working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

''ہند، فارس'' ثقافت سے ''عربیت'' کی طرف جھکائو کا رجحان
عرشی سلیم ہاشمی
 
مضمون نگار نے ہند، فارس ثقافت سے عربی تہذیب کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے کارفرما عوامل پاکستان میں موجودہ شدت پسندی کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور بہت سی وجوہات کا تجزیہ کیا ہے جو اس ساری تہذیبی کشاکش کے حامل درخت کی جڑوں میں پیوست ہیں۔ بعض اہم دانشوروں کے نزدیک ہند،فارس کی وہ تہذیب جو ہندو اور بدھ روایات اور علاقائی رسومات میں رچی بسی تھی، عرب، افغان اور طالبان کی آمد کے ساتھ ہی ماضی کا حصہ ہو کر رہ گئی اور اس کی جگہ عربی ثقافت نے لے لی اور یہ سارا عمل تب ہوا، جب جنرل ضیا الحق کے زمانے میں اسلام کو دیدہ و دانستہ طور پر عرب ازم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور یہ حقیقت یکسر نظر انداز کر دی گئی کہ اسلام بذات خود ایک ضابطۂ حیات ہے جب کہ عرب ازم محض ایک ثقافتی اظہار ہے۔
عرشی سلیم ہاشمی انسٹی ٹیوٹ آف ریجنیل اسٹڈیز (IRS) میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں اور ان کا یہ مقالہ پاکستان اور اس کی مذہبی شناخت کے حوالے سے اہم ہے۔ (مدیر)

برصغیر میں ہندو فارسی ثقافت کے زیر اثر مسلم شناخت کے حوالے سے سی، جی، جنگ رقم طراز ہے کہ ''ہندوستان کی زرخیز سرزمین پر تاج محل کی صورت میں، شیراز کے باغات کے سرخ گلابوں کی مہک اور عرب محلات کی خاموش بارہ دریوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔''

اس وقت پاکستان تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہا ہے اور ان مشکلات کے پیچھے ان پالیسیوں کا ہاتھ کارفرما ہے، جنہیں با امرِ مجبوری یا بیرونی دبائو کے تحت اختیار کرنا پڑا۔ مثلاً امریکہ کی آشیر باد پر افغان مہاجرین کے کیمپوں میں جنگی حکمتِ عملی کے تحت عالمی بساط بچھائی گئی، جس کے مضمرات افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے بعد جنگی باقیات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ بروس ریڈل "The National Intrest" میں رقم طراز ہے کہ اس پرآشوب دور میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے 13 مختلف ممالک کے 80 ہزار افراد کو عسکری تربیت فراہم کی۔(1)

تاہم پاکستان کو بھی مکمل طور پر اس اہم سیاسی فیصلے سے بری الذمہ قرارنہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس نے بھی تاریخ کا دھارا موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ضیاء الحق کے دور میں شروع کیے گئے اسلامائیزیشن (Islamization) کے عمل نے داخلی طور پر فوجی اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے قانونی جواز مہیا کیا اور انہی پالیسیوں کی بدولت عسکریت پسندوں کا وجود بھی عمل میں آیا اور حکومت انہیں اپنے علاقائی عزائم کی تکمیل کے لیے ضروری خیال کرتی رہی۔ مگر وہ اس حقیقت کا ادراک نہ کر پائی کہ یہ چھوٹے چھوٹے گروہ بالآخر مجتمع ہو کر ایک روز خوفناک عفریت کی شکل اختیار کر لیں گے اورملکی سالمیت کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے۔

اگرچہ یہ امکان روز روشن کی طرح عیاں ہے اور عام فہم ذہن بھی، اس امر کو بخوبی سمجھتا ہے کہ پاکستانی افواج کبھی بھی ملک کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گی۔ ماضی میں پاکستانی افواج کی مذہبی شدت پسندوں کی حمایت کا مقصد محض کشمیر میں انڈیا کے خلاف مطلوبہ مقاصد کا حصول تھا اور وہ اس حقیقت سے قطعاً بے خبر تھے کہ علماء اور فوج کے مابین اتحاد کے نتائج ایسی شدت پسندی کی صورت میں بھی نکل سکتے ہیں، جو نوجوانوں کو ملک میں ملائیت کی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے اکسانے کا موجب بنے گا۔

1990ء کی دہائی کے دوران پالیسیاں بظاہر یکسانیت کا شکار رہیں تاہم فرقہ ورانہ تشدد اس بات کے غماز تھے کہ تمام مذہبی مکاتیبِ فکر کے مقابلے میں ایک مخصوص فقہ کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔ تاہم یہ صورتِ حال ارباب اقتدار کے لیے کسی قسم کی خطرے کی گھنٹی نہیں تھی یا کم از کم قومی رہنما تو یہی سوچ رکھتے تھے۔

ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ سے پاکستان کا نظریاتی ریاست کی تکمیل کی جانب سفر جاری رہا، اگرچہ اسلامائیزیشن کی کوئی قطعی تعریف تو ممکن نہیں تاہم اسلام کے مختلف فرقوں اور اقسام میں سے حکومت کو دیوبند مسلک کے نظریات سے ہم آہنگی ضرور نظر آئی۔ سعودی وہابی ازم سے مماثلت کی وجہ سے سعودی عرب کا سرپرستانہ عنصر بھی میسر رہا۔ حالانکہ ملک کی اکثریتی آبادی بریلوی یا صوفی مسلک کے پیروکاروں پر مشتمل تھی۔

وضاحتی دلائل
نظامِ اسلام میں تبدیل شدہ عرب نظریات(2) نے کئی ابہام کو جنم دیا اور یہ تمام عمل بالآخر ایک سنگین رخ اختیار کر کے فرسودہ خیالات کے احیاء کا باعث بنا اور یوں پاکستانی نوجوانوں کی سوچ میں بھی بنیاد پرستی غالب آتی گئی۔

