working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

نقطہء نظر

قومی ریاست، عالمگیریت اور پاکستان

خورشیدندیم

برسوں پہلے جب ’’گلوبلائزیشن ‘‘ کی اصطلاح آئی تو ہمارے ارباب فکر بھی اس سے نا آشنا تھے مگر جب اس نے دنیا میں پھیلے ممالک اور اقوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو کسی نیاسے بخوشی قبول کر لیا اور کوئی بضد رہا۔جن ترقی پزیر ریاستوں کا مسئلہ آئیڈیالوجی نہیں تھا انھیں تو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا مگر جو ریاستیں اپنی الگ شناخت اور حیثیت رکھتی تھیں ان کے لئے مسئلہ کھڑا ہو گیا ۔جس کا بظاہر کوئی حل نہیں تھا ۔کیونکہ متبادل نظام کے لئے پہلے متبادل بیانیہ درکار ہوتا ہے ۔اسلامی دنیا عالمگیریت کے اس نئے آشوب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی اور ظاہر ہے کہ پاکستان بھی ان میں سے ایک ہے ۔زیر نظر مضمون میں نامور کالم نگار خورشید ندیم نے پاکستان کو درپیش ان چیلنجز کا احاطہ کیا ہے جو اس نئے نظام نے اس کے لئے پیدا کر دیئے ہیں ۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹتے ہوئے پاکستان مزید مسائل میں گھرتا جا رہا ہے جن سے نکلنے کا حل بھی فاضل کالم نگار نے یہاں دیا ہے ۔(مدیر)

نظم اجتماعی ایک ارتقا پذیر عمل ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی نظم کے دور جدید کا آغاز ہوا۔ قومی ریاست اور اقوام متحدہ، دو اداروں کی اس تشکیل نو میں اساسی اہمیت ہے۔ زمین پر مختلف لکیریں کھینچ کر قومی ریاستوں کو سندِ جواز فراہم کیا گیا اور پھر ان کی حفاظت کے لیے اقوام متحدہ کو وجود بخشا گیا۔ اس مقدمے میں وزن ہے کہ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں جن قوتوں کے ہاتھ میں دنیا کی باگ ڈور تھی، انہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس دور جدید کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ لیکن اس بات سے بھی انکار محال ہے کہ انسان کا فکری ارتقا بھی اس کی تائید میں کھڑا تھا۔ اس لیے سو سال گزر جانے کے بعد بھی یہ نظام قائم ہے۔

ارتقا کا عمل چونکہ جاری ہے ، اس لیے اس نظام کو نئے نئے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ قومی ریاست کو بھی گزشتہ چند سالوں سے ایک بڑا چیلنج درپیش ہے اور یہ عالمگیریت ہے۔ اس تصور نے اگرچہ قومی ریاست کی ایک اساس، جغرافیے کو بڑی حد تک برقرار رکھتے ہوئے اپنے فروغ کا اہتمام کیا ہے لیکن چونکہ یہ تصور اپنی بنیاد میں قومی ریاست کے تصور سے متصادم ہے، اس لیے اس عہد کا ایک بڑا چیلنج عالمگیریت اور قومی ریاست کے تصورات میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔

سرمایہ اس عہد کی غالب قوت ہے اور وہی انسان کی انفرادی اور اجتماعی صورت گری میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ قومی ریاست کا تصور ، بیسویں صدی میں اس سرمایہ دار کے مفاد میں تھا جس کے ہاتھ میں زمام کار تھا۔ نو آبادیاتی دور میں مغرب کی بالا دست قوت نے دنیا بھر کے سرمایے کو سمیٹ کر چند علاقوں تک محدود کر دیا۔ اس طبقے کا مفاد اسی میں تھا کہ اس سرمایے کی برکات کو محدود کر دیا جائے اور اہل مغرب ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ قومی ریاست اور اس سے وابستہ تصور نے سرمایے کے ساتھ انسانوں کی نقل مکانی کو بھی اس طرح منظم کر دیا کہ مغرب سے سرمایہ باہر نہیں جا سکتا تھا اور باہر کا محروم طبقہ یہاں نہیں آ سکتاتھا الا یہ کہ وہ جسے گوارا کریں۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ ویزے اور دوسری پابندیوں کا فائدہ مغرب کو ہوا جو اس کے نتیجے میں ترقی یافتہ کہلایا اور باقی دنیا ترقی پزیراگرچہ اس کے لیے موزوں تر الفاظ غریب اور محروم ہی تھے۔

