسی طرح کے الزامات یعنی امریکہ کی غلامی کے ساتھ ساتھ رشوت ستانی اور بدعنوانی کا میڈیا میں خوب چرچا ہوا جس سے حکومت کے خلاف نفرت ابھری۔
2009کے موسم بہار تک پاکستانی ٹیلی وژن امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات اور پاکستانی طالبان کیلئے تحمل اور رواداری کے سلوک کو اجاگر کررہا تھا،پروپیگنڈے کے حقیقی استعمال سے فائدہ نہ اٹھایا گیا بلکہ طالبان کے نمائندوں اور فوج یا افسران کو برابر کی سطح پر رکھ کر انٹرویو کیے اور اس دوران دہشت گردی کی کارروائیوں پر کوئی تبصرہ نہ کیا جاتا تاکہ خفیہ سازشیں طشت ازبام ہو کر طالبان کیلئے خفت کا باعث نہ بنیں۔
یہ کوئی چالاکی والا معاملہ نہیں تھا میں نے جتنے بھی صحافیوں سے انٹرویوز لئے وہ بھی ایسے ہی نظریات کے امین تھے۔میڈیا عوام کے جذبات سے بھی کھیل رہا تھا اور انہیں حوصلہ بھی دے رہا تھا اور اس طرح نظریات رفتہ رفتہ پختہ ہورہے تھے۔فوج نے میڈیا کے سرپرستوں اور صحافیوں سے سخت رویہ اختیار کیا اس کے بعد میڈیا کی اکثریت پاکستانی طالبان کے خلاف اقدامات کی حمایت میں پیش پیش رہی جبکہ معاشرے کے دیگر لوگوں کی طرح افغان طالبان کے خلاف کارروائی کی مخالفت بدستور جاری رہی۔
سیاست میں میڈیا کے مستقبل کے کردار کے تناظر میں دو اہم مسائل درپیش ہوں گے یعنی بہاؤ کا رخ اور غلطیوں کی درستگی یعنی سب سے پہلے ٹیلی وژن کو مختلف اقسام کے احتجاجات کی حوصلہ افزائی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور غیر مقبول اور مطلق العنان حکومتوں کے جرائم کے خلاف تحریکوں کی حمایت کیلئے آگے بڑھنا ہوگا تاہم اگر ماضی سے سبق نہ سیکھا گیا تو یہ عوامی اور فوجی دونوں حکومتوں کیلئے کسی طور بھی بہتر نہیں ہوگا۔

غلطیوں کی نشاندہی کیلئے میڈیا کو آگے آنا ہوگا جب بھی غلط اقدامات کے خلاف انصاف کا معاملہ درپیش ہو تو ظاہر ہے کہ سزائیں تو حکومت،پولیس اور عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہی ہیں اور میڈیا کی قابلیت ان مسائل سے الجھنے کیلئے قدرتی طور پر محدود ہوتی ہے جیسا کہ شمالی سندھ میں ایک واقعہ رونما ہوا جس میں تین نوجوان جاگیرداروں نے ایک مقامی کلینک کی نرس کے ساتھ زیادتی کی اس کے ساتھیوں کی نشاندہی پر مجرموں کو پولیس نے پکڑ لیا مجھے ایک مقامی صحافی نے تمام روداد سنائی۔
’’ان کے سیاسی رشتہ دار نے مجرموں کو آزاد کرالیا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی پاداش میں کبھی بھی جیل کی ہوا نہیں کھائیں گے لیکن اسی دوران میڈیا نے انہیں ہتھکڑی پہنے ہوئے پولیس اسٹیشن میں کھڑا دکھا دیا۔اس طرح کم از کم ان کے خاندان بھر میں بدنامی ہوئی اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب یہ مجرم گھر گئے ہوں تو سب کے سامنے ان کی پٹائی بھی کی گئی ہو‘‘۔
دوسری جانب میڈیا کی انتہائی کوریج کے باوجود بھی مختیاراں مائی کے ساتھ زیادتی یا اس کے خاندان والوں کے خلاف ایزارسانی کا واقعہ ہو یا بلوچستان میں لڑکی کا زندہ دفن کیا جانا ہو۔ملزمان کے سیاسی طور پر طاقتور ہونے کی وجہ سے سالہا سال سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکے۔
اسی طرح میڈیا کی جانب سے سیاستدانوں کو ہراساں کرنا کسی غلط فہمی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے جس سے مختلف پارٹیوں،گروہوں اور لوگوں کے درمیان ٹھن جاتی ہے گو کہ ایسے واقعات شاذونادر ہی ہوتے ہیں لیکن ٹیلی ویژن کے نو آموز لوگوں کی کھیپ اس طرح کے واقعات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ایک عیسائی صحافی نے میڈیا بطور ہتھیار کے حوالے سے واقعہ سنایا اس کا پارکنگ کے معاملے پر مقامی سردار کے بدمعاشوں سے جھگڑا ہوگیا لیکن معاملے نے اس لئے طول نہیں کھینچا کہ یہ لوگ جانتے تھے کہ وہ صحافی ہے اور اس علاقے کے دوسرے سربر آوردہ سردار کا دوست بھی ہے۔صحافی لوگ عموماً ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور مل کر ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہیں اگر انہوں نے اس کے خلاف کوئی کارروائی کی ہوتی تو پھر وہ اور ان کے خاندان کی تمام برائیوں کو ٹیلی وژن،اخبارات اور ریڈیو کی نشریات میں خوب اچھالا جاتا۔
یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ نیا میڈیا حقیقت میں کوئی نئی طاقت بن کر ابھرے گا یا پھر پرانے سلسلے کا تسلسل ہی ہوگا یا جس طرح پہلے کئی طاقتوں کے ساتھ دیکھنے میں آیا کیا یہ لوگ بھی روایتی نظام کا حصہ بن کر رہ جائیں گے۔کم از کم آج کا میڈیا معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کو عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے سوچنے اور بولنے کیلئے حوصلہ افزائی کررہا ہے جو کہ ماضی میں ممکن نہیں تھا یہ ایک خوش آئند بات ضرور ہے لیکن اس کا انحصار ان کی سوچ اور فکر کی وسعت پر بھی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی)
اگر آپ سندھ کا سفر کریں اور شمال کی جانب سے لاڑکانہ میں داخل ہوں تو آپ کو لق و دق میدان میں ایک سفید دھبہ سا نظر آئے گا جو بڑھتے بڑھتے ایک بڑے حجم میں تبدیل ہو جائے گا یہ بھٹو خاندان کا مقبرہ ہے جو کہ پرانے زمیندار اور قبائلی سردار ہیں جنہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے خطے میں انمٹ اثرات مرتب کئے ہیں انہی اثرات کے بوجھ تلے یہ مقبرہ اکڑوں بیٹھا لگتا ہے دور سے یہ سنگ مر مر کے بنے تاج محل کی جہازی شکل نظر آتی ہے اسے بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان میں تعمیر کیا گیا ہے اس کی تعمیر بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور اقتدار میں1988 میں شروع کی تاکہ اپنے مقتول والد کو خراج عقیدت پیش کرسکے آج کل وہ خود بھی وہیں آسودہِ خاک ہے۔
تہہ خانے کی دیواروں پر پی پی پی کے سیاستدانوں کی جانب سے مختلف پوسٹر آویزاں ہیں جن پر عقیدت کے طور پر کئی نعرے درج ہیں، ایک پوسٹر جو کہ امریکہ میں پی پی پی کے انچارج پرویز میمن کی جانب سے تحریر کیا گیا تھا کی عبارت کچھ اس طرح ہے۔
’’ایک دفعہ ایتھنز سقراط کی موت پر خون کے آنسو رویا دوسری مرتبہ ایسا واقعہ جو کہ ایشیا کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا اس وقت پیش آیا جب بھٹو جیسے محبوب کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اس طرح نامعلوم دندناتے دیو کو قابو میں کرنے کے وعدے پر انسانیت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا‘‘۔
اس کا جو بھی مطلب ہو لیکن جنوبی ایشیا میں متانت مقامی طریق کا حصہ نہیں میں نے اپنے گائیڈ کو مقبرے کے سامنے کھڑا ہو کر سگریٹ سلگانے سے سختی سے منع کیا لیکن میرا آداب مجلس کے متعلق پریشان ہونا غیر ضروری تھا کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ مزارات پر مذہبی گھرانے کے لوگ پکنک منانے آتے ان کے ننھے بچے چیخ و پکار کی آوازوں میں دوڑتے پھرتے اور بعض اوقات چھوٹی قبریں ان کی اچھل کود کی زد میں آجاتیں جیسے عین موت کے درمیان زندگی رقص کررہی ہو اگر بھٹو صاحب کے مقبرے کو باہر سے دیکھیں تو یہ کسی پیر کا مزار نظر آتا ہے چھابڑی والے مذہبی اشیاء بیچنے میں مگن ہیں بھٹو صاحب کی تقاریر لاؤڈ اسپیکر پر گونج رہی ہیں یہ مزار محبت کرنے والے جوڑوں کے ملنے کا محفوظ گوشہ بھی ہے۔
