working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

قومی لائحہ عمل برائے انسداد دہشت گردی

نیکٹا کب فعال ہو گا ؟

طارق پرویز

قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی (نیکٹا)کو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں مرکزی کردار تفویض کیا گیا ہے مگر یہ اہم ادارہ خود کس حال میں ہے۔ اس پر طارق پرویز صاحب نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے طارق پرویز نیکٹا کے پہلے قومی کو آرڈینیٹر رہ چکے ہیں ۔اس سے قبل وہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکے تھے ۔9/11کے بعد پاکستان میں اٹھنے والی دہشت گردی کی لہر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کا وسیع تجربہ رکھنے والے طارق پرویز کو حکومتِ پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نواز رکھا ہے ۔پاکستان کی انٹیلی جنس میں ان کا نام ایک معتبر حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔(مدیر)

یہ واضح تھا کہ دسمبر2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد ایک بھر پور رد عمل ناگزیر ہے۔جو بالآخر حکومت کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں سامنے آیا جس میں ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعادہ کیا گیا تھا ۔National Counter Terrorism Authority نیکٹا ہی وہ ادارہ تھا جس نے قدم قدم پر نیشنل ایکشن پلان کی رہنمائی کرنی تھی ۔یہ وہ بنیادی نوعیت کا فیصلہ تھا جس نے آگے چل کر انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں اہم کردار ادا کرنا تھا ۔نیکٹا ہمیشہ خبروں میں رہتا ہے اپنے کام کی وجہ سے نہیں بلکہ کام نہ کرنے کی وجہ سے، حالانکہ اس پرانسدادِ دہشت گردی کی ذمہ داری ہے اور اسے سب سے زیادہ متحرک نظر آنا چاہئے ۔نیشنل ایکشن پلان بھی اس سے یہ توقع رکھتا ہے۔ تھوڑے عرصے کے لئے یہ متحرک رہا بھی ۔آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کی یہ شدید خواہش تھی کہ نیکٹا کو متحرک کیا جائے ۔31دسمبر2014ء کو وزیر داخلہ نے نیکٹا کے حوالے سے ایک میٹنگ کی صدارت کی جس کے بعد نیکٹا کو پھر سے فعال بنا دیا گیا ۔لیکن چھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد لگتا نہیں ہے کہ نیکٹا فعال ہے ۔یہ فوج ہی ہے جس نے ہمیں وہ دن یاد دلایا ہوا ہے وگرنہ افسرشاہی کے طور طریقے تو پہلے جیسے ہی ہیں کہ رات گئی بات گئی ۔حکومت کی جانب سے بھی اگر کوئی کوتاہی نظر آتی ہے تو وہ نیکٹا کے بارے میں ہی ہے ۔

کیا نیکٹا کی ضرورت بھی ہے ؟

وفاقی سطح پر ایک ایسے ادارے کی ضرورت توتھی جو 9/11کے بعد انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے انھیں منظم بھی کرے ۔اس سے پہلے اس سلسلے میں جانے والی کوششیں مجتمع نظر نہیں آتی تھیں ۔صوبوں اور وفاق کے درمیان کہیں بھی باہمی تعاون نہیں تھا ۔فوج ،سول انٹیلی جنس ایجنسیوں اور وفاقی وزارتوں کا انسداد دہشت گردی میں اپنا اپنا کردار ہے ۔مگر ان سب کے درمیان رابطوں اور باہمی تعاون کے فقدان کی وجہ سے کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہو رہا تھا ۔اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جنوری2009ء میں نیکٹا کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔کہ وہ ان تما م فوجی اور سول اداروں کے درمیان رابطہ کار کے فرائض ادا کرے گا جن کی ذمہ داری انسدادِ دہشت گردی ہے ۔اس کے چار سال بعد ایک قانون بنایا گیا جس میں نیکٹا کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی ۔جس میں اس کے ذمہ درج ذیل سات کام تفویض کئے گئے ۔

1۔ دہشت گردی سے متعلق تمام معلومات اکٹھی کرنا ،انھیں متعلقہ اداروں تک بھیجنا اور کسی بھی خطرے کی پیشگی اطلاعات سے متعلقہ محکموں کو آگاہ کرنا

