working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

فکر و نظر

پاکستانی سیاست و سماج میں مذہب کا عنصر

انا طول لیوان

انا طول لیوان نامور صحافی اور مصنف ہیں ۔ان کا یہ مضمون ان کی کتاب Pakistan a Hard Country سے لیا گیا ہے ،جس میں انھوں نے پاکستان کی سیاست و سماج میں مذہبی عنصر کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی ہے ۔قارئینِ تجزیات اس سے پہلے بھی ان کی تحریروں سے حظ اٹھا چکے ہیں ۔یہ تحریر اس حوالے سے منفرد ہے کہ غیر ملکی دانشور ہمارے مسائل کو کن نظروں سے دیکھتے ہیں ۔بلا مبالغہ مذہب ایک مظبوط اور طاقتور عنصر کے طور پر ہمارے ہاں موجود ہے اور اس نے ہماری سیاست و معاشرت کو بھی ایک الگ رنگ دیا ہے ۔اناطول نے ان رنگوں کو کس طرح پرکھا ہے ۔یہ جاننے کے لئے آپ کو یہ مضمون پڑھنا پڑے گا ۔اناطول نیو امریکہ فاؤنڈیشن اور کنگز کالج لندن سے منسلک ہیں(مدیر)

پاکستان میں9/11 کے بعد سے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی پر اسلام کے تناظر میں بحث عروج پر رہی ہے بدقسمتی سے ’’انتہا پسندی‘‘ اور’’عسکریت پسندی‘‘ کو اکثر’’بنیاد پرستی‘‘اور’’قدامت پسندی‘‘ کے ساتھ جو کہ یکسر ہی مختلف علامتیں ہیں گڈ مڈ کردیا جاتا ہے۔

مذکورہ واقعے کے پیش آنے سے قبل پاکستان کے حوالے سے یہ بحث زبان زد عام تھی کہ کیا اس مملکت کا قیام جنوب مشرقی ایشیاء کے مسلمانوں کو وطن مہیا کرنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا یا اسے اسلامی ریاست کے درجے پر قائم رہنا تھا۔اگر ایسا ہی تھا تو پھر ایک مشترک مذہب کے باوجود مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے کیوں نہ رہ سکے اور اس کی ترقی کی راہ میں کیا امر مانع ہے کہ مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے دہشتگردی کا عفریت مسلسل آنکھیں دکھا رہا ہے لیکن اسلامی انتہا پسندی سے سرِدست ریاست کو کوئی بڑا خطرہ نہیں کیونکہ امریکہ کی مداخلت سے اس مسئلے پر خاصی حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔

اگر دوسرے سوال کو دیکھیں کہ اس ملک کا سرکاری نظام اسلامی ڈھانچے پر استوار ہونا چاہیے تو پھر ہمیں1973ء کی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے تحت اسلام کو ریاستی مذہب کے رسمی اعلان سے کہیں پہلے کے حالات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ ایک اہم مسئلہ ضرور ہے لیکن اس قدر مرکزی حیثیت کا حامل بھی نہیں جیسا کہ تجزیہ نگار اکثر خیال کرتے ہیں اگر اکثریتی آبادی کے اعتقادات اور رویوں کو مدنظر رکھیں تو کوئی خاص تبدیلی متوقع نہیں کیونکہ عام عوام بنیادی طور پر قدامت پرست اور مختلف مسلم روایات کے امین ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی عمومی طور پر سیکولر جماعت سمجھتی جاتی ہے لیکن بعض علاقوں میں حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو نیم مذہبی جماعت کا تاثر ابھرتا ہے کیونکہ کئی مقامی سیاست دانوں کا تعلق ایسے موروثی مذہبی گھرانوں سے ہے جو عوام میں مذہبی تعلق کی وجہ سے مقبول ہیں اور یہ صورتحال دیگر مذہبی جماعتوں سے مختلف تصور کی آئینہ دار بھی ہے۔

پاکستانی عوام کا اسلام کے معاملے میں مختلف روایتی تصور پایا جاتا ہے اگر سعودی یا ایرانی اثرات غالب ہوتے تو متعلقہ فلاسفی کا نفاذ سہل ہوتا،ضیاء الحق کی ناکامی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت اگر چاہے بھی تو کوئی ایسا قدم اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو مضبوط رکھنے کیلئے مذہب سے تعلق ضروری ہے۔ اسلام پسندوں اور ان کے ہمنواؤں کا یہی کہنا ہے تاہم سیکولر طبقہ اب تک کی ناکامیوں کی وجہ مذہب کو ہی قرار دیتا آیا ہے۔یہاں یہ کہنا ہرگز بے جا نہیں ہوگا کہ بہت سے تجزیہ نگار اور رپورٹرز معاملے کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔پاکستان کو متحد رکھنے کیلئے درحقیقت عمومی اسلام کا وجود بنیادی کردار کا حامل ہے اور اس کا تصور اسلام پسند قوتوں کے نقطہ نظر سے قطعاً مختلف ہے،ہندوستان میں بھی ہندو مت ملک کو متحد رکھنے کیلئے اہم کردارادا کررہا ہے حالانکہ آزاد خیال طبقے کے نظریات اس سے قطعاً مختلف ہیں۔

جیسا کہ ماضی میں یورپ بھی ایسے ہی مسائل سے دو چار رہا ہے۔پاکستانی سیاستدان سطحی طور پر تو مذہب پر عمل پیرا رہے لیکن عوام سے توقع کرتے رہے ہیں کہ کاروبار حیات میں مذہبی رویوں کو پروان چڑھائیں۔یہ اسی سوال کا حصہ ہے کہ کیا وہ اخلاقی وفاداریاں جو کہ خاندان کے ساتھ منسوب ہوتی ہیں کیا ممکن ہے کہ ملک کے ساتھ بھی استوار رکھی جائیں لیکن عملی طور پر تصور اس کے مختلف ہے اور مذہب کو ایک ثانوی حیثیت کا درجہ دیا جاتا ہے۔

مذہب کے ساتھ عوام کی جذباتی وابستگی کی ایک اہم وجہ اسلام کا آفاقی کردار ہے جسے بیرونی دنیا نے ابھی تک محسوس نہیں کیا بلکہ اس عنصر نے پاکستانی عوام کی غربت کو انسانی ہمدردی کے خیراتی تقاضوں میں الجھا رکھا ہے کیونکہ ملکی سرکاری اداروں میں اعتماد کا فقدان ہے اور یہی وجہ ہے کہ افریقہ کے بعد پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا رجحان انتہائی کم سطح پر ہے اور دوسری جانب عطیات اور خیرات کی مد جی ڈی پی کا5فیصد ہے جس کی شرح دنیا میں سب سے بلند ہے۔

مذہب پر اعتماد نے کس حد تک امن و سکون مہیا کیا ہے اس کا جواب تو مشکل ہے تاہم پاکستانی قوم کا یقین محکم نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے قرآن کی آیات میں بھی ہدایت کے ضمن میں واضح احکام موجود ہیں۔

’’پارسائی یا تقویٰ یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی جانب پھیر لو بلکہ متقی تو وہ ہیں جو خدا پر یقین رکھتے ہیں آخرت پر،فرشتوں پر،کتابوں پر اور انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی خاطر اپنے قرابت داروں،یتیموں،غرباء اور گلیوں میں گھومنے والے بھکاریوں اور قیدیوں کا خیال رکھتے ہیں۔عبادت میں ثابت قدم رہتے ہیں اور بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘

Citizens Foundation پاکستان کا بڑا اور فعال خیراتی ادارہ تصور ہوتا ہے جس کے ماتحت600 سکول ہیں جن میں85,000 طلباء زیر تعلیم ہیں ۔یہ غیر مذہبی تنظیم ہے لیکن اس کی مالی معاونت کرنے والے مسلمان تاجر مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے مذہبی کردار کو بھی پوشیدہ رکھتے ہیں۔

مذہبی خیراتی عناصر کی عوام الناس میں خاص پذیرائی ہوتی ہے اور انہیں عوام کا اعتماد بھی حاصل رہا ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو اس کے چیئرمین جناب عبدالستار ایدھی ایک کٹڑ مسلمان ہیں اور مولانا کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔وہ کوئی مسلم سکالر نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے لئے اس لقب کو ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن یہ صرف انہی کے ادارے ہیں جہاں مستحقین کیلئے ایمبولینس کھڑی نظر آتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ یہاں انسانی مذہب اپنی تمام تر سچائیوں اور اخلاقی بلندیوں سمیت باقاعدہ موجود ہے۔

اہلِ دین کی آبیاری

پاکستان کی جدید اسلامی سیاست کو دیکھتے ہوئے اہم سوال یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ اتنی فعال کیوں نہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی سیاست اس قدر کمزور کیوں دکھائی دیتی ہے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا میں اسلامی سیاسی جماعتیں اور اصلاحی تحریکیں ترقی کی منازل طے کررہی ہیں اگر ترکی کی مثال سامنے رکھیں اور مصر،شام،الجزائر اور مراکش میں بھی جمہوری الیکشن منعقد کئے جائیں تو انہی پارٹیوں کی حکومت قائم ہوسکتی ہے،ایران بھی لبنان کے شیعوں کی مانند اسلامی انقلاب سے گزر رہا ہے۔

پاکستان کا سیاسی نظام دیگر اسلامی ریاستوں سے زیادہ آزاد ہے لیکن یہاں غربت اس درجہ کی ہے کہ اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے اصلاح پسند میدان میں کود پڑتے ہیں،اسلامی جدیدت اور اصلاح پسندی کی روایات کا تانا بانا1947 سے پہلے کی ہندوستانی نفسیات سے جڑا ہوا ہے اور آج بھی سوائے چند ایک مواقع کے اسلامی جماعتوں نے ہر الیکشن میں مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور آئندہ بھی ایسی کوئی صورت بنتی نظر نہیں آرہی کہ یہ لوگ پاکستان میں حقیقی اسلام متعارف کرانے میں کبھی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے چاہے یہ عمل پرامن یا انقلابی طریقے سے ہی کیوں نہ ہو۔

سچ تو یہ ہے کہ زیادہ تر اسلامی انتہا پسندی کی جڑیں خاصی قدیم ہیں یہ عناصر جدیدیت کا جواب تلاش کرنے کیلئے اور اس کے رد عمل میں ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ان کے پیمانے سے پاکستان کا اسلامی تشخص،روایاتی اور قدامت پسندی کا نمونہ ہونا چاہیے اور اس میں کسی انقلاب کی گنجائش ہی موجود نہیں، انتہا پسند اسلام کی بین المذاہب ہم آہنگی کی سوچ کو بھی نہیں سمجھتے اور یہ تمام حالات ملک کو دیہاتی معاشرت کی چنگل سے نکلنے نہیں دیتے اور دیہات سے شہروں کی جانب مراجعت کرنے والی آبادی بھی دیہی ثقافت کو ساتھ لے کر اپنی ڈگر پر گامزن رہی ہے۔

اسلامی انتہا پسندی چاہے پرانی ہو یا نئے سانچے میں ڈھلی ہو، ہمیشہ سے شہری اثرات کے زیر اثر رہی ہے اور شہری ثقافت اور معاشرہ ہی اس کی سمت متعین کرتا ہے۔پاکستان میں ایک نعرے کی بازگشت عموماً سنائی دیتی ہے کہ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ ۔اس کے ڈانڈے1947سے جا ملتے ہیں تاہم دیہی علاقوں میں دو انتہا پسند قوتیں عرصے سے اپنا وجود رکھتی ہیں۔پہلی قوت سنی تعصب پر مبنی وہ انتہا پسند گروہ ہیں جو وسطی اور جنوبی پنجاب میں سکونت پذیر ہیں۔ یہ کسانوں اور نچلے درمیانے طبقے کو مقامی شیعہ اشرافیہ کے خلاف اکسانے میں کامیاب رہے اہم بات یہ ہے کہ مسکنی جائیداد کے مالک سنی اشرافیہ پر مشتمل ہے وہ اپنے اثر و رسوخ سے اسلامی جماعتوں کو پر نہیں پھیلانے دیتے اور مساجد میں ملاؤں کی تعیناتی میں بھی اپنا کردار ادا کرکے سماجی انتہا پسندی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے رہے ہیں۔

دوم،پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسلامی پسندوں کی کامیابی کے پیچھے صوبہ سرحد اور کچھ قبائلی علاقوں میں طالبان کا عمل دخل ہے جس میں پختون قومیت اور روایات کے ساتھ ساتھ افغانستان میں آنے والی تبدیلیاں بھی شامل ہیں جیسا کہ2010 میں طالبان اور سنی نسلی امتیاز کے حامل عناصر میں بھی ایک اتحاد وجود میں آیا یہ لوگ پاکستان بھر میں دہشت گرد حملوں میں بھی ملوث رہے ہیں لیکن پاکستانی ریاست کو ختم کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔

دینی حوالے سے اگر دیکھیں تو تمام سنی گروہ اور جماعت اسلامی جو کہ نسبتاً جمہوری اور جدیدیت کی داعی ہے سے لے کر طالبان اور دوسرے انتہا پسندوں تک تمام عناصر کا تعلق دو مکاتب فکر سے ہے۔دیو بندی مکتب فکر جو کہ اتر پردیش انڈیا میں دیو بند کے مقام پر1866 میں قائم ہونے والے مدرسے کے نام پر ہے اور دوسرا گروہ اہل حدیث کہلاتا ہے یہ بین الاقوامی سلفی مکتب ہے جو بنیاد پرست،اصلاح پسندوں کے طور پر جانے جاتے ہیں اور عربی زبان میں اس سے مراد’’پہلے آنے والا‘‘یا’’روحانی آباء‘‘ ہیں۔ یہ وہابیت سے متاثر ہیں ان کا ناطہ سرزمین عرب سے جڑا ہوا ہے اور یہ سلسلہ16 ویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔

اہل حدیث،دیو بندی مکتب سے زیادہ انتہا پسند سمجھتے جاتے ہیں اور ان کا جدید سماجی انصاف اور ترقی سے نہایت کم ہی سروکار رہا ہے۔تاہم مجموعی طور پر دونوں ہی گروہ بنیاد پرست کہلاتے ہیں اپنی دانست میں وہ قرآن اور حضورﷺ کے اصلاح پسندانہ احکام کا احیاء چاہتے ہیں،اس لئے وہ موجودہ دور کے معاشرے اور مسلمانوں میں بنیاد پرستانہ تبدیلیوں کے خواہاں ہیں یعنی انگلیسی اور امریکہ اصطلاح کے تحت پیوریٹین کے طرح سخت روحانی رویوں،نمودونمائش اور دکھاوا بشمول صوفی ازم اور مزارات پر آنے جانے کو نفرت انگیز سمجھتے ہیں۔

