working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

نقطہء نظر

دہشت گردی کا پس منظر

ڈاکٹر راغب نعیمی

پاکستان میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ دینی طبقے کی جانب سے اس کو فکری سطح پر چیلنج نہ کرنا بھی ہے ۔کیونکہ جہاد کی جو توجیح شدت پسندکر رہے ہیں اور وہ جن اسلامی روایات کا سہارا لے رہے ہیں اس کا مدلل جواب کہیں سے نہیں آرہا ۔ زیر نظر مضمون میں نامور اسلامی سکالر ڈاکٹر راغب نعیمی نے ان اسباب کا جائزہ لیا ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کا سبب بن رہے ہیں ۔اور ان اسباب میں سب سے نمایاں عدم برداشت کا کلچر ہے ۔اگر ہمارے معاشرے میں برداشت پیدا ہو جائے تو ہم اس ناسور چھٹکارا پا سکتے ہیں لیکن ایک مسئلہ اور بھی ہے اور وہ ہے سماجی اور معاشی ناانصافیاں جن کی کوکھ سے اس مسئلے نے سر اٹھایا ہے ۔ڈاکٹر راغب نعیمی ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں ۔(مدیر )

ہمارے ہاں دہشت گردی کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب جہاد کی غلط تعلیم ہے جب لوگوں کو اسلام کے صحیح تصور کی تفہیم کی بجائے اپنی من گھڑت تشریحات جہاد کے ضمن میں پیش کی گئیں تو اس سے ملک میں فساد کو فروغ حاصل ہوا۔ اب یہاں پر ایک نقطہ توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی ملک کی فوج کی حیثیت کیا ہے ؟ آیا وہ جہاد کے لئے ہی تیارکی جاتی ہیں یا نہیں ؟یہ ایک سوال ہے۔ اگر ہم اپنے وطن عزیز پاکستا ن کی افواج کا موٹو دیکھیں تو ہمیں ان کے موٹو میں مسلمانیت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے اورجتنے بھی جنگی ہتھیار ہمارے ہاں تیار ہوئے جیسے ہتف، عنزہ ، اؒ لخالد ،مشاق، سارے نام اسلامی ہیں جس سے ہم یہ بآسانی اخذ کرسکتے ہیں کہ ہماری فوج میں اسلام کی روح جلوہ گر ہے اور مزید یہ کہ ملک کی فوج ہی اس مقصد کے لئے تیار کی جاتی ہے کہ وہ جہاد کا فریضہ سرانجام دے۔دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ کیا حضرت عمر نے باقاعدہ فوج تیار نہ کرلی تھی اور ان کے لئے چھاؤنیوں کی تعمیر نہیں کی تھی؟ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جہاد کا وہ تصور جو عہد رسالت میں تھا کہ ہر شہری مجاہد ہے وہ حضرت عمر کی طرف سے باقاعدہ فوج کی تشکیل سے اب یہ رخ اختیار کرگیا کہ عامۃ الناس ایک طرف ہوگئے اور جہاد کے لئے مخصوص افراد کو تربیت دے کر ایک فوج کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ اب اگر ہم سے ہر کوئی مجاہد بن بیٹھے تو ہم میں سے کسی کے بچنے کی صورت نظر نہیں آتی ۔ ہاں ہر بند ہ اپنی جگہ مجاہد ہے مگر اس معنی کے لحاظ سے جو کہ نبی کریمﷺ جہاد سے واپسی پر فرمایا کرتے تھے کہ اب ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں ۔ جنگ ، جہاد اصغر اور زندگی گزارنا جہاد اکبر۔

