working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

''پنجابی طالبان'' مجاہد حسین
صفدر سیال

 
پاکستان کی مختلف جغرافیائی اکائیوں میں شدت پسندی کے رجحانات کو دیکھنے کے لیے یا تو ان اکائیوں /علاقوں میں شدت پسند گروہوں کی موجودگی کو بنیاد بنایا جاتا ہے یا پھر وہاں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو۔ یہی زاویہ مجاہد حسین نے اپنی کتاب'' پنجابی طالبان'' میں پنجاب کے مختلف علاقوں بالخصوص جنوبی پنجاب میں شدت پسند رجحانات کو پڑھنے کے لیے اپنایا ہے۔ بہرحال یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ کیا کسی علاقے میں شدت پسند گروہوں کی موجودگی یا دہشت گردانہ حملوں کا ہونا اس بات کے لیے کافی ثبوت مہیاّ کرتا ہے کہ اس علاقے کے لوگوں میں شدت پسندی آگئی ہے یا کیا وہاں کے لوگ اس کے حامی ہیں؟ اس بحث کے لیے موزوں ترین مّواد سوات میںشدت پسند گروہوں کی موجودگی ان کے خلاف حالیہ حکومتی آپریشن اور اس آپریشن کے لئے عوامی حمایت/ مخالفت سے لیا جا سکتا ہے۔ '' پنجابی طالبان'' میں مصنّف نے تحقیقی سے زیادہ صحافیانہ انداز اپنایا ہے اور پنجاب کی بدلتی ہوئی صورت حال کو آٹھ ڈویژنز لاہور، بہاول پور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان، ڈیرہ غازی خان، سرگودھا اور راولپنڈی کے تناظر میں دیکھا ہے مصنّف کے نزدیک پنجابی معاشرے میں سیکولر روےّوں کی جگہ ایک خاس طرح کی شدت نے لے لی ہے اپنی اس بات کی دلیل مصنف نے مذکورہ علاقوں میں شدت پسند گروہوں کی موجودگی کو ہی بنایا ہے۔

پنجابی طالبان کی تعریف کرتے ہوئے مصنّف لکھتا ہے کہ یہ ایسی تنظیموں کا ملغوبہ ہیں جن پر حکومت نے ماضی میں اس لئے پابندی عائد کر دی تھی کہ ان کا تعلق پنجاب میں فرقہ واریت کو پروان چڑھانے والی جماعتوں سے تھا۔ انہوں نے جہادِ کشمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کے تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کے طالبان اور پاکستان کے قبائلی علاقوںاور صوبہ سرحد کے عسکریت پسندوں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار تھے۔

مصنّف کے نزدیک 2009ء میں اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام واقعات میں ملوّث دہشت گردوں کا تعلق پنجاب سے تھا اور یہ کہ انہوں نے اپنے اہداف کے لیے ''خودکش سازو سامان'' بھی جنوبی پنجاب کے شہروں میں تیار کیا اور وارداتوں کے بعد انہی علاقوں کا رخ کیا۔

ایسے اہم اور حساّس موضوعات پر لکھنے کے لیے بھی مصنف نے زیادہ تر صحافیانہ سنسنی خیزی کو اپنایا ہے جس میں تحقیقی اور تحقیقاتی ذرائع پر انحصار کرنے کے بجائے ''نامعلوم ذرائع'' یا'' محتاط اندازوں سے کام چلا لیا جاتا ہے۔

مصنف نے پنجاب کے شہروں گوجرہ، سیالکوٹ اور پھول نگر میں غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف ہونے والے شدت پسندانہ اقدام کو پنجاب میں بڑھتے ہوئے مذہبی تشدّد سے تعبیر کیا ہے اور اِن واقعات کے سیاسی پہلو بھی اجاگر کئے ہیں۔

''پنجابی طالبان'' پڑھ کر قاری کیا تاثر لیتا ہے اس سے قطع نظر یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ ارباب بست و کشاد کے لیے اس میں بہت سے فکری پہلو ہیں۔ اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر پنجاب کو بھی قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کی طرح دیر تک شدت پسند گروہوں کے لئے کْھلا چھوڑ دیا گیا تو اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہے۔