ان دونوں مکاتب میں کچھ تفریق بھی پائی جاتی ہے عمومی طور پر اہل حدیث صوفیاء اور خانقاہوں کی روایات کو نفرت سے دیکھتے ہیں جبکہ دیو بندی جو شاہ ولی اللہ کے خیالات سے متاثر ہیں جو بذات خود نقش بندی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہ مذکورہ روایات کو ہدف تنقید بھی بناتے ہیں اور انہیں شرک کا باعث قرار دیتے ہیں۔

دیو بندی نظریات نے ہی تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔تبلیغ کے حوالے سے یہ جماعت دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے۔ہر سال لاہور کے نزدیک رائے ونڈ میں سالانہ اجتماع منعقد ہوتاہے تبلیغی جماعت کے اس مرکز میں لاکھوں کا اجتماع دیکھنے میں آتا ہے۔اس کی بنیاد 1920 کی دہائی میں رکھی گئی اور اس کا مقصد اسلامی علوم کی تجدید اور ہندو قوم پرستوں کو لگام دینا تھا جو ہندوستان کے لوگوں کوواپس ہندو مت کی جانب دھکیلنا چاہتے تھے حالیہ دہائیوں میں تبلیغی جماعت نے اپنے آپ کو سیاسی عزائم سے بالکل الگ تھلگ رکھا ہے اور ان کے رہنماؤں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے تاہم بنیاد پرست ان کی آڑ میں اپنی نجی کارروائیاں اور اجلاس منعقد کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں سنی اکثریت کا تعلق نہ تو اہل حدیث اور نہ ہی دیو بند مکتبہ فکر سے ہے بلکہ اکثریت بریلوی مکتب سے وابستہ ہے اسلام کا یہ گروہ اہل سنت کہلاتا ہے اور اپنے آپ کو محمدﷺ اور صحابہ کرامؓ کی تعلیمات کا پیروکار گردانتا ہے۔1880 ء میں اتر پردیش میں بریلی کے مقام پر قائم ہونے والے مدرسے سے ان کا نام مستعار ہے بریلوی مکتبہ فکر صوفی نظریات سے متاثر ہے اور جنوبی ایشیا کے لوگوں میں انتہائی مقبول ہے یہ مکتب صوفیاء کے ذریعے خدا تک رسائی کو اہم سمجھتا ہے معجزات پر اعتقاد رکھتا ہے اور درگاہوں پر حاضری کو یقینی بناتا ہے۔

اگر دیو بندی اور اہل حدیث کوPuritans سمجھا جائے تو بریلوی کیCatholies کہہ سکتے ہیں۔اکثریت میں ہونے کے باوجود بریلوی حضرات میں خاصے اختلافات موجود ہیں یہی وجہ ہے انہیں کسی تحریک کا جزو نہیں کہا جاسکتا جبکہ دوسری جانب کم تعداد میں ہونے کے باوجود ان کے حریف تنظیمی شکل میں موجود ہونے کی وجہ سے منظم ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کی مسلم سیاست کا اہم اکثریتی جزو ہونے کے باوجود ابھی تک بریلوی کوئی بڑی سیاست جماعت تشکیل نہیں دے سکے۔متحدہ مجلس عمل(MMA) جو کہ اسلام پسند جماعتوں کا اتحاد تھا میں بریلوی مکتبہ فکر بھی شامل رہا اس اتحاد نے2002سے2008ء تک صوبہ سرحد اور بلوچستان میں حکومت اور شریعت کے نفاذ اور دیگر کئی اسلامی قوانین واضح کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پاکستان کی دو بڑی اسلامی جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جو کہ پختون علاقوں میں جڑیں رکھتی ہیں دونوں ہی دیو بندی روایات کی امین ہیں۔

صوفی اور بریلوی نظریات کے برعکس دیو بندیوں کی دینی روایات کا مغرب کی مخالفت اور انتہا پسندی کی جانب جھکاؤ کو شہری،سماجی اور دستوری بنیادوں پر پرکھا جاسکتا ہے۔جنوبی ایشیاء کے دیہات میں انگریز حکومت اسلامی روایات کے حوالے سے شاید ہی کوئی تبدیلی متعارف کراسکی بلکہ خانقاہی نظام میں بے جا مداخلت بھی نہ کی گئی اگر کوئی پیر باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث نہ پایا جاتا تو اس کے ساتھ مکمل تعاون بھی کیا جاتا تھا۔

شہروں میں معاملہ الٹ تھا رسمی اسلامی قوانین کا اطلاق دیہات میں خاصا محدود تھا مغل دور حکومت اور دوسری مسلم حکومتوں میں قاضی(جج) اور علماء(اسکالرز) شہروں میں انصاف مہیا کرتے اور تعلیم دیا کرتے تھے ان حکومتوں کے زوال پذیر ہوتے ہی علماء اور قاضی کی طاقت اور توقیر کو خاصا دھچکا لگا نتیجتاً یہ طبقہ حالات سے مجبور ہو کر انتہا پسندی کی جانب راغب ہوتا گیا۔

بادشاہی مسجد لاہور کے سرکاری امام نے مغل حکمرانوں کے دور میں شہری علماء کی زبوں حالی کا خوب نقشہ کھینچا ہے۔بادشاہی مسجد لاہور کا شمار پاکستان کی سب سے بڑی مسجد میں ہوتا ہے اور یہ بہترین تعمیری ڈیزائن کا نمونہ ہے1673ء سے 1986ء تک تعمیری مراحل سے گزرنے کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد رہی۔ امام مسجد نچلے درمیانی طبقے کی رہائش گاہوں کی مانند ایک عام سے گھر میں رہتے تھے وہ سادگی کا نمونہ تھے اور انگلش زبان سے بے بہرہ وہ پاکستان کی اشرافیہ سے بھی نالاں لگتے تھے۔

موصوف سے محرم2009 ء کی ملاقات کا تذکرہ چل رہا تھا20 سال پہلے بھی مجھے لاہور میں محرم ہی کے مہینے میں جماعت اسلامی کے نوجوان لڑکوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہو چکا تھا ان تمام کا تعلق درمیانی طبقے کے نچلے تعلیم یافتہ گھرانوں سے تھا۔یہ نوجوان خوش مزاج،بااخلاق اور وضع دار تھے اور انہوں نے اپنے اوپر مذہبی تعصب کی بھنک تک نہ پڑنے دی تھی یہ لڑکے اپنے خاندانی مسائل سے چھٹکارا پانے اور منفی سرگرمیوں کو تیاگ کر جماعت کے ساتھ وفاداری کی وجہ سے نہایت لگن سے زندگی کیلئے جدوجہد کررہے تھے ان طلباء نے میرے ساتھ گلی کوچوں میں ہونے والے جرائم،ہیروئن کی اسمگلنگ اور ادویات کے استعمال کی لعنت پر کھل کر بحث کی اور اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

پاکستان کے شہری علاقوں میں نیم مغربی اور نیم جدیدیت کی جانب بڑھتے نچلے درمیانی طبقے میں سرد مہری کی رمک پائی جاتی ہے خصوصاً خواتین سے سلوک کے بارے میں مغربی معیار کے پیمانے پر خاصے تحفظات اور تفریق موجود ہے اس روایتی ثقافت نے خواتین میں محرومی کے جذبات کو ابھارا ہے جس کے اثرات سے آنے والی نسلوں کا متاثر ہونا لازمی ہے یہی وجہ ہے کہ خواتین کے فورم کی حمایت میں کئی اسلامی بھی گروہ سرگرم عمل ہیں اور تمام ذہین اسلامی رہنماؤں نے پرزور طریقے سے خواتین کیلئے تعلیمی اقدامات کی حمایت کو اپنے منصوبوں کا حصہ بھی بنایا ہے(اس میں طالبان شامل نہیں)

گھٹن کے اس ماحول اور ثقافتی پابندیوں میں اسلامی بنیاد پرستی سے جڑی جماعت اسلامی کا کسی حد تک سماجی اور قومیتی کردار لائق تحسین ہے حالانکہ یہ ریاست کی ذمہ داریوں کا حصہ ہونا چاہیے تھا،غربت بھی مذہبی حوالے سے سادگی کا باعث بنتی ہے اور ان سب سے اہم عنصر ایقان ہے جو کہ سخت سے سخت ترین حالات میں بھی طمانیت کا احساس فراہم کرتا رہتا ہے۔

فن تعمیر بھی ایمان کے اظہار کی مجسم شکل ہے جیسا کہ بادشاہی مسجد کی خوبصورتی اور اس کا تقدس خود باتیں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اس تند و تیز،ہنگامہ خیز اور مسائل سے بھری دنیا یا جدید تیسری دنیا میں مسلمانوں کے اندرون شہر کی مسجد صحرا میں نخلستان کی مانند ہوتی ہے۔ روایتی طرز تعمیر سے ایک طمانیت کا اظہار مترشح ہوتا ہے۔ نمود و نمائش پر مبنی مغربی اور پاکستانی ثقافت کا اتصال جو کہ اشرافیہ کے رویوں سے مترشح ہے ان دگرگوں حالات میں مسجد کی صورت میں گوشہ عافیت کا پہلو لئے دامن دل وا کیے نظر آتی ہے ۔جیسا کہ گراہم گرین نے کیتھولک چرچ کے متعلقThe Lawless Roads میں لکھا ہے اسی طرح مسجد میں بھی نوع انسانی کی ایک خوبصورت مثال ہے جو زمین پر جنت کے مترادف ہے جس میں حسن کے ساتھ ساتھ مخصوص ثقافت اور جینے کے اسلوب سکھائے جاتے ہیں۔

انتہا پسندی کی حدود

دوسری جانب اسلامی جماعتیں ابھی تک اپنی تنگ نظری پر مبنی ثقافتی رویوں اور مذہبی بنیاد پرستی کی وجہ سے پاکستانی عوام کے دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں یوں تو اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم سب سے پہلی وجہ تو ان کی مذہبی خارجی ثقافت ہے جس سے پاکستان کی اکثریتی آبادی نامانوس ہے اسی وجہ سے شہری اور سماجی ترقی میں خاصی رکاوٹیں حائل ہیں تاہم دیہات سے شہروں کی جانب عوام کی ہجرت اور جدید اقتصادی ترقی کے فقدان کی وجہ سے یہ تبدیلیاں اتنی تیز رفتاری سے نہیں آرہیں جتنی تیزی سے توقع کی جارہی تھیں۔جدید ترقی کے فقدان کا مطلب یہ ہے کہ ترکی کی اسلامی جسٹس پارٹی کے برعکس پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو جدید تعلیم یافتہ تاجروں اور تکنیکی طبقات کی حمایت حاصل نہیں اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ پاکستان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کا کوئی حل تلاش کرسکیں۔

دوم،اسلامی جماعتیں یا کم از کم جماعت اسلامی نے طاقت،جائیداد اور برادری ازم جیسے گھمبیر مسائل جن سے پاکستان کی سیاست اور حکومت دوچار ہے سے نمٹنے کیلئے کوئی جامع اقدامات نہیں کئے۔جے یو آئی بھی اس معاملے میں غیر فعال نظر آتی ہے اور یہ معاندانہ پہلو موروثی پیر جو کہ پاکستان کے دیہات میں بکھرے ہوئے ہیں اور پاکستانی حکومتوں کے قیام میں اہم کردار بھی ادا کرتے آئے ہیں کے رویئے سے بھی عیاں ہے۔

اسلامی جماعتوں کو عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی سے دو طرح کے مسائل کا شکار ہوناپڑا ہے ایک تو پشتون علاقوں میں طالبان کی وجہ سے انہیں بنیاد پرستوں کی حمایت سے ہاتھ دھوناپڑے اور یہ لوگ جیش محمد،لشکر طیبہ،سپاہ صحابہ اور پنجاب میں دوسرے گروہوں کے تحت مجتمع ہوگئے۔اسی دوران معتدل مزاج عناصر بھی جنرل ضیاء الحق اور پھر مسلم لیگ کے شریف برادران کے اسلام کے نفاذ کے نعرے سے متاثر ہو کر ادھر چلے گئے حالانکہ ان کے پاس جماعت اسلامی کے برعکس سماجی اور اقتصادی تبدیلی کا کوئی پروگرام بھی موجود نہیں تھا۔

ایک وقت ایسا آیا کہ طالبان نے پیر اور سجادہ نشین حضرات پر حملوں میں اضافہ کردیا اور ان کے مزارات کی توڑ پھوڑ شروع کردی انہوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بریلوی مکتب فکر کے علماء اور مساجد پر بھی حملے کیے۔مثلاً12 جون2009ء کو لاہور میں مشہور عالم دین مفتی سرفراز نعیمی کو شہید کردیا گیا کیوں کہ انہوں نے خود کش حملوں کے خلاف شرعی فتویٰ جاری کیا تھا۔یکم جولائی2010ء کو ایک خود کش حملہ آور نے لاہور میں حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے درجنوں زائرین لقمہ اجل بن گئے اس طرح بریلویوں کے جذبات بھڑک اٹھے اور جلوسوں نے احتجاجی صورتحال اختیار کرلی۔

طالبان کی جانب سے مزارات پر حملے دراصل ان کی مذہبی عداوت کا نتیجہ تھا وہابی مکتب مزارات کی تعمیر کا مخالف ہے یہی وجہ ہے کہ جب ان کا مکہ اور مدینہ پر تصرف قائم ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے مزارات کو مسمار کیا۔وہابیوں اور شیعوں کے مابین اختلاف کی اہم وجہ1802ء میں کربلا(عراق) میں اہم شیعہ مزارات کی توڑ پھوڑ بھی رہی ہے سعودی عرب میں مزارات کی تعمیر آج بھی ممنوع ہے اور صوفیاء کی تحریک زیر عتاب رہتی ہے۔

طالبان کی جانب سے مزارات کو نشانہ بنانادراصل مقامی اشرافیہ کے کردارکو محدود کرنے اور ان کی علاقائی طاقت کو کمزور کرنے کے مترادف تھا لیکن اس کا ردعمل یہ ہوا کہ عوام جو طالبان کی شریعت کے نفاذ،جہاد،افغانستان اور جرائم کے خاتمے کیلئے ان کی حمایت کرتے تھے رفتہ رفتہ پیچھے ہٹنے لگے۔5 مارچ2009ء میں رحمن بابا (1653-1711) کے مزار پر دھماکہ خیز مواد سے حملہ کیا گیا باقی صوفیاء کی طرح وہ نہ صرف روحانی شخصیت کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ پٹھانوں کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سے عوام میں’’ بلبلِ پشتو‘‘کہلاتے ہیں اسی طرح حضرت داتا گنج بخش کیلئے پنجاب کے علاوہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے دل میں بھی محبت بھرے جذبات موجزن ہیں۔