جہاد کی غلط تعلیم سے دہشت گردی کو فروغ تب حاصل ہواجب کچھ مجاہدین فوج سے ہٹ کر تیار کئے گئے ۔ اب وہ جہاد جس کے لئے انہیں تیار کیا گیا تھاجب انجام کو پہنچا تو مسئلہ پیدا ہوا۔عام زندگی کا اصول یہ ہے کہ جس فرد کو جس کام کے لئے تیار کیا جائے وہ اس کام سے ہٹ کر کوئی دوسراکام سرانجام نہیں دے سکتا مثلاً جب کوئی فوجی ریٹائر ہوکرواپس لوٹتا ہے تو وہ عموماً سکیورٹی فراہم کرنے والی کمپنیز میں ملازمت کرلیتا ہے سکیورٹی گارڈ کے طور پر یا سکیورٹی انچارج کے طور پر یا پھر کوئی ایڈمنسٹریٹو پوزیشن سنبھال لیتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سوچ اس نہج پر پروان چڑھی ہوتی ہے جس کے بعد وہ اپنے مخصوص دائرہ کار سے ہٹ کر کسی اور شعبہ زندگی میں چل نہیں سکتا۔ اب ایسی ہی کچھ صورت حال ان تیارکردہ مجاہدین کی رہی ہوگی کہ بعد میں وہ معاشرے میں ڈھل نہ سکے اور انہوں نے اپنے نقطہ نظر سے جہاد کے فروغ کا بیڑا اٹھائے رکھا اور پھر یہ غلط تصور جہاد ملک میں دہشت گردی کا سبب بن گیا۔

ملک میں دہشت گردی کے فروغ کے دیگر اسباب میں ایک اسلام دشمن قوتوں کا کردار ہے لیکن اس میں یہ پہلو انتہائی قابل توجہ ہے کہ اسلام دشمن قوتیں تو اپنا کام کرتی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کے آلۂ کار بنتے ہیں۔ کیا ان کے آلۂ کار ہم میں سے نہیں ؟ وہ ہمارے ہی معاشرے کے افراد ہیں ، ہم میں سے ہیں ، ہمارے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ہم نے اپنے معاشرے کی تربیت اس طور پر نہیں کی کہ وہ دوسروں کے مفادات کے لئے استعمال نہ ہوں اور اپنے ملک کی تباہی کا سامان نہ کریں مثلاً اگر ملک میں کہیں بم بلاسٹ ہو تو اس کام کی انجام دہی کے لئے کوئی غیر ملکی تو نہیں آتا ہمارے یہاں کے لوگ ہی ان کے دست و بازو بنتے اور ان کے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے خود کو پیش کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی المناک پہلو یہ ہے کہ اپنوں کے بھیس میں کچھ ضمیر فروش بکاؤ افراد ہمیشہ اہل اسلام کی صفوں میں شامل رہے اور مار آستیں کی مانند درپردہ مسلمانوں کے مفادات کو گزند پہنچانے میں باطل قوتوں کے اشاروں پر ناچتے رہے ۔ اسی المیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ دنیا، ننگ دیں، ننگ وطن

بلاشبہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اپنا کام کرتی ہیں ۔اور اس کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے کہ بعثت نبوی ﷺ سے قبل عرب میں جو ایک تصور تھا کہ نبی آخرالزماں کی بعثت کس قوم کے ہاں متوقع کی جارہی تھی لیکن جب نبوت بنو اسحاق سے بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہوئی تو وہاں پر اس قوم نے بنواسماعیل میں نبوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ البتہ یہ بنواسحاق والوں کی غلط فہمی ہے کیونکہ نبوت بنو اسحاق سے بنو اسماعیل کی طرف نہیں بلکہ بنوعمران کی طرف منتقل ہوئی تھی کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنو اسماعیل میں سے نہیں بلکہ بنو عمران میں سے تھے یوں درحقیقت نبوت بنو اسحاق سے بنو عمران میں منتقل ہوئی تھی نہ کہ بنو اسحاق میں ۔اس ضمن میں بنواسحاق والوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات مسلمہ ہے کہ اسلام دشمن قوتیں کارفرما ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے ان قوتوں کا کیا تدارک کیا ۔ تدارک کرنا تو درکنار ہم تو خود تفریق کا شکار ہیں اور اتحاد کی طاقت کے بغیر مخالف عناصر کا مقابلہ بعید از امکان ہے۔ ان اسلام دشمن قوتوں سے ہٹ کر جب ہم بین الاقامی سیاست پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو دہشت گردی کے عفریت کی پرورش میں ہمیں کچھ ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ بھی دکھائی پڑتا ہے جوکسی نہ کسی طور اپنا کام کررہی ہیں۔اور یہ ناگزیر ہے کیونکہ ہمارے ہاں جو سیاست رواج پاچکی ہیں وہ بڑی بے رحم ہے جیسے کسی نے خوب کہا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہے ۔اور معروضی حالات ہمیں واضح طور پر اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اس سیاست میں آج کا حلیف کل کا حریف اور آج کا حریف کل کا حلیف بنالیا جاتا ہے ۔

