working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

قانون اور مذہب کے تناظر میں انسانی حقوق
محمد خالد مسعود

انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کا چارٹر تمام ممبر ممالک کے لیے لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر مختلف ممالک اپنے علاقائی، نظریات و مذہبی تناظر میں اس کی تشریح و توضیح کرتے ہیں۔
اسلامی ممالک میں کمزور جمہوری ڈھانچے کے باعث انسانی حقوق کی صورتحال دگرگوں رہی ہے کیونکہ اکثر مواقع پر کمزور جمہوری حکومتوں کو طاقت ور رجعت پسند گروہوں کے مقابل پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ رجعت پسند گروہ تغیر پذیر سماجی دھارے کے متوازی چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
فاضل مضمون نگار اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں انہوں نے قانون اور مذہب کے تناظر میں انسانی حقوق کی صحیح صورتحال پر اظہار خیال کیا ہے۔ (مدیر)

قانونی اور مذہبی روایات کا انسانی عظمت، انصاف، انفرادی احتساب، بنیادی حقوق کے تحفظ، قانون کی حکمرانی، استدلال اور شعور کی آزادی کے تصورات کے فروغ کے لئے بے مثل کرداررہا ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اَمر قابلِ غور ہے کہ ان شعبوں کی قانونی اور سماجی تشکیل نے بین الاقوامی قانون خاص طور پر انسانی حقوق کی ترقی کی راہ ہموار کی۔ اس اہم کاوش کونظرانداز کرتے ہوئے انسانی حقوق کے وکلامذہبی اور مقامی قوانین کو عالمی قوانین کے متضاد قرار دیتے ہیں۔ عالمی قوانین کی ماہیت ، ریاستوں کی خودمختاری، دساتیر،بین الاقوامیت ، انسانی حقوق کی وراثت، قانونی اصلاحات کے ذریعے سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق بحیثیت کی ثقافتی عوامل کے عالمگیراقتدار کا حصول یا گلوبلائزیشن کا مقابلہ کرنے کی اہلیت کی حالیہ تحقیق نے نظریہ تناقص کے متضاد پہلوکو عیاں کیا ہے۔میرے خیال میں، یہ عوامل تضاد کے بجائے موجودہ قانونی طرزِ فکر میں علمیاتی بحران کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔

مجھے اس کی وضاحت خود مختاری کے بارے میں ہونے والی بحثوں سے کرنے دیں۔ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ 1948ء اور بعد ازاں ہونے والے کنونشن بین الاقوامی قانون کے تحت معاہدے ہیں اور ان کی توثیق خودمختار ریاستوں نے کی ہے۔دستخط کرنے والے کچھ ممالک نے توثیق کی دستاویز میں اپنے تحفظات شامل کئے ہیں جو بعدازاں بین الاقوامی قانون کے علم میں اہمیت اختیار کر گئے۔ مثال کے طور پر پاکستان کو کہا گیا کہ وہ اپنے تحفظات واپس لے اور حتیٰ کہ آئین میں ترامیم کرے۔ یہ اَمر قابلِ غور ہے کہ ریان گڈمین (1)کی طرح کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ دستخط کرنے والے ممالک تحفظات کے باوجود ان معاہدوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اس قانونی نقطہ نظر نے ریاستی خودمختاری کے تصور پرسوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

خودمختاری
گڈمین کہتے ہیں کہ سب سے اہم اصول یہ ہے کہ معاہدے کے حوالے سے ایسے تحفظات کا اظہار نہیں کیا جا سکتا جو معاہدے کے مقصد کے متصادم ہوں تاہم مسئلہ اعتراض کے قانونی حل کے حوالے سے درپیش ہے جوغلط قرار پاچکاہے۔ بین الاقوامی وکلا نے تین طریقہ کار بتائے ہیں۔ اول،ریاست معاہدے پر عملدرآمد کی پابند رہے، ماسوائے اُن شقوں کے جن پر اعتراضات کئے گئے ہوں۔ دوم، غلط اعتراض توثیق کو قطعی طور پر بے اثر کر دیتا ہے اور تب ریاست معاہدے کی مزید فریق نہیں رہتی۔ سوئم، غلط اعتراض کو معاہدے سے حذف کیا جا سکتا ہے، اُس صورت میں ریاست معاہدے اور اُن شقوں پر عمل کرنے کی پابند رہے گی جن پر اعتراض کیا گیا تھا۔وہ ماہرین جو تیسرے طریقہ کار کو تسلیم نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ ریاست معاہدے کی اُن شقوں پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہوسکتی جنہیں تسلیم نہیں کیا گیاتھا۔ گڈمین کہتا ہے کہ تیسرا طریقہ کار دستخط کرنے والے ممالک کے لئے نہیں ہے، یہ اس معاہدے سے بالواسطہ طور پر وابستہ اداروں کے لئے ہے (ڈومیسٹک کورٹ، قومی انسانی حقوق کمیشن، ریجنل کورٹ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، معاہدہ کرنے والا ادارہ)جو اس طریقہ کار کو اُس وقت استعمال میں لائیں گے جب وہ اعتراض کو غلط تصورکریں گے۔اُس کے خیال میں اسے ایک بہتر طریقہ کارتصور کیا جانا چاہئے۔ گڈمین کی تشریح تضاد کے نظریہ کے قریب تر ہے، لیکن خودمختاری کے حوالے سے موجودہ قانونی طرزفکرِ کے تناظر میں تغیر پذیر نظریہ علمِ انسانی اہم ترین ہے۔ اُس کے اختتامی الفاظ کو یہاں ہوبہو نقل کرنا انتہائی اہم ہے۔

