working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

فکر و نظر

اقوام عالم کے رواج و قوانین اور اسلام کا معیارِ ردّ و قبول
(عرب کے رواج و قوانین کی روشنی میں)

صاحبزادہ محمد امانت رسول

آج کی دنیا میں قوانین کی بنیاد علمی و فکری ہے مگر زمانہ قدیم میں قانون کی بنیاد رسوم و رواج ہوتے تھے رسوم و رواج کسی معاشرے کے اخلاق اور تربیت کرنے والے ایسے بنیادی اصول تشکیل کرتے ہیں جنھیں صدیوں کی دانش و روایت سے کشید کیا جاتا ہے ۔اسلام سے پہلے عرب معاشرہ میں جو قوانین اور رسوم چلے آرہے تھے ان میں سے بہت کم کو اسلام نے کلی طور پر رد کیا ،بعض کو من و عن اور بعض کو ترمیمات کے ساتھ قبول کر لیا گیا اس ضمن میں صاحبزادہ امانت رسول نے فرداً فرداً ان تمام رواج و قوانین کا جائزہ لیا ہے۔صاحبزادہ امانت رسول ادارہ فکر جدید لاہور کے سربراہ ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔(مدیر)

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء و رسل کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں سے بعض حاملین کتب تھے اور ان کی اپنی شرائع تھیں۔ اسلامی معاشرہ کی تاسیس کے وقت ان شرائع سابقہ کے ساتھ کیاطرز عمل اختیار کیاگیا، زیر نظر تحریر کی ابتداء اسی سوال پر بحث سے ہوئی ہے ، اس طرح وہ معاشرہ جو قرآن اور حامل قرآن کابراہ راست مخاطب تھا، اس کی اپنی تہذیب، اپنے اصول اور اپنی اقدار تھیں۔ بالخصوص مکہ میں ایک مخصوص نہج کانظام حکومت موجود تھا۔ اس تناظر میں اسلام نے کیا رویہ ا ختیار کیا ؟ جاہلی دور کے سماجی اداروں، معاشرتی اقدار ، معاشی طور طریقوں ، اور سیاسی نظام کو کلیتہً رد کردیا گیا، من وعن قبول کرلیا گیا ، یا ترمیم و اضافہ کے ساتھ اختیار کیاگیا؟

سیاسی وانتظامی معاشرتی ادارے

عرافہ :

یہ ادارہ عرب معاشرہ میں بہت اہمیت رکھتاتھا۔ عریف ایک چھوٹے حلقے کانمائندہ ہوتاتھا ۔ ہر قبیلہ میں دس دس افراد پر ایک عریف مقرر ہوتاتھا۔ عام طور پر قبیلہ میں سے تجربہ کار ذہین اور صاحب ثروت شخص کو عریف منتخب کیاجاتاتھا جو نہ صرف اپنے حلقے کے لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کرسکتاہو بلکہ دیگر جماعتوں اور قبائل کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں اپنے حلقے کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرسکے۔ لسان العرب اور قاموس میں عریف کی تعریف اس طرح کی گئی ہے۔

’’ھوالقیم بامورالقبیلۃ اولجماعۃ من الناس یلی امور ہم ویعرف الامیرمن احوالھم۔‘‘

یعنی عریف قبیلہ یا جماعت کاذمہ دار فرد ہوتاہے۔ جن لوگوں کی قیادت کرتاہے ، ان کے تمام حالات سے سردار کو باخبر رکھتاہے۔

علامہ ابن حجر عسقلانی نے عریف کامفہوم اس طرح بیان فرمایاہے :۔

’’ان عریف ،ای ولیت سیاستھم وحفظ امور ھم‘‘

یعنی قوم کے سیاسی امور اور ان کے حقوق کی نگہبانی عرافہ ہے۔

تاج العروس شرح قاموس میں عریف کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

’’ھورئیس القوم لمعرفتہ بسیاسۃ القوم ‘‘

یعنی وہ قوم کارئیس ہوتاہے جو ان کے سیاسی حالات سے بخوبی آگاہ ہوتاہے۔ عریف کی ذمہ داریوں اور اس کی صلاحیتوں کااندازہ اس شعر سے بھی کیاجاسکتاہے۔

اوکلما وردت عکاظ قبیلہ بعثوالای عریفھم یتوسم۔

(ترجمہ)عکاظ کے میلہ میں جب بھی کوئی قبیلہ آتاہے تو شراحیل کے لوگ اپنے عریف کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ مجھے شناخت کرسکے اور پھر عریف کی نشاندہی پر یہ لوگ مجھ سے قتل کا انتقام لے سکیں۔

علامہ ابن حجر عسقلانی کاخیال ہے کہ عریف اپنے حلقے کے لوگوں کے حقوق کی نگہبانی بھی کرتا ہے، اور لوگوں سے قانون پر عمل درآمد بھی کراتاہے ، وہ لکھتے ہیں :

’’فانا اقسام علی کل قوم عریفالم یسع کل احدالاالقیام بما امربہ ‘‘

ترجمہ:جب ہر جماعت میں عریف مقرر ہوتاہے تو انہیں منکرات کے ارتکاب کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ پابندی سے قانون پر عمل کرتے ہیں۔

یہ ادارہ عہد نبوی ؐ کے بعد بھی برقرار تھا، امام بخاری نے کتاب الشہادات میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو جمیلہ نے حضرت عمرؓ کے پاس ایک مقدمہ پیش کیا اور عرض کیا کہ مجھے ایک نومولود بچہ پڑاہواملاہے۔ میں نے پرورش اور تربیت کے لیے اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ لہٰذا بیت المال سے اس بچہ کا روزینہ مقرر فرمادیجیے۔ حضرت عمرؓ نے اس شخص کو مشکوک سمجھا تو اس کے عریف نے اس کی صفائی پیش کی۔

’’قال عریفی انہ رجل صالح ‘‘ میرے عریف نے بتایاکہ یہ نیک آدمی ہے۔

عریف کی تصدیق پر حضرت عمرؓ نے اس بچہ کا روزینہ مقرر فرمادیا ، اور ابوجمیلہ کی دیانت و صداقت کابھی اعتبار کرلیا۔

فتح مکہ کے بعد شوال ۸ ھ میں حنین کامعرکہ پیش آیا ، اس میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے بہت سے لوگ جنگی قید ہوگئے تھے ، اختتام جنگ کے بعد قبیلہ ہوازن کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے قیدیوں کی رہائی کی درخواست کی ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ میں ان قیدیوں کو واپس کرناچاہتاہوں، تم میں سے جو شخص خوشی سے آزاد کرنا چاہے تو کرسکتاہے۔ لوگوں نے کہا ہم بخوشی آزاد کرتے ہیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم تم میں سے کون بخوشی اجازت دیتاہے اور کون نہیں ، لہٰذا تم لوگ اپنے عریفوں کے ذریعے اس معاملہ کو پیش کرو۔ صحیح بخاری میں ہے :

’’قال شھاب حدثنی عروۃ بن زبیر ان مروان بن الحکم والمسور بن مخرمۃ أخبرہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال حین اذن لھم المسلمون فی عتق سبیی ھوازن(انی لاأدری من أذن فیکم ممن لم یأذن فارجعوا حتی یرفع الینا عرفائکم امرکم) فرجع الناس فکلمھم عرفاءھم، فرجعوا الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فاخبروہ ان الناس قد طیبوا واذنوا‘‘

(ترجمہ )جب مسلمانوں نے ہوازن کے قیدیوں کو آزاد کرنے کی اجازت دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے نہیں معلوم کہ کس نے تم میں بخوشی اجازت دی ہے ، اور کس نے نہیں دی ، لہٰذا آپ لوگ جائیں اور اپنے عریفوں کو بھیجیں تاکہ وہ تمہارے معاملے کو ہمارے سامنے پیش کریں، لوگ واپس چلے گئے اور اپنے عریفوں سے گفتگو کی ، پھر ان کے عریفوں نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایاکہ لوگوں نے برضا و رغبت اجازت دے دی ہے۔

علامہ طبری اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جس طرح عہد فاروقی میں عریف مقرر کیے گئے تھے، بالکل اسی طرح عہد نبوی ؐ میں بھی عریفوں کاتقرر ہوتاتھا۔

طبری کے الفاظ یہ ہیں :

’’فعرف علی کل عشرۃ رجال کماکانت العرافات فی زمان النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم‘‘

(ترجمہ)ہر دس کے گروہ پر ایک عریف مقرر کردیا ، جس طرح کہ عہد نبوی ؐ میں عرفاء کاتقرر ہوا کرتاتھا۔

اس باب کے شروع میں ہی یہ واضح کردیاگیاہے کہ یہ ادارہ ’’عریف ‘‘ زمانہ جاہلیت میں موجود تھا اور عہد نبوی ؐ میں فرائض کی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اسے قائم رکھاگیا۔

نقابہ

دوسرا سیاسی و معاشرتی ادارہ نقابہ تھا، اس میں عرافہ کی بہ نسبت زیادہ بڑے حلقے کی نمائندگی ہوتی تھی، صاحب تاج العروس نے شرح قاموس میں نقیب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:۔

