working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

امریکہ کی افغانـ پاک پالیسی کا تجزیہ
عائشہ خان

افغانستان میں جاری امن کے لیے جنگ، امن سے بڑھ کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے مفادات کی جنگ بنتی جارہی ہے۔ مثبت پیش رفت نظر نہیں آرہی جبکہ اس میں کودنے والے ہر کھلاڑی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہر دوسرا فریق پہلے فریق کے اپنے دفاع کے لیے کیے گئے اقدامات کو غلطیوں اور کوتاہیوں کا نام دیتا ہے اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ مضمون نگار کے اپنے خیال میں نقاد اور مبصرین، پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے متضاد رویے کو افغان پاک پالیسی میں نرمی اور تسلسل کے حوالے سے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اوباما پالیسی دراصل بش انتظامیہ کی پالیسی کا تسلسل ہے۔ جس میں ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کا مستقبل قریب میں خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ زیرِنظر مضمون میں معروف برطانوی تھنک ٹینک چتھم ہاؤس سے وابستہ ریسرچ فیلو عائشہ خان نے اسی تناظر میں حقائق کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔(مدیر)
تعارف
بش انتظامیہ کی ناکام پالیسی اور جامع و مربوط منصوبہ سازی کے فقدان نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں کوایسے تصادم سے دوچار کر دیا ہے، جہاں طالبان کابل سے کشمیر تک علاقائی سالمیت کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں۔ بش انتظامیہ کے بعد اوبامہ انتظامیہ کے لیے یہ موقع پیدا ہوا کہ وہ افغانستان میں جاری فسادات اور طالبان بغاوت کو کچلنے کے لیے نئی پالیسی ترتیب دے۔ مارچ 2009ء میں اوبامہ انتظامیہ نے ''ایف پاک'' کے نام سے افغانستان کے لیے امریکہ کے نئے منصوبے کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کو "Afpak" کا نام کیوں دیا گیا؟ ماہرین اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس منصوبہ میں پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی جغرافیائی یونٹ شمار کیا گیا ہے۔ اور دو مختلف مگر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تصادم ''افغانستان میں شورش اور پاکستان میں عسکریت پسندی'' کو ایک ہی قسم کا خطرہ سمجھتے ہوئے یکجا کر دیا گیا ہے۔ یہ سیاسی سرحدی علاقہ افغانستان کے پشتون علاقوں جنوب اور مشرق کی جانب اور پاکستان کے قبائلی سرحدی علاقہ جات کو ایک خطہ بناتا ہے۔ جہاں پر ڈیورنڈ لائن یا سرحد کی کوئی اہمیت نہیں رہتی جو ان دو ممالک کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتی ہے۔

اس سرحدی علاقے میں بغاوت کے سدباب کے لیے "Afpak" نے جو لائحہ عمل دیا ہے۔ اس میں افواج کی تعداد میں اضافہ، معتدل طالبان سے مفاہمت، مسئلہ کا علاقائی تناظر میں جائزہ اور پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی پالیسی کی حمایت جو طالبان کے خلاف قبائلی علاقوں میں جاری ہے۔ کیا یہ لائحہ عمل اس مسئلے کا حل ہو سکتا ہے؟ ابتدائی تجزیے کے مطابق یہ منصوبہ اور لائحہ عمل اس تصادم میں اضافے کا باعث بنے گا۔ کیونکہ "Afpak" منصوبے میں مختلف تضادات کے ساتھ ساتھ اس کی ساخت اور بناوٹ میں ایسے خلاء موجود ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعہ کو مزید ہوا دیں گے اور ایک نئے سرحدی تصادم کی راہ ہموار کریں گے۔

درحقیقت "Afpak" پالیسی کی کامیابی سرحدی علاقوں کی سمجھ بوجھ سے مشروط ہے لیکن اس منصوبے میں، سرحدوں، سرحدی معاشرہ اور اس کے ریاست کے ساتھ تعلق کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ خاص کر پشتون علاقے جو اس تصادم میں خاص اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ سرحدی علاقے اس لیے اہمیت کے حامل ہیں، کہ یہ کسی بھی ریاست کو قائم کرنے میں اور کسی بھی ریاست کو گرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخی طور پر بھی یہ علاقے یا تو ریاست کے خلاف محاذ قائم کرتے نظر آتے ہیں یا ریاست کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ 'ایف پاک'' پالیسی میں ان علاقوں کی صحیح صورتحال کے تجزیے میں ناکامی، منصوبے کے عملی اقدامات پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور یہ پالیسی ان سرحدی علاقوں کو ریاست سے بغاوت پر بھی مجبور کر سکتی ہے۔

اس مضمون میں "Afpak" پالیسی کا نہ صرف جائزہ لیا گیا ہے بلکہ اس میں پائے جانے والے تضادات اور خلاء کو بھی حتّی الامکان واضح کیا گیا ہے اور پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں کے خدوخال کو مدنظر رکھتے ہوئے "Afpak" کے قابل عمل ہونے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