اندرونی اور بیرونی سیاسی عوامل بھی سیاسی معاملات میں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسلام اور دیگر مذاہب خصوصاً ہندو ازم، یہودیت اور نصرانیت کے درمیان وقوع پذیر ہونے والی سماجی اور سیاسی تبدیلیاں بھی انہی پیچیدگیوں کا شکار رہی ہیں۔(3) یہی وجہ تھی پاکستان کے تصور کو صلح کل کے مذہبی اور ثقافتی اقدار میں پیش کرنے کی بجائے مذہبی طبقے نے دیگر مذاہب کے تقابل میں اسلام کے جارحانہ تصور کی تخم ریزی کی جس کے عوام کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

ضیاء دور میں اسلام کو دیدہ دانستہ طور پر عرب ازم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور یہ حقیقت یکسر نظر انداز کر دی گئی کہ اسلام بذاتِ خود ایک ضابطہ حیات جب کہ عرب ازم محض ایک ثقافتی تصور ہے۔ اس طرح مستقبل کی نوجوان نسل کے خیالات میں تبدیلی لانے کے لیے عربی اسلام کے تاریخی تناظر میں ملکی تعلیم کے تدریسی شعبے کو پہلا ہدف بنایا گیا۔ موید یوسف نے اس تمام صورت حال کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے۔(4)
''ضیاء الحق کے اسلامائیزیشن کے عمل کے دوران پاکستانی اسکولوں میں رائج نصابِ تعلیم کو از سر نو مرتب کیا گیا جس میں ایک طرف تو انڈیا سے وابستہ ازلی دشمنی کو ابھارا گیا اور دوسری جانب مغرب کی اسلام دشمنی کے تصور کو بھی ہوا دی گئی۔ یقینا اس قسم کے منفی نظریات نوجوان نسل کو جذباتی بنا دینے کے لیے کافی تھے۔''

پاکستان اور اسلام کی شناخت کا مسئلہ
مسلم شناخت کا مسئلہ تاریخی طور پر تقسیم ہند سے بھی پرانا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت کے رو بہ زوال ہوتے ہی ان کے معاشرتی تشخص نے سر اٹھایا۔ اس پس منظر میں برصغیر کے مسلمان اکابرین اور خصوصاً شاہ ولی اللہ نے مسلم معاشرے کی شناخت کے عمل کو اسلامی اقدار کے احیاء کے ساتھ منسلک کر دیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان ہندوئوں کے ساتھ مخلوط سماجی اور ثقافتی تعلق کی بنیاد پر اپنی الگ پہچان سے محروم ہو چکے ہیں۔ اسی سوچ کے ماخذ نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے نظریے کی پرداخت کی۔ کیونکہ اس طرح کسی بیرونی دبائو کے بغیر مذہبی آزادی حاصل ہو سکتی تھی۔(5)

اگرچہ تحریکِ پاکستان کی سیکولر قیادت نے مسلم معاشرے کی تشکیل نو پر زور دیا تھا، مگر ان کا کبھی بھی ملائوں کی حکومت کے قیام پر اجماع نہیں ہوا۔ جیسا کہ بیرونی تعلقاتِ عامہ کی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ''بانی پاکستان قائد اعظم کی بے وقت موت نے ملک میں اسلام کے کردار کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا جبکہ پاکستان کے حکمرانوں اور افواج نے حکومتی پالیسی کے تناظر میں اسلام کی اپنی اپنی توجیہہ بیان کی۔

تاریخ کی پروفیسر عائشہ جلال کی رائے میں ''اس پیچیدہ صورتِ حال میں اسلام کو ایک طاقت ور محرک کے طور پراستعمال کر کے حکمرانوں نے عوام کے حقوق سلب کیے۔''(6) ہارورڈ اسکول کے محقق حسن عباس مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ''ریاست نے انڈیا کے خلاف مسلط کردہ خطرے سے نپٹنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا استعمال کیا اور آج یہی شدت پسند خود حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔''(7)

1953ء میں بھی بعض بنیاد پرست رہنمائوں اور علما کے مابین طے پانے والے سمجھوتے کے تحت ایک اتحاد سامنے آیا تھا جس کی ایما پر احمدی فرقے کو حکومت کی طرف سے غیر مسلم قرار دینے پر لاہور میں فسادات پھوٹ پڑے۔ بعض احمدی شخصیات کی اعلیٰ عہدوں پر متمکن ہونے کی وجہ سے بھی اس معاملے نے نہایت سنگین صورتِ حال اختیار کی۔(8)

اگرچہ انگریز بہادر نے اگست 1947ء میں برصغیر کو خیرباد کہا مگر خطۂ ہندوکش آزادی حاصل کرنے کے باوجود اس وقت کی دو بڑی طاقتوں یعنی امریکہ اور روس کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔ عرب دنیا میں سعودی عرب کی سلطنت بھی اپنے ہاتھوں سے علاقائی بالادستی کے چھن جانے کے غم کو فراموش نہیں کر پائی تھی۔ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء میں عموماً اور انڈیا میں خصوصاً اسلامی نظریات کے بڑھتے ہوئے اثرات دیکھ کر نئی جہت کے ساتھ آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح روسی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد طالبان اور پھر القاعدہ ہندوکش سے لے کر کشمیر، بنگلہ دیش اور میانمار کے بے روزگار جہادیوں کے سرپرست بن کر سامنے آ گئے۔

پاکستان کی تاریخ سیاسی انتشار، اقتصادی بدانتظامی اور مذہبی استحصال سے بھری ہوئی ہے۔ اس معاشی اور سیاسی بگاڑ کے تسلسل نے بے شمار مسائل کو جنم دیا۔ چنانچہ وہ نوجوان جو شاندار مستقبل کے خواب دیکھ دیکھ کر مایوس ہو چکے تھے انہوں نے مذہب میں پناہ ڈھونڈ لی اور یہی وہ نقطہ آغاز تھا جب مذہبی بنیاد پرست تنظیمیں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدانِ عمل میں کود پڑیں۔