’’النقب شاہد القوم ورأسھم فانہ یفتش احوالھم ویعرفھا۔۔۔ وقیل النقیب الرئیس الاکبر‘‘

(ترجمہ)نقیب قوم کاشاہد و سردار ہوتاہے ، اس لیے کہ وہ قوم کے حالات کی چھان بین کرتاہے اور ان کے حالات سے حکومت کو باخبر رکھتاہے۔ ، یہ بھی کہاجاتاہے کہ نقیب بڑا سردار ہوتاہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’وانما قیل للنقیب لأنہ یعلم دخیلہ أمرالقوم ویعرف مناقبھم وھوالطریق الی معرفۃ أمورھم‘‘

(ترجمہ)نقیب کو نقیب اس لیے کہاجاتاہے کہ وہ قوم کے اندرونی حالات سے آگاہ ہوتاہے ، ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے (حکومت ) کو متعارف کراتاہے ، اور لوگوں کے حالات کو سمجھنے کا یہی طریقہ ہے۔

ہم نے ’’عریف ‘‘ کی وضاحت میں لکھاتھاکہ عریف چھوٹے چھوٹے حلقوں اور محلوں کی بنیاد پر نمائندگی کرتاتھا ، اس کی ذمہ داریاں بھی علاقائی اور ابتدائی سطح تک محدود ہوتی تھیں، وہ اپنے محلے یا علاقے کے افراد کے حقوق و فرائض کی نگہبانی کرتاتھا۔ اس کے برعکس نقیب کی ذمہ داریاں زیادہ وسیع ہوتی تھیں۔ وہ ملکی اور قومی سطح پر نمائندگی کرتاتھا۔ یہ ادارہ عربوں کے ہاں موجود تھا بلکہ پہلے کے ادوار میں بھی اس کاذکر ملتاہے مثلاً خود قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں نقیبوں کاذکر ملتاہے ۔ ارشاد ہے :

’’وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ بَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا‘‘

(ترجمہ)اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ، اور ہم نے ان میں بارہ نقیب مقرر کیے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان نقباء کے ذمہ مذہبی فرائض کے ساتھ ساتھ بعض اہم سیاسی ذمہ داریاں بھی سونپی تھیں ، قاضی شوکانی نے ان ذمہ داریوں کو بیان کیاہے۔

’’انھم بعثواامناء علی الاطلاع علی الجبارین، والنظرفی قوتھم وامتعتھم فسارولیخبروحال من بھا، ویخبروبذلک‘‘

(ترجمہ)انہیں عمالقہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے، ان کی قوت و طاقت اور دفاعی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیاتھا، تاکہ تمام حالات سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مطلع کریں۔ عمالقہ سرزمین شام میں آباد تھے، یہ لوگ بڑے صحت مند تھے اور اچھے قد و قامت کے مالک تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے خلاف جہاد کا حکم ہوا تو انہوں نے قوم عمالقہ کے اندرونی حالات کا جائزہ لینے اور ان کی جنگی تیاریوں کااندازہ کرنے کے لیے ان نقیبوں کو بھیجا۔

جہاں تک ان نقیبوں کے فرائض واختیارات کاتعلق ہے تو عمومی طور پر ان کے فرائض میں شامل تھاکہ لوگوں کے باہمی جھگڑوں اور اختلافات کو ختم کرائیں، لوگوں کے حالات سے پوری طرح باخبر رہیں۔ ان کے حالات اور ضروریات سے حکومت کو بھی باخبر رکھیں۔ خاص طور پر باصلاحیت اور صاحب ہنر افراد کی صلاحیتوں سے حکومت کو مطلع کرتے رہیں ، تاکہ حکومت ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے فائدہ اٹھاسکے۔ بیعت عقبہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی جو نقیب مقرر فرمائے تھے، انہیں بھی ان کے فرائض سے آگاہ کیاتھا۔

اسلام کی سیاسی تاریخ میں بیعت عقبہ کو جو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، سیاسیات کا ہر طالب علم اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اس موقع پر اہل مدینہ کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا جو قبیلہ خزرج سے تھے اور تین قبیلہ اوس سے ان تمام نقباء کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود نامزد نہیں فرمایاتھا بلکہ تمام نام انصار کی جانب سے پیش کیے گئے تھے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار سے تکمیل بیعت کے بعد فرمایاتھا۔

اخرجرلی منکم اثنی عشرنقیبالیکونواعلی قومھم بما فیھم فاخرجوا منھم عشرنقیبا، تسعۃ من الخزرج، وثلاثۃ من الاوس۔

تم لوگ اپنے میں سے بارہ افراد پیش کرو ، جو اپنے قبیلوں اور قوموں میں نقیب کے فرائض انجام دیں گے ، تاکہ ان میں باہمی اختلاف کی صورت میں یہ لوگ حکم ہوں ، چنانچہ انہوں نے بارہ افراد کاانتخاب کیا۔ نو خزرج میں سے تھے اور تین قبیلہ اوس میں سے تھے۔

حضرت عبادہ بن صامتؓ جو ان بارہ نقیبوں میں سے تھے۔ اس واقعہ کو بڑی مسرت سے بیان کرتے ہیں۔ ’’مسلم ‘‘ میں ان کی روایت ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے۔

’’عن عبادۃ بن الصامت قال:انی من النقباء الذین بایعوارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، وقال بایعناہ علی ان لانشرک باللّٰہ شیئاً والا نسرق ولانقتل النفس التی حرم اللّٰہ الا بالحق ولا ننتھب ولا نعصی، فالجنۃ ان فعلنا ذالک،فان غیشنامن ذالک شیئاً کان قضاء ذالک الی اللّٰہ تعالیٰ o

حضرت عبادہ بن الصامت فرماتے ہیں کہ میں ان نقیبوں میں سے ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، نہ چوری کریں گے، نہ کسی کو ناحق قتل کریں گے ، نہ لوٹ مار کریں گے، نہ نا فرمانی کریں گے، اگر ہم نے اس عہد پر عمل کیا تو جنت میں جائیں گے اور اگر ان میں سے کسی برائی پر عمل کیا تو اس کافیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقررکردہ نقباء کی فہرست درج ذیل ہے۔

۱۔ حضرت سعد بن زرارہ

۲۔ حضرت اسید حضیر

۳۔ حضرت ابوجابر عبداللہ بن عمرو

۴۔ حضرت براء بن معرور

۵۔ حضرت رافع بن مالک

۶۔ حضرت رفاء بن عبدالمنذر

۷۔ حضرت سعد بن الربیع

۸۔ حضرت سعد بن عبادہ

۹۔ حضرت سعد بن خثیمہ

۱۰۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ

۱۱۔ حضرت عبادہ بن الصامت

۱۲۔ حضرت منذر بن عمرو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف نقیبوں کا تقرر نہیں فرمایا بلکہ نقیب النقباء کاعہدہ بھی متعین کیا اور اس منصب پر حضرت سعد بن زرارہ کو مقرر فرمایا تھا۔ بلاذری سعدبن زرارہ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں :۔

’’سعد بن زرارہ قبیلہ بنو نجار میں سے تھے، ان کی کنیت ابو امامہ تھی۔ ہجرت نبوی کے نویں ماہ ان کا انتقال ہوا۔ اس زمانہ میں مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی ۔ انہیں بقیع کے قبرستان میں دفن کردیاگیا۔ یہ نقیب النقباء تھے ۔

اس مختصر بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ زمانہ جاہلیت کے یہ دو قدیم ادارے علاوہ ازیں حلف اور ولاء اپنی پوری اسپرٹ کے ساتھ عہد نبوی میں بھی کام کرتے رہے۔

بنی ہا شم ( عبا س ) سقا یہ ،عما رۃ البیت:

سقا یہ سے مرا د کعبے کی زیا رت کے لئے حج یا عمرہ کے لئے آنے وا لوں کو پا نی پلا نا اور عما رۃ البیت سے مرا د حرم کعبہ کا عام انتظام کر نا تھا ،ان دو نو ں چیزوں کا ذکر قر آن مجید میں بھی آیا ہے ۔ابن عبد ریہ نے بیان کیا ہے کہ عما رۃ البیت کا مقصد یہ ہو تا تھا کہ افسر متعلقہ و قتاًفو قتاًحرم کعبہ میں گھو م پھر کر نگرا نی کر ے اور دیکھے کہ کو ئی شخص جھگڑے،گا لی گلو چ یا شور و غو غا سے کعبہ کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہا۔ انساب بلا ذری کے مطا بق سقایہ اور عما رۃ البیت کے عہدے ابو طا لب کو ورا ثت میں ملے ۔مگر ابو طا لب نے مفلسی کے با عث یہ اپنے بھا ئی عباس کے ہا تھ بیچ دیئے ۔بنی عدی (عمر بن الخطاب )سفارہ ،منا فرہ ۔مکہ کے کشوری نظم ونسق میں ایک خاصا اہم عہدہ تفسیر منا فرہ کا ہو ا کر تا تھا ۔یہ عہدہ مو رو ثی طور پر بنی عدی یعنی حضرت عمر کے خا ندا ن میں چلا آ رہا تھا ۔ جب جنگ چھڑتی تو وہ عمر کو اپنا سفیر مختار بنا کر بھیجتے اور جب کو ئی بیرونی قبیلہ قر یش کی اولیت کو چیلنج دیتا تو اس وقت بھی عمر ہی کو منا فر بنا کر بھیجا جا تا ۔صلح حد یبیہ کے مو قع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاان سے مکہ جا نے کی فر ما ئش کر نا بے سبب نہ تھا ۔گو یا اسلا می حکومت میں بھی وزیر خا رجہ اور سفیر تھے ۔