ان قد آور شخصیات کے مزارات پر حملے ایک غلط حکمت عملی کا نتیجہ تھا ، یہی وجہ تھی کہ دیگر طالبان نے ایسے واقعات سے اجتناب کیا۔اس لئے مہمند ایجنسی میں واقع پیر حاجی ترانگئی کے مزار کے متعلق محتاط رویہ اختیار کیا گیا تاہم لوگوں کو آنے جانے سے یہ کہہ کر خبردار کیا گیا کہ مرحوم محض انگریز راج کے خلاف جہادی رہنما تھے اور آج کے طالبان بھی ان کی تقلید میں انگریز اور امریکی حملہ آوروں اور ان کے پروردہ غلام حکمرانوں کے خلاف پاکستان اور افغانستان میں جہاد کررہے ہیں۔

صوفیاء کا سیاسی کردار

انتہا پسندوں کی جانب سے پیروں کے آستانے اور مزارات کو زک پہنچنے سے جنوبی ایشیا کی پرانی اسلامی اقدار خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ برملا کہا جاسکتا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اسلام کا آغاز صوفیاء اور کتاب کا مرہون منت تھا کیوں کہ کتاب کو متعارف کرانے والے یہی لوگ تھے چاہے وہ خود اس کی تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا نہیں ہوئے۔کتاب سے مراد قرآن اور اس کی روشنی میں حضرت محمدﷺ سے رہنمائی حاصل کرنا ہے۔

بلا شک و شبہ اسلام میں قرآن پاک کی بنیادی حیثیت ہے اور اسلام کے ابتدا ہی سے ہر اصلاحی تحریک اس سے متاثر رہی ہے ۔لوگوں نے ما فی الضمیر کے مطابق اس کی تشریح سے حظ اٹھایا ہے۔بنیاد پرست عیسائی بھی کبھی بائبل کے حوالے سے ایسے اقدامات کرتے رہے ہیں۔

روایتی طور پر جنہیں صوفی کہا جاتا ہے یہ دراصل مسلمان مبلغین ہیں جو بغیر کوئی معاوضہ وصول کیے اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔جنوبی ایشیاء کے صوفیا کو عرب’’شیخ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ فارسی میں یہ لوگ پیر(یعنی بوڑھا شخص)کہلاتے ہیں۔جنوبی ایشیا میں مسلم سلاطین کی حکومتوں کے سایے میں یہ صوفیاء ہی تھے جنہوں نے درحقیقت خطے میں اسلام پھیلایا۔اس دوران ان کے دوسرے بھائی بند مراکش اور اس کے اطراف میں مذہبی خدمات انجام دینے میں مصروف عمل رہے۔

ہندوستان کی ثقافتی اقدار کے زیر اثر مزارات اور ان سے وابستگی میں مقامی ہندو اثرات کا رنگ بھی شامل ہوگیا جس سے مقامی آبادی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہی لیکن یہ بنیاد پرستوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے وہ اسے شرک سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے خدا کے متوازی بت پرستی کی ذیل میں شمار کرتے ہیں جو کہ اسلام کی روح کے مطابق برا ترین فعل سمجھا جاتا ہے۔ادھر عوام کی اکثریت خصوصاً دیہات میں بسنے والے لوگ صوفیاء کو اسلام کا نمائندہ سمجھ کر ان سے برکات وصول کرتے ہیں۔ مزید براں صوفیا اور پیر حضرات عموماً اپنے آپ کا حضورﷺ کے خاندان سے تعلق ظاہر کرتے ہیں اور اپنا وطن عرب سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی نظر میں ان کی عزت و توقیر اسلام کے نگران کے طور پر مستند سمجھی جاتی رہی ہے اور یہ عمل آج تک جاری و ساری ہے۔

غیر اسلامی یا مقامی حالات کے جبر کے تحت پنپنے والی کچھ اقدار دراصل ہندو اثرات کے تحت معرض وجود میں آئی ہیں ۔ صوفیاء سے وابستگی اس انسانی جبلت کا نتیجہ ہے جو خدا اور مخلوق کے درمیان ایک وسیلے کا پہلو لئے ہوئے ہے۔ انگریزی میں لفظSaint ترجمہ کیا گیا ہے جو کہ عربی کے ماخذ’’ولی‘‘ سے یا صوفی کا متبادل ہے اس کا مطلب خدا کا دوست ہے۔بیسیویں صدی کے آغاز میں ایک انگریز آفیسر کے خیالات کا تذکرہ اکثر نوکِ زبان پر رہا ہے۔

’’پنجاب کے دریاؤں کی ساحلی پٹی پر رہنے والے عام لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ مصروفیت کا منبیٰ ہے اس کے منظور نظر لوگ نہایت کم تعداد میں ہیں یہی چند لوگ ہی خدا تک رسائی حاصل کرنے کے اہل ہیں اور اگر کوئی اس درجے تک پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ عام لوگوں کے مسائل اور خواہشات کو دعاؤں کے ذریعے قبول کروانے کی استطاعت رکھتا ہے اس طرح ہر انسان کو خدا اور اس کے درمیان ایک مددگار کی ضرورت ہے۔‘‘

ہندو سادھو اور بادشاہوں کے ساتھ صوفیاء کے ٹکراؤ کی متعدد کہانیاں عوام الناس میں مشہور ہیں جس میں صوفی یا پیرروحانی طاقت کے زور پر بادشاہ کو شکست سے دوچار کرتا ہے اور نتیجتاً حکمران اپنا مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔ موجودہ پاکستان کا زیادہ تر حصہ رفتہ رفتہ اسلام کے حلقہ اثر میں داخل ہوا جہاں خاصے طویل عرصے کے بعد مسلم اقتدار قائم ہوا۔مغربی ایشیاء میں اسلام کے حوالے سے مشہور اسکالر فرانس روبنسن کا کہنا ہے کہ

’’13 ویں صدی میں مسلم دنیا کے مجاہد صوفیاء نے بت پرست،ہندوؤں اور بدھ مت کے پیروکاروں کو مسلمان کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ روایات کے مطابق9 صوفیوں نے جاوا میں اسلام متعارف کرایا ۔ہماری معلومات کے مطابق ان فقیہ لوگوں نے پہلے مغربی افریقہ میں اسلام کی آبیاری کی انہوں نے میزبان ملکوں میں ان قوموں کے سماجی اقدار کو محفوظ خاطر رکھتے ہوئے کام کیا اور دینی فلسفے کی آفادیت کو منوایا ۔عام لوگ مافوق الفطرت مخلوقات سے خوفزدہ رہتے تھے روحانی طریقوں سے ان کا خوف دور کیا گیا۔انہوں نے خوابوں کی تعبیریں بتائیں۔بادشاہوں کیلئے دعائیں مانگیں،مریضوں کے درد کا درماں کیا اور خشک سالی کو خوشحالی کی نوید میں بدلا انہوں نے حکمرانوں اور رعایا،مقامی لوگوں اور نئے آنے والوں،کمزور اور طاقتور کے درمیان پل بننے کی کامیاب کی کوشش کی۔‘‘

معجزات کے واقعات پہلے پہل صوفیاء کے ساتھ منسوب کیے گئے پھر مزارات اس کا حصہ بنے۔ازمنہ وسطیٰ میں عیسائی دنیا بھی ایسے ہی حالات سے دو چار رہی ہے جب مزارات خانقاہوں میں تبدیل ہوئے اور پھر لوگوں کی زیارات کا مرکز بن گئے تاکہ صوفیاء کی روحانی طاقت کی برکات سمیٹ سکیں۔عرس جو کہ برسی کا تہوار ہوتا ہے(عرس فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب شادی ہے یعنی مرنے کے بعد خدا سے ملاقات کا موقع) اور بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ہندوؤں کے مندر اور سکھ گوردوارے کی مانند یہاں بھی مفت لنگر(کھانا)زائرین اور غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے مسلمان ہوں یا انڈیا کے، ہندو دونوں طرف کے عوام مزارات،صوفیاء اور سادھوؤں سے عقیدت رکھتے ہیں ۔یہ محبت سرحدوں اور زبان کی قید و بند سے آزاد ہے۔ پاکستان بھر میں لوگوں کی زبان،دکانوں کے بورڈ اور سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں پر درج مقدس کلمات اس ثقافت کا واضح آئینہ ہے۔صوفیاء اور خانقاؤں سے وابستہ محبت نے مقامی زبانوں کی شاعری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پنجابی اور پشتو شاعری اس کی گواہ ہے خصوصاً سندھ کی سرزمین جہاں شاہ عبدالطیف بھٹائی جیسا قومی شاعر موجود ہے سرفہرست ہیں۔

خانقاہوں کی ثقافت پاکستان کی زمین میں سرایت کر چکی ہے۔ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے پیر کاروں پر کچھ ایسا ہی تاثر ابھارنے کی کوشش کی تھی۔متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین تو اپنے پیرکاروں میں’’پیر صاحب‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی لاڑکانہ میں آخری آرام گاہ پر بھی کسی خانقاہ کا گماں ہوتا ہے۔میں نے پیپلز پارٹی کے جلسوں میں لوگوں کو خانقاہوں کے ملنگوں کی طرح جھومتے دیکھا ہے۔صوفیاء کا فوج کے حوالے سے بھی تذکرہ ملتا ہے مثلاً1965ء کی پاک بھارت جنگ میں برسائے گئے بم ہاتھ سے پکڑ کر ضائع کرنا انہی کا کارنامہ بتایا جاتا ہے۔

جیسا کہ عیسائی دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ زائرین کی آمدورفت یا حکومتوں کی جانب سے زمینیں وقف کرنے یا دیگر قبائل اور قوموں کی جانب سے عطیات و آمدنی کی وجہ سے خاصی طاقت اور دولت مجتمع کرلی جاتی تھی تاہم مسلم دنیا میں اور مسیحوں میں اہم فرق موجود ہے(خاص طور پر کیتھولک چرچ11 ویں صدی سے اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ پریسٹ اور بشپ شادی سے مبرا ہیں) کیونکہ عیسائی صوفیاء کے برعکس زیادہ تر مسلمان صوفیا شادی رچاتے ہیں اور پھر روحانی لذتوں سے مستفید ہونے کیلئے ان کی نسلیں اس وراثت کو آگے بڑھاتی ہیں یہ برکات ان کی تمام اولاد میں تقسیم ہوتی ہیں اور پھر وہ خانقاہ میں مراقبے بجا لاتے تھے تاکہ ان کی روحانی قوت مضبوط ہو۔‘‘

نہ صرف خانقاہیں بلکہ پیر کے خاندان سے وابستہ سجادہ نشین بڑی بڑی زمینوں کے مالک بن چکے ہیں اور اپنے اطراف میں مذہبی اور روحانی قوتوں کے امین سمجھے جاتے ہیں وہ مقامی جھگڑے نمٹاتے ہیں حکمرانوں کے درمیان مصالحت کا کام کرتے ہیں۔وہ دوسرے قبیلوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں برادری اور خاندانی اثر و رسوخ کو مضبوط کرنے کیلئے دوسرے سادات خاندانوں میں ازدواجی رشتے طے کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک پاکستان میں صرف پیسے کو ہی مسائل کا حل نہیں سمجھا جاتا بلکہ خاندانی اور روحانی رشتے بھی سیاسی طاقت کے حامل ہوتے ہیں۔

خانقاہوں اور ان کے رکھوالوں نے گاؤں کے ملا کی حیثیت خاصی گھٹا دی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ازمنہ وسطیٰ میں یورپ میں خانقاہوں کے پریسٹ کا کردار رہا ہے۔

ان پیر خاندانوں کا پاکستان کی سیاست اور خصوصاً پی پی پی کی سیاست میں خاصا عمل دخل رہا ہے2010 کے قومی انتخابات میں سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے،نائب وزیراعظم کے عہدے پر مخدوم امین فہیم متمکن تھے وزیر خارجہ کا قلمدان سید شاہ محمود قریشی کے سپرد تھا جبکہ وزارت مذہبی امور حامد سعید کاظمی نے سنبھال رکھی تھی ۔ سیدہ عابدہ حسین بھی ان کی حمایت میں پیش پیش تھیں ان تمام افراد کا تعلق پیروں کے خانوادے سے تھا۔

اسی طرح دوسری اہم سیاسی جماعتیں بھی پیر فیملی سے مزین نظر آتی ہیں مثلاً مسلم لیگ ق کے فیصل صالح حیات پاکستان مسلم لیگ کے مخدوم جاوید ہاشمی،مخدوم احمد محمود اور سب سے بڑھ کر سندھ میں سے پیر صاحب آف پگاڑہ جو تاحال مسلم لیگ ن کے مددگار شمار ہوتے ہیں یہ تمام حضرات خانقاہوں کے گدی نشین ہیں۔1988ء میں پی پی کے ایک سیاستدان سید پرویز جیلانی نے جن کا تعلق سندھ میں ہدا کی پیر فیملی سے تھا ۔ہدا کی ایک روایت سے پردہ اٹھایا کہ کس طرح دریائے سندھ کی ایک مچھلی نے ان کے ہم زاد سے شرف ملاقات حاصل کی(یہ روایتی کہانی ہندو دیو مالا میں دریا کے دیوتا سے منسوب ہے) اس نے مریدوں کی بے لوث محبت اور لگن کا ذکر کیا جو ان کے خاندان سے وابستہ ہے۔ اس نے ہمیں بتایا۔

’’ہمارے اور دوسرے پیر حضرات میں یہ فرق ہے کہ ہم مریدوں کی تعلیم کے حق میں ہیں جیسا کہ پی پی پی کے ساتھ منسلک رہ کر بھی ہم جمہوری کردار ادا کرنے میں پیش پیش رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پیر پگاڑو کی ناکامی سے ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہمارے لوگ ہم سے متنفر نہیں ہیں کیونکہ ہم نے ہمیشہ عوام کی خدمت کی ہے اور غرباء کی مدد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہم سندھ کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کبھی نہیں ہچکچاتے۔‘‘

