working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

گلگت بلتستان الیکشن 2009ء
شگفتہ حیات
 
گلگت بلتستان میں حال ہی میں ہونے والے الیکشن درحقیقت یہاں کے عوام کو داخلی خودمختاری میسر آنے کے بعد پہلے عام انتخابات تھے جس میں ملک بھر کی سبھی بڑی سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ نتائج سامنے کیا آئے اور ان نتائج کے بارے میں دیگر سیاسی جماعتوں نے کن تحفظات کا اظہار کیا اور جس سیاسی جماعت نے زیادہ نشستیں حاصل کیں، اس سے وہاں کے عوام کی کیا توقّعات وابستہ ہیں … علاوہ ازیں الیکشن کے دوران وہاں کی مجموعی فضا کیسی رہی۔ شگفتہ حیات نے اپنے اس تجزیے میں ان تمام معاملات کو سمیٹا ہے۔ (مدیر)
گلگت بلتستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے بعد نئی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ انتخابات میں فتح حاصل کرنے والی اکثریتی جماعت پیپلزپارٹی کے صدر سید مہدی شاہ نے گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اس طرح 29 اگست 2009 ء کو گلگت بلتستان کو اندرونی خود مختاری دینے کے بعد جس جمہوری عمل کا آغاز ہوا تھا اس کا ایک حصہ تکمیل کو پہنچا۔ہنزہ سے پیپلزپارٹی کے نو منتخب رکن اسمبلی وزیر بیگ کو سپیکر اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیاب ہونے والے جمیل احمد کو ڈپٹی سپیکر منتخب کرلیا گیا۔ صدارتی آرڈر برائے گلگت بلتستان سیلف گورننس اینڈایمپاورمنٹ کے تحت گلگت بلتستان کابینہ کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے جن میں چھ وزراء اور دو مشیر شامل ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ وہ مرکز کے اتحادیوں ایم کیو ایم ،جے یو آئی اور آزاد ارکان کو بھی حکومت میں شامل کرے ۔ تاکہ خطے کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے رکاوٹوں کے بغیر ایک مضبوط حکومت تشکیل دے سکے۔

گلگت بلتستان کے موجودہ انتخابات میں 24 جنرل سیٹوں میں سے 23 سیٹوں پر انتخابات منعقد ہوئے جبکہ حلقہ نمبر21 ، غذر میں ایم کیو ایم کے امیدوار کی وفات کی وجہ سے الیکشن ملتوی کردیا گیا۔
ان انتخابات میں علاقہ کے عوام نے بھرپور جوش و خروش سے حصّہ لیا کیونکہ عوام کو داخلی خودمختاری میسر آنے کے بعد یہ پہلے عام انتخابات تھے، جس میں پورے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے دیگر جماعتوں کی سیٹوں کی تعداد گوشوارے میں دکھائی گئی ہے:

1


انتخابات سے پہلے ان تمام جماعتوں کے اہم قومی رہنمائوں نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور اپنے امیدواروں کے حق میں بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں نے ادبی و سیاسی سرگرمیوں کو بھرپور طریقہ سے چلانے کے لیے عوام کے دلوں کو جیتنے کی بھی تگ و دو الیکشن سے پہلے جاری رکھی اور اس طرح عوام کے ذریعے اپنے لیے یقین دہانی کرائی کہ ووٹرز انھیں اپنے حق میں منتخب کریں گے۔ جمہوری اقتدار کی راہ میں ایسا طرز عمل یقینی طور پر ایک مثبت ردّ عمل کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ مستقبل قریب میں صحیح معنوں میں ان علاقوں میں اس سے جمہوریت کو فروغ ملے گا اور توقع ہے کہ عوام ان منتخب اراکین کے ساتھ تعاون بھی کریں گے۔ سیاست میں اختلاف رائے کی گنجائش تو ہوتی ہی ہے مگر یہ ایک جمہوری عمل کے تحت ہونا چاہیے کہ جس میں عوام الناس کی اختلافِ رائے کا ہر صورت میں خیال رکھا جائے بلکہ احترام کیا جائے۔ سو انتخابات کے بعد نتائج جیسے بھی ہوں ایک جمہوری عمل کو جانتے ہوئے نتائج کو بھی تسلیم کر لیا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ بعد میں دنگا فساد، خون خرابہ ہو اور عوام میں افرا تفری اور ابتری کی صورت حال پیدا ہو جائے۔لہٰذا گلگت بلتستان میں الیکشن مکمل ہونے کے بعد اب یہاں بھی اس طرح کا انداز اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

12نومبر 2009ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی (PPP) کو اکثریت حاصل ہوئی۔ماضی میں بھی چونکہ یہ علاقہ پیپلز پارٹی کے حامیوں کا مرکز رہا ہے ا ور کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح انھوں نے یہاں اپنی توجہ کسی حد تک مرکوز کر رکھی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عوام پیپلز پارٹی کے حامیوں کی طرف بہت زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیربھٹو نے گلگت بلتستان میں لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے عوامی اصلاحات نافذ کیں، جن کے اثرات علاقہ کی عوام کی سیاسی، سماجی، معاشی زندگی پر بہت مثبت انداز میں پڑے تھے۔ موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کی طرف توجہ دیتے ہوئے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف آرڈر 2009ء جاری کیا تاکہ علاقہ کے عوام کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ذریعے عوام کی نمائندہ حکومت قائم ہو سکے۔ گلگت بلتستان پبلک سروس کمیشن قائم کر کے مقامی عوام کے لیے صلاحیتوں کی بنیاد پر روزگار اور ملازمت کے مواقع بڑھائے گئے اور ساتھ ہی ساتھ حکومت سازی میں خواتین کی نمائندگی کے لیے نشستیں مخصوص کی گئیں۔

