working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

نوجوانوںکی سوچ کا دھارا
صبا نور
 
آج کا پاکستانی نوجوان کیا سوچ رکھتا ہے اور وہ اپنے اردگرد رائج سیاسی، سماجی، تہذیبی، معاشرتی اور عائلی معاملات کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ ماہنامہ ''ہیرلڈ'' کی اشاعت جنوری 2010 ء میں اس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ سروے نوجوانوں کی سوچ کو جانچنے کا نادر موقع فراہم کرتا ہے۔
آج کا نوجوان کس قسم کی گورننس چاہتا ہے، وہ کن سیاست دانوں کو پسند کرتا ہے۔ مزید اس معاشرے کی ترتیب و تشکیل میں خواتین کا کیا کردار ہونا چاہیے یا وہ کیا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ بہتر گھریلو نظام جو صدیوں سے مشترکہ طورپر چل رہا ہے … یہاں تک کہ پاکستان میں ایک خاص تعداد ایسے نوجوانوں کی بھی ملی، جو یہاں خودکش دھماکوں کے بھی حامی ہیں۔ مزید آج کا نوجوان پاک بھارت تعلقات اور دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی جنگوں کو کس تناظر میں دیکھتا ہے، یہ سب اس سروے کا موضوع ہے۔(مدیر)
ماہنامہ Herald کے جنوری 2010 ئکے شمارے میں نوجوانوں کی آراء پر مشتمل سروے شائع ہوا ہے۔ اس سروے میں 845 نوجوانوں نے حصہ لیا جن میں 40 فیصد خواتین جبکہ 60 فیصد مرد جواب دہندگان تھے۔ یہ سروے سندھ میں (کراچی، دادو، حیدر آباد کے علاقوں سے)، بلوچستان میں (کوئٹہ، تربت، جعفر آباد اور گوادر کے علاقوں سے)، سرحد میں (پشاور، سوات اور صوابی کے علاقوں سے) جبکہ پنجاب سے (لاہور، اوکاڑا، جھنگ اور سیالکوٹ کے علاقوں) سے کروائے گئے۔

سروے کا مقصد یہ تھا کہ مختلف سوالات کے ذریعے نوجوان نسل سے یہ معلوم کیا جائے کہ کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ قدامت پسند ہوتا جا رہا ہے؟ کیا ہمارے مستقبل کے ووٹرز کو اتنی سیاسی بصیرت حاصل ہے کہ وہ صحیح فیصلے کر سکیں؟ موجودہ دہشت گردی کی لہر کا نوجوانوں کی زندگی پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ نوجوان کیا چاہتے ہیں ایک مذہبی ریاست یا ایک سیکولر ریاست؟ کیا قومی شخصیات میں سے ان کا کوئی آئیڈیل ہے؟ کیا وہ خاندانی بنیادوں، جنسی روایات اور خواتین اور مردوں کے درمیان معاشی ربطِ کار کو بدلنا چاہتے ہیں؟ وہ کیا چیز ہے، جو انھیں رات بھرجگائے رکھتی ہے؟ اور ایک پیچیدہ مشکل ترین ملک کے شہری کی حیثیت سے وہ کیا محسوس کرتے ہیں؟

گورننس اور سیاست
حکومت اور سیاست سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے نتائج:
نوجوانوں کا تعلق خواہ کسی امیر گھرانے سے ہو ، درمیانے طبقے سے یا چاہے وہ کسی غریب خاندان سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں، ان کی 64 فیصد تعداد کا خیال ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست ہونی چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ ریاست اور مسجد دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں۔ تاہم سروے کے نتائج سے اس بات کی بھی وضاحت ہوئی کہ ایسے نوجوان جنھوں نے کچھ عرصے تک سکولوں میں تعلیم حاصل کی اور پھرچھوڑ دی (یا انہوں نے مطالعہ پاکستان میں تاریخ پاکستان کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا وہ دیگر نوجوانوں کی نسبت جنہوں نے دیگر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی) جدت کے زیادہ خلاف ہیں۔