ویسے بھی مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی نوجوانوں کے لیے صحت مند سرگرمیوں سے محرومی کا باعث تھی اوپر سے مذہبی تنظیموں نے نوجوانوں کو ایسی بنیاد فراہم کی کہ جس نے انہیں متوازن زندگی کے احساس سے ہی بے پرواہ کر دیا اور وہ نامعلوم منزل کی جانب رواں دواں ہو گئے اور یوں رفتہ رفتہ مذہبی اور سیاسی شدت پسندی کو فروغ حاصل ہوا اور نوجوانوں کو مذہبی شناخت بھی مل گئی۔(9)

Baldas Ghosal نے اپنی تحقیق میں واضح کیا ہے کہ احساس محرومی اور مظلومیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسلام کے مذہبی کردار کو نجات اور شناخت کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ اس کا ظاہری اظہار تو خود کو مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی ثقافت میں ڈھالنا تھا مگر اندرونی طور پر اسلام پر سختی سے عمل پیرا ہو کراسے سیاسی عمل کی تجدید اور معاشرے میں طبقاتی ناہمواری کے خلاف آواز بلند کرنا مقصود تھا۔ اور یہی وہ چند اہم نکات ہیں جو بنیاد پرستوں کا مطمح نظر تھے۔(10)

ضیاء دور کا دیوبندی اسلام
جب دنیا سرد جنگ کی لپیٹ میں تھی تو اس وقت مذہب کو کیمونسٹ روس کے خلاف ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب افغانستان کی سرزمین دشمن کے خلاف میدانِ جنگ بنی ہوئی تھی تو اس وقت مذہبی مکاتیب فکر اور تنظیمیں اس خطے میں کیمونسٹوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے میدان میں کود پڑیں۔ انہوں نے اس مفروضے کو بھی ہوا دی کہ اسلام بزورِ شمشیر پھیلا تھا۔ مزید برآں اس مسئلے پر بھی قومی رائے عامہ ہموار کی گئی کہ ''عرب ازم'' اور ''اسلام'' لازم و ملزوم ہیں اوردونوں ہی یکساں ثقافت اور مشترکہ نظریات کے حامل ہیں اور آج یہ عالم ہے کہ یہ تصور پوری اسلامی دنیا میں اپنے پَر پھیلا چکا ہے۔ اسلام کے اس فلسفے کے پیش کار سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک جبکہ متاثرین یعنی غیر عرب ممالک، عرب نظریات کو ہی اسلام کی اصل روح سمجھنے لگے۔(11)

ضیاء الحق نے بھی یہ بات محسوس کر لی تھی کہ حکومت کے استحکام اور اسلام کے نفاذ کی تکمیل کے لیے یہ نادر موقع تھا۔ چنانچہ اس نے مذہبی گروہوں کی سرپرستی اور ترقی پسند سیاسی پارٹیوں کی بیخ کنی شروع کر دی۔ ادھر امریکہ ایک ایسے نظام کے لیے متحرک تھا جو کیمونزم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اسلام کا کون سا فقہی مکتب یہ کام بخوبی انجام دے سکتا ہے یا شاید امریکہ کو ان مذہبی پیچیدگیوں کا ادراک ہی نہیں ہو سکا جو مسلم قومیت میں موجود تھیں۔

ابتدا میں سنی بریلوی فرقے کی ترقی پسند اور آزاد خیال سیاسی پارٹیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری سوشلزم کے نعرے کے جواب میں اسلامی تشخص کو ابھارا گیا لیکن یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ کوئی گروہ مالی معاونت کے بغیرکامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ یہاں بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔

حکومت کو مالی امداد کی ضرورت تھی جو سعودی عرب نے اس وضاحت کے ساتھ جاری کر دی کہ افغانستان وپاکستان میں وہابی نظریات کو فروغ دیا جائے گا۔ سعودی عرب ایک جانب تو اپنے فقہی خیالات کا احیاء چاہتا تھا دوسری جانب اس کے سیاسی وجغرافیائی عزائم تھے کیونکہ سعودی عرب کوہِ ہندوکش میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانا چاہتا تھا۔ ادھر امریکی انتظامیہ بھی مطمئن تھی کیونکہ اس خطے میں کسی ایک امریکن فوجی کی تعیناتی کے بغیر ہی اس نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے تھے اور نہایت خوش اسلوبی سے ہندوستان اور چین کے خطرات سے سعودی عرب کی مداخلت سے نمٹ لیا گیا تھا۔

اگر تاریخی حقائق کا بادی النظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہابی ازم کو ابھی تک پوری طرح پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملا تھا کیونکہ اسلام کا یہ مکتبہ فکر فطری طور پر عمومی اور روزمرہ کے معاملات میں کئی قسم کی سختیاں اور بندشیں عائد کرتا ہے۔ Curtin Winsor کے بقول ''1960ء تک وہابی ازم جزیرہ نما عرب تک محدود تھا مگر جب ''اخوان المسلمین'' کے شدت پسندوں نے جمال ناصر کے تشدد کی وجہ سے مصر سے بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ حاصل کی تو ان کی مدد سے یہ فلاسفی اطراف میں پھیلنے لگی۔''(12)

سعودی مذہب کے منفرد وہابی اعتقادات اور سید قطب کی سلفی جہادی تعلیمات نے سیکولر عرب حکمرانوں سے برہمی کا اظہار کیا اور جہاد کو فرض قرار دے دیا۔ وہابی معاشرتی و ثقافتی روایت پسندی اور قطب کے سیاسی شدت پسند رویے کا نتیجہ بالآخر القاعدہ کے قیام پر منتج ہوا۔(13)

Baldas Ghosal سعودی حکومت کے تیل سے حاصل ہونے والی دولت کو عرب نظریات کے پرچار کے پس منظر کے حوالے سے لکھتا ہے۔(14)
''1970ء کی دہائی میں وہابی علما نے اپنے نظریات کی ترسیل کے لیے سعودی یونیورسٹیوں اور مساجد وغیرہ میں بھرپور کردار ادا کیا۔ کیونکہ انہیں مغربی ثقافتی یلغار اور کرپشن کے آگے بند باندھنا مقصود تھا۔ دراصل 1970ء سے ہی تیل کی فراوانی سے ان خدشات نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا۔ شاہی خاندان نے بھی موجودہ حالات کو محسوس کرتے ہوئے چپ سادھ لی تھی۔ دراصل تیل کی قیمتوں میں تین گنا اضافے سے ہونے والی آمدنی نے بھی وہابی ازم کا اثر و رسوخ مسلم دنیا میں پھیلانے میں بھرپور مدد کی۔''

