working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

مسلمانوں کا دینی و عسکری نظام تعلیم : از ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن

''مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم'' ڈاکٹر سید عزیزالرحمن کی مرتب کردہ کتاب ہے، جس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی مختلف تقاریب میں کی جانے والی تقاریر اور خطبات شامل ہیں ۔ مذکورہ کتاب میں موجودہ دور میں دینی مدارس کے حوالے سے پائے جانے والے مفروضوں، حقائق اور اس کے لائحہ عمل سمیت قدیم اور جدید تعلیم میں ہم آہنگی کے بارے میں تفصیلاً بات کی گئی ہے ۔ کتاب میںایک طرف اکیسویں صدی میں پاکستان کے تعلیمی تقاضوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور مغرب کے فکری اور تہذیبی یلغار کے مسائل اور اس ضمن میں علماء کرام کی حقیقی ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔

مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم'' میں دینی مدارس میں رائج نظام تعلیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے اس ضرورت کو مزید بڑھا دیا ہے کہ دینی مدارس میں زیر تعلیم طالب علم جو کہ ملک کی آبادی کا ایک قابل قدر حصہ ہیں، کو دینی تعلیم کے ساتھ جدید علوم میں بھی مہارت حاصل کرنا ہوگی تاکہ وہ ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ کتاب میں قران مجید سے حوالہ دے کر واضح کیا گیا ہے کہ حضرت محمدۖ کے پیغمبرانہ فرائض میں نہ صرف یہ شامل تھا کہ مسلمانوں تک اللہ کی کتاب پہنچائیں اور ان کا تزکیہ نفس کریں ،بلکہ ان کا فریضہ یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کو حکمت و دانائی کی تعلیم بھی دیں۔

ہندوستان کی علمی تاریخ کے حوالے سے کتاب میں کہا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ یہاں کا نظام تعلیم اس قدر موثر تھا کہ دنیا بھر سے لوگ حصول علم کے لیے یہاں آیا کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند میں اپنے قدم نہیں جمائے تھے ۔مثال دے کر واضح کیا گیا ہے کہ برصغیر کے اسلامی وسطی زمانے کے مسلمان بادشاہ محمد تغلق کے بارے میں مشہور سیّاح ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ اس نے محمد تغلق کے دربار میں کچھ وقت گزارنے کے دوران دیکھا کہ محمد تغلق اس وقت تک کھانا کھانے کے لیے دسترخوان پر نہیں بیٹھتے تھے، جب تک کم از کم چار سو علماء و فقہاء دستر خوان پر موجود نہ ہوتے تھے۔ ایک انگریز مصنف کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ مذکورہ انگریز مصنف نے لکھا ہے کہ انگریز وں کے یہاں آنے سے پہلے لوگوں میں تعلیم کی شرح اپنی بلند ترین سطح پر تھی اور یہاں ہزاروں کی تعداد میں مدارس فروغ علم میں کوشاں تھے ۔ انگریز سامراج کا تذکرہ کرتے ہوئے کتاب میں کہا گیا کہ دنیا کو تہذیب سکھانے کے دعویدار انگریزوں نے صدیوں سے رائج یہاں کے نظام تعلیم کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ لوگوں کی شرح خواندگی میں حیران کن حد تک کمی واقع ہوئی۔انگریز سامراج نے برصغیر میں قدم جمانے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے نظام تعلیم کو دس سال کے قلیل عرصے میں بری طرح متاثر کیا، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریزوں نے تعلیمی نظام میں تبدیلی کرتے ہوئے فارسی اور عربی زبان کو ختم کیا اور انگریزی زبان کو سرکاری زبان قرار دے دیا ۔

کتاب میں اسلام کی رو سے علم کی فرضیت کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ حصول علم کے دو درجے ہیں جن میں ایک درجہ فرض عین اور دوسرا درجہ فرض کفایہ ہے۔ شریعت کا بنیادی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض کیا گیا ہے اور ریاست پر علم کے حصول کے لیے تمام وسائل مہیا کرنا لازم ہے۔ کتاب میں امام شافعی کا حوالہ دے کر واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھنے والے شخص پرفرض ہے کہ وہ اس پیشے کے بارے مکمل علم رکھتا ہو۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دینی علوم کے ساتھ دیگر علوم بھی فرض ہیں اور ان کا حصول نہایت ضروری ہے ۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بیشتر دینی مدارس میں علم حاصل کرنے والے طلبہ کو ایک خاص نظریے کے تحت محض مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں ان طلبہ کا کردار محدود ہوچکا ہے ۔ قائد اعظم کے بارے میں ڈاکٹر غازی کہتے ہیںکہ آزادی کے بعد تیسرے مہینے میں ہی قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلی تعلیمی کانفرنس بلائی تھی جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان سے ماہرین تعلیم شریک تھے۔ قائد اعظم نے کانفرنس میں ایک پیغام بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ نظام تعلیم ہماری ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا لہٰذا ہمیں ایک مثبت نظام تعلیم کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ''مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم'' میں جا بجا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دینی اور جدید علوم کا نظام تعلیم پورے ملک میں ایک ساتھ رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ مثبت طور پر کیا جاسکے ۔