وہ وقت کہ جب امریکہ اور روس دونوں ممالک بام عروج پر تھے دنیا کے دو بلاکس تھے ایکPro-America اور ایک Pro-Russian روس کی شکست و ریخت کے بعد دنیا کے سامنے Unipolar system متعارف کروایا گیا یعنی کہ طاقت کا مرکز اب صرف ایک قرارپایا اور وہ ہے امریکہ۔ اب جب امریکہ کو محسوس ہوگا کہ طاقت کسی اور خطہ میں جمع ہورہی ہے تو اس صورت حال میں بھی ہمیں اس قسم کے معاملات نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ رہا کہ پاکستان کو رشین بلاک کی طرف سے شمولیت کی پیشکش ہوئی لیکن کچھ اس طرح کی صورتحال پیدا کی گئی کہ پاکستا ن اس بلاک میں نہ جاسکابلکہ امریکن بلاک میں چلاگیا۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ ماضی میں وقوع پذیر ہونے والی مختلف جنگیں اور جھڑپیں اس با ت کی غماز ہیں کہ ملک دشمن طاقتیں اپنے کام میں جتی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کی جو Proxy war ہے ، جس میں پاکستان بھی شریک ہے، تو اس کے بھی اثرات ہیں۔ من جملہ ملک دشمن عناصر کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں ۔

دہشت گردی کے فروغ کا ایک سبب غربت بھی ہے ۔ ایک حدیث پاک میں وارد ہے کہ ایسا نہ ہو کہ غربت انسان کو کفر تک پہنچادے۔ کفر تک پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ پچاس ہزار، لاکھ دولاکھ کے عوض بم کسی جگہ رکھ دیایا پیسے کی خاطر ٹارگٹ کلنگ کردی۔ تو اگرآپ نے کسی غریب کی تربیت کردی تو اس سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔ ایک انسپکٹر نے خوب کہی کہ غریب کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنی جان پر بھی کھیل جاتا ہے۔ آپ ذرا تاریخ کے اوراق الٹیں تو ہمیں اس بندے کی مثال ملتی ہے جس کا حج اس لئے قبول ہوا کہ اس نے اپنی حج کے لئے جمع کردہ رقم اپنے بھائی کو دے دی جس نے غربت کے ہاتھوں تنگ آکر مردار کا گوشت کھایا تھا۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ غربت ایک واقعی ٹھوس وجہ ہے البتہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہم قابو پاسکتے ہیں لیکن اسے حل کرنے لئے تھوڑی توجہ چاہیے۔جب معاشرہ ترقی کرے گا تو دہشت گردی میں کمی آئے گا اور یہ ممکن ہوگا غربت کے خاتمے ساتھ۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں مڈل کلاس کی اکثریت ہواور ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں یہ مڈل کلاس ختم ہورہی ہے ، غریب غریب تر ہورہے ہیں اور امیر امیر تراور مڈل کلاس جنہوں نے ترقی کی طرف بڑھنا ہوتا ہے وہ معدوم ہورہے ہیں ۔