سعودی عرب نے 1982ء سے 2002ئ(15) تک تقریباً 2000 سکولز، 1500 مساجد اور 210 اسلامی مراکز کی تعمیر کے لیے مالی معاونت فراہم کی۔ نتیجتاً، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا، جنوبی تھائی لینڈ اور فلپائن کے قصبوں اوران کے گرد ونواح میں وہابی عمائدین نے عوام میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کر لیا۔ مزید برآں سعودی عرب سے فارغ التحصیل ہو کر پلٹنے والے علماء نے ان مساجد کے انتظام و انصرام سنبھال لیے۔''(16)

Burnett Rubin انتہا پسندوں اور ان کے مذموم عزائم اور کردار کے حوالے سے لکھتا ہے ''ان لوگوں نے ہر قسم کے اجتہاد کی حقیقت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ مسلم قومیتوں میں موجود تفاوت مثلاً قبائلی و ریاستی نظام بشمول شیعہ فرقے کے افراد کی سیاسی میدان میں موجودگی ان کے لیے تکلیف دہ تھی اور عورت کے سماجی کردار کے حوالے سے بھی سخت رویہ رکھتے ہیں۔'' انڈین اور پاکستانی دیو بندیوں کی تمام خصوصیات افغان طالبان میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔(17) اس معاملے پر John Espoito نے مزید سخت لہجہ اپنا رکھاہے وہ کہتا ہے ''یہ افراد تنگ نظر، جنگجو، امریکہ اور غیر مسلم ثقافت کے دشمن ہیں۔'' اس لیے مزید وضاحت کی کہ ''یہ اسکول خودپسند جنگجوئوں کی جماعت ہے جواسلام کو قبائلی رسومات اور اپنی ترجیحات تک محدود کرنا چاہتی ہے۔ حقیقی اسلامی نظریے میں صرف بیرونی جارحیت کی صورت میں جہاد فرض تھا مگر اب اسے عسکری جہاد میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اپنے عزائم کی تکمیل میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔''(18)

اسلامائیزیشن کے عمل کے دوران پاکستان کا تعلیمی نظام بھی زد میں آیا اور غرباء کو مفت تعلیم دینے کے بہانے تمام ملک میں مدرسوں کا جال بچھا دیا گیا۔ ان مدارس سے فارغ التحصیل نوجوان قاضی عدالتوں میں اور حکومت کے مختلف شعبہ جات میں فرائض انجام دینے کے اہل تھے۔
حکومت کی جانب سے مدارس کی سرپرستی کا نتیجہ اسلام پسند جماعتوں کی حوصلہ افزائی کی صورت میں نکلا۔ جس کا نظارہ ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے دوران دیکھنے میں آیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے دور میں امریکہ نے پاکستان میں مذہبی خیالات کے پھیلائو میں بھرپور کردار ادا کیا اور اس نے اوائل سے ہی اسلامی سیاست کی پیچیدہ گتھیوں کو محسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔

سعودی عرب کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی
Baldas Ghosal اپنے مقالے بعنوان ''انڈونیشیا میں شدت پسندی'' میں لکھتا ہے کہ ''Arbization ایک ایسے عمل کا نام ہے جو مذہبی دستور العمل کی بجائے رسومات اور ضابطوں پر زور دیتا ہے (19) یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایک ثقافتی اصطلاح ہے جس کے تحت مذہبی شدت پسند طبقہ عام فہم لوگوں کو یہ قائل کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ عرب ثقافت کو اپنا کر وہ سچے مسلمان بن سکتے ہیں اور ایسا کرنا دوسرے جنم کے مترادف ہے۔''

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جس عرب کلچر نے پاکستانی معاشرے کو متاثر کیا ہے وہ دراصل مصر اور سعودی عرب کے اسلامی نظریات کے ملاپ سے بننے والی بصیرت کا نتیجہ ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام پر وقوع پذیر ہونے والے ان نظریات نے متشدد رویے کو مذہبی ضمانت فراہم کر دی تھی۔

1980ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں مصری اور سعودی اسلام پسندوں کے ملاپ نے ایک خطر ناک مذہبی رویے کی راہ ہموار کی جو ملکی سرحدوں کو پھلانگ کر اطراف میں پھیل گیا۔ اس طرح اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے لیے نوجوانوں کی بھرتیوں کے طریقہ کار، حملے اور حکمت عملیوں کو مرتب کرنے میں مدد ملی۔(20) یہ عمل بھی ایک کھلا راز بن گیا کہ 1960ء کی دہائی کے آخر میں جب فلسطینی انقلابی تحریکوں نے سر اٹھانا شروع کیا تو ان کا نقطۂ آغاز بھی قاہرہ ہی میں تھا۔

عرب دنیا میں اعلیٰ اور مستحکم تعلیمی نظام کی بدولت مصر کو ایک مستند حیثیت حاصل تھی وہاں نہ صرف مصری اساتذہ اور دوسرے ماہرین تیار ہوتے جنہیں اندرونِ ملک اور عربی سمجھنے والے بیرونی ممالک میں بھیجا جاتا بلکہ اس طرح عرب ممالک کے نوجوان بھی ان یونیورسٹیوں کا رخ کرتے۔ یوں عرب قومیت کا نظریہ بھی فروغ پاتا رہا۔ جب مصر عرب دنیا کا گہوارہ بن گیا اور ''اخوان المسلمین'' کے ڈھانچے کی تشکیل عمل میں آ گئی تو رفتہ رفتہ یہ تحریک عرب معاشرے سے نکل کر شمالی افریقہ اور جنوب مغربی ایشیاء تک پھیل گئی۔(21)

