working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

دہشت گرد کشمیر کی دہلیز پر
مجتبیٰ محمد راٹھور
 
یوںتو وطنِ عزیز کا کوئی بھی شہر دہشت گردی کی کارروائیوںسے محفوظ نہیں۔ تاہم دہشت گردی کی حالیہ لہر نے آزاد کشمیر کو بھی اپنی لپیٹ میںلے لیا ہے۔ یہ تب سے وقوع پذیر ہونا شروع ہوا ہے جب سے سیکورٹی فورسز نے دہشت گردانہ کارروائیوں کے سامنے بند باندھنے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تو اِن لوگوں کا سوات اور وزیر ستان سے انخلا شروع ہوا اور یہ ملک کے طول و عرض میں پھیلتے چلے گئے۔ پاکستان کے شہریوں کے لیے یہ نیک شگون نہیں۔ اب ہم ان کی زد پر ہیں۔ سارے شہر ان کی غیر انسانی سرگرمیوں کے لیے ان کی لپیٹ میں ہیں۔ پنجاب اور سرحد کے بعد ان کا بڑا پڑاؤ آزاد کشمیر بن رہا ہے جہاں ان کی کارروائیوں کے تدارک کا مناسب بندوبست ناگزیر ہے ورنہ مجتبیٰ محمد راٹھور کے لفظوں میں جہاد کشمیر کے نام پر ہر قسم کی آزادی رکھنے والے یہ عناصر خود اپنے لوگوں کے لیے موت کا پیغام بن سکتے ہیں۔(مدیر)

پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں شدت کے بعد جب سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تو ان ملک دشمن عناصر نے آزاد کشمیر کا رخ کر لیا۔دہشت گردوں کی آزاد کشمیر منتقلی کا یہ سلسلہ سوات آپریشن کے دوران شروع ہوا تھا لیکن اس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خاموشی اختیار کیے رکھی تھی مگر جب دہشت گردوں نے آزاد کشمیر میں اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تو لوگوں میں خوف وہراس پیدا ہوا۔ جس کے بعد حساس ادارے حرکت میں آئے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ خفیہ ذرائع کے مطابق اس وقت پنجاب اور صوبہ سرحد کے علاوہ قبائلی علاقوں سے کالعدم تنظیموں بشمول تحر یک طالبان کے سینکڑوں دہشت گرد آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور انھیں ان علاقوں میں اپنے حامی افراد کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ ہم مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن ہم یہاں پر کوئی نیا محاذ نہیں کھول سکتے۔ مگر ہم ان لوگوں کو بخوبی جانتے ہیں جو ایسے افراد کو یہاں پناہ دیتے ہیں لیکن ہم ان کے خلاف اس وقت تک کارروائی نہیں کر سکتے جب تک ہمیں مکمل ثبوت نہیں مل جاتا۔

آزاد کشمیر میں دہشت گردی کی پہلی واردات دارلحکومت مظفرآباد میں ٢٦ جون ٢٠٠٩ کو ہوئی جب ایک خود کش حملہ آور آرمی بریگیڈ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا تو گیٹ پر آرمی کے حفاظت پر معمور نو جوانوں نے اسے روکنے کی کو شش کی تو اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے 2فوجی جوان جاں بحق اور 6زخمی ہوئے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اس دہشت گرد نے مظفر آباد میں شوائی نالہ کے قریب ایک مدرسہ میں رات گزاری اور علی الصبح وہا ں سے پیدل شوکت لائن آرمی ہیڈ کوارٹر پر حملہ آور ہونے کے لیے پہنچا۔
دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ 21نومبر 2009ء کو پیش آیا جب دارلحکومت
مظفر آباد میں دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ نیو سیکرٹیریٹ کے عقب میں تھوری کے مقام پر تین دہشت گرد اسلحہ رکھنے میں مصروف تھے۔ اہل محلہ نے اسلحہ دیکھ کر شور مچادیا اور پولیس کو اطلاع دی تینوں دہشت گرد اسلحہ کی بھاری تعداد چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ اسلحہ میں بارہ ہینڈ گرنیڈ، چھ گائیڈڈ میزائل، تین کلاشنکوف، اٹھارہ میگزین، دو جیکٹیں اور دیگر اشیاء بر آمد ہوئیں۔

دہشت گردوں کے بھاگنے کے بعد مختلف علاقوں کی ناکہ بندی کی گئی اور جب دہشت گردوں کو گھیرے میں لیا گیا تو دو دہشت گردوں نے اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا جبکہ تیسرا زخمی حالت میں تھا جسے پولیس نے فائرنگ سے ہلاک کر ڈالا۔ اس طرح دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام ہوا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک ان دہشت گردوں کے اصل مقصد اور ٹارگٹ کا کھوج لگانے میں مصروف ہیںجبکہ چند ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گرد پہاڑی راستے سے پاکستان میں کارروائی کے لیے داخل ہونا چاہتے تھے۔ یہاں وہ صرف پناہ کے لیے داخل ہوئے تھے لیکن انھیں واپسی کا راستہ نہیں مل سکا ۔

اس کارروائی کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آزاد کشمیر کے تمام داخلی راستوں پر سکیورٹی سخت کر دی اور غیر ریاستی باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا جن میں ہزاروں کی تعداد کو تحقیقات کے بعد علاقہ بدر کر دیا گیا اور مشکوک افراد کے خلاف تفتیش شروع کر دی ہے۔
آزاد کشمیر میں خود کش حملہ آوروں کی آمد کے بعد یہاں کی مختلف مذہبی، سیاسی اور سماجی تنظیموں نے مظاہرے کیے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایسے نام نہاد مذہبی انتہا پسندوں اور ملک دشمن عناصر کے خلاف سختی سے کارروائی کی جائے جو اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے اور پاکستان کو دنیا میں دہشت گرد ثابت کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