یونہی فرقہ واریت بھی ایک ظاہروباہر سبب ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ پیدا کیوں ہوتی ہے؟ ایک تو مذہب کی غلط تعبیر اس کی بنیاد بنتی ہے اور اسی طرح کم علمی ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک طرح سے علم کی زیادتی بھی اس کی ایک وجہ قراردی جاتی ہے جس طرح القاعدہ کا سربراہ ڈاکٹر ہے اور اس کے پیروکار پڑھا لکھا طبقہ ہے ۔ حدیث میں ایسے علم سے پناہ طلب کی گئی جو انسان کو گمراہی کے راستے کی طرف لے جائے۔اور یہ علم کی بظاہر زیادتی مذہب کی غلط تعبیر کا باعث بھی بن سکتی ہے اور ایک وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں ایسا شخص اپنے بارے مین یہ گمان پال لیتا ہے کہ

بجا ہے میرا فرمایا ہوا

کہ جو میری رائے ہے و ہ حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے اور جو اس کے خلاف کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج کیونکہ علم کی زیادتی نے اس کے اندر اس احساس کو جنم دیا کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ عین اسلام ہے اس لئے جو اس کے کہے سے ہٹے وہ گویا اسلام سے روگردانی کررہا ہے اور پھر اس کے بعد اس کے اسلام سے خروج کا فتویٰ جاری کردیاجاتا ہے اور بعد ازاں اسے واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہے ۔ اور اس شخص کو ٹھکانے لگانے کے لئے پھر دوسروں کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اورانہیں بہکانے کے لئے جنت کی حوروں کا جھانسہ دیاجاتا ہے جیسے ایک وقت میں حسن بن صباح نے اپنی نام نہاد جنت بنا کر یہ کام کیا تھا ۔ چنانچہ جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو فرقہ واریت اور اس سے جڑے دیگر عناصر دہشت گردی کا سبب معلوم ہوتے ہیں ۔

اس ضمن میں ایک اہم رویہ اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنا ہے کیونکہ جس کو زیادتی علم کا زعم ہو وہ دوسرے کی رائے کو اہمیت دینے پر مائل نہیں ہوتاکہ دوسرا اس سے کیونکر اختلاف رائے کرسکتا ہے جبکہ وہ علم میں اس سے کمتر ہے۔اگر ہم ذخیرۂ فقہ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ کس طرح اختلاف رائے کو نہ صرف برداشت کیا جاتا رہا بلکہ بسااوقات دوسرے کی رائے کو قبول کرتے ہوئے اپنی رائے کو پیچھے کردیا گیا ۔امام ابوحنیفہ کی مجلس فقہاجس میں چالیس فقہا جمع ہوتے تھے اور پھر یہ پہلو بھی کہ فقہ حنفی تقدیری فقہ ہے جس کے مسائل اندازے کی بنیاد پر اخذ کئے گئے ہیں کہ جو مسئلہ کبھی پیش آسکتا تھا اس کو پہلے سے فرض کرکے اس کاحکم شرعی تلاش کیا گیا۔مثلاً کتب فقہ میں بیان کیاگیا کہ وضو کے بغیر نماز جائز ہے اور وہ ہے حالت عذر میں مثلاً ایک شخص سیاچن گلیشیر پر ڈیوٹی پر مامور ہے ہاتھ میں گن لیے جسم پر سردی سے بچنے کا مخصوص لباس پہنے وہ -20سینٹی گریڈمیں کھلے آسمان کے نیچے کھڑا ہے کہ جونہی وہ اپنے جسم کا کوئی حصہ بے لباس کرتا ہے وہ شل ہوجائے گا۔اب وہاں پر نماز پڑھنے کے لئے وضو کی حاجت نہیں۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے کیسے اختلاف رائے کو برداشت کیا کہ اگر کسی شاگرد کی بات بھی پختہ نظرآئی تو آپ نے اپنی رائے پر اس کی رائے کو ترجیح دی جیسے جگہ جگہ فتوی صاحبین کے قول پر بھی ملتا ہے کیونکہ جب امام اعظم کو وہ رائے قوی معلوم ہوئی تو آپ نے وہی رائے اپنا لی۔جب ہم اپنی رائے پر اڑجانے کی بجائے دوسرے کی رائے سنتے اور غوروفکر کرتے ہیں تو یوں ہم معاملے میں بہتر پہلو تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور جب اختلاف رائے کو برادشت نہ کیا جائے تو شدت پسندی جنم لیتی ہے جو آہستہ آہستہ نفرت کی طرف جاتی ہے اور نفرت سے پھر دہشت گردی جنم لیتی ہے اور پھر اس سے وہی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو ہم وطن عزیز پاکستا ن میں دیکھ رہے ہیں ۔