مسلم دنیا کے کونے کونے میں ''اخوان المسلمین'' کے نظریات سے متاثر تنظیموں نے اپنی جڑیں پھیلا دیں۔ یوں سماجی، ثقافتی اور نظریاتی شدت پسندی نے مذہب اور سیاست کے ملاپ سے ایک نئے نظام کی داغ بیل ڈالی۔ سعودی دولت اور وہابی نظریات نے ''اخوان المسلمین'' کے اسلامی تصور کو ابھارا اور پوری مسلم دنیا میں شدت پسندانہ خیالات کو فروغ ملنے لگا۔

پاکستان میں سنی اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور شدت پسندوں کے مراکز میں بھرتی کیے گئے نوجوانوں کے انتخاب سے واضح ثبوت ملتا ہے کہ ان کے وہابی نظریات کی حامل جماعت ''اخوان المسلمین'' سے رابطے تھے۔

حال ہی میں لاہور جیسے گنجان آباد شہر میں مشہور مسلمان اسکالر ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا المناک قتل(22) بھی معاشرے میں پھیلی ہوئی لاقانونیت اور عدم برداشت کا بین ثبوت ہے۔ مرحوم نے پاکستان میں کٹّر سعودی سلفی نظریات کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ طالبان کے نظریات سلفی یا وہابی خیالات کے حامل ہیں اور سوات میں طالبان کی جانب سے مجرموں کو دی جانے والی سزائیں سعودی عدالتی نظام سے مماثلت رکھتی ہیں۔

مولانا نعیمی کا سیاسی قتل پاکستانی معاشرے میں ایک نئی تبدیلی کاغماز تھا کیونکہ طالبان خالصتاً سنی مکتبہ فکرکے داعی ہیں اور اب تک صرف شیعہ مساجد ا ور امام بارگاہوں کو ہی نشانہ بناتے آئے تھے۔ تاہم مولانا نعیمی وہ پہلے سنّی اسکالر تھے جن کی موت طالبان کے ہاتھوں سرزد ہوئی۔

اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ جب تک ان گروہوں کو مالی امداد ملتی رہے گی یہ اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کا کردارانتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر سعودی حکام نے مالی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تاہم غیر سرکاری عناصر مذہبی درس گاہوں کو زکوٰة اور مالی مدد کے لیے بھاری رقوم مہیا کر کے انتہا پسند گروہوں کو زندہ رکھنے کاباعث ہیں۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ فنڈ صرف تعلیمی مقاصد کے لیے ہی دیئے جاتے ہیں تو یہ جانچنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا کہ پاکستان آنے کے بعد یہ رقم کہاں استعمال ہوتی ہے۔ سعودی امداد سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطح پر جاری ہے۔ سعودی حکومت طالبان کی جانب مذہبی جھکائو رکھتے ہیں۔ مزید برآں یہ امداد ایران کے ساتھ نظریاتی دشمنی اور پاکستان سے وابستہ مفادات کے پس منظر میں بھی دی جاتی ہے۔(23)

1947ء میں اپنے قیام سے پہلے ہی پاکستان اپنی شناخت کے دیرینہ مسئلے سے دو چار تھا۔ یعنی اسے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی موجودگی میں ایک سیکولر جمہوری ملک بننا تھا یا صرف اسلامی ریاست کے طور پر وجود قائم رکھنا تھا۔ پاکستان کی مسلم آبادی شیعہ اور سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی قومیّتیں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں جن میں آغا خان کے پیرو کار اسماعیلی فرقے کے لوگ بھی شامل ہیں۔

کوہن "The Idea of Pakistan" میں لکھتا ہے کہ پاکستان کے دیہات میں بسنے والے لوگوں میں اسلام کا تصور قدرے مبہم ہے۔ وہ ہندو اور بدھ روایات اور علاقائی رسومات کو بھی مذہب ہی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔(24)

سروش عرفانی کے بقول ''ہندو فارس'' کی ثقافتی تحریک ''عرب افغان'' اور طالبان کی آمد کے ساتھ ہی زینت طاقِ نسیان ہو گئی اور اس کی جگہ عربی ثقافت نے پُر کر لی۔ اب یہ عالم ہے کہ اصلی اور حقیقی اسلام کو عربوں کے موجودہ مذہبی فلسفے میں تلاش کیا جانے لگا ہے۔ اس طرح نئی طرزِ فکر کا ارتقاء دیکھنے میں آ رہا ہے۔(25)

پاکستان میں شدت پسندی اور قومی شناخت کا مسئلہ کئی عشروں پر محیط اسلامائیزیشن کے عمل کے تسلسل اور سیکولر جمہوری قوتوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے لے کر آج تک، اسلام کو حکومتی آلے کے طور پر استعمال کیا گیا جیسا کہ حقانی(26) بیان کرتے ہیں کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء نے اسلامائیزیشن کے عمل میں تیزی دکھائی اور اس کے ساتھ دیگر حکومتوں نے اسلامی قوانین بنانے اور تعلیم و ثقافت کے میدان میں تبدیلیاں متعارف کرانے پر توجہ جاری رکھی۔ مذہبی جماعتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ یوں سول اور فوجی حکومتوں نے شدت پسند تنظیموں کو پھلنے پھولنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے۔

حقانی کے مطابق نظریاتی مملکت کے تصور نے پاکستان کو جدید شعبوں میں ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کی جانب دھکیل دیا(27)۔ International Crisis Group کی 2005ء کی ایک رپورٹ کے مطابق حکمرانوں نے اسلام کو برابر سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر پیش کیا۔(28)
''حکومتی سرپرستی میں سنی اور شیعہ مسلمان فرقوں کے درمیان جارحانہ فضا قائم ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ ہر مکتبہ فکر کی اپنی اپنی الگ پارٹیاں بنانے کی حوصلہ افزائی کی گئی جس سے مدارس کا وسیع جال پھیلنے کے ساتھ جہادی نظریات اور عسکریت پسندی کو فروغ ملا۔''

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں حکومت کی سیاسی وابستگی کے فقدان سے یہ علاقے فرقہ ورانہ عناصر اور بین الاقوامی دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور اسلحہ و منشیات کی تجارت کے مراکز میں تبدیل ہو گئے۔(29)