موجودہ بحث میںبین الاقوامی قانون اور عوام کے مابین پایا جانے والا تضاد بیان کیا گیا ہے: بین الاقوامی معاہدوں کا نفاذ ( خاص طور پر انسانی حقوق کے معاہدے)خودمختاری کے مفادات اور ریاست کے نقطہ نظر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس انداز میں سوچنے کے رجحان کو بین الاقوامی قوانین کے داخلی گورننس میں سرایت کرنے کی روایتی بحث کے سیاق و سباق میں دیکھا جا سکتا ہے اور گلوبلائزیشن کی بدولت کسی ریاست کی طاقت اور خودمختاری میں ہوتے ہوئے حالیہ بدلائو کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح اندرونی طور پر خودمختار(Westphalian)ریاستوں کے قیام کے ساتھ سے ہی خودمختاری کے کمزور تصورات نے اپنا وجود قائم کر لیا ۔ مزید برآں دیگر محققین نے بین الاقوامی قانون اور بین الجہتی روابط کی خودمختاری اور حکومتی رضامندی کے ساتھ ایک حقیقی عہد بندی کی ضرورت پر مباحثہ شروع کر دیا ہے۔اوپر بحث کی گئی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی بیش تر تحقیقات میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ریاستیں بین الاقوامی تعلقات کی پاسداری کرنے کو پسند کرتی ہیں۔(2)

عالمی قانون کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ انسانی حقوق کے نفاذ سے مملکت کی خودمختاری خطرے میں پڑسکتی ہے۔ مسلمان علماء تصور کرتے ہیں کہ یہ خودمختاری، اقتدارِ اعلیٰ کی نفی کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں تصورات اُس فکر کی تلاش میں ہیں جو خلاف قیاس ہے کیونکہ وہ دونوں مختلف نظریات علومِ انسانی کی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ خودمختاری کی موجودہ قانونی ہیئت قانونی وجوبیت کے باعث تشکیل پائی ہے جسے ریاست ایک طاقت ور ادارے کے طور پر چاہئے جو قانون اور سزائوں کو استعمال کرکے عوام کی فرمانبرداری حاصل کرے اور انہیں نافرمانی سے روکے۔ نظریہ علمِ انسانی کے تناظر میں حقوق کے تحت ذاتی تشخص کواجاگر کرنے اور زندگی اپنی منشا کے مطابق گزارنے پرزیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اسی طرح عالمی حالات میں بین الاقوامی قانون قطعی طور پر انفرادی ریاستوں کی خودمختاری کے نظریے کو قائم رکھتا ہے اور دستخط کرنے والے ممالک کے اپنی منشا سے متفق ہونے کی قدر کرتا ہے تاکہ طاقتور ریاستیں صورتحال سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔اس نئے نظریہ علمِ انسانی کے تحت ، خودمختاری کا مفہوم یہی ہے کہ ایک ملک کے لوگوں کی اجتماعی رائے جنہوں نے ایک ریاست کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ قانون سازی کریں اور قانون کا نفاذ عمل میں لائیں، اس کے ساتھ ہی دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدے کریں اوراپنے لوگوں کو عالمی قوانین کا پابند بنائیں۔خواہ اس کا تعلق ریاست سے ہو یا انفرادی سطح پر کسی ایک شخص سے ہو، خودمختاری کے بغیر اسے قبول کرنا اور اس کی پذیرائی کرنا بے معنی ہوگا۔ خودمختاری اپنی اہمیت اُس وقت بھی کھو دیتی ہے جب اسے اقتدارِ اعلیٰ اور جبر کی اصطلاحات میں بیان کیا جاتا ہے۔فرماں برداری اور سزائوں کے تناظر میںقانون کی پاسداری کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا قانون کے سادہ نظریے کے قبولِ عام کا عکاس ہے۔

