working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

فکرو نظر

شریعت کا قانونی تصور

ڈاکٹر خالد مسعود

شریعت کا عام فہم مفہوم تو یہ ہے کہ خداوند کریم کے وہ احکامات جو اس نے اپنے بندوں کے لیے بطور ضابطہ حیات جاری فرما دیے ہیں ۔مگر ان احکامات کی توجیہ اور تعمیل پر مسلم معاشروں میں کئی ایک مکاتب فکر کی پیروی رائج ہے ۔ یہ مکاتب فکر کیسے وجود میں آئے،کن ارتقائی مراحل سے گزرے اور آج کس صورتحال سے دوچار ہیں، ڈاکٹر خالد مسعود کا یہ مضمون اس پس منظر میں بنیادی معلومات پر مشتمل ہے جو ان کی کتاب Sharia Today سے لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود کا شمار عالم اسلام کے نامور محققین میں ہوتا ہے۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین رہ چکے ہیں اور آج کل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے ممبر ہیں ۔ڈاکٹر خالد مسعود کئی کتابوں کے مصنف ہیں جنھیں دنیا میں مستند حیثیت سمجھا جاتا ہے ۔(مدیر )

شریعت ایک عربی لفظ ہے جس کا لغوی مطلب ہے طریقہ۔ادبی لحاظ سے اس سے مراد ایسا راستہ ہے جو صحرا میں پانی کے تالاب کی جانب رہنمائی کرتا ہو۔مسلم معاشرہ بنیادی طور پر ایک مذہبی سماجی تنظیم ہے۔اسلام کے ابتدائی ادبی و علمی دور میں شریعت کی قرآنی اصطلاح(45:18)تواتر سے استعمال نہیں ہوئی تاہم انسانیت کی فلاح کے لیے تصور الٰہیہ اور اس کی جانب سفر کے مختلف راستے تسلسل سے اسلام کا مرکزی خیال رہے ہیں۔شریعت کی قانونی شکل اختیار کرنے میں ان مسلمان مفکروں کا عمل دخل رہا ہے جنہوں نے نیکی اور بدی کی ابدی کشمکش کو مختلف تصورات سے مذہب کے دائرے میں جانچنے کی کوشش کی۔

خدا پرستی اور مذہب کی تشریح کے لیے قرآن ایک بنیادی منبع ہے اور مفکرین اپنی فہم و فراست کے مطابق ان تعلیمات کو سمجھ کر تفسیر بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے تاریخ، لسانیات، فلسفہ، اخلاقیات، دین، صوفی ازم اور ادب عالیہ کو قرآن کے تناظر میں پڑھا اور انہیں بالترتیب ایام، کلام، اعراب، فلسفہ، اخلاق، علم الکلام،تصوف اور ادب کا نام دیا۔اس طرح دھیرے دھیرے فقہ الشریعہ بطور قانون اپنی ہیئت اختیار کرتی گئی۔قوانین کی مذکورہ تشکیل مختلف ادوار میں جاری رہی۔

تدوینی دور:

تاریخی حوالے سے اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں اسلامی قانون کی تشکیل عمل میں آئی۔اس عرصے کے دوران نیکی اور بدی کے علمی تصور کی مختلف استدلال اور حوالوں سے جانچ کی گئی، قرآن فہمی کے عمل کو بعض فقہا نے تفسیر اور تاویل کا نام بھی دیا اور اس مقصد کی خاطرکام کرنے والے مفکرین کو قراء(قاری کی جمع) کا نام بھی دیا گیا۔انہوں نے روز مرہ کے مسائل کا قرآنی آیات کی روشنی میں حل تلاش کرنے کی کوشش کی ان میں سے کچھ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ قرآن حکیم میں ہر سوال کا جواب موجود ہے۔

مفسرین نے اسلام سے پہلے کی عرب شاعری،روایات اور اس کی تاریخ کو قرآن فہمی کے لیے ابتدائی مآخذ قرار دیا ہے ،انہوں نے کئی آیات کے حوالے بھی دیے جو ایسے ہی تناظر اور سیاق و سباق میں نازل ہوئیں۔ انہوں نے کئی کہانیوں کا تذکرہ کیا، متشابہات اور مجمل آیات پر بحث کی،تفاسیر میں عیسائی اور یہودی کتب سے بھی استفادہ کیا۔

قرآن مجید میں یہ بات صراحت سے بیان کی گئی ہے کہ خدا اپنی مخلوق پر کتنا مہربان ہے۔ اسی لیے اس ذات نے کچھ قوانین وضع کیے ہیں جو ایک نظام کے ماتحت پورے کائناتی عمل کو محیط ہیں اور یہ ایک سنت کے تحت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی(35:43)۔

خدا اپنے پیغمبروں کے ذریعے مخلوق کی ہدایت کے لیے قوانین وضع کرتا ہے۔خدا کی کبریائی کی طرح اس کا بنیادی پیغام(دین) بھی سب کے لیے ایک جیسا تھا لیکن مختلف امتوں میں وقت کے ساتھ بدلتے حالات میں تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی(5:48)۔ چونکہ شریعت ایک قابل عمل قانون کا درجہ رکھتی تھی چنانچہ اس میں تبدیلی وقت کا اہم تقاضا بھی تھا۔فطرت کے قوانین اللہ کی کبریائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔چنانچہ ان میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں اور انسان کو ان کا احترام کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری جانب شریعت ہے جو کہ معروضی تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے۔مذہب میں رضا و رغبت سے وحی کے ذریعے آنے والے قوانین کی تابعداری اور عقلی استدلال کی بنیاد پر ذ اتی خواہشوں کی پروا نہ کرتے ہوئے خود سپردگی ہی اسلام کا چلن ہے۔کیونکہ ’’اسلام‘‘کا لفظ رضا کارانہ طور پر سپرد کردینے اور امن کے معانی میں آتا ہے۔ صوفیائے کرام میں بھی اسلامی قانون کا یہی پہلو نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے اور وہ اپناسب کچھ خدا کے سپرد کردینے پر زور صرف کرتے ہیں۔

صوفی دین اور شریعت کو سمجھنے کے لیے آئمہ کی تاویل سے اختلاف رکھتا ہے۔ اس کی رائے میں قانونی فہم و فراست کا ارتکاز بیرونی طور پر ہوتا ہے اور اسلام کو رسمی معنی تک محدود کردیتا ہے جبکہ اسلام کے مخفی معنی قطعاً مختلف ہیں۔صوفیہ کے نزدیک صوفی’’طریقہ‘‘انتہائی بلند سوچ کاحامل ہے اور وہ شریعت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔

اسلام میں مذہب کی فلسفیانہ تشریح صوفیا کے حصے میں آئی کیونکہ فلاسفر ہمیشہ ہی وحی کے پوشیدہ اور مخفی معنی پر ہی نگاہ مرکوز کرتے ہیں۔حالانکہ بہت سے فلاسفر یونانی فلسفے سے متاثر تھے تاہم ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے شریعت کے فلسفے کو بھی اسی تناظر میں اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اس گروہ میں’’اخوان الصفا‘‘ کا نام بھی شامل ہے انہوں نے مذہبی فلسفے کو سمجھنے کے لیے ایک مکمل نظام پیش کیا۔کچھ لوگوں کی تحقیق کے مطابق اسماعیلیہ فرقہ اسی گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مکتب کا دیگر مسلمانوں کی شریعت کے نقطہ نظر سے سوچ اور فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

الٰہیاتی سوچ عقائد کے نظام کو وضع کرتی ہے اور اس سے مسالک وجود میں آئے ہیں اور اسی بنیاد پر انسان کے اعمال نے عملی شکل اختیار کی۔تاریخی حوالے سے یہ سوچ اس وقت پروان چڑھی جب عباسی حکمرانوں نے بنو امیہ کے خلاف ایک نئی سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔اس دور کا علمی ورثہ اور مباحث کا موضوع اس وقت کی سیاسی صورتحال کا مظہر ہے۔مثلاً بعض اوقات یہ سوالات زیر گردش تھے کہ کیا خدا انسان کی تقدیر ازل سے لکھ دیتا ہے یا انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ اس بحث سے مرادیہ تھی کہ کیا مسلمانوں کو بنو امیہ کی حکومت کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے یا عباسیوں کی تحریک پر قسمت بدلنے کے لیے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کاعلم بلند کرنا چاہیے۔ان حالات نے کئی اور سوالات کو بھی جنم دیا جیسے اچھائی اور برائی کو فہم و فراست کے اصولوں پر پرکھنا چاہیے یا صرف کتب میں مرقوم علم کو ہی کافی جان لینا چاہیے۔