تحکیم:

ایک ادارہ ’’تحکیم‘‘کا تھا ،یعنی بعض شخصیتیں ثا لث یا حا کم کا کام کر تی تھیں ۔چنا نچہ ایام جا ہلیت کا ایک مشہو ر حکم عا مربن طرب العدوا نی تھا۔ اس کے پاس ہر جگہ سے تحکیم کے لئے مقدمے وا لے آتے تھے۔ قبیلہ تمیم کے سردار مو رو ثی طور پر پو رے عرب کے حاکم مانے جا تے تھے ۔یہ سردار کسی بڑے میلے کے مو قع پر حکم مقرر ہو تے تھے ،مثلاً عکا ظ کے میلے میں یہ سر دار دیو انی اور فو جدا ری ہر قسم کے مقدموں کا فیصلہ کر تے تھے ۔ان فیصلو ں کی خلا ف ورزی میں رسو ائی اور بد نا می کا ڈر ہو تا تھا ۔ابن قتیبہ کے حو الے سے بعض مو لف لکھتے ہیں کہ عیلان بن سلمہ ثقفی ہفتہ میں ایک دن اپنے ذا تی معالات میں مصروف رہتا ،ایک دن شا عری کے جلسو ں میں حصہ لیتا اور ایک دن حکم بن کر جھگڑے چکا یا کر تا ۔ چنا نچہ قصی اور قضاء کی جنگ میں بنی کنا نہ کے ایک شخص عمر بن عوف کو حکم بنا یا گیا۔ان طر یقوں کے علا وہ ایک غیر معمولی طریقہ بھی زما نہ جا ہلیت میں مکہ کی شہری زند گی کا ایک حصہ تھا ،شہر مکہ میں ’’حلف الفضول ‘‘کا ایک ادارہ قا ئم تھا،جس کا آغا ز جر ہمی زما نے سے معلوم ہو تا ہے ،حرب فجار کے بعد یہ ادارہ زندہ ہو ا ۔یہ ایک اجتما عی حلف تھا ،اس کی ایک تا ریخی اہمیت یہ ہے کہ خود جنا ب رسا لت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے قبل اس میں حصہ لیا تھا ۔یہ درا صل ایک رضا کا ر جما عت کا سمجھوتہ تھا ، جس کا مقصد یہ تھا کہ شہری حدود میں جو مظلوم پائے ،ان کی مدد کی جا ئے اور ظا لم کو سزا دی جا ئے ۔

حلف اور ولا ء :

عر بو ں کے ہا ں با ہم منا قشت کا سلسلہ تو جا ری ر ہتا تھا ،اور قبائلی معا شرت کے سبب کمزور فرد یا کمزور قبیلہ کے لئے با عزت اور محفوظ زند گی گزرانا خا صا مشکل تھا ۔اس ضرورت کے پیش نظر مختلف قبا ئل یا افراد ایک دوسرے سے تحفظ کے حصول کی خا طر با ہم معا ہدات کر تے تھے ۔اسی قسم کے دو طرح کے معاہدوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں ۔حلف کی تعریف ان الفاظ میں کی جا تی ہے :

’’قد یتحالف فر یقان من قبیلتین و یتعایشان ثم یصبحا مع الایام کانھم من قبیلہ واحدۃ،ویدخل نسب الفریق الاضعف فی نسب الفریق الا قوی‘‘

(تر جمہ ) یعنی مختلف قبیلوں کے دو گروہ با ہم معا ہدہ کرلیتے تھے ،اکٹھے زند گی بسر کرتے تھے ،زما نہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک قبیلہ کی ما نند ہوجا تے تھے ۔اور کمزور گروہ قوی تر گروہ میں ضم ہو جا تا حتی کہ انہی کے نسب میں شامل ہو جاتا۔

اسی طرح جب کو ئی فرد اپنے کو تنہا محسوس کر تا اور چا ہتا کہ اسے کو ئی تحفظ حا صل ہو تو وہ طا قتوار قبیلے کی جا نب رجو ع کر تا تا کہ اسے تحفظ فرا ہم کرے۔ایسا کر کے وہ شخص اس قبیلہ کا مو لی بن جاتا ۔بعد ازاں مرور زما نہ اس شخض کا نسب قبیلہ کے نسب میں شا مل ہو جاتا ۔۔۔اسے یو ں بیان کیا گیا :

’’قد یحتاج الی حما یتہ فیلجاء الی قبیلتہ قو یۃ بحمیتہ فیصبح مو لی لھا ثم یدخل نسبہ مع الایام فی نسبھا ‘‘

تر جمہ ۔جا ہلیت کے دورمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طا ئف سے وا پسی پر مکہ میں دا خلہ ولا ء کے ذریعہ ہی ہو ا تھا ۔

قسامت :

حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسامت کے اصول کو اسی صو رت میں با قی رکھا جس طرح وہ جا ہلی دور میں تھا۔ قسا مت سے مراد قسمیں ہیں ۔اگر کسی آبا دی یا محلہ میں مقتول کی لا ش پا ئی جا ئے اور اس کے قا تل کا علم نہ ہو تو لا ش کا اس آبا دی میں پا یا جانا اس شک و شبہ کا متقا ضی ہے کہ قا تل اسی آبا دی یا محلہ کا کو ئی شخص ہو گا ،اس لئے مقتول کے ور ثاء کو یہ حق حا صل ہے کہ وہ اس محلہ کے پچا س آ د میو ں سے اس با ت کی پچا س قسمیں لیں کہ نہ ہم نے اس کو قتل کیا اور نہ ہمیں اس کے قا تل کا علم ہے ،اگر وہ قسم کھا لیں تو ان کے ذمہ دیت واجب نہ ہو گی اور اگر قسم کھا نے سے انکا ر کریں تو ان کو اس وقت تک قید میں رکھا جا ئے گا جب تک وہ قسم نہ کھا ئیں یا اقرار نہ کریں ۔

اسلام سے پہلے عربو ں کے ہا ں یہ روا ج تھا کہ مدعی اپنے دعوے کو درست ثا بت کر نے کے لئے کو ئی ثبو ت پیش کر تا تھا ۔اگر ثبوت پیش کر نا اس کے لئے ممکن نہ ہو تا تو وہ مد عی علیہ سے قسم لیتا ۔اسلام نے بھی اس اصول کو قا ئم رکھا ۔چنا نچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فر ما یا ’’مدعی کے ذمہ با ر ثبوت ہے اور جو شخص انکا ر کرے یعنی مد عی علیہ اس کے ذمہ قسم ہے ‘‘۔

علا وہ ازیں غلا می کا تصور ،بندہ و آقا کی تمیز ،نسلی و نسبی تفا خر یہ تصورات عرب معا شرہ میں بنیادی اہمیت ر کھتے تھے ،اسلام نے انسان کی اپنی پیدا کردہ تفریقات کو ختم کر کے انہیں وحدت نسل انسانی کا درس دیا اور یہ پیغا م الٰہی سنایا ۔

آیاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ بo

اے لو گو ،ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا ، پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب رسم ورواج کوجہاں ختم کرناضروری تھا وہاں انہیں ختم کرکے جہاں ان میں ترمیم و اضافہ کی ضرورت تھی وہاں ترمیم و اضافہ کرکے اور جو محاسن تھے ان کو باقی رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی ۔

ان اصولوں و قانونی ترمیمات کے بعد اسلام نے جو معاشرتی ڈھانچہ تشکیل دیا اس کے اصول و مبادی یہ ہیں :

عہد نبوی ؐ کے مسلم معاشرہ کے امتیازی اصول

۱۔مساوات ۲۔ آزادی ۳۔اخوت ۴۔ عدل ۵۔رواداری

دوسری اقوام کے مفید انتظامی تجربات سے فائدہ

خلفائے راشدین ۔۔۔مالگزاری کانظام :