اسلامی ریاست کے تناظر میں خودمختاری کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہے۔ سب سے پہلے میں اس کے تاریخی تناظر پر بات کروں گا۔بہت سے مسلمان ممالک کو آزادی حاصل کئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھااور وہ ریاست کی تشکیل کے عمل سے گزر رہے تھے جب 1948ء میں انسانی حقوق کے اعلامیے پر دستخط کئے گئے۔ وہ تاحال ملک بننے کے عمل سے گزر رہے تھے جب انہوں نے 1960-70ء میں انسانی حقوق کے بہت سے کنونشنوں کی توثیق کی۔قومی شناخت نے دستور کی تشکیل اور نوآبادیاتی قوانین کو ازسرِ نو ترتیب دیتے ہوئے سیاسی اور ثقافتی خودمختاری کے تصور کو نظرانداز کیا۔حتیٰ کہ ان ممالک میں کمزور گورننس ، سماجی ناہمواری اور آمرانہ حکومتیں قائم تھیں تاہم عوام حال ہی میں حاصل ہونے والی آزادی سے خوش تھے۔ قانونی اصلاحات، قومی خودمختاری اور معاشی مساوات، انفرادی انسانی حقوق کے ولولے کو برقرار رکھنے والے عوامل ہیں۔ 1960-70ء کے دوران فیملی لاز،عدالتی نظام، تعلیم اور دوسرے شعبوں میں اصلاحات کی گئی تھیں۔ اصلاحاتی عمل کو طاقت ور سیاسی رجعت پسند گروہوں کی جانب سے زبردست ردِعمل کا سامناکرنا پڑا۔ ریاستی خودمختاری کو عمومی طور پر طاقت اور اقتدار کے معنوں میں اخذ کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں آمرانہ حکومتیں سیاسی حالات پر غالب آگئیں۔

کمزور جمہوری حکومتوں کو جب سیاسی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا تو اِن حالات میں اُن کے پاس طاقت ور اور رجعت پسند طبقے کی حمایت حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ خاص طور پر انہیں مذہبی گروہوں کے سامنے جھکنا پڑا اور اکثر اصلاحاتی عمل نامکمل رہ گیا۔مذہبی گروہوں نے طاقت حاصل کرنے کے لئے فوری طور پر اس موقع سے فائدہ اٹھایااور پریشر گروپ کی حیثیت حاصل کر لی۔ ان گروہوں نے مسلسل ان اصلاحات کی مخالفت کی اور یہ مؤقف پیش کیا کہ اسلامی اور مغربی قوانین میں تضاد پایا جاتا ہے انہوں نے اقتدارِاعلیٰ اور شریعت کے غیر متبدل اصولوں کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ اس دوران ان فکری مباحث کا آغاز ہوا کہ کیا خودمختاری کا تعلق خدا سے ہے یا لوگوں سے۔

پاکستان کے 1973ء کے آئین میں عوامی اقتدار اور اقتدارِ اعلیٰ کی فکری آمیزش کی گئی ہے جس کی بنیاد قرآنی تعلیمات پر ہے کہ انسان خدا کا خلیفہ ہے۔دستور بتاتا ہے کہ ریاست کی بنیاد عوام کی سیاسی خودمختاری پر ہوگی جو خدا کے نمائندے ہوں گے۔ آئین اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیتا ہے اور ملک میں اسلامی قوانین پر عملدرآمد کروانے کے لئے لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے جس کی نگرانی بعدازاں عدم توافق(Repugnance) کے نام سے معروف ہونے والی شق کرتی ہے کہ کوئی قانون بھی قران و سنت کے منافی نہیں بنایا جاسکتا۔عدم توافق کی شق کی بنیاد 'آزادی'(اباہہ) کے اصول پر ہے جس کے تحت چیزیں قانون کے دائرے میں رہتی ہیں تاوقتیکہ قانون اُن پر پابندی عائد نہیں کر دیتا۔اسلامی نظریاتی کونسل کو اس آئینی شق کے تحت موجودہ قوانین کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔اس نے 1726ء سے اب تک کے قوانین کاجائزہ لیا اور انہیں تمام قوانین میں سے پانچ سے سات فیصد عدم توافق کے قوانین ملے۔ آئین یہ کہتے ہوئے فرقہ ورانہ قانون سازی سے روکتا ہے کہ قانون اور سنت ہی قانون سازی کا واحد ذریعہ ہیں اور تمام شہریوں کو امتیاز کے بغیر بنیادی حقوق کی فراہمی کا وعدہ کرتا ہے۔