کئی دوسرے مسلمان فلاسفہ کی طرح علما ئے دین کے المعتزلہ نامی گروہ کا یہ کہنا تھا کہ انسانی سوچ اچھائی اور برائی، نیکی اور بدی کا ادراک رکھتی ہے۔ علمائے دین کا دوسرا گروہ جو کہ اشاعرہ کہلاتا ہے، انسانی علم کو پیمانہ قرار نہیں دیتا بلکہ وحی کو ہی علم کا مآخذ و مبدا قرار دیتا ہے۔مذہب اور قانون کو سمجھنے کا یہ رویہ رفتہ رفتہ قدامت پرستی کا نمونہ بنتا ہے۔

دین کی اسی سوچ نے آئمہ کی تقلید جیسے سوالات کو جنم دیا جس سے لوگ شیعہ اور سنی کی تقسیم میں بٹ گئے۔شیعہ کے نقطہ نظر کے مطابق امام وقت فقہ کے تمام اصولوں سے آگاہی رکھنے کی وجہ سے حضرت محمدؐ کے جانشین ہیں،دوسری جانب سنی تاریخی طور پر خلافت پر فائز ہونے والے چار خلفاء کی پیروی کرتے ہیں۔شیعہ اثنا عشریہ بارہ آئمہ کی تقلید کرتے ہیں، دوسری جانب اسماعیلیہ مکتب حضورؐکے بعد سات آئمہ پر یقین رکھتے ہیں۔

ان مباحث نے فقہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور عقیدہ توحید اصول فقہ کا بنیادی جزو رہا۔اس دور کی کتب میں مسالک پر بھی مواد شامل کیا گیا۔کہیں14ویں صدی کے آخر میں آکر چند مفسرین نے دین اور قانونی معاملات کو علیحدہ رکھنے کی بحث کی لیکن عمومی طور پر یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہے۔

مسلم کتب میں مذہبی عقیدے اور خدا ترسی کی تفسیر کے لیے محض اصطلاحات میں پڑنے کی بجائے قانون کو دین سے زیادہ قریب گردانا گیا چونکہ اس تخیل نے انفرادی طور پرنیک انسان کی تشخیص کی۔ اس طرح انسانی معاشرے میں ایک مثالی اسلامی نظام کا تصور ابھرا جس سے قانون کومذہب کی حیثیت میں ڈھلنے کے لیے مرکزی اہمیت حاصل ہوتی گئی۔شروع میں علماء نے اسے فقہ الشریعہ کا نام دیا لیکن بعد میں مسلسل مستعمل رہنے کی وجہ سے صرف شریعت ہی کہا جانے لگا۔

تشکیلی عہد میں محدث نے فقہ کی ساخت کو صرف ثالثی رائے سے تشبیہ دی انہوں نے حضور حضرت محمدؐ کی سنت پر عمل کرنے پر زور دیا اور انؐ کی تقلید کو نمونہ قرار دیا(القران33:21) اور احادیث کو سنت کے طریقے کی وضاحت کے لیے پیش کیا گیا۔بعض لوگوں نے قیاس اور رائے کے مطابق اپنی اپنی توضیح بیان کی۔حدیث لغوی طور پر ’’بیان‘‘ اور’’نیا‘‘ کے معنی میں آتی ہے۔

دراصل پیغمبرؐ خدا کی گفتگو کا مجموعہ،عمل یا انؐ کا کسی کام کو پسند فرمانے کو حدیث کہا جاتا ہے۔

اسلامی قانون کی تاریخ:

اسلامی قانونی کی تاریخ کا آغاز نزول قرآن کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا جو کہ محض قانون کا ضابطہ ہی نہیں بلکہ اس میں دیگر کئی قانونی اصول اور فرامین شامل ہیں جو عبادت، جنگ، امن، ازدواجی مسائل، طلاق، وراثت، کاروبار، تجارت اور تعزیری قوانین وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔

قرآن مجید بتدریج23 سال کے عرصے میں نازل ہوا ۔قرآن مجید کے بنیادی احکام،عربوں کی رسومات اور اعمال کو زیر بحث لاتے ہیں قرآن حکیم نے ان میں سے کئی امور کو جاری رکھا اور جو امور اسلام کے مقاصد سے ٹکراتے تھے ان میں نئی اصلاحات متعارف کیں اور اس عمل میں قانونی اصلاحات کو مدنظر رکھتے ہوئے تین اصولوں کا خیال رکھا۔(1) سختی کی ممانعت،(2) محدود پابندی اور احساس ذمہ داری،(3) قوانین کا بتدریج تعارف۔

قرآن مجید میں عرب معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا خاص طور پر تذکرہ موجود ہے جس میں یتامیٰ، خواتین اور غلام قابل ذکر ہیں اور اس سلسلے میں دو بنیادی اصلاحات بھی متعارف کرائی گئیں۔سب سے پہلے ما قبل از اسلام کا وراثتی قانون جو کہ پدر نسلی پر قائم تھا کو تبدیل کیا۔قرآن مجید نے وراثت میں رشتہ داروں کے حصے کا تناسب قائم کیا اور اس میں خواتین کا حق بھی شامل کیا۔ثانیاً قرآن حکیم کے اصلاحی منصوبے میں خواتین اور غلاموں کو عزت کا مقام دیا گیا اور انہیں معاشرے میں قانونی تحفظ دینے کے لیے ان کے لیے معاہدے اور جائیداد کی خرید و فروخت کا حق تسلیم کیا۔غلام اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی کمائی ہوئی رقم سے معاہدہ کرنے کے مجاز تھے۔جہاں تک خواتین کا حق ہے ان کے لیے وراثت،شادی بیاہ اور طلاق کا حق،جائیداد کی خرید و فروخت اور ان کی گواہی کے حق کو تسلیم کیا۔

میزانیہ نمبر(1)
اسلامی قوانین اور ماقبل از اسلام کے رسوم(2)

اسلام سے پہلے کے رسم و رواج

اسلامی قوانین

عورت کے وجود کو باعث ذلت(عار) سمجھا جاتا تھا اور بعض عرب قبائل میں لڑکی پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دی جاتی تھی

اسلام نے اس کی مذمت کی اور اس عمل کو ممنوع قرار دیا

خواتین کا جائیداد میں کوئی حصہ شامل نہیں تھا

اسلام نے وراثت میں خواتین رشتہ داروں کا باقاعدہ حصہ شامل کیا

لڑکی کا سرپرست اس کی مرضی معلوم کیے بغیر شادی کرانے کا مجاز تھا

اسلام نے لڑکی کی رضا مندی کو ضروری قرار دیا۔لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کی شادی کرنے کی ممانعت کی گئی

مہر کی رسم موجود تھی

اسے جاری رکھا گیا

دعوت ولیمہ کی رسم موجود تھی

اسے جاری رکھا گیا

محرم کی ایک فہرست موجود تھی جن سے شادی ممنوع تھی

عمومی طور پر تو یہی تھا تاہم متبنیٰ کے بیٹے کی بیوی سے شادی کی اجازت دے دی گئی

شیغر یعنی شادی کا تبادلہ کیا جاسکتا تھا

اسلام میں ممنوع ہے

شادی کیلئے زئنا کی رسم یعنی خاوند کو قتل کرکے اس کی بیوہ کو قیدی بنا کر شادی رچا لینا

اسلام نے سختی سے ممانعت کی

مقت کی رسم۔بیوہ کی مرضی کے بغیر اس سے شادی کرلینا خاص طور پر یہ ایک رواج تھا کہ بڑا بیٹا اپنے مرحوم باپ کی بیوہ سے شادی کرلیتا تاہم شرط یہ تھی کہ وہ اس کی یا دوسرے عزیز کی حقیقی ماں نہ ہو

