working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پنجاب میں خانقاہی کلچر
زاہد حسن
بعض اسلامی مملکتوں میں خانقاہی کلچر کی روایت نہایت مضبوط اور درخشاں رہی ہے۔ برصغّیر پاک و ہند میں بلا تخصیص رنگ و مذہب لوگ جوق در جوق صوفیا کی مجالس میں شرکت کرتے اور ان کے وصال کے بعد ان کی خانقاہ مرجع عوام و خواص ہوا کرتی ۔وجہ انسانی اقدار کی پاسداری اور بلندانسانی اخلاقیات کی ترویج و فروغ تھا یہ ایک مجموعی انسانی معاشرے کی تصویر تھی اس عہد کی بالخصوص پنجاب میں صورت حال کیا تھی اس کی خوب صورت تصویر کشی کی ہے غافر شہزاد نے۔ اِن کی زیر مطالعہ کتاب''پنجاب میں خانقاہی کلچر'' دراصل اسی موضوع کا احاطہ کرتی ہوئی ایک اہم تصنیف ہے ''تاریخ پبلی کیشنز'' مزنگ روڈ لاہور کی جانب سے شایع ہونے والی یہ کتاب ٢٠٨ صفحات پر محیط ہے جس میں نہ صرف اپنے موضوع کے حوالے سے تاریخی اور تہذیبی تناظر میں اپنی بات کے استناد کے طور پر ٹھوس مواد شامل کیا گیا ہے۔ بلکہ اس میں بعض مزارات کی رنگین تصاویر دی گئی ہیں۔ اور کچھ صفحات پر اِن مزارات کے حوالے سے بعض ایسے نقشے بھی شامل کیے گئے ہیں جن سے آر کیٹیکٹ کے حوالے سے ان کی اہمیت اْجاگر ہے؟ کتاب میں شامل کیے گئے بعض ابواب کے عنوانات ہی دیکھ لیے جائیں تو کتاب کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
۔ عہد صوفیا کی تاریخ کیسے لکھی گئی؟
۔ اکیسویں صدی میں درگاہ کی کایا کلپ
۔ وقف کا اسلامی تصورّ اور وقف پراپرٹی آر ڈی نینس
۔ مزارات کی میکانیت
۔ درگاہ حضرت علی ہجویری: رسومات، روایات اور تقریبات
۔ مزارات کا معاشی پہلو
۔ پنجاب میں مزارات اور اْن کا فن تعمیر
۔ مزارات: تعمیرو توسیع کے دیگر محرکات
۔ مزارات پر تجاوزات
۔ قدیمی مسجدو مزار حضرت علی ہجویری: چند معروضات و دیگر

اس کتاب کے مصنّف غافر شہزاد ایک شاعر، ادیب، افسانہ نویس اور ماہر آرکیٹکٹ ہونے کے ساتھ ساتھ محکمہ اوقاف حکومت پنجاب میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اوقاف میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں قدیم آرکیٹکٹ سے نہ صرف دلچسپی اور محبّت ہے بلکہ وہ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ قدیم فنِ تعمیر ہمارا تاریخی ورثہ ہے جس کا اس کی اصل اور حقیقی شکل میں باقی رکھا جانا ہمارے زندہ قوم ہونے کی دلیل ہو گا اور لے دے کر یہ مزارات اور درگاہیں ہی بچ جاتی ہیں جن کو اِن کے عقیدت مندوں نے ان کی اصلی صورتِ میں باقی رکھا ہوا ہے۔ اب یہ حکومت وقت، محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ اوقاف کا فرض بنتا ہے کہ وہ اِن کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات اْٹھائے۔

اپنی دلچسپی کا اظہار انہوں نے اس کتاب کے آغاز میں کیا ہے جو نہ صرف ان کی اس تصنیف میں بلکہ بعض دیگر تصانیف میں جیسے لاہور کے مینار، لاہور گھر گلیاں دروازے، داتا دربار کمپلیکس تعمیر سے تکمیل تک اور دربار حضرت بابا فرید'' (زیر اشاعت) میں اظہار پاتا دکھائی دیتا ہے۔ لکھتے ہیں:
'' سات سال پہلے جب میں نے انجینئرنگ یونیورسٹی، لاہور میںفن تعمیرات میں پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقا لہ کے موضوع کا انتخاب کیا تو میرے پیش نظریہ بات تھی کہ میں پنجاب میں مزارات پر ہونے والی سرگرمیوں اور اْن پر اثر انداز ہونے والی سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی قوتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا جایزہ لوں گا کہ مزارات پر کس طرح تعمیرات میں تبدیلی وقوع پزیر ہوتی ہے بس یہیںسے اسلامی تصوّف، مزارات، صوفیا اور ان کی تصانیف یا ان سے منسوب ملفوظات و تذکرہ جات کے مطالہ کا آغاز ہوا اور مجھے بہتر انداز سے سمجھ آنے لگی کہ شہری و دیہاتی آبادیوں میں مزارات کس طرح ایک فعال ادارے کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ باتیں جب سمجھ آنے لگیں تو معلوم ہوا کہ آج کے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ عہد میں بھی بہت تیزی سے جہاں ایک جانب مزارات پر زائر ین و عقیدت مندوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب ان عقیدت مندوں کو سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے مزارات سے ملحقہ رہائشی و تجارتی عمارات کو اپنے اندر ضم کرتے ہوئے وسعت اختیار کر رہے ہیں یہ مسلم معاشرے کا واحد ادارہ ہے جہاں چوبیس گھنٹے زائرین موجود رہتے ہیں روحانی تسکین اور ماہیئت قلب میں اِن کا موثّر کردار ہر لمحہ پریشان، منتشرالخیال اور عدم تحفّظ کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کو ذہنی یکسوئی اور سکون عطا کرتا ہے۔''