ان سوالوں کے جواب میں کہ آیا پاکستان کے قانونی طریقہ کار میں کوڑے مارنے، سنگسار کرنے اور ہاتھ وغیرہ کاٹ دینے کی سزائیں شامل ہونی چاہئیں؟ تقریباً 33 فیصد نوجوانوں نے اس کی تائید کی جبکہ 47 فیصد نے اس سے انکار کیا۔ مزید تجزیہ کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ ایسے نوجوان جنہوں نے ایسے قوانین کوپاکستان کے قوانین میں شامل کرنے کی تائید کی ان میں بڑی تعداد پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہے۔

اخبارات و رسائل حکومت اور سیاست سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں لیکن بدقسمتی سے 56 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ وہ روزانہ کے سیاسی معاملات پر معلومات نہیں رکھتے، جبکہ 43 فیصد نوجوانوں نے اعتراف کیا کہ وہ اخبارات ہفتے میں صرف ایک بار ہی دیکھتے ہیں، جبکہ 17 فیصد نوجوان ایسے ہیں جو اخبارات پڑھتے ہی نہیں۔ تاہم بلوچستان کی زیادہ تر نوجوان آبادی نے کہا کہ وہ اخبارات پڑھتے ہیں۔

سروے کے نتائج نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ نوجوانوں کی زیادہ تعداد جیو ٹی وی، ایکسپریس نیوز اور آج ٹی وی کو دیکھتی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نوجوانوں کی سوچ بنانے میں ان چینلز کا کتنا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اسی بات کے پیش نظر جب نوجوانوں سے یہ معلوم کیا گیا کہ آیا کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے یا پھر اس کو ایک خود مختار ملک ہونا چاہیے؟ تو PTV اور جیو ٹیلی ویژن دیکھنے والے نوجوانوں نے کہا کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے جبکہ ایسے نوجوان جو ڈان نیوز ریجنل (علاقائی) اور انٹرنیشنل ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ کشمیر کو ایک خود مختار ملک ہونا چاہیے۔

نوجوانوں نے ملک میں سیاسی مسائل کی بڑی وجہ سیاستدانوں کو قرار دیا۔ 37 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ سیاستدان تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہیں جبکہ 25 فیصد نوجوانوں نے اس کی وجہ امریکہ کو بتایا اور 19 فیصد نے فوج کو وجہ قرار دیا۔ ایسے نوجوان جنہوں نے فوج کو وجہ بتایا ان کا تعلق بلوچستان سے ہے جبکہ امریکہ کو وجہ بتانے والوں میں زیادہ تر پنجاب اور سرحد کے نوجوان شامل ہیں۔

سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی مسائل کی وجہ بھی نوجوان سیاستدانوں کو گردانتے ہیں، جیسا کہ 41 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے جبکہ 23 فیصد اس کی وجہ بھی امریکہ ہی کو سمجھتے ہیں۔ تاہم سیاستدانوں پر اس قدر تنقید کے باوجود نوجوان پاکستان پیپلز پارٹی کودیگر جماعتوں کی نسبت بہتر جماعت سمجھتے ہیں۔

ایک تہائی سے کم نوجوان فوجی آمریت کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 76 فیصد جمہوریت کی۔ عمومی رائے یہ تھی کہ جنرل مشرف کو امیر طبقہ پسند کرتا ہے، جبکہ ہیرلڈ کے اس سروے سے معلوم ہوا کہ کم آمدنی والے جواب دہندگان زیادہ تر جمہوریت سے خائف ہیں یہی وجہ ہے کہ ماہانہ 10 ہزار سے کم آمدنی والے گھرانوں کے نوجوانوں نے (29 فیصد) (یہ تعداد دیگر ماہانہ آمدنی والے گھرانوں کی نسبت سب سے زیادہ ہے) جمہوریت کے خلاف رائے دی۔

سروے کے نتائج سے یہ بھی واضح ہوا کہ PTV دیکھنے والے نوجوان سب سے زیادہ فوجی حکومت کے حمایتی ہیں۔