انسداد دہشت گردی / بغاوت اور افواج کا بہائو
بش انتظامیہ نے افغانستان کے پشتون علاقوں کو نہ صرف خطرناک قرار دیا تھا بلکہ انسداد دہشت گردی کے لیے ایک چیلنج بھی قرار دیا تھا۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ''وار آن ٹیرر'' کے ذریعے ساری توجہ القاعدہ اوراسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کے لیے جنوبی اور مشرقی صوبوں پر مرکوز رکھی اور اس کے لیے اس نے ان علاقوں میں فوجی کارروائیوں پر انحصار کیا۔ ان فوجی کارروائیوں کو امریکہ کی فضائی فورس کی حمایت بھی حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے ان علاقوں میں القاعدہ، طالبان اور عام پشتون کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا۔ بلاوجہ قید، سرچ آپریشن کے دوران گھروں کی تلاشی، افواج کا بے دھڑک گھروں میں داخل ہونا اور فوجی مقاصد کے لیے لوکل ملیشیا کو استعمال کرنا، ان کارروائیوں سے افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے پشتون علاقوں کو میدان جنگ بنا دیا گیا۔ نئی اوبامہ انتظامیہ نے بھی انسداد دہشت گردی کی جنگ کو جاری رکھتے ہوئے آرمی آپریشن کی سوچ کو برقرار رکھا۔ لیکن اس نے افغانستان کے پشتون علاقوں کو خاص اہمیت دیتے ہوئے بغاوت کو کچلنے کے نت نئے طریقے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

افغانستان میں فوج کے اضافے اور پشتون علاقوں میں آرمی کی تعیناتی نے ایک سرحدی آرمی چھائونی کا تصور قائم کیا ہے۔ کیونکہ صدر اوبامہ کے مطابق 2010ء کے وسط تک پچاس ہزار نوجوانوں پر مشتمل افواج کی تعداد 1,20,000 تک پہنچ جائے گی۔ جس میں 80 ہزار زمینی افواج شامل ہیں جو 85,000 سے 1,00,000 مجاہدین سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان میں امن کے لیے ایک ہزار افغانیوں کے لیے 20 فوجیوں کا تناسب رکھنا ضروری ہے۔ افواج میں اضافے کا اقدام بش انتظامیہ کے اقدامات کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ بش انتظامیہ نے چند فوجیوں کو پورے افغانستان میں پہاڑی سلسلوں پر پھیلایا ہوا تھا اور کابل کو مرکز قرار دیا تھا۔ جبکہ نئے منصوبے میں ان فوجیوں کو کسی ایک خاص علاقے کو کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا جائے گا اور نہایت سرعت کے ساتھ زیادہ فوج لگا کر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جس سے لامحالہ فوجیوں کے لیے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔

امریکی انتظامیہ کا یہ منصوبہ اقوام متحدہ کی امن پالیسی کے مقاصد کی سراسر نفی کرتا ہے اور اس معاہدے کے بھی منافی ہے جس کے تحت طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد کرزئی حکومت قائم کی گئی تھی اور اس کے لیے "ISAF" بین الاقوامی تحفظ فورس کو کابل میں مامور کیا گیا تھا۔ لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کی پالیسی کے برخلاف اپنی فوجوں کو افغانستان میں اتارا تاکہ افغانستان کے جنوب اور مشرقی صوبوں کے پشتون علاقوں سے القاعدہ اور طالبان کی قوت کا خاتمہ ممکن بنا سکے۔ اگرچہ دسمبر 2001ء میں کابل سے طالبان حکومت کا صفایا کر دیا گیا تھا۔ لیکن مستقبل میں اس خطے میں امن کے قیام کے لیے ا قوام متحدہ اور عالمی برادری سیکورٹی سسٹم کی فراہمی میں ناکام ہوئیں جس کی بناء پر یہاں مجرمانہ عناصر، جنگجو کمانڈرز اور بغاوت کے فتنوں نے سراٹھانا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ ان فتنوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ جس کی بناء پر ایساف کو NATO میں تبدیل کیا گیا۔ اور ناٹو (NATO) کو 2003 میں کابل سے آگے پھیلا دیا گیا اور 2006ء میں اسے پشتون علاقوں میں تعینات کر دیا گیا۔ یہاں اس نے بغاوت کو امریکی افواج کے ساتھ مل کر کچلنے کی کوششوں کا آغاز کیا لیکن اس وقت تک بہت تاخیر ہو چکی تھی۔ اس منصوبے کے آغاز سے امن کی کوششوں پر بُرا اثر پڑا اور افغان عوام جنھوں نے غیرملکی افواج کو ابتداء میں خوش آمدید کہا تھا وہ اس کارروائی کے بعد ان کے خلاف ہو گئے۔

اب صورتِ حال یہ ہے افغان عوام غیر ملکی افواج کے اقدامات سے تنگ آ چکے ہیں جبکہ پشتون خصوصاً سرحدی علاقوں میں غیرملکی افواج کے قبضے کو اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جہاں اس وقت 5000 ایساف اور 11 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔

اوبامہ انتظامیہ کے "Afpak" پالیسی کے اعلان نے نئے خدشات اور خطرات کو جنم دیا ہے۔ خصوصاً جنوب اور مشرقی پشتون علاقے جو اس وقت تصادم کی زد میں ہیں، افواج کی تعداد میں اضافے سے تصادم کی آگ مزید بھڑکے گی۔ جنگ بڑھے گی اور سویلین ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ جیسا کہ 2007ء میں 1523 اور 2008ء میں2118 افغان سویلین مارے گئے۔ ہلاکتوں کی یہ تعداد ہر سال 40% کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ جنوری 2010ء کی رپورٹ کے مطابق 2009ء میں سویلین ہلاکتوں میں مزید 14% اضافہ ہوا۔ جس کی بناء پر افغان حکومت اور غیرملکی افواج کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نئی پالیسی میں ان ہلاکتوں میں کمی کرنے کے لیے فضائی فورس پر انحصار کی بجائے زمینی افواج کی پیش قدمی پر زور دیا گیا ہے۔ جنرل میک کرسٹل نے کہا ہے کہ سویلین کی حفاظت کے لیے ناٹو اور اتحادی افواج کو خطرے میں ڈالنے سے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ویت نام جنگ کے بعد افغانستان انسداد بغاوت کی جنگ میں ایک تجرباتی میدان بن چکا ہے۔ لیکن کیا امریکی افواج اس جنگ میں کامیاب ہوسکیں گی؟ جنرل میک کرسٹل نے بغاوت کو کچلنے کے لیے باغیوں کو واپس دھکیلنے کے لیے 12 مہینے کا وقت دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے بغاوت ماند پڑ جائے گی۔ اس دوران فوجی اور سویلین ہلاکتوں میں بہت زیادہ اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ جنرل کے مطابق اس جنگ میں کامیابی کا انحصار ملٹری کے لائحہ عمل پر صحیح طور پر عمل درآمد کرنے پر ہے۔ اس کے مطابق افواج کی پشتون علاقوں میں موجودگی لازم ہے تاکہ وہ اس علاقے کے عوام کی حمایت حاصل کر سکیں۔ لیکن عوام میں امریکی افواج کے خلاف نفرت کو دیکھتے ہوئے اور پشتون علاقوں میں طالبان کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

صوبہ ہلِمند کو جنگجوئوں سے صاف کرنے، کنٹرول اور تعمیر کی پالیسی
ناٹو فورسز کے لیے طالبان کو پسپا کرنا اور انھیں کسی علاقے سے بیدخل کرنا کسی خطرے سے کم نہیں۔ بش انتظامیہ نے ہِلمند میں بغاوت کو کچلنے کے لیے صوبہ کو جنگجوئوں سے صاف کرنے اور پھر علاقے کے کنٹرول کرنے اور تعمیر کی پالیسی اپنائی۔ اس طرح ہِلمند وہ واحد صوبہ ہے جہاں زمینی افواج کے ذریعے کارروائی کا فیصلہ کیا گیا اورافواج میں اضافہ ہوا۔ جولائی 2009ء میں 4000 امریکی ماہرین نے اوبامہ انتظامیہ کی ایفپاک پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے طالبان کو ہلمند سے پسپا کیا۔ اگرچہ اس کارروائی میں امریکی اور برطانوی فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کیونکہ وہ ایسے علاقے میں تھے جو ان کے حفاظتی نیٹ ورک سے باہر تھا۔ طالبان نے براہ راست مزاحمت کرنے کی بجائے مارنے اور پھر بھاگنے کی پالیسی اپنائی۔ اور دھماکہ خیز مواد کے ساتھ ساتھ خود کش حملوں کا بھی کامیابی سے استعمال کیا۔ ہِلمند کو جنگجوئوں سے صاف کرنے کے نتیجے میں طالبان قندھار اور دیگر پشتون علاقوں میں پھیل گئے۔ جس کے بعد NATO کو کئی محاذ پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انسداد بغاوت کے لیے کسی بھی علاقے کو صاف کرنے کے بعد اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنا اگرچہ کامیاب پالیسی قرار دی جا سکتی ہے۔ مگر ہِلمند جو کہ افغانستان کی جنگ میں ایک ا ہم میدان جنگ ہے اور جہاں 2006ء سے 3600 برطانوی فوجی تعینات ہیں وہاں جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کامیابی کچھ وقت کے لیے حاصل ہوتی ہے کیونکہ جو علاقے طالبان سے خالی کروائے جاتے ہیں، کچھ عرصے کے بعد دوبارہ طالبان کے پاس ہوتے ہیں۔ برطانوی افواج کا یہ منصوبہ کہ پورے علاقے کو مکمل طور جنگجوئوں سے خالی کروایا جائے ناکامی سے دوچار ہوا، کیونکہ ہلمند میں برطانوی افواج کے بہت کم مستقل بیس کیمپ ہیں۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی افواج اس سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکیں گی۔ جبکہ امریکی ماہرین یہ شکایت کرتے ہیں کہ انھیں میدان میں مقامی لوگوں کی حمایت حاصل نہیں اور وہ ان کی موجودگی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں مجموعی آبادی سے طالبان باغیوں کو الگ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اور مقامی حفاظتی اقدامات صوبائی اور اضلاعی سطح پر بالکل مفقود ہیں۔ جس سے افواج کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ اگرچہ 2010ء میں افواج کی تعداد میں مزید اضافہ کا امکان ہے لیکن علاقائی اور مقامی صورتحال کو جانچتے ہوئے امریکی ماہرین جنھیں قابض غیر ملکی افواج کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ان کی خاطر خواہ کامیابی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

