working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

ز طرف مدیر

یہ دہشت کیسے تھمے گی؟

محمد عامر رانا

مغرب میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ سڈنی کیفے اور اٹاوا پارلیمنٹ فائرنگ سے شروع ہونے والا سلسلہ اب پیرس کی گلیوں تک پہنچ چکا ہے شمالی افریقہ کے مسلم ممالک جو مغربی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں، دہشت گردی کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ سالِ رواں میں امریکہ میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ہو چکے ہیں۔ آخری واقعہ ماہِ رواں میں سان بارنارڈنو، کیلی فورنیا میں پیش آیا۔ جس میں پاکستانی نژاد فاروق اور اس کی بیوی تاشفین ملک ملوث پائے گئے۔ اس واقعے کے بعد دنیا کی توجہ ایک مرتبہ پھر پاکستان پر آئی ہے پیرس کے دہشت گردی کے واقعات میں ایک مسلمان خاتون حسنا ایتبولاچن کے ملوث ہونے نے دنیا کو حیران کیا تھا کہ سماجی حلقوں میں متحرک اور پارٹی گرل میں اچانک کیا تبدیلی آئی کہ اس نے اپنے آپ کو خود کش ایندھن بننے کے لیے پیش کر دیا تاشفین ملک نے اس حیرت میں مزید اضافہ کیا ہے اور یقیناًیہ واقعہ مغرب میں مسلمانوں کے خلاف بد اعتمادی اور اسلامو فوبیاکا سبب بھی بنا ہے۔

مغرب میں ہونے والے دہشت گردی کے ان واقعات کو داعش کے پھیلاؤ اور اثر و نفوذ سے جوڑا جاتا ہے لیکن پیرس اور کیلی فورنیا کے واقعات سے منسلک دو پہلو اہم ہیں۔ ایک مختلف النوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان خصوصاً خواتین کا دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونا اور دوسرا مذہبی اداروں کا کردار، جیسا کہ تاشفین ملک کے سلسلے میں الھدیٰ کا ذکر عام ہوا ہے۔

پہلے معاملے کا تعلق انتہا پسندی کے بدلتے ہوئے رجحانات سے ہے بالائی متوسط طبقات کے نوجوانوں میں یہ رجحانات خطرے کی حدوں کو چھونے لگے ہیں۔ اس کی مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی اور نفسیاتی توجیحات کی جاتی ہیں اور ان موضوعات پر تحقیق مسلسل جاری ہے لیکن فی الوقت یہ یقین کرنے میں وقت درکار ہے کہ وہ کیا عامل ہے جو فرد کی یک دم تقلیب کر دیتا ہے اور وہ دہشت گردی کا ایندھن بننے پر تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ طے شدہ امر ہے کہ ایسے افراد دہشت گردی کے نیٹ ورکس سے منسلک ہونے سے پہلے مذہبی اجتماعیت کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں اور عموماً ان کا یہ سفر غیر عسکری مذہبی جماعتوں اور تحریکوں سے شروع ہوتا ہے۔

غیر عسکری مذہبی تحریکیں ابہام کا شکار ہیں اور وہ دہشت گردی کی مکمل مخالف کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ مثلاً پاکستان میں دہشت گردی کے بارے میں تو یہ تحریکیں اور جماعتیں تقریباً اتفاق کرتی ہیں کہ یہاں پر یہ عمل جائز نہیں۔ لیکن دیگر ممالک حتیٰ کہ مسلم ممالک کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ دہشت گرد رہنماؤں کی تکفیر سے اجتناب کرتی ہیں۔ ایسے بے شمار تضادات اور ابہامات ان جماعتوں کے پیروکاروں میں بے چینی اور اضطراب پیدا کرتے ہیں اور وہ واضح نقطہ نظر کی تحریکوں جو کہ عموماً عسکری نوعیت کی ہیں اور دہشت گردی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔

مذہبی جماعتیں اور تحریکیں اس ابہام کا الزام اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہیں جب دینی مدارس یا ان سے منسلک تنظیموں کے وابستگان دہشتگردی کا ارتکاب کرتے ہیں تو جدید مذہبی ادارے ان سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب جدید تعلیمی اداروں سے نکلے ہوئے افراد دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں تو مدارس کے وابستگان انگشت نمائی دوسری جانب کرتے ہیں۔

یہ مسئلے کے ادارک سے انکار اور راہ فرار کے سوا کچھ نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مذہبی ادارے پاکستان میں ایک مذہبی سماج کو تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور مذہبیت کے رجحانات فروغ پذیر ہیں لیکن مذہبی رجحانات کو دہشت گردی کی دیمک سے شدید خطرات لاحق ہیں اس کا ادارک تمام مذہبی اداروں اور تحریکوں کو کرنا پڑے گا خواہ ان کا تعلق جدید اسلامی رجحانات کی تشکیل کرنے والے اداروں سے ہو یا روایتی مذہبی اداروں سے، ان کی مشترکہ کاوشوں کے بغیر مذہبی سماج کو دہشت گردی کے طوفان سے نہیں بچایا جا سکتا۔ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ بات تاشفین ملک اور الھدیٰ تک پہنچ چکی ہے۔