working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

آزادکشمیر میں دہشت گردی ، سکیورٹی فورسز کیلئے چیلنج
محمود گیلانی
 
وادی کشمیر فلک بوس پہاڑوں ، جھیلوں اور جاذبِ نظر قدرتی مناظر کے باعث عالمی شہرت کی حامل ہے۔ اس خطہ بے نظیر کے باسی امن کے پیامبر ہیں۔ اگرچہ کشمیر جہاد کے دنوں میں مظفرآباداور کشمیر کے دوسرے شہروں میں جہادی کیمپ قائم کئے گئے تھے تاہم مقامی آبادی کی اکثریت نے دہشت اور خوف کی ان کارروائیوں میں حصہ نہیں لیا۔ 'وار آن ٹیرر' کے دنوں میں بھی وادی میں امن و آشتی کا راج رہا۔ تاہم گزشتہ دنوں دہشت گردوں نے آزاد کشمیر کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ عسکریت پسند تحریکِ آزادی کے بیس کیمپ تک پہنچ چکے ہیں لیکن کشمیر کی سکیورٹی فورسز اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایسے کئی ایک واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے آزاد کشمیر کی سکیورٹی فورسز کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں سکیورٹی فورسز کی کارکردگی اور پرتشدد واقعات کے پسِ پردہ کارفرماعوامل کا مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔ (مدیر)

آزادکشمیر، ریاست جموںوکشمیر کی تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے۔ دہشت گرد اس حسین وادی تک پہنچ چکے ہیں۔ حکومت آزادکشمیر کے پاس مناسب سکیورٹی اوروسائل نہ ہونے کے باعث آزادکشمیر کے بعض علاقوں میں دہشت گرد عناصر نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کرلی ہیں اور کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والی مقامی مذہبی قیادت ان دہشت گرد عناصر کو ہرقسم کی مدد مہیا کرتی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے آزادکشمیر پہاڑی علاقوں اور درّوں پر مشتمل ہے ۔ مرکزی شاہراہیں اور رابطہ سڑکوں کے علاوہ بھی ایسے درجنوں راستے ہیں جہاں سے دہشت گرد باآسانی آزادکشمیر میں داخل ہوسکتے ہیں ۔ داخلی راستوں پر سکیورٹی سے متعلق معقول انتظامات نہیں کئے گئے ہیں۔ آزادکشمیر پولیس ملک کے دوسرے صوبوں کی پولیس کی طرح روایتی انداز سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی ہے۔اس خطہ بے نظیر میں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے اور سنگین جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں، چنانچہ پولیس کو جدید تربیت مہیا کرنا کبھی گوارا نہیں کیا گیااور نہ ہی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پولیس کو تربیت دی گئی ہے۔ ان حالات میںسکیورٹی اداروں سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھناعبث ہے ۔آزادکشمیر میں دہشت گردی کے واقعات کے باوجود پولیس کو اس چیلنج سے نمٹنے اور تیاررکھنے کے لئے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ شہری دفاع سمیت دوسرے اداروں کے اہلکار بھی تربیت سے محروم ہیں۔جس کااندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ فروری کے اوائل میں ضلع راولاکوٹ کے علاقہ تراڑکھل میں بم برآمد ہواجس کی اطلاع پولیس کودی گئی۔راولاکوٹ میں بم ڈسپوزل سکواڈ کاکوئی اہلکار موجود نہیں تھا۔مقامی انتظامیہ نے باغ ضلع کے حکام سے رابطہ کیا ۔باغ میں شہری دفاع کے بم ڈسپوزل سکواڈ کاواحد اہلکار چھٹی پرتھا جوضلع پلندری کا رہائشی تھا۔اسے بم ڈی فیوز کرنے کے لئے بلایا گیا ۔رات بھر تماشا جاری رہنے کے بعدصبح جب بم ڈسپوزل سکواڈ کااہلکار پہنچاتو اس نے بم ناکارہ بنانے کی کوشش کی ۔اس موقع پر انتظامیہ یا پولیس کاکوئی بھی افسر موجود نہیں تھا۔متعلقہ اہلکار نے ڈیڑھ گھنٹے کی کوشش کے بعد بم ناکارہ بنایا اور اردگرد جمع لوگوں کو کہا کہ آؤتم لوگوں کو دکھائوں کہ بم کیسا ہوتا ہے۔جب بہت سارے لوگ جمع ہوگئے تو اس اثناء میں بم زور داردھماکے سے پھٹ گیاجس سے ایک نوجوان ہلاک جبکہ13افراد زخمی ہوگئے۔اس واقعہ کے بعد پونچھ میں احتجاج شروع ہوگیا اور اہلِ شہر کی طرف سے مقامی انتظامیہ اورپولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی گئی لیکن پولیس اور انتظامیہ نے معاملہ دبانے کے لئے روایتی ہتھکنڈے شروع کردیے۔بم دھماکے میںہلاک ہونے والے نوجوان کے لواحقین کوپانچ لاکھ روپے معاوضہ اوراس کے چھوٹے بھائی کو گریڈایک کی ملازمت دیکر خاموش کروا دیا گیا۔ اس طرح کادوسرا واقعہ ضلع باغ میں رونما ہوا، جب لاری اڈہ کے ایک ہوٹل میں نامعلوم شخص بیگ بھول گیا۔ہوٹل انتظامیہ نے مشکوک بیگ کی اطلاع پولیس کودی۔پولیس نے بیگ کی تلاشی لی،جس سے جیالوجیکل سروے کاایک آلہ برآمد ہوا۔پولیس نے اسے بم قرار دیتے ہوئے علاقہ خالی کروادیا۔پولیس نے 4گھنٹے بعدہمت کرکے اس آلے کوقریبی نالے میں پھینک دیا اور اس کے پھٹنے کاانتظار کرنے لگے۔اگلے روز پولیس کو معلوم ہوا کہ یہ بم نہیںبلکہ محض50روپے مالیت کا (compass)قطب نما تھا ۔ اس سے آزاد کشمیر کے سکیورٹی اداروں کی صلاحیت اور استعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی صرف آزادکشمیر یا پاکستان کا ہی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کوئی نظام موجود نہیں ہے۔دہشت گردوں کی رسائی شہری علاقوں سے حساس اداروں تک ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی جو دہشت گرد وں کو پناہ یادوسری لاجسٹک سہولیات مہیا کرتے ہیں۔دارالحکومت مظفرآباد میں جب آرمی کیمپ پر پہلا خودکش حملہ کیا گیا تو حملہ آور سے متعلق حساس اداروں نے جورپورٹ دی ،اس کے مطابق خودکش حملہ آور نے واردات سے پہلے مظفرآباد میں رات گزاری لیکن سکیورٹی ادارے ان عناصر تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