2۔ انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف حکمت عملی وضع کرنا اور اس کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے جائزہ لینا ۔

3۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف منصوبہ سازی اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کام کی رفتار کا جائزہ لینا

4۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے متعلق تحقیقات کرنا اور متعلقہ اداروں کو اس سے آگاہ کرنا ۔

5۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بارے میں عالمی برادری کے ساتھ رابطے میں رہنا تاکہ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیا جائے ۔

6۔ متعلقہ قوانین کا جائزہ لینا اور اگر کسی میں ترمیم کی ضرورت ہو تو وفاقی حکومت کو اس سے آگاہ کرنا۔

7۔ سرکاری اور غیر سرکاری شعبے سے ماہرین کی کمیٹیاں بنا کر ان سے نیکٹا کے امور پر مشاورت طلب کرنا ۔

آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد تنظیم نے کئی بار مشاورت کا کردار ادا کیا ۔دسمبر2014ء میں وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان سے رابطہ کاری کے تمام فرائض نیکٹا ادا کرے گا ۔

نیکٹا پر ایک نظر

نیکٹا کا مسئلہ اس کا مینڈیٹ نہیں بلکہ اس کی تنظیم سازی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب نیشنل ایکشن پلان میں اس ادارے کی فعالیت کا ذکر کیا گیا تو مقصد تھا کہ یہ بطور رابطہ کار اپنا کردار ادا کرے گا ۔ایسا ہی تاثر وزیر اعظم اوروزیر داخلہ کے بیانات سے بھی ملتا تھا ۔نیکٹا کی بحالی کے بارے میں میڈیا کی خبروں سے ہی معلومات ملتی ہیں وگرنہ حکومت کے پاس نیکٹا کی کارگزاری بتانے کے لئیابھی کچھ بھی نہیں ہے ۔

انتظامیہ

آرمی پبلک سکول پر حملے کے چھ ماہ بعد بھی نیکٹا ادارتی عدم توجہی کا شکار ہے جس نے اس کی افادیت ختم کرکے رکھ دی ہے ۔ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ نیکٹا وزیر اعظم کے ماتحت ہو گا یا وزیر داخلہ کے ، یہ بحث اس کے قیام کے وقت سے ہو رہی ہے ۔کہ اس کا کنٹرول کس کے پاس ہونا چاہئے ۔آخر کار قرعہ وزیر اعظم کے نام نکلا ۔لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس کو وزیرِ داخلہ کے ماتحت کر دیا گیا ۔لیکن پھر یہ محسوس ہونے لگا کہ اس کے انتظامی امور تو وزارتِ داخلہ کے ساتھ ہیں مگر اس کے آپریشنل امور وزیر اعظم آفس کے ماتحت ہیں ۔اس طرح نیکٹا دو دفاتر کے درمیان الجھ کر رہ گئی ۔

2013ء میں سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ وہ اس حکم نامے کو کالعدم کرے جس میں نیکٹا کو وزارتِ داخلہ سے لے کر وزیر اعظم ہاؤس کے ماتحت کر دیا گیا تھا ۔اس پر ابھی تک عمل در آمد نہیں کیا گیا اور وزارتِ داخلہ ہی نیکٹا کے امور نمٹاتی ہے ۔دوسرا یہ کہ ابھی تک نیکٹا کے بورڈ آف گورنرز کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہو سکی حتٰی کہ گزشتہ سال دسمبر 2014ء میں نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا ۔ نیکٹا ایکٹ کا سیکشن چھ اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے کہ کم از کم ہر تین ماہ میں نیکٹا کے بورڈ آف گورنرز کا ایک اجلاس ہونا ضروری ہے ۔بورڈ آف گورنر اس کی انتظامیہ کا نہایت اہم جزو ہے ۔جس کی سربراہی وزیر اعظم کے پاس ہے اور اس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی کے علاوہ ملک بھر کی نمائندگی ہے ۔بورڈ کے چار مقاصد ہیں : ایک یہ کہ وہ نیکٹا کے تمام امور پر نظر رکھے : ملکی ضروریات پر اسے خصوصی ٹاسک دے ،اس کی سرگرمیوں کا جائزہ لے ، نیکٹا ایکٹ کے مد نظر رکھتے ہوئے اس کے لئے قوانین پالیسیاں اور طریقہ کار وضع کرے اور اس کے سالانہ حسابات کی منظوری دے ۔نیکٹا بورڈ کو فعال کئے بغیر نیکٹا کی فعالیت ممکن نہیں ہے ۔پھر یہ کہ اگر بورڈ کی میٹنگ ہی نہیں ہو رہی تو اس کو ٹاسک کون دے گا اور کون اس کی سمت متعین کرے گا ؟