مذہبی مطلق العنانی اور ترقی پسندانہ سوچ کا فقدان (30)
اس وقت حکومتِ پاکستان، قومی افواج اور معاشرہ نظریات کے چوراہے پر دم بخود کھڑے ہیں۔ قوم پرستی کو مذہب کے برابر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ حکومتی اور عوامی سطح پر تصورِ پاکستان اور اسلامی نظریے کو ایک ہی رخ سے دیکھا جارہا ہے۔ علماء اور شدت پسند مذہب کی تشریح کرتے ہوئے مغرب، امریکہ اور بھارت مخالف جذبات کو ابھارتے رہے۔ یہ ایک ایسی مخاصمانہ روش تھی جو حادثاتی طورپر فوج کے ذہن میں در آئی اورجنوبی ایشیاء اور پاکستان کا ورثہ قرار پا گئی۔

ولی نصر پاکستانی قوم کی سوچ میں موجزن انڈو فوبیا کے حوالے سے مبالغہ آمیز حد تک کہتا ہے کہ مولانا مودودی کی سرپرستی میں قائم جماعت اسلامی کے عسکری شعبے کے قیام سے ان نظریات کو فروغ ملا اور انڈو فوبیا کا پہلانشانہ انڈین کی بجائے اردو بولنے والے مہاجرین بنے۔ جن پر جماعت نے دوہری وفاداری ثابت کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کا الزام عائد کیا۔(31) اس طرح لسانی قومیت کے ساتھ امتیازی سلوک نے شہری علاقوں میں بسنے والی نوجوان نسل میں شدت پسندی کی راہ ہموار کی۔

مذہبی فرقہ واریت نے کافی عرصے تک کراچی میں رہنے والوں کی زندگیوں کو مفلوج کیے رکھا۔ عدم رواداری اور شدت پسندی کے شہری علاقوں میں جڑ پکڑنے نے قصبوں کے بے روز گار نوجوانوں کو بھی مذہب کی جانب دھکیل دیا۔ بدقسمتی سے یہ افراد جن مقاصد کے تحت ان تنظیموں سے منسلک ہوئے تھے اس کی اساس اسلام پر قائم نہیں تھی بلکہ ذاتی خواہشات کی تکمیل تھی۔ جوں جوں مجاہدین کے ساتھ پاکستان کی حمایت اور ہمدردی میں اضافہ ہوا تو انڈیا کے ساتھ نفرت کا جذبہ بھی بڑھنے لگا جس میں نیکی اور بدی کی ازلی کشمکش کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس طرح پاکستان اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوئے روس اور انڈیا کی باطل قوتوں کے مقابل کھڑا ہو گیا۔ اس وقت تک مسلمانوں کی نظر میں امریکہ کا تصور برائی کے دیوتا کا نہیں تھا کیونکہ وہ روس کے خلاف افغان مجاہدین کو اخلاقی اور مالی امداد مہیا کر رہا تھا۔

بنیاد پرست رہنمائوں نے عشروں سے ہندوستان کے خلاف نفرت کا بیج بویا تھا۔ SDPI کی رپورٹ کے مطابق 1970ء سے پاکستانی تعلیمی نصاب میں ہندوئوں اور انڈیا کے خلاف نفرت بھرے جذبات کی آمیزش جاری تھی۔(32)
''دو قومی نظریے کے ساتھ انڈیا کے خلاف نفرت کا عنصر بھی پروان چڑھتا گیا اور ملکی سا لمیت کو انڈیا کے ساتھ تعلق کے تناظر میں جانچتے ہوئے ہندوئوں کی ذہنیت کو انتہائی منفی پہلو سے اجاگر کیا گیا۔''

اسی طرح National Commission for Justice & Peace کی 2005ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ ''دشمنانہ رویوں پر مبنی عسکری پالیسیوں اور مطلق العنان حکمرانوں نے عوام کی سوچوں پر پہرے بٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ درسی مواد میں ہندوئوں کی ذہنیت کو پسماندہ اور ضعیف الاعتقادی کا مظہر قرار دیا گیا۔''(33)

حکومت نے منظور شدہ تعلیمی مدارس میں پاکستان کی بحیثیت قومی ریاست، شہریت اور مذہب و ثقافت کے پیمانوں کی نئی وضاحت کی گئی جس میں اسلام کی عالمگیریت، شدت پسندی اور مسلمانوں کی دیگر قوموں کے مقابلے میں تفاوت واضح کی گئی۔ اس طرح طالبان کے ساتھ قائم لامتناہی ہمدردی کو پاکستانی معاشرے کی قدامت پسندی اور ضیاء الحق کی فوجی حکومت کی بھول بھلیوں میں آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب تعلیمی اداروں کے نصاب کو حکومتی پالیسی کے تحت اسلامی سانچے میں ڈھالا گیا، اس وقت مذہبی سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی توجیح و تشریح میں الجھی ہوئی تھیں۔ تاہم وہابی یا دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگ امریکہ مخالف کیمپ میں پیش پیش تھے جبکہ بریلوی مسلمانوں کا رویہ فطری طور پر نرم رہا ہے۔

افغان جہاد سے لال مسجد تک تشدد پسندی میں پروان چڑھنے والی نسل
9/11 کے ہولناک واقعات نے امریکہ مخالف اسلام پسندوں کو مسلمان نوجوان نسل تک رسائی کو آسان بنا دیا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بلند و بالا عمارتوں کے چشم زدن میں زمین بوس ہونے کا نظارہ امریکی طاقت کے ز وال پذیر ہونے کی نشاندہی کرنے لگا تھا۔ دین پرست لوگوں نے اسے غیبی معجزے سے تعبیر کیا جبکہ مسلم دنیا کے کچھ لوگوں کی رائے میں یہ امریکہ کے لیے مسلمان دشمنی کاثمر تھا۔ 9/11 کے بعد جہادی گروہوں نے اپنی دانست میں ناقابلِ شکست امریکہ کے غرور کو پاش پاش کر کے اپنی فتح کے میناروں کی تعمیر شروع کر دی۔