یہ صرف پاکستان کے بھٹو خاندان کا ہی خاصہ نہیں،جنوب ایشیا سیاسی حوالے سے خاندانی حکومت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ہندوستان میں نہرو گاندھی،سری لنکا میں نائیکے اور بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اور خالدہ ضیاء کے خاندان اس کی واضح مثالیں ہیں۔جنوبی ایشیا کی متشدد سیاست کا اظہار ان حکومتی خاندانوں کے شہیدوں کی فہرست سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں مسز گاندھی اور اس کا بیٹا راجیو ہندوستان میں جبکہ حسینہ شیخ کے والد اور خالدہ ضیاء کے خاوند بنگلہ دیش میں اور ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر شامل ہیں۔
ان سیاسی خاندانوں نے ضرورت سے بڑھ کر جواں مردی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنے صف اوّل کی لیڈروں سے محروم ہونے کے باوجود باقی ہیں مگر حکومت کی ناکامیوں،وعدوں کے باوجود عوام کو محرومیوں کے سوا کچھ نہ ملا اور کئی مقام ایسے آئے کہ انہوں نے اپنے ہی نظریات کو روند ڈالا۔
یہ تمام جنوبی ایشیا میں پنپنے والے برادری کے نظام کا شاخسانہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان معاشروں نے اکثریتی طور پر ایسے طبقات اور گروہ پیدا نہیں کئے جو نظریاتی بنیادوں پر پارٹیوں کو وجود میں لاتے اور بڑی تنظیمیں عمل میں آتیں بلکہ یہاں خاندانی سیاست کی ہی حکمرانی رہی جیسا کہ پی پی پی کے ایک سیاستدان آفتاب شعبان میرانی نے1990ء میں ایک ملاقات کے دوران مجھے بتایا’’پی پی پی کو ختم کرنا مشکل ہے انفرادی طور پر سیاستدان اس سے احتراز کرسکتے ہیں لیکن اس کا منبیٰ ہمیشہ ذوالفقار علی بھٹو کا گھرہی رہے گا‘‘۔
پاکستان کی زیادہ تر چھوٹی بڑی جماعتیں خاندانی حکمرانی کے گرد گھومتی ہیں۔1988ء میں مجھے شعبہ نشر و اشاعت کے وزیر مملکت جاوید جیار کی پریس کانفرنس سننے کا اتفاق ہوا۔Grace اور Gracious کے الفاظ اس کی زبان سے اکثر اس طرح پھسلے کہ یہ شاہی خطاب نظر آئے۔
’’بالآخر گیارہ سال کے سیاہ اندھیرے کے بعد ایک ایسی خاتون اقتدار میں آئی ہے جس نے اندھیرے کی قوتوں کو اپنی بہادری،قابلیت اورGracious سے شکست دی ہے میں محترمہ وزیراعظم کی جانب سے وزارت کا عہدہ عطا کرنے کیلئے اس انتہائی Gracious قدم کے اٹھانے پر دل سے مشکور ہوں ہر دن ایک تاریخی دن میں تبدیل ہوگا مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میں نے پہلی خاتون وزیراعظم جو رسمی و رواجیGrace کی حامل ہیں کی زیر صدارت کابینہ کے پہلے اجلاس میں شرکت کی۔‘‘
یہ ایک ذاتی خوشامد کا اظہار نہیں تھا بلکہ پارٹی کے عمومی حدود قیود کی وضاحت تھی جو کہ جنوبی ایشیاء کے رنگوں میں ڈھلے ذائقوں کے معیار کو ظاہر کرتی ہے پی پی پی کے ایک حامی کی لکھی ہوئی کتاب’’The Ideals of Bhutto‘‘ سے چند اقتباس اس طرح ہیں۔
’’بھٹو ازم کیا ہے؟یہ ایک جمہوری ریاست کی سمت شفاف بلاوا ہے،یہ عوام کی طاقت ہے یہ معاشرہ،روشن خیال،جدید،معتدل مزاج اور عقیدہ مساوات پر قائم ہے،یہاں مذہبی انتہا پسندی،نسلی تعصب اور دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں۔
’’جیئے بھٹو‘‘ مردوں کا جگانے کا نعرہ ہے یعنی یہ ایک نہ ختم ہونے والے مشن کو ظاہر کرتا ہے یہ اہم اصول کی جانب مراجعت کا نام ہے۔یہ ہمیں جمہوریت کی جانب ہانکتا ہے اور فسطائیت کی جڑوں پر کاری ضرب لگانا ہے یہ تمام برائیوں کے خلاف جہاد کا نعرہ ہے‘‘۔
بے نظیر بھٹو نے اس نعرے کی یہ تشریح بیان کی:
’’جئے بھٹو خوبصورت الفاظ کا گلدستہ ہے۔یہ جذبات گرماتا ہے۔اس سے طاقت حاصل ہوتی ہے، ہمارے لئے یہ نہایت اہمیت کا حامل ہے یہ ہمیں چاند ستاروں کی جانب رہنمائی کرتا ہے‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی کے بنیادی تصورات اور طریقہ کار کی وضاحت کی اس نے اپنے مغربیت کے ذاتی امیرانہ تشخص کے ساتھ سیاسی اسٹائل کی سیاست سے عوام کے جم غفیر کو متاثر کیا اس کی اصلیت فریب کی سیاست پر مبنی نہیں تھی تاہم اس کا اپنے جاگیردار طبقے سے نفرت اور محبت کے درمیان سفار ت کار جیسا تعلق تھا اسی وجہ سے اس کے انقلابی نظریات زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے جلد ہی اس کے جنوبی پنجاب اور سندھ کے زمیندار اور جاگیردار گھرانوں سے تعلقات استوار ہوگئے۔
پی پی پی کے تشکیل کردہ ترقی پسندانہ اقتصادی ایجنڈے کی حمایت کی اس طبقے سے توقع عبث تھی اس طرح ان کی مقامی طاقت کی نوعیت نے سماجی ترقی پسندانہ نظریات کی حمایت کو ناممکن بنا دیا(خصوصاً خواتین کے حقوق کے حوالے سے) کیونکہ یہ ان کی برادری کی قدامت پرستانہ سوچ سے متصادم تھا درحقیقت پیپلز پارٹی کے زمیندار سیاستدانوں کی ترقی پسندی کی انتہائی حدیہ تھی کہ ان کی ایک مغرب زدہ نوجوان بیوی عوام کی نظروں کا سامنا کرنے کیلئے کراچی یا لاہور میں رہتی تھی اور دوسری بیوی(یا بیویاں) جو قریبی رشتہ دار ہوتی باقاعدہ شادہ شدہ زندگی گزارنے کیلئے باپردہ حیثیت میں اپنی خاندانی جاگیر میں رہتی تھیں۔
میں نے1990ء میں پی پی پی کے ایک سندھی رہنما ڈاکٹر اشرف عباسی کا انٹرویو لیا اس نے صاف گوئی سے سیاسی حقائق سے پردہ اٹھایا:
’’ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ زید،بکر جیسے امیدواروں کا انتخاب کریں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ دونوں قاتل ہیں ہم اندرون سندھ میں اور کس کے ساتھ کام کریں۔یقیناًہم انہیں پسند نہیں کرتے کیونکہ ہمارے پاس پارٹی کے بہترین اور وفادار کارکن ہیں لیکن کیا کریں جب ووٹر خود ہی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہی لوگوں کی حمایت کی جائے کیونکہ یہ طاقت ور قبیلوں کے سردار ہیں اور ان کے پاس ڈنڈا(عسکری قوت) ہے چنانچہ ہم بھی یہ دیکھتے ہیں کہ کون سا امیدوار کن خطوط پر ووٹ حاصل کرسکتا ہے تاہم یہ پی پی پی کا ہی خاصہ ہے جو کہ اپنے ووٹروں کو برادری،قبیلے،طاقت اور پیسے کی بجائے کسی دوسری سمت میں استعمال کرسکتی ہے‘‘۔
پی پی پی میں اب بھی ڈاکٹر عباسی کی طرح درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور کارکن موجود ہیں جن میں سندھ پارٹی کے سابق صدر تاج حیدر اور پنجاب سے پارٹی کے صدر رانا آفتاب احمد وغیرہ شامل ہیں اس طرح کے محنتی افراد کے بغیر لمبے عرصے کیلئے حکومت میں رہے بغیر پارٹی کو متحد رکھنا ناممکن تھا۔
تاہم جہاں تک دیہی سندھ کا تعلق ہے گزشتہ20 سالہ عرصے میں پی پی پی وہاں کوئی تبدیلی نہیں لائی کیونکہ سندھ کے دیہی علاقے جو کہ پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں وہاں اقتصادی،سماجی،ثقافتی اور سیاسی طور پر نہایت معمولی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔مثلاً2010ء میں پی پی پی کے وفاقی وزیر تعلیم ہزار خان بجرانی جو کہ سندھ کے زمیندار گھرانے کے سردار ہیں پر سپریم کورٹ نے الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ایک کسی مسئلے کے حل میں ایک جرگے کی قیادت کرتے ہوئے دوسرے قبیلے کے لوگوں کو تین نابالغ لڑکیاں شادی کیلئے پیش کیں،صاف ظاہر ہے کہ اس کے خلاف یہ مقدمہ التوا کا شکار ہی رہے گا۔
ایک اور قبائلی سردار اور پیپلز پارٹی کے سیاستدان عابد حسین جتوئی نے قبائلی عدالت میں اعلان کیا کہ جتوئی خاندان کی ایک لڑکی اور ایک سومرو خاندان کا مرد جو دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے گھر سے بھاگ گئے ہیں ان کو قتل کردیا جائے۔سندھ ہائیکورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں کی حفاظت کو ممکن بنایا لیکن اس اسکینڈل کے باوجود کوئی طاقت جتوئی صاحب کو سندھ کا صوبائی وزیر بنانے سے نہ روک سکی۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ20سالوں میں سندھ کی صورتحال جوں کی توں ہے۔