جنوبی وزیرستان ہو، مظفرآباد یا راولاکوٹ ،مقامی ذرائع سے حاصل ہونے والی مددکے بغیر کوئی دہشت گرد اپنے ٹارگٹ کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتا لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حقیقت سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ۔

آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میںسب سے بڑا خودکش حملہ شب عاشور کی شام مرکزی امام بارگاہ کے مرکزی دروازے پر ہوا،جس میں 8افراد شہید جبکہ83زخمی ہوئے۔مغرب سے چند منٹ پہلے خودکش حملہ آور گاڑی سے اترا اورشیخ زید ہسپتال کے مرکزی دروازے کے بالمقابل مرکزی امام بارگاہ کے واحد داخلی دروازے سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ انجمن جعفریہ کے رضا کاروں نے اسے روک لیا۔تلاشی کے دوران 15سے 17سالہ نوجوان نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا جس میں جانی نقصان کے ساتھ ساتھ بھاری مالی نقصان بھی ہوا ۔ مظفرآباد میں ہونے والے اس خودکش حملے کی تحقیقات تاحال منظر عام پر نہیں آسکیں اور نہ ہی خودکش حملہ آور کے بارے میں معلوم کیا جاسکا ہے کہ اس کا تعلق کس علاقے سے ہے؟ وہ کس طرح مظفرآباد تک پہنچا؟ کہاں پناہ حاصل کی ؟ سکیورٹی ادارے چار ماہ سے زائد عرصہ کے دوران اہل تشیع آبادی کو تحقیقات سے متعلق مطمئن نہیں کرسکے۔تحقیقات کوخفیہ رکھنے کا بہانہ بنا کرٹرخاؤ پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔حکومت اور اداروںکی یہ پالیسی مظفرآباد کے مثالی امن وامان اور باہمی رواداری کے رشتوں کو تہس نہس کرنے کاموجب بنتی جارہی ہے، خودکش حملے کے بعد چند مقامی افراد کو گرفتار بھی کیاگیا تاہم بعدازاں انہیں چھوڑ دیاگیا ۔

آزادکشمیر آئینی وقانونی لحاظ سے پاکستان کا حصہ نہیںہے ۔ریاست جموںوکشمیر 84ہزار 4سو 71مربع میل پر مشتمل متنازعہ علاقہ ہے مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان قابض ہے۔ آزادکشمیر میں افواج پاکستان حکومت آزادکشمیر کی درخواست پر موجود ہیںاور وہ آزاد کشمیر حکومت کی درخواست پر ہی دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ کشمیری گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے اپنی آزادی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں، چنانچہ اس قسم کی کارروائیاںتحریک آزادی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔مظفرآباد دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ جہادی تنظیموں کا ہیڈکوارٹر بھی رہا ہے مگر دہشت گردی کے واقعات کبھی رونما نہیں ہوئے۔ہندوستان تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی قرار دے چکا ہے۔ ان حالات میں انتہا پسند عناصرکی طرف سے دہشت گردی کی کارروائیوں سے جدوجہد آزادی کیخلاف بھارت کو مؤثر اور ٹھوس ثبوت میسر آگیا ہے ۔ہندوستان 63سالہ تاریخ میں تمام ترحربوں کے باوجود تحریک آزادی کشمیر پر جوالزام لگانے میں ناکام رہا دہشت گرد عناصر نے اسے یہ جواز مہیا کردیا ہے ۔آزادکشمیر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو عوامی سطح پر سخت ناپسند کیاگیا ہے اوران کی سخت مذمت کی گئی ہے ۔عوام کی غالب اکثریت دہشت گردی اورانتہا پسندی کے خلاف ہے ۔دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی ادارے جوکردار ادا نہیں کرسکے وہ عوام نے ادا کیا جس کا واضح ثبوت سراڑکا واقعہ ہے ۔سراڑ کے واقعہ سے قبل 3دہشت گرد چھتر کے علاقہ میں اسلحہ پھینک کرفرار ہوگئے۔ مقامی افراد نے ان دہشت گردوں کاتعاقب شروع کردیا اور سراڑ کے مقام پر انہیں گھیرے میں لے لیا ۔عوامی مزاحمت پر خودکش حملہ آور نے خود کو اُڑا لیا۔ اس وقت موقع پر2اے ایس آئی، ایک حوالدار اور2پولیس اہلکار موجود تھے ۔چھتر کے مقامی نوجوانوں نے ہی دہشت گردوں کو للکارا تھا لیکن پولیس نے واقعہ کے اصل حقائق مسخ کرکے پیش کیے۔

آزادکشمیر میں ایک بڑی تعداد دوسرے علاقوں سے آکر آباد ہوئی ہے۔ پاکستان سے آزادکشمیر کا رخ کرنے والے افراد بھی قانون کے تحت آزادکشمیر میں غیر ریاستی تصور کیے جاتے ہیں جبکہ افغانی شہریوں کو کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے۔ آزادکشمیر میں افغانیوں کی موجودگی اداروں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ،ان کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے لیکن پولیس دانستہ طور پر افغانیوں کو سہولت مہیا کرتی ہے۔دارالحکومت میں جب کوئی دھماکہ ہوتا ہے یاحکومت کی طرف سے پولیس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے توپولیس افغانیوں کو گرفتار کر لیتی ہے تاہم سات ہزار روپے فی کس وصول کرکے چند روز بعد انہیں چھوڑدیا جاتا ہے۔ ابتدا میں یہ قیمت ایک ہزار روپے مقرر کی گئی تھی جو اَب7ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ دوسری طرف رات کے وقت ناکوں پر تعینات پولیس اہلکار رات بھر گاڑیاں روک کر افغانیوں سے چندہ وصول کرتے ہیں۔ پولیس دوسرے اضلاع سے آنے والی گاڑیوں کے ڈارئیوروں سے فی کس50روپے وصول کرتی ہے اور یوں وہ اپنی گاڑیاں چیک نہیں کراتے۔ مذکورہ صورت حال یہ ثابت کرتی ہے کہ دہشت گرد آزادکشمیر کے داخلی راستوں پر 50روپے کا نوٹ دیکر اپنے ہدف تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے مستقبل میں آزاد کشمیر میں دہشت گردی کے مزید واقعات کا ہونا خارج از امکان نہیں ۔