اس سے انکار ممکن نہیں کہ اسلامی ریاست میں موجود اداروں کو مستقل شکل جناب فاروق اعظم کے دور حکومت میں ہی ملی، اور پھر بعد کے دونوں خلفاء نے اس نظم کو قائم رکھا۔ جناب فاروق اعظمؓ نے اسلامی روح کے مطابق ’’الحکمۃ ضالۃ المؤمن ‘‘کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جہاں سے بھی کوئی ایسی چیز ملی جو اُمت کے لیے نفع بخش تھی ، اسے قبول کرکے اسلامی نظام کاحصہ بنادیا اور قطعاً کسی تعصب کو خاطر میں نہیں لائے، اور یہی انداز فکر تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روشناس کرایا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب جاہلیہ کے بعض قوانین اور رسومات کو اور پہلی شرائع کو من و عن قبول فرمایا،اور آپ کے صحابہ نے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے خون بہا کی مقدار دس اونٹ مقرر کی تھی ، لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے دیکھاکہ لوگ قتل ناحق سے باز نہیں آتے تو انہوں نے اس کی مقدار ایک سواونٹ تک بڑھادی۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو برقرار رکھا۔ ’’قسامہ ‘‘جس کا حدیثوں میں ذکرآتاہے ، اس کو سب سے پہلے ابو طالب نے رواج دیا۔ عرب جاہلیہ میں دستور تھا کہ قوم کارئیس (جس کو وہ شیخ کہتے ہیں اور جس کی حیثیت چھوٹے پیمانے پر حکمران کی ہوتی ہے ) ان کی آمدنی سے چوتھا حصہ وصول کرتاتھا، آپ نے اس کو اور بھی گھٹا کر مال غنیمت میں سے ۵/۱ حصہ بحق سرکار لینے کاحکم نافذ کیا۔ عشر اور خراج (جو زمین کاٹیکس یا مالیہ اور لگان ہے ) آپ کی بعثت سے پہلے کیقباد اور اس کے بیٹے نوشیرواں نے اپنی رعیت پر عائد کررکھاتھا۔ شرع نے بھی اس کو بحال رکھا۔

جناب فاروق اعظمؓ نے ’’دفتر رسد، کاغذات ،حساب،ان تمام انتظامات میں انہوں نے ایران اور شام کے قدیم قواعد پر عمل کیا۔ البتہ جہاں کوئی نقص پایا اس کی اصلاح کردی۔ عراق کے بندوبست کا جب ارادہ کیاتو حذیفہ اور عثمان بن حنیف کے نام حکم بھیجا کہ عراق کے دوبڑے زمینداروں کو میرے پاس بھیج دو ، چنانچہ زمیندار مع مترجم کے ان کے پاس آئے اور انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ سلاطین عجم کے ہاں مالگزاری کی تشخیص کا کیا طریقہ کارتھا۔ جزیہ حالانکہ بظاہر مذہبی امور سے تعلق رکھتاتھا ، تاہم اس کی تشخیص میں وہی اصول ملحوظ رکھے جو نوشیرواں نے اپنی حکومت میں قائم کیے تھے۔

علی ہذاالقیاس خلفائے راشدینؓ نے ہر کام اور ریاستی امور سے متعلق انتظام جو اپنے اندر خیر کاپہلو رکھتاتھا اسے بغیر کسی تعصب کے قبول کیا۔

عرب جاہلیہ کی حکومتی اور سیاسی روایات سے تجاوز

خلفائے راشدین نے عہد جاہلیہ کی حکومتی اور سیاسی روایات سے کس حد تک فائدہ اٹھایا۔ ضمناً یہ عرض کردینابھی بے محل نہ ہوگا کہ اسلامی قوانین کا تعلق فقہی معاملات سے ہو یا وہ امور سیاسیہ سے تعلق رکھتے ہوں ، اس میں عرف یا رواج کو بہت حد تک دخل حاصل ہے۔ ایسا عرف اور رواج جو کسی معاشرے کی اچھائی اور خیر کے پہلو کی عکاسی کرتاہو اور نصوص اسلامی سے متصادم نہ ہو اسے اسلام نے قبول کرنے سے قطعاً تامل نہیں کیا۔

’’عرف و عادت یہ ہے کہ کوئی فعل یا طریقہ عقلی طور پر لوگوں کے نفوس میں اس طرح جاگزیں ہوجائے کہ فطرت سلیمہ اسے قبول کرلے اور اسلامی دنیا کے سلیم الطبع لوگ اس کے عادی ہوجائیں، بشرطیکہ وہ نص شرعی کے برخلاف نہ ہو ۔‘‘

اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم عرب جاہلیہ کی ان سیاسی اور حکومتی روایات کو دیکھتے ہیں جو عامۃ الناس کے لیے مفید تھیں اور فکر اسلام سے متصادم نہیں تھیں، تو انہیں اسلام نے من و عن قبول کرلیا۔ اس کی واضح مثالیں، عرافہ ، نقابہ ،حلف اور ولاء کے سیاسی ادارے ہیں۔ وہ عہد جاہلیہ میں موجود تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی انہیں باقی رکھا اور پھر خلفائے راشدین نے بھی انہیں قبول کیا۔ لیکن اسلام نے اس طرز سیاست کو مستردکردیا جو اسلام کے عالمگیر اصول سیاست میں رکاوٹ تھیں۔ مثلاً عربوں کی سیاست کامرکز و محور قبیلہ تھا۔ وہ مجموعی طور پر اس قوت جامعہ سے محروم تھے جس کو آج کل حکومت و سلطنت کانام دیاجاتاہے ، کوئی مرکزی نظام موجودنہیں تھا ۔ عہد خلفائے راشدین میں اسی قبائلی طرز سیاست کو ختم کرکے ایک وسیع البنیاد حکومت کی بنیاد ڈالی گئی۔ جس میں خلیفہ کا چناؤ عوام کی مرضی کے تابع تھا اور انتخاب کے بعد خلیفہ قبائلیت کی سطح سے بلند ہو کر اُمت مسلمہ کے مفاد کے نقطۂ نظر سے غور و فکر کرتاتھا۔

معاشرتی معاملات

نکاح

معاشرتی تنظیم میں نکاح کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ عربوں کے ہاں مختلف النوع نکاح رواج پذیر ہے۔ ایک صورت تو نکاح عام کی تھی۔ یہ نکاح مسلمانوں میں رائج نکاح سے بہت حد تک مماثلت رکھتاتھا ۔ اس نکاح کی صورت میں مہر وغیرہ باقاعدہ سے اداکیاجاتاتھا۔

تعددازدواج

بلا تحدید بیویاں رکھنے کارواج عام تھا۔ حدیث میں ہے کہ غیلان بن ثقفی جب اسلام لائے تو ان کی دس بیویاں تھیں۔ انہوں نے ان سے جاہلی دور میں شادی کی تھی اور وہ بھی ان کے ساتھ ہی مسلمان ہوگئی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان میں سے چار کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں اور باقیوں کو چھوڑ دیں۔

محرمات

اس دور میں ماؤں، بیٹیوں ،پھوپھیوں اور خالاؤں سے نکاح جائزنہیں تھا ، وہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دیتے تھے اور یوں وہ بھی محرمات کی فہرست میں شامل تھا۔

طلاق

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ثقہ اور معتبر اہل علم سے سناہے کہ اہل جاہلیت کے ہاں تین طرح کی طلاق مروج تھیں۔ ۱۔ظہار ،۲۔ ایلاء ،۳۔ طلاق مروج ۔ طلاق کو تو اللہ تعالیٰ نے ثابت رکھا اور ایلاء و ظہار کے سلسلے میں فیصلہ قرآن میں مذکور ہے۔

جاہلیت میں مختلف اوقات میں تین طلاقیں دینے کا رواج تھا، یہ طریقہ بعینہ اسلام کاطریقہ ہے۔ البتہ جاہلیت میں جو خرابی اس میں داخل تھی وہ یہ کہ جب عدت گزرنے کازمانہ قریب ہوتا اور ایک دو دن باقی رہ جاتے تو اس وقت رجوع کرلیتے۔ کبھی مذاق کی آڑ لیتے ۔ شریعت اسلامیہ نے ان دونوں طریقوں کو رد کیا۔ پہلے طریقے سے متعلق نص صریح وارد ہوئی ، ارشاد فرمایا :

’’وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗo‘‘

ترجمہ:جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو اور ان کی عدت پوری ہونے کے قریب ہو تو اس کے بعد انہیں خوبی کے ساتھ روکو یا خوبی کے ساتھ چھوڑ دو ، ضرر اور نقصان پہنچانے کی غرض سے انہیں نہ روکو اور جو انہیں نقصان پہنچانے کی غرض سے روکے گا وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا۔

خلع

خلع کے یہ معنی ہیں کہ عورت شوہر کو کچھ مال دے کر اس سے تعلق منقطع کرلے۔ جاھلیت میں اس کی مثال عامر بن ظرب کی موجود ہے۔

ایلاء

ایلاء لغت میں قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ فقہی اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر یہ قسم کھالے کہ وہ اپنی بیوی سے صحبت نہیں کرے گا ۔ عرب ایلاء کوبھی طلاق ہی شمار کرتے تھے جو ایلاء کی مدت گزرنے کے بعد واقع ہوتی تھی ، جو ان کے ہاں ایک سال مقرر ہوت تھی اور کبھی وہ اس کو دو سال بھی کردیتے تھے۔

ظہار

عربوں کے درمیان ظہار بھی بمنزلہ طلاق کے تھا۔ ظہار سے مراد یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تو میری ماں کی حیثیت رکھتی ہے ۔