ان سو سالوں میں دو بڑی تبدیلیاں آئیں۔ بقا کے فطری جذبے کے تحت ترقی پزیر دنیا نے جدو جہد کی اور اپنے وجود کو قائم رکھا۔ یوں امکانات کی ایک ایسی دنیا وجود میں آئی۔ ان میں سے ایک آبادی میں اضافہ تھا۔ سرمایے کی زبان میں یہ ’’ صارفین ‘‘( Consumers)) تھے۔ دوسری طرف ترقی یافتہ دنیا میں سرمایے کے پھلنے پھولنے کے امکانات کم ہو گئے۔ جہاں آبادی میں کمی ہوئی وہاں سرمایہ کاری کے امکانات بھی کم ہوئے کیونکہ ’صارفین‘ کی تعداد محدود ہو گئی۔ محدودیت سرمایے کی فطرت کے خلاف ہے۔ سرمایہ اس بند ماحول میں گھٹن محسوس کر رہا تھا جس سے اس کی نشو نما میں سستی آ گئی تھی۔اس کی نظریں ’ صارفین‘ کی اس وسیع منڈی پر تھیں جو ترقی یافتہ دنیا میں موجود تھی۔ سرمایے کی ان تک رسائی میں قومی ریاست کا تصور حائل تھا۔ اس کے توڑ کے لیے عالمگیریت کا تصور آیا۔

عالمگیریت نے قومی ریاست کو کمزور کیا۔ ایک طرف سرمایے نے عالمی قوتوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کریں،دوسری طرف اس نے ترقی پزیر دنیا کی منڈی تک رسائی کے لیے ان حدود و قیود کو چیلنج کیا جو پہلی جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی نظم اجتماعی نے عائد کی تھیں۔ مغرب نے اس حوالے سے جغرافیائی بندشوں کو نرم کیا اور یورپی ممالک میں قرب بڑھنے لگا۔ ترقی پزیر ممالک کے ساتھ اگر یہی معاملہ کیا جاتا تو یہ دو طرفہ ہوتا۔ صارفین کی منڈی تک پہنچنے کے لیے، انہیں اپنے ملکوں کے دروازے بھی کھولنے پڑتے۔ اس سے بچنے کے لیے کوشش کی گئی کہ اسے یک طرفہ بنایا جائے۔ ترقی پزیر ممالک کی منڈی تو آپ کے قبضے میں آ جائے مگر آپ ان کی غربت سے محفوظ رہیں۔ اس سے عالمگیریت کو ایک تہذیبی و نفسیاتی حوالے سے آگے بڑھایا گیا۔ عالمگیر نظام اقدار کو فروغ دیا گیا۔ یہ جدید نو آبادیاتی دور ہے، جسے ہم پس قومی ریاست Post Nation State)) دور کہتے ہیں۔ اس میں اقتدار ملٹی نیشنل کمپنیوں تک پھیل گیا ہے۔

ترقی پزیر معاشروں کے لیے اب بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ اس جدید تصور کا سامنا کیسے کریں؟ ایک صورت تو سرمایے کے ساتھ مفاہمت ہے۔ عالمگیریت کو قبول کرتے ہوئے آپ بھی عالمی مارکیٹ کا حصہ بن جائیں اور اس کے سائے میں سلامتی تلاش کریں۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک پیکج ڈیل ہے جس کا تعلق معیشت ہی نہیں، سیاست اور تہذیب کے ساتھ بھی ہے۔ سیاست کی سطح پر جمہوریت اور سیکولرازم کی قبولیت اور سماجی و تہذیبی سطح پر عالمی نظام اقدار کے ساتھ فنون لطیفہ کے باب میں بھی مغربی کلچر کی قبولیت۔ جن معاشروں نے اس پیکیج کو قبول کیا ہے، انہوں نے ایک حد تک اپنی بقا کو ممکن بنا لیا۔ مسئلہ ان کا ہے جن کا اس تہذیبی شناخت پر اصرار ہے اور وہ اس پورے پیکج کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔

ان ممالک میں مسلم ممالک سر فہرست ہیں۔ مسلمان سماج میں اس حوالے سے کش مکش ہے۔ ایک طرف ایک طبقہ دور جدید کے ساتھ مفاہمت کا قائل ہے تاکہ اپنی بقا کو یقینی بنائے۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو اپنے تہذیبی اور مادی وجود کی بقا کے لیے عالمگیریت کے ساتھ تصادم کو نا گزیر سمجھتا ہے۔ اس کشمکش سے مسلم سماج داخلی خلفشار کا شکار ہیں اور ان میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔

اس بات میں پاکستان کے مسائل دو چند ہیں۔ اس پر ایک اضافی بوجھ تاریخ کا بھی ہے۔ دو قومی نظریے کے باعث ریاست کو اپنے نظری تشخص پر اصرار ہے۔ اگر وہ اس پہلو کو نظر انداز کرے تو اس کے لیے تاریخ کو جھٹلانا پڑتا ہے۔ اگر مذہب کو ریاست کی اساس تسلیم نہ کیا جائے تو تقسیم ہند کی کوئی قابل فہم توجیہ ممکن نہیں رہتی۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے اگرچہ مفاہمت ہی کو ترجیح دی کیونکہ اس کے سوا بقا کا کوئی متبادل موجود نہیں لیکن بایں ہمہ اسے سماج میں موجود ان رجحانات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا جو تہذیبی تشخص پر اصرار کے ساتھ تصادم کو بھی ناگزیر تصور کرتے تھے۔

اس کشمکش نے جہاں سماج کو متاثر کیا وہاں ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ یوں ریاست کوئی ایسا بیانیہ ترتیب دینے میں کامیاب نہ ہو سکی جو ان دو طبقات کے نقطہ ہائے نظر کو بیک وقت اپنا مخاطب بنا سکتی۔ ریاست کے ساتھ اہل دانش کا بھی امتحان تھا۔ بد قسمتی سے وہ بھی اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ بات اہم ہے کہ جب قومی ریاست کا تصور مقبول ہو رہا تھا تو اس وقت مسلم دانش نے ایک جوابی بیانیہ اسلامی ریاست کے عنوان سے پیش کیا۔ اس پر علمی و فکری اعتراضات اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نظری سطح پر نئے چیلنج کو قبول کیا گیا۔ عالمگیریت کے آنے سے جو چیلنج درپیش ہوا، اس کا کوئی جوابی بیانیہ سامنے نہیں آ سکا۔ خلافت کے عنوان سے جو بیانیہ سامنے آیا ، اس کے خدّوخال اتنے بھیانک تھے کہ اسے قبول کرنا، مسلم سماج کے اجتماعی ضمیر کے لیے ممکن نہیں تھا۔ وہ تاریخی اعتبار سے خلافت کے جس تصور سے واقف ہے، یہ اس سے یکسر مختلف بلکہ متضاد ہے۔

پاکستان میں ریاست نے اس بات کو تو محسوس کیا کہ ملک اس بیانیے کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا جسے شعوری یا غیر شعوری طور پر اختیار کر لیا گیا ہے۔ تاہم وہ یہ بتانے کی فکری استداد (Intellectual Potential) سے محروم ہے جس کے بغیر کوئی بیانیہ ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔ یہی معاملہ بحیثیت مجموعی اہل دانش کا بھی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان کی حیثیت منفرد ہے لیکن اس کے باوجود چیلنج کی عالمگیر حیثیت کے پیش نظر ، پاکستان معاصر ممالک سے مماثلت بھی رکھتا ہے۔ اس لیے اگر اسے مسلم دنیا کو درپیش عالمگیرچیلنج کے طور پر دیکھا جائے تو بھی پاکستان کے لیے اس کی افادیت موجود رہے گی۔

میرے نزدیک پاکستان کو اس باب میں دو سطحوں پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ایسے فوری اقدامات کی جو بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس کے لیے مفاہمت لازم ہے۔ دوسری طرف مادی وجود کے ساتھ اپنے تہذیبی تشخص کی بقا کے لیے اسے ایک طویل المدتی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ اگر پاکستان کی ریاست اور اہل دانش اس باب میں ایک مربوط نظام فکر ( Discourse) ترتیب نہیں دیں گے تو سماجی اور ریاستی سطح پر فکری پراگندگی باقی رہے گی۔ تہذیب کا دھارا جب ایک سمت میں چل نکلتا ہے تو اس کی مزاحمت کے لیے اضافی قوت کی ضرورت ہے۔ یہ قوت مادی ہوتی ہے

اور نظری بھی۔ پاکستان کو دونوں محاذوں پر اپنی قوت کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہے، اگر اسے تہذیبی تشخص پر اصرار ہے۔