پھر ہمارے نظام کی کچھ خرابیاں جیسے انصاف کی عدم دستیابی اور حصول انصاف میں تاخیربھی بگاڑ کا باعث ہیں کہ جب کسی شخص کو زیادتی پر انصاف نہ فراہم کیا جائے تو پھر اس کا ذہن انتقامی جذبات کی آماجگاہ بن جاتا ہے وہ جیسے کہتے ہیں :

تنگ آمد بجنگ آمد

یعنی پھر وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لینے کے لیے خود اٹھ کھڑا ہوگا جس کا لازمی نتیجہ فتنہ و فساد کی صورت میں نمودار ہوگا۔خاص طور پر ہمارے ہاں اسلامی نظام عدل اور اسلامی قوانین کا فقدان جرائم کی شرح کے بڑھنے کا باعث ہے کہ لوگوں کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق اور جلد انصاف دستیاب نہیں ۔ ایک مقدمہ سالہاسال چلتا ہے اور اس کے اخراجات کمزور فریق کی کمر توڑدیتے ہیں مگر حق نہیں ملتا اور دوسرا فریق پیسے یا اپنی معاشرتی مضبوط حیثیت کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر اپنی منشا کے موافق فیصلہ لینے میں بآسانی کامیاب ہوجاتا ہے۔

یہاں پہ ایک بات اسی ضمن میں ذہن پر دستک دیتی ہے کہ کیا سلمان تاثیر کا قتل بھی حصول انصاف میں تاخیر کا نتیجہ تو نہیں تھا؟ کیونکہ اس وقت بہت سے پلیٹ فارمز سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ سلمان تاثیر کی بات غلط ہے اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ عہدے پر فائز گورنر پر مقدمہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اسلام میں کسی بھی انسان کے قتل کی ٹھوس وجوہات تین ہیں : قتل کرے ، شادی شدہ ہوتے ہوئے زنا کا ارتکاب کرے یا اسلام سے ارتداد کرے اور یہ بغاوت ہے اور بغاوت کی سزا کئی ممالک میں قتل ہی ہے۔

طالبان کا لوگوں کو قتل کرنا خلاف قانون ہے جسے ہم ماورائے عدالت قتل کہتے ہیں ۔ اب یہ کہنا کہ طالبان باقاعدہ جرگے کے ذریعے لوگوں کو سزا سناتے ہیں تو یہ ماورائے عدالت قتل نہ ہوا، اس تاثر کو جنم دیتا ہے کہ پاکستان گویا اسلامی ریاست نہیں ہے کہ اس میں ان نظریات کی پاسداری نہیں کی جارہی جن پر اس کا قیام عمل میں آیا تھا لیکن اس شبہے کے ازالے کے لئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کسی بھی ریاست کی حیثیت کے تعین کے لئے اس کے آئین سے مدد لینا پڑے گی اور پاکستان کا آئین اسلامی نظریات کے تابع ہے اس لئے پاکستان کی ریاست نتیجتاً اسلامی قرارپانی چاہیے جہاں اسلامی نظریاتی کونسل ریاست کے مفتی کی نمائندہ ہے اور وہاں وفاقی شرعی عدالت بھی اپنا وجود رکھتی ہے ۔یہاں پر اصل میں دو چیزوں کو گڈمڈ ہونا سے محفوظ رکھنا چاہیے ریاست اور حکومت۔ آپ حکومت کے بارے میں بحث کرسکتے ہیں کہ اسلامی ہے یا نہیں کہ وہ اسلام کے اصولوں کے تحت حکمرانی سرانجام دے رہی ہے یا ان سے بالکل غیر ہم آہنگ ہے۔