بھٹو صاحب کے مضبوط گڑھ لاڑکانہ کے ایک صحافی نے مجھے بتایا’’پاکستان کی سول سوسائٹی کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ ملک کی وفاقی اور صوبائی کابینہ میں اس طرح کے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے یہ کہنا بھی غلط ہے کہ صرف پی پی پی ہی ایسی جماعت ہے جو ان معاملات میں دوسری جماعتوں سے مختلف ہے۔ان معاملات میں ہر ایک کا کردار کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں۔یہ رویے سندھ کے معاشرے کے مقامی اسباب کا نتیجہ ہیں(پاکستان کے دیگر علاقے بھی کچھ ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں) چاہے عوامی حکومت ہو یا فوجی حکومت آئے یہ معاملات اسی روش میں بغیر رکے اپنی ڈگر پر چلے جارہے ہیں۔
اس تمام صورتحال کے باوجود بھٹو اور پاکستان کے غریبوں کے درمیان رومان کی فضا قائم ہے ایک صحافی دوست نے مجھے بتایا کہ:
’’ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا واحد لیڈر ہے جس نے غریب کے مسائل کی بات کی اور ان کے دکھ درد کو محسوس کیا۔اس سے پہلے یہ روش کسی نے بھی نہیں اپنائی تھی، گو کہ بھٹو نے غریبوں کی خاطر زیادہ کارکردگی نہیں دکھائی اور بے نظیر نے تو بالکل ہی کچھ نہ کیا لیکن انہیں پھر بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور محبت کی جاتی ہے اور یہ تمام جذبات بھٹو کے نام سے جڑے ہوئے ہیں‘‘۔
عام لوگوں کی رائے میں ذوالفقار علی بھٹو کا بطور ہیرو کا تصور اور پاکستان پیپلز پارٹی کی شہرت دراصل ان کی شہادت کے بعد ابھر کرسامنے آئے ہیں۔بے نظیر بھٹو کی خوبصورتی ،نسوانی حسن اور انفرادی جواں ہمتی سے بھٹو کا تصور سامنے آتا ہے۔مغربیت میں پلے دانش مند( جو کہ اقلیت میں ہیں تاہم میڈیا میں اثر و رسوخ کے حامل ہیں اور مغرب پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں) پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ کہیں اور جا نہیں سکتے اور اکثریت کے پی پی پی کے صف اوّل کے رہنماؤں کے خاندان والوں کے ساتھ رشتہ داریاں اور تعلقات ہیں۔2008-09 میں پی پی پی کی حکومت کی وزیر اطلاعات شیریں رحمان نے پارٹی کی حمایت کے متعلق وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا اور یہ ویسے ہی دلائل تھے جو اکثر تعلیم یافتہ خواتین اس تناظر میں بیان کرتی ہیں:
’’میں پی پی پی کا اس لئے ساتھ دیتی ہوں کیونکہ یہ صف اوّل کی وفاقی جماعت ہے اور محمد علی جناح کے سیکولر خیالات کی حامی ہے۔یہ جماعت محروم طبقے،غریب،ضرورت مند،خواتین اور اقلیتوں کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے اس پارٹی کو خاتون کی قیادت میسر تھی جس نے اپنے اصولوں کی خاطر جان قربان کردی فیصلہ کن معاملات میں خواتین کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے اس جماعت میں خواتین اپنا تحفظ محسوس کرتی ہیں پی پی پی ملک کی واحد جماعت ہے جس میں کسی طبقے کے حقوق کی پامالی نہیں کی جاتی‘‘۔
اب یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ کیا بے نظیر کے سیاسی قتل کے بعد اس پارٹی کو بچانے کیلئے کم درجے کا کرشماتی رہنما آصف علی زرداری کوئی کردار ادا کر پائے گا(جس کا بھٹو سے کوئی خونی رشتہ بھی نہیں ہے)تاوقتیکہ اس کا بیٹا یا کوئی بیٹی جواں ہو کر اس ورثے کو سنبھالنے کے قابل نہ ہو جائے۔زرداری کے پاس پارٹی کا کبھی کوئی عہدہ نہیں رہا اس نے قائم مقام چیئرمین کی خدمات انجام دیں(ان کا بیٹا بلاول پارٹی کا چیئرمین ہے) یہ بے نظیر بھٹو کی وصیت کے مطابق ہے جسے ابھی تک کسی اور نے نہیں پڑھا۔
2010 میں زرداری کی شخصیت کو پیپلز پارٹی کے سیاست دانوں اور پارٹی کے کارکنوں نے تباہ کن قرار دیا۔ وہ اس میں وراثتی حالات کی وجہ سے شرافت کا فقدان سمجھتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق بھٹو خاندان سے نہیں ہے وہ متکبر سمجھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی دوستوں کی رائے پر کان دھرتے ہیں اور پارٹی کے سنجیدہ طبقے کو اہمیت نہیں دیتے۔2010 کے سیلاب کے موقع پر اس کی حکومت کے کردار کی وجہ سے اسے خاصا تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ سیلاب کی شدت کے وقت امدادی کاموں کی نگرانی کی بجائے وہ فرانس میں اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ اپنی رہائش گاہ میں مقید تھے۔پاکستان میں پارٹی کے لیڈر کا اچھے خواص کا مالک ہونا انتہائی ضروری ہے ورنہ جماعت کا تصور ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔
پی پی پی میں زرداری کی غیر مقبولیت نے اس تصور کو اجاگر کیا ہے کہ بلاول کی شخصیت کو ابھارا جائے۔
حالیہ دنوں میں مجھے سندھ میں پی پی پی کے کارکنوں کی جانب سے بلاول کی شخصیت کے حوالے سے کئی قصے سننے کو ملے جس میں اس کی حوصلہ مندی،ذہانت،عام لوگوں کیلئے خندہ پیشانی اور بھٹو صاحب سے مشابہت کے تذکرے شامل تھے۔
کون جانتا ہے کہ یہ سب کچھ مستقبل میں حقیقت کا روپ دھار لے۔بشار الاسد،راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی نے اپنی مرضی کے خلاف موروثیت کی وجہ سے سیاست کی اعلیٰ پوزیشن سنبھالی بظاہر وہ غیر موزوں نظر آتے تھے لیکن انہوں نے کمال ہنر مندی سے خدمات انجام دیں۔
شاید پی پی پی کے پاس وقت کی کمی ہو جیسا کہ پارٹی کی ایک خاتون سیاستدان نے کہا’’ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلاول ایک سال میں دس سال بڑا ہو جائے اور عملی طور پر یہ ممکن نہیں بدقسمتی سے اپنے والدین کی جلا وطنی اور مغرب میں اپنی تعلیم کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری عوام سے خطاب کرنے کیلئے اردو تک بول نہیں سکتا تاہم سندھی سے شدبد ہے یہی وجہ ہے کہ علاقائی زبانوں میں فن تقریر کے فقدان کو بڑی جماعتیں برداشت نہیں کرسکتیں۔
زرداری کی علیحدگی سے پی پی پی کو طویل مدتی نقصان ہوسکتا ہے لیکن اسے اس طرح تقویت بھی ملے گی۔یعنی اگر اسے2013ء کے انتخابات میں ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑے لیکن یہ دوبارہ اٹھ کھڑی ہوگی جیسا کہ ماضی میں بھی اس پارٹی کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔
پی پی پی کی سب سے پہلی خامی یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جن سوشلسٹ نظریات پر پارٹی کا ڈھانچہ استوار کیا تھا اس سے مکمل طور پر چھٹکارہ حاصل کرلیا گیا ہے پی پی پی حقیقت میں اندرونی ساخت کے اعتبار سے جاگیرداری کی حامل ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک کہ کوئی دوسری پارٹی اقتصادی تبدیلی کے حوالے سے کوئی بہتر پروگرام سامنے نہ لائے لیکن اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارٹی پنجاب کے مزدوروں کی ہمدردی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہے ان لوگوں میں برادری کی سیاست کی کم اہمیت ہوتی ہے اور جماعت اسلامی کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے آبادی کا یہ حصہ پی پی پی کے مخالفین کو ووٹ نہیں دیتا یا کم از کم کبھی ووٹ کا استعمال ہی نہیں کرے گا۔
دوسری جانب پنجابی شہریوں کا نچلے درمیانی درجے کا طبقہ ہے جو پی پی پی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے اس کی ایک اہم وجہ پی پی پی کی جانب سے تجارت کے خلاف سخت رویے کا ہونا ہے لیکن اس سے بھی اہم وجہ ان لوگوں کا اسلام کے دیو بندی مکتب فکر سے تعلق رکھناہے جو کہ پی پی پی کے مغربی نظریات کی وجہ سے اس کی مخالف ہے۔