اس انٹرویو سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ پیر اور ان کے خاندان مقامی جمہوریت اور علاقائی تعلیم کے باوجود حقیقی ترقی کی روح سے بے بہرہ ہیں ۔ یہ بات ان کی طاقت جو ثقافتی اور سماجی بنیادوں پر قائم ہے سے عیاں ہے۔پاکستان کے سیاسی و سماجی استحکام کیلئے جدید بنیادوں پر ترقی کی ضرورت نہایت اہمیت ا ختیار کر چکی ہے۔ موجودہ ریاستی ڈھانچے اور روایات پر مبنی معاشرے نے اسلامی انقلاب کی راہ تو مسدود کر رکھی ہے لیکن آبادی کی ایک بڑی تعداد کو پسماندہ اور اشرافیہ کے رحم و کرم پر بھی چھوڑ رکھا ہے۔

یہ درست ہے کہ پی پی پی سے تعلق رکھنے والے پیر خاندانوں سے وابستہ سیاسی زعماء نے شیعہ اور سنی مکاتب فکر کو قریب لانے اور مذہبی تعصب سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ان پیر خاندانوں کا تعلق سنی مکتب سے ہے لیکن بعض حلقوں میں شیعہ کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں(جیسا کہ بھٹو اور زرداری صاحبان ہیں)صوفیاء کی اکثریت،ان کی روایات اور اولاد،شیعہ سنی کی تقسیم میں نہیں پڑتے وہ سنی یا شیعہ کسی بھی مکتب سے وابستہ ہونے کے باوجود دونوں کے نمائندہ تصور ہوتے ہیں ۔یہی امتیاز انہیں مسلمان اسکالرز اور شہری منصفین سے مہمیز کرتا ہے جو محض روایات اور کتب پر بھروسہ کر تے ہیں۔

یہ کہنا بھی غلط ہے کہ صوفیاء کا مقام محض دیہی روایات یا ماضی سے پیوستہ کرامات کا نتیجہ ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر مغرب میں بھی یہی تصور موجود ہے اور جدید شہری بنیاد پرست مسلمان بھی یہی خیال کرتے ہیں۔لاہور اور ملتان سے تعلق رکھنے والی قدیم اور چند بڑی خانقاہوں کا حلقہ اثر شہروں تک بھی پھیلا ہوا ہے جہاں مقامی تاجر بھی ان کے پیرکاروں میں شامل ہیں۔یہ لوگ بنیادی طور پر دیہات سے تعلق رکھتے ہیں مگر پاکستان کے تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

پاکستان کی خانقاہوں میں محض عرصہ دراز سے مدفون صوفیاء اور ان کی نسل کو ہی خراج عقیدت پیش نہیں کیا جاتا بلکہ نئے آنے والے مقامی مبلغ بھی کامیابی سے اپنا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پیر مہر علی شاہ کی مثال دی جاسکتی ہے جنہوں نے1930ء کی دہائی سے1940 ء کی دہائی تک گولڑہ شریف کی قدیم خانقاہ میں نام پیدا کیا۔ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں مبلغین نے نئی اور مشہور خانقاہیں قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔مثال کے طور پر گھمکول شریف( صوبہ خیبرپختونخوا) میں پیر حضرت شاہ کی خانقاہ اس کی گواہ ہے۔ حضرت شاہ نے وہاں1951 میں بودوباش اختیار کی تبلیغ کا اہتمام کیا اور لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی ان کے مقلدین ملک بھر میں موجود ہیں اور پاکستانی افواج میں بھی ان کے پیرکاروں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔

خانقاہی نظام کے اثرات برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں بھی موجود ہیں جیسا کہPnina Werbner کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ1970 اور1980 کی دہائیوں میں برطانوی مسلمانوں نے جو خانقاہی تحریک کے حامی تھے،دیو بندی اثرات کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا اور خانقاہی سلسلے کے فروغ میں پیش پیش رہے۔گولڑہ شریف کے مدرسے سے وابستہ مبلغین نے بھی برطانیہ آکر تبلیغ کا کام انجام دیا ہے۔

تاہم کچھ ایسے نامعلوم پیر بھی موجود ہیں جنہیں اطراف میں کوئی نہیں جانتا کیونکہ کوئی بھی مسلمان اپنے آپ کو پیر کہلوانے کا اعلان کرسکتا ہے چاہے اس کیلئے وہ کسی خواب کا سہارا لے یا اپنی عقل اور سوچ کو کام میں لا کر اپنے آپ کو منوائے۔تاہم مکمل اوصاف کیلئے کرشماتی شخصیت،خداداد صلاحیت،بصیرت اور مسائل کا حل نکالنے اور پندو نصائح میں مہارت جیسی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے اور اس میں قسمت کا عمل دخل بھی خاصا کام کرتا ہے۔ اسی وجہ سے نئے نمودار ہونے والے ولی اکثر معمولی شہرت کے حامل ہوتے ہیں۔بعض لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور بعض کو کئی نسلوں تک محنت درکار ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایک آدھ نائب ایسا مل جاتا ہے جو اصل پیر بننے میں کامیابی دلواتا ہے اور یوں اسے مکمل مدد فراہم ہو جاتی ہے۔

پیر حسن بابا نے پہلے شیخ کے انتقال کے بعد مسند سنبھالی ان کا1950 کی دہائی میں انتقال ہوا ان کی جگہ لینے والے حافظ محمد اقبال2001 میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ ان دونوں صاحبان نے لاہور کے درمیانی طبقے اور دانشوروں کو خاصا متاثر کیا ۔حسن بابا اصل میں انگریز تھے اور صوفی سلسلے کی جانب راغب ہوگئے تھے ان کے مرید ان کی رہائش گاہ جہاں انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران1930 ء سے1950ء کی دہائی تک تبلیغ کی کوخانقاہ کی عمارت میں تبدیل کررہے ہیں۔ یہ دونوں حضرات اسی جگہ مدفون ہیں۔

یہ عمارت روایتی ساز و سامان سے مزین ہے اور اسے لاہور کے مشہور آرکیٹیکٹ کمال خان جو کہ بابا کے مرید بھی ہیں نے ڈیزائن کیا ہے۔انجینئر رضوان خواجہ نے مجھے بتایا کہ مغلیہ دور کے بعد اس کے مقابلے کی عمارت کی برصغیر میں مثال ملنی مشکل ہے۔اس خانقاہ کی تعمیر میں نجف(عراق) میں واقع حضرت علیؓ کے مزار کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ خواجہ صاحب نے مجھے بتایا کہ پیر حسن بابا بنیادی طور پر سنی مکتبہ فکر سے وابستہ تھے۔ان کا کہنا تھا

’’پاکستان میں اکثر یہ دیکھا گیا کہ بیوی شیعہ ہے خاوند سنی۔ ماضی میں تو یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اب انتہا پسند ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں،صوفیاء اور خانقاہوں نے اس کے خلاف خاصا تعمیری کام کیا ہے ، سنی اور شیعہ کو قریب لانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔اگر کوئی مجھ سے میرے مسلک کے بارے میں پوچھے تو میں بھی اپنے مرشد کی طرح اس کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ میں اسے غیر متعلقہ سوال سمجھتا ہوں اور صرف خدا کی ذات پر بھروسہ کرتا ہوں۔‘‘

پیر حسن اور حافظ اقبال کے پیروکار اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں’’دوسرے لوگوں کے مذاہب کا احترام کرو‘‘۔ حافظ اقبال نے پوپ جان پال دوئم کو’’اصلی پیر‘‘کا لقب دیا تھا۔

اس خانقاہ نے اور ان کے مریدوں نے بین المذاہب ہم آہنگی اور روایات کو مضبوط کیا اور قوالی کی محفلوں کی حوصلہ افزائی کی جو کہ ایک مضبوط ثقافتی اور جذباتی قوت ہے۔خواجہ صاحب نے بتایا’’ہم کوئی نئی چیز ایجاد نہیں کررہے بلکہ پرانی روایات کو نئی زندگی دینے کی کوشش کررہے ہیں اور جہاں تک ان صوفیاء سے منسوب روحانی واقعات کا تعلق ہے ان پر صرف آنکھیں ہی بند کی جاسکتی ہیں تاہم مذہبی روایات کی تمام مذاہب کے ساتھ وابستگی کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مذکورہ صوفیاء کی مانند جنوب ایشیا کی عمومی روحانی شخصیات کا کسی نہ کسی صوفی سلسلے سے رشتہ جڑا ہوا ہے ۔ روایتی طور پر یہ صوفی ہی کہلاتے ہیں مغربی سامعین صوفی ازم کی اصطلااح سے سہواً’’عمر خیام(باوسیلہ مترجم فٹزجیرالڈ) اور ادریس شاہ کے تخیل کے زیر اثر غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔صوفی ازم کو خدا پرستی کے حوالے سے مبہم انداز میں پیش کیا گیا ہے اس طرح نو آموز فلاسفی،شاعری کی بھرمار،الکوحل اور سکون بخش ادویات پاکستان کی مغرب زدہ اشرافیہ کے نزدیک خاصی پرکشش اہمیت کی حامل خیال کی جاتی ہیں اور وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ لذت آمیز طرز زندگی انہیں مذہب اور اس کی روایات سے دور کردیتی ہیں۔

صوفی ازم کا یہ نمونہ جس میں مذہبی آزاد خیالی اور انتہا درجے کی میانہ روی کی آمیزش کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے اپنی حکمت عملی واضح کی اور مسلم دنیا میں بنیاد پرستوں کے خلاف مذکورہ اسلامی صوفیاء کی حمایت کا وطیرہ اپنایا ہے حالانکہ’’دہشت گردی کی جنگ میں حقیقی طور پر یہ بہتر ہوتا کہ FBI کو استعمال کرتے ہوئے امریکی کٹڑ پسندوں کی(Methodists) امریکی طرز کےPentacostal کے خلاف مدد کی جاتی۔اس طرح کے غیر مقبول اقدام کی وجہ سے امریکہ کے خلاف عام پاکستانی کے دل میں ہمدردی کی کوئی رمک نہیں پائی جاتی حتیٰ کہ بریلوی اور کئی دوسرے صوفیاء کے پیروکار یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ صوفی ازم کے دشمن بنیاد پرستوں کی سمت پیش رفت کررہا ہے۔ اگر بریلوی مکتب کی اعتدال پسندانہ روش کو دیکھیں تو گورنر سلمان تاثیر کا گستاخی کے قانون کے دفاع پر قتل ایک بریلوی کے ہاتھوں ہی انجام پایا ۔ اس جرم کے ارتکاب پر بریلوی علماء نے اس کی تحسین کی۔درحقیقت بریلوی قدامت پرستانہ خیالات کے حامل ہیں اور جدید اسلامی انقلاب کی آزاد خیالی کی جانب مراجعت کی مخالفت کرتے ہیں۔

اگر استعمار کے نو آبادیاتی دور سے موازنہ کیا جائے تو بریلوی حضرات کو اکثر قرآن کی تابعداری اور اسلامی اقدار کی حمایت میں حکمرانوں سے دست و گریباں پایا گیا ہے۔ موسیقیت سے بھرپور قوالی( جسے نصرت فتح علی خان جیسے بڑے فنکاروں نے مغرب میں متعارف کرایا) کی جڑیں صوفی ازم میں پیوست ہیں اور یہ خانقاہوں پر سنائی جاتی ہیں لیکن قوالی پر نقش بندی صوفی سلسلے میں پابندی عائد ہے۔

سولہویں صدی میں مغل حکمران اکبر کی جانب سے دین میں نئی اختراع کی صوفی رہنماؤں نے اعلانیہ مخالفت کی۔ 17ویں صدی کے آخر اور اٹھارویں صدی کے آغاز میں شہنشاہ اورنگزیب کی جانب سے سخت اسلامی اقدامات کی کئی صوفیاء نے حمایت کی،اٹھارویں صدی میں ہی ایک اور اسلامی اصلاح پسند شاہ ولی اللہ نقش بندی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔انیسویں صدی کے آخر میں ان کی نظریاتی اساس پر قائم پیروکاروں نے دیو بندی مکتب کی بنیاد رکھی ۔پاکستان کی موجودہ بنیاد پرستانہ اسلامی سیاست کی ریڑھ کی ہڈی یہی مکتبہ فکر ہے۔

یہ لوگ خانقاہوں اور ان کے پیروکاروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن ان کے مدارس کا نقش بندی خانقاہوں سے گوناگوں تعلق بھی موجود ہے جہاں سے وہ قوت اور مدد حاصل کرتے ہیں۔Carl Ernst کا کہنا ہے کہ جدید اسلامی بنیاد پرست رہنماؤں کی اکثریت بنیادی طور پر صوفی ازم کے اثرات سے متاثر ہو کرہی اس جانب آئی ہے۔

شاہ ولی اللہ کا مغرب کے خلاف اسلام کا دفاع منفرد نوعیت کا باعث بنا۔ ان کا عزم پیر حضرت شاہ کے عقیدت مندوں نے انگلینڈ میں جاری رکھا ان لوگوں نے 1989 میں سلمان رشدی کیStatanic Verses کے خلاف احتجاجی تحریک کو مضبوط کیا۔صوفی ازم کی تمام شاخوں کی تعلیمات میں شریعت کے احکام کی پیروی کو ضروری قرار دیا گیا ہے ورنہ کوئی شخص شیخ یا مرید بننے کا اہل قرار نہیں پاتا۔

پاکستان میں اہل خانقاہ اور صوفی سلسلے بشمول بریلوی مذہبی سوچ نے تعصب کی بنیادپر انتہا پسندی اور طالبان کی راہیں مسدود کی ہیں۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ دیو بندی عقیدے کے مالک جمعیت العلمائے اسلام(JUI) اور جماعت اسلامی کی طرح بریلویوں کی یا خانقاہوں سے وابستہ عناصر کی اپنی کوئی طاقت ور سیاسی جماعتیں ہیں۔ عشروں پر محیط تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے اس قسم کی جب بھی کوئی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی گئی تو اسے مخالفت اور حاسدانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑاچاہے ان کا تعلق بڑے بڑے پیر خاندانوں سے ہی کیوں نہ تھا۔جدید اسلامی بنیاد پرستوں کے برعکس خانقاہیں اور بریلوی کبھی مشترکہ سیاسی نظریات پر متفق نہیں ہوئے۔