طرزِ زندگی
ملک کے پیچیدہ حالات میں جہاں روزگار کے مواقع کم ہیں، سیکورٹی کا خطرہ ہے اور جابجا بم دھماکے ہو رہے ہیں، توایسے میں نوجوان اپنا وقت کس طرح سے گزارتے ہیں؟ ان کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ نوجوانوں کی آدھی تعداد فارغ وقت میں ٹیلی ویژن دیکھتی جبکہ 45 فیصد کتابیں پڑھتی ہے۔ 33 فیصد دوستوں کے ساتھ گھر سے باہر وقت گزارتے ہیں۔ 21 فیصد موبائل پر SMS کرتے ہیں اور 21 فیصد کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جبکہ صرف 9 فیصد نوجوان سیاسی امورمیں حصہ لیتے ہیں۔

سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ تقریباً 17 فیصد نوجوان سگریٹ کا استعمال کرتے ہیں جبکہ 4 فیصد نسوار، 3 فیصد الکحل،2.2 فیصد شیشہ اور سپاری استعمال کرتے ہیں۔ تاہم الکحل استعمال کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے، جن کی ماہانہ آمدنی 60 ہزار سے اوپر ہے۔ اس معاشی سطح سے تعلق رکھنے والوں میں سے 16 فیصد الکحل کا استعمال کرتے ہیں۔

نوجوانوں کی 20 فیصد نیوز چینلز کوجبکہ 12 فیصد میوزیکل چینلز کو دیکھنا پسند کرتی ہے۔ مزید برآں 11 فیصد انڈین (بھارتی چینلز)، 9 فیصد علاقائی پروگرام اوردیگر پروگرام دیکھتے ہیں۔ مردوں کی نسبت خواتین زیادہ تر انڈین چینلز کو دیکھنا پسند کرتی ہے، بہرحال وہ نیوز چینلز بھی دیکھتی ہیں۔

نوجوانوں نے عام زندگی میں اپنے تعلقات کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے والدین کے زیادہ قریب ہیںاور بہن بھائیوں، دوستوں کانمبر ان کے بعد آتا ہے۔ جبکہ خواتین رائے دہندگان نے والدین کی نسبت بہن بھائیوں سے قربت کے بارے میں زیادہ رائے دی۔ جبکہ مردوں نے والدین کو ہی قریبی تعلق کہا۔ اس کی وجہ پاکستان کا معاشرتی نظام بھی ہو سکتا ہے جس میں والدین لڑکوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

ملکی حالات سے تنگ نوجوانوں نے اس سوال پر کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ ملک چھوڑکر جائیں گے؟ تقریباً 53 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ ہاں وہ ایسا ہی کریں گے، جبکہ 22 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ شاید وہ چلے جائیں ، باقی 23 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ وہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے۔

ملکی معاشی ابتری کے باوجود 79 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ ان کے حالات پچھلے پانچ سالوں میں بہتر ہوئے ہیں،جبکہ 5 فیصد کا خیال ہے کہ ان کے حالات خراب ہوئے ہیں۔ ان پانچ فیصد نوجوانوں میں (جن کے حالات خراب ہوئے ہیں) زیادہ تر تعداد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ہے، جس بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنیادی سہولیات نہ ہونے کی بناء پر وہ اپنے علاقے چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔

امید پر دنیا قائم ہے کا عزم لیے ہوئے 57 فیصد نوجوان یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ملازمت ضرور مل جائے گی، جبکہ 16 فیصد کو اس کی امید نہیں ہے۔ تاہم یہ بات سروے نے واضح کی کہ َان پڑھ نوجوان سب سے زیادہ ناامید ہیں۔ جبکہ اے۔لیول کرنے والے نوجوان 100 فیصد پرامید ہیں کہ ان کو ملازمت ضرور ملے گی جبکہ اسی طرح کے انٹرمیڈیٹ نوجوانوں میں سے صرف 60 فیصد کو یہ امید ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا خواتین کو بھی کام کرنا چاہیے، نوجوانوں میں سے 61 فیصد نے ہاں میں جواب دیا جبکہ 23 فیصد نے اس کی مخالفت کی۔ حیران کن طور پر بلوچستان کے نوجوانوں نے اس سوال کے جواب میں کافی وسعتِ نظری کا مظاہرہ کیا۔ تقریباً 71 فیصد نوجوانوں نے خواتین کے کام کرنے کی تائید کی۔ جب نوجوانوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ ا یک آئیڈیل پروفیشن کس شعبے یاکام کو سمجھتے ہیں تو معلوم ہوا کہ مرد نوجوانوں کے نزدیک اپنا کاروبار ہی اہم ہے۔ جیسا کہ 18 فیصد نوجوانوں نے اس کی تائید کی۔ (کاروبار میں پان کے کھوکھے سے لے کرایک بڑے تجارتی کاروبار تک تمام کاروبار شامل ہیں) 13 فیصد نے استاد بننے اور پڑھنے پڑھانے کو، 6 فیصد نے ڈاکٹری کو، 6 فیصد نے گورنمنٹ ملازمت اور 4 فیصد نے افواج میں بھرتی کا عندیہ دیا۔ جبکہ خواتین رائے دہندگان میں سے 30 فیصد نے پڑھانے، 8 فیصد نے گھریلو کام کاج کرنے، 8 فیصد نے ڈاکٹری کو، 5 فیصد نے وکالت اور 3 فیصد نے سرکاری ملازمت کو آئیڈیل پروفیشن کہا۔

صوبائی شناخت کے ملکی شناخت میں مدغم کرنے کی تمام کوششیں تب بے سود ثابت ہوئیں جب نوجوانوں میں سے 61 فیصد نے صوبائی شناخت کو بہت ضروری قرار دیا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے نوجوان جنھوں نے صوبائی شناخت کو اہم سمجھا، ان کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے۔ سب سے زیادہ رائے دہندگان جنہوں نے صوبائی شناخت کو اہم سمجھا ان کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی سے ہے، 71 فیصد نوجوان جن کا تعلق اس پارٹی سے ہے اس رائے کے حامی ہیں۔68 فیصد نوجوان جن کا تعلق اسلامی جماعتوں سے، 62 فیصد نوجوانوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے، 60 فیصد کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) سے جبکہ 61 فیصد کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے، ان سب نے صوبائی شناخت کو قائم رکھنے کے حق میں رائے دی۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ نوجوانوں میں سے بہت ہی کم بلکہ چند ایک ہی نے سیاست کو ایک اہم پروفیشن (شعبہ) قرار دیا لیکن جب بات رول ماڈل کی آئی تو زیادہ تر نوجوانوں نے اپنے رول ماڈل سیاست اور سپورٹس سے ہی بتائے۔ نوجوانوں کی اکثریت میں سے 19 فیصد نے محترمہ بے نظیر بھٹو، 14 فیصد نے عبدالستار ایدھی، 8 فیصد نے عمران خان، اور 5 فیصد نے مشرف اور شاہد آفریدی، 4 فیصد نے عاصمہ جہانگیراور 3 فیصد نے اسامہ بن لادن آئیڈیل قرار دیا جبکہ شاہ رخ خان اور بلاول بھٹو کو، 2 فیصد اور علی ظفر کو 1 فیصد نوجوانوں نے اپنا رول ماڈل قرار دیا۔

تعلقات
پاکستان کے ثقافتی مظاہر میں تنوع ہے، جن کی انفرادیت عرصہ دراز سے برقرار ہے لیکن انفرادیت کے ساتھ ساتھ تمام کلچر کئی جگہوں پرمشترک خصوصیات کے بھی حامل ہیں جس سے پاکستان کا اجتماعی کلچر ترتیب پاتا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی کلچر سے تعلق رکھنے والے افراد خواہ وہ کہیں بھی رہتے ہوں اور کوئی بھی زبان بولتے ہوں شادی بیاہ کے معاملے میں خاندان کی پسند کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔ بہرحال اب اس میں کچھ لچک پیدا ہو رہی ہے مگر پھر بھی اس کو اہمیت حاصل ہے۔ نوجوانوں میں سے 37 فیصد کا خیال ہے کہ شادی والدین کی پسند سے ہی ہونی چاہیے جبکہ 31 فیصد کاخیال ہے کہ شادی فرد کی اپنی پسند سے ہونی چاہیے اور 15 فیصد نے کہا کہ شاید والدین کی پسند سے ہونی چاہیے۔