القرآن(4:18,22) نے ممنوع قرار دیا ہے

بیک وقت دو سگی بہنوں کو نکاح میں رکھا جاسکتا تھا

اسلام نے سختی سے ممانعت کی

الاستبدا کی رسم،اس میں خاوند اپنی بیوی کو اس لیے دوسرے شخص کے قریب بھیجتا تھاتاکہ اعلیٰ حسب نسب کی اولاد پیدا ہو

اسلام نے ممنوع قرار دیا

زنا کا نکاح کی رسم میں،کسی ایسی فاحشہ یا طوائف سے شادی مقصود ہوتی جن کے گھروں پر مردوں کو دعوت عام دینے کیلئے جھنڈا نصب ہوتا تھا

اسلام نے ممنوع قرار دیا

المتع کی شادی میں بیوی کو جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملتا تھا

صرف فقہ جعفریہ میں جائز ہے لیکن اس کیلئے شرائط عائد ہیں

نکاح الخدن کی رسم میں خفیہ شادی کر لی جاتی تھی جس میں گواہوں اور دیگر رسومات کی کوئی ضرورت نہیں تھی

اسلام نے منع کیا

نکاح البدل میں ایک دوسرے کی بیوی کو تبدیل کیا جاسکتا تھا

اسلام میں قطعاً ممنوع ہے

تعداد الزواج میں بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی اس رسم کے تحت جتنی شادیاں چاہے کی جاسکتی تھیں

اسلام نے چار کی حد مقرر کی اور اس شرط پر کہ ان کے درمیان مساوی انصاف ہو ورنہ ایک ہی کافی ہے

طلا ق کا حق صرف مرد کو ودیعت تھا اور اس کے پاس لامحدود اختیار تھے بلکہ اگر وہ چاہتا تو مطلقہ کو عدت گزارنے کے بعد بھی کسی دوسرے شخص سے شادی کی اجازت نہ دیتا

اسلام میں مخصوص طریقے کے تحت دونوں میاں بیوی کو پابند کیا گیا ہے اور عدت کے بعد مطلقہ شادی کرنے میں بالکل آزاد ہوتی ہے

خلع میں عورت کا حق تھا کہ طلاق کے مطالبے کے ساتھ جہیز اور تحائف کی واپسی کی شرط عائد کرے

خلع کی اجازت ہے۔خاوند کو جہیز واپس لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی تاہم اگر یہ اس کی ضرورت ہو یا بیوی اپنی رضا مندی سے دینا چاہے تو کوئی مضائقہ نہیں

ایلاء ایک ایسی طلاق تھی جس میں بیوی کے ساتھ2سال کی مدت تک تعلقات منقطع کرلیے جاتے تھے

چار مہینے تک کی مدت کا تعین کیا گیا ہے

ظھرٰ ایک طلاق تھی جس میں بیوی کو محرم یا ماں کہہ کر تعلق ختم کرلیا جاتا تھا

اسلام میں اس قسم کی طلاق کا تصور نہیں تاہم وضاحتیں موجود ہیں

عورت کی شہادت(گواہی) قابل قبول نہیں تھی

عورت کو شہادت کا حق دیا،تجارتی لین دین میں کم از کم دو گواہوں کی موجودگی تسلیم کی گئی

ریاست اور اسلامی قانون:

حضرت محمدؐ(580-632)نہ صرف مدینہ کی ریاست کے امیر تھے بلکہ وہؐ ثالث اور منصف کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے جوں جوں اسلام کا پیغام پھیلتا گیا انہوںؐ نے دوسرے علاقوں میں بھی منصف(جج) تعینات کیے۔قبائلی نظام میں منصفیں کو تفویض کردہ اختیارات حاصل ہیں ۔دونوں متحارب گروہوں میں ایک شخص کو ثالث مقرر کرنا ہوتا تھا جبکہ اسلام میں منصف کا تصور مختلف ہے۔جج صاحبان کو حکمران کی جانب سے اختیارات تفویضکیے جاتے تھے اور وہ اسی دائرے میں رہ کر کام کرتے تھے۔

اموی خلفاء(660-750) اور منصفین کے مابین ہونے والے تنازعات نے حکمرانوں پر شریعت کی بالادستی کا تصور اجاگر کیا۔عباسی دور(750-1258) میں بھی خلفاء نے قانون سازی اور تشریح و تعبیر پر مبنی اپنے تئیں کوششیں اور تجاویز پیش کیں لیکن علماء نے ان کی مخالفت کی بلکہ انہوں نے قوانین کو اکٹھا کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی مکاتب فکر اپنے متوازی نظریات کے ساتھ وجود میں آگئے۔مذہبی قانون جو کہ پہلے خلیفۃ الوقت کے ہاں موجود تھا رفتہ رفتہ مختلف مکاتب فکر کے قوانین کے ساتھ ارتقا پذیر ہوتا گیا جس نے بعد ازاں مختلف فقہ کا روپ دھار لیا۔

میزانیہ نمبر(2)
اسلامی قوانین کی ارتقائی تشکیل(3)

دور

قوانین

دور رسالت

تمام اخلاقی تعلیمات،عبادت و نماز کے قواعد اور روزہ،زکوٰۃ ، حج،عہد و پیمان،مباحات اور ممنوعات وغیرہ

ساتویں صدی
(612-632)

خوراک،جہاد،عائلی قوانین،شادی بیاہ،طلاق،محرمات، فلاح و بہبود، عدت، بچوں کی نگہداشت، خلع،ایلاء،ظھٰر، وصیت،وراثت،لین دین اور تعزیری قوانین

قرون اولیٰ کے خلفا
(ساتویں صدی632-661)

زکوٰۃ کی تقسیم کے درجے،مولفات القلوب میں ترمیم،طلاق بائن ناقابل رجوع،دادا کی موجودگی میں بھائیوں کا میراث پر حق،رسالت مآبؐ کے صحابہ کرام کا اسلام کی خدمات کے مطابق وظیفہ پر حق(برخلاف منصفانہ تقسیم)

اموی دور(ساتویں سے آٹھویں صدی661-750)

مفسرین میں رائے کا اختلاف،احادیث کا احیاء، قاضی کے ادارے کی تشکیل، اندھے قتل میں گواہی کی بنیاد پر فیصلے ، مطلق العنان موروثی ریاست کی قانونی حیثیت

عباسی عہد(750-1055)

حدیث اور فقہ کے قواعد اور ضابطے،اسلامی قوانین اور ان کے مآخذ پر بحث،چار مآخذ کی پہچان،منطقی اور سائنسی اصولوں کے طریقوں کا احیاء،قوانین کی اقسام اور تکنیکی اصطلاحات میں ترقی،قانون کی تعلیم کا پھیلاؤ،فقہ کی کتب کی تدوین اور اشاعت

عباسی عہد (1055-1258)

تقلید(یعنی کسی مکتبہ فکر سے وابستگی) کے عقائد کا پھیلاؤ،مختلف مکاتب فکر کے درمیان مباحثے اور تنازعات، مکاتب فکر کی قانون کی تحریروں کی حدود

13ویں سے18 ویں صدی

تقلید کا عمومی احیاء اور پھیلاؤ،خال خال قانونی سرگرمیاں،فتویٰ کا حصول

19ویں سے20ویں صدی

ریاستی قانون سازی،اجتہاد کا فروغ،قانونی اصلاحات، قوانین کی تشکیل،قانون سازی

قاضی اور عدالتیں:

عمومی طور پرقاضی حضرات کے اختیارات کو ان کی نامزدگی کی دستاویز پر تحریر کر دیا جاتا تھا لیکن مختلف مکاتب فکر کی قانونی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے قاضی صاحبان کو تاکید کی جاتی تھی کہ وہ مذکورہ مکاتب کے قانونی تقاضوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ مزید برآں مذکورہ امام کی فقہ کی روشنی میں اس کے پیروکاروں کا فیصلہ سنایا جائے۔فروعی معاملات میں جج صاحبان متعلقہ مکتب کی کتب کی روشنی میں فیصلہ کرتے۔ جج صاحبان کی دوسرے منصفین کی رائے سے استفادہ کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی۔

