working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

مطالعہ پاکستان

پاکستان ایک مشکل ملک
کتاب کا ابتدائیہ (پہلی قسط)

اناطول لیوین

زیر نظر مطالعہ نامور برطانوی صحافی اور مصنف اناطول لیون کی کتاب Pakistan a Hard Country سے لیا گیا ہے ۔انا طول نیو امریکہ فاؤنڈیشن اور کنگز کالج لندن سے منسلک ہیں ۔ ان کی کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ پاکستان کے مسائل کا احاطہ گہرائی اور گیرائی سے کرتی ہے ۔اناطول لکھتا ہے کہ پاکستان انتہاپسندی ، دہشت گردی ، جہالت ، کمزور حکومتوں ، بدترین انسانی حقوق اور نا مساعد معاشی حالات کے باوجود اگلے سو سال تک قائم رہ سکتا ہے اور اگر کبھی اسے خطرہ ہوا بھی تو اس کی وجہ موسمی تغیرات ہو ں گے ۔ (مدیر )

اس کتاب کو ضابطہ تحریر میں لاتے وقت ایسے مواقع بھی آئے کہ میں نے مجبور ہو کر یہ چاہا کہ اس کا نام ’’ایک وہ ملک جس کی فاتحہ پڑھی جا چکی ہے‘‘ تجویز کروں۔ اگر ماضی کے نامساعد حالات پر نظر ڈالی جائے تو یقیناًمیرا موقف درست تھا کیونکہ اندرونی اور بیرونی دباؤ کچھ ایسے ہی حالات کے متقاضی تھے۔ 1983ء میں طارق علی نے بھی اسی قسم کے پس منظر میںThe Death of a State اورCan Pakistan Survive? جیسی تحریریں قلم بند کیں۔ یقیناًیہ کسی مردِ بیمار کی کہانی کا ہی خاکہ معلوم ہوتا ہے۔

ممکن ہے کہ میری تحریر پڑھنے کے بعد آپ کو محسوس ہو کہ2010 کے موسم گرما میں آنے والے سیلابوں نے پاکستان کے نظام کی کمزوریوں اور خامیوں سے پردہ کشائی کی ہے۔ حالانکہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے دیہی معاشرے اپنی لچک دار سوچ اور سیاسی و ثقافتی پابندیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے فطرت کے بحرانوں سے لڑتے آرہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ سیلاب اور دیگر ماحولیاتی مسائل،موسموں کے تغیر و تبدل کی وجہ سے پاکستان کا مقدر بن چکے ہیں ،جس سے ایک ریاست کے منظم معاشرے کی حیثیت سے اس کی بقا کو خدشات لاحق ہیں۔

لیکن یہ صورت حال پاکستان تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ دنیا کے دیگر کئی ممالک کا وجود بھی خطرے سے دو چار ہوسکتا ہے ۔یقیناًاس طرح کے حالات میں پاکستان جیسے ملک کی اہمیت ثانوی رہ جاتی ہے،تاہم اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ سیلاب جیسی آسمانی آفتوں نے قومی ڈھانچے کو خاصا نقصان پہنچایا ہے اور ملک کی لڑکھڑاتی اقتصادی حالت مزید دگرگوں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اس کتاب میں پاکستان کے اندرونی مسائل ،ان کا جامع تجزیہ اور پاکستانی طالبان، ان کے اتحادی،سہولت کار ،افغانستان میں جاری جنگ اور ان کے ساتھ رابطوں سے متعلق مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔مزید برآں پاکستان کی اندرونی ترقی کے حوالے سے ان پالیسیوں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے جو انڈیا اور افغانستان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر ضروری خیال کیے جاتے ہیں۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی اندرونی کمزوریوں کو بین الاقوامی طور پر اچھالا گیا ہے۔اسی لیے اختتامی حصے میں مغربی پالیسی سازوں کی سفارشات سے بھی جہاں تک ممکن ہوسکا ،استفادہ کیا گیا ہے۔

پاکستان کے داخلی ڈھانچے اور اس کی نفسیات کو سمجھنا اتنا آسان کام نہیں۔اگر ریاست اور اس کی حکومت کے خدوخال پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو ایک جانب اسلامی انتہا پسندی نظر آتی ہے تو دوسری طرف ملک کی سماجی،اقتصادی اور سیاسی ترقی میں رخنہ اندازی کی خلیج حائل ہے۔

اقوام عالم میں مملکت پاکستان ایک منقسم،بدنظمی کی شکار،اقتصادی طور پر پسماندہ،اخلاقی طور پر کمزور، جذباتیت سے پُر،ناانصافیوں کا محور،غریبوں اور خواتین سے بدسلوکی کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتی ہے۔بنیاد پرستوں اور شدت پسندوں کی جنت ہونا بھی اس کی شہرت کا باعث ہے لیکن ان تمام وجوہات کے باوجود یہ ریاست اور معاشرہ حرکت پذیر ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی خارجی عدم مساوات ایسی نہیں جیسا کہ بظاہر نظر آتی ہے۔

پاکستان میں ترقی اور جدیدیت کے حوالے سے کئی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔مناسب تعداد میں بے مثال انتظامیہ موجود ہے جس نے ملک کو اپنی ڈگر پر گامزن کر رکھا ہے۔متاثر کن جدید صنعتیں بھی ہیں ،کچھ عمدہ شاہراہیں ہیں۔لاہور میں موجود یونیورسٹی کا شمار جنوبی ایشیا کی بہترین درس گاہوں میں ہوتا ہے۔تربیت یافتہ اور بہترین نظم و ضبط کی حامل فوج موجود ہے۔ایمان دار،ماہر اور کام کے دھنی سرکاری ملازمین کی بھی کمی نہیں۔میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق آرمی اور پولیس میں ایسے تربیت یافتہ افسران موجود ہیں جو پشتون علاقوں میں امن و امان کی بحالی کی خاطر ،طالبان کے خلاف نبرد آزما ہیں۔یقیناًان کی وفاداری،فرض شناسی اور قابلیت کا معیار اعلیٰ ترین درجے کا ہے۔

نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ2010ء جو کہ غریب صوبوں کو ریاست کی جانب سے محصولات کی ادائیگی میں متوازن کردار ادا کرتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت،سیاسی عمل اور وفاقیت کے تقاضے لچکدار ہونے کی وجہ سے حالات کے ساتھ سمجھوتا کر چکے ہیں۔ان خصوصیات کی بنیاد پر پرکھا جائے تو اسے صومالیہ،افغانستان یا کانگو کی طرح کی ناکام ریاستوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔

اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پاکستان خطرات کے چنگل سے نکل چکا ہے۔کچھ عناصر آکاس بیل کی طرح اس کی کھوکھلی شاخوں سے چمٹے خون چوس رہے ہیں اور وہی اپنی بقا کے لیے واویلا بھی مچاتے نظر آتے ہیں۔امریکہ اور ہندوستان دونوں اگر مل کر ریشہ دوانیاں کریں تب بھی گمان یہی ہے کہ یہ ملک مستحکم رہے گا تاہم اگر یہ ریاست ٹوٹتی ہے تو اس کے پیچھے اسلامی انتہا پسندوں کا ہاتھ پھر بھی نہیں ہوگا بلکہ جنوبی ایشیا میں جو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں وہ اس ملک کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔

گو کہ دہشتگرد گروہ پاکستان بھر میں پھیل چکے ہیں لیکن2010ء میں ان کی بھرپور پشت پناہی کی وجہ سے یہ عناصر صرف پشتون علاقوں میں اثر پذیری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم یہ بھی صرف تمام آبادی کا بمشکل5فیصد سے بھی کم تناسب بنتا ہے۔یہ پہلی بار ملک کو ایک خود ساختہ انقلاب کی لپیٹ میں لینے کی کوشش نہیں تھی،انگریز حکمرانوں کو بھی برصغیر پر حکومت کے دوران پشتون علاقوں میں ایسی بغاوتوں کا سامنا رہا اور انہوں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا تھا کہ باغی ہندوستانی سلطنت میں دور دراز تک پھیل جائیں گے۔

پاکستان میں کسی قومی انقلاب کی کامیابی کا دارومدار لاہور اور کراچی جیسے شہری آبادی کے اہم مراکز کی شمولیت پر منحصر ہے اورظاہر ہے یہ پنجاب اور سندھ کی حمایت کے بغیر ناممکن ہے ۔لیکن یہ صورت حال ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی،خاص طور پر ماحولیاتی بحران شہروں میں سیلابوں کی صورت میں دہقانوں اور کسانوں کو فاقے سے مار سکتا ہے۔

جب دہشتگرد انڈیا پر حملہ کرتے ہیں یا مغربی اتحادی افغانستان پر چڑھائی کرتے ہیں تو جبلی طور پر یہ پاکستان کے لوگوں کی ہمدردی کا باعث بنتا ہے، اس کی وجہ اسلامی انتہا پسندی نہیں ہوتی بلکہ مسلم قومیت کا نعرہ اور امریکہ کی جانب سے مسلم دنیا کے خلاف معاندانہ رویہ ہوتا ہے۔پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے کسی عوامی تحریک کو لوگوں کی ہمدردی حاصل نہیں ہوئی، تاہم انڈیا یا امریکہ کے حملے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تو پھر عوام کا رد عمل ہمدردانہ نظر آئے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کی گردن زنی کرنے پر تل جائے اور یقیناًبڑے پیمانے پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے مخالفوں کو تو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے لیکن اپنوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔

پاکستان میں2009سے 2010کے دوران دہشت گردی کے پھیلاؤ سے غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستانی طالبان کا پھیلاؤ ان کی طاقت پر نہیں بلکہ کمزوریوں پر دلالت کرتاہے۔ کیونکہ اگر آپ کسی ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو شہر کی سڑکوں پر ایک بڑی تحریک چلانا پڑے گی۔ بڑے بڑے اداروں کو بند کرنا پڑے گا،گوریلا جنگ لڑنا ہوگی یا فوج کی نچلی سطح کے جوانوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔پاکستانی طالبان نے جب وفاق کے ماتحت رہنے والے قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کے زیادہ تر علاقے کو اپنے تسلط میں لیا ،بعد ازاں سوات اور بونیر کے اضلاع بھی اس میں شامل کرلیے گئے،وہاں طالبان عوام کو محض ڈراتے اور دھمکاتے، یہاں تک کہ جب وہ بازاروں اور مساجد میں عام لوگوں کا خون بہا رہے تھے تب بھی عوام یقین کرنے پر تیار نہیں تھے۔

پاکستان کے حالات کا ایران کے1970ء کی دہائی کے اسلامی انقلاب یا1917ء کے روسی انقلاب سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔تمام تر حقائق کے باوجود پاکستان کی فوج اور اس کے تربیتی ادارے اصولوں کے پابند ہیں اور وہ کسی بھی طرح کے حالات سے نمٹنے کا فن جانتے ہیں۔ سوات اور جنوبی وزیرستان میں2009 میں طالبان کا صفایا کرکے اس بات کو ثابت بھی کیا جا چکا ہے۔چند افریقی اور دوسرے ممالک کی مثالوں کے برعکس پاکستان میں آنے والے فوجی انقلابات کو تمام فوج کی حمایت حاصل تھی اور چیف آف اسٹاف اور دیگر جرنیلوں کی باہمی مشاورت سے کارروائی عمل میں لائی گئی۔جونیئر افسران نے کبھی بھی اپنی طرف سے انقلاب لانے کی کوشش نہیں کی۔

افواج پاکستان کے ڈسپلن یا اتحاد کو صرف اخلاقی یا جذباتی انحطاط ہی پارہ پارہ کرسکتا ہے اوریہ تب ہی ممکن ہے جب انہیں پاکستان کے دفاع اور اسلام کی عزت اور ناموس کی خاطر اپنے کمانڈروں سے لڑا دیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ملکی سا لمیت کو خطرہ تب ہی درپیش ہوسکتا ہے جب امریکی فوج پاکستان کے کسی حصے پر چڑھ دوڑے اور فوج کی کمان مزاحمت کا حکم دینے میں پس و پیش سے کام لے۔ پاکستان کی ریاست تو پہلے ہی واشنگٹن کے مطالبات کی زد میں ہونے سے اخلاقی مسائل سے دوچار ہے ایسی صورت میں ملک خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے لیکن یہ عمل کسی ایسے انقلاب کی نوید ثابت نہیں ہوگا،جیسا کہ ایرانی قوم نے ملک بھر میں قومی انقلاب برپا کرکے کامیابی حاصل کی۔

میں اس کتاب کی وساطت اور مضبوط دلائل کی روشنی میں زور دوں گا کہ حالات کیسے ہی اشتعال انگیز کیوں نہ ہوں، امریکہ کو پاکستان کی سا لمیت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے باوجود اس کے کہ ملکی افواج، ریاست اور پاکستان کی اکثریتی آبادی افغان طالبان کے خلاف ایک خاص حد سے بڑھ کر مدد فراہم نہ بھی کرے کیونکہ پاکستان کے زمینی حقائق،القاعدہ اور پاکستانی طالبان کو مختلف تناظر میں جانچنے کے متقاضی ہیں۔

پاکستان،افغانستان اور طالبان

مغرب اور باقی دنیا کی نظر میں اس خطے میں پاکستان کا وجود نہایت اہمیت کا حامل ہے، افغانستان کا درجہ کہیں بعد میں آتا ہے۔ پاکستان کی آبادی180ملین ہے۔ آبادی کے تناسب سے یہ افغانستان اور عراق سے6گنا بڑا ہے۔ ایران کی آبادی سے دوگنا اور تمام عرب دنیا کی آبادی دو تہائی کے برابر ہو تو پاکستان کی آبادی کے مقابل آتی ہے۔پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نقل مکانی کرکے برطانیہ اور یورپی یونین کے دیگر ممالک میں آباد ہو چکی ہے۔ ان میں سے کچھ نوجوان انتہا پسند گروہوں کے فلسفے سے بھی متاثر ہوئے کیونکہ ان کی برطانیہ کے خلاف دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔

برطانیہ،امریکہ اور یورپ میں مختلف دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث ان شرپسندوں کا پاکستان کے دہشتگرد گروپوں سے تعلقات کی نشاندہی میں پاکستان کے خفیہ اداروں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ دہشتگردی کی اس جنگ میں پاکستان محتاط انداز میں حصہ لے رہا ہے اور یقیناًاس کا کوئی نعم البدل بھی موجود نہیں ہے۔ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ بالآخر اپنی سرزمین پر اس دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے مسلمان حکومتیں اور سکیورٹی کے ادارے ہی میدان میں رہ جائیں گے۔ اس معاملے میں مغربی دباؤ کی سمت کا تعین بھی ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی حکومتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور اپنے عوام کی نظروں میں بھی گر جائیں۔