صرف افواج میں اضافہ افغانستان کے معمہ کا حل نہیں ہو سکتا بلکہ اس سے اہم بات اصل حقائق کا اندازہ لگانا ہے۔ جنرل میک کرسٹل نے کہا ہے کہ یہ جنگ قلوب و اذہان کو فتح کرنے کی جنگ بن چکی ہے۔ ہمیں پشتون آبادی کی حمایت حاصل کرنا ہو گی اور پھر اس کی تعمیر کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ جبکہ ملٹری کا یہ کہنا ہے کہ جب ایک مرتبہ علاقے کو جنگجوئوں سے پاک کر کے قبضہ حاصل کیا جائے گا تو پھر تیسرے مرحلے میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی سے ہماری انسداد دہشت گردی یا بغاوت کی پالیسی کامیاب ہو سکے گی۔ نیک نیتی اور تعمیر نو کی سوچ کے باوجود ماضی کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ملٹری کی افغانستان کے پشتون علاقوں میں امن کی پالیسی میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ ملٹری کو یہاں پر صرف جنگ اور سیاسی مقاصد سے غرض ہے۔ اس کے بعد ملک کی جو صورتحال ہو گی اس کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اس لیے تجزیہ نگار پشتون بیلٹ میں تعمیر نو کے پروجیکٹس کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں۔

قلوب و اذہان کی فتح اور سول ملٹری تنازعہ
پشتون علاقوں میں کارروائی کے دوران ملٹری نے ان علاقوں میں تعمیر و ترقی کے منصوبے کا بھی اعلان کیا ہے اور تعمیر و ترقی کے لیے دو ادارے صوبائی تعمیر نو کی ٹیم (PRTs) اور "Quick Impact Projects" (QIPs) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ امدادی تنظیموں نے ملٹری کے ذریعے تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو تصادم کی حالت میں ناقابل عمل قرار دیا ہے۔ (PRTs)، NATO/ISAF کے ابتدائی دستے پر مشتمل چند سویلین اور آرمی کے افراد کا چھوٹا سا مجموعہ ہے جو سول ملٹری تعاون سے حکومت کے قیام، تعمیر نو، انسانی امداد، تصادم کے حل اور انسداد بغاوت کے پیمانوں پر غور و فکر کرتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکی آرمی نے PRTs کے ذریعے لوگوں کے قلوب اور اذہان کو فتح کرنے کے لیے تعمیر و ترقی کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فوجی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ جبکہ خود مختار امدادی تنظیموں کے مطابق جنگ کی اس کیفیت میں امدادی کارکنوں اور فوجیوں میں امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے پشتون علاقے کئی سالوں سے ان امدادی تنظیموں کے لیے نوگوایریاز ہیں۔

امریکی فوج جن دو اداروں کے ذریعے تعمیر نو کے منصوبے بنا رہی ہے، ان کا واحد مقصد صرف آرمی کارروائیوں کے لیے لوکل حمایت حاصل کرنا ہے اور تعمیر کے یہ منصوبے نہ تو لمبے عرصے کے لیے بنائے جا رہے ہیں اور نہ ہی مقامی آبادی کو ان میں شامل کیا جا رہا ہے۔ مقامی شوریٰ کونسل نے کہا ہے کہ دیگر منصوبے صرف دکھاوے کے لیے ہیں جن کا مقصد صرف غیر ملکی مقاصد کی تکمیل ہے۔ یہ منصوبے ''سفید ہاتھی'' بن چکے ہیں جن کا مقامی آبادی سے کوئی تعلق نہیں۔ جو غربت اور وسائل سے محرومی کا شکار ہیں اور بھوک و افلاس اور میڈیکل سہولیات کی عدم فراہمی کا شکار ہیں۔ USAID امریکی امدادی تنظیم بھی پشتون علاقوں میں امداد کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن انھوں نے تاحال پشتون بیلٹ کے لیے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔ آرمی کے ذریعے دی جانی والی امداد لوگوں کے قلوب و اذہان کو اور پشتون بیلٹ کے اعتماد کو نہیں جیت سکتی۔ لیکن اس کے باوجود اس طرح کی کوششیں جاری رہنی چاہئیں تاکہ وہاں کی لوکل آبادی کو سمجھا جا سکے۔ اس طرح کی معلومات ملٹری کامیابی کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ جنرل میک کرسٹل کے مطابق وہ لوگوں سے میل جول کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ ان لوگوں کی رائے /ترجیحات اور ضروریات معلوم کی جا سکیں۔