جج صاحبان خلفاء اور گورنروں کی جانب سے قائم شدہ اداروں یا مدرسوں سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ بعد ازاں غیر سرکاری وقف شدہ اسکول بھی اداروں کی دوڑ میں شریک ہوگئے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ منصفین سے اپنے پیشے کی باقاعدہ تربیت حاصل کرتے اس سلسلے میں’’ادب القاضی‘‘ کے نام سے مخصوص کتب موجود تھیں جس میں عدالتی کارروائی کی تفصیل،ضابطے اور منصف کے اخلاقی اوصاف درج ہوتے۔

ہسپانیہ اور شمالی افریقہ میں عدالتی دستاویزات، دستور العمل اور معاملات کے طریقہ کار کے علاوہ مقامی عدالتی کارروائیوں کی دستاویزات جو کہ أمل اور رسالے کہلاتے تھے موجود تھیں جن میں مقامی عدالتی کارروائی کی تفصیل درج ہوتی،جج صاحبان کو ان ضابطوں کی پاسداری کا پابند بنایا جاتا تھا چاہے مخالفت میں کتنے ہی عالم جو کہ مشاہیر المذہب کہلاتے تھے کیوں نہ حائل ہوں۔ منصفین کے معاون عالم اندلس میں مشاور کے نام سے جانے جاتے تھے۔انصاف کے حصول کی خاطر قاضی عدالتوں کے علاوہ بھی سرکاری عدالتیں موجود تھیں جن میں سے مندرجہ ذیل دو عدالتیں قابل ذکر ہیں۔

’’حسب‘‘ کے پاس عارضی عدالت کے اختیارات تھے اور اس کا سب سے اہم عہدیدار محتسب کہلاتا تھا جو کہ شہر میں قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے علاوہ اخلاقی سرگرمیوں پر نظر رکھتا تھا۔وہ بازار میں ناپ تول،قیمتیں اور مزید برآں مال کی خرید و فروخت کو باقاعدہ بناتا اور اس بات کا خاص خیال رکھتا تھا کہ اسلام کے مذہبی اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کیا جارہا ہے یا نہیں۔قاضی کی طرح اس ادارے کا قیام بھی کافی عرصے سے وجود میں آچکا تھا۔دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے عہد(634-644) میں شفا بنت عبداللہ کا بطور محتسب تقرر اس بات کا غماز ہے کہ اسلام میں خواتین بھی اس عہدے کے لیے موزوں خیال کی جاتی تھیں حالانکہ یہ عہدہ خاصی اہمیت کا حامل تھا اس ادارے نے مختلف شکلوں میں مسلم معاشرے میں سفر جاری رکھا۔پاکستان میں سرکاری عہدیداروں اور دفاتر کے خلاف شکایت درج کرانے کیلئے1980ء میں محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا اور بجا طور پر اس کا تقابل قرون وسطیٰ کے اسلامی دور میں موجودہ نظارفی المظالم کے ادارے سے کیا جاسکتا ہے۔

نظارفی مظالم:

عباسی خلفاء کے دور میں ان مخصوص عدالتوں کا قیام عمل میں آیا اور انہیں صوابدیدی اختیارات بھی تفویض کیے گئے۔ ابتدا میں خلفاء خود مسند صدارت پر بیٹھتے لیکن بعد ازاں اس عہدے کے لیے جج صاحبان کا چناؤ عمل میں آیا۔ان عدالتوں نے ٹھیٹ فقہی اصولوں کی بجائے سیاسی یعنی انتظامی قوانین پر بھی عمل کو ممکن بنایا۔

قانونی مکاتب:

تشکیلی عہد میں عدالتوں اور سرکاری و قانونی اداروں کے ساتھ ساتھ مقامی روایتی قوانین بھی پھلنے پھولنے لگے۔یہ روایتی اور مقامی اصول ابتدائی اسلامی دور میں کئی بڑے شہروں میں دیکھنے میں آئے۔ اس زمانے میں مذہبی معاملات میں خصوصاً سنت کے حوالے سے اہل بیت رسولؐ اور صحابہ کرامؓ سے رجوع کیا جاتا تھا۔یہی مقامی روایات بتدریج قانون کے مکاتب کی صورت میں پروان چڑھیں۔ اس طرح اسلامی قانون سازی میں غیر معمولی طور پر علم و ادب کا خزانہ سمٹ آیا۔

پہلی اسلامی صدی کے آخر میں ان کبار شخصیتوںؓ میں سے کچھ لوگ ہجرت کرکے بصرہ، مکہ، کوفہ(عراق)، دمشق(شام) اور مصر اور یمن کے شہروں میں آباد ہوگئے اس طرح اس تشکیلی عہد میں 19 سے زائد اسلام کے مکاتب فکر وجود میں آئے جس میں سے مندرجہ ذیل اب تک موجود ہیں۔

امامیہ:

یہ شیعہ مکتب فکر ہے جو جعفریہ یا اثنا عشریہ بھی کہلاتا ہے اس فقہ کی تدوین امام جعفر صادقؓ (وفات765:) نے کی۔یہ مکتب ان احادیث کومقدم سمجھتاہے جو اہل بیت رسولؐ سے مروی ہوں۔ اس رجحان نے شیعہ میں اخباری مکتب کو جنم دیا جو صرف رسول خدا اور ان کے اہل بیت سے منسوب ارشادات کو ہی صحیح مانتا تھا۔ یہ لوگ ایسے اصول کی پیروی کرتے جو حضورؐ اور ان کے اہل بیت کے فرامین کی تجزیاتی تفسیرپر پورا اترتا تھا۔شیعہ مکتب بارہ آئمہ کی تقلید کرتا ہے اور امام کے نائب یا نمائندوں کے ذریعے جہاد کو جائز قرار دیتا ہے یہ مکتب ایران،عراق،شام،لبنان،انڈیا،پاکستان،بحرین،کویت اور افریقہ میں پایا جاتا ہے۔

اسماعیلیہ:

یہ مکتب امام اسمعیل بن جعفر الصادقؓ کا پیروکار ہے۔مصر کی فاطمی خلافت(909-1171) سرکاری طور پر اسماعیلی مکتب کو تسلیم کرتی تھی ان کی ایک شاخ آغا خانی کہلاتی ہے۔ان کے امام کو یہ خطاب1817 میں شہنشاہ ایران نے دیا تھا۔ اس مکتب کے پیروکار ایران،انڈیا،پاکستان،زنجبار اور مشرقی افریقہ کے ملک تنزانیہ میں موجود ہیں۔

حنفی:

اس مکتب کی بنیاد امام ابو حنیفہؓ بن ثابت(وفات767:) نے رکھی جو کہ عراق(کوفہ) کی قانونی روایت کا حصہ تھے۔عموماً اسے عقلیت پسندی کے مکتب سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور اس اسکول کی خصوصیت میں استحسان کے اصول کا حوالہ ہے۔ امام کے ہونہار شاگردوں میں ابو یوسفؓ (وفات798:) اور محمد الحسن الشیبانیؓ (وفات805:) کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ مذکورہ علماء نے اس مکتب کے علمی قواعد وضع کیے۔ یہ مکتب دنیا کے طول و عرض میں پھیلا۔سب سے پہلے اسے عباسیوں نے اپنایا۔خلافت عثمانیہ نے بھی اسے سرکاری فقہ کی حیثیت دی۔فقہ حنفی کے پیروکار انڈیا،پاکستان، بنگلادیش(جنوبی ایشیا کے ممالک) اور وسطی ایشیا میں چین اور مشرقی یورپ،بشمول ترکی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

مالکی:

مالکی اسکول کی بنیاد امام مالک بن انسؓ(وفات795:) نے رکھی جو کہ مدینہ کی علمی روایات کے امین تھے ۔مدینہ کے رہنے والوں نے اس مکتب کی تقلید کی۔ یہ اسکول’’مصلحہ‘‘ اور’’سد الذرائع‘‘ کے اصولوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔اس مکتب کے پیروکار مصر،تیونس،الجزائر،مراکش،نائیجیریا،سوڈان اور مغربی افریقہ کے علاوہ خلیجی ریاستوں میں موجود ہیں۔

شافعی:

یہ مکتب امام محمد بن ادریس الشافعیؓ(وفات820:) کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے فقہ کی تعلیم مالکؓ کی ہمراہی میں امام ابو حنیفہؓ سے حاصل کی۔یہ حدیث کے بہت بڑے عالم تھے۔انہوں نے اصول الفقہ کو سائنسی بنیادوں پر ترقی دی۔یہ علم سنت کے دائرے میں رہ کر قانونی جواز کو متوازن بناتا ہے اس مکتب کے ماننے والے مصر،عراق،شام اور مشرقی افریقہ کے علاوہ انڈیا کی مشرقی ساحلی پٹی، انڈونیشیا، ملائیشیا اور جنوب مشرق ایشیا کے کچھ حصوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔

حنبلی:

احمد بن حنبلؓ(وفات855:) نے اس مکتب کی بنیاد رکھی وہ حدیث کے عالم تھے اور شواہد کی روشنی میں فقہ کی پرداخت کی۔ اس اسکول کے پیروکار نہایت قلیل ہیں اور زیادہ تر عرب اور خلیج کی ریاستوں میں آباد ہیں۔

مندرجہ بالا کے علاوہ د اؤد بن خلفؓ(وفات883:) کے پیروکار ظاہری کہلاتے ہیں۔’’زیدی‘‘ حضرت زید بن علیؓ(وفات700:) کو اپنا امام سمجھتے ہیں جبکہ الاباضیہ خارجیوں کی ایک شاخ ہے۔ یہ لوگ الجزائر،لیبیا اور تنزانیہ میں آباد ہیں جبکہ زیدی یمن، ایران اور وسطی ایشیاء میں پائے جاتے ہیں (الاباضیۃ، عبداللہ بن اباض کے پیروکار ہیں)۔

میزانیہ نمبر3

حوالہ جات کے لئے اہم کتب

حنفی: مارغنائی(وفات1196:) ہدایہ،شیخ ناظم(17ویں صدی)

فتویٰ عالمگیریہ، اور ابن عابدین (وفات1836:)،رد المختار

حنبلی: البہوتی(وفات1641:)،شرح المنتہیٰ

ابن قدامہ(وفات1223:)،المغنی

الاباضیۃ: بسیونی(وفات11:ویں صدی)،مختصر،اطفش(وفات1914:)،شرح النیل

اسماعیلی: قاضی نعمان(وفات974:)،دائم السلام

جعفریہ: محقق ہلی(وفات1277:)شرح السلام

مالکی: ابن ابی زید القیر وانی(وفات966:)،الرسالہ

خلیل ابن اسحاق(وفات1365:)،المختصر،ابن عاصم(وفات1427:) تحفۃ الحکام

شافعی: شیرازی(وفات1083:) التنبیہ،النووی(وفات1277:)

منہاج الطابین،الرملی(1596)،نھایۃ المحتاج

ظاہری: ابن حزم(وفات1065:)،المحلیٰ

زیدی: السیاغی(وفات1806:)،الروض النضیر

مختلف مکاتب فکر کے وجود میں آنے سے تقلید کے فلسفے نے سر اٹھایا۔ اس طرح اجتہاد کی سرگرمیاں اور ان کی حدود کا تعین کیا گیا۔مسلمان حکمرانوں نے بھی تقلید کی حکمت عملی کی حوصلہ افزائی کی اور انہوں نے مخصوص مکتبہ فکر کے قاضیوں اور منصفین کی پشت پناہی کی کیونکہ وہ ان کی حکومتی مصلحتوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔تقلید سے کئی قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئیں جن سے فقہاء اور علماء نے اختلاف الفقہا کے اصول کا تعین کیا اس طرح ان مکاتب کے نظریات کو سمجھنے اور مدد ملنے میں آسانی پیدا ہوئی۔

میزانیہ نمبر(4)

مخصوص مکتبہ فکر کے’’اصول‘‘ پر مبنی کام اور اصول

مکتبہ حنفی:البذوی(وفات1089:)،اصول،صدر الشریعہ التوضیح

مکتبہ حنبلی:ابن تیمیہ(وفات1328:)معارج الوصول

ابن القیم(وفات1351:)،اعلام الموقعین

مکتبہ جعفریہ:طوسی(وفات1067:)،الھدیٰ فی اصول

مالکی مکتب:ابن الحاجب(وفات1249:)،المختصر،شاطبی(1388)،الموافقات

مکتبہ شافعی:شافعی(وفات820:)الرسالہ،الغزالی(وفات1111:)،المصطفیٰ

طاہری مکتب:ابن حزم(1065)،الاحکام فی اصول الاحکام

فقہ الشریعت کی تشکیل:

اسلام کے قوانین کا مقصد اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کی مرضی کے سپرد کردینا ہے۔مشیت ایزدی کو سمجھنے کے لیے مسلمان علماء نے فقہ الشریعت کی سائنسی قانون کی بنیاد پر تدوین کی۔انہوں نے قانون اور فقہ کے مفصل نظریات پیش کیے، اصول الفقہ دراصل قوانین کی اقسام، قانونی معاملات، قانونی اختیارات کی اقداراور انہیں جاننے کے طریقہ کار پر بحث کا نام ہے۔اصول کا لفظی مطلب جڑ ہے اور اس کا متضاد فروع ہے جس کا مطلب شاخیں یا ٹہنیاں ہیں اور علمی حوالے سے یہ دائمی اصول کے مفہوم میں آتا ہے۔ مفسرین نے اصول کی بطور اصول اور مآخذ دونوں معنوں میں تشریح کی ہے چونکہ تشکیلی عہد میں مباحث کا موضوع اختیارات اور اس کی سند کا منبع رہا ہے، اس لیے اصول کی اصطلاح مآخذ کے معنی کی طور پر ادراک کی گئی۔مسلمان مفسرین میں مآخذ کی پہچان کے متعلق اختلاف موجود ہیں۔ یہ تمام قرآن اور احادیث کے بنیادی مآخذ پر تو متفق ہیں لیکن دوسرے مسائل پر مختلف آراء رکھتے ہیں۔امام شافعیؓ سب سے پہلے عالم تسلیم کیے جاتے ہیں جنہوں نے اسلامی قانون کے مآخذ کا نظریہ پیش کیا جس کی حدود میں قرآن،سنت،قیاس(اجتہاد) اور اجماع کا تعین کیا گیا۔ قیاس یا منطقی استدلال دراصل قرآن اور حدیث کی روشنی میں عقل کے پیمانے پر پرکھنے کا نام ہے تاکہ کوئی عمل اسلام کی روح کے خلاف نہ ہو۔اجماع سے مراد کسی معاملے پر مشترکہ رائے کا اظہار ہے اور بنیادی طور پر اصحاب رسولؐ کی رائے کو ہی مقدم خیال کیا جاتا تھا لیکن بعد میں اجماع سے ایسا مشترکہ لائحہ عمل مراد لیا گیا جو کسی قانونی مسئلے پر مفسرین کی جانب سے متفق علیہ ہو۔مسلمان فقہاء نے کئی دوسرے ماخذ کو بھی درست تسلیم کیا ہے جس میں بشمول رسومات،لوگوں کے سماجی یا تجارتی حوالے سے افعال کو بھی شامل کرلیا گیا۔

اصول الفِقہ:

فقہ کے محققین نے علم و عقل کی بنیاد پر شریعہ کے اصولوں کی جانچ کی اور پھر نئے مسائل کا حل اسی تناظر میں تلاش کیا اور ان اصولوں کو قرآن اور حدیث کے پیمانے پر پرکھا گیاکیونکہ فہم و فراست اور عقلی استدلال کے بغیر شریعت محض لفظی ساخت کی بنت تک محدود ہو جاتی۔ اس طرح شریعت کی پانی کے تالاب کی جانب رہنمائی کا تصور خاصا معنی خیز ہے کیونکہ پانی اور صحیح سمت کی جانب رہنمائی دونوں کا تخیل اسلام کے قانون کی طرح حیاتیاتی کردار کا حامل ہے۔

میزانیہ نمبر(5)
اسلامی قوانین کا مآخذ

بنیادی مآخذ

ثانوی مآخذ

قرآن

استحسان: یعنی قیاس کے معاملے میں فقہی اختلاف کی فوقیت،حنفی اور مالکی مکاتب اسے درست تسلیم کرتے ہیں