تاہم ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رائے بنانے میں مختلف ٹی وی چینلز کا کسی نہ کسی حد تک ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ اسی بات کے پیش نظر تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ایسے نوجوان جنہوں نے والدین کی پسند پر زور دیا ان میں سے 48 فیصد علاقائی ٹی وی ، 46 فیصد سپورٹس، 41 فیصد مذہبی چینل، 35 فیصد انڈین اور 30 فیصد میوزیکل چینل دیکھنے والے شامل تھے جبکہ صرف 19 فیصد مغربی ٹی وی دیکھنے والے نوجوان ہیں۔

جب نوجوانوں سے معلوم کیاگیا کہ وہ کیا خوبیاں ہیں جو وہ اپنے ساتھی میں دیکھنا چاہتے ہیں تو سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ وہ نوجوان جو والدین کی پسند سے شادی کے حامی ہیں، 62 فیصد خاندانی پس منظر، 53 فیصد مذہب، 52 فیصد اخلاقی اقدار اور 47 فیصد تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں، جبکہ وہ نوجوان جنہوں نے والدین کی پسند سے شادی کے مخالف جواب دیا تھا ان میں سے 51 فیصد نے تعلیم، 49 فیصد نے اخلاقی اقدار، 34 فیصد مذہب اور 30 فیصد نے ظاہری خوبصورتی کو اہم خوبیاں قرار دیا۔

نوجوانوں میں صوبائی لگائو اور مذہبی فرقہ پرستی اس وقت واضح ہوئی، جب ان سے یہ معلوم کیا گیا کہ وہ کسی ایسے پاکستانی شہری سے شادی کرے گا / گی جس کا تعلق کسی دوسرے صوبے یا کمیونٹی سے ہو، تو اس کے جواب میں 48 فیصد نوجوانوں نے کہا نہیں ۔ اسی طرح جب نوجوانوں سے یہ معلوم کیا گیا کہ کیا وہ کسی دوسرے مذہبی فرقے سے تعلق رکھنے والے شہری سے شادی کریں گے / گی تو پتہ چلا کہ 64 فیصد نوجوان اس بات سے بھی انکاری تھے۔ مجموعی طور پر 81 فیصد نوجوانوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ کسی بھی ایسے پاکستانی شہری سے شادی نہیں کریں گے جس کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے ہو۔

فیملی پلاننگ کے اشتہارات اور پالیسی کی ساکھ کا اندازہ اس وقت ہوا جب صرف 45 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں دو بچوں کے خواہش مند ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام پاکستان بلکہ برصغیر کی خاص روایت ہے جس میں کئی خاندان مل جل کر رہتے ہیں اور خوشی اور غم کے لمحات ایک ساتھ گزارتے ہیں۔ حالات اور معاشرتی تبدیلی کے تناظر میں جب نوجوانوں سے یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ مشترکہ خاندان میں رہنے کو فوقیت دیں گے تو معلوم ہوا کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوجائیں ان کی خوشی مشترکہ نظام ہی سے بندھی ہے۔ 62 فیصد نوجوانوں نے اس بات کے حق میں رائے دی کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہیں گے، تاہم مردوں کی نسبت خواتین میں مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی کا رجحان قدرے کم پایا گیا۔ 72 فیصد مردوں کی نسبت صرف 46 فیصد خواتین نے مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کی تائید کی۔