موجودہ الیکشن 2009ء سے قبل وزیر اعظم سیدیوسف رضا گیلانی نے علاقے کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انھوں نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اسکردو کو بگ سٹی(Big city) کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی ساتھ پولیس کی ملازمتوں میں کئی ایک کی تقرّریوں کااعلان بھی کیا۔ علاوہ اس کے سکردو کو ڈویژن کا درجہ دینا، طلبہ کی سہولت کے لیے سفری انتظامات، روز گارمیں اضافے وغیرہ، یہ تمام معاملات نئے انتظامی امور کا حصہ ہیں جو کہ بعد میں پیپلز پارٹی کی نمایاں کامیابی کا سبب بھی بنے اور یوں یہ جماعت عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

اپوزیشن کی جماعتوں نے حکومت پر الیکشن میں دھاندلی کرانے کا الزام بھی دھرا ہے جس کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ نے گلگت بلتستان میں انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار قرار دیتے ہوئے دھاندلی کے تمام الزامات کو مکمل طور پر رد کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کا بیان تھا کہ ان انتخابات کو عدلیہ کے تحت منعقد کروایا گیا ہے جن کی میڈیا بھی نگرانی کر رہا تھا۔ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ نے انتخابات کے بہتر شفاف اور پر امن انتظامات کے لیے ہر ممکن اقدامات بھی کیے تھے۔

یوں انتخابات کا کلی جائزہ لینے کے بعد مجموعی طور پر یہ دیکھا گیا کہ اس دوران ماحول پُرامن، سازگار اور شفاف رہا۔ بعض مقامات پر الیکشن کے بعد کے دنوں میں اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزام کے سلسلے میں مظاہرے بھی کیے۔ ونیور، گلگت اور سکردو کے چند علاقوں میں ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے جن کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں اوربعض مقامات پر تشدد اور توڑ پھوڑ کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ جن کا زور آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ ان چند ناخوشگوار واقعات کی بنا پر گلگت، بلتستان میں تھوڑی دیر کے لیے حالات ناسازگار ضرور ہوئے تھے لیکن اب ان حالات پر قدرے قابو پا لیا گیا ہے۔ بعض علاقوں میں سیکورٹی کے مؤثر انتظامات ہونے کی وجہ سے جلد ہی ہنگامہ آرائی اور ناخوشگوار حالات پر قابو پا لیا گیا تھا۔

اظہار رائے رکھنے والے طبقہ کے لوگوں نے ان الیکشن کو گلگت بلتستان کے لیے ایک نئے جمہوری سفر کی ابتدا سے تشبیہ دی ہے اور اس صبح نو کی روشنی سے اپنی امیدوں کو بھی روشن کیا ہے۔

ادارہ برائے انسانی حقوق پاکستان (HRCP) نے بھی گلگت بلتستان الیکشن 2009ء کے بارے میں اپنی سروے رپورٹس میں تسلی بخش خیالات کا اظہار کیا ہے۔مجموعی طور پر ان علاقوں میں ہونے والے الیکشن کو جیتنے والی سیاسی جماعت کی عوام کے ساتھ مکمل معاونت اور دلچسپی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ ان مثبت اثرات کا موجودہ حالات پر گہرا اثر پڑا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ الیکشن کے دوران غیر منظم کارروائیاں، پولنگ اسٹیشن کی کمی اور غیر تربیت یافتہ عملہ اور اس کے باعث پیدا ہونے والے ناخوشگوار واقعات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے حالات سے سابقہ نہ پڑے۔ رپورٹس میں مجموعی طور پر ان الیکشن کو یہاں کی حکومت اور عوام دونوں کے لیے نئی امیدوں کا آغاز قرار دیا گیا ہے۔کمیشن نے نگران سرپرست اقبال حیدر اور ان کے ساتھی اراکین پروین سومرو، کامران عارف، حسین نقی اور نجم الدین پر مشتمل (Observer's mission) تشکیل دیا جس نے الیکشن کے آخری نتائج آنے تک Local observersکی فراہم کی گئی اطلاعات کو مدنظر رکھ کر اپنے جائزے اور خیالات ریکارڈ کروائے۔

کمیشن نے چند ناخوشگوار واقعات کو بھی رپورٹ کیا جن میں دو لوگوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں اور چالیس (40) سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ گلگت بلتستان میں حکومت پاکستان کی طرف سے 12 نومبر کو منعقد کرائے جائے والے انتخابات کو قوم پرستوں نے ڈھونگ قراردیتے ہوئے انتخابی عمل سے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔مگر عوام نے انتخابات میںشمولیت اختیار کرکے وقتی طور پر قوم پرستوں کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ لیکن جس طرح عوام نے اپنے مطالبات اور حقوق کے لئے پیپلزپارٹی پر اعتماد کیا ہے اگر وہ اس معیار پر پورا نہ اتری تو آئندہ حالات گلگت بلتستان کے عوام میں مزید احساس محرومی پیدا کریں گے جس کا خمیازہ حکومت پاکستان کو بھگتنا پڑے گا۔ اس لئے پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ علاقے کے عوام کی بہتری کے لئے اور انہیں سیاسی و آئینی حقوق دینے کے لئے پالیسیاں مرتب کرے۔