بنیاد پرستی سے نمٹنے کیلئے خانقاہ کے کردار کی اہمیت دو بنیادوں پر قائم ہے ایک تو یہ مختلف عقائد پر مبنی ہیں خصوصاً شیعہ مکتب کیلئے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں جس سے سنی اسلام میں اتفاق رائے کا فقدان در آیا ہے۔دوسری اہم بنیاد پیر خانوادوں کی زمین کے مالکان اور دیگر قومیتوں کے ساتھ جوکہ دیہات میں رہتے ہیں اور تاجر اشرافیہ جو قصبات میں رہائش پذیر ہے کے ساتھ ان کی قانونی مدد اور ہمدردی کے پہلو کا پایا جانا ہے۔

یقیناًپیر برادری طاقت اور سرپرستی کے بنے ہوئے جال کا اہم کردار ہے اور پاکستان میں انقلاب کی راہ میں روڑے اٹکانے میں پیش پیش ہے۔سیاسی حوالے سے بھی ان کا کردار دیگر سیاستدانوں سے کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں کی حفاظت اور مدد کیلئے سرپرستانہ حمایت کو یقینی بناتے ہیں۔مغربی صوفی نظریات کے برعکس پاکستان میں صوفی خانقاہوں کا سیاست میں قابل عمل اور ارفع شائستگی کا کردار ہے۔

پیروں کی مذہبی شان اعلیٰ نسل کی وجہ سے کئی فوائد کی حامل ہے۔انہیں غیر مشروط وفاداری حاصل ہو جاتی ہے۔اکثر نوزائیدہ پیر اس وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے مریدوں کی صف میں مقامی سیاستدان شامل ہو جاتے ہیں۔ماضی میں بھی ایسے ہی واقعات ہوتے رہے ہیں جب سلطان یا ان کے شہزادوں کی پیروں سے نیاز مندی کی وجہ سے انہیں شہرت حاصل ہو جاتی تھی اس طرح سیاستدان اور صوفی بلند مقام حاصل کرلیتے ہیں( اور نہایت کم دیکھنے میں آیا جب انہیں عزیمت اٹھانا پڑی ہو) اور یہ لوگ باہمی اتحاد سے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں مرید اپنے پیر کے حکم سے قتل جیسا اقدام اٹھانے سے نہیں چوکتے اور سیاسی اتحادی کا ثبوت دیتے ہوئے یا اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں۔

پیروں اور ان کی خانقاہوں کے دو رخ ہیں ایک تو سیاسی حوالے سے جائیداد کا حصول اور بعض اوقات سماجی اور روحانی مفادات کی آڑ میں غیر قانونی یا مجرمانہ کاموں کی سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔صوفی ازم کے مشہور و معروف اسکالرLukas Werth کا کہنا ہے۔

’’آج کل کے پیروں کی اکثریت دشمنیاں نہیں پالتی عام لوگ ان سے خاصے خوش ہیں اور انہیں عزت اور توقیر کا مقام دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کی سماجی زندگی میں دکھوں کا مداوا کرتے ہیں۔ زندگی میں مسائل اور دکھ تو ہر ایک کو جھیلنے ہی ہوتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں پر روحانی سکون کا بندوبست کرتے ہیں بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں جو کہ حکومت کی ذمہ داریوں کا حصہ ہونا چاہیے۔مزید براں لوگوں کے جھگڑے نمٹاتے ہیں میاں بیوی میں مصالحت کراتے ہیں،والدین بچوں اور بھائیوں کے درمیان مسائل حل کرتے ہیں۔‘‘

ایک سندھی محقق نے خانقاہوں کے حوالے سے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے ان کا کہنا ہے

’’ تصوف اور صوفیاء سے عقیدت کا منفی پہلو یہ ہے کہ یہ لوگوں کو غیر متحرک،اپنے بڑوں کا تابعدار بنانے کے ساتھ ساتھ یہ باور کراتا ہے کہ ہر شے خدا اور صوفیاء کی جانب سے آتی ہے اور اس پر سر تسلیم خم کردینا چاہیے یہ صورتحال سندھ کو نقصان پہنچا رہی ہے کیونکہ ہم روایت پرست،زرعی اور پسماندہ معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں ۔صوفی ازم بھی اسی راستے پر گامزن رہنے کی ہدایت کرتاہے ہمیں ایک ایسے صنعتی انقلاب کی ضرورت ہے جو ہمیں پیروں کے چنگل سے آزاد کراسکے لیکن سندھی لوگ تو پیروں فقروں پر جان چھڑکتے ہیں اور یہی ہماری ثقافت کا حصہ ہے حالانکہ میں پیر صاحبان کے سیاسی اور سماجی کردار سے متنفر ہوں لیکن پھر بھی ان کا نیاز مند ہوں‘‘۔

پاکستان میں جدید اصلاحات، جمہوریت اور ترقی کی راہ میں پیر اور خانقاہیں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جہاں حکومت بے بس ہو وہاں کم از کم بیماروں اور غرباء سے اظہار یکجہتی کیلئے پیر نفسیاتی مدد کا باعث ضرور ہیں بعض خانقاہیں خاص طور پر خواتین میں شہرت کا باعث ہیں،وہاں بے اولاد جوڑے بچوں کے حصول کیلئے دعائیں مانگتے ہیں اور بعض خانقاہیں کئی بیماریوں کی شفا اور علاج کی شہرت بھی رکھتی ہیں۔

نفسیاتی مسائل کے حل تک تو یہ سچائی پر مبنی ہے کہ لوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ تمام مسائل چڑیلوں اور بھوتوں کا کیا دھرا ہیں چنانچہ ان مسائل سے دوچار لوگوں کو جھاڑ پھونک کیلئے خانقاہوں پر ہی لایا جاتا ہے خصوصاً خواتین جو ان بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں انہیں تدارک کے طور پر عام روایات سے ہٹ کر صوفی ناچ پر بھی مجبور ہونا پڑتا ہے یا کئی قسم کے ٹونے کرنے پڑتے ہیں یا انہیں روحوں کے شر سے نجات پانے کیلئے جسمانی اور جذباتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔دوسری جانب بدقسمتی سے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر پیر لوگوں کو باقاعدگی سے میڈیکل کے علاج اور ادویات سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں اور خانقاہوں کے پھیرے لگانے پر اکساتے ہیں ۔بعض دیہی پیروں کے خوفناک قصے بھی مشہور ہیں جس میں وہ اپنے معتقدین پر کالے جادو کا عمل کرتے ہیں اور بعض اوقات انسانی جان کی قربانی بھی دی جاتی ہے۔

خانقاہیں اور توہم پرستی

مسلم دنیا میں سیکولر بنیاد پرست اصلاح پسندوں کی جانب سے خانقاہوں ،صوفی ازم اور اس سے وابستہ ضعیف الاعتقادی جیسے نظریات کی وجہ سے انہیں خاصے معاندانہ رویے کا سامنا ہے ۔جہاں تک قوم پرستوں کا تعلق ہے وہ قومی ریاست کی تشکیل کیلئے اپنے رہنماؤں سے وفادار رہنے کا تصور پیش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ترکی میں کمال اتاترک نے خانقاہوں اور صوفیا کے خلاف انتہائی جابرانہ اقدامات کیے اور ان پر پابندیاں عائد کردیں جنہیں ابھی حال میں اٹھایا گیا ہے۔

یہاں ایسے کئی مبہم عوامل ہیں جن سے ہندوستان پر حکومت کے دوران انگریز حکمران بھی بخوبی آگاہ تھے۔ایک طرف تو مسلمان حکمرانوں کی مانند انہوں نے بھی خانقاہوں اور اراضی ملکیت رکھنے والے پیر خاندانوں کی برطانوی اقتدار کے دوام کا سرچشمہ سمجھتے ہوئے حوصلہ افزائی کی۔پنجاب میں پیر زمیندار اشرافیہ کو روشناس کرایا اور پھر ان خاندانوں کو باعث مشاورت سمجھتے ہوئے عزت بخشی اور بعض اوقات مزید زمینیں و دیعت کرکے ان کے کردار کو مستحکم کیا۔

انگریزوں نے پیر حضرات کو وہابی اور دوسرے اصلاح پسند مبلغین کی جانب سے انگریز مخالف تحریکوں کے خلاف اپنا اتحادی سمجھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہاں آنے والی حکومتوں نے اندرونی حمایت اور مدد حاصل کرنے کیلئے پیروں پر ہی بھروسہ کیا، جنرل ضیاء الحق جو ذاتی طور پر جدید اسلامی ثقافت سے ہمدردی کے جذبات رکھتاتھا اس نے خانقاہوں سے عناد رکھنے کے باوجود ان کے خلاف نہایت محدود اقدامات کئے اور سابقہ پالیسیوں پر عمل درآمد کی خاطر وقف بورڈ کے تحت اقتصادی معاملات کو چلانے کی عمومی حکمت علمی وضع کی۔

دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ انگریز حکمرانوں نے اپنی پروٹسٹنٹ فطرت کی وجہ سے خانقاہوں میں اسلامی اصلاحی نظریات کے فروغ کی حوصلہ افزائی بھی کی ۔ توہم پرستی،جہالت،برائیوں اور منشیات جو کہ خانقاہوں کے زیر اثر ان کے پیروکاروں میں فروغ پا رہی تھیں کی بھرپور مخالفت کی۔انہوں نے مغربی پاپائیت اور مسلمانوں کی صوفیوں سے عقیدت میں خاصی متوازی مماثلت کا مشاہدہ کیا۔

Major O'Brien کی رائے میں’’تمام پنجابی مسلمان دوسرے کئی لوگوں کی طرح ضعیف الاعتقادی کا شکار ہیں اور پیروں فقیروں پر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں۔‘‘ سامراج کی حکومت کے سیاسی تقاضے ایک جانب،برطانوی سرکاری عہدے داروں نے مذہب،قانون اور نسبتاً جدید دیہی اسلامی اصلاحات کا سہارا بھی لیا اور بعض اوقات روایاتی رسوم و رواج پر مبنی قوانین کی بجائے شریعت کو ترقی یافتہ قوانین کی بنیاد پر ترجیح دی۔

یقیناًپاکستان کی چند بڑی خانقاہوں کو(روس کی طرح) پروٹسٹنٹ مکتبہ فکر کی روح کے منافی سمجھا جاسکتا ہے یہ خاص طور پر اس وقت تو بالکل ہی درست ثابت ہوتا ہے جب قلندر اور ملنگوں کا ذکر کیا جائے(عرب اور ترک انہیں درویش کہتے ہیں) یہ لوگ ہندو سادھوؤں کی طرح آبادیوں میں گھومنے والے مقدس بھکاری سمجھے جاتے ہیں۔برطانوی انگریزوں اور اسلام پسندوں نے خانقاہوں سے جڑے ان ملنگوں اور خصوصاً مست ملنگوں(نشے میں مست الست لوگ) سے ہمیشہ حقارت کا ہی اظہار کیا ہے۔

تعلیم یافتہ صوفیاء کی طرح پیر حسن بابا کے پیروکار خواجہ صاحب نے صوفی ازم میں اس طرح کے عناصر اور متعدد پاکستانی پیروں اور ان کے پیروکاروں سے یوں برگشتگی کا اظہار کیا ہے۔

’’بدقسمتی سے انتہائی نچلی سطح پر چند نوزائیدہ مصنوعی صوفی اور ملنگ کاروباری پیشہ سمجھتے ہوئے یہاں بھی گھس آئے ہیں جس سے اس مقدس شعبے کا برا تاثر ابھرا ہے۔ملنگ نشہ آور ادویات بیچتے ہیں اور مکروہ دھندے کرتے ہیں سیاسی عزائم رکھنے والے پیر خانوادے بھی ایک طرح کا سماجی مسئلہ ہی ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں اور بدیانتی کی وجہ سے صوفی سلسلے کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ایک حقیقی صوفی فربہ نہیں ہوسکتا صحت مندی اور امارت اس کے نزدیک نہیں پھٹکتی۔وہ غریب اور سادہ طرزِ زندگی بسر کرتا ہے لیکن لوگوں نے ہمیشہ جھوٹے خداؤں کو ہی سر پر بٹھایا ہے اور پاکستان کی مثال کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔یقیناًجب آپ موروثی پیروں کو دیکھیں گے تو انہیں جھوٹے خداؤں کو ہی پوجتا پائیں گے۔‘‘

مجھے چھوٹے درجے کی چند مذہبی خانقاہوں پر ملنگوں سے ملنے کا اتفاق ہواتو ان کی دگر گوں حالت کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی اپنے آپ کو انگریزوں اور اسلام پرستوں کی صف میں پایا۔ وہ غلاظت سے لتھڑے ہوئے تھے کپڑے چیتھڑوں میں تبدیل ہو چکے تھے انہیں بچوں نے گھیر رکھا تھا ایک ملنگ نے تو نشہ آور ادویات کے استعمال کا اس طرح دفاع کیا۔

’’الکوحل بیرونی طور پر کام کرتی ہے ۔وہ انسان کو اندھا اور بے حس کر دیتی ہے جبکہ چرس(حشیش) اندرونی طور پر عمل دکھاتی ہے وہ انسان کو پرسکون کرتی ہے اور اس کی روح کو خدا سے ملاتی ہے۔ چنانچہ ایک سچے ملنگ کو ہمیشہ الکوحل سے دور رہنا چاہیے جیسا کہ اسے عورتوں سے بھی دور رہنے کی ضرورت ہے الکوحل خداسے رابطے کو منقطع کرتی ہے جبکہ چرس خدا کے قریب لاتی ہے یہی وجہ ہے ہم ملنگ لوگ حشیش کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘

برطانوی اور امریکی حکومتوں کے ماہرین کی میڈیکل رپورٹ جوKatherine Ewing کی ادویات پر تحقیق پر مبنی تھی کچھ ایسے ہی خیالات کی متقاضی ہے۔

ملنگ مقامی ثقافت کا حصہ ہیں اور خدا سے تعلق قائم کرنے کیلئے بیرونی دنیا میں رہ کر نئی راہ تلاش کرتے ہیں۔ملنگ اور قلندر اپنے آپ کو قانون سے مبرا یعنی ’’بے شر‘‘ صوفی سمجھتے ہیں جبکہ پیر شادی بیاہ رچاتے ہیں بچے پیدا کرتے ہیں اور شریعت کی پیروی کرتے ہیں جبکہ صوفی اس کے برعکس زندگی گزارتا ہے۔

چند شہری درگاہوں پر چرس پینے پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔ خصوصاً راولپنڈی اور اسلام آباد کے مضافات میں ایساہی ہے کیونکہ مریدوں میں سرکاری افسران بھی شامل ہیں اور فوجی اثر و رسوخ کی وجہ سے گھمگول شریف میں بھی ایسا ہی ماحول ہے۔ اس کے علاوہ نقش بندی سلسلے میں کئی خانقاہوں پر بھی سختی برتی جاتی ہے۔چند دوسری بڑی خانقاہوں پر(عرس کے مواقع پر یا ہر جمعرات کو دھمال اور موسیقی کی محفلوں میں)چرس یا حشیش کے بغیر سانس لینا بھی محال ہے۔