سنت

امل مدینہ: مدینہ کے بسنے والوں کے رسوم و رواج،مالکی مکتبہ فکر انہیں درست مآخذ تسلیم کرتا ہے

اجماع: اتفاق رائے

مصلحت:درست ذرائع،مفاد عامہ،مالکی مکتب کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے

قیاس:منطقی استدلال

الاستصحاب: پیہم تسلسل کا فلسفہ،یہ شافعی مکتب کا اصول ہے اسے دوسرے مکاتب بھی تسلیم کرتے ہیں

نوٹ: اسے ظاہری مکتب اور شیعہ اثنا عشریہ اتفاق نہیں کرتا جب کہ آخر الذکر اس کی جگہ’’عقل‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں(یعنی انسانی عقل کا پیمانہ اور ادراک)

سدالذرائع:ممنوعات کے اصول،اسے مالکی مکتب کی تائید حاصل ہے

العرف،اأا:روایات یا رسم و رواج انہیں تمام مکاتب کی حمایت حاصل ہے

قانونی اقدار کی درجہ بندی:

مفسرین اور علماء نے مختلف احکام اور ممنوعات کے درمیان فرق واضح کرنے کے لیے کئی تراکیب وضع کی ہیں۔شافعی مکتب کی اقسام سادی اور جوڑ دار ہیں جبکہ حنفی مکتب ان اقسام کی درجہ بندی میں مآخذ کی مزید چھان بین پر زور دیتا ہے۔ مذکورہ احکام کی جدول نمبر(1) میں وضاحت کی گئی ہے اس میں قانونی لحاظ سے احکام کے درجات کی جانچ کیلئے انتہائی مثبت جانب’’حلال‘‘ دکھایا گیا ہے اور اس کے برعکس منفی جانب’’حرام‘‘ کو رکھا گیا ہے۔علماء نے قانونی قدروں کے تعین کیلئے فرائض،احکامات و ہدایات اور ممنوعات کی درجہ بندی کے لیے اصطلاحات کا تعین کیا ہے۔ مثلاً حکم یا ہدایت کا سب سے اعلیٰ درجہ’’فرض یا واجب‘‘کہلاتا ہے اگلا درجہ’’مستحب یا مندوب‘‘ کا ہے دوسری جانب ممنوعات میں پہلا درجہ’’حرام‘‘ کا ہے اور دوسرے درجے میں’’مکروہ‘‘آتا ہے۔ان دونوں کے درمیان کی قسم’’مباح‘‘ کہلاتی ہے اور اسے نقطہ آغاز سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان علماء جس فقہ کی پیروی کرتے ہیں اس میں ان کی رائے کے مطابق اشیاء کا شمار مباح میں ہوتا ہو تو مثبت حوالے سے اسے جائز اور درست کے اصول میں تسلیم کرلیا جاتا ہے مثلاً کچھ علماء دین جن میں حنفی علماء کی اکثریت ہے مکروہ کو مزید دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں یعنی’’مکروہ تحریمی‘‘ جو کہ قابل ملامت ہے اور اس کا جھکاؤ ممنوعات کی طرف ہے اور دوسرا’’مکروہ تنزیہی‘‘ ہے جس کا جھکاؤ مباح کی جانب ہے لیکن یہ فرض اور مستحب سے دور ہے۔اسلامی کتب اور دینی ادب میں کئی اور اصطلاحات کا تذکرہ بھی موجود ہے مثلاًمسنون(وہ عمل جسے حضورؐ نے پسند فرمایا)، افضل، ارقہ، الاحوط، احسان وغیرہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو مختلف معاملات پر بہتر اور موزوں معنویت کے حامل خیال کی جاتی ہیں۔

جدول نمبر(1)

پانچ درجہ (احکامِ خمسہ)

فرض/واجب مستحب/مندوب مباح مکروہ/تنزیہی/تحریمی حرام

موضوعاتی معاملات اور کتب:

علماء نے عام معاملات کے حوالے سے اسلامی قانون کی تدوین کی جن میں درج ذیل نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

-1 عبادات(رسومات): یہ چار اقسام کی عبادت کا مجموعہ ہے جن کی بنیاد اسلام کے پانچ ستونوں پر ہے۔ پانچ ستونوں سے مراد شہادہ (یعنی خدا، انبیاء، آسمانی کتب، فرشتے اور قیامت) صلوٰۃ(نماز)، صوم(رمضان کے مہینے کے روزے،)زکوٰۃ (خدا کے وضع کیے ہوئے قانون کے مطابق مخصوص شرح کے حساب سے جائیداد،رقوم اور آمدنی پر سالانہ کٹوتی) اور حج(مکہ کی زیارت) ہیں۔ان میں سے سب سے پہلا جزو دین کے معاملات میں سے ہے اور آخری چار میں فقہی معاملات شامل ہیں۔

-2 معاملات(کار گزاری): یہ جزو عبادت کے علاوہ قانونی معاملات پر بحث کرتاہے۔عبادت خدا اور انسان کے درمیان معاہدہ ہے جبکہ معاملات انسانوں کے باہمی تعلقات کار کو زیر بحث لاتے ہیں اور سماجی،اخلاقی،سیاسی اور تمام دوسرے معاملات کا احاطہ کرتے ہیں۔منطقی استدلال کے تناظر میں بھی معاملات اور عبادات مختلف اکائیاں ہیں۔ چونکہ عبادت میں پوچھ گچھ کی اجازت نہیں اس لیے اس پر بحث کا جواز نہیں جبکہ دوسری جانب معاملات پر منطقی استدلال کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔

معاملات میں عبادت کے علاوہ دیگر عام امور شامل ہیں جن میں عائلی قوانین،عدلیہ،تجارت اور کاروبار وغیرہ کے قوانین بدرجہ اتم موجود ہیں۔ بعض کتب اسلامی قوانین کے حوالے سے عائلی قوانین،انتظامی اور عدالتی قوانین کو علیحدہ تصور کرتی ہیں جبکہ سمجھوتے اور معاہدوں کو معاملات کی مد میں دیکھتی ہیں۔اگر معاملات کواس تناظر میں پرکھا جائے تو یہ محض سمجھوتوں،معاہدوں ،انفرادی قانونی استعداد کار،جائیداد،حقوق اور خدمات جیسے عوامی مسائل کو تحفظ فراہم کرتا نظر آتا ہے۔

-3 مناکحات: یہ قانون انفرادی حقوق کا احاطہ کرتا ہے جس میں شادی،طلاق،بچوں کی نگہداشت، پرورش، وصیت اور وراثت کے حق میں عورت کو بھی شامل کیا گیا ہے اور مکمل انصاف اور برابری کی بنیاد پر کثیر زوجی کی اجازت دی گئی ہے۔

-4 جنایہ(اسلامی تعزیراتی قانون): مسلمان علماء نے جرم و سزا کے حوالے سے سزا کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے، یعنی قصاص(بدلہ یا جزا کی سزا)،حدود(تعین شدہ سزا) اور تعزیر(امتیازی سزائیں) جبکہ قصاص قتل اور مجرمانہ حملوں کا قانون ہے جس میں جرم کی نوعیت کے مطابق بعینہٖ ویسی سزا تجویز کی جاتی ہے۔حدود کے قوانین میں عزت و آبرو، جائیداد،چوری(سرقہ)،لوٹ مار(حرابا)،جھوٹی تہمت(قذف،)زنا بالجبر(زنا) اور شراب نوشی(شراب الخمر) جیسے جرائم آتے ہیں۔ان جرائم کی پاداش میں سخت سزائیں تجویز کی جاتی ہیں جن میں چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹنے سے لے کر زنا بالجبر کے مرتکب ہونے والے شخص کو تادم مرگ سنگسار کرنا شامل ہے۔ تعزیر چونکہ باقی جرائم پر عائد ہوتی ہے اس لیے ان سزاؤں کو حکومت یا منصفین کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

علماء دین زیادہ تر عبادت(مذہبی رسومات) اور انفرادی قوانین پر زور صرف کرتے ہیں جن میں جائیداد اور کاروباری معاملات سرفہرست ہیں تاہم عموماً ان کی تشریح مقامی رسومات کا آئینہ دار ہوتی ہے۔