وزیرِ داخلہ کی سربراہی میں اس کی ایگزیکٹو کمیٹی بھی کام کرتی ہے جو اس کا دوسرا اہم جزو ہے ۔یہ بورڈ کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوں پر عمل در آمد کا جائزہ لیتی ہے ۔اور دیگر وہ تمام کام جو بورڈ اس کے ذمہ لگاتا ہے ۔آرمی پبلک سکول پر حملے کے دو ہفتے بعد نیکٹا کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہواتھا مگر اس کے بعد سے اب تک اس کا کوئی دوسرا اجلاس نہیں ہو سکا ۔بورڈ اور ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاسوں کے بغیر اس کی قانونی حیثیت متاثر ہوتی ہے کیونکہ ایگزیکٹو کمیٹی بورڈ کے فیصلوں پر عمل در آمد کروانے کی پابند ہے ۔

نیکٹا کا سربراہ جسے قومی کوآرڈینیٹر کہا جاتا ہے اسے جملہ اختیارات تفویض نہیں کئے گئے ۔حالانکہ کوآرڈینیٹر کا کردار نیکٹا میں فیصلہ کن ہے ۔جس کے ذمہ اس کے نو اہم امور ہیں جن میں تمام انتظامی اور عملی امور آتے ہیں ۔اسے یہ اختیارات بورڈ تفویض کرتا ہے مگر بورڈ کے اجلاسوں کے بغیر یہ کیسے ہو گا واضح نہیں ہے ۔وہ کیسے لوگوں کو بھرتی کرے گا یااپنے اخراجات کرے گا ۔

یہ بات بھی مضحکہ خیز ہے کہ نیکٹا کا اپنا کوئی ہیڈ کوارٹر نہیں اور اسے کہا جا رہا ہے کہ وہ علاقائی دفاتر قائم کرے ۔وزارتِ داخلہ نے ایک سمری وزیر اعظم ہاؤس کو منظوری کے لئے بھجوائی ہے جس میں علاقائی دفاتر قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس سمری کا کیا بنا ۔

اہداف

31دسمبر 2014ء کو اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کے بعد وزیر داخلہ نے نیکٹا کے ذمے دو اہم کام لگائے ۔ایک یہ کہ یہ ایک ہیلپ لائن قائم کرے گا جس کانمبر 1717ہو گا جس میں عام شہری دہشت گردوں کے بارے میں معلومات دے سکتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ نیکٹا وزیر اعظم کو ایسی تجاویز دے گا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کیسے ہو گا ۔مگر اس بارے میں ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔

ایک بات تو یہ کہ ہیلپ لائن کا قیام نیکٹا کا فرضِ منصبی نہیں بنتا ۔یہ پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ان اداروں کا کام ہے جو عملی طور پر میدان میں ہیں ۔نیکٹا کا کام اس سلسلے میں اشتراکِ عمل کا ہے ۔ اور اس طرح کی ہیلپ لائن جیسی تجاویز دینا نیکٹا کو سزا دینے کے مترادف ہے ۔6 فروری کو ہیلپ لائن کے قیام کے تقریباً دو ماہ بعد وزیر داخلہ نے وزیر اعظم کو آگاہ کیا کہ ہیلپ لائن پر 161کالیں موصول ہوئیں ۔ا س کے بعد کتنی کالیں موصول ہوئیں معلوم نہیں ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت صرف یہ تاثر دینا چاہتی کہ وہ کچھ کر رہی ہے ۔جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی نے نیکٹا کے ذمے دوسرا کام یہ لگایا تھا کہ نیکٹا وزیر اعظم کو نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کے حوالے سے تجاویز بھجوائے گی ،اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ۔