یہ روایت سندھ میں بھٹ شاہ اور سیون شریف کی خانقاہوں پر صادق آتی ہے۔سیون شریف وسطی سندھ میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر آباد ہے اور ہداکی طرح اس کی روایت بھی دریا سے ہندوؤں کی وابستگی اور عبادت سے مربوط ہے ۔اس کے قریب نچلی ذات کے ہندو آج بھی آباد ہیں۔سیون شریف شیخ سید عثمان مروندیؒ (1177-1274) کا مسکن ہے جن کا تعلق فارس سے تھا انہوں نے لال شہبازؒ (سرخ عقاب) قلندر کے نام سے شہرت پائی روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دوست اور ساتھی بابا فرید ؒ پاکپتن کی جان بچانے کیلئے اپنے آپ کو عقاب میں تبدیل کرلیا تھا۔ سندھ کے زیادہ تر صوفی بشمول شاہ عبدالطیفؒ ،شہباز قلندرؒ کے سلسلے سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔سیاستدان اس خانقاہ سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں سونے کا دروازہ بنوا کر عطیہ کیا تھا۔

سیون شریف میں داخل ہوں تو ایک وسیع و عریض میدان کا احساس جاگزیں ہوتا ہے مزار،راہ چلتے مرید اور بیچ میں پھیلی گلیاں،ہزاروں چراغوں سے روشن ہوتی ہیں۔ہر گلی میں عید کا سماں ہوتا ہے،بازار مذہبی تقدس کا نمونہ پیش کرتے ہیں جو موسیقی،خوشبو،روشنی،تغموں اور ہجوم سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں جہاں ملنگ اور جیب کترے موج مستیاں کرتے نظر آتے ہیں۔

سیون میں زندگی دوسری خانقاہوں سے اور پاکستان کی عام معاشرتی حالات سے خاصی مختلف نظر آتی ہے خاص طور پر خواتین کے حوالے سے خانقاہ کی شہرت اور سماجی کردار سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔سیون میں خواتین کے گروہ آزادانہ اور پراعتماد طریقے سے مردوں کے بغیر گھومتے نظر آتے ہیں تاہم ننھے بچے ان کے ساتھ ضرور نتھی ہوتے ہیں یہ بھی سنا گیا ہے کہ بعض خانقاہوں کے اطراف میں مرد اور خواتین طوائفیں بھی اپنا کاروبار کرتی ہیں۔

مزار کے چاروں اطراف میں دعائیں مانگتے اور شور مچاتے بچوں اور خواتین سمیت پورے پورے خاندان گھومتے نظر آتے ہیں صحن جہاں ڈھولک اور ناچنے والے عشق میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں وہاں رسی کھینچ کر خواتین کی حد بندی کردی جاتی ہے۔ دوپہر کو میں نے خواتین کوبھی دوپٹے میں ملفوف نہایت احترام سے موسیقی کی دھن پر سروں کو ہلاتے دیکھا تاہم ان کے درمیان تین خواتین بال کھولے وجد سے ناچ رہی تھیں یقیناًان کا تعلق بھی ان نفسیاتی افراد سے ہوگا جن کے لئے خانقاہ گوشہ عافیت کا کام دیتی ہے۔

باقی کا صحن بھی جھومنے اور ناچنے والے مردوں سے بھراہوا تھا۔وقفوں وقفوں سے خانقاہ کے خدام ہجوم کے درمیان راستہ بناتے ہوئے آتے لوگوں کو ترو تازہ اور ٹھنڈا رکھنے کیلئے خوشبودار پانی کا چھڑکاؤ کرتے لیکن گرمی بھی زوروں پر تھی اور ناچنے والے پسینے سے شرابور ہو ہو کر گرتے۔صحن کے بیچوں بیچ چمڑے کا بنا جہازی سائز کا ڈھول دھرا تھا اور نوجوانوں کی ٹولیاں باری باری آگے بڑھ کر اسے بجاتی تھیں۔

صحن عام لوگوں سے بھرا تھا لیکن سب سے پہلی رو میں ناچنے والے ملنگ تھے(سندھی انہیں درویش کہہ کر پکارتے ہیں) ان کے بے ڈھنگے لمبے بال اور الجھی ہوئی داڑھی تھی یہ ہزاروں سال قدیم ہپیوں کی طرح لگتے تھے اپنے ہاتھوں کو سروں پر بلند کئے انگلی آسمان کی جانب لہرا رہے تھے لگتا تھا جیسے پاپ موسیقی کا پروگرام چل رہا ہے۔چاروں طرف چرس کے مرغولے بل کھا رہے تھے۔

شیعہ رنگ غالب تھا مزار کے گرد اور ڈھول کی تھاپ پر دونوں طرف یہی لوگ موجود تھے ۔ یاعلیؓ کے نعروں کی گونج تھی۔مرد ملنگ خواتین ملنگوں کی طرح وجد میں تھے ایک ملنگ نے خاتون کا لباس زیب تن کر رکھا تھا اور سر پر جانور کی کھال اور پروں کا بنا تاج بدروحیں نکالنے والے پادری کی چغلی کھا رہا تھا۔

لال شہباز قلندر خود کیا چاہتے تھے کوئی نہیں جانتا تاہم گیٹ کے اوپر صوفی کی ایک تصویر آویزاں تھی جس میں انہیں ستار اٹھائے ناچتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ مسلمان بنیاد پرست گروہ اس قسم کی سرگرمیوں کے متعلق کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں اور اس کا جواب کم و بیش وہی ہے جو سترویں صدی میں عیسائیوں کاPuritans گروہ Catholicism کے متعلق رائے رکھتا تھا جس میں پوپ اوربشپ کی گنجائش موجود ہی نہیں تھی یہ صورت پاکستان کی بعض خانقاہوں میں پائی جاتی ہے جس نے مذہب پرستوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔

مذہب پرست،بنیاد پرست،اصلاح پسند:

جماعت اسلامی

سیون شریف کا تقابل منصورہ لاہور میں واقع جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ کہیں اور ممکن نہیں، پاکستان کے دوسرے اداروں خاص طور پر فوجی ادارے کی طرح جماعت کے دفاتر بھی عام گندگی،بد نظمی،رنگا رنگی اور نمود و نمائش سے پاک ہیں۔

جماعت کے نوجوانوں میں خوش طبعی کے آثار دیکھنے ہوں تو انہیں کرکٹ کھیلتا ہوا دیکھیں۔حقیقت میں اگر جماعت کو اس پہلو سے دیکھنا ہے تو پھر Dr Arnold of Rugby کی رائے نہایت اہمیت کی حامل ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ نہایت راستباز اور صحت مند مسلمان ہیں جماعت میں ہر شے نظم و ضبط کی پابند،صاف،بالترتیب، مناسب، جدید، ہر دم تیار،بیرکس اور اسکول بورڈنگ میں راسخ العقیدہ لوگوں پر مشتمل ہے۔جماعت سے تعلق رکھنے والے ممبران عادات و اطوار کے لحاظ سے اس طرح پیش آتے ہیں کہ ان میں صاف نظریاتی جھلک اور عموماً نچلے درمیانی شہری طبقے کی ثقافت اور روح نمایاں نظر آتی ہے۔

جماعت کے سرگرم کارکن اپنے لباس اور برتاؤ میں دیو بندی مسلک کی دیگر اسلامی جماعتوں سے وابستہ خصوصاً جمعیت العلمائے اسلام کے اکثریتی پٹھان ارکان سے قطعاً مختلف ہیں۔غیر منقسم ہندوستان میں جے یو آئی کی جد اعلیٰ جمعیت العلمائے ہند تھی جس کی انگریز راج کے خلاف تحریک خلافت کے جدوجہد کے دوران 1919ء میں بنیاد رکھی گئی تھی۔

1940ء کی دہائی میں پاکستان کی تحریک کے دوران جے یو آئی تقسیم ہوگئی پاکستان میں یہ جماعت نسلی رنگ اختیار کرتے ہوئے پٹھانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آئی۔جے یو آئی کا کوئی دانشورانہ کردار کبھی دیکھنے میں نہیں آیا یہ صرف اپنے پیروکاروں کی گنتی کے لحاظ سے پاکستان کی پہلے سے موجود ایک سرپرستانہ مشینری کا حصہ ہے۔ان کے ایک رہنما نے صاف گوئی سے اعتراف کیا۔

جماعت اسلامی ایک مختلف نوعیت کی جماعت ہے یہ اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے اس کا سیاسی طور پر کامیاب نہ ہونا حیرت انگیز ہے۔ جماعت میں روشن خیال دانشوروں کی کمی نہیں اس جماعت کی بنیاد سید ابو اعلیٰ مودودی (1903-79) نے1941ء میں لاہور میں رکھی مولانا مودودی کا شمار اسلام کی بین الاقوامی شخصیات میں ہوتا ہے جماعت کا اپنی بقاء کیلئے بھی دانشورانہ کردار کا حامل ہونا نہایت ضروری ہے۔

مولانامودودی اور جماعت دیو بندی مسلک کی انگریز دشمنی اور واحد مسلم امہ کے نظریے سے بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے جناح اور دوسرے مسلم لیگی رہنماؤں کے سیکولر نظریات سے برملا اختلاف کیا اسی بنیاد پر انہوں نے ابتدائی طور پر پاکستان کی تخلیق کی مخالفت کی بلکہ ہندوستان میں ہر لحاظ سے مکمل مسلمان معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کو ترجیح دی۔

تقسیم کے بعد مولانا مودودی اور ان کے اہم پیروکار لامحالہ پاکستان آگئے ۔ایک لمبے عرصے تک مہاجر کا لقب ان کے ساتھ چسپاں رہا(ان کا تعلق حیدر آباد،انڈیا سے تھا) مہاجرین کی ترقی پسندانہ سوچ اور روشن خیالی نے جماعت کے نظریے میں واضح تبدیلی لائی، خاص طور پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے جدت دیکھنے میں آئی۔

مولانا مودودی ابتدائی طور پر مصر کی اخوان المسلمین اور حسن البنا کے نظریات سے متاثر تھے لیکن انہوں نے اپنے خیالات کو مزید وسعت دی۔ جماعت کیلئے بھی انہوں نے وہی راہ اختیار کی یعنی’’سلفیہ پیغام،سنی نقطہ نظر کے مطابق ایک صوفیانہ سچائی،سیاسی تنظیم سازی،سائنسی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار گروہ جس میں اقتصادی اور سماجی تخیل کی مکمل گنجائش موجود ہو۔‘‘

جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس روایت کی اسلامی سوچ واقعی قابل قدر ہے جس میں اسلام کو تمام بنی نوع انسانی کیلئے موزوں قرار دیا ہے۔ مولانا مودودی نے مزید سوشلسٹ نظریات شامل کرتے ہوئے جدید سرمایہ کاری نظام کی مخالفت میں مزید اصلاحی ایجنڈا روشناس کرایا، مسلم روایت میں زکوٰۃ کے نظام کو مغرب کے جدید نظام بیمہ کاری کا ہم پلہ قرار دیا۔جماعت نے اپنی ویب سائٹ پر تمام سماجی ناانصافیوں،مصائب اور بددیانتی جیسے مسائل اور ان کے تدارک پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

’’ذرا اپنے مادر وطن پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگاکہ ناانصافیاں اور مسائل آئے دن کا معمول بن چکے ہیں خدا نے انسان کو برابری کی بنیاد پر پیدا کیا ہے مگر مٹھی بھر افراد نے ضرورت سے زائد زمینیں ہتھیا رکھی ہیں اور وہ پرتعیش زندگی گزارنا چاہتے ہیں انہوں نے اپنے ساتھ کے انسانوں کو اپنا غلام بنا رکھاہے تاکہ وہ غریب اور پسماندہ ہی رہیں ہم نے اپنے ہم وطنوں کے حقوق سے انکار کرکے انہیں کمزور کیا ہے۔ہم نے ان سے معمولی خوشیاں بھی چھین لی ہیں،بددیانتی اور ملاوٹ کا دور دورہ ہے اور جائز کام کرانے کیلئے بھی رشوت ضروری قرار دے دی گئی ہے۔پولیس کا رویہ نازیبا ہے،عدالتوں میں انصاف بکتا ہے۔تعلیم کا معیار گرتا جارہا ہے،اخلاقیات اور مذہبی رویے انحطاط پذیر ہیں،فحاشی عام ہو چکی ہے،افواج دشمن پر قبضہ کرنے کی بجائے مارشل لاء کے ذریعے کئی مرتبہ اپنے ہی عوام کو فتح کر چکی ہے،بیورو کریسی جسے عوام کا خادم ہونا چاہیے تھا وہ باس کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔

جماعت سے وابستہ ایک سرگرم کارکن جو کہ پشاور یونیورسٹی میں سیاسیات کا طالب علم ہے اس میں جماعت کا پرتو بھی جھلکتا تھا(یعنی تراشی ہوئی داڑھی اور بے داغ کرتہ) اس نے جماعت میں شامل ہونے کو جاگیرداری سے نفرت اور دوسری جماعتوں میں جاگیرداروں کی اجارہ داری قرار دیتے ہوئے کہا۔

’’جاگیرداروں کی مٹھی بھرتعداد اور ان کے اتحادی تاجر وسائل کو قابو میں کرکے بیٹھے ہیں اور یہی ہر مسئلے کی جڑ ہے انڈیا کے عوام نے ملک میں زمینوں کی اصلاحات متعارف کروا کر جاگیردار کو اکھاڑ پھینکا ہے اور آج وہاں جمہوریت خوب پھل پھول رہی ہے۔ ادھر ہمارے ملک کی تمام جماعتیں جو تبدیلی لانے کی خواہاں ہیں وہ خود جاگیرداروں کے زیر اثر ہیں اس لئے ان سے تبدیلی کی توقع عبث ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں طلباء کی یونین اور مزدور یونین کی ضرورت ہے اورNGOs وغیرہ بھی ضروری ہیں تاکہ نئی جمہوری پارٹیوں کا وجود عمل میں آئے جماعت میں جاگیردار یا موروثی حاکمیت کا کوئی تصور نہیں ہے ہمارے راہنما طلباء تنظیموں سے ابھرتے ہیں، وہ اپنے بیٹوں کو اپنی جگہ منتخب نہیں کرتے۔