علیحدگی کے اثرات

زوجین کے درمیان تفرق میں سے ایک اثر عدت ہے۔ تفریق کے اسباب میں سے کسی سبب کے بعد عورت جس زمانے میں شادی کاانتظار کرتی ہے ، اور اس کے بعد اس کو شادی کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس مدت کو عدت کہتے ہیں۔ جب تک یہ مدت گزر نہ جائے عورت کسی دوسرے شخص سے شادی نہیں کرسکتی۔۔عدت گزارنے میں یہ حکمت ہے کہ اختطاط نسب کاتدارک کیاجائے ۔ عرب بھی عدت کے اصول پر عمل پیراتھے ۔ موت کی صورت میں ان کے ہاں عدت مکمل ایک سال مقرر تھی جبکہ اسلام نے یہ مدت ۴ماہ دس دن مقرر کیہے۔

جرم و سزاکے معاملات

معاشرتی امن کے قیام کے لیے سزا ؤں کا نفاذ بھی بنیادی اہمیت رکھتاہے۔ چنانچہ جب ہم قبل از اسلام عربوں کے حالات پر اس نہج سے نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس معاشرے میں مختلف جرائم کی سزائیں نافذ العمل ملتی ہیں۔ مثلاً قتل اور ضرب شدید کی سزائیں مقرر تھیں۔ یعنی قصاص یا دیت ۔ ان دونوں سزاؤں میں سے قصاص مقدم سمجھاجاتاتھا۔ اول تو اس میں عام طور پر یہ مقولہ رائج تھاکہ ’’القتل القی للقتل ‘‘(قتل کو قتل ہی روک سکتاہے ) دوسرے مقتول کے اولیاء قاتل سے بغیر قصاص لیے باز نہیں آتے تھے۔ ان کے ہاں دیت کاقبول کرناباعث ننگ وعار سمجھاجاتاتھا اور دیت کاکھانا مقتول کے خون کھانے کے برابر خیال کیاجاتاتھا۔ چنانچہ اس سے متعلق شعرائے جاہلیت کے اشعار کثرت سے ان کے دواوین میں موجود ہیں۔ البتہ قتل خطا کی صورت میں دیت قبول کرلی جاتی تھی۔ قتل میں عامۃ الناس کی دیت کے ایک سو اونٹ مقرر تھے۔

زنا،چوری اور رہزنی کی سزا

جاہلیت میں چوری کی سزا چور کا داہنا ہاتھ کاٹناتھی۔ اسی طرح زنا اور رہزنی کی سزا عرب میں مروج تھی ۔

بیع و شراء کے معاملات

باہم لین دین، بیع و شراء یہ بھی معاشرت کا ایک اہم حصہ ہے۔ اسلام سے پہلے عرب میں بھی معاملات کی بہت سی قسمیں رائج تھیں۔ مثلاً شرکت ، مضاربت ،رہن ،بیع وغیرہ ۔ ذیل میں ہم ایسے آثار کابیان کریں گے جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے۔

۱۔ عقد شرکت

عربوں کے ہاں شرکت کامعاہدہ معروف تھا، اس کاثبوت سیرت طیبہ کی کتابوں میں مذکور یہ روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت سے پہلے سائب بن ابی سائب کے ساتھ تجارت کرتے تھے ، مکہ کے بعد سائب آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا،صدآفریں میرے بھائی اور میرے شریک ، جونہ کبھی جھگڑتے اور نہ لڑتے ۔

۲۔ عقد مضاربت

اس کو قراض بھی کہتے ہیں ، اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنا مال دوسرے شخص کو تجارت کی غرض سے دے اور اس کو نفع کے اس مقرر حصے میں اپنے ساتھ شریک رکھے۔ یہ عقد بھی عربوں کے یہاں معروف تھا اور اس قسم کامعاملہ قریش کے درمیان عام تھا۔ اہل مکہ مضاربت پر اپنا مال تاجروں کو دیتے اور قریش سال بھر میں دوبڑے تجارتی سفر کرتے ، ایک سردی میں یمن کی طرف ، دوسرا گرمی میں شام کی طرف۔

۳۔ عقد سلم

عرب عقد سلم سے بھی واقف تھے ۔ اس کی تائید ایک حدیث طیبہ سے ہوتی ہے جس کو حضرت عبداللہ ابن عباس نے روایت کیاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو لوگ ایک سال اور دو دو سال کے لیے پھلوں میں بیع سلم کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص بیع کرتاہے ، اس کو چاہیے کہ وہ جو چیز خریدے یا بیچے ، اس کی مقدار معلوم ہوناچاہیے۔ وہ ناپ ہو یا وزن میں اور اس چیز کو خریدار کے سپرد کرنے کی مدت معلوم ہونا چاہیے۔سلم ایسی بیع کو کہتے ہیں جس میں معاہدہ کے وقت وہ چیز موجود نہیں ہوتی ، جس کو خریدنا ہوتاہے ، بلکہ اس چیز کو بیچنے والے سے یہ معاہدہ ہوتاہے کہ ایک مقررہ مدت کے بعد وہ اس چیز کو خریدار کو دے دے گا اور اس چیز کی قیمت معاہدہ کے وقت ادا کردی جاتی ہے۔

رہن

قرض کی صورت میں ضمانت کے طور پر رہن رکھنے کاعربوں میں رواج تھا۔

وصیت اور میراث

ملکیت منتقل کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب وراثت ہے ۔ شریعت کے حکم سے آدمی سے آدمی کی موت کے بعد اس کا مال اور جملہ مالی حقوق میت کے ترکہ سے متعلق حقوق کی ادائیگی کے بعد بطریق خلافت (جانشینی) اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ عربوں کے ہاں بھی میراث کا یہ طریقہ مروّج تھا۔

عرب جاہلیہ کے صاحب عزت افراد ، اسلام میں بھی صاحب عزت

سیاسی طور پر یہ امر نہایت اہمیت کاحامل تھاکہ وہ لوگ جو عہد جاہلیہ میں سیاسی یا سماجی طور پر بلند مقام اور منصب رکھتے تھے ، اسلام لانے کے بعد ان سے کیا سلوک کیاجائے اور انہیں کس مقام و مرتبہ پر رکھاجائے ، چنانچہ اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح ہدایت موجود ہے ، ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

’’خیارھم فی الجاہلیۃ خیارھم فی الاسلام‘‘

اب اس حدیث طیبہ میں دیئے گئے اصول پر آپ ؐ نے مختلف مواقع پر عملی ثبوت فراہم فرمایا۔ مثلاً فتح مکہ کے موقع پر مکہ کے حکمرانوں عتاب بن اسید کے اسلام لانے پر مکہ کی گورنری انہی کو سپرد فرمائی ۔

آیت کریمہ ’’ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلآی اَھْلِھَا ‘‘کے تحت ابن جریر یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ!

’’یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ کے بارے میں ہے۔ بیت اللہ کی کنجی برداری کامنصب ان کے خاندان کے پاس تھا، فتح مکہ کے موقع پر چونکہ یہ مسلمان ہوچکے تھے اور اس کام کا ان کو سابقہ تجربہ بھی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کنجی لے کر بیت اللہ کادروازہ کھولا ، اندر تشریف لے گئے باہر تشریف لائے اور آپ ؐ کی زبان پر یہ آیۃ کریمہ تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان بن طلحہ کو بلایا اور بیت اللہ کی کنجی ان کے حوالے کردی۔ ‘‘

امیرکی حیثیت

عرب جاہلیہ میں سیاسی انارکی کے باوجود جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد قصی بن کلاب نے مکہ پر قبضہ کرکے یہاں حکومت قائم کرلی تو اہل مکہ نے ان کے حکم کو بلا چوں چراتسلیم کیا۔ جس طرح مذہب کی پیروی کی جاتی تھی ، اہل مکہ اسی طرح قصی کے حکم کی پیروی کرتے تھے ، زندگی تو زندگی مر جانے کے بعد بھی انہی کے حکم پر عمل ہوتاتھا۔

اس تحریر کے تکرار سے مقصود یہ ہے کہ اہل مکہ کے ہاں ایام جاہلیت میں اطاعت امیر کا اصول تو تمام جزئیات کے ساتھ عملی صورت میں موجود تھا۔ اسلام نے اطاعت امیر کو اصول و ضوابط کاپابند بنا کر ان کے ہاں پائے جانے والے اس جذبے کو ایک نئی شکل دی۔

قرآن مجید میں جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کا حکم دیاگیا وہاں اس سے متصل ’’اولی الامر ‘‘ کی اطاعت کاحکم بھی دے دیا گیا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول ؐ کا اور حاکموں کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر نزاع ہوجائے تمہارے درمیان کسی چیز میں تو اسے اللہ اور رسول ؐ کی طرف پھیر دو ، اگر مانتے ہو اللہ کو اور قیامت کے دن کو یہی روش اچھی ہے اور بہت بہتر ہوگا اس کا انجام۔