قبائلی جنگجو اور پرائیویٹ ملیشیا کا قیام
اگرچہ امریکی آرمی نے 2006ء میں ایک Human Terram System (HTS) تشکیل دیا تھا۔ جس میں لوکل آبادی کے علاقائی و ثقافتی پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن انھوں نے اس کے ذریعے صرف جاسوسی کا کام لیا اور ان کی معلومات کو صرف فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا۔ امریکی انتھراپالوجسٹ کی ٹیم نے اس سسٹم کی مخالفت کی تھی کیونکہ اس تحقیق کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اسی HTS نے بغاوت کو کچلنے کے لیے اور مقامی سطح پر قبائلی جنگ کو جیتنے کے لیے مقامی قبائلیوں اور ملیشیا کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز دی۔ یہ منصوبہ واردک صوبہ کے دو اضلاع میں اس وقت شروع ہے۔ اس اہم پروجیکٹ کو افغان پبلک پروٹیکشن فورس (گارڈینز) کا نام دیا گیا۔ امریکی فورسز نے قبائلی راہنمائوں کے دیے ہوئے افراد کو نہ صرف تربیت دی بلکہ انھیں اسلحہ بھی فراہم کیا تاکہ وہ کیمونٹی کی حفاظت کریں اور طالبان کے خلاف لڑ سکیں۔ لیکن یہ لائحہ عمل نہ صرف سول جنگ کی راہ ہموار کرتا ہے، بلکہ ایسے معاشرے کے اندر جو مختلف قبائل اور ذات پات میں تقسیم ہے ،مزید تصادم میں اضافہ کرتا ہے۔ اس طرح اقوام متحدہ کی عوام کو اسلحہ سے پاک کرنے کی پالیسی سے بھی انحراف کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہی اسلحہ انھیں مختلف جرائم اور طاقت کے بے جا استعمال کی راہ دکھاتا ہے۔ افغان نیشنل آرمی (ANA) کی تربیت اور اس میں اضافے کی تجویز کو اگرچہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے لیکن اس فورس کی کارکردگی اور اس میں علاقائی اور قبائلی عدم توازن اس کی اہمیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

طالبان کی شمولیت
افغانستان میں جاری جنگ میں تیزی آنے کے ساتھ ہی غیر ملکی افواج بشمول امریکی فوج نے افغانستان سے واپس جانے کے لیے حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے لیے طالبان سے مذاکرات بھی کیے جا رہے ہیں۔ اہم سطح پر یہ مذاکرات افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہوں گے۔ لیکن دونوں طرف سے قبل از مذاکرات شرائط کی وجہ سے تاحال مذاکرات شروع نہیں ہو سکے۔ طالبان کا مطالبہ ہے کہ مذاکرات سے پہلے غیر ملکی افواج کی افغانستان سے بے دخلی ضروری ہے جبکہ ناٹو اور افغانی حکومت، غیر ملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی ہی میں طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہیں۔

مقامی سطح پر طالبان سے مذاکرات مختلف نوعیت کے ہیں۔ بنیادی طور پر تصادم زدہ علاقوں میں طالبان باغیوں، مذہبی اور قبائلی راہنمائوں کو حکومتی معاملات میں حصہ دار بنایا گیا ہے۔ تاہم NATO فورسز کے لیے فرق کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کن افراد کو حکومت میں شامل کیا جائے۔ اسی طرح کا ایک کمزور معاہدہ موسیٰ قلعہ ہِلمند میں دو سالہ جنگ کے بعد 2008ء میں برطانوی افواج نے طالبان کے ساتھ کیا۔ جس کے مطابق ایک علاقے کی حکومت ملاسلیم کو دی گئی جو پہلے برطانوی افواج کے ساتھ برسرپیکار رہا لیکن بعد میں اسے طالبان کی صفوں سے نکال دیا گیا۔ اس معاہدہ کی روشنی میں ایسے تمام طالبان سے مفاہمت کرنے کی پالیسی بنائی گئی جو مذاکرات کی راہ اپنانا چاہتے ہیں۔

مذاکرات سے پہلے غیر ملکی افواج کا اہم مقصد طالبان جنگجوئوں میں سے نظریاتی طور پر سخت اور غیر نظریاتی طالبان کو الگ کرنا ہے۔ کیونکہ جو لوگ کسی نظریے کے بغیر طالبان میں شامل ہوئے ہیں، ان میں سے اکثریت عام قبائلی ہیں یا قبائلی ملیشیا میں شامل رہے ہیں جو غیر ملکی افواج کے قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ مذاکرات مقامی سطح کے افغان راہنمائوں کی سربراہی میں کیے جائیں تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔ ایک اور تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ اگر طالبان جنگجوئوں کی مالی مدد کی جائے یا انھیں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ بغاوت چھوڑنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق جنگجو پیسوں کے عوض دوبارہ باغیوں سے اتحاد کر سکتے ہیں۔ البتہ طالبان کو خوش کر کے کامیابی آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے، جس کے لیے مفاہمتی عمل جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔ تاہم یہ مفاہمت کمزوری کی بنیاد پر نہیں کی جانی چاہیے کہ جس کا فائدہ اٹھا کر طالبان دوبارہ کسی علاقے پر قابض ہو جائیں بلکہ غیر ملکی افواج کی امن فورس کی حیثیت سے افغانستان میں موجودگی لازمی قرار دی جانی چاہیے۔

Af-pak سے Pak-af کی جانب:
جنگ کا رخ پاکستان کے قبائلی علاقوں کی طرف

امریکی ایفپاک پالیسی افغانستان میں تو طالبان کے ساتھ ہر قسم کی مفاہمت کے لیے تیار ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ پاکستانی افواج بعض اوقات ملٹری آپریشن کے دوران قبائلی جنگجوئوں سے معاہدہ کر لیتی ہیں تاکہ جنگجوئوں پر قابو پایا جا سکے اور انھیں قبائلی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے سے روکاجا سکے۔ لیکن امریکی اور NATO فورسز قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے ہر ایک معاہدے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہیں کہ ان معاہدات سے طالبان کو منظم ہونے کا موقع مل جائے گا اور سرحد کے دونوں طرف مجاہدین کی آمد و رفت میں اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستانی حکومت کے مطابق ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں اور نہ ہی یہ امن مذاکرات اس تصادم کا مستقل حل ہیں۔ بلکہ یہ امن معاہدات صرف عارضی بنیادوںپر قائم ہوتے ہیں اور پھر جنگجو یا آرمی خود اس کو توڑ دیتے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور صوبہ سرحد کی حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قبائلی راہنمائوں سے امن معاہدات کی کوشش کی تھی۔ لیکن ان علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں اور امریکہ کے خلاف نفرت کی وجہ سے کوئی بھی معاہدہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ اسی طرح سوات میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بھی جنگجوئوں نے توڑ دیا تھا۔ جس کے بعد آرمی اور حکومت نے طالبان جنگجوئوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

امریکی خارجہ پالیسی: پاکستان اور افغانستان کے بارے میں ایک نئی سمت
نقاد اور مبصرین، پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے متضاد رویے کو Afpak پالیسی کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اوبامہ پالیسی دراصل بش انتظامیہ کی پالیسی کا تسلسل ہے۔ جس میں ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کا مستقبل قریب میں خاتمہ ناممکن نظر آتا ہے۔ Afpak پالیسی میں افغانستان اور پاکستان میں پائی جانے والی بغاوت اور تصادم کو ایک نظر سے دیکھنا اور اس کے مطابق انسداد بغاوت کے لیے دبائو ڈالنا دراصل اس جنگ کو پاکستان کے دیگر علاقوں خصوصاً بلوچستان تک پھیلانا ہے۔ لیکن کیا افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ کو نئے محاذ پر جیتنا ممکن ہو سکتا ہے؟ پالیسی میں یہ تبدیلی اوبامہ انتظامیہ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آتی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ القاعدہ کو ختم کرنے کے لیے ہم کہیں بھی جا سکتے ہیں۔

واشنگٹن کے اعلیٰ عہدیدار اور افغانستان میں موجود ملٹری کمانڈر اوبامہ انتظامیہ کی Afpak پالیسی میں تبدیلی کی حمایت کر رہے ہیں۔ جنرل میک کرسٹل کے مطابق افغانستان میں بغاوت کو پاکستان کے اندر سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول لڑنے والے باغی طالبان افغانی ہی ہیں مگر ان کی سینئر قیادت پاکستان کے اندر سے ان کو ہدایات جاری کر رہی ہے۔ انھوں نے عندیہ دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا رخ پاکستان کی طرف ہو سکتا ہے۔ جبکہ افغانستان میں صرف تعمیر نو کے ذریعے بغاوت کا انسداد ممکن ہے۔ افغان حکومت بھی اس دعوے کی تائید کر رہی ہے کہ پاکستان کے اندر طالبان کو شکست دینے سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ جبکہ پاکستانی عہدیداران کا کہنا ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں ناکام پالیسی ، قبائلی علاقوں کے اندر بدامنی کی ذمہ دار ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو اس جنگ میں خصوصی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور ڈینیل مارکی کے بقول اوبامہ انتظامیہ کی Afpak پالیسی Pakaf میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن پالیسی میں اس تبدیلی سے دونوں ملکوں کے تعلقات ایک بار پھر متاثر ہو سکتے ہیں اور عدم تعاون کی بناء پر طالبان بغاوت کا سدباب مشکل ہو جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں انٹیلی جنس ذرائع بہت کم ہیں۔ جس کی وجہ سے مستقبل میں Afpak پالیسی کا جائزہ لینا مشکل نظر آتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں موجود طالبان کی تعداد، ان کے نام اور عسکریت پسندی اور بغاوت کی ماہیئت کا تجزیہ کرنا بھی اس لحاظ سے ناممکن ہے کہ وہاں اطلاعات کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بسا اوقات طالبان کے اہم کمانڈروں کی ہلاکت بھی پراسرار بن جاتی ہے۔ افغانستان میں اگرچہ بہت زیادہ مخبر ہیں، لیکن مخبر کی جھوٹی اور متضاد اطلاعات جو اکثر اختلافات کا روپ دھارتی ہیں، امریکہ اور ناٹو فورسز کے لیے ان پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا غم و غصہ اور پاکستان پر ''ڈُومور'' کا دبائو، پاکستان کو اس جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگار پاکستان کو ''کرائے کی بندوق'' قرار دیتے ہیں جو القاعدہ اور طالبان کے لیے حاصل کی گئی ہے۔ پاکستان آرمی کی ہلاکتوں کے باوجود اس کے افسران کو امریکن وفادار کا لقب دیا جاتا ہے۔ یہ الزامات پاکستانی افواج کا امیج تباہ کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے فوج دہشت گردی کی اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی، جس میں ان کے اپنے لوگوں کو ہی فتح کیا جا رہا ہو۔

پاکستان آرمی نے اگرچہ سوات آپریشن اور باجوڑ میں کامیاب کارروائی کرکے ان علاقوں کو عسکریت پسندوں کے قبضہ سے واگزار کروا لیا ہے اور اس نے عوام کے اندر اپنا امیج بھی برقرا رکھا ہے لیکن قبائلی علاقوں میں آرمی کی بدستور موجودگی کو کبھی بھی اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا گیا۔ جس طرح کہ افغانستان کے پشتون علاقوں میں غیر ملکی افواج کا وجود برداشت نہیں کیا جا رہا، اسی طرح ان علاقوں میں بھی پاکستانی افواج کی موجودگی ان لوگوں کو قبول نہیں۔ برطانوی افواج کی یہاں سے رخصتی کے بعد یہ علاقہ بغیر کسی فوج کے رہا ہے اور یہی قبائلی پاکستان کے بلاتنخواہ سپاہی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ 2001ء میں بش انتظامیہ نے یہاں کارروائی کرنے پر دبائو ڈالا اور تاریخ پاکستان میں پہلی بار افواج اس خطے میں داخل ہوئیں۔ ان علاقوں کے رہنے والوں نے اس عمل کو حکومت اور سرحدی عوام کے درمیان سماجی معاہدہ کے توڑنے کے مترادف قرار دیا۔ پاکستانی فوج نے بھی ان علاقوں میں زیادہ تر فوجی کارروائیوں پر انحصار کیا۔ جس کی وجہ سے سویلین ہلاکتوں اور جائیداد کی تباہی کی وجہ سے عوام میں فوج کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ افغانستان میں بھی US اور NATO فورسز نے پشتون علاقوں میں اسی طرح کے فوجی آپریشن کیے تھے۔ دونوں جانب سے اس طرح کی کارروائی کے نتیجے میں پشتون بیلٹ کے اندر انتقام اور بدلے کی آگ نے جنم لیا جس بنا پر اسلامی جہادی تنظیموں نے ان قبائلیوں کو پلیٹ فارم مہیا کیا اور یوں قبائلی علاقوں میں عوام کے اندر شدت پسندی کا رجحان بڑھا۔ عسکریت پسندوں کی سپلائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ عسکریت پسندوں نے فاٹا کے بعد پاکستان کے دیگر علاقوںمیں بھی پاکستان آرمی اور پولیس کو نشانہ بنایا۔ پاکستان آرمی کی ان کارروائیوں نے دیگر تمام گروپس طالبان، مجرمانہ گروہ، جنگجو، ملیشیا اور اسلامی جہادی تنظیموں کے ارکان کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا اور اس طرح بغاوت کے ایک نئے دور نے پاکستانی ریاست اور افواج کو گھیر لیا۔

قبائلی علاقوں میں اگرچہ علاقائی سیکورٹی فورسز موجود تھیں جیسے خاصہ دار، لیوز اور فرنٹیئر کور۔ انھیں تربیت دے کر فاٹا میں بغاوت پر قابو پایا جا سکتا تھا، لیکن آرمی کے داخل ہونے کی وجہ سے ان کی اہمیت اور افادیت سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ فاٹا کے سیاسی اور حکومتی نظام کو طالبان بغاوت اور آرمی آپریشن نے درھم برہم کر دیا۔ آرمی نے قبائل سے براہ راست رابطہ کر کے یہاں کے سیاسی نظام کو متاثر کیا۔ قبائلی علاقہ میں بہتر حکومتی نظام کے لیے اصلاحات کا نافذ کیا جانا بہت ضروری ہے اور فاٹا کے لیے مستقل بنیادوں پر حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیا جانا ناگزیر ہے۔ وگرنہ یہاں بغاوت پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا۔

صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں ملٹری آپریشن کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان ان علاقوں کے رہنے والوں کا ہوا۔ جو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ قبائلی علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کی یہ ریکارڈ تعداد تھی۔ دو ملین کے قریب لوگ سوات آپریشن کے دوران متاثر ہوئے، جو اب تقریباً اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ جبکہ قبائلی علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کی اکثریت اب بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں پناہ گزین ہے۔ اس سلسلہ میں امدادی تنظیموں نے شکایت کی ہے کہ عالمی برادری اس سلسلہ میں حکومت پاکستان کی کوئی خاص مدد نہیں کر رہی۔ اگر صورتحال یہی رہی تو ان مہاجرین کے اندر بھی بغاوت کا بیچ پھوٹ سکتا ہے اور مذہبی تنظیمیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

سرحدوں میں بدامنی: Afpak سے پختونستان کی جانب
پاکستان نے اپنے سرحدی علاقوں کو طالبان عسکریت پسندوں سے نجات دلانے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے لیکن دوسری جانب مہاجرین کیمپوں میں شدت پسندی کو روکنے کے لیے کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ حالانکہ مہاجرین کے کیمپ تاریخی حوالے سے جہاد کی نئی کھیپ تیار کرنے میں زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس طرح US/ ناٹو فورسز نے بھی پشتون علاقوں میں زمینی فوج کے ذریعے کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، جس سے مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کا ان علاقوں سے خاتمے کی پالیسی نے ان سرحدی علاقوں میں بدامنی کی فضا کو جنم دیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے کے عوام بغیر کسی رکاوٹ کے سرحد کے آرپار آتے جاتے رہتے ہیں۔ اسی لیے جب پاکستان آرمی نے یہاں فوجی آپریشن شروع کیا تو یہاں کی پشتون اکثریت افغانستان کے قندوز صوبہ میں پناہ گزین ہوئی۔ اسی طرح پاکستانی فورسز کو یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ اگر امریکی میرین نے طالبان کے خلاف وہاں آپریشن شروع کیا تو طالبان پھر دوبارہ پاکستان کا رخ کریں گے جس سے یہاں حالات مزید خراب ہوں گے۔ دونوں جانب سے فوجی آپریشن کے ذریعے طالبان کو پسپا کرنے سے ان علاقوں کے عوام کے قلوب و اذہان کو فتح نہیں کیا جا سکتا۔
 
سرحدی علاقوں پر توجہ
ایسا کون سا لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے جس کی بدولت افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے ان دونوں ممالک کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کر لیں۔ یہ صرف اور صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ اس سرحدی علاقے کے لیے مربوط سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی کی پالیسی بنائی جائے جو ان علاقوں کے عوام کے ا حساس محرومی کو ختم کر سکے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو مضبوط حکومتی نظام مہیا کیا جائے اور اسے ریاست کے نظام کے اندر لایا جائے۔ اسی طرح افغانستان کے پشتون علاقے کو بھی مرکز ہی کی طرح اہمیت دی جائے۔ اس سے نہ صرف اس تصادم کے خاتمہ میں مدد ملے گی بلکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات اور مذاکرات کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ جس میں سرحدی تنازعات کے خاتمہ اور علاقے کی امن و امان کے لیے مضبوط پالیسی مرتب کی جا سکتی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد یا ڈیورنڈ لائن کی اہمیت کو پسِ پشت ڈال کر بغاوت کا سدباب ممکن نہیں۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرحدوں پر دونوں ممالک کی چوکیوں پر مضبوط سیکورٹی برقرار رکھنی چاہئے۔ کیونکہ سرحدوں کی مضبوطی معاشی استحکام کی ضامن ہے۔ یہ استحکام، آبادی کو جدید اور شہری نظام کی طرف لے جانے میں ممد و معاون ثابت ہو گا اور پھر پشتون سرحدی علاقے جو طالبان کی میزبانی کر رہے ہیں وہ انھیں وہاں سے نکالنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے اوبامہ انتظامیہ کی سیاسی قیادت کے خصوصی نمائندے رچرڈہالبروک بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ افغانستان کے پشتون علاقوں کی کیا ضروریات ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں افغانستان کے لیے زرعی اصلاحات کا نفاذ ہے تاکہ افیون کی کاشت روکی جا سکے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں صنعتی اصلاحات کا نفاذ ہے تاکہ نوجوانوں میں بیروزگاری کو ختم کیا جا سکے اور وہ اپنے روشن مستقبل کے لیے بندوقیں چھوڑنے پر مائل ہوں۔ لیکن ان اصلاحات سے پہلے ان علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے جو ابھی تک سیکورٹی کی خراب صورتحال کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکے اور تاحال سول ملٹری آپریشن کے لیے ایک چیلنج ہیں۔

یہ اسی صورت ممکن ہو سکتاہے جب یہاں ملٹری آپریشن اور آرمی کو ان علاقوں میں جانے سے روک دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ سویلین افراد اور تنظیموں کو پشتون بیلٹ میں پھیلا دیا جائے تاکہ تعمیرنو اور ترقیاتی کاموں کا آغاز ہو سکے۔

دوسرا، ان علاقوں کے لیے امدادی پیکج کی بہت ضرورت ہے جسے انسداد بغاوت کے بجٹ سے بالکل الگ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو بش انتظامیہ کے دور میں ساری امداد ملٹری کے ذریعے ملتی رہی۔ کیری لوگر بل کے تحت یہ امداد سول سوسائٹی اور سول اداروں کو ملے گی۔

آخری چیز جو اس تصادم کے خاتمے کے لیے ضروری ہے وہ امریکہ کی ان دو ممالک کے لیے طویل عرصہ پر مشتمل سیاسی اور معاشی منصوبہ بندی ہے۔ وقتی فائدہ کے لیے پالیسی تشکیل دینے سے زیادہ عرصہ تک اس علاقہ میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کی اس پالیسی کی بدولت ان دو ممالک کے عوام کے درمیان امریکہ کے لیے حددرجہ نفرت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ سردجنگ کے دوران رویہ اختیار کیا۔ اوبامہ انتظامیہ اگرچہ 2011ء سے پہلے، پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں سے بغاوت کا خاتمہ ممکن بنانا چاہتی ہے، مگر اس کے لیے ایسی سیاسی پالیسی کی ضرورت ہے جس کی بدولت یہ دونوں ملک اپنے اداروں کو مضبوط بنا سکیں اور ان علاقوں میں اصلاحات کے لیے جامع و مربوط پالیسی ترتیب دے سکیں۔ اس کے لیے عالمی برادری کو یہاں جمہوری قوتوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا چاہئے اور پشتون علاقوں میں بھی سیاسی و جمہوری نظام کا قیام اور حکومتی ڈھانچہ مقرر کرنے پر زور دینا چاہئے تاکہ یہاں سے طالبانائزیشن کے تصور کا خاتمہ ہو سکے۔

(تلخیص و ترجمہ: مجتبیٰ محمد راٹھور)