میں نے جماعت اسلامی کو تین وجوہات کی وجہ سے چنا یعنی پہلی وجہ تو مذہب ہے پھر سماجی انصاف اور جمہوری روایت نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا میں نے بہت غور و خوص کے بعد یہ فیصلہ کیا ۔میرے خاندان کے لوگ اے این پی میں ہیں میں اپنے خاندان کا واحد فرد ہوں جو جماعت میں شامل ہوا اور یہ ایک دم نہیں ہوا میں نے کالج میں داخلہ لیا اور جماعت کے ارکان کا کام دیکھ کر بے حد متاثرہوا۔اگر آپ ایسی جماعت سے وابستہ ہو جاتے ہیں تو آپ کو سیاسی بلوغت اور تنظیمی ہنر کے ساتھ ساتھ مذہبی آگاہی بھی حاصل ہو جاتی ہے پھر اسٹوڈنٹ ممبر کی حیثیت سے دوسرے کالجوں میں جانے کا موقع ملتا ہے اس طرح مباحثوں میں شرکت کی وجہ سے جماعت کا پیغام پھیلتا ہے۔‘‘

دوسری جانب جماعت جاگیرداری نظام سے سخت بے زاری کا اعلان کرچکی ہے تاہم عملی طور پر زمینوں کی اصلاحات میں تذبذت کا شکار رہی ہے۔

جماعت نے تعلیم یافتہ طبقوں میں خاصی کامیابی حاصل کی ہے اور یونیورسٹی کی سطح پر لوگوں کو متاثر کیا ہے۔صحافت میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے یہ ایک طرح کا مارکسیLong march کی طرز کا اسلامی اصلاحی پروگرام تھا جس نے اداروں میں پذیرائی حاصل کی۔لیکن عام لوگوں کی حد تک جماعت کی ناکامی کا تاثر ابھرتا ہے کیونکہ گزشتہ60 برسوں میں یہ محض اوسطاً 5فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل کر پائی ہے۔

حالانکہ اس کے رہنماؤں کا تعلق علماء گھرانوں سے ہے۔ لیکن جماعت نچلے درمیانی شہری طبقے کو ہی متاثر کرسکی ہے جن میں خاص طور پر تعلیم یافتہ عناصر شامل ہیں۔پاکستان کے مراعات یافتہ طبقات کی مخاصمت ،برادری ازم اور خاندانی سرپرستی کے فقدان کے علاوہ جماعت کا روشن خیال اور دانشورانہ طرز عمل دیہی عوام کیلئے بالکل نو وارد ہے بلکہ شہری مزدور اور عوامی طبقے بھی اس کے لئے نابلند ہیں کیونکہ وہاں بازاری اور رنگا رنگ ثقافت کا چرچا ہے انڈین فلمیں چلتی ہیں حشیش اور الکوحل کا استعمال بھی ہوتا ہے اور حیرت انگیز طور پر جنسی حوالے سے بھی آزاد خیالی پائی جاتی ہے (تاہم رشتہ دار خواتین اس میں شامل نہیں)۔

قدیم شہری درمیانی طبقہ دیہات سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں کی وجہ سے خاصے شکوک و شبہات کا شکار رہاجیسا کہ کچھ تجزیہ نگاروں کی یہ رائے ہے کہ پاکستان میں شہروں کی جانب تیزی سے ہجرت کی وجہ سے لوگوں میں دیو بندی مسلک کی جانب جھکاؤ بریلوی مکتب کی نسبت سے بڑھا ہے اس طرح جماعت اور دوسرے اسلامی گروہوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے حقائق سے پتا چلتا ہے کہ تبلیغی جماعت کے مبلغین کی سرگرمیوں نے محنت کش عوامی طبقات سے نچلے درمیانی طبقے تک کی سماجی سطح میں ہلچل پیدا کی ہے۔

جماعت کا سخت گیر رویہ مجھ پر اس وقت آشکار ہوا جب میں نے صنعتی شہر فیصل آباد میں مزدوروں کا مظاہرہ دیکھنے کی ٹھانی۔جماعت کے ضلعی رہنما جناب رائے محمد اکرم خان اس لمحے خاصے حیرت زدہ ہوئے کہ میں کارکنوں کی حمایت کا تصور لیے بیٹھا تھا۔انہوں نے مزدوروں کی جہالت کا نفرت سے تذکرہ کیا ان کی اسلام سے دوری اور مے خوری پر بھی طعن و تشنیع کی۔

ہمارے پیچھے جو عوام ہیں ہم ان پر بھروسہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ ہماری مدد نہیں کرتے وہ ہڑتالیں اور مظاہرے تو کرسکتے ہیں لیکن وہ غیر منظم،جاہل اور ہمارے نظریے سے بے بہرہ ہیں ہم ایسے کارکن چاہتے ہیں جو تعلیم اور اچھے مسلم کردار کی چھاننی سے گزر کر آئیں کیونکہ اگر ہم پی پی پی کی مانند ہر کسی کو اپنی جماعت کارکن بنالیں تو پھر یہ پارٹی ختم ہو جائے گی ۔جب تک ہمارا کردارصاف نہیں ہوجاتا ہمیں حکومت بنانے کی کوئی جلدی نہیں اور ایک روز ایسا آئے گا جب لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ موجودہ نظام سے چھٹکارے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

جماعت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قرآن اور شریعت کو اگر اس کی روح کے مطابق دیکھا جائے تو اس میں ہر سماجی، اقتصادی اورسیاسی مسائل کا حل موجود ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں سے اجتہاد کے معاملے پر جماعت میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن اور حدیث میں منطقی دلائل اور موجودہ زمانے کے مسائل کے مطابق روشنی حاصل کرتے ہیں( اس کی حدود بھی متعین ہیں) جماعت اسلامی شیعہ مسلک کے ساتھ بھی اجتہادی روابط کے تحت تبادلہ خیال کرتی ہے۔ جماعت کے لوگ اکثر ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب پر رطب السان نظر آتے ہیں اور اسے مولانا مودودی کے خیالات سے مماثل قرار دیا جاتاہے۔جماعت کا سب سے اہم مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ پاکستان میں شیعہ مخالف عسکری کارروائیوں کی سخت مخالف رہی ہے۔

ایران میں خمینی کی تحریک کے برعکس مودودی اور ان کی جماعت(پاکستانی حالات کے تناظر میں) ملک میں انقلاب کی بجائے بتدریج اسلامی تحریک کا احیاء چاہتی ہے۔ انہوں نے کئی انتخابات میں حصہ لیا اور صدر ضیاء الحق کی انتظامیہ کی مخالفت بھی کی(دوسری جانب حمایت بھی نظر آتی ہے)ایسا جمہوریت کی خاطر کیا گیا اور یہ اس حقیقت کا مظہر تھا جس میں مولانا مودودی نے جماعت میں جدید مغربی اجتماعیت کے کچھ رنگوں کی آمیزش کی تھی۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہی رکھتے تھے کہ جماعت کا انقلابی کردار کمیونسٹ روس کی بلشویک پارٹی کے نظریے کے مطابق’’Vangurd‘‘ انقلاب کا انتخاب ہے جو رفتہ رفتہ لوگوں کو انقلاب کی جانب رہنمائی کرتا ہے جماعت اور اس سے نیم وابستہ طلبا کی تنظیم’’اسلامی جمعیت طلباء‘‘ اپنے مخالفین کے خلاف متشدد کارروائیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کا جمہوری کے ساتھ رشتہ خاصا پیچیدہ رہا ہے یہ جمہوری طریقے سے نیم اجتماعیت کی جانب گامزن ہے اور پاکستان کی واحد پارٹی ہے جو داخلی طور پر پارٹی کے عہدے داروں کا باقاعدہ انتخابات کے ذریعے چناؤ کرتی ہے جبکہ دوسری پارٹیاں مطلق العنان افرادیا خاندانی عہدے داروں کا شاخسانہ ہیں، جماعت اسلامی اور ایم کیوایم ہی فعال تنظیمی ڈھانچہ رکھتی ہیں جس میں خواتین کے شعبے بھی شامل ہیں،بعض لوگ کہتے ہیں کہ جماعت کے اصل لیڈر منور حسن نہیں بلکہ ان کی بیگم(جماعت کی خواتین ونگ کی انچارج) ہی ہیں۔

اس تناظر میں جماعت ایرانی انقلاب کے قریب تر ہے اس کے رہنما خواتین کی تعلیم،ملازمت بشمول تمام حقوق اور زندگی کے مختلف شعبوں سے فائدہ اٹھانے کے حامی ہیں لیکن وہ خواتین کے مخصوص حقوق اور فرائص میں توازن بھی چاہتے ہیں۔میرے ساتھ گفتگو کے دوران جماعت کے اکثر رہنماؤں نے افغان طالبان کی جانب سے خواتین کے خلاف برتاؤ اور پاکستانی طالبان کا لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کرنے کے واقعات کی سختی سے مذمت کی۔

تاہم طالبان کی جانب سے پاکستانی مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ جماعت نے طالبان کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کی مسلسل مخالفت کی ہے۔دسمبر2009ء میں جماعت کی ویب سائٹ پر پارٹی کے امیر کے بیان میں جماعت کے موقف کی وضاحت کی گئی ہے

’’منور حسن اور لیاقت بلوچ نے پشاور پریس کلب پر خود کش بم حملے کی بھرپور مذمت کی اور اسے آزادی صحافت پر حملے سے تعبیر کیا،لیکن ساتھ ہی ساتھ وزیرستان میں کسی بھی قسم کے آپریشن کو خطرناک نتائج کا حامل قرار دیا جس میں قوم کی راہیں مسدود ہو جانے کا خطرہ ہے ۔ تمام اسلامی اور پاکستان سے محبت رکھنے والی قوتیں امریکہ کے خلاف متحد ہو جائیں۔‘‘

جماعت نے افواج کیلئے اپنی ہمدردی کا اظہار کیاہے۔پاکستانی ایجنسیوں نے القاعد ہ کے بہت سے لوگوں کو جماعت کے ارکان کے گھروں سے گرفتار کیا ہے جبکہ پارٹی کے رہنماؤں نے پارٹی کی پالیسی کے حوالے سے ان واقعات کی سختی سے تردید کی ہے۔ تاہم حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ جو مقبوضہ کشمیر میں عسکری کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں سے جماعت کے تعلقات کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

2007ٗٗء میں لال مسجد کے بحران کے دوران جماعت کا انتہا پسندانہ رویہ سامنے آیا۔جے یو آئی نے لال مسجد کے عسکریت پسندوں کے عمل کی مذمت کی اور ان سے اپیل کی کہ حکومت سے پرامن تصفیہ کریں ۔اس کے برعکس جماعت نے ان کی حمایت کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ وہ پاکستان میں پرامن انقلاب کیلئے کام کررہے ہیں۔مزید براں سوات میں پاکستانی طالبان کے رہنماؤں کی خاصی تعداد نے جماعت سے ہی شروعات کی تھی(پہلے تحریک نفاذ شریعت محمدیؐ) لیکن پھر اس سے اختلاف کی وجہ سے علیحدگی اختیار کرلی ۔جب میں نے جنوری2009ء میں منصورہ میں جماعت کے رہنماؤں سے ملاقات کی تو اس وقت ان کی مبہم صورتحال اور اختلافات کھل کر سامنے آئے سب سے پہلے میں نے نوجوانوں کے شعبے کے انچارج سید شاہد گیلانی سے گفتگو کی اس نے امریکی پالیسی پر افغانستان میں چڑھائی اور طالبان پرخوب نقطہ چینی کی۔

’’ہم طالبان کو اپنے لئے نمونہ قرار نہیں دیتے، افغان طالبان نے تمام دنیا کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے وہ کسی قسم کے سیاسی نظام پر یقین نہیں رکھتے صرف اپنی حکومت چاہتے ہیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ طالبان پاکستان میں حکومت سنبھال لیں گے؟نا ممکن۔۔! پاکستانی طالبان کا مطلب ہے لاقانونیت، کیا کوئی چند سو آدمیوں اور ہتھیاروں کے ساتھ شہروں پر قبضہ کرسکتا ہے چنانچہ ہمیں ان کے خلاف لڑنا چاہیے کیونکہ ہم نے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ریاست کے اندر کوئی ریاست نہیں پنپ سکتی ہم پاکستان کے ٹکڑے ہوتے نہیں دیکھ سکتے جہاں مختلف پارٹیوں کی حکومت ہو اس کا مطلب ہے ملک کی تباہی۔حکومت کی اتھارٹی ہر جگہ قائم ہونی چاہیے۔‘‘

اس وقت جماعت کے سیکرٹری جنرل سید منور حسن تھے انہوں نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے گیلانی کے انٹرویو کے بالکل برعکس اپنی رائے کا اظہار کیا۔ یہ میرے ساتھ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ عموماً خاموش اور حلیم طبع شخص نے اپنے مزاج میں برہمی کا عنصر شامل کرلیا کیونکہ میں نے جماعت کی دہشت گردی اور مزاحمتی انقلاب کی جانب پالیسیوں پر انہیں دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگا دیا تھا(بعد ازاں انہوں نے اپنے رویے پر معذرت بھی کی) میرے بار بار سوالات دہرانے پر کہ کیا جماعت اپنے ساتھی مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں اور جارحانہ انقلاب کے خلاف اعلانیہ مذمت کا اعلان کرتی ہے؟ انہوں نے کہا۔

’’دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار صرف امریکہ ہے۔امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔مجھے TTP سے کوئی خوف نہیں مجھے صرف امریکہ کاڈر ہے۔9/11 سے پہلے پاکستان میں کوئی دہشت گردی نہیں تھی جونہی امریکہ افغانسان کو خالی کرے گا ہمارا معاشرہ مسائل کے چنگل سے آزاد ہو جائے گا۔ ہمTTP کے حامی نہیں لیکن امریکہ کے خلاف ہیں۔‘‘

عسکریت پسند

جماعت کی جانب سے شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کے لئے متضاد رائے اس کے درمیان نہ صرف اختلافات کا پتہ دیتی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کی لیڈر شپ عسکریت پسند عناصر کے بیرونی دباؤ کی وجہ سے پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے اور نوجوانوں کی حمایت سے محروم ہورہی ہے۔ عبدالرشید غازی جوکہ پختون حلقوں سے باہر کا واحد اسلامی رہنما تھا جس نے اسلام آباد کے دارالخلافہ میں واقع لال مسجد میں مسلح عسکریت پسند داخل کئے وہ کبھی جماعت اسلامی میں شامل رہا تھااور ان سے محض اس لئے علیحدگی اختیار کی کہ اس کی نظر میں جماعت بزدلانہ کردار کو اپناتے ہوئے سیاسی افہام و تفہیم کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔اس کے ذاتی کردار میں جماعت کا پرتو جھلکتا تھا اور پختون طالبان سے خاصے مختلف رویے کا حامل تھا اس سے ملنے کے بعد ایک عجیب احساس پنپ رہا ہے کہ جماعت کے سرگرم ارکان کہیں تشدد کی جانب تو رجوع نہیں کررہے۔