امام ابن جریر نے صحابہ و تابعین سے اولی الامر کی تفسیر میں دو قول نقل کیے ہیں ایک یہ کہ ’’ھم الامراء ‘‘یعنی مسلمانوں کے حکمرانوں اور امراء مراد ہیں جن کی اطاعت کاحکم ہے اور دوسرا یہ کہ ’’الافقہ والدین ‘‘ یعنی یہ فقہاء اور دینی سربراہ ہیں۔ یہ دونوں آراء نقل کرنے کے بعد ابن جریر اپنی رائے یہ بیان کرتے ہیں۔

وأولی الأقوال فی ذالک قول من قال ھم الأمراء والولاھ

یعنی بہترین قول ان حضرات کا ہے جو کہتے ہیں کہ ان سے مراد امراء اور حکام ہیں۔

امام فخر الدین رازی نے اولی الامر کی تفسیر اہل الحل والعقد سے کی ہے یعنی ’’وہ لوگ جو مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار اور مستند نمائندے ہوں اور فیصلے کرناان کے ہاتھ میں ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اطاعت امیر سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

من اطاعنی فقد اطاع اللّٰہ ومن عصانی فقد عصی اللّٰہ ومن اطاع امیری وفی روایۃ من اطاع الامیر فقد اطاعنی و من عصی امیری و فی روایۃ من عصی الامیرفقدعصانی۔

جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نا فرمانی کی اور جس نے میرے امیریا مسلمانوں کے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیریا مسلمانوں کے امیرکی نا فرمانی کی اس نے میری نا فرمانی کی ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا:

’’اگرتم پر ناک کٹا ہوا سیاہ فام غلام بھی امیر مقرر کیا گیاہو جو تمہاری قیادت کتاب اللہ کے مطابق کررہاہو تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ ‘‘

اس حدیث طیبہ میں ’’جو تمہاری قیادت کتاب اللہ کے مطابق کررہاہو ‘‘ ارشاد فرما کر اطاعت امیر کو محدود کردیاگیا۔ یعنی اگر وہ حدود اللہ سے تجاوز کررہاہو تو ان حالات میں اطاعت امیرجائز نہیں۔ خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بار خلافت سنبھالنے کے بعد اپنے اولین خطبہ میں اسی نکتہ کابرملا اظہار فرمایا تھا۔

فاذا رایتمونی قداستقمت فاتبعونی ان زغت فقد قومونی۔

جب تم مجھے دیکھو کہ میں سیدھے راستے پر چل رہاہوں تو میری اتباع کرو اور میں راہ راست سے ہٹ جاؤں تو مجھے ٹھیک کردو۔

شوریٰ

ایام جاہلیہ میں عربوں کے ہاں بالخصوص اہل مکہ کے ہاں شوریٰ کانظام عملاً موجود تھا۔ اس ضمن میں ’’دارالندوہ‘‘ کو بہت شہرت حاصل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے موقع پر اسی دارالندوہ میں آپ کے قتل کامنصوبہ تیار کیاگیاتھا۔ (نعوذباللہ من ذالک) ابن ہشام لکھتے ہیں۔

معذرو خروج رسول اللّٰہ وعرفوا انہ قداجمع لحربھم فاجتمعوا لہ فی دارالندوہ وھی دارقصی بن کلاب التی کانت قریش لاتقضی امراالافیھا یتشارون فیھا۔

آنحضرت ؐ کے ہجرت کرجانے سے قریش خوفزدہ ہوگئے اور انہوں نے خیال کیاکہ آپ ان سے جنگ کی تیاری کررہے ہیں پس وہ دارالندوہ یعنی قصی بن کلاب کے گھر پر مشورہ کے لیے جمع ہوئے اور قریش کسی اہم معاملے کا فیصلہ اس اہم مقام پر جمع ہو کر مشورہ کیے بغیر نہیں کرتے تھے۔

ابن ہشام قصی کے متعلق جن کاذکر سابقہ روایت میں مذکور ہے ، لکھتے ہیں :

’’کعب بن لوی کی اولاد میں قصی پہلا شخص تھا جسے مکہ میں سلطنت حاصل ہوئی اور جس کی قریش اطاعت کرنے لگے ، اس کے ہاتھ میں بیت اللہ کی نگرانی حاجیوں کو پانی پلانا، حج کے زمانے میں باہر سے آنے والوں کی مہمان نوازی ، اکابر قریش کی مجلس کی صدارت جنگی قیادت جیسے پانچ کلیدی منصب تھے۔ اس طرح اس نے اپنے دامن میں مکہ کے سارے شرف و مجد کو سمیٹ لیاتھا۔ قریش کے کسی مرد یا عورت کانکاح، پیش آمدہ کسی اہم معاملے میں مشورہ اور کسی اجنبی قبیلہ سے جنگ کافیصلہ اسی کے گھر پر ہوتاتھا جس کا صدر اس کی اولاد میں سے کوئی ہوتاتھا ۔ جب کوئی لڑکی بالغ ہوتی تو اس کے گھر میں اسے اوڑھنی اڑھائی جاتی اور اسے اس کے گھر پہنچایاجاتا۔‘‘

ان تصریحات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قریش ایک شورائی نظام حکومت سے واقف تھے ، مکہ کی حکومت میں شورائیت کا عنصر موجود تھا۔ چنانچہ اسلام نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس نے اس ادارہ کو قائم ہی نہیں رکھا بلکہ اس کی اصلاح و تہذیب کرکے دینی سیاست میں اس کو غیر معمولی اہمیت دی۔

اسلام میں امیرجہاں قرآن و سنت کاپابند ہوتاہے ، وہاں اسے ایمان و الوں سے مشورہ کا بھی حکم دیا گیاہے۔ اجتماعی اُمور کو حل کرنے اور بنیادی معاملات کے فیصلے کا حق کسی خاص فرد کے حوالے کرنے کے بجائے ساری اُمت کے حوالے کیاگیاہے ۔ سورۃ شوریٰ جو ایک مکی سورۃ ہے اور جس میں خالص اصولی ہدایات کی تفصیل دی گئی ہے ، میں ایک مقام پر ان مومنین صادقین کی مدح و توصیف کی گئی ہے جن کے لیے آخرت کی کامیابی مقدر ہوچکی ہے ۔ انہی کے سلسلے میں فرمایا جارہاہے کہ یہ صادق الایمان اور اعلیٰ کردار سے آراستہ افراد ہیں جو خدا کے رسول ؐ کی دعوت کو بہ دل و جان قبول کرتے اور اپنی ساری عملی توانائیوں کو اس کی اتبا ع میں لگادیتے ہیں۔ اس وصف کلی کے بیان کرنے کے بعد ارشاد ہواکہ یہ لوگ نماز قائم کرتے ہیں یعنی ان کاتعلق اپنے مولیٰ و آقا کے ساتھ حد درجہ پائیدار اور علمی ہوتاہے ، ان کی دوسری نمایاں ترین صفت یہ ہے کہ !

’’وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ‘‘

ترجمہ:’’ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔‘‘

علامہ ابوبکر جصاص حنفی اس آیہ کریمہ کے ضمن میں لکھتے ہیں۔

’’ایمان واقامت صلوٰۃ کے ساتھ شوریٰ کا تذکرہ اس کی جلالت شان پر دلالت کرتاہے اور ساتھ ہی اس حقیقت کااعلان کرتاہے کہ اُمت مسلمہ مشورہ کرنے پر ماموراور اس کی پابند ہے۔ ‘‘

امام رازی اس آیۃ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’صحابہؓ کے بارے میں بیان کیاجاتاہے کہ جب ان کے روبر و کوئی معاملہ پیش آتا تو وہ معاملہ احسن طریقے سے حل فرمادیتے ۔ان کی اس صفت کی تعریف کی کہ وہ کسی معاملہ میں انفرادیت نہیں برتتے بلکہ اس کے برعکس جب تک کسی معاملہ پر متفق نہیں ہوجاتے اقدام نہیں کرتے۔

ہجرت کے دو ہی سال بعد معرکہ بدرو قوع پذیر ہوا، جواسلامی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے۔ اس اہم اور فیصلہ کن معاملہ کا فیصلہ بھی باہم مشورہ سے کیاگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملہ کے تمام نشیب و فراز کو سامنے واضح الفاظ میں بیان کیا اور قوم کے اجتماعی فیصلے سے معرکہ بدر قائم ہوا۔ میدان بدر میں پڑاؤ کی جگہ کو بھی حباب بن منذر کے مشورہ سے تبدیل کردیاگیا۔ اسی جنگ میں قید ہونے والے ابوالعاص کا فدیہ بھی باہم مشورہ سے معاف کیاگیا۔

غزوہ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کامقابلہ کیاجائے جبکہ صحابہ کی اکثریت کی خواہش یہ تھی کہ وہ مدینہ سے باہر نکل کر شوق جہاد پورا کریں۔ حافظ ابن کثیر اس صورت حال کاذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

’’وابی کثیر من الناس الا الخروج الی العدوولم یتناھوا الی قول رسول اللّٰہ ورأیۃ‘‘

ترجمہ:اکثریت مدینہ سے باہر نکلنے پر مصر تھی اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملکی مسائل بھی تمام اہل مدینہ کے براہ راست مشورے سے طے کرتے تھے اور کبھی گفتگو مہاجرین وانصار تک محدود رہتی تھی ۔ بنیادی اور اہم معاملات میں بالعموم پہلی صورت اختیار کی جاتی ۔