آئینی،انتظامی اور اقتصادی قوانین پر بھی بہت کچھ تحریر کیا گیا لیکن یہ معاملات باقاعدہ قانونی ضوابط کا حصہ نہیں بنے۔فقہ نے بھی عموماً اس معاملے میں صرف انتظامی امور کو ہی چھیڑا ہے۔

عبادت کے معاملات کو عدالت کے دائرہ اختیار سے علیحدہ کردیا گیا جبکہ عائلی مسائل اور وراثت وغیرہ کے تنازعات کو فقہ کی روشنی میں حل کیا جاتا ہے۔کاروباری اور تجارتی تنازعات کا عموماً العرف اور اأا یا مقامی روایات اور شہروں میں مروج رسوم کے مطابق حل تلاش کیا جاتا ہے۔

اسلامی قوانین تین مخصوص مقامات پر آزمائے جاتے ہیں ۔

-1 وہ عدالتیں جہاں قاضی قوانین کی تشریح کرکے تنازعات حل کرتے ہیں۔

-2 ایسے معاملات جن میں مذہب اور قانون کی روشنی میں مفتیان کی رائے میں فتویٰ دینے کی نوبت آئے۔

-3 جب اسلامی قوانین کے تناظر میں کتب اور ان کی تفسیر کی توجیہ کی ضرورت پیش آئے اور اسلامی قانون سازی میں آسانی مطلوب ہو۔

قاضی کے فیصلے مضبوط ہوتے ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے لیکن جہاں تک باقی دو جزیات کا تعلق ہے جس میں اسلامی قوانین کی تشریح بھی شامل ہے کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔

فتویٰ کے موضوع پر دو طرح کی کتابیں ملتی ہیں ایک وہ جس میں سوالات کے جواب تحریر کیے گئے ہیں جبکہ دوسری طرز میں مفتیان عظام اور علماء دین کے مختلف امور پر جاری ہونے والے مشہور فتاویٰ اکٹھے کیے جاتے ہیں۔

فتویٰ عالمگیریہ(1685-1707) کا شمار دوسری قسم میں ہوتا ہے جس میں مخصوص مکتب کے نظریات کو اکٹھا کرکے شائع کیا گیا۔اس قسم میں مخصوص نظریات اور مخصوص فقہ کو مدنظر رکھ کر کام کیا جاتا ہے جبکہ پہلی قسم کے فتوے زیادہ پذیرائی کے حامل رہے ہیں کیونکہ ان کا دائرہ کار وسیع ہے جس میں فلسفہ،دین،سیاست،اقتصادیات وغیرہ آتے ہیں اور یہ کسی ایک یا مخصوص فقہ کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اس جدید دور میں فتویٰ صادر کرنے کے اسلوب بھی تبدیل ہوگئے ہیں ۔ ایک جدید فتویٰ اخبار،ریڈیو،ٹیلی فون،ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ پر نشر کیا جاسکتا ہے۔ فتویٰ کے مراکز بھی نہایت اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ مشہور علمی مراکز مثلاً الازہریونیورسٹی کا اپنا فتویٰ کا شعبہ ہے جنہیں باقاعدگی سے شائع کیا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فقہا نے فقہ کی تشکیل میں محض جامع قانونی نظام ہی پیش نہیں کیا بلکہ انہوں نے منڈی،منصفیں،مالیاتی اور تجارتی قوانین کے علاوہ انتظامی امور میں حکمرانوں کے دائرہ اختیار کی بھی وضاحت کی ہے۔خصوصاً فوجداری قوانین تو خود اس کے گواہ ہیں۔فقہا نے بہت سے جرائم کی وضاحت کی اور انہیں منصفین اور حکمرانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔یہی وجہ ہے کہ اس جدید دور میں قو انین کی ساخت میں لچک پیدا کرکے ریاستی قوانین کو قابل عمل بنایا گیا ہے۔

جدید تبدیلیاں:

یہ جاننا ضروری ہے کہ فقہ کو قانونی شکل میں تمام مسلمان ممالک میں نافذ نہیں کیا گیا بعض ممالک میں اسے صرف عدالتی حوالوں کے لیے پیش کیا جاتا ہے لیکن وہ بھی عائلی یا انفرادی معاملات کی حد تک۔ ریاست کے اقتصادی،انتظامی اور تعزیری قوانین اکثر فقہ سے انحراف کرتے ہیں،جدید تجارتی قوانین سے پہلے عموماً فقہ کے مطابق عمل درآمد کیا جاتا تھا۔یہی وجہ ہے اسلامی ممالک میں جدید اصلاحات متعارف ہونے سے بنیادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔یورپی نو آبادیاتی حکمرانوں نے اسلامی قانون کو مذہبی معاملہ اور مقامی رسمی قانون سمجھ کر انفرادی اور رسمی معاملات تک محدود رکھا اور جدید قانونی مکمل نظام کے طور پر پھلنے پھولنے کی حوصلہ شکنی کی تاہم جب نو آبادیاتی حکمرانوں نے اصلاحات جاری کیں تو انہیں مسلمان رعایا کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اس طرح تین طرح کے نظریات سامنے آئے، اصلاح پسندوں نے شریعت کے قانون کو قابل تبدیل، قابل ترمیم اور دوسرے محققین کی اکثریت نے انہیں غیر متغیر یا غیر متبدل قرار دیا۔ نو آبادیاتی دور کے متعدد مغربی محققین نے اسلامی قانون(شریعہ الفقہ) کو محض مذہبی حوالہ کے طور پر جانا اور اسے قانون کا درجہ دینے میں ناسمجھی سے کام لیا۔ چنانچہ ان کی نظر میں اسلامی قانون کی بنیاد پر اصلاحات ناممکن تھیں۔ان تنازعات نے اسلامی قوانین کا احیاء بمقابلہ یورپی قانون کا نظام جیسے کئی بنیادی سوالات کو جنم دیا۔

قانون سازی کے دوران بھی مسائل درپیش ہوئے،قدامت پرست مسلمان،قانون کی تشکیل اور اس کی تشریح اور غیر مسلموں کے زیر انتظام معاملات طے پانے پر مزاحم ہوئے۔نو آبادیاتی دور کے حکمرانوں نے ابتدائی طور پر جج صاحبان کی مدد کے لیے مفتیان کو تعینات کیا۔ بعد ازاں جب اسلامی شخصی یا انفرادی قوانین کی بنیادی کتب کا یورپین زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد ضوابط کی تدوین ہوئی تو جج صاحبان نے اسلامی قوانین کا آزادانہ طور پر اطلاق شروع کردیا۔

مختلف طریقوں سے اسلامی قوانین میں اصلاحات متعارف کرائی گئیں جس سے کئی نئے قانونی ضابطے بھی شامل ہوئے۔غیر مسلم محققین نے جدید معیاروں پر مبنی اسلامی قوانین کی کتب تحریر کیں اور انہیں سرکاری تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا گیا۔یہ کتب روایتی مسلم مسودات سے مختلف تھیں کیونکہ انہیں صرف یورپی عدالتوں کے مقدمات کے فیصلوں کی بنیاد پر استوار کیا گیا تھا۔ دستوری قانون بھی ازمنہ وسطیٰ کی مسلم عدالتوں کے برعکس تربیت یافتہ وکلاء کی موجودگی میں نئی طرز اختیار کر چکا تھا،نظریاتی اور عملی سوچ کی تبدیلی نے ایک آزادانہ نظام کو جنم دیا اور روایتی اسلامی قانون کے برعکس’’اینگلو محمڈن لاء‘‘ اور ’’درایت(شریعت) مسلمان الجیرین‘‘ جیسے قوانین کا قیام عمل میں آیا۔

آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلم ممالک میں اسلامی قوانین کا جدید پیمانے پر تبدیلیوں کا عمل تیزی اختیار کرگیا سب سے پہلے ترکی میں اس کی شروعات ہوئی۔ سلطنت عثمانیہ نے اصلاحات کے عمل (تنظیمات آرڈر) کی پہلے سے ہی داغ بیل ڈال دی تھی۔ اس نے تجارتی قوانین(1850)،تعزیری قانون(1858) اور دیوانی قانون(1876) متعارف کرائے۔ تاہم1924 میں خلافت کے مکمل خاتمے کے بعد ترکی نے تیزی سے اپنے آپ کو مغربی رنگ میں ڈھالنا شروع کردیا۔1926ء میں اسلامی عائلی قوانین کی جگہ سوئس قانون نے لے لی۔ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی اسلامی قوانین میں اصلاحات کا عمل شروع ہوگیاجس میں شام(1953)، شمالی افریقہ(1951)، اردن(1951)، مصر(1952)، تیونس(1956)، مراکش(1958)، عراق(1959) اور پاکستان(1961) شامل تھے۔ عائلی قوانین میں مندرجہ ذیل اصلاحات متعارف ہوئیں۔

(1)شادی کی رسومات (2) دلہا اور دلہن کی عمر کا تعین

(3) کثیر الازواجی کی روک تھام اور ممانعت (4) خاوند پر طلاق دینے کے حق کی ممانعت

(5) عدالتی علیحدگی کی سہولت

مسلم ممالک میں اسلامی قوانین کی جدیدیت کی تحریک نے دو متحارب یعنی جدت پسند اور قدامت پسند گروہوں کی بنیاد رکھی۔ جدت پرست مغربی رنگ میں ڈھلے ہوئے تھے اور جدیدیت کے قائل تھے جبکہ قدامت پرستوں میں روایتی علماء اور قدیم روایت سے جڑے ہوئے ان کے پیروکار شامل تھے۔جدیدیت کے پیچھے اسلامی قوانین کو نئے زمانے کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی خواہش کارفرما تھی چنانچہ اس صورتحال نے کئی مسائل کو جنم دیا۔

قومی ریاست کا تصور اولین مسئلے کے طور پر سامنے آیا۔ حالانکہ روایتی علماء قوم پرستی اور قومی ریاست کے مخالف تھے لیکن ریاست اور انتظامیہ کو اسلامی قوانین کے تحت چلانے کے لیے ان کی جدوجہد سیاسی تھی اور اس کے پیچھے قومی ریاست کاتخیل کارفرما تھا۔دوسرا مسئلہ قانون سازی کا تھا۔علماء کی جانب سے حکومت سے شریعت کے نفاذ کے مطالبے نے قانون سازی کے لیے ریاست کی حاکمیت کو فی الحقیقت تسلیم کرلیا تھا۔

ریاست کی جانب سے اسلامی قانون سازی کے طریقہ کار نے کئی مسائل پیدا کیے۔ سب سے پہلے تو اجتہاد اور تقلید کے موضوع پر بحث کا آغاز ہوا یعنی کیا تقلید کو پس پشت ڈال دینا چاہیے اور اجتہاد کو برقرار رکھنا چاہیے۔جدت پسندوں نے اپنا سارا زور اجتہاد کی آزادی پر صرف کیا ۔قدامت پرستوں نے اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا اور اجتہاد کی اجازت بھی دی لیکن انہوں نے اہلیت رکھنے والے افراد کی غیر موجودگی میں اسے ناممکن خیال کیا۔علامہ محمد اقبال ( وفات1938) جیسی جدت پسند شخصیت نے جدیدیت پسندوں اور قدامت پسندوں سے اختلاف کیا تھا انہوں نے عام زندگی اور پارلیمان میں اجتماعی اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا۔قدامت پرست اجتماعی اجتہاد سے اتفاق رکھتے ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ کو اس بات کا حقدار نہیں سمجھتے کہ وہ اجتہاد پر مبنی قانون سازی کرے۔علمائے کرام نے اس مقصد کے لیے کئی مشاورتی ادارے اور مدارس کھول رکھے ہیں ۔موجودہ اجتہاد کا زیادہ تر دارومدار التلفیق(باہمی تشکیل) یا التخیر(چناؤ) کی بنیاد پر ہوتا ہے کیونکہ اس میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ایک مکتبہ فکر کے پیروکار دوسرے مکتبہ فکر کے قانون کو تسلیم کرلیں۔ اجتہاد سے متعلق ایک اور مسئلہ طریقہ کار کے سوال کا پیدا ہوتا ہے۔اجتہاد کا روایتی طریقہ منطقی استدلال سے استنباط کرکے قیاس کی بنیاد پر قائم ہے اور آج کے جدید دور کے مسائل عجیب و غریب اور بے نظیر ہیں۔ اس لیے قیاس کے ذریعے اجتہادکا طریقہ اطمینان بخش نہیں سمجھا جاتا۔اسی اصلاح کے دیگر اصول مثلاً استحسان( علماء کے نزدیک مفید اور نمو پذیر)، اصلاح(قابل ثبوت اور مصدقہ)، سدالذرائع(جس میں نقصان کا احتمال نہ ہو)، عموم البلوی(قابل قبول) بھی کسی حد تک اپنا وجود رکھتے ہیں۔محمد عبدہ(مصر)،طاہر عاشور(تیونس)،علامہ اقبال(پاکستان) اور دوسرے کئی جدت پسندوں نے مصلحت یعنی لوگوں کے مفاد کے اصول کی بنیاد پر مبنی مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا منطقی طریقہ ہے جس میں عامۃ الناس کی بھلائی پوشیدہ ہے۔

اسلامی قوانین کو جدید قالب میں ڈھالنے کی راہ میں گروہی بنیادوں پر تشریح و تفسیر بھی رکاوٹ کا باعث ہے۔ مسلمان ممالک میں ہر فرقے سے وابستہ لوگ رہتے ہیں اور مذہبی آزادی انہیں اپنی فقہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق دیتی ہے۔ان حالات میں متفق علیہ قانون کے نفاذ میں رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں،اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے کئی مسلم ریاستوں میں سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں ممکن ہے ہر مکتبہ فکر کی تشفی ہوسکے۔

1979 سے مسلمان ممالک کو ملکی قوانین اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے کئی تحریکوں کا سامنا ہے۔ یہ تحریکیں نہ صرف جدت پسندوں سے اختلاف رکھتی ہیں بلکہ علماء کی تشریح کو بھی تسلیم نہیں کرتیں۔سب سے پہلے تو وہ تمام قوانین بشمول عائلی قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر وہ یورپی نمونے کے قانونی نظام کو بھی تسلیم نہیں کرتے، وہ اصلی مآخذ و منبع کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے نفاذ میں فقہ کو روایتی علماء کی طرح اہمیت کا حامل نہیں سمجھتے بلکہ صرف قرآن و سنت کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔چوتھے نمبر پر وہ پرانے قانون میں اصلاحات کی بجائے نئے سرے سے قوانین مرتب کرنے پر زور دیتے ہیں آج اسلامی قوانین کو ویسے ہی مسائل درپیش ہیں جیسا کہ تدوینی دور میں سامنا تھا۔

ان اصلاحی تحریکوں نے اسلامی قانونی نظریات اور تشریحات کے اصولوں پر نئی بحث کا آغاز کیا ہے۔ پرانے روایتی استدلالی طریقہ کار کو بدلنے یا ان میں بہتری لانے کے لیے کئی متبادل طریقے متعارف ہوئے ہیں۔ ’’مقاصد الشریعہ‘‘ یعنی قانون کے مقاصد کے نام سے ایک نیا نظریہ سامنے آیا ہے جسے حالیہ دنوں میں تجزیاتی استدلال کے طریقہ کار کے حوالے سے پذیرائی ملی ہے۔ مقاصد کا اصول اسلامی قانون کی کوئی نئی روایت نہیں ہے۔ اس سے پہلے الجویانی،الغزالی،ابن عبدالسلام جیسے مسلمان فقہا اسے قدیم اور آخری وسطی دور میں مختلف پہلوؤں سے زیر بحث لا چکے ہیں تاہم اس جدید عہد میں بھی ابو اسحق الشایتی نے مقاصد کی تشکیل کے حوالے سے خاصی شہرت حاصل کی ہے۔

(تلخیص و ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)

حوالہ جات

-1 محمد الحذری،تاریخ اتشریح الاسلامی،بیروت،دارالفکر،1981،صد17تا21

-2 ایضاً

-3 ایضاً