آزاد کشمیر کے لوگ اگرچہ جہاد کشمیر کی وجہ سے مختلف نظریات میں منقسم ہیں کیونکہ اس علاقہ میں جہاد کے نام پر جہادی تنظیموں نے جہاد سے زیادہ فرقہ واریت کو فروغ دیا ہے مگر بنیادی طور پر یہ لوگ صوفیاء کی تعلیمات سے متاثر ہیں اورمذہبی رواداری کی بناء پر اس علاقے کو ممتاز حیثیت حاصل ہے لیکن پاکستان کی کالعدم جما عتوں کے نیٹ ورک نے اس علاقے کی جدا گانہ حیثیت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اور اگر اسی طرح ان جماعتوں کی سرگرمیاں جاری رہیں تو مستقبل میں یہ بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

دہشت گردوں کی اس علاقے میں آمد اور ان کو یہاں پر محفوظ مقامات مل جانے کو ہم دو زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

اولاً یہ کہ آزاد کشمیر میں جب جہادی کلچر کا فروغ ہوا تھا تو یہاں مختلف جہادی تنظیموںکا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان میں سے کچھ تنظیمیںکشمیر اور کچھ پاکستان میں قائم ہوئیں۔اِن میں سے کچھ تنظیموں کو حکومت پاکستان نے کالعدم قرار دیا مگر یہ کسی نہ کسی صورت میں اب بھی کام کر رہی ہیں اور جو تنظیمیں خالصتاً جہاد کشمیر کے نام پر کام کرتی ہیںانہیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہوتی ہے اور ان پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا جاتا کیونکہ ابھی تک ہمارے ادارے انھیں سڑیٹیجک اثاثہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے دیگر کالعدم تنظیموں سے بھاگے ہوئے یا دہشت گردی میں ملوّث عناصر کو جہادکے نام پر ان تنظیموں میں شمولیت سے کلیئرنس سرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے جبکہ حساس ادارے بھی اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ یہی لوگ مستقبل میں اپنے مذموم ارادوں کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ اس لیے اگر یہ دہشت گرد آزاد کشمیر میں داخل ہو کر ان جہادی تنظیموں کے نیٹ ورک میں شامل ہوتے ہیں تو انھیں آسانی کے ساتھ محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہوتی ہیں جہاں پولیس کے ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ دہشت گردوں کی کشمیر آمد کا دوسرا زاویہ کالعدم فرقہ ورانہ جماعتوں سے ملتا ہے ۔

پاکستان میں حالیہ دہشت گردی میں دیو بندی مکتبہ فکر کی تنظیم لشکر جھنگوی اور دیگر گروپ بہت زیادہ ملوث رہے ہیں اور ان تنظیموں بشمول طالبان کے اپنے مکتبہ فکر کے مدارس اور مساجد کے افراد سے قریبی تعلقات ہیں جس کی وجہ سے ان کو اپنا نیٹ ورک مضبوط بنانے میں آسانی حاصل ہوتی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی دہشت گرد کارروائی کو آسانی کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ جہاد کشمیر سے شہرت پانے والا الیاس کشمیری جو حرکة الجہاد اسلامی بریگیڈ ٣١٣ کا بانی تھا۔ وہ لا ل مسجد آپریشن کے بعد قبائلی علاقوں میں جا کر روپوش ہوا تھا ۔ وہ وہا ں سے مختلف دہشت گرد اور خود کش حملہ آور تیار کر کے پاکستان کے مختلف علاقوں میںبھیجتا رہا۔ آزاد کشمیر میں اس کے دیوبند مکتبہ فکر کے تمام لوگوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ اس کے افراد کے لیے آزادکشمیر میں داخل ہونا مشکل نہیں ہے۔ یہاں پر مدارس اور مساجد کے ساتھ ساتھ چند باہر کے لوگ بھی ان کی پشت پناہی کر سکتے ہیں۔ پولیس کے خفیہ اداروں نے ایسی مساجد اور مدارس کو نوٹ کر لیا ہے جہاں غیررہائشی افراد پیش امام اور استاد تعینات ہیں لیکن پولیس کے اندر چند لوگوں کے اثرور سوخ پانے کی وجہ سے ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے احتراز ہی کرتی ہے۔ آزاد کشمیر میں پولیس چند افغانیوں کو اور دیگر مشکوک افراد کو گرفتار کر کے انہیں علاقہ بدر تو کر سکتی ہے مگر اصل لوگوں کی پشت پناہی کرنے والے افراد کو گرفتار کرنے سے راہ فرار اختیار کرتی ہے اور اگر انہیں کسی علاقے میں کسی مدرسے یا مسجد کا دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے تو وہاں کے علاقہ کے باا ثر افراد کی بدولت کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گھبراتی ہے۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ حالیہ دنوں مظفرآباد میں سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے چند بااثر افراد کا پشاور دھماکہ میں ملوث افراد سے تعلق پایا گیا تو چند دنوں کے اندر اندر انھیں رہا کر دیا گیا۔ آزاد کشمیر کو دہشت گردی کے اس خطرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ ضرور ی ہے کہ سیکیورٹی ادارے ان دو زاویوں سے دہشت گرد عناصر پر نظر رکھیں اور اس پر امن خطہ کشمیر کو فرقہ واریت اور نام نہاد جہادی تنظیموں سے جو بچوں کو ورغلا کر اپنے مفادات کے لیے جہاد کا راستہ دکھاتے ہیں ان سے محفوظ رکھا جائے۔