سیکورٹی اور جارحیت
نوجوانوں میں سے 42 فیصد کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کو قبائلی علاقہ جات میں آپریشن کرنا چاہیے جبکہ 33 فیصد کا خیال ہے کہ نہیں ۔ ایسے گھرانے جن کی ماہانہ آمدنی 10ہزار سے لے کر 1 لاکھ تک ہے اس کی حمایت کرتی ہے، جبکہ ایک لاکھ سے لے کر 2 لاکھ تک ماہانہ آمدنی والے گھرانوں کے نوجوان فوجی آپریشنز کے خلاف ہیں اور ایسے نوجوانوں میں سے صرف 17 فیصد نے آپریشنز کے حق میں رائے دی۔ جبکہ 43 فیصد 10 ہزار سے لے کر 20 ہزار آمدنی تک اور 45 فیصد 20 ہزار سے لے کر ایک لاکھ آمدنی والے گھرانوں کے نوجوانوں نے اس کے خلاف رائے دی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق
51 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ پاکستان امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے، 26 فیصد نوجوانوں کے خیال میں یہ جنگ امریکہ اور پاکستان دونوں کی ہے، جبکہ 18 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ یہ جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔

ایسے نوجوان جو اس جنگ کوامریکہ کی جنگ سمجھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر اَن پڑھ نوجوان ہیں۔ جیسا کہ 65 فیصد اَن پڑھ 52 فیصد میٹرک، 50 فیصد انٹرمیڈیٹ لیول تک، 56 فیصد تک بیچلر اور 61 فیصد تک ماسٹرز تک تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں نے اس جنگ کو امریکہ کی جنگ قرار دیا۔

47 فیصد نوجوانوں نے اس بات کی تائید کی کہ پاکستانی حکومت کو طالبا ن کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے، جبکہ29 فیصد نے اس کی تائید نہیں کی۔ ایسے نوجوان جنہوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کی تائید کی ان میں سے 79 فیصد کا تعلق اسلامی پارٹیز سے ہے، 63 فیصد کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے، 58 فیصد کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے، 50 فیصد کا عوامی نیشنل پارٹی سے، 48 فیصد کا ایم کیو ایم سے اور 40 فیصد کا بلوچستان نیشنل پارٹی سے ہے۔

یہ بات سب پر عیاں ہے کہ امریکہ کیا کر رہا ہے، اوباما کی پالیسی کیا ہے، یہ تمام چیزیں نوجوان طبقے پر بھی براہ راست اثر کرتی ہیں۔ 34 فیصد نوجوان چاہتے ہیں کہ امریکہ فوراً افغانستان کو چھوڑ دے اور مداخلت بند کر دے، 16 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں مداخلت بند کر دینی چاہیے مگر معاشی اور سیاسی مدد جاری رکھنی چاہیے۔ 12 فیصد کا خیال ہے کہ آہستہ آہستہ امریکہ کو اپنی فوجیں واپس بلا لینی چاہئیںجبکہ 10 فیصد کہتے ہیں کہ امریکہ کو فوجیں بڑھانی چاہئیں اور 5 فیصد سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو غیر معینہ مدت تک افغانستان میں رکنا چاہیے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر نوجوانوں میں سے 48 فیصد کا خیال ہے کہ وہ ہر وقت دہشت گردی سے فکر مند رہتے ہیں، 28 فیصد کہتے ہیں کہ وہ ہر روزدہشت گردی کے خوف کا سامنا کرتے ہیں، 7 فیصد نے کہا کہ وہ مہینے میں ایک بار اس فکر سے دو چار ہو جاتے ہیں جبکہ 14 فیصد نے کہا کہ وہ کبھی بھی دہشت گردی سے فکر مند یا پریشان نہیں ہوتے۔