اپریل2007ء میں میں نےCNN کے نمائندے Peter Bergen کے ساتھ مل کر غازی کا انٹرویو کیا ۔یہ واقعہ پاکستان آرمی کے لال مسجد پر ہلہ بولنے سے دو ماہ بیشتر کا ہے جس میں ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔غازی کی عمر43 سال تھی اور گول عینک پہنتا تھا، بے داغ شلوار قمیض زیب تن کرتا اور ملن سار طبیعت کا مالک تھا۔سر اگسٹین کی طرح وہ اپنے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مبلغ بننا چاہتا تھا۔اس نے قائداعظم یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ وہUNESCO میں بھی ایک عام عہدے پر کام کر چکا تھا یوں لگتا ہے کہ ان والد کے قتل کے بعد وہ انتہا پسندی کی جانب آیا لیکن عمومی خیال یہ ہے کہ9/11 کے بعد امریکہ کی طرف سے افغانستان اور عراق پر چڑھائی اسے اس سمت کھینچ لائی۔

حالانکہ غازی سویت یونین کے خلاف جہادی مجاہد رہا لیکن وہ کوئی سرگرم رکن نہیں تھا وہ اس قسم کا شخص تھا کہ انتہائی مجبوری کے عالم میں جنگ کیلئے تیار ہوتا۔پرانے کیمونسٹ بھی اسی طرح کے رویوں کے حامل تھے۔ایک پاکستانی صحافی جس نے فوجی کارروائی سے پہلے اس کا انٹرویو کیا تھا کا کہنا ہے کہ اس نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا کہ عمارت میں موجود عسکریت پسندوں کو امریکہ کے حوالے کیا جارہا ہے اور اس کیلئے یہ خاصا ذلت آمیز تھا۔اس کے بھائی نے عورت کے بھیس میں بھاگنے کی کوشش کی لیکن پکڑ لیا گیا۔غازی تو لڑائی کے دوران مارا گیا اور دو سال بعد اس کے بھائی کو سپریم کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا۔

پیٹر اور مجھے برآمدے کے متوازی دفتر میں بٹھا دیا گیا، عمارت میں مرد اور خواتین رضا کار گھوم رے تھے مگر ہمیں ان میں سے کسی کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ماحول خاصا دفاعی تھا حملے کے بعد یہ پتا چلا کہ وہاں نیچے سرنگیں اور کنکریٹ کے بینکر بھی بنائے گئے تھے آرمی نے ہتھیاروں کے انبار دکھائے جن پر قبضہ کیا گیا تھا ان میں مشین گنیں، راکٹ دھکیلنے والے گرینیڈ لانچرز،نشانے والی رائفلیں اور خود کش جیکٹس بھی شامل تھیں۔

غازی سے ہماری جس دفتر میں ملاقات ہوئی تھی وہ چھوٹا،ملگجا اور سیاہی مائل کریم رنگ کا تھا لمبے۔ میز پر کمپیوٹر کی سکرینیں سجی تھیں۔ ہمیں جو کرسیاں بیٹھنے کو دی گئیں آرام دہ نہیں تھیں۔عمارت کا ماحول تعیش سے خاصا دور تھا حالانکہ آج تک میں جتنے عسکریت پسند اور اسلام پسند لیڈروں سے ملا تھا وہ خاصے طمطراق سے رہتے تھے۔غازی کی لال مسجد کی تحریک اور اس کے خلاف آپریشن کو سمجھنے کیلئے اس کا پس منظر دیکھنے کی ضرورت ہے۔لال مسجد1960ء کی دہائی میں پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں افسر شاہی کے مرکز میں تعمیر کی گئی۔غازی کے والد مولانا محمد عبداللہ نے اس کی بنیاد رکھی ان دنوں چاروں طرف جنگل تھا اس نے ہمیں بتایا کہ یہ مسجد اسلام آباد سے عمر میں بڑی ہے۔1998ء میں مسجد کے صحن میں اس کے والد کو قتل کردیا گیا تھا۔

میں نے اور پیٹر نے غازی سے جو کچھ سنا و یسا ہی تھا جو ہم جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے سنتے آئے تھے ۔بعض دفعہ انڈیا مخالف جماعت لشکر طیبہ اور اس کے خیالات میں خاصی ہم آہنگی بھی پائی گئی امریکہ کے حوالے سے بھی عام پاکستانی معاشرے کے تمام طبقات کی طرح غازی کی رائے میں بھی یکسانیت تھی۔ اس کی گفتگو سے ایک ذہین اور غیر فرقہ پرست اسلامی عسکریت پسند کا اشارہ ملتا تھا۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے مذہبی انقلابی ایجنڈے پر عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا جس کاپر چار محض پاکستان کا ایک مختصر گروہ کرتا ہے لیکن اس کی بجائے شاید وہ امریکہ اور انڈیا کی دشمنی میں پاکستانیوں کی اکثریتی تعداد کی اسلامی اور قومی ایجنڈے کی چھتری تلے ہمدردی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتاتھا۔

جماعت اسلامی نے جے یو آئی کے برعکس ہمیشہ لال مسجد کی تحریک کی مذمت کرنے سے انکار کیا مسجد پر حملے کی وجہ سے پارٹی نے انتہا پسندانہ رویہ اپناتے ہوئے جنرل مشرف کی مخالفت کی ۔غازی کے خیالات میں بھی پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے حوالے سے مختلف اختلافات کا تذکرہ موجود تھا لیکن امریکہ،انڈیا اور اسرائیل کی مخالفت کے حوالے سے اس کا نقطہ نظر یکساں تھا۔اسی طرح جماعت کی پالیسی کی مانند غازی نے بھی عملی طور پر اپنے خاندان کی ان کاوشوں کا ذکر کیا جو وہ عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے کر چکے ہیں۔انہوں نے اس معاملے پر افغانستان کے طالبان سے بات چیت کا ذکر اس طرح کیا۔

’’میرے والد نے ملک میں خواتین کا پہلا مدرسہ قائم کیا اب10,000 طلباء میں6,000 سے زائد خواتین طالبات کی تعداد ہے،مردوں اور عورتوں کیلئے ایک جیسا نصاب ہے تاہم خواتین کے کورس کی مدت چار سے چھ سال تک محدود ہے جبکہ مرد طلباء آٹھ سال تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے اگر آپ نے ایک مرد کو تعلیم دی تو سمجھو کہ ایک شخص نے تعلیم حاصل کی لیکن اگر آپ ایک عورت کو تعلیم دلواتے ہیں تو سمجھو کہ تمام خاندان تعلیم یافتہ ہوگا۔اس طرح ہم افغانستان کے طالبان کی برعکس سوچ رکھتے ہیں۔طالبان کو حکومت کرنے کاکوئی حق نہیں کیونکہ ان کے پاس علم کا فقدان تھا تاہم اس کے ساتھ ساتھ ان میں اچھی باتیں بھی تھیں طالبان کے عہد میں آپ افغانستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک با حفاظت سفر کرسکتے تھے افغانستان میں طالبان جرائم کے خلاف اٹھے تھے اور پھر انہوں نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی شاید ہم بھی ایسا ہی چاہتے ہیں ہم ملک میں جرائم کے نظام کے رد عمل کے طور پر سامنے آئے ہیں ہم حکومت کرنا نہیں چاہتے لیکن اگر ہمیں کوئی اہمیت نہ دی گئی تو ہوسکتا ہے کہ ہم بھی ایک تحریک کی صورت اختیار کرلیں۔‘‘

غازی نےMMA میں شامل تمام جماعتوں ماسوائے جماعت اسلامی کو حدف تنقید بنایا۔ ’’وہ ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہو چکے ہیں جس طرح کہ ایم کیو ایم اور مشرف کے دیگر سیاسی اتحادی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔MMA بھی پاکستانی نظام کی پیداوار ہے وہ بھی حقیقی تبدیلی کے خواہاں نہیں‘‘ کچھ دنوں بعدMMA کی صوبہ سرحد کی کابینہ میں شاملJUI کے ایک وزیر آصف اقبال داؤد زئی نے مجھے پشاور میں بتا یا۔

’’ہم لال مسجد کی انتظامیہ کے بدعنوانی اور رشوت کا خاتمہ،جمہوریت کی بحالی، بے حیائی پر پابندی اور اسلامی بنیادوں پر مبنی اسلامی قوانین کا احیاء جیسے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم ان کی جمہوری قوت اور منفی قسم کے رویوں پر بھروسہ کیسے کریں۔ نئے قوانین متعارف کرنا پارلیمنٹ اور حکومت کا کام ہے اسلام کسی دوسرے پر اپنے خیالات کو ٹھونسے کا حکم نہیں دیتا اور پاکستان کا آئین پہلے ہی سے ہر شخص کے بنیادی حقوق کی فراہمی اور اسلام کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے۔بات انقلاب لانے کی نہیں بلکہ اس وقت پہلے سے موجود آئین کو بطریق احسن نافذ کرنے کی ہے۔‘‘

متشدد کارروائیوں کی حمایت کے حوالے سے سوال کا جواب دینے کیلئے جماعت اسلامی کے لیڈروں کی طرح غازی نے بھی سر کو آگے پیچھے ہلایا۔جماعت اسلامی یاJUI کی طرح کیا یہ بھی شک و شبہات کے زیر اثر تھا یا اندرونی تنازعات کا نتیجہ۔جان بوجھ کر ابہام ظاہر کیا جارہا تھا یاکوئی سوچی سمجھی خواہش تھی۔ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوئی تھی۔

’’ہمارا خیال ہے کہ افغانستان اور عراق میں خود کش حملے جائز ہیں کیونکہ وہ ظالموں کو مزید ظلم سے روکتے ہیں آخر امریکی سپاہی ہزاروں میل کا سفر کرکے معصوم لوگوں کا قتل عام کرنے آئے ہیں لیکن ان آپریشنز میں عام عوام کا جان بوجھ کر خون نہیں کرنا چاہئے۔پاکستان میں دہشت گرد حملوں کا کوئی جواز نہیں آپ کو اس فکر کو سمجھنا چاہئے ۔ جو لوگ ایسا کررہے ہیں وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں یا بدلہ لینے کیلئے ایسا کرتے ہیں یہ اسی طرح ہے کہ کسی کا نوجوان بھائی مار دیا جائے تو وہ غصے سے دیوانہ ہو جاتا ہے اور قانون کے تقاضے بھول جاتا ہے۔‘‘

اس نے امریکی عوام کو واضح پیغام دیا۔

’’امریکیوں کو اپنی حکومت کی پالیسیوں پر بار بار نظر ڈالنی چاہئے اگر آپ ہم سے گفت و شنید کرکے ہمیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے دل بھی جیت لیں گے لیکن اگر آپ ہم پر حملے کی نیت سے آئیں گے تو ہمارے دلوں میں آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی ۔آپ ہمیں فتح نہیں کرسکیں گے کیونکہ ہم ارادے کے پکے لوگ ہیں۔ آپ نے اس دہشت گردی کی جنگ میں کتنا سرمایہ ضائع کیا ہے، کھربوں ڈالر لگ چکے ہیں۔ اگر آپ نے یہی رقم افغانستان اور پاکستان کی ترقی میں مدد دینے کیلئے خرچ کی ہوتی تو ہم آپ سے محبت کرتے اور آپ پر کبھی ہاتھ نہ اٹھاتے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ صدر بش کا احمقانہ قدم ہے اس میں تمام امریکی عوام کا قصور نہیں۔‘‘

2007ء سے پاکستان میں سرگرم عمل بہت سے عسکریت پسند گروہوں میں سے صرف جدت پسند گروہ ہی غازی کے منظور نظر تھے اور یہ بات نہایت اہم ہے کہ جماعت اسلامی کی طرح وہ بھی شیعہ مخالف فرقہ واریت کو اس روز سے مسترد کر چکا تھا جب سے طالبان نے پٹھانوں ، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جو کہ مرکزی اور جنوبی پنجاب میں اثر ورسوخ رکھتے تھے کے درمیان رابطے استوار کیے تھے۔

ان گروہوں نے2009ء میں پختون علاقوں سے دہشت گردی کو پنجاب میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اعلیٰ درجے کی فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔شیعہ مخالف عسکریت پسندوں نے جیش محمد کے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر طالبان کی وساطت سے ریاست مخالف سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا لیکن عمومی طور پر یہ لوگ پارٹی سے وفادار رہے۔

افغان جنگ کے دوران اور بعد میں دینی مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مغربی مبصرین ،عسکریت پسندوں کی بھرتی کا جزو لاینفک سمجھتے رہے ہیں لیکن یہ کسی حد تک غلطی پر مبنی ہے۔ جانے پہچانے پاکستانی دہشت گردوں کی اکثریت نے سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی اور بعض لوگ تو اعلیٰ تعلیم بھی یافتہ تھے ۔جس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ غریب لوگوں کی نسبت نچلے شہری اور درمیانی طبقے نے دینی اثرات کو زیادہ قبول کیا ہے۔یہ بھی درست ہے کہ طالبان کی زیادہ تعداد مدارس سے تعلیم و تربیت لے کر آئی تھی لیکن یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ قبائلی علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

عام جنگجو طالبان کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے بالکل بے بہرہ ہے ۔ان کا بھرتی ہونا طالبان کی مخصوص تعلیم کا نتیجہ کم اور گاؤں کی عام فضا میں پایا جانے والا ماحول اس کا اصل باعث تھا۔مغرب کی مدارس کے کردار کے متعلق رائے کو کلی طور پر جھٹلایا نہیں جاسکتا لیکن ان پالیسی ساز تجزیہ نگاروں کو اکثر دھوکہ ہو جاتا ہے جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام پسند گروہوں اور ان کی حکمت عملی کو بالآخر ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے حالانکہ اس مظہر کی جڑیں معاشرے میں خاصی گہرائی میں پیوست ہیں اورپھر پھوٹ پڑتی ہیں۔

تلخیص و ترجمہ :انجینئر مالک اشتر