ایٹمی قوت اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کا شمار ایشیا کی بڑی طاقتوں میں کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں افغان طالبان پر دباؤڈالنے کے لیے امریکہ کبھی پاکستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا،کیونکہ پینٹاگون اور پاکستان عرصہ دراز سے ان معاملات کو سمجھ چکے ہیں۔مغرب اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ اس ملک پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے اقتصادی دباؤ اور اپنی فوجوں کی واپسی کی دھمکی ہی کارگر ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اگر پاکستان اقتصادی طور پر ناکام ہو جاتا ہے تو پھر یہ ریاست طالبان اور القاعدہ کے رحم و کرم پر ہوگی۔

1947ء میں آزادی ملنے کے بعد سے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں اس قدر تنوع دیکھنے میں نہیں آیا جتنا9/11 کے بعد حالات نے نیا رخ اختیار کیا ہے۔پاکستان کے ہندوستان کے متعلق تحفظات اور افغانستان کے اندر امریکیوں کی مدد کے حوالے سے شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔ایک طرف امریکہ کو انڈیا کا اتحادی ہونے کی وجہ سے مشرف حکومت کو افغانستان میں امریکہ کی مدد کے لیے فوج اور عوام کو قائل کرنے میں حقیقی دشواری کا سامنا تھا، دوسری جانب انڈیا کی دشمنی کی وجہ سے فوجی دستوں اور رسد کو مشرقی سرحدوں سے ہٹا کر طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے مغرب میں تعینات نہ کرنے کی بھی معقول وجہ تھی۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عرصہ دراز سے یہ خیال پال رکھا تھا کہ طالبان کے خلاف مدد فراہم کرنے سے وہ اس سودے بازی کی پوزیشن میں ہوں گے کہ امریکی دباؤ کے زیر اثر انڈیا سے کشمیر کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ طے پا جائے۔ لیکن یہ امید بھی اس وقت دم توڑ گئی جب بش انتظامیہ اور اوباما انتظامیہ دونوں نے ثالثی سے انکار کردیا اور امریکہ کا واضح جھکاؤ انڈیا کی طرف نظر آیا۔اس صورتحال نے ہمیشہ کی طرح امریکہ کی بے اعتنائی پر مہر تصدیق ثبت کردی۔

افغان طالبان کے خلاف پاکستان کی مغربی ممالک کی محدود مدد کے پیچھے دو محرکات کارفرما ہیں۔ ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت بشمول افواج جذباتی وابستگی کے تحت یہ سمجھتی ہے کہ طالبان بیرونی حملہ آوروں کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے خلاف لڑنے میں حق بجانب ہیں اور یہ1980ء میں سویت یونین کے خلاف مجاہدین کی جنگ کا ہی تسلسل ہے۔

دوسرا اہم اور عسکری محرک ہے جس نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو افغانستان کے معاملے میں تذبذب کی کیفیت سے دو چار کر رکھا ہے۔اس میں سب سے اہم خطرہ غیر پشتون قومیتوں کا انڈیا کے زیر اثر کام کرنا ہے جس نے اطراف سے پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کر رکھے ہیں۔مصدقہ ذرائع سے اس کی تصدیق بھی ہو چکی ہے کہ پاکستانی بلوچستان کے قوم پرست باغیوں کی افغانستان میں سے انڈیاباقاعدگی سے پشت پناہی کررہا ہے اور طرفہ تماشا دیکھیے کہ پاکستانی طالبان کو مدد فراہم کرنے میں بھی اس کا ہاتھ کار فرما ہے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ افغانستان میں صرف افغان طالبان ہی پاکستان کے ہمدرد ہیں۔ اس لیے صرف ان کے ساتھ ہی قریبی تعلق استوار ہونا چاہیے۔حالیہ دنوں میں تو یہ بات بھی زور پکڑ رہی ہے کہ مغربی اتحادی افغانستان میں ناکام ہو چکے ہیں۔نتیجتاً وہ واپس جانا چاہتے ہیں اور جیسا کہ1989-92 میں کمیونسٹ انقلاب کو ناکام کرنے کے بعد روسی افواج کا انخلاء ہوا تو خانہ جنگی پھوٹ پڑی ،اسی طرح اب پھر علاقائی طاقتوں کے مابین مفادات کی جنگ ہوگی ،چنانچہ پاکستان کو بھی سوچ سمجھ کر موزوں اقدامات کرنا چاہئیں۔

حسن اتفاق سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ افغانوں کے شمالی اتحاد کے لیڈروں کی نسبت افغان طالبان کو اخلاقی طور پر اتنا برا نہیں سمجھتی، حالانکہ مغرب نے ان سے2001ء سے یارانہ گانٹھ رکھا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں ان کی سنگ دلی اور زنا بالجبر کے واقعات کی وجہ سے پٹھانوں کی جانب سے طالبان کی حمایت میں اضافہ ہوا۔2001ء میں طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد شمالی اتحاد کے حامیوں نے جیلوں میں بند قیدیوں کا قتل عام کیا اور مغربی حکومتوں کی جانب سے ملنے والی امداد کو لوٹ لیا اور ہیروئن کے کاروبار کے حوالے سے بھی مغرب کو ان کے کردار سے خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ پاکستان کے اکثریتی لوگوں نے افغان طالبان کے انقلاب کی اپنے ملک میں نفاذ کی کبھی حمایت نہیں کی۔ چنانچہ پاکستان کا افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے معاملے میں فرق واضح ہو جاتا ہے۔ پاکستان افواج یا اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانی طالبان کو حکومت کو کمزور کرنے کا کبھی کوئی موقع فراہم نہیں کیا اور ابھی تک ان کے خلاف سنجیدہ قدم نہ اٹھانے کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہیں حکومت کیلئے کوئی خطرہ ہی نہیں سمجھا گیا۔ عموماً اسے پختون سرکشی سے تشبیہ دی جاتی ہے جسے بات چیت یا معمولی طاقت کے استعمال سے کسی وقت بھی قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ انہیں بھٹکا ہوا بھی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہی لوگ دوسری جانب افغانستان کے جہاد میں بھی شریک ہیں اور یہی وہ عناصر ہیں جن سے انڈیا کے خلاف جہاد کشمیر میں بھی کام لیا گیا۔

2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جب اسٹیبلشمنٹ نے انہی طالبان کو ریاست کے لیے حقیقی خطرہ محسوس کیا تو ان کے خلاف فعال اور شدید عملی قدم اٹھاتے ہوئے انھیں پیچھے دھکیل دیا۔پاک فوج کی سوات اور جنوبی وزیرستان میں فتوحات کے بعد یہ سوال حل طلب ہے کہ کیا پاکستانی طالبان کی مزید مزاحمت برداشت کی جاسکتی ہے(امریکی مزاحمت یا انڈیا کے حملوں کا اس پس منظر میں دفاع کیسے ممکن ہے) لیکن جب افغان طالبان کے خلاف لڑنے کا سوال آتا ہے تو افغانستان میں مغربی مفادات کو دیکھتے ہوئے فوج کا رد عمل اثبات میں نہیں ہوگا۔

ہیں کوا کب کچھ

افغانستان کی جنگ میں ہونے والے تباہ کن اثرات کے باوجود پاکستان کا وجود قائم رہے گا۔ 1971ء میں ملک کے دولخت ہونے کے مضمرات اور حالات کے پس منظر میں آج کے پاکستان کا مستقبل تلاش کرنا کسی طور بھی درست نہیں کیونکہ ماضی کے متحدہ پاکستان کے متعلق تاریخ کا طالب علم یہ جانتا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان دو مختلف نسلی اور ثقافتی اکائیوں کے امین ہونے کے علاوہ ان کے درمیان1000میل کی خلیج بھی حائل تھیجو انڈیا کے رحم و کرم پر تھی۔ تمدنی اور لسانی مسائل بھی اسی تفریق کا مظہر ہے۔سانحہ یہ نہیں کہ ملک چل نہیں سکا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اتنے خون خرابے کی بجائے پرامن اور مہذب طریقے سے علیحدگی عمل میں آجاتی تو بہتر ہوتا۔

اس کے برعکس مغربی پاکستان ہر لحاظ سے ایک قدرتی ڈھانچے کے طور پر جڑا ہوا ہے۔تاریخی طور پر مشترکہ ماضی ہے، نسلی ہم آہنگی بھی انگریز دور سے پہلے کی ہے۔موجودہ پاکستان کا وجود بنگلہ دیش بننے کے تقریباً38سال کے بعد بھی قائم ہے جبکہ متحدہ پاکستان میں مشرقی پاکستان کا صرف24 سال تک کا ساتھ رہا۔

یہ سچ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں1933ء میں برطانیہ میں زیر تعلیم ایک طالب علم رحمت علی نے ایک مسلم ریاست کا خاکہ ترتیب دیا تھا۔ انگریز حکومت کے شمال مغربی حصے میں پنجابی، پٹھان، کشمیری، سندھی اور بلوچستان کے لوگوں پر مشتمل پاکستان کے نام سے ایک نئے ملک کی ساخت بنی۔اردو زبان میں پاک کا مطلب’’پاکیزہ‘‘ ہے یعنی پاکستان سے مراد’’پاکیزہ لوگوں کا مسکن‘‘ ہے۔

پاکستان کے نام کے پس منظر اور تخلیق کی روشنی میں بھی جائزہ لیا جائے تو ماضی کی اس ریاست میں مشرقی بنگال کی مسلم ریاست کا کہیں ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی پاکستان کے نام میں بنگالیوں کا جزو دکھائی دیتا ہے۔ اگربہ نظر عمیق جانچا جائے تو1947ء میں عمل آنے والی1000میل کی دوری پر دو حصوں پر مشتمل یہ ریاست مکمل طور پر بعید از قیاس اور ناقابل عمل دکھائی دیتی ہے۔

مغربی پاکستان میں پنجابیوں اور پٹھانوں کی اکثریت نے کبھی بھی مشرقی حصے کے بنگالیوں کو محب وطن یا اصل مسلمان تسلیم نہیں کیا اور نہ نسلی طور پر وہ انگریز کے لیے کسی تعصب کا باعث بنے بلکہ اس کے برعکس گروہی حوالے سے بھی وہ غیر متحرک ہی رہے جبکہ پٹھانوں اور پنجابیوں کو تو انگریز جنگجو تصور کرتا تھا۔

پاکستان کی سرکاری زبان اردو کا تعلق کسی مقامی زبان سے نہیں۔ اس کا لفظی مطلب ہے ’’لشکر‘‘۔ یہ ایک ترک لفظ ہے جس سے مراد’’لشکر کا پڑاؤ‘‘ ہے۔ ازمنہ وسطیٰ میں برصغیر کی مسلمان افواج نے اس کی بُنت کی داغ بیل ڈالی۔یہ مقامی ہندوستانی،فارسی اور ترک الفاظ کا آمیزہ ہے۔بنگال کے مسلمان اردو سے ہمیشہ دور رہے۔ موجودہ پاکستان کی اکثریتی آبادی بھی یہ زبان نہیں جانتی تھی تاہم مغلیہ سلطنت میں دہلی،آگرہ،لکھنو،بھوپال اور حیدر آباد اس کے مراکز تصور ہوتے تھے۔اردو پاکستان کی سرکاری زبان کے طور پر نظام تعلیم،قومی اخبارات،فلمی صنعت میں مروج ہے یا پھر وہ مہاجرین اپنے گھروں میں بولتے ہیں جو1947ء میں نقل مکانی کرکے پاکستان آئے۔ ان کا تناسب پاکستان کی آبادی کا صرف7 فیصد بنتا ہے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ موجودہ پاکستان میں1947ء سے1971ء کا ملک کسی مصنوعی ساخت کا حامل تھا۔یہ جغرافیائی اکائی تو صدیوں پرانی ہے۔ اس میں وادی سندھ،پہاڑوں کے سلسلے،اطراف میں صحرا اور دلدلیں پھیلی ہوئی ہیں۔یقیناًپاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کا ایک فطری اور منطقی استدلال موجود ہے۔مزید برآں پاکستان میں بسنے والی مختلف نسلیں صدیوں سے اکٹھی رہ رہی ہیں اور بحیثیت مسلمان بھی وہ سینکڑوں سالوں سے ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اکثر اوقات یہ خطہ ایک ہی سلطنت یا خاندان کے زیرنگیں رہا۔

علاقائی سوچ بھی سیاسی عمل کے زیر اثر پروان چڑھی ہے ۔مثلاً2008ء کے انتخابات میں پنجاب سے پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کمی اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگ جیسی جماعت کی دیگر صوبوں میں ناکامی اس بات کا بین ثبوت ہے۔پاکستانی قوم اپنی شناخت کے حوالے سے مختلف پرتوں میں پوشیدہ ہے۔صرف اسلام پرستوں یا فوج کو اس معاملے میں استثنیٰ حاصل ہے جو اپنی علیحدہ پہچان رکھتے ہیں۔ناروے کی ایک کمپنی میں ملازم لاہور سے تعلق رکھنے والے علی حسن کا کہنا ہے کہ:

’’اگر مجھے کسی انقلابی پروگرام کو روشناس کرانے کا موقع ملے تو معلوم ہے کیا رد عمل سامنے آئے گا۔سب سے پہلے دوسرے صوبوں کے لوگ کہیں گے کہ ہم اسے نہیں مانتے۔یہ پنجابی ہے،پھر بہت سے پنجابی کہیں گے ہم اس کی کیوں سنیں یہ تو جاٹ قوم سے تعلق رکھتا ہے اور جاٹ یہ کہہ کر حمایت سے انکار کردیں گے کہ یہ تو فلاں برادری کا نمائندہ ہے۔میرے اپنے گاؤں کی آدھی آبادی یہ کہہ کر مخالفت پر اتر آئے گی کہ میرے دادا نے ان کے بزرگوں کے ساتھ زمین کے معاملے پر جھگڑے مول لیے۔اگر آپ اسلامی انقلاب کی تبلیغ کریں گے تو تب بھی زیادہ تر پاکستانی آپ کی ایک نہیں سنیں گے کیونکہ وہ متعدد مکاتب فکر سے وابستہ مختلف علماء کے پیروکار ہیں۔ انہیں کوئی مخصوص انقلاب متحد نہیں کرسکتا کیونکہ ان کے لیے کسی ایک چھتری کے نیچے اکٹھا رہنا انتہائی مشکل ہے‘‘۔

آج تک یہی دیکھا گیا ہے کہ ملک کی اکثریتی آبادی کو کسی مذہبی،نسلی یا سیاسی بنیاد پر اکٹھا کرنے کیلئے ہر کوشش بالآخر برادری کے مشترکہ فیصلے کے تحت ہی کامیاب ہوئی اور یہ نتیجہ خاندان کی سیاسی وابستگی یا ریاستی سرپرستی کے رجحان کے تحت عمل میں آتا ہے۔پاکستان کا یہ سیاسی نظام برادری کے سرپرستانہ عوامل کی وجہ سے انتہا پسندی سے دور رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ فوجی اور سیاسی حکومتیں بھی اسی نظام میں اپنی بقا سمجھتی ہیں۔