طالبان کا نظریہ اصل میں یہ ہے کہ صرف وہ اسلام کے صحیح نمائندہ ہیں اور باقی سب اسلام سے بے بہرہ۔اس لئے ان کا فیصلہ دوسروں کو تسلیم کرنا پڑے گا اور اگر وہ نہ مانیں تو اس پر وہ واجب القتل ٹھہرے گااور واجب القتل کی اہل ، مال اولاد جائیداد سب جائز، ان سے جنگ جائز۔ اس لئے وہ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں چونکتے ۔اور اس کے ساتھ طالبان میں شدت پسندی کے روزبروز پروان چڑھنے کا ایک خاص تاریخی پس منظر بھی ہے اور وہ یہ کہ سب مسلمانان عالم باہم رشتہ اخوت سے منسلک ہیں۔ ان کی مثال جسد واحد کی ہے جس طرح کے حدیث میں بھی وارد ہے۔ان کا تھیسسز یہ ہے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور وہ چونکہ مسلمان ملک تھا دنیا کے سب مسلمانوں کو امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے تھا۔اب جو جوملک اس کے خلاف نہ کھڑا ہوا بلکہ وہ امریکہ کا سہولت کار بنا اسے حملے کے لئے اپنے ملک کی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تو اس نے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھا اورکسی مسلمان کے خون کو حلال سمجھنے کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے۔اور جب وہ حکمران مرتد ہوئے تو اب ان کا خون حلال ٹھہر اورا سی طرح جن لوگوں کے ووٹوں سے وہ حکمران منتخب ہوئے وہ بھی اس حکم کے تحت آئے۔یونہی جن افواج نے حملہ آوروں کی مسلمانوں کے خلاف مددکی وہ بھی مذکورہ حکم میں آئے۔تو یہ ایک ایسا سلسلہ چلا کہ ان کے نزدیک ان کے سوااس ملک میں کوئی بھی مسلمان نہ رہااور پھر ان کاقتل جائز ٹھہرااور وہ اسے باعث ثواب سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ اس سوچ کی اصلاح کے لئے ائمہ وخطباء کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔ یہی وہ سوچ کا انداز ہے جو طالبان کے ساتھ ساتھ ، القاعدہ ، اخوان المسلمین، داعش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔یہاں داعش سے متعلق یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ان کے ہاں یہ جدید سائنسی علوم ممنوع ہیں ۔ کسی بھی اسلامی ملک میں ان علوم کی ترویج ان کے نزدیک جائز نہیں ۔اس لئے انہوں نے شام میں جتنی لیبارٹریز تھیں تمام کو تہس نہس کردیا وہی کام جو کسی دور میں ہلاکو خان نے کیا کہ بغداد پر حملہ آور ہوکر وہاں کی لائبریریاں جلادیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس مخصوص سوچ سے نمٹنے کی سعی نہیں کی گئی، اس سوچ کے مقابل کاؤنٹر نیرٹو (counter narrative) پیش نہیں کی گئی اور جس نے بھی اس نوع کی کاوش کی اسے راستے سے ہٹا دیا گیاکیونکہ ان کے نظریے کو عوام و خواص میں قبولیت کی نگاہ سے دیکھا گیااوریوں طالبان کو ان سے خطرہ لگا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ان کا چہرہ بے نقاب ہوا ۔اور حکومت کا المیہ یہ رہا کہ وہ اس طرح کے جرات مندانہ اقدام کرنے والوں کی حفاظت نہ کرسکی۔ اس پس منظر میں ریاست کواپنی ذمہ داریوں سے واقفیت رکھنا اور ان سے عہدہ برآ ہونا بہت ضروری ہے اگر ریاست اپنی ذمہ داریاں صحیح معنوں میں انجام دے تو بہتری یقینی ہے البتہ اگر حکومت اپنے فرائض میں کوتاہی کا شکار ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ ہماری ریاست ہی سرے سے غیر اسلامی ہے۔