یہ طبقہ ان دیہاتی طبقات کی بدولت جو کہ سماجی تبدیلیوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے شہروں کا رخ کررہے ہیں مسلسل بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے پی پی پی کی قسمت انحطاط پذیر ہے لاہور میں بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آچکا ہے،1980ء کی دہائی میں خود وہاں موجود تھا وہاں پی پی پی کا طوطی بولتا تھا لیکن2008 اور2009میں بھی وہاں کی گلیوں میں پی پی پی کے ایک ووٹر کا ملنا بھی مشکل دکھائی دیتا تھا۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا اس کا تعلق دیہات سے جڑتا ہے جو کہ اقتصادی صورتحال،شہروں کی جانب ہجرت اور یوں نچلے درمیانے طبقے کا نئے درمیانی طبقات میں روایتی انداز میں پھیلاؤ پر مبنی ہے لیکن مجموعی طور پر پی پی پی اور ان طبقات یا اکثریتی آبادی کے مابین دوری کی وجہ پارٹی کے صف اوّل کے رہنماؤں کا مغربی ثقافت کا لبادہ اوڑھنا یا امریکہ کے ساتھ وفاداری کا رویہ اپنانا ہے۔یہ تمام ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات سے بالکل برعکس تھا۔اس کی شہرت کا راز عوامی انداز،پرجوش قوم پرستی اور امریکہ کے خلاف مضبوط انداز میں آواز بلند کرنے میں مضمر تھا۔
پاکستان میں اسلامی انتہا پسندی اس قدر نہیں جتنا کہ امریکہ کے خلاف سخت رویے کا پایا جانا ہے بلکہ پی پی پی کے وہ سیاستدان جو امریکی امداد کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں ایسے ہی خیالات کے پرچارک ہیں پی پی پی کے سندھ سے قومی اسمبلی کے ایک رکن سے اپریل2009 میں میری حیدر آباد میں ملاقات ہوئی انہوں نے انکشاف کیا کہ:
’’ہم آزاد خیال اور مغرب پسند لوگ ہیں لیکن امریکہ کے رویے نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم اپنی الگ پہچان بنائیں کیونکہ ہم ان کے غلام بن کر نہیں رہ سکتے۔طالبان مذہبی انتہا پسند ہیں مگر بش اور کئی امریکی بھی ان سے کم نہیں ہیں سب سے برا یہ ہے کہ امریکی ہمیں غلطیوں پر مجبور کرتے ہیں نتیجتاً ہمیں مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود بھی وہ ہم پر الزام دہراتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کررہے ۔امریکہ نے صرف ایک9/11 دیکھی اور اب ہماری جانب سے امریکیوں کی مدد کی وجہ سے ہمیں متواتر کئی9/11کا سامنا ہے جس میں روزانہ کئی اموات ہورہی ہیں۔یہ سب کچھ امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے کی وجہ سے ہے یہاں اکثر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ یہ امریکہ کا کیا دھرا ہے کیونکہ وہ یہاں چین اور ایران کے خلاف اڈے بنانا چاہتا ہے‘‘۔
صدر زرداری کا امریکہ کے ساتھ اتحاد امداد کے حوالے سے ایک نفع بخش عمل تھا لیکن عوام میں اس کے خلاف نفرت پھیلی اب دوسری جانب نواز شریف کی حکومت اورPML(N) کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ بھی ایسی ہی حکمت عملی کا مظاہرہ کرے تاکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ پی پی پی کی مخالفت کا نظریہ ماند پڑ جائے گا۔
پی پی پی کے پاس طویل مدتی طاقت موجود ہے گو کہ ان کے ہاں پرویپگنڈے کا فقدان ہے پنجاب میں حمایت کھونے کے باوجود وہ اب بھیPML(N) کے مقابلے میں ایک قومی جماعت کا درجہ رکھتی ہے تاہم جماعت اسلامی کا وجود اس سے مختلف ہے مسلم لیگ حکومت بنانے کیلئے سندھ سے مقامی وڈیروں کی سرپرستی حاصل کرتے ہوئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کرسکتی ہے مگر سندھی کہیں اور جانے کا سوچ ہی نہیں سکتے کیونکہ پی پی پی کے پاس یہ قوت محرکہ موجود ہے۔ پی پی پی کے ایک سندھی سیاستدان نے زرداری کے خلاف شکایات کے ڈھیر پر دعائے مغفرت پڑھتے ہوئے کہا:
’’زرداری کی تمام غلطیوں اور جرائم کے باوجود اندرون سندھ کے لوگ بھٹو خاندان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں، زرداری اور بے نظیر کے درمیان مقابلہ کرنا قطعاً غلط ہے بے نظیر کا کوئی جوڑ نہیں اس کے سامنے تمام لیڈر بونے نظر آتے ہیں‘‘۔
اب تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ2010 میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے پی پی پی کی سندھ کی حکومت کے خلاف غم غصے نے اس کی حاکمیت سے متعلق وفاداری پر کوئی اثرات مرتب کیے ہیں۔
بالآخر پی پی پی مذہبی روایت کے حامی ارکان کو اپیل کرسکتی ہے جو کہ سنی اسلام سے وابستہ ہیں اور وہ مسلم لیگ کو دیو بندی اور اہلحدیث کو ثقافت کا امین سمجھتے ہیں بھٹو اور زرداری دونوں شیعہ ہیں اور پارٹی کے کافی سارے ارکان مضبوط شیعہ پیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔PML(N) میں بھی کافی سارے شیعہ اور بریلوی موجود ہیں شریف برادران اہم مزارات سے عقیدے کو نہایت احتیاط سے برتتے ہیں۔تاہم2010 میں پاکستانی طالبان نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے مذہبی متعصب جماعتوں کے تعاون سے مزارات پر جو شدید حملے کئے اس وجہ سے شریف خاندان کے طالبان سے قربت کے اشاروں سے شیعہ اور سنی عناصرPML(N) کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں اسی طرح کئی علاقوں میں اسے شدید جھٹکا لگے گا۔
پی پی پی کے شیعہ رہنما یہ جانتے ہیں کہ سنی اکثریتی ملک میں شیعہ ہونے کا اظہار مسائل پیدا کرسکتا ہے،بھٹو زرداری اور کئی دوسرے خاندان سنی مکتبہ فکر کے نظریات پر عمل کرتے ہیں اور اس کیلئے شیعہ کی ایک روایت ’’تقیہ‘‘ کا سہارا لیا جاتا ہے،جس کے تحت شیعہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی جان کو خطرہ ہو تو وہ اپنے اصل عقیدے کو چھپا سکتے ہیں۔اس میں بھی شک نہیں کہ پی پی پی کو کسی حد تک اقلیتوں کی جانب سے ہمیشہ سے ہی حمایت حاصل رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نوازPML(N)
جیسا کہ کئی سالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ مجموعی طور پر پاکستانی ووٹرز کا لگاؤ حزب مخالف کے ساتھ پرجوش سرگرمیاں دکھانے میں اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتا جس قدر اقتدار پر براجمان سیاسی پارٹی کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی ہے دوسرے لفظوں میں اب پیپلز پارٹی اس تاک میں ہوگی کہ نواز شریف کی پارٹی اقتدار میں رہ کر کیا غلطیاں کرتی ہے اگر مسلم لیگ (ن) کے ماضی کی کارکردگی کو مدنظر رکھیں تو پی پی پی کو ایسے کئی مواقع ہاتھ آئیں گے جن سے عوام کے جذبات کو ابھارا جاسکتا ہے۔درحقیقت 2010میں آنے والے سیلاب میں امدادی کارروائیوں میں ناکامی کی وجہ سے پی پی پی کی مرکزی حکومت کو جس نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا ویسے ہی پنجاب میںPML(N) کی حکومت کو بھی عوام کا غم و غصہ برداشت کرکے یکساں صورتحال برداشت کرنا پڑی۔
میں نے جب پاکستانی دوستوں سے مسلم لیگ کی پہچان کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ’’جئے بھٹو‘‘ کے نعرے کے مقابل کوئی ایسا ہی نعرہ پیش کرنے کا سوال اٹھایا تو انہوں نے جواب دیا’’پراٹھا‘‘یہ گھی میں تلی ہوئی روٹی ہوتی ہے جسے پنجاب کے لوگ پسند کرتے ہیں۔’’زندہ باد پراٹھے‘‘ کا نعرہ بلند کرکے وہ کہنے لگے یہ ایک خوبصورت الفاظ کا گلدستہ ہے یہ گرم اور مزید ارہوتے ہیں اور دل کو تقویت دیتے ہیں‘‘۔
میرے لئے یہ خاصا خفت آمیز تبصرہ تھا میں دیانتداری سے امید کررہا تھا کہ کوئی بھی پاکستانی اس غیر سنجیدہ سیاسی رائے زنی پر سوائے ہنسنے کے کیا کرسکتا ہے۔اس مذاق کے پس منظر میں ایک سنجیدہ نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ ان کے پنجابی کردار کی بنیادی ساختPML(N) کی انتہائی مضبوطی اور انتہائی کمزوری یعنی دونوں کا دارومدار اسی فلسفے پر ہے۔
یہ پنجاب میں پارٹی کی جڑوں اور پنجابی جذبات کا ہی مرہون منت تھا کہ جس کی وجہ سے نہ صرف فوجی آقاؤں سے گلو خلاصی ہوئی بلکہ1999 کے مشرف کے انقلاب کے بعد آٹھ سالہ سیاسی جلا وطنی کاٹ کر ملک میں واپس آنے میں کامیابی ہوئی۔دوسری جانب اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کی دوسرے صوبوں میں نہایت محدود حمایت ہے اور سندھ میں بھی محض مفاد پرست سندھی جاگیرداروں کی حمایت کے بغیر کبھی حکومت بنانے کے قابل نہیں ہوئے۔تاہم صوبہ سرحد میں شریف کی امریکہ پر نکتہ چینی اور طالبان کے معاملے میں جدوجہد سے فاصلہ رکھنے سے شاید وہ مستقل رائے دہندگان کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