کمزور ریاست مضبوط سماج

اس کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مغرب اور پاکستان کے تجزیہ نگاروں کی رائے کے برعکس ملک کی عوامی اور فوجی حکومتوں میں اختلافات کی خلیج اس قدر گہری نہیں جتنی دکھائی جاتی ہے۔ یہ ایک بنیادی سیاسی حقیقت ہے۔پاکستان کی ریاست جو ہر اول دستے کی دعوے دار ہے، بنیادی طور پر کمزور ہے جبکہ مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھیں تو معاشرہ ہر لحاظ سے طاقت ور ہے۔ کوئی بھی گروہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر حکومت کی سرپرستی اور حمایت حاصل کرسکتا ہے اور اس طرح حکومتی اداروں اور قانون کو اپنے مفادات کی خاطر ہموار کرلیتا ہے ۔یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ کل آبادی کا محض ایک فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور امیر ترین زمیندار ٹیکس کی مد میں پھوٹی کوڑی بھی سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتے۔

حکومت کی کمزوری کا تسلسل برقرار رہتا ہے کیونکہ وہ اپنی بقا کے لیے برادری کے مروجہ نظام کی سرپرستی جاری رکھتی ہے۔مغرب کے لیے کسی حد تک اس پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ حکومتی ذرائع کی خدمات کے فقدان کے باوجود گاڑی چلی جارہی ہے۔ مثلاً کوئی ایجنٹ اپنی ذاتی منفعت کی خاطر کئی لوگوں کی زندگیوں کی پروا نہیں کرتا،چاہے اس کا کوئی خطرناک نتیجہ ہی کیوں نہ نکلے۔پولیس،جج صاحبان اور سرکاری افسران کی موجودگی ایک ریاست کا پتہ دیتی ہے۔ وہ اکثر اوقات کام میں مصروف رہتے ہیں اور بعض اوقات سست روی اور کاہلی کا شکار بھی نظر آتے ہیں،چاہے یہ سب کچھ اپنی ذات کے لیے کیا جاتا ہے یا حکم کی بجا آوری،طاقت کے نشے،نیک نامی اور بعض جگہ پر پیسے بٹورنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔

انیسویں صدی میں برطانوی کالونی کے ایک ماہر افسر سرتھامس میٹکاف نے شمالی انڈیا کے روایتی گاؤں کو ایک ایسی چھوٹی جمہوریت یا ریپبلک قرار دیا ہے جہاں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ ہے۔اپنے معاملات خود حل کرتے ہیں اور خراج یا محصولات کی مد میں اتنا ہی دیا جاتا ہے جس قدر حکومت ان سے زبردستی حاصل کرسکتی ہے۔ سالہا سال گزرنے کے بعد اس آزادی میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اگر مغربی معاشرے سے تقابل کیا جائے تو اب بھی کئی مقامات پر خاصا کام کرنا باقی ہے۔ اور یہ محض گاؤں کی حد تک ہی نہیں خاص طور پر معاشرے میں بھی تبدیلی کی گنجائش موجود ہے تاہم خاندانی اکائیوں پر استوار یہ معاشرہ مضبوط ہے اور اس کے لیے ان کی وفاداری ہر شک سے بالاتر ہے۔

جنوبی ایشیا کے دیگر لوگوں کی طرح پاکستان میں بھی ایسی برادریاں ہیں جو ایک دوسرے کی رشتہ دار نہ ہونے کے باوجود محبت،ذمہ داریوں اور ایک دوسرے کی مدد یا حفاظت کی خاطر یا ایک ہی زبان کی وجہ سے قریب آگئی ہیں۔ ایسی براد ریاں جو مختلف مذہبی اور جمہوری اقدار کا ملغوبہ ہو چکی ہیں، کی مثال میں شمالی ہندوستان کے ایک سادے سے شخص کو پیش کیا جاسکتا ہے جو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے مخاطب کو’’بھائی صاحب‘‘ کے لقب سے پکارتاہے۔

برادری کا نظام پاکستانی ریاست کی کمزوری ہے لیکن اپنے طبقے کے لوگوں کے ساتھ رشتے کی وجہ سے یہی کمزوری طاقت کا باعث بھی ہے۔کیونکہ دیہات سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نہ صرف اپنے مال و دولت بلکہ اپنے قوم اور قبیلے پر بھروسہ کرتی ہے کیونکہ یہی برادریاں،جاگیر داروں اور دوسرے شہری آقاؤں کے اقتدار کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

طبقاتی حوالے سے اپنی برادری کے لوگوں کے لیے اشرافیہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نچلی سطح تک سرپرستانہ رویہ اختیار کرے۔ اس طرح برادری بھی ان کے لیے نرم گوشہ اختیار کرتی ہے۔ گنی کی شرح Gini co-efficient) ( کے مطابق برادری کا یہ نظام بھی کسی حد تک پاکستان میں سماجی عدم مساوات کا باعث ہے۔ایک اور اہم پہلو برادری ازم بھی ہے۔ برادری کا نظام ایک انقلاب مخالف طاقت کے طور پر جانا جاتا ہے چاہے یہ انقلاب اشتراکی ہو یا اسلامی رنگا رنگی لیے ہوئے ہو، دونوں صورتوں میں کامیابی ناممکن بن جاتی ہے۔

برادری کی اہمیت،مفادات اور تحفظ کی خاطر اجتماعی سا لمیت کے اصولوں کے تحت ہی گہری ہوتی ہے۔ اس کی کمزوری اور مضبوطی کا دارومدار حالات اور رشتوں کے تقدس پر استوار ہوتا ہے۔ جہاں تک مفادات کا تعلق ہے اس کے فوائد واضح ہیں۔ اجتماعی عزت اور باہمی تکریم بنیادی شرط ہے اور جب برادری میں کوئی گروہ خود کو عزت کے پیمانے سے گرا محسوس کرتا ہے تو پھر وہ دوسری راہ تلاش کرلیتا ہے۔اس طرح اجتماعی عزت کو محلوط خاطر رکھتے ہوئے ہی اپنی برادری کی عورت کے کسی غیر سے جنسی تعلقات کے معاملے میں مشترکہ لائحہ عمل اپنا کر سزا دی جاتی ہے غرض اپنے گروہ کی اقتصادی اور سیاسی طاقت اور مقام کیلئے ہر قسم کا کام کیا جاتا ہے۔

برادری ازم ایک ایسا مضبوط ثقافتی نظام ہے کہ اس میں ایک باپ محض اس وجہ سے اپنی پیاری بیٹی کو قتل کرنے کے در پے ہوتا ہے کہ اس نے بغیر اجازت دوسری برادری کے لڑکے سے شادی رچالی یا تعلقات قائم کرلیے تھے۔ اس طرح یہ مضبوطی دیر پا نہیں رہتی جیسا کہ ایلیسن شاAlison Shaw اور دوسرے اسکالرز نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان میں بے انتہا مضبوط اور لچک پذیر برادری کا نظام،انڈیا کی دیگر ثقافتی سرگرمیوں کی طرح برطانیہ کی مختلف اقلیم میں اب بھی وجود رکھتا ہے۔

مسٹر شاء لکھتا ہے۔

’’ملک سے نقل مکانی کرکے آکسفورڈ آنے والے خاندان پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی بہترین غمازی کرتے ہیں کیونکہ ان کو ایک دوسرے کے ساتھ اور قریب رہنے کا چسکا برصغیر میں اکٹھے رہنے سے پڑا۔‘‘

پاکستان میں عام شہری ہو یا سیاستدان یا سرکاری اہلکار، جب ان کی عزت کا سوال پیدا ہو یا برادری کے مفادات کا مسئلہ آئے تو پھر وہ کسی بھی سیاسی وابستگی،ریاست یا اخلاقی حدود کو پس پشت ڈال دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں کرپشن کی وجہ اقدار کا فقدان نہیں جیسا کہ مغربی معاشرے میں دیکھا جاتا ہے بلکہ یہ قوم اور قبیلے کے ساتھ وفاداری کی قدیم روایات کا جزو ہے۔

برادری ازم کی طاقت سیاسی نظام کے ہر زاویے سے عیاں ہے۔اسی طرح جنوبی ایشیا کے زیادہ تر ممالک کی طرح پاکستان کی سیاسی پارٹیوں پر بھی ایک ہی خا ندان کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی پر بھٹو خاندان چھایا ہوا ہے، مسلم لیگ ن پر شریف خاندان مسلط ہے اور صوبہ سرحد میں ولی خان کے خاندان کے افراد عوامی نیشنل پارٹی پر چھائے ہوئے ہیں۔

اسی طرح ان بڑی پارٹیوں کی مانند چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔بے نظیر بھٹو کا بحیثیت خاتون اس قدر سیاسی عروج حاصل کرنا اور وہ بھی مردوں کے پس ماندہ معاشرے میں یہ صرف اسی موروثی اقدار کی وجہ سے ممکن ہوا، اسے پاکستان جیسے معاشرے میں خواتین کے حقوق کی سربلندی کا مظہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ابھی تک کسی حد تک وہ ادارہ جو اپنی حکومت کے ساتھ وفاداری یا قابلیت کا استحقاق منوانے میں کامیاب ہوا ہے صرف فوج ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوا جب انہوں نے اپنے آپ کو ایک بڑے قبیلے کی مانند متحد رکھا،ریاست اور معاشرے کی خاطر ذاتی مفادات کو قربان کیا اور کسی حد تک شمال اور جنوب کے پنجابیوں اور پٹھانوں کی برادریوں اور خاندانوں کو پنپنے میں تقویت دی۔

برطانیہ میں بسنے والے تارکین وطن نے اپنے ملک کی برادری کے لوگوں کی نقل مکانی میں مدد کر کے پاکستان کے شہروں پر آبادی کے دباؤ کو کم کیا ہے۔ چاہے انہوں نے اپنے آبائی خاندانوں میں شادیاں کرکے یہ کام کیا ہے۔ پاکستان میں بھی خاندانی جڑت کی وجہ سے ہی حالیہ دنوں میں شہروں کی جانب ہجرت نے کسی سیاسی ثقافتی تبدیلی یا انتہا پسندی کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ تاہم کراچی کی مثال چند وجوہ کی وجہ سے قدرے مختلف ہے۔

بنیادی طور پر پاکستانی معاشرے میں برادری کی بنت کی وجہ سے کسی جہادی اسلامی گروہ کے انقلاب کی کامیابی کا امکان نہیں۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی بتاتا ہے کہ جب معاشرے میں کھچاؤ اور ہیجان بڑھ جائے تو بہترین معاشرے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔برادری کے نظام کے اہم کردار مضافات سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ،تاجر حضرات، سیاستدان اور قصبوں میں رہنے والے ارباب اختیار ہیں جوسالہا سال سے خاندانوں میں شادیاں رچا کر برادریوں کو مزید وسعت دے رہے ہیں۔

خاندانی شادیوں کے معاملے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح طاقت،سا لمیت اور اعتماد بڑھتا ہے جسے دوسری برادریوں پر حاوی ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔شاء نے50برسوں سے آکسفورڈ میں آکر بسنے والے پاکستانیوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرتے ہوئے بتایا کہ اسے شاید ہی کوئی ایسی مثال نظر آئی جب ان لوگوں نے خاندان سے باہر شادی کی ہو، جبکہ59فیصد لوگوں نے اپنے فرسٹ کزن سے شادی کی۔بریڈ فورڈ میں تو یہ شرح اس سے بھی کہیں زیادہ ہے، کیونکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کاروبار اور پیسے ہی رتبہ بلند نہیں ہوتا بلکہ برادری کی وسعت سے معاشرے میں عزت کا مقام پیدا ہوتا ہے اور یہی وجہ قریبی عزیزوں میں شادی کا باعث بنتی ہے۔ان کے نزدیک پاکستان میں رہنے والے بہن بھائیوں کے بچوں سے اپنی اولادوں کی شادی کرنا عزت اور وقار کا عنصر ہے۔ یہاں براعظموں کی دوری بھی ان کے باہمی رشتوں میں حائل نہیں ہوسکی۔

ان خاندانی گروپوں کی وجہ ہیسے سالہا سال سے پاکستان کی سیاسی زندگی مضبوطی سے اپنی ڈگر پر گامزن ہے۔عوامی حکومتیں فوجی مداخلت کے باوجود آتی جاتی رہیں۔وہی لوگ اور پا رٹیاں حکومت میں ہیں اور نچلی سطح پر بھی یہی لوگ عوام کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں اوریہی کچھ فوج کی آمریت کے تلے بھی نظر آتا ہے۔حکومتوں کی تبدیلی نچلی سطح پر کبھی بھی کسی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ یہ عناصر اپنی برادریوں،گروہوں،وابستگیوں اور وفاداریوں کی جڑیں زیر زمین خاصی گہرائی میں پھیلا چکے ہیں، یہ برفانی گلیشیر آہستہ آہستہ ہی پگھلے گا۔

جاگیرداری

ملک کے مضافاتی علاقوں اور قصبوں میں یہ افراد اتنے طاقت ور نہیں ہیں حالانکہ وہ مختلف خاندانوں کی شکل میں زندگی بسر کرتے ہیں۔انہیں قرونِ وسطیٰ کے یورپی جاگیرداری پیمانے پر ناپا جائے تو یہ اس پر بھی پورا نہیں اترتے۔اگر یہ نظام مغربی معیار پر استوار ہوتا تو شاید نچلے دباؤ اور اوپر سے حکومتی اصلاحات کی وجہ سے غائب ہو چکا ہوتا۔

روایتی یورپین سٹینڈرڈ کو مدنظر رکھیں تو مقامی جاگیردار ایک نہایت چھوٹا زمیندار ہے۔ کیونکہ500 ایکڑ زمین یہاں ایک بڑی جاگیر تصور ہوتی ہے اور اس کی زیادہ تر آمدنی کا دارومدار شہری جائیداد پر منحصر ہے۔بھٹو صاحب کی1970 کی دہائی میں اور ایوب خان کی1950 کی دہائی میں ہونے والی زرعی اصلاحات کی وجہ سے پنجاب کے بڑے زمینداروں کو اپنی زمینوں کے بڑے حصے سے ہاتھ دھونا پڑے۔

شمالی پنجاب سے اٹھنے والے جاگیرداروں کے زیادہ تر خاندان اتنے پرانے نہیں ہیں بلکہ حالیہ برسوں میں نمودار ہوئے ہیں۔یہ لوگ شہری جائیداد کی بنیاد پر یا پھر سرکاری نوکریوں کے دوران کرپشن کے نتیجے میں زمینوں کے مالک بن بیٹھے۔تاہم سیاسی دھارے میں وہ اسی کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کہ پرانے زمینداروں کا خاصہ تھا۔وہ اپنی برادری کی حمایت بھی حاصل کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی کے لیے وہی پرانے حربے آزماتے ہیں۔

پاکستان کے باقی ماندہ جاگیردار اپنی زمین کے بل بوتے پر طاقت ور نہیں ہیں بلکہ اپنے بڑے قبیلوں کے سردار ہونے کی وجہ سے اثر و رسوخ کے حامل ہیں۔دیگر برادریوں کی اشرافیہ بھی ان کی زیر سرپرستی تحفظ محسوس کرتی ہے۔ اس طرح جاگیردار زمیندار قبیلوں میں ضم ہو جاتے ہیں جس سے انہیں نئی طاقت ملتی ہے جو ملک کے مضافات میں سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کا موجب بنتی ہے اور یوں حکومتی سطح پر غلبہ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔

اگر برادری کی سیاسی طاقت صرف سرپرستی تک محدود ہوتی تو پاکستان میں یہ قوت محرکہ وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہو جاتی لیکن اس کی جڑیں’’اجتماعی دفاع‘‘کے پرانے سماجی جبر سے مربوط ہیں۔ سندھ میں ایک سیاستدان زمیندار نے مجھے بتایا اور دوسروں لوگوں کی بھی کچھ ایسی ہی رائے ہے مجھے کتاب کا عنوان منتخب کرنے میں بھی اس سے مدد ملی تھی۔

’’یہ ایک دشوار ترین ملک ہے۔ آپ کو اپنے تحفظ کی خاطر خاندان اور قوم قبیلے سے رابطے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کی مدد درکار ہوتی ہے جو ہمیشہ ساتھ جڑے رہیں اور آپ کے لیے قربانیاں دیں۔ اگر آپ حکومت میں نہ بھی ہوں تو تب بھی یہ لاتعلقی کا اظہار نہ کریں ۔برادری کے لوگ ادنیٰ اشخاص کو بھی طاقت فراہم کرتے ہیں اور ہر جارحیت میں دفاع کرتے ہیں، چاہے ڈاکوؤں سے لڑائی جھگڑا ہو یا عدالت کا معاملہ ہو۔ آپ کی قوم کے احباب جیل سے رہائی دلانے میں مدد کریں گے،عدالت میں آپ کی خاطر جھوٹ بولیں گے اور اگر کسی سے بدلہ لینے کی نوبت آئی تو بھی پیش پیش ہوں گے۔‘‘

انگریز دور سے ہی بلوچ اور پٹھان علاقوں کے باہر شاید ہی کبھی ایسی نوبت آئی کہ کسی قبیلے نے مخالف قبیلے کے خلاف متحد ہو کر ہتھیار نہ اٹھائے ہوں۔شورش پسند علاقوں میں جہاں حکومت رسمی قوانین کا نفاذ کرنے میں بے بس نظر آتی ہے، وہاں مقامی طور پر برادری کے افراد، مخالفین کے خلاف مدد کرنے، لوٹ مار کرنے والوں کا قلع قمع کرنے،پولیس،عدالت اور سیاست میں سیاسی سرپرستی کرنے یا ہراس کام میں جس میں ایک دوسرے کی مدد درکار ہو بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

ریاست کے کمزور پہلو اور برادری کی طاقت ہی ایسے اجزاء ہیں جو شہری طرز زندگی کے ڈھانچے کو استوار کرنے کا باعث ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ کسان شہری زندگی اختیار کرنے کے باوجود اپنی ثقافتی اقدار سے جڑا رہتا ہے اور اندرونی طور پر اپنی برادری کے رشتوں کو ترک نہیں کرتا اور گردونواح کے معاملات میں بھی اسی وجہ سے اپنے گروہ کی مدد کا خواستگار رہتا ہے۔

یقیناًبرادری کی طاقت جبر کا راستہ روکنے کے لیے ضروری ہے۔ اور اس طرح حکومت کو بھی یہی رویہ اپنانے کی ضرورت ہے جیسا کہ برادریاں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے حکومت ،طاقت،پیسہ اور دوسری برادریوں اور گروہوں پر غلبہ پانے کے لیے ریاست کے اداروں کو کام میں لاتی ہیں ۔موجودہ قانونی نظام کے حوالے سے چند سطور درج ہیں:

’’ہائی کورٹ کی سطح سے نیچے ہر جگہ کرپشن کا بازار گرم ہے۔ نہ تو حقائق اور نہ ہی قوانین آپ کو انصاف دلوا سکتے ہیں۔ صرف ایک بات قابل یقین ہے کہ ایسے لوگوں سے آپ کے مراسم ہوں جن کا اثرورسوخ کام آسکتا ہو اور مزید برآں پتا ہو کہ پیسے کہاں خرچ کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔‘‘

چنانچہ پاکستانی برادریوں کے گروہ اور ریاست صدیوں کا سفر طے کرکے یہاں تک پہنچے ہیں اور فطرت نے انہیں ایک دوسرے کے لیے موزوں بنا رکھا ہے۔

مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ایک طرف تو برادریوں کی طاقت ہے جس نے اشرافیہ کے کردار کو مضبوط کیاہے اور اسی وجہ سے پاکستان کی بقا مضبوطی سے قائم ہے لیکن دوسری جانب اپنی برادری کی سرپرستی کے حوالے سے اسی اشرافیہ نے ریاست کے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے جس سے ملک کی ترقی متاثر ہورہی ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستانی آبادی کا اقتصادی اور سماجی طور پر متحرک طبقہ کم و بیش ان لوگوں پر مشتمل ہے جسے اپنی منفرد ثقافتی روایات اور اپنے طبقے سے دوری کو ہجرت کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ان میں کراچی کے مہاجرین شامل ہیں جو1947ء میں ہندوستان سے وارد ہوئے اور مزید اہم وہ پنجابی ہیں جو1947ء کے خوفناک موسم گرما میں مشرقی پنجاب سے بھاگ کر آئے اور اب پنجابی قومیت کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ایک اور چھوٹا مگر اہم طبقہ بلوچستان میں ہزارہ قبیلے کی صورت میں موجود ہے جو انیسویں صدی کے آخر میں افغانستان سے بھاگ کر آئے تھے ۔درمیانی طبقے سے وابستہ یہ پڑھے لکھے لوگ اپنے اردگرد موجود جمود میں ایک خوبصورت رنگا رنگی لیے ہوئے ہیں۔

پاکستان کس طرح چلتا ہے

زیر مطالعہ کتاب کا اصل نام’’پاکستان کس طرح چلتا ہے‘‘ تھا اور اس کے پیچھے وہ خیالات کارفرما تھے جو مغرب میں محسوس کیے جاتے ہیں یعنی وہ مبہم مگر اپنی مثال آپ ایسا نمونہ جو اس ملک کے قیام کا باعث ہے۔کیونکہ بعض دفعہ یہ بھی سننے میں آیا کہ یہ ایک ناکام ریاست ہے۔یہ اصطلاح دراصل افریقہ کے ایسے صحرائی ممالک کے متعلق وضع کی گئی تھی جو واقعی ناکامی سے دوچار تھے یا پھر ناکام ریاست بن چکے تھے۔اس کے بعد یہ اختراع دنیا کے مختلف ممالک کے متعلق بے دریغ استعمال ہونے لگی اور اس کے پیچھے یا تو لکھاریوں کا تعصب یا بدگمانی شامل ہوتی یا پھر شہ سرخیوں کے لیے سنسنی خیز مواد چاہیے ہوتا تھا۔

اس حوالے سے پاکستان کو جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھنا نہایت معلومات آفرین ہوگا۔ یہاں تمام ریاستوں پر گزشتہ ایک نسل سے انتہا پسندی کے گھناؤنے بادل منڈلاتے رہے ہیں۔ ان میں سے افغانستان اور نیپال نے بمشکل جان چھڑائی ہے۔سری لنکا اور برما کو بھی لمبے عرصے تک بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ان ملکوں کو پاکستان کی نسبت زیادہ سانحات پیش آئے اور نسبتاً بہت زیادہ علاقہ دہشتگردی کی لپیٹ میں رہا۔

اس خطے کی ایک بڑی طاقت انڈیا ہے جہاں پڑوسی ممالک کے مقابلے میں جمہوریت زیادہ مضبوط ہے مگر اسے بھی ملک کے کئی حصوں میں مسلسل بغاوتوں سے نمٹنا پڑا اور ان میں سے بعض تو کئی نسلوں تک جاری رہیں۔خصوصاً ماؤ باغیوں کی سرگرمیوں نے تو انڈیا کے ایک تہائی اضلاع کو متاثر کیا اور انھوں نے نہایت بہتر انداز میں ملکی مضافات پر اپنا تسلط قائم رکھا اور یہ رقبہ بھی پاکستانی طالبان کے زیر تسلط رہنے والے علاقے سے بہت زیادہ تھا۔ستمبر2006ء میں ہندوستان کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے خود اعتراف کیا کہ اتنی بڑی انتہا پسندی سے ملک کو پہلے کبھی پالا نہیں پڑ ا۔ انڈیا اس جنگ میں اپنی جدوجہد میں کمزور پڑتا جارہا ہے۔حالیہ دنوں میں ایک ہندوستانی صحافی کی کتاب منظر عام پر آئی ہے جس میں وضاحت سے لکھا گیا ہے کہ ملک کی کئی مضافاتی ریاستوں میں عملاً حکومت کا تسلط ختم ہو چکا ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ انڈیا جلد ٹوٹنے والا ہے۔ تاہم ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ جنوبی ایشیا کی ریاستوں کی اپنے ملک کے زیادہ تر حصوں پر روایتی حوالے سے مکمل دسترس نہیں ہے اور کہیں نہ کہیں انہیں عسکری مزاحمت کا سامنا ہے۔ازمنہ وسطیٰ میں یورپ میں بھی جنوبی ایشیا کی طرز پر ایسی بالواسطہ حکومتیں تھیں جنہیں سرکاری عہدیداروں کی بجائے مقامی جاگیردار اور قبائلی سردار چلاتے تھے اور وہ محض اس بنا پر بادشاہ، شہزادوں اور سلطان کے خلاف اکثر علم بغاوت بلند کردیتے کہ ان کی عزت ناموس کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں اور فیاضی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ اس طرح کچھ لحاظ سے آج کی دنیا کا پاکستانی زمیندار پندرھویں صدی کے برطانوی اشرافیہ کے قریب تر ہے۔

انگریزوں نے دنیا کو ایک جدید ریاستی نظام سے متعارف کرایا جو اَب وہاں اپنا لوہا منوا چکا ہے، تاہم برطانوی نظام کسی حد تک بالواسطہ تھا۔ انگریز کے دور حکومت میں ہندوستان کا 2/5 علاقہ خود مختار شہزادوں کے زیر نگیں تھا جو ملکہ یا بادشاہ کی سرپرستی مانتے تھے مگر انگریز کی ماتحتی میں اپنی ریاستوں کے خود ذمہ دار تھے۔ وہ علاقہ جو براہ راست برطانوی راج کے ماتحت تھا وہاں بھی مقامی اشرافیہ،مالکان اور سرداروں کے مسلسل تعاون کے بغیر حکومت ناممکن تھی۔جواباً یہ لوگ بھی اپنے مزارعین اور مزدوروں کے لیے مراعات کے دعوے دار ہوتے جس طرح کہ آج پاکستان اور ہندوستان کے بعض حصوں میں مقامی ارباب اختیار ڈاکوؤں کے گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے اردگرد پھیلی پرانی خاندانی رقابتوں کے معاملات میں ان سے مدد لے سکیں۔

جب پاکستان کا کینیڈا اور فرانس کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو لامحالہ ناکامی ہی دکھائی دیتی ہے لیکن جب انڈیا،بنگلہ دیش،افغانستان،نیپال اور سری لنکا کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو پھر حالات اتنے خوفناک نہیں لگتے۔در حقیقت پاکستان کے بہت سے معاملات برصغیر کی بنیادی نفسیات کا حصہ ہیں، مثلاً پارٹیوں میں موروثیت کا عنصر،پولیس کے ذریعے دھونس دھاندلی کروا کر حاکمیت قائم کرنا،دفتری معاملات میں بدعنوانی اور رشوت ستانی سے لے کر آئے روز کے جرائم اور جھگڑے حتیٰ کہ ملک کے مختلف حصوں میں لاقانونیت اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو کئی لحاظ سے پاکستان کا ملک انڈیا سے ملتا جلتا ہے اور اسی طرح انڈیا بھی پاکستان ہی کی طرح ہے۔ صرف ادراک کی کمی محسوس ہوتی ہے۔یعنی اگر پاکستان ہندوستان کی ریاست ہوتی تو ترقی کے معیار کے لحاظ سے اس کی فی کس آمدنی کرناٹک سے قدرے کم لیکن صوبہ بہار سے کہیں زیادہ ہوتی یا اسے دوسری طرح سے دیکھتے ہیں کہ اگر برصغیر پاک و ہند صرف گاؤماتا کے تحت ایک ریاست ہوتی جس کے شمالی حصے میں بھی ہندی بولی جارہی ہوتی تو یقیناًیہ ایک اقتصادی طور پرترقی کرتی ہوئی جمہوریہ تو نظر آتی لیکن یہاں مفلس ہندو قوم پرستوں کی آمریت قائم ہوتی اور جابجا مقامی مسائل اور جھگڑوں کا انبار دکھائی دیتا۔

پاکستان کو سمجھنے کے لیے علم بشریات کے تقاضوں کا سہارا لینا ضروری ہے کیونکہ مغربی تجزیہ نگار جس طرح سے ریاست اور سیاسی نظام کی وضاحت کرتے آئے ہیں، معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حالات وہ نہیں جو نظر آتے ہیں۔مسائل کو مختلف انداز میں زیر بحث لا کر حقائق کو تبدیل کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی ایک سچائی ہے کہ جب جمہوریت،قانون،عدالتی نظام،پولیس،انتخابات،سیاسی پارٹیوں یا انسانی حقوق کی برملا باتیں کی جاتی ہیں تو فوج ہی ایک ایسا مضبوط ادارہ نظر آتا ہے جس میں حقیقی اندرونی پختگی،رویے،قواعد و ضوابط اور اس کے افسران میں ثقافتی ہم آہنگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ یہ پاکستان کا ایک ایسا مضبوط ادارہ ہے کہ جو نہ چاہتے ہوئے بھی متعدد مرتبہ کمزور اداروں کی قوت سلب کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔

پاکستان کے متعدد علاقے قدیم تہذیبوں کا حصہ رہے ہیں۔مغرب نے سکیورٹی اور سیاست کے حوالے سے پٹھانوں کے علاوہ دیگر کسی قومیت کے لوگوں کو اس قدر زیر بحث نہیں لایا۔ماہر عمرانیات صرف چوہدری محمد اعظم اینڈ اسٹیفن لائن کو ہی ان چند اشخاص میں شمار کرتے ہیں جنہوں نے’’پنجاب‘‘ پر تنقیدی اور اہم کام کیا ہے۔

حادثاتی طور پر ہی سہی میں بھی گروہی بنیادوں پر پٹھانوں کو ہی اس کتاب میں زیر بحث لایا ہوں۔ وہی پٹھان جو خود کو پختون یا پشتون کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ پٹھان کا لفظ ہندوستانی زبان میں استعمال کیا جاتا ہے اور انگریزوں نے بھی یہی الفاظ اپنائے ہیں۔ خاص طور پر اولف کیرو، فیڈرک بارتھ، اکبر ایس احمد اور چند دوسرے ماہر بشریات اور تاریخ دانوں نے پٹھان قوم پر قابل ذکر کام کیا ہے۔ پٹھانوں کا نام اپنی روایات اور انگریزی سامراج کے خلاف عسکری مزاحمتی تاریخ کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔موجودہ دور میں بھی ان کی جینیاتی تبدیلیاں اور تجزیے خاصی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کے دیگر علاقوں کا تعلق ہے، ان کی عمرانی تحقیق بھی ابھی تک اندھیرے میں ہی ہے یا اس کی بنیاد روایتوں اور افسانوں پر قائم ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ9/11کے واقعہ کو بیتے آٹھ سال گزر چکے ہیں مگر شمالی مغربی صوبہ سرحد(خیبرپختونخوا) میں اسلام پرستوں کی سیاست پر صرف نوجوان گریجویٹ جوشوا وائیٹ کی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود اس صوبے میں رہائش پذیر رہا۔اس طرح بنیادی علم کے فقدان کی وجہ سے مذہب،ثقافت اور سیاسی عوامل پر شہری زندگی کے اثرات یا مضمرات ٹھیک طور پر اجاگر نہ ہوسکے۔

مسلم دنیا میں تبدیلیوں کے حوالے سے جو نئے نظریات سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق پاکستانی شہروں پر اثر انداز ہونے والے عوامل جن میں بنیادی ثقافتی حالات،پرانی سیاسی قوموں کی طاقت میں کمی اور اسلام کا روایتی نظام،تبدیلی کا باعث بنتا ہے جس سے اسلام کے بنیاد پرستانہ نظریات کے حامل درجنوں گروہ سامنے آئے لیکن کیا سچ مچ میں ایسا ہی ہے۔میری ذاتی رائے میں تو معاملات خاصے گھمبیر ہیں کیونکہ ابھی تک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس سوال کو تقریباً ایک نسل کے گزر جانے کے باوجود سنجیدگی سے نہیں سمجھا گیا۔

بنیادی معلومات کے فقدان کی وجہ سے اکثر اوقات مغربی تجزیات کے مقابلے میں مقامی معیار اور قواعد مختلف نتائج سامنے لاتے ہیں تو ان سے بے توجہی برتی جاتی ہے اور انہیں درست خیال نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ بیماریوں کا بروقت علاج ضروری ہے تاکہ مریض کا مدافعتی نظام اپنا عمل شروع کرے۔یہ بیماریاں نظام کا حصہ ہیں اور ان کا علاج انقلابی تبدیلیوں سے ہی ممکن ہے۔

پاکستان میں طاقت ور انتہا پسند اسلامی عناصر ایسی تبدیلیوں کے متقاضی ہیں۔ یقیناًان کا علاج مرض کے خاتمے سے ممکن ہوگا۔اس کی بجائے اگر پاکستان مغربی ترقی یافتہ نمونے کو مشعل راہ بنائے گا تو یہ بہت آہستہ عمل ہوگا ۔اس لیے اس معاملے پر اس کی فطرت کے عین مطابق ہاتھ ڈالا جائے۔

مذاکراتی ریاست

اگر پاکستان کی60 سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں بنیادی تبدیلیوں کے نام پر کئی کوششیں کی گئیں جن میں ایک عوامی اور تین فوجی انقلابات بھی شامل ہیں۔ جنرل محمد ایوب کی فوجی حکومت جو1958 سے 1969 تک جاری رہی اور جنرل پرویز مشرف جن کی فوجی حکومت1999 سے2008تک مسلط رہی، دونوں نے جمہوریہ ترکی کے جدید قوم پرست اور سیکولر لیڈر مصطفےٰ کمال ’’اتاترک‘‘ کو اپنے لیے نمونہ قرار دیا۔ جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت 1977ء سے کر1988ء تک قائم رہی۔ اس نے اپنے لیے مختلف راستے کا انتخاب کیا اور پاکستان کو متحد اور ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے سخت رویہ اپنایا۔اسلام کے کٹّر نظریات کو قوم پرستی کے ساتھ ملا کر پیش کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے1970ء کی دہائی میں عوامی قائد کے طور پر مراعات یافتہ طبقے کی مخالفت کی بنیاد پر عوامی اقتصادی پروگرام پیش کیا،جس کی بنیاد پاکستانی قوم پرستی پر رکھی۔

لیکن یہ تمام عمل ناکامی سے دوچار ہوئے۔ان میں سے ہر ایک نے اپنی حکومت میں انہی عناصر کو شامل کیا جس کے خلاف وہ علم جہاد بلند کرکے اٹھے تھے اور انہی سیاسی عوامل کی سرپرستی کی جسے راستے سے ہٹایا تھا۔کوئی بھی ایسی نئی بڑی جماعت بنانے میں کامیاب نہیں ہوا جس میں پیشہ ور سیاستدان یا نظریاتی طور پر روشن خیال اور بااصول لوگ ہوتے، بلکہ وہی جاگیردار اور شہری رؤسا اور ان کے پیروکار پھر سامنے آگئے۔ درحقیقت بھٹو کے سوا کسی نے بھی سنجیدگی سے تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی بلکہ بھٹو صاحب کی پی پی پی بھی اپنے ابتدائی روایات سے پھر گئی اور جلد ہی اسی مراعات یافتہ طبقے کی سرپرستی کرنے لگی۔

فوجی حکومتیں جو سیاسی زعماء اور ان کی بدعنوانیوں اور رشوت ستانی کے خلاف اقدامات کرنے کے لیے اقتدار پر براجمان ہوئیں، بعد میں انہی عناصر کو حکومت کا حصہ بنانے پر مجبور ہوگئیں۔ کیونکہ طویل عرصے تک کوئی بھی حکومت پارلیمنٹ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اور پارلیمان پر تو وہی پرانی سیاسی اشرافیہ کا قبضہ ہے جس کی اسی معاشرے میں جڑیں ہیں اور جسے فوجی حکومتیں اصولی تبدیلی کا نام دیتے ہوئے میدان میں اتری تھیں۔مغرب کا اصرار رہا ہے کہ یہ حکومتیں ملک میں بتدریج جمہوریت کی بحالی اور اصلاحات کی جانب بڑھیں گی مگر یوں لگتا ہے کہ اس عمل میں وجدان اور ادراک کی کمی رہی ہے۔

اگر اتاترک کے انقلاب کی طرح واقعی کوئی بنیادی قومی تبدیلی لانے کا خواہاں ہے تو اس کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں۔ سب سے پہلے ایک مضبوط پاکستانیت یا قومی سچ کی ضرورت ہے جیسا کہ جدید ترکی میں نظر آتا ہے لیکن گروہی بنیادوں پر منقسم سوچ ایسا کیسے ممکن بنائے گی۔ اور دوسرا اتاترک اور اس کے حواریوں کی طرح گروہ بندی،قوم پرستی اور مذہبی دباؤ کو سختی سے کچلنے کے لیے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لانا ہے۔

اگر1971ء میں بنگال میں ہونے والے سانحے کو تاریخ سے نکال دیں جس میں پنجابی اور پٹھان جوانوں پر مشتمل افواج نے مقامی لوگوں کو خارجی،گھٹیا اور ہندوؤں کے پروردہ خیال کرتے ہوئے متشدد رویہ اپنایا تو پاکستانی ریاست پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایا جاسکتا جس میں اس نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ظلم و ستم کا ارتکاب کیا ہوا۔ چاہے اس میں پنجاب کی مثال پیش کی جائے یا صوبہ سرحد کی یا سندھ اور بلوچستان ہی کو لے لیں تو کوئی سپاہی بھی اپنے لوگوں کو مارنے کے لیے تیار نہیں ہوگا کیونکہ آخری حل تو پھر بھی مقامی اشرافیہ کی مدد سے افہام و تفہیم سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

پاکستانی فوجی آمریت کے حوالے سے یہ عجیب بات سامنے آئی ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود یا اشرافیہ کی مخالفت اور تنقید کے مواقع پر اس نے ہمیشہ نرم رویہ اختیار کیا۔ صرف ذوالفقار علی بھٹو اور چند مٹھی بھر سیاستدانوں کو تختہ مشق بنایا گیا اور کچھ لوگ آپس کی دشمنیوں کی وجہ سے قتل ہوئے اور چند بزرگ سیاستدانوں کو اذیت کے مراحل سے گزارا گیا۔

تاہم غریبوں کے حوالے سے معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ جیسا کہ دیکھا گیا ہے جب بھی کوئی حکومت اقتدار میں آئی ان کی پولیس کے ہاتھوں درگت بنی۔گراہم گرین کے بقول پاکستان میں سب سے زیادہ سماجی بدسلوکی کے واقعات پسے ہوئے طبقے کے ساتھ پیش آتے ہیں جنہیں وہTorturable Class کا نام دیتا ہے جب کہ دوسرے لوگ Untorturable کہلاتے ہیں۔اس نقطہ نظر کے شواہد میں حیرت انگیز ثبوت موجود ہیں۔جنرل مشرف نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا ہے’’جب بھی عوامی یا فوجی حکومت کسی قانون کا نفاذ کرتی ہے تو اس کی لپیٹ میں ہمیشہ غریب اور پسا ہوا طبقہ ہی آتا ہے۔‘‘

مغربی پاکستان میں حکومت کو کبھی ایسی بغاوت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کے جواب میں قتل عام کی نوبت آئی ہو حالانکہ2004ء میں طالبان کی صورت میں انتہا پسندی جیسے مسائل نے سر اٹھایا اور پختون علاقوں میں تو یہ2008ء اور2009 میں خاصا زور پکڑ چکے تھے۔انڈیا کو دیکھیں تو اسے اس سے بھی زیادہ سنجیدہ سرکشی کا سامنا رہا اور جواباً اسے ان عناصر کو دبانے کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنا پڑیں۔

لیکن پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کی حکومت انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے اپنے آپ کو زیادہ جواب دہ نہیں سمجھتی۔بعض اوقات انسانی حقوق کے دعوے داروں کو یہ باتیں مشکل سے ہضم ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تجربہ جدید مغربی نظریات پر انحصار کرتاہے جس میں ظلم عموماً زیادہ طاقت ور ریاستوں کا وطیرہ ہوتا ہے۔تاہم پاکستان جیسے ملک میں انڈیا کی نسبت انسانی حقوق کی پامالی عموماً حکومتی طاقت کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ ریاست کی کمزوریاں اس کا باعث بنتی ہیں۔ اگر پولیس ان واقعات میں ملوث ہوگی تو ان کے پیچھے حکومت کا حکم شامل نہیں ہوگا بلکہ اس میں انفرادی طور پر کوئی پولیس والا یا پولیس کے کسی جتھے کی کارروائی ہوگی اور یہ تو پولیس کا صدیوں سے وطیرہ رہا ہے۔ سندھ کے ایک پولیس آفیسر کی مثال سامنے ہے اس نے مجھے بتایا’’میں نے اپنے لڑکوں کو خواتین کی عصمت دری سے منع کیا اور لوگوں کو اذیت دے کر قتل کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ ہمیں تو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں سے پیسہ بٹوریں اور نیم دلی سے نوکری بھی چلتی رہے۔‘‘

کوئی بھی اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا کہ جب پولیس کسی عورت کی عصمت دری کرتی ہے یا اپنی گرفت میں موجود کسی نامزد ملزم پر تشدد کرتی ہے تو اس میں انڈیا کے وزیراعظم یا پاکستانی صدر کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ انہیں بھی مورد الزام ٹھہرایا جاسکتاہے کیونکہ ایسی برائیوں کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکتا اور ایسے واقعات پر قابو پانے کی ان کی صلاحیت خاصی محدود ہے۔چنانچہ پاکستان اور جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے اکثریتی علاقے جمہوریت کے ایسے بے جوڑ مظہر ہیں جہاں انسانی حقوق کے حوالے سے جبلی تفریق نظر آتی ہے۔پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے اکثر واقعات کھلے عام ظلم و تشدد کا ملغوبہ ہیں اور اس کام میں وہ پولیس والے شامل ہیں جو اپنے طور پر یا پھر مقامی اشرافیہ کی ایما پر ایسے گھناؤنے کام انجام دیتے ہیں جن میں انہیں زمین داروں اور علاقائی زعما کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ مقامی قومیں بھی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتی ہیں جنہوں نے اسے اپنی بقا کے لیے خود ساختہ اخلاقی ضابطے کا نام دے رکھا ہے۔

غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل،پرانی دشمنیوں کے خاتمے پر تلافی کے لیے نوجوان لڑکیاں شادی کے لیے پیش کرنا،حالیہ دنوں میں جنوبی پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں برادریوں اور مقامی سرداروں کی جانب سے سزا کے طور پر لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی کے واقعات میں حکومت کہیں بھی ملوث نہیں۔انڈیا جیسے جمہوری ملک میں بھی علاقائی طور پر چھائے ہوئے قوم قبیلے اور پولیس ایسی ہی انتہائی بدعملیوں کا مرتکب ہوتی رہی ہے۔خصوصاً پولیس کے حوالے سے تو ہیومن رائٹس واچ کی اگست2009 کی رپورٹ نے چونکا دینے والے انکشاف کیے ہیں۔

ایک پرانی اور مقبول ہندوستانی اصطلاح ہے جس میں ڈکیتی جیسی واردات کو’’بادشاہی کام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ عام لوگ ڈاکو یا سپاہی میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے لیکن اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں ،بغیر تنخواہ والے سپاہی ڈاکو کہلاتے ہیں اور کامیاب ڈاکو سپاہی بن کر فاتحین کی افواج کا حصہ بن جاتے ہیں اور ان کے لیڈر بادشاہ بن کر حکومت کرتے ہیں۔

پاکستان کا آئین جو مغربی قوانین کا خوشہ چین ہے، اس میں اختیارات اقتدار اعلیٰ تک عوام کی وساطت سے اور انتخابات کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں اور حکومتی ڈھانچا اسے نیچے تک منتقل کردیتا ہے اور پھر پارلیمنٹ میں قانون سازی کے عمل سے یا رسمی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چھوٹے سے بڑے ہر عہدیدار کو اس کا پابند بنا دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں صرف فوج ہی ایسا ادارہ ہے جس نے خاصی حد تک ان ضابطوں کی پابندی کی ہے جبکہ باقی ماندہ ریاست کایہ حال ہے کہ قانون،عدلیہ اور پولیس میں اختیارات ابھی تک زیر بحث چلے آتے ہیں۔پاکستانی ریاست کی سفارشی سوچ کے حوالے سے1990 کی دہائی میں سندھ میں ڈاکوؤں کی سرکوبی کے دوران پیش آنے والے واقعے کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جسے ایک جنرل کی سرکردگی میں سرانجام دیا گیا۔

اس وقت کی حکومتی جماعت کا رکن پارلیمنٹ، ڈاکوؤں کے ایک گروہ کی سرپرستی کرتا تھا ۔فوجی دستے انہیں پکڑنے کے لیے بھیجے گئے جس کے رد عمل میں حکومتی حلقوں کی جانب سے اسلام آباد اور کراچی میں پرتشدد مظاہرے کیے گئے تاکہ گرفتار شدہ لوگوں کو رہا کیا جائے۔ فوجی کمانڈر خاصا معترض ہوا، اس نے متعلقہ زمیندار سے کھانے پر ملاقات کی۔ ضیافت کے اختتام پر مذکورہ واقعے کے حوالے سے مدد مانگی گئی۔ اگلے روز چار ڈاکو فوج کے حوالے کردیے گئے اور ساتھ جنرل کے لیے ایک رقعہ بھیجا گیا جس میں استعداد کی گئی کہ دو ڈاکوؤں کو جان سے مارا جاسکتا ہے جبکہ باقی دو کو الزامات لگا کر عدالت کے روبرو پیش کردیا جائے۔‘‘

’’کوئی بھی دو‘‘کمانڈر نے سوال کیا۔

’’نہیں۔جن کی نشاندہی وہ کریں گے‘‘جواب دیا گیا۔

کیونکہ ان دونوں کے متعلق اسے یقین تھا کہ عدالتیں انہیں کبھی بھی مجرم ثابت نہیں کر پائیں گی اور چند مہینوں کے بعد انہیں رہائی مل جائے گی۔ اس ملک میں اگر مجرموں کے ہاتھ لمبے ہوں تو ان عدالتوں میں رشوت کے ذریعے یا ڈرا دھمکا کر یا دونوں طریقوں سے فیصلوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر بدقماشوں سے جان چھڑانا مقصود ہو تو اسے بالا ہی بالا قتل کرادیا جاتا ہے۔یہ ایک مشکل ملک ہے، بدقسمتی سے یہاں حالات اسی طرح چلتے آرہے ہیں۔

جمہوریت پر بھی یہی اثرات غالب آتے ہیں کیونکہ صرف عوام کی نمائندہ ہی نہیں بلکہ یہ تمام طبقات،گروہ اور ادارے جو طاقت کا منبع ہیں وہ بھی ان انتخابی اداروں پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ جمہوریت عوام یا انتخاب کنندگان کی اصل نمائندہ ہونے کی دعوے دار نہیں ہو سکتی جیسا کہ سماجی،اقتصادی،ثقافتی اور سیاسی طاقت کی معاشرے میں ناہموار تقسیم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں حقیقی جمہوریت کی کمزوریاں دوسری خامیوں کے علاوہ بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں میں حقیقی،جدید نظریات کے فقدان کی صورت میں بھی عیاں ہیں۔

معاشرے کی اس نفسیات کی وجہ سے مغربی تجزیہ نگار اصل ہدف سے چوک جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ پولیس،قانون جیسے اداروں کے نام سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کارکردگی ویسی ہی ہے جیسے مغربی ممالک میں دیکھی جاتی ہے جہاں صرف قانون کی حکمرانی ہے اور سفارش کا نام و نشان تک نہیں۔ اسی طرح مغربی زبان میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کو عام فہم معانی میں لیتے ہوئے یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسے سیاسی نظام کے ذریعے علیحدہ کردینا چاہیے۔ لیکن پاکستان کا سیاسی نظام تو طبقاتی اور خاندانی اکائیوں پر استوار ہے اس لیے رشوت ستانی یا کرپشن کا خاتمہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

اسی طرح اسلامی انقلاب کے متعلق بھی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔جدید اسلامی گروپس یہ کوشش کررہے ہیں کہ زمینداروں،جاگیرداروں اور شہری رؤسا،سرداروں اور خاندانی اثر و رسوخ سے جان چھڑا کر اپنی مرضی کا جدید سیاسی نظام مسلط کیا جائے۔ انہیں بھی محض نہایت معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر تمام اسلامی گروہ ،برادری اور خاندانی سرپرستانہ رویوں میں ضم ہوگئے ہیں جہاں تک ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کا تعلق ہے وہ ابھی گوریلا گروہوں اور دہشت گردوں کا ابتدائی اکٹھ ہے۔ وہ اگر پشاور کو ہی اپنی ذمہ داریوں کا مرکز سمجھتے ہیں تو پھر وہ ایک جزیرے میں ہیں۔

یقیناًانہوں نے پاکستانی نظام کی غیر منصفانہ اور غیر مساویانہ رویوں سے خاصا فائدہ اٹھایا ہے اور سب سے زیادہ سماجی ناانصافیوں کو عوام کے جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا ہے۔یہ سچ ہے کہ عام پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ انصاف کے حصول میں لامتناہی سازشیں درپیش ہیں لیکن موجودہ نظام انصاف کے علاوہ اسے کوئی اور حل بھی نظر نہیں آتا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ریاستی قانون نہ صرف امیروں کے لیے بلکہ انصاف میں تاخیر اور رشوت کا باعث ہونے کے علاوہ یہ قانون غیر ملکیوں کا بنایا ہوا ہے جس کا مقامی روایات اور اسلام سے کوئی واسطہ نہیں اور ان قوانین کو بدیسی عیسائی حکمرانوں نے اپنے فوائد حاصل کرنے کے لے بنایا تھا۔

ہمارا موضوع سخن بھی یہی ہے کہ جب عام لوگ شریعت کی تکریم اور طالبان سے عزت سے پیش آتے ہیں، ان کے پیش نظر طالبان کے لیے مکمل حمایت نہیں بلکہ شریعت کے نفاذ کے لیے جذبات ہوتے ہیں جسے وہ خدا کا قانون قرار دیتے ہیں جو کہ آخری نبیﷺ کے ذریعے بھیجا گیا ہے اور موجودہ ریاستی نظام اس کے ساتھ ٹکراتا ہے کیونکہ خدا کا قانون سریع الحرکت،تعصب سے پاک اور دولت مندوں کا مخالف ہے ۔اس طرح یہ عناصر اشرافیہ کے خلاف جذبات بھڑکا کر پختون قبائل کی حمایت حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کرلیتے ہیں اور مقامی’’ملک‘‘ اور’’خان‘‘ یا قبائلی سرداروں اور مقامی زمینداروں پر حملے کرکے طالبان اپنے لیے نرم گوشہ حاصل کرلیتے ہیں۔

پاکستانی عوام میں ثقافتی طور پر پٹھان ہمیشہ سے ہی انسانی برابری کے قائل ہیں۔عوامی سطح پر تو اسلام پرستوں کی حمایت خاصی محدود نظر آتی ہے۔ ان کی ناکامی کی سب سے اہم وجہ پاکستانی معاشرے کی قدامت پرستانہ خصوصیات ہیں۔مغربی تجزیہ نگاروں کی رائے کے برعکس اسلام پسندوں کا وجود محض پسماندگی کی وجہ سے نہیں بلکہ بسا اوقات بلکہ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ایسے نظریات پائے ہیں ۔اس طرح اقتصادی فہم و فراست کی بنیاد پر غربت اور زمینداری نظام کی خامیاں اجاگر کرکے بنیاد پرست اسلامی گروہ پاکستان کے مضافاتی اور دیہاتی علاقوں میں تبلیغ کے زور پر پھلنا پھولنا شروع کردیتے ہیں۔

ان عناصر کو جہاں اصل کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ درحقیقت پختون علاقوں سے پرے فرقہ وارانہ کارروائیاں ہیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کا تشخص اور سا لمیت برقرار رہتی ہے اور دوسری سادہ سی وجہ یہ ہے کہ مضافاتی علاقوں میں یہ بنیاد پرست اسلامی تحریکیں مقامی ملاؤں کی سرپرستی میں تشکیل پائی ہیں اور انہیں علاقائی جاگیردار اور زمیندار کی حمایت بھی حاصل ہو جاتی ہے حالانکہ وہ کسی قسم کی بنیادپرستی کے حق میں نہیں اور نہ ہی وہ اپنی زمینوں کے معاملے میں کسی قسم کی اصلاحات پسند کرتے ہیں۔

شہروں میں معاملات خاصے مختلف ہیں۔یہ عناصر جب نچلی سطح سے سیاسی بیساکھیوں کا سہارا لے کر اٹھتے ہیں تو سیاسی امراء اور برادریوں کے سرپرست انہیں کھل کر سانس نہیں لینے دیتے۔ اس کے علاوہ شہری معاشرے کی بے حسی اور متعدد مکاتب فکر کا وجود بھی اہم رکاوٹ ہے۔مزید برآں جب تک پاکستانی عوام میں اقتصادی اور سماجی بے اطمینانی پائی جاتی ہے تو حالات ایسے ہی چلیں گے جیسا کہ2009ء سے پاکستان کے شہری علاقوں میں پائی جانے والی بے چینی،فسادات،عمارتوں کا گھیراؤ جلاؤ اور بسوں کی توڑ پھوڑ سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اگر مغربی نقطہ نظر کے پیمانے سے جانچا جائے تو ان کی رو سے جدت پسندی کے لیے مغربی معیار یعنی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی جیسے اصول اور اسلامی قدامت پرستی کے درمیان اصل جھگڑا ہے۔ مغربی جدت پسند طبقہ اپنے طور پر دنیا بھر میں اپنی اقدار کو شہرت اور کامیابی کا نمونہ قرار دیتا ہے اور ادھر برطانیہ کی جانب سے ورثے میں ملنے والی مبہم جمہوریت کے اصول دونوں پاکستانی معاشرے کی قدامت پرستانہ رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ تکرار باآاخر امریکہ اور مغربی اتحادیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہے۔

اسلامی جدت پسند طبقہ اسلام کی قدیم اور گہری روایات کا بہتر اظہار کرسکتا ہے لیکن یہ لوگ بھی پاکستانی معاشرے کے قدامت پرستانہ رویوں کی وجہ سے بے بس ہیں۔ پاکستانی امراء اور رؤسا کی اکثریت ان کے نمونے کو ناپسندیدگی سے دیکھتی ہے کیونکہ اس کے پیچھے ثقافتی اور طبقاتی عوامل کارفرما ہیں۔ مغربی طبقہ اور اسلام پسند اپنے آپ کو ایک ایسی الہامی جنگ میں پھنسا ہوا محسوس کررہے ہیں جس کا انجام اچھائی یا برائی پر پہنچ جاتا ہے لیکن علامات سے واضح طور پر مترشح ہے کہ پاکستان پر یہ دونوں عوامل اپنا تاثر قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوں گے۔

دریائے سندھ کا جوا

وقت پاکستان پر مہربان نہیں ہے۔ اگر دور اندیشی سے پاکستان کے عوام پر نظر ڈالی جائے تو یہ کبھی نہیں دیکھا جائے گا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا جس زمین سے رشتہ ہے اور ہمیشہ سے وہاں رہتے آئے ہیں، اہمیت کا حامل ہے۔2010ء میں پاکستان کی آبادی180ملین سے200ملین کے درمیان تھی اور آبادی کے تناسب سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔1911ء میں برطانوی اعداد و شمار کے ادارے کے مطابق اسکی آبادی19 ملین تھی جو آزادی کے چوتھے سال یعنی1951ء میں34ملین ہوگئی اور پھر1998ء میں131ملین تک جا پہنچی اور آج آبادی کی شرح100 سال پہلے کی نسبت سے 10گنا بڑھ چکی ہے ۔سرکاری طور پر آبادی کی شرح2.2 فیصد سالانہ ہے جو کہ صریحاً غلط اندازے پر مبنی دکھائی دیتیہے۔

پاکستان کی شرح پیدائش پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ ریاست کی کمزوری،سماجی ضعیف العتقادی، تعلیم کا فقدان(خصوصاً خواتین کی ناخواندگی) اور مذہبی جماعتوں کا متعصب رویہ ہے۔صدر ایوب نے1950ء کی دہائی کے آخر میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اقدامات کیے اور اس کے بعد کسی حکومت نے اس شعبے میں کوئی قابل قدر کام نہیں کیا۔ جو تھوڑی بہت کمی کی شرح دیکھی گئی ہے وہ سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں اور شہروں کی جانب سے مراجعت کی وجہ سے ہے، اس میں ریاستی اداروں کا کوئی کردار نہیں۔پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور آنے والے دنوں میں یہ شرح بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔(2008 کے سروے کے مطابق آبادی کے 42فیصد افراد14 سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے) عالمی بینک پراجیکٹ کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی میں اضافہ اسی شرح سے جاری رہا تو یہ21ویں صدی کے وسط تک355ملین ہو جائے گی۔

اس طرح موجودہ وسائل سے پانی کی ضروریات پورا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ پانی کی دستیابی اور استعمال میں بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ جس طرح ہندوستان میں قدیم اقتصادی صورتحال کا انحصار موسموں پر ہونے کی وجہ سے’’مون سون کا جوا‘‘ کہلاتا تھا اسی طرح تمام پاکستانی ریاست’’دریائے سندھ کے جوئے‘‘ کے نام سے پہچانی جائے گی ۔چنانچہ موسمیات میں تغیر و تبدل کی وجہ سے اگلی صدی میں پانی کی ضرورت کے حوالے سے ایک بڑا جوا ہوگا۔بہت سے شہروں کے آثار کی باقیات پانی کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور وادی سندھ کی یہ کہانی4000 سال پہلے سے چلتی آرہی ہے کیونکہ بعض جگہ پر دریائے سندھ نے اپنا راستہ تبدیل کرلیا ہے یا سیلاب کی وجہ سے آبادیاں بہہ گئی ہیں جیسا کہ2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے کئی گاؤں اور دیہات مکمل طور پر متاثر ہوئے۔

اگر پاکستان کی آبادی کو مدنظر رکھیں تو240ملی میٹر اوسطاً سالانہ بارش اس قدر گنجان آبادی کے لیے انتہائی ناکافی ہے اور یہ بنجر پن کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

سندھ کا دریائی نظام اور اس میں سے نکلتی نہریں چاہے وہ پنجاب کی سرزمین میں ہوں، نیم صحرا اور جنگل کی مانند ہو جائیں گی۔انگریزوں کے بنائے ہوئے نہری نظام سے پہلے بھی اس خطے کا کچھ ایسا ہی نقشہ تھا۔

اگر ملک کے اوپر پرواز کی جائے تو دیکھ سکیں گے کہ کبھی یہاں پنجاب کے پانچ دریا اور افغانستان سے آنے والا دریائے کابل مل کر دریائے سندھ کو خراج پیش کرتے تھے۔ اب محض پنجاب کی جنوبی حد اور تمام سندھ کوہی اس پانی سے سیراب کیا جاسکتا ہے۔ان زمینوں سے پرے تو کہیں کہیں نخلستان ہیں جنہیں قدرتی چشموں یا اکثر ٹیوب ویل کھود کر پانی سے سیراب کیا گیا ہے۔پاکستان کا صرف24 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔آبادی کی اکثریت انسان کے بنائے ہوئے آبپاشی کے نظام سے کام چلاتی ہے، باقی زمین پر چرواہے ڈھور ڈنگر چراتے ہیں کیونکہ یہ زمین رہائش کے قابل نہیں یعنی اس میں صحرا،نیم صحرا اور پہاڑوں کی کثرت ہے۔

ضرورت سے زائد استعمال کی وجہ سے بہت سے چشمے خشک ہو چکے ہیں اور زیر زمین پانی کی سطح اتنی تیزی سے نیچے گر رہی ہے کہ جلد ہی ٹیوب ویل بھی خشک ہو جائیں گے اور اس طرح دریائے سندھ پھر ہم سے رخ موڑ لے گا اور یہ مبالغے اور خوش فہمیاں کہ گلیشیرز دریائے سندھ کو پانی سے بھر رہے ہیں، 2035ء تک غائب ہو جائیں گے۔ یہ بات تو مکمل طور پر فراموش کردی گئی ہے کہ یہ گلیشیر بھی مسلسل پگھل رہے ہیں اور اگر یہ ایک یا دو صدیوں میں غائب ہو جاتے ہیں تو اس کے پاکستان پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔اس لیے ملک کی حالت بہتر بنانے کے لیے پانی کے استعمال میں بہتری اور تحفظ کے نظام کو درست سمت میں چلانے کی ضرورت ہے۔

مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں2010 میں آنے والا سیلابی ریلا طویل مدتی منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔ دوسری جانب اس سے پاکستان کے لیے فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یعنی اگر سیلاب کے پانی کی قوت کو زراعت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بڑے بڑے ذخائر میں اکٹھا کرکے اس کی تقسیم کا مضبوط ڈھانچہ بنایا جائے۔پہاڑوں پر جنگلات کے صفایا کو روکا جائے اور مزید درخت اگائے جائیں، ورنہ بارشوں کی زیادتی پھر2010 میں آنے والے سیلاب کی طرح شمالی پہاڑوں پر درختوں کے کٹاؤ کی وجہ سے بارشوں کا پانی ننگی ڈھلوانوں پر شدت رفتار سے بہتا ہوا آئے گا اور وادیوں کو دلدل میں تبدیل کردے گا اور زد میں آنے والے درخت بھی نہیں بچیں گے۔یہ درست ہے کہ پہلے سے موجودہ حفاظتی ڈھانچہ یعنی دریائے سندھ پر بنائے گئے بیراج اور ذیلی نہروں نے حفاظتی نقطہ نظر سے خاصا کام کیا ہے لیکن اگر یہ پانی کا دباؤ برداشت نہیں کر پاتے اور خدانخواستہ ٹوٹ جاتے ہیں تو ملک کے بڑے بڑے شہر زیر آب آجائیں گے اور پھر شرح اموات میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔

ریاست کا ایک لمبے عرصے تک دریائے سندھ پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں۔پاکستان اگلی ایک صدی میں موسمی حالات میں ممکنہ تبدیلیوں،پانی کی کمی،پانی کی ترسیل کے کمزور ڈھانچے اور آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے کھنڈر میں تبدیل ہو جائے گا۔اس ناگہانی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایسے طویل مدتی بین الاقوامی منصوبے شروع کرنا ہوں گے جس میں نئے جنگلات کی افزائشیں،نہروں کے نظام کی مرمت اور سب سے بڑھ کر پانی کے استعمال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی۔حضرتِ انسان جمہوریت کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے اور سکیورٹی کے مسائل سے نمٹنا بھی آسان ہے لیکن پانی کے بغیر تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہا جاسکتا۔

عالمی بینک کی 2004 ء کی رپورٹ کے مطابق دو ایڈیٹروں نے پاکستان کی پانی کی صورتحال کے متعلق خاصا پریشان کن انکشاف کیا ہے۔

’’حقائق خاصے گراں بار ہیں۔پاکستانی کا شمار دنیا ان کے ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کے مسائل انتہا درجے تک دگرگوں ہیں اور آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب کی وجہ سے مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے اور ابھی تک کوئی ایسا عملی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے پتا چلے کہ مستقبل کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے پانی کی وافر مقدار دستیاب ہوگی۔۔۔

ابھی تک پانی کے مزید وسائل سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ دریائے سندھ کے پانی کے دھارے کو دریا کے ڈیلٹا میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے زرعی استعمال کے لیے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کا اقتصادی طور پر صرف یک دریائی نظام پر انحصار کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔۔۔

گوادر کے پانی پر بھی کئی اطراف سے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی خصوصیات میں فرق پڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت نے کارکردگی اور مالی معاونت میں اضافے کے علاوہ(عالمی بینک اور مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک سے) موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید کوششوں کا اعادہ کیا ہے۔یہاں مزید دیر کرنا یقیناًمہلک ثابت ہوگا کیونکہ موجودہ صورتحال سے نمٹنا جتنا طول کھینچے گا اس قدر پانی کی زیر زمین سطح گرتی چلی جائے گی۔‘‘

وڈرو ولسن سنٹر کے2009 کے تجزیے کے مطابق جس میں مختلف امور پر رپورٹیں جاری کی گئی ہیں،پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب یہ ہے کہ2025ء تک ملک کو سالانہ338بلین مکعب میٹر پانی کی مقدار کی ضرورت ہوگی۔ لیکن جب تک کوئی سنجیدہ قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ حد236 بلین مکعب میٹر کی موجودہ حد پر ہی برقرار رہے گی اور اس طرح100 بلین مکعب میٹر پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ دریائے سندھ کے موجودہ بہاؤ کا دو تہائی ہوگا۔

یہ خوفناک صورتحال تو موجودہ حالات کی بنیاد پر دیکھی گئی۔ ابھی موسمیات کی تبدیلیوں کے اثرات تو زیر بحث ہی نہیں لائے گئے ۔یہ عوامل تو اکیسویں صدی کے آخر تک مزید تباہی کا باعث بن سکتے ہیں تاہم اس سے پہلے کہ پاکستان اس نہج تک پہنچے دریائے سندھ کے سکڑنے کی وجہ سے صوبوں میں پانی کی مساویانہ تقسیم پر مسائل سر اٹھائیں گے جو کہ ملک کی سا لمیت کے حوالے سے اس کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کی طرح پاکستان کے حالات بھی تبدیل ہوتے جائیں گے تو انہیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج سے100 سال کے بعد اگر پاکستان باقی رہتا ہے تو تب بھی اس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں گے۔دنیا کی بڑی افواج میں اس کی فوج کا شمار ہوگا۔آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک کی صف میں شامل ہوگا اور اس کے تارکین وطن کی تعداد بھی زیادہ ہوگی خاص طور پر برطانیہ میں اکثریت ہوگی۔اسلامی بنیاد پرستی جو صدیوں سے چلی آتی ہے تب بھی موجود ہوگی چاہے مغرب اس وقت افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کرکے وہاں کافی حد تک حالات کو تبدیل کر چکا ہو۔

ان تمام حالات میں بھی جب کہ تمام دنیا کو موسمیات کی تبدیلیوں کا سامنا ہے، پاکستان کی اہمیت برقرار رہے گی۔ اگر پاکستان کو کچھ ہوا تو اس کے اثرات تمام تر جنوبی ایشیا پر مرتب ہوں گے جو کہ آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا خطہ ہے۔ وہ ہندوستانی عناصر جو پاکستان کے نقصان پر خوش ہوں گے انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ ان کا ملک بھی پھسلتا ہوا اسی مقام پر آکررہے گا۔

عالمی بینک کے پاس کئی تعمیری پروگرام محفوظ ہیں جس سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اپنے اطراف میں انڈیا کے علاقوں کی نسبت اب بھی اس سے کم بارش کی مقدار پر اچھی فصلیں حاصل ہوتی ہیں تاہم اس ذیل میں مزید محنت درکار ہے ۔کارکردگی میں اضافے کے لیے مہنگی ٹیکنالوجی والی مشینوں سے اجتناب اور مقامی طور پر دستیاب آلات اور روشن خیال منتظمین کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے پانی کے ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے ترقیاتی امداد کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بے روزگاری میں کمی آئے گی اور چھوٹے مزدور سے لے کر بڑے بڑے انجینئرز کے لیے روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بین الاقوامی امداد کے فوائد جلد ملنا شروع ہو جائیں گے اور اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں گے۔اس کے برعکس موجودہ دہائیوں میں امریکی مدد کے حوالے سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مجموعی طور پر اس کے اقتصادی حالات پر اچھے اثرات پڑے ہیں لیکن عام آدمی سے اس کی شفافیت چھپی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے اس کے سیاسی اثرات امریکہ کے ساتھ رویوں میں کسی تبدیلی کا باعث نہیں بنتے۔

پاکستان کی اقتصادی صورت حال اقتصادی اور انتظامی لحاظ سے پاکستان کی حالت دگرگوں ضرور ہے لیکن اس قدر گراوٹ کا شکار بھی نہیں جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔تاہم پاکستان نے ایشین ٹائیگر بننے کے لیے بنیادی اور جدید تبدیلی بھی نظر نہیں آتی جو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ حالانکہ1947ء سے ہی موازنہ کیا جاتا رہا ہے کہ عمومی ترقی کی شرح انڈیا سے قدرے زائد ہی رہی ہے۔اگر ذوالفقار علی بھٹو نے1970ء کی دہائی میں صنعتوں کو قومی ملکیت میں نہ لیا ہوتا تو یہ ملک زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہوتا۔

1990کی دہائی میں پاکستان کو اپنی ایٹمی پالیسی کی وجہ سے امریکہ کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے ملک جمود کا شکار رہا۔پرویز مشرف کی انتظامیہ کے عہد یعنی1999ء تا2008ء میں اقتصادی ترقی دوبارہ بحال ہو کر6.6 تا9فیصد سالانہ تک پہنچ گئی لیکن اسے پھر عالمی اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

یقیناًاس ملک میں غریب افراد کی تعداد زیادہ ہے لیکن مقدور بھر اقتصادی ترقی کے نتیجے میں اور اسلامی خیراتی کاموں اور برادری سے صلہ جوئی اور کامیاب سیاستدانوں کے حواری ہونے کے باوجود پاکستان میں اس قدر غربت نہیں جتنی انڈیا کے شہروں اور مضافات میں پائی جاتی ہے۔ درحقیقت مطلق غریب اور بے یارومددگار لوگوں کا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے جو انڈیا میں پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اچھوتوں کی نسل سے ہیں اور ملک کی تقسیم کے وقت پاکستان میں رہ گئے تھے اور انہیں اپنی روایتی غربت سے کبھی چھٹکارا نہ مل سکا ۔انڈیا کی نسبت پاکستان میں ان کی تعداد نہایت قلیل ہے۔

اس نقطہ نظر سے پاکستان کم و بیش قرون وسطیٰ کا کوئی ملک دکھائی دیتا ہے۔حکومت نے عوام کو جدید سہولتیں جن میں پینے کا صاف پانی،دوائیاں،پبلک ٹرانسپورٹ اور تعلیم شامل ہیں دینے میں کافی کمزوری کا مظاہر ہ کیا ہے اور اس کی اہم وجہ ٹیکس کے حصول میں ناکامی اور سرکاری اداروں میں رشوت ستانی کا دور دورہ ہے۔تعلیم کی کمی کی وجہ سے عام لوگوں میں سرکاری سہولتوں کے حصول اور اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے کا شدید فقدان ہے۔کچھ لوگ تو اس نظام سے بالکل کٹے ہوئے ہیں،مزید برآں امدادی اور حفاظتی انتظامات ان کی پہنچ سے دور ہیں۔دوسری جانب یہ نظام اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ آبادی کی اکثریت کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے یا نہیں۔

جب ریاست یہ فیصلہ کرلیتی ہے کہ فلاں منصوبہ ملک کے لیے اہمیت کا حامل ہے تو وہ اسے بدعنوانی سے حتی الوسع دور رکھنے کے لیے دوسرے منصوبوں سے الگ کرلیتی ہے تاکہ اسے جلدی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ان منصوبوں میں1950ء کی دہائی میں بننے والے ڈیم اور نہروں کے نظام کی توسیع کا کام،حالیہ دنوں میں گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر اور شمالی پاکستان کو آپس میں ملانے والی شاندار موٹروے شامل ہیں۔

2009ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی کی سطح167 بلین ڈالرز رہی جو اس لحاظ سے دنیا کی48ویں بڑی اقتصادی ریاست تھی(اگر قوت خرید کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ درجہ27ویں نمبر پر آجاتا ہے) سیاسی اثر، دیہاتی زندگی کے سماجی اور ثقافتی رویے اور بحیثیت مجموعی دیہاتی معاشرے کی چھاپ کے باوجود2009ء میں جی ڈی پی کی مد میں زراعت کی محض20 فیصد حصہ داری دیکھنے میں آئی۔ خدمات کے شعبے میں یہ شرح53فیصد رہی جس میں صنعتوں کا حصہ26فیصد بنتا ہے۔تاہم آبادی کے60فیصد افراد نے اب بھی دیہات میں بودوباش اختیار کر رکھی ہے اور ان سے امراء مسلسل طاقت حاصل کررہے تھے۔ پاکستان کا زیادہ تر انحصار کپڑے اور خوراک محفوظ بنانے کی صنعتوں پر ہے۔2007ء تا2008ء میں کپڑے کی برآمد سمیت ملک کو18 بلین ڈالرز کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔

پاکستان اپنی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے جس میں سب سے اہم ایٹمی توانائی کی صنعت ہے جس میں اقتصادی ترقی کا راز پوشیدہ ہے ۔اگر حکومت چاہے تو بہترین پڑھے لکھے ،ہنر مند، ایماندار اور اپنے کام کے ماہر لوگوں کو استعمال کرکے اس صنعت سے بھرپور فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان کے اقتصادی شعبے کا زیادہ تر حصہ ابھی تک ترقی کی جانب زقند نہیں بھر سکا اور مستقبل قریب میں بھی ایسا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔2009ء کے جی ڈی پی کے مطابق فی کس آمدنی محض1250 ڈالرز بنتی ہے جبکہ امریکہ سے تناسب کے ذیل میں1960 سے2005ء تک فی کس آمدنی کا گرتا ہوا گراف3.37 سے1.71 فیصد تک آرہا ہے۔تقریباً23فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے۔ترقی کی راہ میں رکاوٹ کی اہم وجہ ناخواندگی بھی ہے۔2010ء میں خواندگی کی شرح55.9 فیصد تھی جب کہ دیہاتوں میں بسنے والی خواتین کی ہوشربا جہالت سب سے نمایاں ہے۔

پاکستان میں زندگی

اگر مغرب اور چین پاکستان کی مدد کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اپنی سوچ کو بہتر بنانا ہوگا اور ملک کی سا لمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے افہام و تفہیم کی بنیاد پر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔میں نے اس کتاب میں مفاہمت اور باہمی اتفاق رائے کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔میرا یہ کام1980 کی دہائی میں بطور صحافی اور بعد ازاں2007 تا2009ء میں پاکستان کے تمام صوبوں اور بڑے بڑے شہروں میں تحقیق پر مبنی ہے۔

میں یہ بتانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ سوائے چند پشتون علاقوں کے مجھے کہیں بھی کوئی جسمانی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ تاہم مقامی طور پر سفر کرنے کے مسائل درپیش رہے اور اگر آپ اس وجہ سے کچھ نہیں کر پارہے تو سمجھیں کہ آپ آدھی دنیا دیکھنے سے محروم رہ گئے ہیں۔ ویسے بھی مجموعی طور پر پختونوں کا علاقہ پاکستان کے باقی رقبے کے تناسب سے نہایت قلیل ہے۔ایک اہم وجہ جس سے پردہ کشائی ضروری ہے، یہ ہے کہ مغربی دنیا میں پاکستان سے کم واقفیت یا اسے غلط انداز میں متعارف کرانے کی حقیقت کے پیچھے ان بہت سے تجزیہ نگاروں اور حالات بیان کرنے والوں کا وہ اندرونی خوف ہے جس کی وجہ سے وہ اسلام آباد سے باہر سفر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں برطانیہ بھی اسی ہچکچاہٹ سے دوچار ہے حالانکہ وہاں ہزاروں تارکین وطن آباد ہیں اور پھر بھی ایسا رویہ انتہائی غیر منصفانہ طرز کا حامل ہے۔

جی ہاں بغیر محافظ یا نگہبان کے قبائلی علاقے میں کھلے عام پھرنا یا پشاور کے کسی غیر محفوظ علاقے میں طویل عرصے تک قیام کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے کئی شہروں اور دیہاتوں میں بغیر کسی خطرے کے مہینوں رہا جاسکتا ہے۔تجزیہ نگار،محقق اور دوسرے حکومتی عہدیدار جو پاکستان کو امداد دینے میں پیش پیش ہیں اگر ٹھیک طور پر کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مذکورہ باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔

مجھے تحقیقی اور نجی مصروفیات کی وجہ سے پاکستان میں طویل عرصے تک کام کرنے کا موقع نہ مل سکا تاہم پھر بھی میں نے ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں عام پاکستانیوں سے بات چیت کی۔ ان میں زیادہ تعداد ایسے افراد کی تھی جنہوں نے اس سے پہلے کسی مقامی یا غیر ملکی ادارے یا تنظیم کو انٹرویو نہیں دیا تھا۔دل سے نکلی ہوئی یہ خاموش آوازیں جنہیں میری کتاب سے سنا جاسکتا ہے ان وفادار لوگوں پر مشتمل ہیں جنہیں پاکستان کی حقیقت سمجھانے میں مددگار کی حیثیت حاصل ہے۔اس طرح ملک کی اصل تصویر سامنے آتی ہے۔

آسانیاں ہمیشہ نہیں رہتیں۔مجھے2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک بزرگ رہنما سے پشاور میں ملنے کا اتفاق ہوا۔اس کے باغ میں لمبی ٹانگوں والے،خاکستری رنگ کے دو خوبصورت پرندے اپنی کلغیوں سمیت گھوم رہے تھے۔ میں نے سوال کیا کہ انہیں کیا کہتے ہیں اس نے جواب دیا’’لم ڈھینگ‘‘۔ میں نے کہا’’میرے خیال میں یہ کوئی اور پرندہ ہے‘‘۔اس نے کہا’’آپ کا کہنا درست ہے یہ لم ڈھینگ نہیں ہیں یہ مہاجر پرندہ ہے۔گرمیوں میں روس کی سمت اڑ جاتا اور پھر انڈے دینے کے موسم میںیہاں واپس آجاتاہے۔ ہمیں امید تھی ان میں سے ایک مادہ ہوگی جو انڈے دے گی، لیکن ہمارا خیال غلط نکلا یہ دونوں ہی نر ہیں چنانچہ اب یہ دونوں ہر وقت لڑتے رہتے ہیں یا باغ کے مختلف کونوں میں بیزارکھڑے رہتے ہیں۔‘‘

’’سر۔! یہ شاید پٹھان سیاستدانوں کی طرح عمل کرتے ہیں‘‘وہ کھلکھلا کر ہنسا’’جی ہاں۔بد قسمتی سے کچھ ایسا ہی ہے۔انگریزی زبان میں ان کا کیا نام ہے ہم تو انہیں’’کونج‘‘ کہتے ہیں، پھر اس نے اپنے ملازمین کی جانب رخ پھیرا اور پوچھا’’کونج کو انگریزی میں کس نام سے پکارا جاتا ہے‘‘ان میں سے ایک شخص نے یقین سے جواب دیا۔’’راج ہنس!‘‘

چنانچہ میں نے اگر اس کتاب کے نصاب میں غلطی سے راج ہنس کو لم ڈھینگ کہہ دیا ہو یا حقیقت میں پرانے پاکستانی سیاستدانوں کو بطخ کے چوزے کی جگہ راج ہنس سمجھ لیا ہو تو میں پاکستانی سماج یا معاشرے سے یہی اپیل کروں گا کہ وہ بھی اپنے اندر قابلیت پیدا کریں کیونکہ بعض اوقات حقائق کچھ اور ہوتے ہیں اور واقعات کے پیچھے سازش کے تحت سچائی کو چھپا دیا جاتا ہے۔

میری پاکستان سے گہری وابستگی ہے جس نے میری زندگی کو یادگار لمحات مہیا کیے ہیں اور پاکستانی عوام کو میں نے بہت مہربان اور عزت کرنے والا پایا ہے۔ میں کافی دنیا گھوما ہوں لیکن پاکستان جیسا دلچسپ ملک کہیں نہیں دیکھا۔ یہ ایک ایسی خوبصورت جگہ ہے جہاں ناول نگار،ماہر بشریات اور مصوروں کے لیے یکساں درد پایا جاتا ہے۔ 20 سال سے پاکستان کے حالات کا جائزہ لیتا رہا ہوں اور یہ میری محبت کا واضح ثبوت ہے ۔پاکستانی اشرافیہ میں میرے کئی اچھے دوست موجود ہیں۔ میں دل پر پتھر رکھ کر ان کی بھی سنتا ہوں، خصوصاً جب وہ مغربی صحافیوں اور سرکاری اہلکاروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر مغربی روشن خیالی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔

مسئلہ کہیں اس سے بھی گہرا ہے۔ مغربی طرز کی جمہوریت پچھلی چند نسلوں سے انسانی حقوق، دولت، ترقی اور سا لمیت سے اس طرح جڑ گئی ہے کہ اگر کسی شعبے میں خامی نظر آئے تو اہل مغرب اور پڑھے لکھے پاکستانی قدرتی طور پر شرمساری محسوس کرنے لگتے ہیں کیونکہ اہل مغرب کے نزدیک یہ بے عزتی کا مقام اور مربیانہ رویے کا غماز ہے جبکہ پاکستانیوں کے لیے ذلت اور شرمساری کا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ دونوں ہی پاکستان کے حقیقی سماجی،اقتصادی اور ثقافتی ڈھانچے کی ساخت کو جانچے بغیر سادگی سے اس نتیجے پر پہنچ جانے کے عادی ہیں کہ اس میں بدخواہ طاقتوں کی بدنیتی دکھائی دیتی ہے اوران عناصر میں جنرل،جاگیر دار،مُلّا یا امریکہ شامل ہوتا ہے۔

ان مسائل کو تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو چیزیں مختلف دکھائی دیتی ہیں۔جدید جمہوریت مغرب کی نوزائیدہ اختراع ہے ۔ماضی میں مغربی معاشرے کئی پہلوؤں سے آج کے پاکستان کی طرح ہی تھے اور موجودہ جدید یورپ تو اس سے بھی خوفناک حالات سے دوچار رہ چکا ہے جس نہج پر اسلام یا جنوبی ایشیا ابھی نہیں پہنچا۔ مستقبل کے حوالے سے کون پیش گوئی کرسکتا ہے؟ہمت کا صلہ،وقار اور حسن سلوک جس پر پاکستانی قوم فخر کرتی ہے،ہوسکتا ہے کہ ان کا ہمیشہ رہنے والا قیمتی اثاثہ ثابت ہو۔

اس تناظر میں سائنس فکشن لکھنے والے ناول نگار جان ونڈ ہم کے وہ الفاظ یاد رکھنے کی ضرورت ہے جو اس نے ایک پروفیسر کے منہ سے اس سوال کے جواب میں اگلوائے تھے کہ اگر دنیا کو موسمیات کی بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہونا پڑا تو اس کے مستقبل کے حوالے سے کیا تجویز کریں گے۔ اس نے دو سفارشات دیں۔اول،ایک پہاڑی کی چوٹی منتخب کرکے اس کے چاروں طرف سے حصار بند کرلیں۔دوم،ذہین لوگوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ بنائیں یہ آپ کے لیے مفید ہوگا۔پاکستان کے پاس بے شمار فوجی دستے ہیں اور ہزاروں سال سے مقامی سردار پہاڑوں کی چوٹیوں پر مضبوط فصیلیں تعمیر کرتے آرہے ہیں وہ موجودہ دنیا کے کامیاب عناصر کی نسبت اب بھی بہتر انداز میں اچھے مستقبل کی خاطر مقابلہ کرسکتے ہیں۔

خاندانی اکائیوں کی اصطلاحات

پاکستان میں خاندانی یا برادری کا نظام نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس پر تمام علماء اور ماہرین کی یکساں رائے پائی جاتی ہے۔میرے لیے برطانوی سول سرونٹ اور نثر و نامہ نگار سرڈنزل ایبٹ سن کے100 سال پہلے کے ادا کیے لفظ نہایت موزوں معلوم ہوتے ہیں جو اس نے پنجاب میں اپنی ملازمت کی آخری دہائی میں قلمبند کیے تھے ۔

’’ایک پرانی حکایت کا فلسفہ کچھ یوں ہے کہ میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا اور مجھے بالکل یقین نہیں کہ میں یہ جانتا ہوں،پنجاب کی مثال سامنے رکھی جائے تو یہ الفاظ ہو بہو میرے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔میرا تجربہ ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ کسی ذات یا قوم کے فرد کے متعلق آپ کوئی رائے قائم کریں اور وہ صوبے کے دوسرے حصے میں صادر آئے اور اسی طرح آپ دوسرے اضلاع کے لوگوں کے متعلق بھی یہ پیمانہ استعمال نہیں کرسکتے۔‘‘

اسی طرح انگریزی کے لفظTribe کو مقامی الفاظ میں کئی معنی پہنائے جاسکتے ہیں تاہم’’قوم‘‘ کا لفظ قبیلے،نسل اور قومیت کا اظہار کرتا ہے۔ذات کا لفظ ہندی لفظ’’جاتی‘‘(Jati) سے نکلا ہے اور یہ ہندو ازم میں ذیلی ذات کہلاتی ہے۔Tribe پاکستان کے مختلف حصوں میں مختلف چیزوں کے معانی میں آتا ہے۔Baloch Tribe جو بلوچستان،سندھ اور جنوبی پنجاب میں آبادہیں، ان کے نزدیک اس سے مراد سکاٹ لینڈ کے پرانے قبیلوں کی مانند ایسا قبیلہ ہے جو آپس میں ایک مطلق العنان سردار کے ماتحت سختی سے جڑے ہوتے ہیں۔

تاہم پٹھانوں میں قبائلی ممبران کی اپنی شناخت اور عہدہ خاصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ قبائل لاتعداد چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منقسم ہوتے ہیں جن کی سربراہی کے لیے ہر نسل کے بعد نئے رہنما جگہ لے لیتے ہیں۔مزید برآں پنجاب میں راجپوت،جاٹ،گجر اور دوسرے گروہ ماضی بعید میں مضبوط خانہ بدوش قبائل کی صورت میں موجود رہے اور پھر شمالی انڈیا اور پاکستان کے اطراف میں مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔گجر قبیلے کے نام پر انڈیا میں ایک ریاست اور پاکستان میں ایک شہر اب بھی دوسرے متعدد مقامات کی طرح موجود ہے۔

بہت سے جاٹ،گجر اور راجپوت دراصل ہندوؤں میں موجود رنگ نسل کی بنیاد پر تقسیم کردہ نظام کے تحت کھشتری ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر حملہ آوروں کے طفیل ان لوگوں نے اسلام اور سکھ مذہب قبول کرلیا۔اجتماعی طور پر پاکستان میں ان کی کوئی سیاسی پہچان نہیں ہے لیکن یہ قومیتوں کی صورت میں اپنا وجود قائم رکھتے ہیں۔ یہ لوگ دوسری قوموں سے خود کو برتر سمجھتے ہیں اور قبیلے سے باہر شادیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔راجپوت یا جاٹ قوم سے تعلق رکھنے والے مشکل وقت میں ایک دوسرے کی حتیٰ الوسع مدد کر کے خوش ہوتے ہیں۔وفاداری اور مدد کے معاملات میں مقامی ذیلی قومیں مثلاً چوہان راجپوت،الپیال راجپوت اور اسی طرح دوسری قومیں قابل ذکر ہیں۔سادات اور قریش پیغمبرؐ اسلام کی نسل سے ہیں اور عرب سے وارد ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے مسلمان معاشرے میں ان کا مقام اور کردار محدود ہے لیکن عزت اور وقار میں ان کی ہندوؤں کی برہمن ذات سے خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔

دوسری برادریوں کے گروہ ہندو نظام کی چھوٹی ذاتوں سے معرض وجود میں آئے ہیں۔ ان میں کمّی، فنکار اور گاؤں اور قصبوں میں خدمات مہیا کرنے والے گروہ اور قدیم شودر قبائل شامل ہیں۔نچلی ذات کے لوگ ہندو ہیں یا مسلمان ہو چکے ہیں ان سے کوئی سروکار نہیں رکھاجاتا ہے۔ یہ لوگ ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی بڑی قوموں اور پولیس کے ہاتھوں اقتصادی اور جنسی زیادتیوں کا شکار بنتے رہتے ہیں۔ برادریوں اور سیاست کے میدانوں میں تعمیری سیاسی کردار کے لیے یہ لوگ خاندان سے باہر کی جانب نکلتے ہیں اور قریبی رشتہ داری سے بڑے خاندان تک وسعت اختیار کرلیتے ہیں۔’’برادری‘‘کے لفظ کی جڑیں ہند آریائی زبان کے لفظ’’برادر‘‘سے جڑی ہیں جس سے ایک مورثِ اعلیٰ کی اولاد مراد ہے۔ میری رائے میں ایک بڑا موروثی خاندان جو مشترکہ مفادات کا امین ہو،برادری کے زمرے میں آتا ہے۔

(تلخیص و ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)