مذہبی گروہ خودمختاری کی اس تعریف کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک خودمختاری کا مطلب شریعت کا نفاذ ہے۔ شریعت فقہ کے مماثل ہے، یہ اسلام کا خاصا وسیع قانونی مواد ہے۔ تاہم یہ اکیڈمک نوعیت کا ہے اور اسے شاذ و نادر ہی قانون کے طور پر رائج کیا گیا ہے۔مذہبی گروہ اصرار کرتے ہیں کہ فقہ کو شریعت کی حیثیت سے نافذ کیا جائے اور اس کی تشریح کے لئے ایک طاقتور نظام تشکیل دیاجائے۔ انہیں بالآخر 1979ء میںاسے رائج کرنے کا موقع ملا۔ 1970-80ء میں ایران، سوڈان، صومالیہ اور دوسرے ممالک میں بھی شریعت کا نفاذ فقہی قانون کی حیثیت سے عمل میں آیا۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا اور اس نے فقہ کے قانونی نظام کی حیثیت سے اثر پذیری کا جائزہ لیا۔بدقسمتی سے سیاسی ترجیحات نے قوانین کی اسلاملائزیشن کے تجربے کا تنقیدی جائزہ لینے کا موقع فراہم نہیں کیا۔

انسانی حقوق کی سیاست
1960ء سے عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی تبدیلیاں مذہبی گروہوں کے لئے سودمند رہی ہیں۔ اسلامی ممالک میں کمیونزم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت،سماجی انصاف اور انقلاب کے حوالے سے بائیں بازو کی جانب جھکائو رکھنے والی سیاست کی مقبولیت کے باعث اصلاحاتی حکومتیں برسرِاقتدار آئیں جو عمومی طور پر متشدد تھیں۔ خاص طور پر وہ مذہبی گروہوں کے خلاف تھیں جنہوں نے مضبوط متحارب گروہ تشکیل دیا۔ مغربی حکومتوں نے ان مذہبی گروہوں کو کمیونزم کے خلاف اپنا سٹریٹجک اتحادی بنایا جسے ان گروہوں نے سختی سے رد کیا۔مذہبی رہنمائوں نے اس موقع کو خوش آمدید کہا کہ ان کی عام انتخابات میں کارکردگی متاثر کُن نہیں تھی۔ مغربی حکومتوں نے مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ایسے رہنمائوں کو پناہ فراہم کی۔مخالف لابی نے مسلم ریاستوں کو بری گورننس، آزادی پر بندشوں، تشدد اور تعصب اورانسانی حقوق کے عوامل کو نظرانداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔1981ء میں ان گروہوں نے لندن میں UIDHRاسلامی انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ جاری کیا جن میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی تھی۔

باعثِ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ وہی دور تھا جب عالمی قانون سازی ہو رہی تھی اور اقوامِ متحدہ عالمی تنازعات کو حل کرنے کے لئے فعال کردار ادا کر رہا تھا۔ مغربی ممالک کا اقوامِ متحدہ کی مخصوص قراردادوں کو نظرانداز کرنا عمومی تجربہ بن گیا۔ اس نے مذہبی گروہوں کو جواز فراہم کیا کہ اقوامِ متحدہ ایک کمزور ادارہ ہے جسے مغربی ممالک اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ مذہبی گروہوں نے فوری طور پر ان سماجی اور قانونی اصلاحات کو مغرب زدہ قرار دیتے ہوئے رد کیا اور ان کی جگہ قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا مطالبہ کیا۔ اس کا حل یہ تھا کہ اسلامی ریاست کے تصور ، شریعت کے نفاذ اور حاکمیت اعلیٰ کی جانب واپس لوٹا جاتا۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ بہت سے دوسرے ممالک نے اقوام متحدہ کے معاہدوں، کنونشن اور پروٹوکول کی ثوثیق کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اس ضمن میں 1979ء کا سال خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہ وہ سال تھا جب سیڈا (CEDAW) کی توثیق ہوئی لیکن بہت سے ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا۔ مسلمان ممالک میں یہ مذہبی نظریات کے سیاسی احیاء کا سال تھا۔سعودی عرب میں عسکریت پسندوں نے کعبہ پر قبضہ کرلیا،ایران میں اسلامی انقلاب بپا ہوا، پاکستان میں قوانین کو اسلام کے مطابق ترتیب دیا گیا اور دوسرے ممالک میں بھی اس برس ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا تعلق اسلامی شناخت، اسلامی ریاست، اقتداراعلیٰ اور شریعت کے نفاذ سے تھا۔ان سیاسی اقدامات نے شریعت اور عالمی قانون کے مابین تضاد کو نمایاں کیا۔

تضادکا تھیسز
بدقسمتی سے شریعت جو قانون کی حاکمیت ، انصاف اور قانون کے مقابل انسانی برابری کے لئے کھڑی تھی، اسے تفریق اور بنیادی حقوق کی پامالی کے جواز کے طور پر غلط استعمال کیا گیا ۔ اس جواز کی بنیاد شریعت اور انسانی حقوق کے مابین تضاد کے مفروضے پر رکھی گئی تھی جس کی پیش بندی پہلے ہی اسلامی قانون کے بہت سے مغربی ناقدین اور حال ہی میں انسانی حقوق کی عالمگیریت کے حوالے سے ہونے والی بحث میں کی جا چکی ہے۔ (3) تجزیاتی طور پر اس کا مطالعہ کریں تو تضاد کے تھیسز کی بنیاد غلط مفروضے پر ہے جو شریعت کو فقہ سے وابستہ کرتی ہے اور رجعت پسندوں کے اُن دعووں پر مبنی ہے جو اجتہاد اور شریعت کی نئی تعبیر کی ممانعت کرتے ہیں اور تقلید پر زور دیتے ہیں۔ اس کے برعکس پرانی تعبیر کی حمایت کرتے ہیں۔ تضاد کا تھیسز اسلامی معاشروں میں ہونے والی ناگزیر سماجی ، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے مقابل اجتہاد کے عمل کے خلاف ہے۔19ویں صدی سے کئی ایک کتابیں اور دانشوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد جدید دور کے چیلنجوں کے مقابل شریعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مصروف ہے۔انہوں نے شریعت اور انسانی حقوق کے عالمی قانون میں ہونے والی ترقی کے مابین تعلق دریافت کیا ہے۔ حتیٰ کہ تضاد کے تھیسز کو غلط ثابت کرنے کے لئے اسلامی انسانی حقوق کے متبادل سکیمیں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔

مجھے اسلام میں انسانی حقوق کے دو متبادل اعلامیوں کی مثال پیش کرنے کی اجازت دیں۔انسانی حقوق کا عالمی اسلامی اعلامیہ 1981(UIDHR)ء (4)، اور اسلام میں انسانی حقوق کا قاہرہ اعلامیہ1990ء (5)، جنہیں بالترتیب اسلامی کونسل (6)اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے جاری کیا، دونوں کا مطمح نظر مختلف ہے لیکن دونوں اعلامیے اقوامِ متحدہ کے عالمی اعلامیے کے بڑے حصے کی توثیق کرتے ہیں۔ دونوں دستاویزات انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی 30میں سے 6شقوں پر تحفظات ظاہر کرتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مطابقت کی شرح عدم مطابقت سے زیادہ ہے۔

تحفظات کے اعتبار سے دونوں دستاویزات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اسلامی انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی شق نمبرایک، تین، پانچ، سولہ، اٹھارہ اور انیس پر تحفظات کا اظہار کرتا ہے جن میں درجہ ذیل موضوعات کا بیان ہے:آزادی، تحفظ،تشدد، شادی، سوچ کی آزادی اور اظہار کی آزادی۔ اسلام میں انسانی حقوق کا قاہرہ اعلامیہ شق نمبر تین، تیرہ، چودہ، انیس، بیس اور اکیس پر تحفظات کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم دونوں دستاویزات شق نمبر تین اور انیس پر یکساں طور پرتحفظات کا اظہار کرتی ہیں۔ قاہرہ اعلامیے میں حرکت کرنے کی آزادی، سیاسی پناہ، اظہار کی آزادی، اسمبلی اور منتخب حکومت کی آزادی کی بابت تحفظات کا اظہا رکیا گیا ہے۔یہ تحفظات زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہیں لیکن اسلامی انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے تحفظات، قاہرہ اعلامیے کی نسبت انسانی حقوق اور شریعت کے مابین زیادہ عدم مطابقت کو ظاہر کرتے ہیں۔(7) ایسا ہی اثر بہت سے مسلمان مفکرین کی انسانی حقوق پر تحریروں(8) اور نئے قانونی ادب(9)کے رجحانات پر نظر آتا ہے جو ایک بڑی تعداد میں موجود مشترکہ نکات پر زور دیتے ہیں۔ امتیازی قوانین کے ضمن میں کچھ مسلمان ممالک نے پہلے ہی فیملی لاز میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں اور 1950ء اور 1970ء (10)کے درمیان آئین میں امتیازی قوانین کے مقابل شقیں شامل کی ہیں۔ فیملی لاز میں اصلاحات کا تعلق خواتین کے حقوق اور قانونی طور پر بلوغت کی عمر سے ہے، خاص طور پر شادی کے وقت عمر، شادی اور طلاق کی رجسٹریشن، کثرتِ ازدواج، عورت کی گواہی کی حیثیت اور طلاق کے طریقہ کار سے متعلق امور شامل ہیں۔

میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت اُن مباحث سے کروں گا کہ سیڈا کمیٹی نے پاکستان سے اپنے تحفظات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان نے ابتدائی طور پر سیڈا کنونشن کی شق نمبر29کے حوالے سے اعتراض کیاتھا جس کے تحت تنازعات کو کنونشن میں تجویز کئے گئے طریقہ کار کے تحت حل کیا جانا ہے۔ مذکورہ شق کے تحت اگر کوئی تنازعہ مذاکرات سے حل نہیں ہوتا تو کوئی ایک فریق عالمی عدالت انصاف سے رجوع کر سکتا ہے۔ سیڈا اصرار کرتا ہے کہ پاکستان اپنا اعتراض واپس لے۔سیڈا نے حال ہی میں امتیازی قوانین کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے جو کہ سیڈا کی شق نمبر ایک، دو، تین، چار، پانچ اور سولہ سے متصادم ہیں۔ پاکستان کے اعتراض میں کہا گیا ہے کہ ان شقوں کا تعلق ملکی آئین اور شریعت میں تبدیلی سے مربوط ہے۔

عالمی ماہرین قانون مسلمان ممالک میں کمزور جمہوری حکومتوں کی مشکلات کا احاطہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ حکومتیں اس اصلاحاتی عمل کو جاری رکھنے کے سیاسی عزم سے عاری ہیں اور وہ معترضین کا مقابلہ کرنے کے بجائے فوراً اس سے جان چھڑا لیتی ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل نے اُن قوانین کا ازسرِنو جائزہ لیا تھا جو شریعت کے مقصد انصاف اور مساوات سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ غزالی کے دور سے مسلمان ماہرین قانون میں یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ شریعت کا مقصد پانچ بنیادی حقوق زندگی، ایمان، جائیداد،عزتِ نفس اور خاندان کا تحفظ ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کی 2006ء میں حدود آرڈیننس اور 2008ء میں طلاق کے قوانین میں تبدیلی کی سفارشات کو مذہبی گروہوں کی طرف سے زبردست دبائو کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حکومت اس دبائو کے سامنے جھک گئی تھی، اس کے بجائے کہ وہ کونسل پر اُس کی سفارشات کا ازسرِنو جائزہ لینے کے لئے ڈالے گئے دبائو کا سامنا کرتی۔مجھے تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن میں اس نکتے پر ضرور زور دوں گا کہ فقہ شریعت کی سماجی ہیئت اور ماہرین قانون کی اپنے زمانوں میںمسلسل متبدل سماجی ضروریات کے مقابل تبدیلی کی کاوشوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلامی قانون اور خاص طور پر انسانی حقوق کواس کے اہم ترین مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے ازسرِنوتشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

گلوبلائزیشن کے اس عہد میں، مسلمانوں کی پریشانی کی ایک وجہ خودمختاری اور تحفظ ہے جبکہ دوسری طرف مذہبی اور ثقافتی تناظر ہے۔انسانی حقوق کے اسلامی قانون کو فقہ کے روایتی فریم ورک میں تشکیل نہیں دیا جاسکتا جو کہ بنیادی طور پر ریاست کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور انفرادی شخص کے مقابل معاشرے کو بہتر مقام دیتا ہے۔ مسلم ممالک سمیت جنوبی افریقہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں شریعت پر ہونے والے حالیہ مباحث میں یہ حقیقت آشکارا ہوئی ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ایک دوسرے پر انحصار کیا جاتا ہے اور حتیٰ کہ غیر مسلم معاشرے بھی شریعت کو زیادہ عرصہ تک غیر متعلقہ قرار دے کر نظرانداز نہیں کر سکتے۔ مسلمان شریعت کو جدید قانونی نظام کے طور پراُس وقت تک بہتر طریقے سے رائج نہیں کرسکتے تاوقتیکہ وہ عالمی نقطہ نظر کو اہمیت نہیں دیتے۔

حاصلِ بحث
آخر میں میَں انسانی حقوق کے اسلامی قوانین کے کچھ مسائل کی نشاندہی کرنا چاہوں گا۔

1) شریعت اور نظریہ علمِ انسانی کاموجودہ بحران
نظریہ علمِ انسانی کا بحران درپیش ہے ،خاص طورپر اس کا تعلق شریعت کی جدید تشریح سے ہے۔ شریعت قانون ، ضابطے اور انصاف کے جدید سیکولر نظریات کے مقابل مشکلات کا شکار ہے۔ انصاف، عدلیہ، حقوق اور مساوات کے جدید نظریات نے اصول الفقہ اور علم الکلام کی بقا کو خطرات سے دوچار کیا جسے اسلامی قانون کی روایت نے شریعت کو سمجھنے کے لئے تشکیل دیا تھا۔علم انسانی کے اس نظریے کی بنیاد قدیم یونانی منطق پر ہے جو قیاس اور اجتہاد کے لئے جواز فراہم کرتی ہے جس کی بنیاد قیاسی استدلال پر ہے۔ رسمی منطق اور قیاسی استدلال ، استدلال کے نئے طریقہ کار ، مثال کے طور پر اخلاقی استدلال کی تشکیل میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ روایتی اسلامی قانون میں چار ذرائع اور اصول کا تصور مشکوک ہو چکا ہے۔یہ معیارِ شریعت کو سمجھنے میں معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ قرآن اور سنت اہم ترین ذرائع ہیں، حتیٰ کہ مروج قانون اور عرف ،اسلامی قانون کے بڑے ذرائع ہیں۔ انہوں نے بہت سے تصورات تشکیل دیئے ہیں لیکن اب یہ اپنی افادیت کھو رہے ہیں کیونکہ ان کا ظہور قبائلی رسومات سے ہوا تھا۔

2) شریعت بحیثیت پرسنل لا
مذہبی قانون کی حیثیت سے تشکیل کے باعث شریعت کو پرسنل لا تصور کیا جاتا ہے جس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ قبل از جدیدیت کے عہد میںمسلمان قانون دان دارالحرب اور دارالسلام کے درمیان جرائم اور تجارتی قوانین کے تناظر میں اس بحث میں الجھے رہے کہ قانون کی حیثیت انفرادی ہے یا اس کا تعلق مخصوص خطے سے ہے۔ جدید ریاستوں کی تشکیل اور مسلمانوں کی سیکولر اور غیرمسلم ممالک میں آبادکاری نے اس سوال کو اُبھارا ہے کہ شریعت پرسنل لا ہے یا اس کا تعلق مخصوص خطے سے ہے۔ شریعت پرسنل لاکے طور پر ان ممالک میں مسلمانوں کو تنہا کر تی ہے۔

3) شریعت اور ریاست
جدید ریاست کے ادارے نے شریعت کے حوالے سے بہت سے مسائل پیدا کئے ہیں۔ شریعت کے نفاذ کے مطالبات مسلمانوں کے لئے مدگار ثابت ہوئے ہیں کہ وہ جدید ریاست کو قانونی اختیار کے ذرائع کے طور پر تسلیم کرنے لگے ہیں۔تاہم جیسا کہ پہلے بات کی گئی ہے ، ریاست کی خودمختاری کا تصور تاحال حل طلب ہے۔ فقہ ریاست کو قانون سازی کا اختیار نہیں دیتی اور عدلیہ اور ایگزیکٹو کو الگ تصور نہیں کرتی۔

4) شریعت اور اصلاحاتی عمل
یہاں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ شریعت مقدس ہے اور اس وجہ سے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عمومی طور پر شریعت قرآن، حدیث، علماء کے اجماع سمیت فقہ اور مذہب پر مشتمل ہے۔ اجتہاد کے طریقہ کار اور ضروریات واضح کرنے کے لئے مباحث جاری ہیں۔اجتماعی اجتہاد کے حوالے سے اتفاقِ رائے نے جنم لیا ہے لیکن پارلیمان کا ممکنہ کردار تاحال حل طلب ہے۔ اجتہاد کا تصور مذہبی اختیار کے سوال سے بھی مربوط ہے، جس کے بارے میں عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ اختیار علما کے تصرف میں ہے۔ یہ سنجیدہ بحث جاری ہے کہ عالم کون ہو سکتا ہے؟ اہل دانش عہدِحاضر میں بسا اوقات اُن کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جنہوں نے مغربی تعلیم حاصل کی ہے۔روایتی مذہبی اشرافیہ یہ زور دیتی ہے کہ مذہبی سکالر اور وہ افراد جو مدرسوں سے تعلیم یافتہ ہیں، وہی عالم کے درجہ پر فائز ہو سکتے ہیں۔ قانون سازوں اور ججوں کی تربیت کے لئے جو جدید تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسلامی قانون میں مہارت کا اظہار کر سکتے ہیں، اس مقصد کے لئے بہترین اسلامی علمِ قانون کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے، جس کی تعلیم مدارس کے موجودہ نظام میں بہتر طریقے سے نہیں دی جا رہی۔

5) شریعت اور گلوبلائزیشن
گلوبلائزیشن نے بہت سے سوالات پیدا کر دیئے ہیں جیسے انفرادیت، اجتماعیت اور باہمی انحصار۔ یہ یقین پایا جاتا ہے کہ شریعت کو محدود نہیں کیا جا سکتا لیکن مسلمان زور دیتے ہیں کہ اس کا نفاذ صرف مسلمانوں پر ہی ہوتا ہے۔ شریعت اور جدید قانونی پیشرفت کے درمیان باہمی تعلق کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس نے خواتین کے حقوق، بچوں کے تحفظ، شادی، طلاق اور جائیداد کے حوالے سے عالمی انسانی حقوق، بین الاقوامی کنونشنوں اور معاہدوں کے تناظر میں کچھ سنجیدہ مسائل کو جنم دیا ہے۔شریعت اب صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہی۔ عالمی رابطہ اور قانونی کارروائیاں شریعت ہیں۔ صرف یہی نہیں مسلمانوں کو بہرطور عالمی برادری کے ساتھ شریعت پر تبادلہ خیال کرنا چاہئے لیکن دنیا بھر کی جامعات میںبھی شریعت کو لازمی طور پر نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔ اسلامی علم قانون کو تحقیق کے طریقہ کار کی ضرورت ہے اورمدارس و جامعات میں اسلامی قانونی روایات کاتنقیدی مطالعہ ناگزیر ہے۔

میں نتیجہ اخذ کرنے کے لئے ضرور دہرائوں گا کہ ہرگاہ کہ مغربی ماہرین انسانی حقوق کی تشکیل میں مذہبی اور قانونی روایات کے مثبت کردار کو تسلیم نہیں کرتے، جس نے انسانی حقوق کی ملکیت کا مسئلہ پیدا کیا ہے، انسانی حقوق کے اسلامی قانون میں مناسب تربیت کے نہ ہونے کے باعث مسلمان انسانی حقوق کے بیانیے سے باہر ہو رہے ہیں۔

(ترجمہ : علی عباس)
__________ __________________
حوالہ جات

1: Ryan Goodman, "Human Rights Treaties, invalid Reservations, and State Consent", The American Journal of International Law, Vol 96 (2002), 531-560. www.asil.org/ajil/goodman.pdf. Accessed on 3 February 2010.
2:Ibid.p.559.
3: For a very succinct and scholary analysis of this debate, see Abdullahi A. An-Na'im, "Islam and Human Rights: Beyond the Universality Debate", in ASIL Proceedings of the 94th Annual Meeting, April 5-8,2000, pp. 95-101.
4: The UIDHR 1981 was issued to mark the 15th century of Islamic Era by the Islamic Council.
5: CDHRI was prepared by the Secretariat of the Organization of the Islamic Conference and was adopted by 45 countries at the Nineteenth Islamic Conference of Foreign Ministers of the OIC in Cairo on August 5,1990. Again, the 32nd session(28-30 June) ICFM (Islamic Conference of Foreign Ministers) held in Sana'a adopt the Resolution of Human Rights (NO. 1/32-LEG).reiterating the CDHRI.
6: A non-government Muslim organization based in London, largely constituted of the Islamist groups who either belonged to opposition political parties in the Middle East and had migrated to Europe or lived in countries like the Sudan, Pakistan, Iran and Saudi Arabia where the process of Islamization had already begun.
7: For detailed argument see Muhammad Khalid Masud, "Muslim Perspectives on Global Ethics" in the Globalization of Ethics: Religious and Secular Perspectives, edited by William M. Sullivan and Will Kymlicka. The Ethicon Institue, (New York: Cambridge University Press, 2007), 93-116.
8: I would like to mention the following two books written respectively. Abd al Wahhab Abd al Aziz al-Shishani, Haquq al-insan wa hurriyatihu al-asasiyya fi al-nizam al-islami wa al-nazum al-mu'asara (Rights of man and his basic Freedoms in the Islamic System and the Contemporary Systems, Riyadh: Al-Jam'iyyat al-llmiyya al-malikiyya, 1980); Ali Abd al-Wahid Wafi, Huquq al-Insan fi'l Islam (Human Rights in Islam, Cairo: Nahda Misr,1999, sixth edition).
9: In a very general sense five trends of jurisprudence can be delineated in the current debates on human rights in Islam.
Classical traditional jurisprudence
Secular jurisprudence
Neo-Conservative Jurisprudence
Islamic Modernist jurisprudence
Progressive Muslim Jurisprudence
10: For a comprehensive study of reforms in family laws, see Tahir Mahmood, Family law Reform in the Muslim World (Delhi: Indian Law Institute,1972).