9/11 کے واقعات پیش آنے سے پہلے بھی پاکستانی نوجوانوں کے ذہنوں میں اسکول کی سرگرمیوں کے دوران منفی جذبات بھرے جا چکے تھے۔ جس میں پاکستان کے دشمنوں کی مکاری، جہاد اور ہندوئوں کی ریشہ دوانیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا تھا۔(34)

اسی طرح مروجہ نصاب کے ذریعے ہی اسلامائیزیشن کی آڑ میں متعصبانہ اور منفی ذہنیت کی آبیاری کی گئی جس سے نہ صرف مدرسوں نے بلکہ سرکاری اسکولوں نے بھی نوجوان نسل کے ذہنوں میں تبدیلی کا بیج بونے کے لئے حکومتی پالیسیوں کا ساتھ دیا۔(35)

ڈاکٹر حسن عسکری کے Daily Times میں تجزیے کے مطابق پاکستان کو کٹر نظریات اور متشدد رویوں کے فروغ کے سبب ایک نسل کی بھاری قربانی دینا پڑی۔ اب یہ نسل حکومتی اور غیر سرکاری اداروں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔(36) جب کہ پاکستانی حکومت یہ حقیقت تسلیم کرنے میں تذبذب کا شکار نظر آتی ہے کیونکہ ان کے پروردہ مجاہدین اپنے ہی ملک کی سا لمیت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ مگر آج بھی ایک مخصوص طبقے کی رائے میں طالبان کا یہ تشدد پسندرویہ افغانستان اور قبائلی علاقوں میں امریکہ کی مداخلت کا ردعمل خیال کیاجاتا ہے۔

اس حقیقت کا سرعام اعتراف کیاجانا چاہیے کہ 1980ء سے لے کر 1990ء تک نوجوان نسل کے ذہنوں میں کاشت کی جانے والی نفرت پر مبنی فصل بالآخر مخالفین کے خلاف مضبوط جہادی قوت کے روپ میں سامنے آئی۔

اگرچہ وقت کی رو میں جوشیلے عناصر نے مدرسوں پر اپنی دسترس مضبوط کر لی تھی لیکن یہ لال مسجد کا ہی طرہ امتیاز تھا کہ اس نے سب سے پہلے اپنے تئیں معاشرے اور حکومت کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جہاد کیا۔ 1998ء میں لال مسجد کے منتظم اعلیٰ مولانا عبداللہ کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری ان کے دونوں بیٹوں مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی نے سنبھال لی۔ دونوں بھائیوں نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط کابر ملا اعتراف بھی کیا اور ان رہنمائوں میں اسامہ بن لادن کا نام بھی شامل تھا۔(37)

امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی حکومت کے حمایت کے فیصلے نے جہادی عناصر میں ہیجان بپا کر دیا۔ وہ اس حق میں نہیں تھے کہ پاکستان شدت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں امریکہ کا اتحادی بنے۔ جبکہ لال مسجد کے رہنما کھلم کھلا طالبان کی حمایت کرتے تھے اور کالعدم جہادی تنظیموں کے ساتھ ان کے روابط بھی ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ چنانچہ جمعہ کے خطبات میں جہاد کے جذبات بھڑکائے جانے لگے اور امریکہ کے خلاف بیان بازی کی جاتی۔ BBC نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ''لال مسجد میں حکومت کے خلاف تقاریر کی جاتیں اور پرویز مشرف کو واجب القتل قرار دیا گیا۔ ان میں ایک آدھ تقریر مولانا مسعود اظہر کی بھی شامل تھی جس کی جیش محمد نامی تنظیم، صدر کے قتل کی ناکام سازش میں بھی ملّوث تھی۔(38)

اس وقت لاقانونیت کی انتہا ہو گئی جب یہ عناصر حکومتی اداروں کی عملداری کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے مقابلے میں صف آرا ہو گئے۔ 7 جولائی 2005ء کو لندن میں ہونے والے دھماکوں کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے جب مقامی انتظامیہ نے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ڈنڈے بردار برقعہ پوش خواتین طالبات ان کی راہ میں حائل ہو گئیں۔(39)

لال مسجد میں پیش آنے والا یہ واقعہ برسوں پرانے بوئے جانے والے شدت پسندانہ نظریات کا ادنیٰ سا پر تو تھا اور حکومت کی روشن خیالی کے جدید نعرے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی تھا۔ یقینا جنرل مشرف MMA اور PML-Q کی رفاقت کے باوجود اسلام پسندوں کی حمایت حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے تھے۔ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے ساتھ مولانا عبداللہ مرحوم کے بیٹوں کی رفاقت نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی کہ معاشرے کے مخصوص طبقات نے عرب بالادستی کو سیاسی وابستگیوں سے بڑھ کر مذہبی حیثیت میں قبول کر لیا ہے۔ لال مسجد پر حملے کے خلاف تنقید اور پرویز مشرف کے خلاف عوام کو اکسانے کے حوالے سے ایمن الظواہری کے فوری ردِعمل نے بیرونی سفارت کاروں کو پریشانی میں مبتلا کردیا تھا۔(40)

ڈاکٹر حسن عسکری لکھتے ہیں۔(41)
''ایک ڈیڑھ نسل مذہبی راسخ الاعتقادی اور تشدد پرستی میں پروان چڑھی ہے جس کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی امور میں اسلامی شدت پسندی کی چھاپ نظر آتی ہے۔ ان معاشرتی رویوں نے پاکستان کی ریاستی حیثیت، شہریت اور قومی سیاست کو متاثر کیا۔ اب وہ اپنے مفادات سے بالاتر مسلم شناخت کے دائرے میں مغربی ناانصافیوں، فلسطین اور کشمیر کے حل طلب مسائل، مغرب کی اسلام دشمنی اور اسلامی تحریکوں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں گویا مسلمانوں کو مغربی تسلط سے آزادی دلانے کے داعی ہیں۔''