یہ بات تو وہ ہے جو غافر شہزاد نے اپنے پیشے اور فن سے منسلک رہتے ہوئے کی ہے تا ہم ان کی تحریر سے یہ بات واضح ہے کہ مزارات پر آنے والے زائرین اور ان مزارات میں مدفون صوفیائے کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کے دوران ہی اْن کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس کام کے آغاز کا بیڑہ اْٹھا یا جائے جس سے عام طور پر مورّحسین کنارا ہی اختیار کرتے ہیں اور اگر بنظرِ غائیر غافر شہزاد کی تصانیف کا مطالہ کیا جائے تو ایک بات واضع ہو کر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنا یہ کام بہت محنت، تحقیق اور دقتِ نظری کے ساتھ کیا ہے۔ ماسوا اْن چند ایک تاریخی نوعیت کی تا لیفات کے جو عمومی حیثیت میں تو کسی خاص علاقے اور جغرافیے کا احاطہ کرتی ہیں۔ مصنّف کے نزدیک لفظ''صوفی'' روز مّرہ کی زندگی میں اتنا عام اور سہولت سے استعمال ہوتا ہے کہ اس نے اپنے حقیقی لغوی معنی کھو دیے ہیں اور ہم کسی کو بھی''صوفی'' کہہ دیتے ہیں یا کوئی بھی ''صوفی'' کہلوانے لگتا ہے۔ مولانا جامی کی تحقیقات کے مطابق سب سے پہلے جو بزرگ صوفی کے لقب سے مشہور ہوئے وہ شیخ ابو ہاشم کوفی المتوفی ١٥٠ ھجری) تھے…۔ صوفیأ کا ایک اہم اور بڑا عہد دسویں صدی عیسوی کا ہے اس عہد میں صوفیانے مذہب کی حقیقی روح کو بیدار کرنے، اصلاح باطن اور اخلاق کی درستگی کی طرف خصوصی توجّہ اور کوشش کی۔ اسی زمانے میں شیخ ابو نصر سراج نے '' کتاب اللمع فی تصوّف'' تحریر کی۔ اس کا ذکر حضرت علی ہجویری کی '' کشف المحجوب'' میں بھی ملتا ہے بارہویں صدی میں امام غزالی نے تصوّف کو ''زندگی گزارنے کے طریقے'' سے بڑھا کر پورا فلسفہ مدّون کیا اور اخلاقی تعلیم کی بنیاد تین چیزوں ''صحیح مذہبی وجدان، حکمت اور نفسیات پر رکھی۔ اسی صدی میں شیخ عبدالقادر جیلانی (متوفی ١١٦٦ئ) شیخ نجیب الدین سہر وردی ابن عربی، اور شیخ شہاب الدین سْہر وردی جیسی جےّد اور صوفی شخصیات کا ظہور ہوا۔ شیخ عبدا لقادر جیلانی کی زبان میں ایسی قوت تھی اور آپ کا انداز بیان ایسا پر تاثیر اور مدلل ہوتا تھا کہ لوگ گھنٹوں بیٹھ کر سُنتے، شیخ شہاب الدین سہر وردی کی کتاب '' عوارف المعارف'' میں تصوفّ کے بنیادی اعتقادات، خانقاہی نظام و تنظیم، مریدین و شیوخ کے باہمی تعلقات اور دیگر مسائل و معاملات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیا گیا۔ یہی وہ عہد ہے جب فارسی شاعری میں صوفیانہ عنصر شامل ہوا۔

کتاب اللمع، رسالہ القشیر یہ، اور کشف المحجوب، کے علاوہ تصوفّ پر موجود لڑیچر کی تین دیگر اہم اصناف مصنّف نے یوں گنوائی ہیں:
١۔ ملفوظات ( صوفیا کی غیر رسمی گفتگو)
٢۔ تذکرہ جات (احوال صوفیاء اور اِن کی تعلیمات)
٣۔ مکتوبات ( صوفیاء کے خطوط)

پنجاب میں خانقاہی کلچر دراصل غافر شہزاد کی مزارات اور خانقاہوں کے حوالے سے ہی ایک اہم اور مستند تصنیف نہیں بلکہ صوفیا ئے کرام کے حوالوں اور تذکروں سے بھی بھری پڑی ہے غافر شہزاد کے عزایم تو یہ بتاتے ہیں کہ وہ تصوّف ، صوفیا، مزارات اور خانقاہوں کے حوالے سے مکمل کام کرنے کا عزم لیے ہوئے ہے اعلیٰ انسانی اقدار، بلند اخلاق، تہذیب و تمدّن سے بھر پور رواداری کے حامل معاشرے کے قیام کے لیے صوفیا کی تعلیم کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ !!