working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

دہشت گردی اور ادیب
زاہدہ حنا
معاصر افسانہ نگاروں میں زاہدہ حنا کا نام ایک سچی اور کھری افسانہ نگار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ حقیقت پسندانہ رویّوں کے بیان کے سبب انہیں رجحان ساز افسانہ نگار شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے لہجے کی کاٹ زندگی کی تہوں میں چھپی معنویت کو کھوج لاتی ہے اور ہمارے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔ وہ ایک صاحب اسلوب کالم نگار بھی ہیں اور طنز کی یہ گہری کاٹ ان کے کالموں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ حال ہی میں '' تجزیات'' کے زیر اہتمام ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے متشّدد صورتِ حال کے حوالے سے ایک سروے کا اہتمام کیا گیا ۔ زاہدہ حنا نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا ہے۔ (مدیر)
میرے خیال میں آج جس دہشت گردی کا ہمیں سامنا ہے اس کے بیج مارچ 1948ء میں اس وقت بوئے گئے تھے جب پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد منظور کی گئی تھی اور ملک کو مذہبی عناصر کی مرضی و منشا کے مطابق چلانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ لیکن اس وقت ہمارے دانشوروں اور ادیبوں کی اکثریت نے اس کے خلاف احتجاج نہیں کیا تھا۔ یہ عناصر طاقت ور ہوتے چلے گئے۔ ہمارے ادیبوں اور دانشوروں نے جنرل ایوب خان کے اقتدار پر قبضے کے وقت بھی اجتماعی طور سے آواز بلند نہیں کی بلکہ ادیبوں اور دانشوروں کے نمائندہ اجتماع میں انہیں سپاس نامے پیش کیے گئے۔ فیض' سبط حسن اور کئی دوسرے قیدو بند کی صعوبتوں سے گزرے' حسن ناصر اذیتیں دے کر ہلاک کیے گئے لیکن اس وقت بھی عمومی طور سے ہمارے یہاں سناٹا رہا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں دائیں بازو کو اصل عروج حاصل ہوا اور مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں مضبوط ہو گئیں۔ مشرقی پاکستان پر ہونے والی لشکر کشی کے خلاف بھی ہمارے بیشتر ادیب خاموش رہے اور چند کے سوا کسی نے بھی اس قومی سانحے پر آواز بلند نہیں کی۔ بھٹو صاحب کا دور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے نرم دور کہا جا سکتا ہے۔ لیکن جنرل ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر جس ریاستی تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دیا' آج ہم اس کی لہلہاتی ہوئی فصل '' دہشت گردی'' کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

یہ جنرل ضیاء الحق ہی تو تھے کہ انہوں نے بھٹو کی سو لی کے سائے میں ادیبوں اور دانشوروں کے لیے دسترخوان بچھایا اور دبدبے کے ساتھ ادیبوں کی 11 اپریل 1979ء کی اس محفل میں یہ اعلان کیا' کہ جو '' اہل علم' ادیب اور مصنف پاکستان کے ساتھ اپنے تشخص پر شرم محسوس کرتے ہیں ان کے لیے پاکستان کا رزق' یہاں کا پانی اور اس ملک کا سایہ اور اس کی چاندنی حرام ہے'' تو افسوس کہ ادیبوں کے اس بڑے اجتماع میں سے کوئی ایک لکھنے والا بھی اٹھ کر کھڑا نہیں ہوا جو اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے اور 7 دن پہلے ملک کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دینے والے سے یہ سوال کرتا کہ وہ معتوب ادیبوں اور دانشوروں میں سے کسی ایک کا نام لے دیں جس نے اپنے پاکستانی تشخص پر شرم محسوس کی ہو۔ جنرل ضیاء الحق جن معدود ے چند ادیبوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے یہ وہ لوگ تھے جن کا جرم یہ تھا کہ وہ اس سر زمین اور یہاں رہنے والے محروم اور مظلوم لوگوں کے لیے اچھے دنوں کے خواب دیکھتے تھے۔ ایک ایسے سیاسی نظام کے طلبگار تھے جہاں لوگوں کو ان کا انسانی اور جمہوری حق مل سکے' جہاں جاگیرداروں سے زمینیں لے کر بے زمین کسانوں میں تقسیم کی جا سکیں' جہاں کلر کوں کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں اور جہاں اقلیتوں اور عورتوں کو بھی انسان سمجھا جائے۔

یہ الم ناک صداقت ہے کہ چند ادیبوں اور دانشوروں کو چھوڑ کر ان کی اکثریت ہماری فوجی آمریتوں کے سامنے سربہ زانور ہی۔ یہ اس دور کے صحافی تھے جنہوں نے جنرل شاہی کے خلاف شاندار لڑائی لڑی۔ کوڑے کھائے' جیلوں میں گئے' روزگار سے محروم کیے گئے۔ جنرل ایوب خان' جنرل یحییٰ' جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف سب ہی قصہ کہانی ہوئے لیکن ان کے ادوارِ حکومت میں ادب اور صحافت کی' شاعری اور دانشوری کی جن'' سفید بھیڑوں'' نے ان کی مدح سرائی کی ' ان کے زمانے کو سنہرا زمانہ کہا' وہ سب کچھ ان '' کالی بھیڑوں'' کو آج بھی یاد ہے جن پر جنرل ضیاء الحق گرجے برسے تھے اور پاکستان کا دانہ پانی حرام کر دینے کی بات کرتے تھے۔

ادیب خواہ اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کا لکھا ہوا ہر لفظ سماج پر کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی سطح پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے جلدیابہ دیر نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں وقوع پذیر ہونے والے نتائج کی ذمہ داری ادیب پر عائد ہوتی ہے۔ یہ نکتہ جب تسلیم کر لیا جائے کہ لکھا ہوا ہر لفظ نتائج پیدا کرتا ہے اور لکھنے والا ان کا ذمہ دار ہوتا ہے تو پھر اس بات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی پاسداری ہر ادیب اور دانش ور پر لازم ہے۔ یہ ادیبوں اور تمام لکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کو ہر نوعیت کے امتیاز سے پاک کرنے' قانون کی حکمرانی اور ریاست میں سب کے لیے مساوی قوانین کے لیے جدوجہد کریں۔ اس بات پر اصرار کریں کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے اور کوئی فرد یا ادارہ پارلیمنٹ سے بالا دست نہ ہو۔ اسی طرح معاشی نظام منصفانہ ہو' اظہار رائے کی آزادی ہو اور کسی بھی نوعیت کی انتہا پسندی' عسکریت پسندی یا دہشت گردی کو قبول نہ کیا جائے۔

آج پاکستان کے ادیبوں کا فرض بنتا ہے کہ ملک میں تمام امتیازی قوانین کے خاتمے کے لیے آواز بلند کریں۔پاکستان کے ہر شہری کو مساوی حقوق دلانے کی بات کریں۔انہیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ اعزاز کسی غیر مسلم اور عورت کے حصے میں بھی آئے کہ وہ سربراہ ریاست بن سکے۔ پاکستان ایک وفاق ہے۔ اس میں شامل تمام قومتیوں کی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ صرف کاغذ پر نہیں دیا جائے اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ ہمیں فوجی آمروں کی ستائش کرنے' ان سے اعزازات اور تمغے حاصل کرنے کی بجائے ان کی مزاحمت کرنی چاہیے اور عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کی لہر کو روکنے کے لیے انسان دوست فکر اور نظریات کو فروغ دیا جائے۔ یوں بھی ہم ایک ایسی دھرتی پر سانس لیتے ہیں جو صوفیا کی سر زمین کہلاتی ہے جنہوں نے اپنے کلام اور افکار سے انسان دوستی اور وسیع المشربی کو فروغ دیا تھا اور آج بھی ان کے دم قدم کی برکت ہے کہ ہمارے لوگ انسانیت کے رشتے کو ہر رشتے سے افضل سمجھتے ہیں۔ وہ ادیب، شاعر اور دانشور جنہوں نے فوجی آمروں کو خوش آمدید کہا تھا اور ان کی تعریف اور توصیف کی تھی' عوام سے معذرت ان پر قرض ہے۔

اس وقت پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ جوئی کی جو فضا ہے اس کو ختم کرنے اور امن کو قائم کرنے میں دانشور اور ادیب اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان ادیبوں کا قلم دونوں ملکوں کے زخموں کو رفو کر سکتا ہے۔ اس موقع پر مجھے دنیا کے عظیم شاعر پا بلو نرودا کی تقریر کے جملے یاد آرہے ہیں جو اس نے 1971 ء میں ادب کا نوبل انعام قبول کرتے ہوئے کی تھی اور کہا تھا کہ '' شاعر اور لکھنے والے کی حیثیت ہمیں صرف عام انسانوں تک ہی نہیں پہنچنا بلکہ اس دنیا پر گزری ہوئی صدیوں پرانی روایتوں' ناانصافیوں ' جھوٹ اور افلاس کے خلاف آواز سمونا ہے جن کی تکمیل کا خواب فنکار نے ہر عہد میں دیکھا ہے۔''

قراردار مقاصد سے جنرل ضیاء الحق اور بعد میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت تک مذہبی انتہا پسندی کو ہماری ریاست' فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے بہت اہتمام سے پروان چڑھایا۔ سعودی عرب سے دولت کا سیل رواں جاری رہا' ہزاروں مدرسے وجود میں آئے اور امریکی ڈالروں سے ''مجاہدین'' پرورش کیے گئے۔ ان کی مدد سے سوویت فوجوں کی افغانستان سے واپسی ہوئی تو انہیں ملک میں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اور انتہا پسند عناصر کی سر پرستی ہوئی اور انہیں طاقت بہم پہنچائی گئی۔

80ء کی دہائی میں امریکی رضا سے '' مجاہدین'' پرورش کیے گئے تھے سنہ 2000ء کی پہلی دہائی میں جب امریکا کے حکم پر وہی'' دہشت گرد'' قرار پائے اور ان کا ستھراؤ کیا جانے لگا تو انہیں پلٹ کر وار تو کرنا تھا۔ وہ عناصر اور تنظیمیں جنہیں پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنا'' اسڑٹیجک'' اثاثہ کہتی اور سمجھتی رہی ہے اور جسے ہندوستانی کشمیر اور دوسرے اہداف کے لیے سنبھال کر محفوظ رکھا گیا وہ آج ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

پاکستانی دانشوروں اور ادیبوں کی اکثریت ان معاملات سے لا تعلق رہی۔ ریاست جس مذہبی انتہا پسندی کی سر پرستی کر رہی تھی اس کے خلاف ادیبوں اور دانشوروں نے کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلائی۔ شاید اس بات کا ادراک نہیں کیا گیا کہ بطور گروہ اس وقت خاموشی ادیبوں اور دانشوروں کو کتنی مہنگی پڑے گی۔

آج ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور خودکش بم دھماکے اپنا ایک طویل اور تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم چند بیانات دے کر یا کسی بیان پر دستخط کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو جائیںگے تو یہ محض ہماری خام خیالی ہے۔ ہم دانشوری اور ادب کو بھی ایک جزوقتی کام سمجھتے رہے ہیں جو نا درست ہے۔ ہماری اکثریت جمہوری تحریکوں سے نہیں جڑی۔ ہم نے آمریت کے خلاف بڑے پیمانے پر جدوجہد نہیں کی۔ یہ بات بہ آواز بلند نہیں کہی کہ ریاست کو مذہبی معاملات میں اور مذہب کو ریاست میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں اور یہ کہ صرف جمہوریت ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ ہم نے یہ بھی نہیں سمجھا کہ انتخابات میں کسی ایک سیاسی جماعت کی کامیابی اور اس کے برسر اقتدار آجانے کا نام جمہوریت نہیں' یہ ایک مجموعی رویہ ہے اور آہستہ آہستہ سماج میں رائج ہوتا ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا اور اسی لیے ہمیں اب یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