اگر پنجابی ثقافت کے آئینے میں پرکھا جائے تو عام پنجابی لوگوں کی نظر میں نواز شریف کا کرشماتی تصور سامنے آتا ہے جو کہ اکثر مغربی تجزیہ نگاروں اور پاکستان کے آزاد خیال دانشوروں کیلئے ناقابل فہم ہے۔اس کا کھردرا مگر زندہ دلانہ ذاتی طرز عمل حقائق کے مطابق سامنے آتا ہے جبکہ انگریزی کے معاملے میں ان کی زبان تنگ ہے تاہم پنجابی پراثر طریقے سے بولتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کا بیرونی تصور میانہ رو قدامت پرست مسلمانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ درمیانے درجے کے جدید طبقے کی پارٹی بھی کہی جاسکتی ہے۔PML(N) کے سیکرٹری نشر و اشاعت احسن اقبال کی رائے ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ1980ء کی دہائی میں مسلم لیگ کیلئے نواز شریف کا انتخاب ضیاء الحق انتظامیہ کا مرہون منت تھا۔
نواز شریف(پیدائش1949) اور اس کا چھوٹا بھائی شہباز شریف کشمیری پنجابی گھرانے کے صنعت کار کے بیٹے ہیں جو1947 میں پاکستان ہجرت کرکے آئے اور جب ان کی صنعتوں کو ذوالفقار علی بھٹو نے قومیا لیا تو یہ سعودی عرب چلے گئے۔پنجاب کے درمیانے طبقے سے تعلق،پاکستانی قوم پرستی،بھٹو سے نفرت،سعودی عرب سے تعلقات انہیں ضیاء الحق کے قریب لے آیا۔1985ء میں نواز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا اور1991ء میں وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔
تاجر برادری سے تعلق اور بزنس کے پھیلاؤ کی پالیسیوں کی وجہ سے انہوں نے صنعت کاروں اور تاجروں کو اپنا گرویدہ بنا لیا کیونکہ میں جس شخص سے بھی ملا چاہے وہ سیکولر تھا یا قدامت پسند ہر تاجر اس کی حمایت میں پیش پیش تھا اس طرح تجارت سے تعلق کی بنیاد پرPML(N) کو غیر محسوس طریقے سے پی پی پی پر برتری حاصل ہوتی گئی جیسا کہ لاہور کے ایک صنعت کار کا کہنا تھا
’’پی پی پی نے اقتصادی حوالے سے نہایت کمزور ٹیم کا انتخاب کیا ہے کیونکہ وہ بنیادی طور پر جاگیردارانہ اور عوامیت پسندانہ خیالات کے حامی ہیں جبکہ شریف خاندان تاجر اور کاروبار چلاتے ہیں اور انہوں نے نہایت احتیاط سے کاروباری طبقے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔جہاں تک اقتصادی پالیسی کا تعلق ہے پی پی پی کے دور حکومت نے کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا جبکہ نواز شریف کی ٹیم نے اچھی پالیسیاں متعارف کرائیں اور ان کی پرداخت بزرگ ماہر اقتصادیات سرتاج عزیز نے کی۔یہی وجہ ہے کہ بزنس مین مسلم لیگ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔اس تفاوت کی اصل وجہ ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی تھی جس نے تاجر قومیت پر ناقابل بیان اثرات مرتب کئے جن کا مداوا ناممکن ہے۔‘‘
لیکن ہم مسلم لیگ پر بھی مکمل بھروسہ نہیں کرسکتے اگر پچھلے حکومتی ریکارڈ کو دیکھیں تو بدقسمتی سے نواز شریف مستحکم کردار نہیں رکھتے ان کے بھائی شہباز شریف ان کے بعد دوسرے نمبر پر آتے ہیں وہ ایک اچھا منظم ہے لیکن وہ اس درجہ کی وسعت نظری نہیں رکھتے شہباز شریف سولہ گھنٹے تک پاؤں پر کھڑے ہو کر کام کروا سکتے ہیں لیکن ا گر ان سے برآمدات کے حوالے سے پیداواری حکمت عملی کے متعلق سوال کیا جائے تو ان کے پاس تعمیری جواب ندارد ہوگا۔نواز شریف کے پاس پاکستان کے مستقبل کے متعلق ایک بصیرت ضرور ہے مگر وہ عجلت پسند،غیر محتاط اور کسی حد تک ستم پرور ہیں۔
دوسری جانب اگر بزنس مین نواز شریف پر بھروسہ کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تاجر یا صنعت کار اسے الجھانے یا پریشان کرنے کی بات کرتے ہیں تو وہ برہم ضرور ہو گا لیکن وہ ان کے خلاف یا ان کے بزنس کو نقصان نہیں پہنچائے گا لیکن اگر کوئی صحافی اس کے خلاف نکتہ چینی کرے گا تو پھر اس کا جواب انتہائی سخت ہوگا۔میں نے ان کے پیش کردہ1999ء کے بجٹ پر نکتہ چینی کی تو وہ غصے میں آگئے لیکن خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے مجھ پر کوئی کیس نہیں بنایا یا انکم ٹیکس اتھارٹی کے حوالے نہیں کیا پولیس نے گاڑی نہیں روکی وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہاں یہی ہتھکنڈے سیاسی مخالفین کے خلاف آزمائے جاتے ہیں لیکن میں نے یہ کبھی نہیں سنا کہ نواز شریف نے ایسے اقدامات کبھی کسی تاجر یا صنعت کار کے خلاف بھی کئے ہوں‘‘۔
نواز شریف کی کابینہ کے ایک سابقہ وزیر نے ان کی شخصیت کا اس طرح نقشہ کھینچا:’’ تعلیم سے دور لیکن تیز فہم،ذہین،مصمم ارادے کا مالک اور حوصلہ مند انسان ہے لیکن بدقسمتی سے مطلق العنان،جذباتی،عاقبت نا اندیش، اور غصے کے تیز ہیں اور اکثر اس کے زوال کے یہی اسباب بنے‘‘۔
جہاں تک شہباز شریف کا تعلق ہے وہ ذاتی طور پر محنتی،ذی استعداد اور پنجاب کے ایمان دار وزیراعلیٰ کی شہرت رکھتے ہیں،(سیاسی طور پر سرپرستانہ رویے ویسے ہی ہیں) وہ اچھے مشیروں کے مشورے کو اہمیت بھی دیتے ہیں۔
2008 سے بطور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ان کے دور میں مجرموں کا پولیس مقابلے میں قتل ہونے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا گو کہ مجھے بتایا گیا کہ ان کی طرف سے واضح ہدایت تھی کہ صرف جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہی سخت اقدامات کئے جائیں،جنوری2009ء میں لاہور میں مجھے ان سے انٹرویو کے دوران انکشاف ہوا کہ وہ پی پی پی کے کئی وزراء کی نسبت بہتر منظم اور پالیسی ساز ہیں۔
پارٹی کے نمائندے جاگیردار بھٹو کے مقابلے میںPML(N) کی درمیانی درجے کی فطرت پر رائے زنی کرتے تو میاں شریف(نواز شریف کے والد) کو محبت سے یا تضحیک آمیز اصطلاح میں اکثر مستری(لوہار) کہہ کر مخاطب کرتے لیکن جیسا کہ مجھے بتایا گیا انہوں نے اس کی کبھی پرواہ نہ کی وہ اکثر کہتے’’میں ایک چھوٹا آدمی ہوں لیکن خدا نے مجھے ان بڑے بڑے ہاتھوں سے نوازا ہے چنانچہ میں سخت لوہے کو بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہوں‘‘ PML(N) سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے ایک رکن نے مجھے بتایا جو کہ اسی لہجے میں بات کررہا تھا جیسا کہ میں نے ابھی اوپر پی پی پی کے ایک سندھی لیڈر کے خیالات درج کیے ہیں۔
’’پنجاب کے درمیانے طبقات کے لوگ اپنے ثقافتی تناظر میں اور غریب اپنے حالات کو جانچتے ہوئے یہی خیال کرتے ہیں کہ ہم نے پی پی پی کی نسبت ان کیلئے بہتر ترقی کے مواقع پیدا کیے ہیں چونکہ شہروں میں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے بہتر امیدوار موجود ہیں لیکن دیہات میں برادری،جاگیردار،پیر اور سرداروں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہمارے پاس کوئی اورچارہ کار نہیں ہے ہم بھی جاگیرداروں کا ان کے کثیر خامیوں سمیت انتخاب کریں گے‘‘۔
دیہی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے لیڈر ایک جیسے سماجی پس منظر کی وجہ سے پی پی پی کے لیڈروں کے قریب تر ہیں اور سرپرستانہ رویے بھی ایک جیسے ہیں۔
تاہم مسلم لیگ نے اپنے معتدل اسلام پسندوں اور قوم پرستوں سے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ وہ مغرب زدہ بھٹو کے حواریوں کے برعکس رویئے اپنائیں،2007 سے2010 تک شریف برادران نے امریکہ کے اتحادی بننے یا پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی مہم چلانے سے اپنے آپ کو دور رکھا یہ تو جولائی2010 میں پاکستانی طالبان کی طرف سے داتا گنج بخشؒ کے لاہور میں واقع مزار پر آئے ہوئے زائرین کے خلاف ہونے والے بم دھماکے کی وجہ سے جس میں45 لوگوں کی جان گئی تھی نواز شریف نے عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے حکومت اور طالبان سے امن مذاکرات کا عندیہ دیا تھا۔
’’اگر واشنگٹن طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے تو پھر ایسی ہی دعوت اسلام آباد سے بھی آنی چاہیے ہمیں یہ انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ مغربی ممالک ہماری قسمت کا کیا فیصلہ کرتے ہیں ہمیں اپنی قسمت خود بنانی ہے امن ہمیں مقدم ہے اور اس کیلئے راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں‘‘۔
مارچ2010 میں ان کے بھائی شہباز نے ایک پریس کانفرنس میں کہا:
’’جنرل مشرف نے بیرونی عناصر کے اشارے پر معصوم مسلمانوں کا خون بہانے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ اس طرح وہ اپنے اقتدار کو دوام دے سکے لیکنPML(N) ان کی پالیسیوں کی ہر قیمت پر مخالفت کرے گی ۔بیرون ممالک سے ملنے والے احکام کو مسترد کرتی ہے اور اگر طالبان بھی اسی مقصد کیلئے لڑ رہے ہیں وہ پنجاب میں دہشتگردی کی کارروائیاں بند کردیں جہاں PML(N) حکومت کررہی ہے‘‘۔
یہ سیاسی بیان واضح طور پر پاکستانی طالبان اور ان کے اتحادیوں کو پنجاب میں حملے بند رکھنے کی کوشش تھی تاہم دوسرے صوبوں کو ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔دہشتگردوں کی جانب سے پنجاب میں دہشتگرد حملےPML(N) کی مقبولیت اور عزت پر حرف لا سکتے تھے اور میری جتنے پنجابیوں سے بات ہوئی انہوں نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی جبکہ انہوں نے پنجاب میں بھی کارروائیاں شروع کردی تھیں تو کیا کہا جاسکتا ہے جب کہ انہوں نے داتا گنج بخشؒ جیسی مقدت ہستی کو نہیں بخشا تو معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا عمل کیوں نہ جاری رکھیں گے۔
مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹری نشر و اشاعت احسن اقبال نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت اور امریکہ سے فاصلہ رکھنے کی پارٹی کی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ پاکستانی طالبان اور جماعت اسلامی کی جانب سے سیاسی میدان میں حمایت کیلئے نرم گوشہ پیدا کرنے کیلئے راہ ہموار کی گئی ہےPML(N) کے رہنماؤں نے تخمینہ لگایا کہ فروری2008 کے انتخابات جس میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا تھا ان کے40فیصد ووٹروں نے PML(N) کی حمایت کی تھی۔
پارٹی نے بظاہر شدت پسندوں سے نمٹنے کیلئے کوئی واضح قدم نہیں اٹھایا جبکہ وہ پاکستانی سیاست کے اہم دھارے سے دور ہو چکے ہیں جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے ان کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے اور میں نے بھی امریکہ کے خلاف شریف خاندان کی جانب سے پاکستان کے دفاع کی حکمت عملی کی مقبولیت کا اندازہ2008-09 کے انتخابات میں لگالیا تھا لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ مشرف اور زرداری کی طرح ان کا سودا نہیں کریں گے جیسا کہ لاہور کے ایک دکاندار نے بتایا،پارٹی کی یہی حکمت عملیPML(N) کی صوبہ سرحد میں بھی مقبولیت میں اضافہ کا موجب بن رہی ہے اس طرح پنجابی بنیاد پر استوار جماعت اسلامی کو اپنی سرحدوں کو مستقل بنیادوں پر پھیلانے کا موقع مل سکتا ہے۔
اس تمام صورتحال نے مغربی تجزیہ نگاروں اور پاکستانی آزاد خیال دونوں کو PML(N) کی حکومت کے رویے سے اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ اس طرح پاکستان امریکی اتحاد سے دور ہو جائے گا اور ملک کے اندر اسلام پسندوں کے نظام کی راہ ہموار ہوگی جیسا کہ جنرل ضیاء کے دور میں بھی ایسا کچھ ہو چکا ہے۔اس لئے پارٹی کو اپنی سمت کے تعین میں احتیاط برتنی چاہیے پاکستانی معیشت کو کوئی دوسرا گروہ اتنا نہیں سمجھتا جیسا کہ ملک کے صنعت کار ہیں جو کہ نواز شریف کی حمایت میں پیش پیش ہیں وہ یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے تعلقات میں رخنہ پیدا ہونے سے اس کی کیا اقتصادی قیمت چکانا پڑے گی۔
تاجر طبقہ یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کا امریکی امداد پر کتنا دارومدار ہے اور بالآخر افغانستان کے طالبان کے متعلق ان کی پالیسیاں بھی مشرف اور زرداری کی پالیسیوں کا ملغوبہ ثابت ہوں گی،شریف خاندان کی حمایت کرنے والے تاجر اور جاگیردار بخوبی سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور طالبان کے برعکس وہ اسلام پرستوں کے سماجی اور اقتصادی انقلاب سے زیادہ دیر دل نہیں بہلا سکیں گے۔
جب شریف اقتدارمیں ہوں گے تو عمومی خیال یہی ہے پاکستانی طالبان کے خلاف سخت رویہ اپنائیں گے جب میں نے PML(N) کے ایک سینئر رہنما سے یہ سوال کیا کہ وہ پنجاب میں اسلام پسندوں کے انتہا پرستانہ نظریات کے متعلق کوئی نرم رویہ اختیار کریں گے تو وہ مجھ پر برس پڑا:
’’یہ ہمارا صوبہ ہے ہم اسے اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں ہم حکومت کرنا اور ترقی کرنا اچھی طرح سمجھتے ہیں ہماری شہرت اچھے منتظم اور امن و امان قائم کرنے کی وجہ سے ہے ہم کسی ظالم کو یہاں دہشت گردی پھیلانے یا امن و امان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کیا ہوا اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر یا امریکہ کے خلاف کررہے ہیں‘‘۔
اگر شریف برادران کو ان کی ذاتی ثقافت کے آئینے میں دیکھیں تو وہ بھٹو خاندان سے کافی دوری پر ہیں وہ کٹر نظریات کی حامی جماعت اسلامی کے بھی قریب نہیں، ان کے قریبی لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ وہ مذہبی تعصب نہیں رکھتے اور مذہب کے معاملے میں وسیع القلب ہیں وہ اچھا کھانا،خود نمائی اور خواتین کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن شراب کے قریب تک نہیں بھٹکتے۔
شاید اس میں کوئی ریا کاری نظر آتی ہو لیکن پی پی پی کے مغربیت کے جامے میں ڈھالے لیڈروں اور جماعت اسلامی کے سخت نظریات کے اظہار کے برعکس عام زندگی میں ان کا رویہ اکثریتی پنجابی مردوں جیسا ہے وہ اچھے مسلمان ہیں اور اپنی خواتین سے سخت رویے کا اظہار کرتے ہیں۔جیو کے عمران اسلم کا کہنا ہے:
’’قدامت پرستی ایک مذہبی شکل ہے جس سے سا لمیت اور سکون ملتا ہے لیکن اس سے ہرگز مذہبی جنونیت مراد نہیں یہ اپنی صورت میں امن ہے اور نفسیاتی مریضوں یا اسی طرح کے اسلام پسندوں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صف اول کے رہنماؤں کے زندگی کے پرتعیش اصولوں اور برادری کے سرپرستانہ سیاسی رویوں کی وجہ سے یہ نظر نہیں آتا کہ وہ پاکستان میں سماجی اور اقتصادی اصلاحات کا کوئی جال بُن سکیں گے یا خودکسی جدید عوامی پارٹی کی صورت میں ابھریں گے۔
شریف برادران بھٹو اور زرداری کے حکمرانہ طرز زندگی سے بالکل عاری ہیں لیکن دونوں برادران مطلق العنانیت پسند ہیں اور یہ جابرانہ رجحان ہی تھا جو ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا اور1999 میں فوجی انقلاب کو دستک دی۔
پی پی پی کی طرح PML(N) میں بھی پارٹی کے انتخابات نہیں ہوتے آخر میں تمام فیصلے شریف برادران اور ان کے مشیروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔PML(N) بھی ایک خاندانی پارٹی بن چکی ہے۔اگلی نسل میں قابلیت کے حوالے سے انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں(شہباز شریف کا بیٹا موروثی طور پر قیادت کیلئے موزوں خیال کیا جارہا ہے) تاہم بھٹو اور زرداری خاندان کی نسبت انہیں اس معاملے میں بہتر قرار دیاگیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ MQM