اگر ہم اپنے اس خطہ عالم کی تاریخ کا تجزیہ کرنے کے لئے ایک صدی پیچھے نظر دوڑائیں تو ہم یہاں برطانوی استعماریت کواپنے قدم مضبوط کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر ان کا کوئی سوسال کا قیام و غلبہ ہے۔ چنانچہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے انہوں نے جو اقدام کئے ان میں ایک بنیادی نکتہ مسلمانان برعظیم کی وحدت کو کمزور سے کمزور کرنا تھا اس سے نہ صرف مسلمان ان کی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کا قابل نہ رہتے بلکہ اس طرح فریق ثانی کو چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی ازل سے جاری کشمکش میں بھی اپنا حصہ ڈالنے کا خاطرخواہ موقع ہاتھ آیا جسے انہوں نے بہت عیاری سے استعمال کیا۔ برطانوی استعمار اس پہلو سے بخوبی آگاہ تھا کہ مسلمانوں میں انتشار اسی پہلو میں اختلاف کی صورت میں پیدا کیا جانا چاہیے جو ان کی وحدت کا ضامن ہے یعنی دین اسلام ۔ چنانچہ انہوں نے یہاں پر مذہبی تنازعات کھڑے کرنے کے لئے اپنے ریزہ خواروں کو آلہ کار بنایا اور یوں مسلمان مختلف فرقوں میں بٹنے لگے اور مذہبی اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے گئے۔ اور یہی مذہبی تنازعات اب بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا باعث بن چکے ہیں ۔

دوسری طرف نظام تعلیم کو اس طرز پر استوار کیا گیا کہ مسلمان آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات سے دور ہوں بلکہ ان میں دین و مذہب کی حیثیت محض نام کی رہ جائے کہ وہ ہوں تو مسلمان لیکن ان کی سوچ اسلام کی اصل روح سے بالکل ناآشنا ہوجائیں۔اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو تہذیب مغرب سے متعارف کروایا تاکہ وہ اپنی معاشرت میں بھی مغرب کی نقالی کو شعار بنائیں اور اپنی تہذیب اسلامی کے آداب و اطوارسے منہ موڑ لیں۔ اور پھر یہی ہوا کہ مسلمان تہذیب مغرب سے یوں مرعوب ہوئے کہ ان کی اپنی تہذیب گویا ایک قصہ پارینہ دکھائی دینے لگی۔

سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی

یہ وہ تاریخی پس منظر ہے جو ایک صدی سے اہل اسلام پر شدید اثرانداز ہوا ۔ اس سے نہ صرف اسلامی تعلیمات سے دوری نے جنم لیا بلکہ فرقہ واریت کا عفریت بھی خوب پروان چڑھا اور اب اس کو جکڑنا ایک امرمحال دکھائی دے رہا ہے۔ ملت اسلامیہ کثیر گروہوں اور فرقوں میں بٹ کر نظریاتی طور پر بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی اور اسی مخصوص من گھڑت نظریات کی بنیاد پر ہمارے سامنے قتل و غارت کا بازارگرم کرتی ہوئی مختلف جماعتیں طالبان ، داعش وغیرہ کی صورت میں ظاہرہوئیں ۔

ان سب مسائل پر قابو پانے کے لئے ہمیں اپنے اندر احساس ذمہ داری کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا میڈیا اس میں مثبت کردار اداکرے کہ لوگوں میں شعور بیدار ہو ۔ بے ہودہ ڈراموں فلموں کی بجائے میڈیا صحت مندانہ پروگرامز نشر کرے جس سے عوام الناس کو وطن عزیز پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے شناسائی حاصل ہو تاکہ ہماری نوجوان نسل قیام پاکستان کے پس منظر سے آشنا ہو اور پھر اس کی بقا کے لئے ویسے ہی مثبت اور ولولہ انگیز کردار اداکرے جو ماضی میں ہمارے بڑوں نے کیا تاکہ وہ خطہ زمین جس کے قیام کے مطالبے میں نمایاں ترین پہلو دین اسلام کے نظام زندگی کی ترویج تھی اسے خاک و خون کی تاریک وادی بننے سے بچایاجاسکے۔

