working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

بڑھتا ہوا تشدّد


2009ء پاکستان کے لیے خون آشام سال تھا جس میں دہشت گردوں نے 2586 حملوں میں 3021 افراد کی جان لے لی اور 7334 کو مفلوج کر دیا۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2009ء میں گذشتہ سال کی نسبت دہشت گرد کارروائیوں میں 48% اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا عفریت روز بہ روز بے قابو ہو رہا ہے اور تشدد کی ان وارداتوں میں عام شہریوں کی شہادتوں کا گراف اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ گذشتہ سال سوات اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب فوجی آپریشنز سے امید بندھ چلی تھی کہ تشدد کے اس جن کو قابو کرنے میں مدد ملے گی، لیکن دہشت گردوں نے دہشت کی نکاسی کے لیے نئے رستے نکال لیے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گرد ان آپریشنز کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں پھیل سکتے ہیں۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سال فوج کوئی نیا محاذ نہیں کھولے گی بلکہ پہلے سے کھلے محاذوں پر کامیابی کو یقینی بنائے گی۔ یہ سوچ بالکل بجا ہے، لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فوج کشی سے دہشت گردی کو جڑسے نہیں اکھاڑا جاسکتا اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بھی اہم ہے۔ چھوٹے شہروں، قصبوں تک پھیلنے والی اس آگ کو بجھانے کے لیے خفیہ اداروں کے باہمی اور ان کے پولیس کے ساتھ ربط کار کو موثر بنانا بھی ضروری ہے۔ لیکن ایک اہم محاذ فکری ہے اور دوسرا پالیسی سازی کا ان دو محاذوں پر موثر حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہو رہی۔ میڈیا، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی سطح پر اس موضوع پر بحث جاری ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا اور ہمارے خیال میں اس کی بنیادی وجہ اداروں کی سطح پر سابقہ غلطیوں کو تسلیم نہ کرنا اور اس کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا ہے۔ جب تک ہم اپنی سابقہ پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کریں گے، نئی روش کی جانب سفر کیسے شروع ہو گا؟