پاکستان میں پی پی پی اورPML(N) جیسی مضبوط جماعتوں کے بالمقابلMQM واحد جدید بڑی جمہوری سیاسی پارٹی کے روپ میں ابھری ہے کیونکہ اس میں قومی پارٹی کے تمام خواص موجود ہیں۔
MQM نے نسلی بنیاد پر اپنی پہچان منواتے ہوئے درمیانے طبقے کی جماعت کے طور پر کراچی اور حیدر آباد کے علاقے میں مہاجر آبادی کی نمائندگی حاصل کی۔اس نے اپنے آپ کو جدید درمیانی طبقے میں شامل ہونے اور ترقی یافتہ جماعت ثابت کرنے کیلئے پاکستان بھر میں سعی۔جاگیرداروں کی مخالفت،اسلام پسندوں کے نظریات کی مذمت(اسلام مخالف نہیں)،ترقی پسندی(سرمایہ داری کے مخالف نہیں) کے ساتھ پی پی پی،مسلم لیگ اور جماعت اسلامی تینوں کی مذمت کی وجہ سے درمیانی طبقے میں اس کی پذیرائی ہوئی۔
1997کے بعد MQM نے اپنا نام مہاجر قومی محاذ(مہاجر قومی موومنٹ) سے تبدیل کرکے متحدہ قومی محاذ( متحدہ قومی موومنٹ) کی شکل دے دی تاکہ جاگیرداروں کی اجارہ داری کے خلاف اور قومی ترقی کیلئے ملک بھر میں مہم چلائی جاسکے۔
لیکن دیکھا گیا ہے کہ MQMکی حکمت عملی ناکامی سے دو چار ہوئی کیونکہ جو سماجی اور ثقافتی صورتحال کراچی میں تھی باقی ماندہ ملک اس سے عاری تھا،دیہات کے دوسرے درمیانی طبقات کے لوگ ابھی تک سرپرستانہ رویوں اور خاندانی بندھن میں جکڑے تھے جبکہ مہاجر طبقہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آیا تھا اور سماجی طور پر آزاد تھا ۔لاہور،فیصل آباد کے کچھ حصوں کو چھوڑ کر شہری سیاست کو برداشت کرنے کیلئے شہری مراکز کی کمی تھی ساتھ ہی ساتھ MQM اپنی نسلی اور وفاداری کے جذبات کے احیاء کے قابل نہیں تھی جس پر اس کی اصل بنیاد استوار کی گئی تھی اور اس کی پاکستان کی دوسری قومیتوں سے نسلی مخاصمت تھی۔
MQM کو بڑے پیمانے پر اس لئے بھی عوامی حمایت حاصل نہ ہوسکی کیونکہ وہ طالبان کے خلاف سخت رویہ رکھتی تھی ۔ نسلی حوالے سے طالبان کی حمایت کرنے والے کراچی کے پٹھانوں کی مخالف تھی اور امریکہ اور برطانیہ کی زبردست حامی تھی۔MQM نے امریکہ اورNATO کی جانب سے افغانستان کیلئے سازو سامان کی ترسیل کیلئے کراچی کو ضروری اور موزوں راستے کے اعتبار سے حمایت کی اور اس سے مختلف فوائد حاصل کیے۔
MQMاسلام آباد اور سندھ کی حکومتوں میں شامل رہی ہے اور اس کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔پرویز مشرف کی فوجی انقلاب کے خلاف احتجاجاً اس نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جس سے کراچی کو جماعت اسلامی کی تحویل میں دے دیا گیا تاہم بعد میں پارٹی نے ان سے معاہدہ کرکے دوبارہ میونسپلٹی کا انتظام سنبھال لیا،گزشتہ حکومت میں PPP اورANP کے ساتھ مل کر سندھ میں حکومت بنائی اور کچھ ایسی ہی صورتحال اسے نواز شریف کی موجودہ حکومت کے ساتھ درپیش ہے۔
MQM پاک و ہند کے سیاسی رجحانات کی مظہر ہے۔یہ ایک نسلی تحریک بھی ہے جس کی بنیاد تشدد پر رکھی گئی اور اب بھی اپنے دشمنوں کے خلاف ہنگامہ خیز اقدامات کرتی ہے،ریاست کے خلاف بھی خونی ہنگامہ آرائی کر چکی ہے لیکن اکثر اوقات یہ تنازعات حکومت کے ساتھ شراکت یا دوسرے سرپرستانہ معاملات کی صورت میں ختم ہوئے۔اس طرح MQM نے کبھی کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ نہیں کیا کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس طرح چاہے جدت پسند یا موقع پرست سندھی سیاستدان ہوں وہ MQM کے ساتھ کبھی حکومتی اتحاد نہیں کریں گے۔
یہ کہنا بھی قطعاً غلط ہے کہ MQM بدعنوان،موقع پرست اور نسل پرست ظالم سیاستدانوں کی جماعت ہے بلکہ اپنے معیار کے حوالے سے اس کا شمار پاکستان کی گنی چنی جماعتوں میں ہوتا ہے،خاص طور پر اس کے کارکنوں کی جماعت سے وفاداری قابل رشک ہے ان میں سے ایک ناصر جمال نامی شخص بھی ہے جس کے خاندان نے پہلے پہل1948ء میں مشرقی پاکستان ہجرت کی اور پھر بنگلہ دیش بننے کے بعد1974ء میں پاکستان آئے اور کراچی کا رخ کیا جب وہ سولہ سال کا تھا تو اس نے MQM میں شمولیت اختیار کی اور اب وہ اسی جماعت کا چونتیس سالہ رکن تھا اس کا کہنا ہے’’ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہم نے اپنا سب کچھ دو مرتبہ کھویا ہے ، ہمارا اپنا کوئی ملک نہیں‘‘۔
’’جب MQM بنائی گئی تو ہماری طرح جو بھی ہندوستان سے یہاں آیا تھا اس کی کوئی پہچان نہیں تھی ہم نے محسوس کیا کہ ہماری پہچان نہ ہونے کی شاید یہ وجہ ہے کہ سندھیوں ،پنجابیوں اور پٹھانوں کی طرح ہماری اپنی کوئی زمین نہیں لیکن MQM نے ہمیں پہچان دی اور اگر میں اسے ایک جملے میں بیان کروں تو یوں کہوں گا کہ MQM ہمارا جوش اور جذبہ ہے۔عزت،آزادی اور ذاتی تکریم اب ہماری پہچان ہے،اب میں محسوس کرتاہوں کہ میرا وجود ہے اور میرے ہاتھ خالی نہیں چاہے تھوڑا ہی سہی لیکن میں اپنے کنبے قبیلے کے مسائل حل کرنے میں مدد دے رہا ہوں‘‘۔
افتخار ملک نے MQM کے اہم خصوصیات کا مندرجہ ذیل مجموعہ بیان کیا:
نسبتاً مکمل شہری،درمیانی طبقے کی نمائندہ، جو کہ مخصوص نسلی آگاہی کا شعور رکھتی ہے محنتی اور پڑھے لکھے لوگوں کی تنظیم،متاثر کن پروپیگنڈے کی حامل اور پر اثر نوجوانوں کی جماعت ہے۔
اس نے وراثتی کمزوریوں کی تفصیل یوں بتائی:
’’سیاسی سرگرمیوں میں شخصی سوچ کی چھاپ،گروہ بندی،دوسرے نسلی قومیتوں کے خلاف عدم برداشت اور میڈیا کے خلاف تشدد آمیز ہتھکنڈے جماعتی کمزوریوں کا حصہ ہیں۔میڈیا پر MQM کے خوف کا سایہ مسلط رہتا ہے ،اپریل2009 میں کراچی میں خون کی ہولی کے حوالے سے میڈیا کی جانب سے پارٹی کے خلاف معنی خیز خاموشی اختیار کی گئی میں نے جب مقامی صحافیوں یا تجزیہ نگاروں کا انٹرویو لیا تو انہوں نے پارٹی کے خلاف اپنے الفاظ کو کبھی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی درخواست کی انہوں نے بتایا کہ MQM کتنے نزدیک سے ان پر نظر رکھتی ہے۔
ڈاکٹر مالک کا مضمون1995 میں لکھا گیا ابھی اس میں بہت کچھ اور لکھنا باقی ہے۔اس نے جس دھڑے بازی کا ذکر کیا تھا اس کے باوجود پارٹی نے پاکستان کی دوسری جماعتوں کے مقابلے میں عوام کو حیرت انگیز طور پر متحد رکھا ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ الطاف حسین کی شخصیت کے سحر نے سب کو ان کا گرویدہ بنا رکھا ہے لیکن اسی لمحے الطاف بھائی پر قاتلانہ حملے کے نتیجے میں لندن منتقلی اور پھر اس کی غیر حاضری میں دوسرے درجے کی خود مختیار قیادت سامنے آئی ہے۔
1980 کی دہائی سے MQM کی حکومت پراثر اور ترقی یافتہ کردار کی صورت میں تسلیم کی جانے لگی ہے،حالانکہ گزشتہ بیس سال میں کراچی کا حجم دوگنا ہو چکا ہے اور بعض لوگوں کی پیش گوئی کے باوجود یہ شہر تباہی کے خوف سے لرز نہیں رہا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی نہ صرف پاکستان کا سب سے منظم شہر ہے(لیکن فیصل آباد اس تقابل میں شامل نہیں)بلکہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے شہروں کی خوف ناک حدوں کو چھوتی غربت کو مدنظر رکھیں تو اس کا شمار جنوبی ایشیا کے بہترین کارکردگی والے شہروں میں ہوتا ہے۔
آمدورفت کے روابط اور عوامی خدمات کو مدنظر رکھیں تو MQM کی میونسپل حکومت کے دوران اس میں خاصی بہتری دیکھنے میں آئی،شہر میں تجارت اور بزنس کی صورتحال بھی اس کا بین ثبوت ہے۔MQM کا دامن بھی بدعنوانی سے پاک نہیں لیکن یہ نہایت محدود پیمانے پر ہے اور دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کی نسبت اس کا تناسب نہایت معمولی ہے اور بعض اوقات یہ کرپشن فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کی بجائے پارٹی کی خاطر کی گئی جیسا کہ ایک صنعت کار نے مجھے بتایا’’ کہ انہوں نے کرپشن کی لیکن اسے عوامی بھلائی کیلئے استعمال کیا‘‘۔