دور جاہلیت کے قبائلی نظام میں ہر قبیلہ کا ایک سردار ہوتاتھا۔ اسلام نے اسی نظام کو باقی رکھا اور مناسب اصلاح کے بعد اپنے اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس وقت انصار نے بیعت عقبہ میں آنحضرت ؐ کی حمایت کاحلف اٹھایا ،اس وقت آپ نے انصار سے فرمایاتھاکہ تم اپنے نمائندوں کو پیش کرو جو اپنی قوم کی تائید و حمایت کے ذمہ دار بنیں، چنانچہ اسی وقت مدینہ نے قبیلہ خزرج کی مختلف شاخوں کے نو اور قبیلہ او س کے تین نمائندے پیش کیے جنہوں نے وفاداری و نصرت کاعہد کیا۔

جنگ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رائے کو تبدیل فرماکر مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کافیصلہ فرمالیا۔ اس کے علاوہ عہد نبوی ؐ میں ۱ ہجری میں اذان سے متعلق مشورہ لیا۔ ۲ ہجری میں اسیران بدر کے سلسلے میں ، ۶ھ میں واقعہ افک سے متعلق اور ۶ھ ہی میں حدیبیہ کے مقام پر استصواب رائے کاطریقہ اختیار کیاگیا۔ ۸ ھ میں اسیران ہوازن سے متعلق شوریٰ طلب کی گئی اور ۱۰ ھ میں معاذ بن جبل کو یمن کاگورنر مقرر کرتے وقت طلب کیاگیا۔

یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ استصواب رائے کی صورت میں رائے دہی کے لیے صرف دو شرطیں ہیں ۔ اسلام اور اسلامی شعور ، اس کے علاوہ نہ کسی علمی ڈگری کی ضرورت ہے نہ ثروت مندی کی ، نہ کسی خاص قیمت کی جائیداد کے مالک ہونے کی ، نہ رنگ ونسل کی نہ قوم ووطن کی۔ اس صورت میں مرد عورتیں ،بوڑھے ،بچے ، شہری اور دیہاتی مقیم اور مسافر سب حق رائے دہی رکھتے ہیں۔

بات کو مختصر کرتے ہوئے ذیل میں ان اہم واقعات کی نشاندہی کردی جاتی ہے جن کے فیصلے کے لیے شوریٰ کے اجلاس منعقد ہوئے۔

۱۔ شوریٰ ،اذاں ۱ھ

۲۔ شوریٰ بدر ۲ھ

۳۔ شوریٰ اسیران بدر ۲ھ

۴۔ شوریٰ اُحد ۳ھ

۵۔ شوریٰ خندق ۵ھ

۶۔ شوریٰ خندق دوبارہ مصالحت ۵ھ۔

بعض معاملات میں ترمیمات

ذیل کی سطور میں یہ وا ضح کر نے کی کو شش کی جا ئے گی کہ اسلام نے کیا تر میما ت کیں ۔کو ن سی وہ چیزیں ہیں جنہیں من و عن قبول کر لیا گیا ۔کسی بھی معا شرتی تنظیم میں خا ند ان کو بنیا دی اہمیت حا صل ہو تی ہے ۔عر بو ں میں بھی ’’ خا ندا ن ‘‘ گو یا اس معا شرتی بنیا د کا تصور پوری طرح مو جو د تھا بلکہ خا ندا نی تفا خر ان کی معا شرت کا حصہ تھا ۔ خا ندا ن کی بنیا د اکثر اوقات شادی بیا ہ ہی ہو تی ہے ۔اور ان کے لئے نکا ح و بنیا دی اہمیت حا صل ہے ۔عر بو ں کے ہا ں نسب کے لئے صرف نکاح ہی شر ط نہیں تھا بلکہ سفا ح سے بھی نسب ثا بت ہو جا تا تھا ۔اسی طرح شا دی کے بعد علیحدگی کے سلسلے میں بعض طر یقو ں کو اسلا می شر یعت نے قبول کیا اور بعض کو رد کر دیا ۔جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ’’ طلا ق ‘‘ کا طر یقہ مروج تھا لیکن اس کی تعداد مقرر نہیں تھی ،اور اس طرح خواتین کے سا تھ زیا دتی کا یہ عمل یو ں جا ری ر ہتا کہ طلا ق دی ،پھر رجو ع کر لیا ،پھر طلا ق پھر رجو ع ،حتی کہ عدت گزارنے کے بعد بھی مرد کو یہ اختیا ر حا صل تھا کہ اسے اپنے پا س رو ک لے۔ اسلا می شر یعت نے طلا ق کے اصول کو تو با قی رکھا ،لیکن شو ہر کو تین طلا ق دینے کا حق دیا اور اس کے تکمیل کے سا تھ زو جین کی تفریق بھی مکمل ہو جا تی ہے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشا د ہے ۔

’’الطلاق مرتان۔۔۔

خلع کا اصول عربو ں کے ہا ں مروج تھا ،اسلام نے بھی اسے قا ئم رکھا ۔ایلا ء کا اصول بھی مروج تھا لیکن اسے وہ طلا ق ہی تصور کرتے تھے ،جو ایلا ء کی مدت گزر جا نے کے بعد وا قع ہو تی تھی ۔جو ان کے یہاں ایک سا ل مقرر تھی ۔کبھی اسے وہ دو سال بھی کر دیتے تھے ۔اسلام نے ایلا ء کو بھی با قی رکھا ،لیکن اس کے لئے چا ر ما ہ کی مدت با قی رکھی ۔اگر یہ مدت گزر جا ئے اور اس کے دوران خاوند اپنی بیوی سے صحبت نہ کرے تو بعض فقہا ء کے نزدیک طلا ق با ئن واقع ہو جا تی ہے اور بعض کے نز دیک رجعی۔

با لکل اسی طرح عرب معا شرہ عدت کے تصو ر سے بھی آگا ہ اوراس اصول پر عمل پیرا تھا ۔عدت گزارنے میں حکمت یہ ہے کہ اختلاط نسب کو رو کنے کے لئے اس با ت کا پورا یقین کرلیا جا ئے کہ عورت کے رحم میں بچہ نہیں ہے ،عر بو ں کے ہا ں بھی یہ رواج تھا کہ طلاق یا موت کے سبب شو ہر عورت سے علیحدہ ہو جا تا تو اس کے لئے عدت گزارنا ضروری ہو تا تھا ،موت کی صورت میں ان کے ہا ں عدت کی مدت کا مل ایک سا ل مقرر تھی ۔اسلا می شریعت نے عدت کے نظا م کو قا ئم رکھا اور عو رتو ں کے مختلف حا لا ت کے لحا ظ سے باقاعدہ صورت میں ان کی مقدار کا تعین کیا ،طلا ق کے بعد حیض وا لی عورتو ں کے لئے تین حیض یا طہر مقرر کئے ،بڑھا پے یا کم عمری کی سبب جس عورت کو حیض نہ آتا ہو اس کے لئے تین ما ہ مقرر کئے ،جس عورت کے خاوند کا انتقال ہو گیا ہو اس کی عدت چار ماہ دس دن مقرر کی ،حا ملہ عورت کے لئے وضع حمل تک کی مدت مقرر کی ۔جس عورت کے سا تھ خا وندنے صحبت نہ کی ہو اس پر کو ئی عدت نہیں ۔

عرب معا شرہ میں وصیت اور میراث کا سلسلہ بھی جا ری تھا ،وہ وا رث اور دو سروں کو و صیت کی اجا زت دیتے تھے لیکن ان کے ہاں اس کی کو ئی مقدار مقرر نہیں تھی اسلام نے و صیت کے اصول کو قا ئم رکھا اور وصیت کرنے والے کے تر کہ میں تہا ئی حصہ وصیت کرنے کی حد مقرر کی اور تہا ئی سے زیا دہ وصیت کرے تو یہ وارثو ں کی اجا زت پر مو قوف تھا ۔وصیت کی اجا زت صرف ان لو گو ں کے حق میں دی جن کو میرا ث میں حصہ نہیں ملتا ۔وارث کے حق میں وصیت کو دو سرے ور ثا ء کی اجا زت پر مو قوف رکھا ۔

عرب معا شرہ میں معاملا ت کی بہت سی اقسام بھی رواج پذیر تھیں ۔جن میں سے کچھ کو اسلا م نے قائم رکھا اور بعض کی ممانعت کر دی ۔مثلاًعقد شرکت ،عقد مضاربت ،عقد سلم کو اسلا م نے قائم رکھا ،اور ربا اور رہن کو خلا ف اسلا م قرار دیا ۔

عرب معا شرہ میں خریدو فروخت کے جو طریقے رو اج پذیر تھے ،اسلام نے ان میں سے ان قسموں کو با قی رکھا جو درست تھیں اور فریقین کی رضا مندی سے طے پا ئی تھیں ۔جو اقسا م با ہمی رضا مندی کے قاعدے کے خلا ف تھیں اسلام نے انہیں با طل قرار دیا ۔ مثلاًبیع منابذہ،ملامسہ،بیع حصاۃ، بیع نجس وغیرہ کو خلاف اسلام اور ناجا ئز قرار دیا ۔