کیا پاکستان مذہبی انتہا پسندی کا مرکز ثقل ہے؟
ملک کی تاریخ میں لال مسجد میں پیش آنے والا واقعہ ایک سیاہ دھبہ ہی نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے کا آئینہ بھی ہے اور شدت پسندی کی یہ تصویر ہر سمت بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ ڈیلی ٹائمز کی جنوری 2007ء کی ایک اشاعت میں ''جامعہ حفصہ'' کے واقعات پر فرحت تاج روشنی ڈالتی ہیں۔ ''جہاد میںحصہ لینے کی لیے زیرتعلیم خواتین کو خود کش حملوں اور بوقت ضرورت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی تربیت سے آراستہ کیا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد سب سے پہلے اسلام آباد اور بعد ازاں پورے ملک میں مخصوص شریعت کا نفاذ تھا۔'' مصنفہ لکھتی ہیں کہ ایک طالبہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ''مکمل طورپر اسلام میں داخل ہو جائو ورنہ تمہارا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔''(42)

دنیائے اسلام کے معتدل مزاج غیر عرب مسلمانوں اور خصوصاً پاکستانیوں کو امن و محبت کے پیامبر مذہبی اور ثقافتی اقدار کی روش اختیار کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور عربی اثرات کو خیرباد کہنے کی ضرورت ہے۔ جنوبی ایشیا کے محلِ وقوع میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے پرامن بقائے باہمی کے ا صولوں کو اپنانا ہو گا اور یہ سب مشرقِ وسطیٰ سے جذباتی وابستگی کے گریز سے ہی ممکن ہے۔

عجیب بات ہے کہ پاکستان جس قدر عربوں کے قریب ہونا چاہتا ہے وہ اتنے ہی اس سے گریزاں ہیں۔ جغرافیائی طورپر جنوبی ایشیا میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ زمین پاکستان کے لیے کشش کی حامل ہے۔ عرب دنیا میں پاکستان کی حیثیت ایک غیرعرب اور مشرق وسطیٰ کی بجائے مشرقِ بعید کے ایک دور افتادہ ملک کی ہے جس کا عرب کے سماجی، ثقافتی اور سیاسی پس منظر سے کوئی علاقہ نہیں۔

رفعیہ زکریا کے بقول (43)
''الجزیرہ، العربیہ اور دوسرے عربی نیوز چینلز میں پاکستان کا تذکرہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے۔ پاکستان کے مسائل کے حوالے سے کوئی آواز بلند نہیں کی گئی۔ مثلاً پاکستانی IDPsاور طالبان کے ساتھ جاری جنگ کو مسلم دنیا کا مسئلہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسے عربو ں کے مسائل سے الگ تھلگ سمجھا جاتا ہے۔''

اس امتیازی رویے کے باوجود پاکستانی مذہبی سیاسی پارٹیاں اور شدت پسند گروہ اپنے عرب بھائیوں کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں اور جواباً عرب اس بھائی چارے کا اظہار ان تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو زکٰوة کی صورت میںبھاری رقوم ادا کر کے کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ عرب ثقافت صرف اور صرف عربوں کی تہذیب ہے جبکہ جنوبی ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے پاکستان کو بھی چاہیے کہ اپنی ثقافت میں عربی رنگ کو غالب نہ آنے دے۔

موجودہ بدلتے ہوئے حالات اس بات کے غماز ہیں کہ اب معاشرہ ضیاء الحق کے پھیلائے ہوئے مذہبی جال سے باہر نکل رہا ہے۔ تا ہم اس کے اثرات سے مکمل طور پر چھٹکارا پانے کے لیے مزید ایک آدھ عشرہ درکار ہو گا۔ اس دوران حکومت کو معاشرے کی سمت کے درست تعین کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے خلاف واضح و جامع اقدامات کرنے اور اپنے علاقائی کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہو گی۔ مذہبی شدت پسندی اور جار حانہ رویوں میں تبدیلی کے لئے نچلی سطح پر بنیادی اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی۔ 2004-05سے تعلیمی شعبے میں تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں مگر اس کے باوجود ان مدرسوں کو قانونی ضابطوں کا پابند بنانا ہو گا اور موجودہ نصاب کو بھی متوازن کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید نظام تعلیم کے حوالے سے سائنسی اور سماجی علوم کو متعارف کرانا چاہیے تاکہ سیاسی اور سماجی مضمرات سے بروقت استفادے کو ممکن بنایا جا سکے۔

آج پاکستان ریاستی اور معاشرتی سطح پر اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بالائی سطح سے اصلاح کا عمل شروع کیا جائے۔ اسلام کی کسی ایک فقہ کی سر پرستی اور بالا دستی ختم کرنا ہو گی۔ یقیناً ریاست ہی ایک ایسا مضبوط ادارہ ہے جو معاشرے میں بنیاد پرستی کو جڑ سے اکھاڑنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ عام آدمی تک تعلیم کی رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ میڈیا کو ساتھ لے کر تعمیری منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستانی معاشرے کے فطری تناظر میں مذہبی اور ثقافتی آزادی کو روشناس کرانا ہو گا۔

اسلام اور مغرب کے مابین کوئی تنازعہ نہیں۔ اصل کشمکش تو قدامت پسندی اور جدت پسندی کے درمیان ہے۔ یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آنے والی نسل ماضی کے متشدد رویوں اور کٹر نظریات سے کیسے چھٹکارا حاصل کرے گی۔ بنیاد پرستی کو محدود کرنے میں ناکامی ریاست کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو کمزور کر سکتی ہے۔ صرف صلح کل اور برداشت کا جذبہ ہی ایک ایسا عمل پیہم ہے جو پاکستان کو جنوبی ایشیاء کے حقیقی ورثے کا امین بنا کر سر فرازی عطا کر سکتا ہے۔

نوٹ: اس مضمون میں بیان کردہ تمام حقائق کی ذمہ داری فاضل مصنف پر عائد ہوتی ہے اور ان کی ذاتی آراء سے PIPSاور اس کی انتظامیہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

(ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)
______________
10