نوجوانوں میں سے 45 فیصد کا خیال ہے کہ وہ سوات اور وزیرستان میں آپریشنز کے بعد بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے جبکہ 31 فیصد نے کہا کہ اس بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں یا نہیں، جبکہ صرف 22 فیصد نے اس کی تائید کی کہ وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ سیکورٹی آپریشنز کے بعد 55 فیصد بلوچستان اور 50 فیصد پنجاب کے نوجوان خود کو سب سے زیادہ (دیگر صوبوں کے نوجوانوں کی نسبت) غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے نیوکلیئر بم کی حفاظت کے حوالے سے جب نوجوانوں سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا نیوکلیئر بم محفوظ ہے تو 30 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ ہاں وہ محفوظ ہے، جبکہ 35 فیصد نے کہا کہ شاید محفوظ ہے، اور 26 فیصد نے کہا کہ نہیں محفوظ نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں کہ آیا مختلف دینی مدارس پاکستان کے نوجوانوں کو شدت پسند بنا رہے ہیں؟ تو 44 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ نہیں جبکہ 25 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ ہاں مدارس ایسا کررہے ہیں۔
خودکش حملوں سے متعلق 20 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ فلسطین میں خودکش حملے کیے جانے کی وجہ ہے، 18 فیصد نے کہا کہ افغانستان میں بھی بنتی ہے۔ 16 فیصد نے عراق میں بھی وجہ بننے کا کہا اور 5 فیصد نے پاکستان میں خودکش حملے کرنے کو صحیح قرار دیا۔ ایسے نوجوان جو خود کو زیادہ مذہبی گردانتے ہیں، ان میں سے 4 فیصد نے کہا کہ پاکستان میں خود کش حملے کرنے کی منطق بنتی ہے، جبکہ انھی نوجوانوں میں سے 24 فیصد نے کہا کہ ان حملوں کی منطق، عراق، افغانستان اور فلسطین میں بنتی ہیں۔ جبکہ وہ نوجوان جو خود کو مذہبی نہیں سمجھتے ان میں سے بھی 4 فیصد کا خیال ہے کہ پاکستان میں خودکش حملوں کی وجہ بنتی ہے، جبکہ 15 فیصد کے خیال میں یہ منطق عراق، افغانستان اور فلسطین میں بنتی ہے۔

مذہب
مذہب پاکستانی معاشرے میں اہم مقام رکھتا ہے، کوئی بھی چیز جس کو منوانا مقصود ہو اگر مذہب کے خول میں پیش کی جائے تو اسے کافر ہونے کے ڈر سے یا گناہ کے خوف سے بغیر تحقیق کیے ہی قبول کر لیا جاتا ہے۔

سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ 30 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ وہ بہت زیادہ مذہبی ہیں جبکہ15 فیصد نے کہا کہ وہ کچھ کم مذہبی ہیں، 15 فیصد نے کہا کہ وہ بہت ہی کم مذہبی ہیں۔ جبکہ 3 فیصد نے خود کو مذہب پر سختی سے عمل نہ کرنے والے قرار دیا۔ 32 فیصد خواتین اور 29 فیصد مرد خود کو بہت زیادہ مذہبی سمجھتے ہیں جبکہ 57 فیصد خواتین اور 47 فیصد مرد خود کو کچھ کم مذہبی جبکہ 9 فیصد خواتین اور 18 فیصد مرد خود کو بہت کم مذہبی اور 4 فیصد مرد اور 2 فیصد خواتین خود کو مذہبی پابندی کرنے والے سمجھتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں کہ آپ کے لیے مذہبی فرقہ وارانہ شناخت کتنی اہم ہے۔ 59 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ بہت زیادہ اہم ہے، 27 فیصد نے کہا کہ کچھ کم اہم ہے جبکہ 11 فیصد نے اس کو غیراہم قرار دیا۔

نوجوانوں میں فرقہ وارانہ شناخت کی اہمیت اس بات کی بھی متقاضی ہے کہ ان کی تعلیم جو گھر میں یا گھر سے باہر انھوں نے حاصل کی اس کی حدود اسی فرقہ تک مخصوص ہیں، جس پر وہ لچک کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔

پاک بھارت تعلقات
انڈیا اور پاکستان کے مابین دوستانہ تعلقات کے درمیان ایک اہم مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے جس کو حل کیے بغیر دونوں ممالک میں کسی کی بھی صورتِ حال بہتر نہیں ہو سکتی تاہم 50 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے2 فیصد سمجھتے ہیں کہ اس کو انڈیا کا حصہ ہونا چاہیے 40 فیصد کا خیال ہے کہ اس کو آزاد ریاست ہونا چاہیے۔ 10 فیصد کا خیال ہے کہ لائن آف کنٹرول کو سرحد قرار دے دینا چاہیے جبکہ 5 فیصد کی اس بارے میں کوئی رائے نہیں ہے۔