معا شرے کے لئے قا نو ن ضروری ہے با لکل اسی طرح جیسے انسان کے لئے معا شرہ ضروری ہے۔اس لئے کو ئی معاشرہ قا نون و ضا بطوں سے خا لی نہیں تھا ۔یعنی ایسے قواعد اور ضوابط جو افراد کے آپس کے تعلقات کو منظم کر یں ،کبھی یہ ضا بطے رسم و رواج اور عرف سے عبا رت ہو تے ہیں جن کے مطا بق لو گوں کے تمام کام سر انجام پا تے ہیں اور لڑا ئی جھگڑے کی صورت میں انہی کے مطا بق فیصلے کئے جا تے ہیں۔جا ہلی دور میں عر بوں کا یہی قا نون تھا ۔لیکن اس رسم و رواج کے قانون میں بعض چیزیں ایسی تھیں جنہیں اسلام نے باقی وقائم رکھا اور بعض میں ترمیم واضا فہ کیا ۔مثلاً قتل کی صورت میں مجرم سے قصاص عر بو ں کے یہا ں معروف تھا لیکن وہ صرف قا تل سے قصا ص لینے پر ہی اکتفا نہیں کر تے تھے بلکہ قبیلہ کے تمام افراد تک تجاوز کر تے گویا ان کی نظر میں پو را قبیلہ اس جرم کا ذمہ دار ہو تا تھا۔ اسلا م نے اس ذمہ داری کی حد بندی کی ، اور اس کو صرف قا تل تک ہی محدود کر دیا ۔چنا نچہ اسلام نے حکم دیا کہ قصا ص صرف قاتل سے ہی لیا جا ئے ۔ولا تزوازرۃ ورز اخری ۔کاوا ضح اصول دے دیا گیا ۔دیت ،یعنی خو ن بہا کا نظام بھی عر بو ں میں را ئج تھا ۔ اسلام نے اس نظام کو قائم رکھا ۔البتہ قتل خطا ء کی صورت میں دیت کی ذمہ داری عا قلہ پر ڈا لی ،یعنی قا تل کے قبیلہ سے مرد عصبا ت اس دیت کے ادا کرنے کے ذمہ دار ہو ں گے۔اس کو دو تین سال کی مدت میں ادا کر سکتے ہیں ۔اگر مقتول کے وارث را ضی ہو ں تو اسلام نے قتل عمد کی صورت میں بھی دیت مقرر کی ہے لیکن اس صورت میں تنہا قا تل ہی کو یہ دیت ادا کر نا ہو گی ۔

خلاصۃً عرض ہے کہ عرب جاہلیہ کے رسوم و رواج اور طور طریقوں سے متعلق صدر اسلام میں ’’الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘ کی پالیسی اپنائی گئی ۔ مفید اداروں اور رسوم و رواج کو بلا ترمیم واضافہ قبول کرلیاگیا۔ عاقلہ ، قسامہ ،عرافہ، نقابہ ، حلف اور ولاء جیسے سماجی اصولوں اور اداروں کاذکر اس ضمن میں کیاجاسکتاہے۔

جاہلی دور میں عربوں کے ہاں مختلف النوع نکاح رائج تھے ، نکاح کی ایک صورت اسلامی نکاح سے بالکل مماثل تھی۔ نکاح کی دوسری صورتوں میں مثلاً نکاح الحزن، نکاح البدل ، نکاح شغار ، نکاح مقت ، دو بہنوں کے ساتھ بیک وقت نکاح اور محرمات کے ساتھ نکاح کو باطل قرار دے دیا گیا۔

طلاق کے لیے تین طریقے مروج تھے ،ظہار، ایلاء اور اسلام میں موجودہ طریقہ طلاق۔ آخر الذکر کو تو قائم رکھاگیا ، اول الذکر کو دونوں طریقوں کو مسترد کردیا گیا۔ ایلاء اور عدت کے اصولوں میں بھی تبدیلی کی گئی۔

بیع وشراء میں ان اقسام کو قائم رکھاگیا جن میں دھوکہ کا کوئی پہلو نہ ہو ، جن اقسام میں دھوکہ کا اشتباہ پایاجاتاتھا انہیں باطل قرا ر دیا مثلاً بیع منابذہ ، ملامسہ ،بیع حصاۃ ،بیع نجس وغیرہ۔

کاہنوں کاکردار اوہام باطلہ کی اساس پر قائم تھا اس لیے اسلامی نظام عدل میں اسے یکسر نظر انداز کردیاگیا۔ اصولی اور بنیادی حکم یہی طے پایا کہ ’’اعدلو ا ھو اقرب للتقوی ‘‘فریقین کا موقف سنے بغیر فیصلہ نہ کرنے کا اصول حضور ؐ کے اسوہ حسنہ اور ارشادات گرامی سے اخذ کیاگیا۔ مگر اس کے لیے کیاذرائع اختیار کیے جائیں، یہ منہج و ضع کرنے کاکام بھی اسلامی حکومت پر چھوڑ دیاگیا، بالکل اسی طرح جیسے عدلیہ کے نظام قضاء منصفین اور اس کی ہیئت ترکیبی کی تدریج ،تقرر سے متعلق ضوابط کی تصریح کو ہر دور کے ارباب حل و عقد کا استحقاق قرار دیاگیا۔

***

ایک فقیر بہت مفلس و کنگال تھا۔اس کی دعا رب تعالٰی سے یہی تھی کہ تو نیمجھے بغیر مشقت کے پیدا کیا ہے۔اسی طرح بغیر مشقت کے مجھے روزی بھی دے وہ مسلسل یہی مانگا کرتا تھا۔ اللہ تعالٰی عزوجل نے اس کی دعا قبول فرمائی،اسے خواب آیا کہ تو ردی والے کی دکان پر جا وہاں بوسیدہ کاغذوں میں سے تجھے ایک کاغذ ملے گا۔اسے لے آ اور تنہائی میں پڑھ۔صبح اٹھ کر وہ رودی کی دکان پر گیا۔ردی میں سے وہ تحریر(گنج نامہ)تلاش کرنے لگا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ گنج نامہ اس کے سامنے آگیا۔۔جو اسے خواب میں نظر آیا تھاا۔۔اس نے وہ کاغذ دکاندار سے لیا۔۔تنہائی میں اس کاغذ کو پڑھا۔اس پرچے میں تحریر تھا کہ شہر سے پار ایک مزار ہے ادھر ہی خزانہ دفن ہے۔مزار کی طرف پشت اور منہ قبلہ کی طرف کرکے تیر کو کمان میں رکھ۔۔جہاں پر تیر گرے وہاں خزانہ دفن ہوگا۔۔فقیر نے تیر کمان لے کر اپنے جوہر دکھانے شروع کردیئے۔۔جہاں تیر پھینکتا وہاں جلدی سے بیلچے پھاوڑے لے کر زمین کھودنا شروع کردیتا۔۔بیلچہ،پھاوڑا اور وہ فقیر کند ہوگئے مگر خزانے کا نام و نشان بھی نہ ملا۔۔وہ روزانہ اسی طرح عمل کرتا تیر پھینکتا جس جگہ تیر گرتا اسے کھودتا مگر خزانہ نہ ملاتا۔۔فقیر کے اس پروگرام کا بادشاہ وقت کو پتا چلا۔۔بادشاہ نے اسے طلب کیا۔۔اس نے ساری کہانی بادشاہ کو سنائی اور کہنے لگا جب سے خزانے کا پتہ پایا ہے۔تلاش میں ہوں،خزانہ تو نہ ملا سخت تکلیف اور مشقت میرا مقدر بن گئی ہے۔ بادشاہ نے فقیر سے وہ گنج نامہ لے لیا۔۔خزانہ پانے کے لئے بادشاہ نے بھی تیر چلانے شروع کردیئے۔چھ ماہ تک بادشاہ بھی تیر چلاتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔۔ بادشاہ سلامت بھی ناامید ہو کر وہ گنج نامہ فقیر کو واپس کردیا۔۔ فقیر نے پھر اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کیا عاجزی و انکساری اور آنکھیں اشک بار کرکے دعا کی اے اللہ تعالٰی میری سمجھ سے یہ عقدہ بالاتر ہے۔میں راز کو نہ پاسکا۔تو خود ہی کمال مہربانی سیاسے حل کردے اور مجھے خزانے تک پہنچا دے۔جب وہ عاجز ہو کر بارگاہ الہی میں سچے دل سے گر پڑا تو آواز آئی۔۔میں نے تجھے تیر کو کمان میں رکھنے کو کہا تھا۔۔تجھے تیر چلانے اور کمالات دکھانے کا نہیں کہا تھا۔۔۔ خزانہ تیرے پاس تھا۔۔تیرے قریب تھا۔۔تو تیراندازی کے سفر میں اس سے دور ہوتا گیا۔۔خدا کی ذات کو اپنے اندر اپنے دل میں تلاش کر جو شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔۔اپنے من میں ڈوب خزانہ تک پہنچ جائے گا۔

حکایت سعدی سے اقتباس