معاشرے میں امن و امان کے فروغ کے لئے عدلیہ اور پولیس وغیرہ کے کردارسے انکار ممکن نہیں ۔ اگر یہ اور دیگر حکومتی ادارے اپنے فرائض کو سمجھیں اور دیانتداری کو مشعل راہ بناتے ہوئے بدعنوانی کے آگے سینہ سپر ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں جب ملک عزیز ایک مثالی نظام کا منظر پیش کرے گا۔ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ سستے اور بروقت انصاف کو یقینی بنائے اور نظام عدل میں جس قدرخرابیاں وقت کے ساتھ در آئی ہیں ان کا تجزیہ کرتے ہوئے خاتمہ کرکے اس میں اصلاحات کی جائیں اور اس اہم قومی ادارے کو ازسر نو توانا اور مضبوط بنایاجائے تاکہ اس سے معاشرے میں جرائم کا سد باب ہواور یوں ہی انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ ختم ہو۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم صاف شفاف نظام کی ہر قیمت پر حمایت کرنے کے لئے تیار ہوجائیں اور اپنے مفادات و مصالح کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انصاف کے اصولوں کے کفاذ کے لئے خود کو پیش کردیں۔

اسی طرح مذہبی طبقات کو بھی بدلتی ہوئی دنیا میں اس بات کا احساس ہوجاناچاہئے کہ

زمانہ منتظر ہے پھر نئی شیرازہ بندی کا
بہت کچھ ہوچکی اجزائے ہستی کی پریشانی

اور اس لحاظ سے انہیں بھی اب مسلکی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کو فروغ دینے پر توجہ مرتکز کرنی چاہیے اور باہمی بے جا تعصب کے جذبات سے نجات حاصل کرلینی چاہیے تاکہ امت ایک بار پھر سے متحد ہوکر بڑے پیمانے پر اسلام کی نمائندگی کرسکے جیسے کہ اقبال نے کہا تھا

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کے تابخاک کاشغر

اس ضمن میں مختلف مذہبی جماعتوں کو وطن عزیز پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے جہاد کی غلط تعلیمات سے جڑی ہوئی غلط فہمیوں کو دورکرنے کی سعی کرنا ہوگی اور اس سے بھی پہلے اپنے اذہان کو ہرطرح کی خلش سے آزاد کرلینا چاہیے اور اب مزید انہیں چاہیے کہ وہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مخالفت میں کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے

چھپا کے آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

سب سے بڑھکراہم ترین ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر آتی ہے کہ وہ اپنے کردار کونہ صرف محسوس کرے بلکہ بلاتاخیر اسے بھرپور طریقے سے انجام دے ۔ پاکستان کی تاریخ میں فتنہ و انتشارکوئی ایک دہائی سے زوروں پر ہے لیکن اہل وطن کو تاحال حکومتی کردار پر بہت سے تحفظات ہیں اور دہشت گردی کے ناسور میں نمٹنے کے لئے کسی جماعت یا کسی مخصوص طبقہ کی رعایت کسی طور پر نہ کی جائے اور اس راہ میں جب قوم دہشت گردی کی جنگ میں اپنے فوجی جوانوں کی پشت پناہی پر آمادہ ہے تو اب جو بھی اس قومی اتحاد کے باوجود تذبذب کا شکار نظر آئے اس کے بارے میں سنجیدہ لائحہ عمل مرتب کرے اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے تاکہ آنے والا وقت اسلام ، پاکستان اور ہماری آئندہ نسلوں کے لئے امن و سلامتی کی کرنیں لے کر طلوع ہو ۔