1965ء کی جنگ سے متعلق 75 فیصد نوجوان سمجھتے ہیں کہ یہ انڈیا نے شروع کی تھی۔ 13 فیصد کہتے ہیں کہ یہ جنگ پاکستان نے شروع کی جبکہ 5 فیصد کہتے ہیں کہ اس کو شروع کرنے والے کچھ اور عناصر تھے تاہم ایسے نوجوان جن کا خیال ہے کہ یہ جنگ پاکستان نے شروع کی تھی ان میں سے 10 فیصد کا تعلق پنجاب سے، 34 فیصد کا تعلق بلوچستان سے، 4 فیصد کا تعلق سندھ سے اور 1 فیصد کا تعلق سرحد سے ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ مغربی پاکستان کا مشرقی پاکستان کے ساتھ رویہ کیسا تھا۔ 19 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ اچھا تھا، 38 فیصد نے کہا کہ اچھا نہیں تھا جبکہ 40 فیصد نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی رائے نہیں رکھتے۔

60 فیصد نوجوان سمجھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین قریبی معاشی تعلقات ہونے چاہئیں۔ جبکہ 45 فیصد نوجوانوں کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اوپن ویزا سسٹم ہونا چاہیے۔ ایسے نوجوان جو دونوں ممالک کے مابین اوپن ویزا کے حق میں ہیں ان کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ 49 فیصد ایسے نوجوان جو اس کے مخالف ہیں ان کا تعلق سندھ سے ہے۔

1965ء کی جنگ کی طرح نوجوانوں کی اوسط تعداد 39 فیصد سمجھتی ہے کہ کارگل بھی انڈیا ہی نے شروع کی، جبکہ 22 فیصد اس کا ذمے دار پاکستان کو سمجھتے ہیں جب کہ 25 فیصد امریکہ کو اور 7 فیصد دیگر عوامل اور عناصر کو اس کی وجہ گردانتے ہیں۔

سروے کے اختتام پر جب نوجوانوں سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے تو معلوم ہوا کہ 59.5 فیصد نوجوانوں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ 19 فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں ہمیشہ فخر رہتا ہے کہ وہ پاکستانی ہیں جبکہ 12 فیصد نے کہا کہ انہیں ایسا کوئی فخر نہیں ہے جبکہ 7 فیصد نے کہا کہ انہیں فخر کبھی کبھی ہوتا ہے۔

سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی نوجوان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پرامید ہیں کہ ان کا ملک ترقی ضرور کرے گا اور ان کو مواقع ضرور حاصل ہوں گے، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کافی پریشان کن ہے کہ تعلیمی اور معاشی نظام میں مناسب تبدیلیاں لائی جارہی ہیں جب کہ مذہبی سطح پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے نوجوانوں کے کچے ذہنوں کو گمراہ کرنا بہت ہی آسان ہے۔ آج پاکستان کو جو دہشت گردی کے عوامل کاسامنا ہے اس میں ہماری وہ غفلت بھی شامل ہے جو ہم نے مذہبی سطح پر دکھائی اور مذہب کے نام پر اٹھنے والے ہر نعرے کو مذہب کا حصہ بنا دیا، صرف اس خوف سے کہ کہیں ہم گنہگار نہ ہو جائیں۔ مگر اب بھی وقت ہے ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا ہو گا کہ راہ حق کیا ہے اور پاکستان کے لیے ان کی کیا ذمے داریاں ہیں اور ان کو ریاست کی طرف سے کیا حقوق حاصل ہیں۔ صوبائی انفرادیت اگرپرامن طریقے سے قائم رہے تو اس کو کسی بھی ریاست کا حسن قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس انفرادیت کو قائم رکھنے سے ملکی شناخت خطرے میں پڑتی ہو، تو اس پر غور و خوض ضرور کر لیا جانا چاہیے ۔