MQM کی تعمیر انتہائی منظم اور بے رحم طلباء کی تنظیم کی بنیاد پر ہوئی یہ دونوں اصول جماعت اسلامی کے ماڈل سے اخذ کیے گئے اور پھر اس تنظیم کو مہاجرین کے تمام معاشرے میں پھیلا دیا گیا جس میں امراء کی تعداد نہایت قلیل تھی جبکہ زیادہ تر عالمی مساوات کے حامی تھے جنہوں نے1950 اور1960 کی دہائیوں میں کراچی کی سیاست پر حکمرانی کی ۔مزید براں دوسری کسی بھی پارٹی کے برعکس،تاہم جماعت اسلامی اس اعداد و شمار میں شامل نہیں۔MQM کی تنظیم میں خواتین کا نہایت بھرپور کردار رہا ہے جب ان کے لیڈر حضرات جیل میں تھے یا کہیں روپوش ہوئے تو انہوں نے پارٹی کے معاملات نہایت خوش اسلوبی سے نبھائے۔
MQM کی سماجی بہبود کی تنظیم خدمت خلق فاؤنڈیشن میں خواتین نہایت اہمیت کی حامل ہیں جو کہ ضرورت مند لوگوں کی ہر ضرورت مثلاً ان کے گھروں کی مرمت سے لے کر بچوں کی تعلیم اور ان کی بچیوں کیلئے جہیز کا سامان تک مہیا کرتی ہے اس طرح پارٹی کی تنظیم مہاجر سماج میں سرایت کر گئی ہے۔سماجی کام اور سماجی تنظیم یا کم از کم تشدد اور دھمکیاں ،مرکز کی طاقت کیلئے اور پارٹی کے لچک دار رویے کیلئے اہمیت کے حامل ہیں اس طرح اکثریتی مہاجر آبادی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے گرفت مضبوط ہوتی ہے۔MQM کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور جدت پارٹی کی ویب سائٹmqm.org پر دستیاب ہیں جس میں اس کی ذیلی شاخوں اور کاموں کی تفصیل موجود ہیں تاکہ ان کے حامی مستفید ہوں پی پی پی کی ویب سائٹ (ppp.org.pk) اور مسلم لیگ کی(pmln.org.pk) اس کے مقابلے کی نہیں پاکستان میں MQM اور جماعت اسلامی ہی ایسی پارٹیاں ہیں جو اپنے معاملات باقاعدہ اصولوں سے چلاتے ہیں۔
اپنی فیصلہ کن فطرت اور MQM کی سماجی اور سیاسی تنظیموں کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا ایک ہی نسل سے تعلق ہے اور وہ مدد بھی ان ہی لوگوں کی کرتے ہیں۔میں نے ان کے مقامی صدر دفاتر کا معائنہ کیا،شمالی کراچی کے11B سیکٹر میںMQM کے12000 ممبران ہیں جو کہ تقریباً103 ملین کی آبادی کی دیکھ بھال پر معمور ہیں ۔یہ ایک چھوٹی مگر محفوظ جگہ تھی،وہاں بہترین مشینیں نصب تھیں جن میں کمپیوٹرز،پرنٹرز اور فوٹو کاپیاں نکالنے والی مشینیں شامل تھیں،دیواروں کے ساتھ ایک ترتیب میں مقامی مسائل کے حوالے سے معلومات اور خطوط کی فائلیں دھری تھیں جن سے عوام الناس باخبر رہتے تھے۔الطاف حسین کی بڑی سی تصویر بھی آویزاں تھی،ایک کمرے میں کم از کم بارہ افراد کام میں مصروف تھے۔
مقامی میئر(ناظم)جس سے میری ملاقات طے تھی ان کے ساتھ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے مہاجر قومیت کے دیگر نمائندے بھی نظر آرہے تھے جن میں الیکٹریکل انجینئر، فلپ کمپنی کے ایک سیلز مین،ایک سافٹ ویئر منیجر اور چند دکاندار بھی شامل تھے۔درمیانی عمر کے گہرے نقوش والے ذہین شخص بشارت حسنین نے بتایا:
’’MQM نچلے درمیانے طبقے کے لوگوں کی جماعت ہے اور یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں زیادہ تر جاگیردار پارٹیوں کو چلاتے ہیں جو منتخب ہو کر نہیں آتے بلکہ ان کا چناؤ ان کی زمینوں،پیسے اور قبیلے کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔MQM نے ہمیں ایسے لوگوں کے خلاف بولنے کی آواز دی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے شہر اور اس کے اردگرد کے رہنے والے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملی ہے‘‘۔
MQM کے رہنما الطاف حسین متحمل مزاج شخصیت کے مالک ہیں انہوں نے نچلے درمیانے طبقے سے اڑان بھری ،وہ ٹیکسی ڈرائیور بھی رہے اگر اس کی شاندار خوبیوں میں سے بہترین منتظم کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھیں تو الطاف حسین اپنے لوگوں کیلئے حد درجے کی کرشماتی شخصیت ہیں اور یہ ان کے لئے’’پیر صاحب‘‘ کے لقب سے بھی ظاہر ہے کیونکہ لوگ انہیں اسی نام سے یاد رکھتے ہیں اور اس سے ایک صوفی سے جڑی اندھی محبت کا اظہار بھی ہوتا ہے Oskar Verkaaik نے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن کے وفادارانہ الفاظ کے اظہار کو اس طرح قلم بند کیا ہے:
’’ہم روبوٹس کی طرح ہیں،ہمارا ریموٹ کنٹرول پیر صاحب کے ہاتھ میں ہے وہ ہمیں کہتا ہے کھڑے ہو جاؤ ہم کھڑے ہو جاتے ہیں وہ جب ہمیں کہتا ہے بیٹھ جاؤ تو ہم بیٹھ جاتے ہیں ہم اپنا دماغ استعمال نہیں کرتے اگر ہم نے اپنے دماغ سے کام لیا تو پھر ہم تقسیم ہو جائیں گے‘‘۔
الطاف حسین کی شخصیت کے گرد پراسراریت کا ہالہ بنا ہوا ہے عوام میں ان کا تصور ایک سادہ اور جنسی حوالے سے سرد مہر انسان کا ہے انہیں دیکھ کر مہاتما گاندھی اور دوسری مذہبی و سیاسی ہندو شخصیتیں یاد آتی ہیں تاہم وہ عدم تشدد کے نظریے کے پرچارک نہیں ہیں کبھی کبھی MQM اپنے آپ میں الطافین نظر آتی ہے جب سے انہوں نے 1992 میں ایک قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد جلا وطنی اختیار کی ہے وہ لندن سے ویڈیوز،ڈی وی ڈیز اور ریکارڈنگ کے ذریعے اپنے بیانات دے کر بہتر طریقے سے قیادت کا حق ادا کررہے ہیں۔
اس کی کرشمہ ساز شخصیت نے غیر مہاجر تجزیہ نگاروں کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے کیونکہ وہ بظاہر مرنجاں مرنج انسان ہیں،قبول صورت ہونے کے ساتھ ملی جلی اونچی آواز ان کا خاصہ ہے،بے نظیر بھٹو پر ایک نظر پڑتی تو عام پاکستانی یہ سوچتا تھا کہ وہ آسمان سے اتری کوئی شہزادی ہے اور ان کی رہنمائی کیلئے بلائی گئی ہے لیکن جب نچلے مڈل طبقے سے وابستہ مہاجر الطاف حسین کو دیکھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بلند سطح پر سرفراز کرکے دیکھ رہے ہیں۔
صرف MQM کی کامیابیاں ہی ان کے درمیانے طبقے کی ساخت سے نہیں جڑیں بلکہ پنجاب کے درمیانی طبقے کی معقول اکثریت میں بھی PML(N) کی حمایت وجود میں آئی ہے۔یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہندوستان سے مہاجرین کی آمد نے بنیادپرست اور سماجی حدود و قیود میں قید پاکستانی پارٹیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے مثلاً برادری ازم اور مقامی شہری و دیہاتی صاحب ثروت افراد جن کی طاقت اور وقار کی بنیاد نہ صرف دولت کی وجہ سے تھی بلکہ ساتھ ہی ساتھ مخصوص سرپرستی والے قبیلے کی سرداری سے بھی جڑی تھی یا پھر زمینوں کی ملکیت اور مذہبی گھرانوں کی وجہ سے ممیز تھی۔
مہاجرین کی آمد نے ان پر اپنے اثرات مرتب کئے،ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے بڑے خاندانوں کے افراد نے پاکستان کی سماجی اور ثقافتی زندگی کو خاصا متاثر کیا لیکن ان کی سیاسی قوت اور پراپرٹی ہجرت کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی تھی۔1947ء میں ان کی روایتی برادری کے بندھن اور مذہبی روابط بھی بری طرح ہجرت کی صدمات کے نذر ہوگئے اور انہیں حیدر آباد اور کراچی جیسے شہروں میں بے یارودمددگار لا کر چھوڑ دیا گیا۔
اس تمام پس منظر کے علاوہ دیگر کئی عوامل کا ہاتھ بھی کارفرما تھا جس کی وجہ سے یہ سیاسی پارٹی وجود میں آئی ایک تو ہندوستان کی تقسیم تھی جس میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور ہزاروں لوگ قتل و غارت کی نذر ہوئے۔بے شک MQM دیگر پاکستانی پارٹیوں کی نسبت جدت پسند ہے لیکن کیا یہ جدت پسندی1945 سے پہلے کے ان یورپی نچلے درمیانی طبقے کے بدنام زمانہ قوم پرستوں کی ماندہے جو کامیاب سماجی کارکن اور مضبوط تنظیم کی شہرت بھی رکھتے تھے اس قسم کی جدت پسندی کا اگر ایسا ہی موازنہ ہوا تو پھر یہ سب کچھ بھی جاگیرداری نظام ہی کہلائے گا۔
(انگریزی سے ترجمہ:انجینئر مالک اشتر)