بجٹ

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد حکومت نے نیکٹا کو خاطر خواہ وسائل فراہم کئے ۔کیونکہ وسائل ہو ں گے تو کوئی کام ہو سکے گا ۔مگر یہ صرف خام خیالی ہی ثابت ہوئی ، مالی سال 2015-16میں نیکٹا کے لئے کوئی خصوصی یا الگ سے بجٹ مختص نہیں کیا گیا ۔اس حقیقت کو فنا نس سیکرٹری نے بھی تسلیم کیا ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ نیکٹا کابجٹ وزارتِ داخلہ کے بجٹ میں ہی شامل ہے ۔یہ غالباً دیہاڑی داری پر نیکٹا کو چلانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے ۔نیکٹاکئی سالوں سے اپنے لئے الگ فنڈز طلب کرتا آ رہا ہے ۔وزارتِ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ نیکٹا کو فعال بنانے کے لئے 96کروڑ کی ضرورت ہے ۔جس کے لئے وزارتِ خزانہ کے ساتھ ان کے مزاکرات ہو رہے ہیں تاکہ نیکٹا کو مطلوبہ رقم مل سکے ۔

افرادی قوت

نیشنل ایکشن پلان کا اعلان ہوئے چھ ماہ سے زیادہ کاعر صہ ہو چکا ہے مگر نیکٹا کی کام کرنے کی اہلیت اور رفتار وہی ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ وزیرِ اعظم نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد میں کتنے سنجیدہ ہیں ۔وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے نے بتایا کہ نیکٹا میں 206آسامیاں ہیں جس میں صرف 60پر لوگ کام کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ نیکٹا صرف 29فیصدکے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہے اور 71فیصد آسامیاں خالی پڑی ہیں ۔ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس میں افسران کتنے ہیں اور غیر افسران کتنے ہیں ۔جو 60لوگ اس میں کام کر رہے ہیں ان میں بھی 50لوگ غیر افسران (کلرک ، نائب قاصدوغیرہ)ہیں اور صرف دس افسران کام کر رہے ہیں ۔جبکہ ان کی مقررہ تعداد 34ہے ۔نیکٹا کی سینئر انتظامیہ کام چلانا چاہتی ہے چاہے بہت برا ہی کیوں نہ ہو ۔گریڈ 12سے 20کی22 آسامیوں جن میں نیکٹاکا سربراہ بھی شامل ہے کی صرف ایک آسامی پر تقرری ہو سکی ہے جو نیکٹا کے سربراہ کی ہے ۔جب کہ باقی گیارہ جن میں چار ممبران اور سات ڈائریکٹر جنرل شامل ہیں جنھوں نے نیکٹا کے قومی کو آرڈینیٹر کی مدد کرنی ہے ان کی تقرری ابھی ہونی ہے ۔

آگے کا عمل

اپنے قیام کے چھ سال اور آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے چھ ماہ بعد نیکٹا کو جتنا فعال ہو نا چاہئے تھا وہ اتنا فعال نہیں ہو سکا ۔ سیکرٹر ی داخلہ کے بقول یہ صرف ’’کاغذی شیر‘‘ ہی ہے ۔اس کو ابھی تک مناسب طریقے سے فعال نہیں بنایا جا سکا ۔نیکٹا کو فعال بنانے کے لئے حکومت کو نیکٹا ایکٹ کو سامنے رکھنا ہو گا ۔جو اس کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔سب سے اہم بات یہ کہ نیکٹا کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس باقاعدگی سے بلائے جائیں ۔اور اس طرح کے اجلاسوں کے بغیر نیکٹا کا وجود نشستند ،گفتند و برخواستند والا ہی ہو گا ۔کیونکہ اس طرح کے اجلاسوں سے ہی نیکٹا کو پتہ چلتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ملک کو کیا خطرات ہیں اور ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے ۔نیکٹا کے سربراہ کو جو مسائل درپیش ہیں یہ سب بورڈ آف گورنرز کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں تاکہ انھیں مطلوبہ وسائل کے لئے روز روز وزارتِ داخلہ کے چکر نہ کاٹنا پڑیں ۔