working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

جنوبی پنجاب میں انتہا پسندی کا مسئلہ
اکرام عارفی
 
جنوبی پنجاب میں شدت پسندی کی صورت حال تشویش ناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ حالات کے اس نہج پر پہنچنے کے پیچھے متعدد محرکات اور عوامل کارفرما ہیں جن میں غربت،پسماندگی اور دیہی آبادی کا بغیر کسی منصوبہ بندی کے شہری یا قصباتی ماحول اور طرزِ زندگی سے قریب تر ہونے کی کوشش کرنا ا ایک اہم پہلو ہے۔ ایسی صورت میں جو خلا پیدا ہوتا ہے شدت پسند عناصر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اثرورسوخ بڑھاتے ہیں اور مختلف ترغیبات دے کر اپنی افرادی قوت میں اضافہ کرتے ہیں۔ زیرِنظر مضمون میں اس صورتحال اور اس سے متعلق دیگر پہلوؤں کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ (مدیر)
جنوبی پنجاب غربت اور پسماندگی کی دلدل میں پھنسا علاقہ ہے۔ اگرچہ یہاں حکومت نے ہسپتال، ایئرپورٹس اور متعدد دوسرے ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا ہے تاہم ان کی حیثیت علامتی ہے اور یہ علاقے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور معاشی بدحالی و ناامیدی کے ہوتے ہوئے انتہا پسندوں کو اپنے نظریات پھیلانے کے لیے انتہائی سازگار ماحول میسر آیا ہے۔

انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کا پہلا مرحلہ ''بھرتی'' ہوتا ہے جس کاطریقہ کار سیدھا اور آسان ہے، یعنی کم عمر بچے اور نوجوان دینی تعلیم کے لیے مدرسوں میں داخل کیے جاتے ہیں جہاں انہیں کھانے پینے اور رہنے کے لیے ان کے گھروں کی نسبت کہیں بہتر ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سی نفسیاتی حکمت عملی ہے جس کی بدولت مدرسوں میں داخل ہونے والے طلبہ اپنی موجودہ زندگی کو گھریلو زندگی پر ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بیشتر دینی مدرسے کسی نہ کسی جہادی یا فرقہ وارانہ تنظیم سے وابستہ افراد کے زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ ان مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اپنے رشتہ داروں اوردوستوں کو بھی یہاں لے آتے ہیں، یوں ''بھرتی'' کا یہ سلسلہ مربوط طریقے سے رواں رہتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پانچ تا نو ہزار نوجوان وزیرستان اور افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے جہاد کے لیے نوجوانوں کی بھرتی میں افغانستان اور کشمیر میں لڑائی کا تجربہ رکھنے والے جہادیوں کا اہم کردار ہے جو یہاں القاعدہ کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ''افغان جہاد'' کے دوران 1988-89ء میں صوبہ خوست پر قبضہ کرنے والے مجاہدین کی اکثریت جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی تھی جو گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربّانی اور دوسرے افغان وارلارڈز کی قیادت میں لڑ رہے تھے۔

مندرجہ بالا حقائق وفاقی و صوبائی حکومتوں او ر مسلح افواج کی نظر سے چھپے نہیں ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے جنوبی پنجاب کی صورتحال کو سوات سے تشبیہ دی تھی۔ رحمان ملک کے بیان کے بعد آئی جی پنجاب کی جانب سے جاری کردہ ایک وضاحت اس بیان کی نفی کرتی ہے تاہم یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جنوبی پنجاب کوسوات سے تشبیہ دینے کی بنیادی وجہ اس علاقے میں ایسے عناصر کی کثرت ہونا ہے جو معاشرے اور ریاست کو کسی اور سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔

جنوبی پنجاب میں انتہاپسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی میڈیا میں تواتر سے خبروں کی اشاعت کے بعد بہاولپور کے ریجنل پولیس آفیسر مشتاق سکھیرا نے بیان دیا کہ اس علاقے میں ''طالبانائزیشن'' کا کوئی وجود نہیں اور یہ محض مغربی پریس کی تصوراتی کہانیاں ہیں۔ تاہم پولیس حکام کی جانب سے جاری کردہ بیانات اور وضاحتیں حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں جس کی پانچ مختلف وجوہات ہیں:
الف: پالیسی ساز اور رائے عامہ تشکیل دینے والے بیشتر افراد تاحال اس تصّور کے زیر اثر ہیں کہ امریکہ اپنے بعض مفادات کی تکمیل کے لیے جنوبی پنجاب میں طالبان کا ہوّا دکھا رہے ہیں اور حقیقت میں یہاں قائم مدرسوں میں ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہوتی جس سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ شدت پسندوں کے زیرنگرانی کام کر رہے ہیں۔ تاہم میاں چنوں کے مدرسے میں اسلحے اور گولہ بارود کے گودام میں دھماکے ایسے واقعات ان خیالات کی بھرپور تردید کرتے ہیں۔
ب: اعلیٰ پولیس حکام کو جنوبی پنجاب میں انتہا پسندوں کا خطرہ اس لیے واضح طور سے دکھائی نہیں دیتا کہ وہ ان جہادی تنظیموں کو ''مقامی'' سمجھتے ہیں اوران کے خیال میں ان تنظیموں کا قبائلی علاقوں اور افغانستان کے طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس خیال کی تردید کے لیے یہ کہنا کافی ہو گا کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کا افغان جہادیوں کے ساتھ پہلا رابطہ 1980ء میں استوار ہوا اور یہاں سے تعلق رکھنے والے افراد تاحال جنوبی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی علاقوں میں طالبان کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔
ج: تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں قائم کی گئیں جن کا مقصد ایران کے خلاف سعودی عرب کی ''پراکسی وار'' لڑنا، شیعہ فرقے کو ہدف بنانا اور ''جہاد کشمیر'' میں حصہ لینا تھا، سو حکام یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ تنظیمیں کبھی ان کے قابو سے باہر نہیں ہوں گی۔
د: چوتھی وجہ یہ ہے کہ حکومت میں آپریشنل لیول پر ''طالبانائزیشن'' کی تعریف کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ جنوبی پنجاب میں شدت پسندگروہوں کے علاوہ نام نہاد پیروں فقیروں، منشیات فروش مافیا اور جسم فروشی کرانے والے گروہ بھی کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کی جانب سے بیت اللہ محسود، صوفی محمد یا مولانا فضل اللہ کے نقش قدم پر چلنے کا امکان نہیں تاہم ارباب اختیار جو طالبانائزیشن کو صرف افغان اور قبائلی علاقوں کی طالبان تحریک سمجھتے ہیں، اس بات سے آگاہ نہیں کہ متذکرہ بالا گروہ اس علاقے میں معاشرے کے لیے روایتی طالبان کی نسبت کئی گنا زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
ر: پانچویں اور اہم بات یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے خیال میں ''صوفیانہ اسلام'' کے حوالے سے معروف اس خطے میں شدت پسندی جنم نہیں لے سکتی۔ حکومتی سطح پر بیشتر شخصیات اسی خیال کی حامی ہیں۔ یہ خیال ایک حد تک درست ہو سکتا ہے تاہم زمینی حقائق اس سے سوفیصد مطابقت نہیں رکھتے۔ اگرچہ صوفیانہ اسلام غربت، پسماندگی اور کمزور حکمرانی جیسے عناصر سے مقابلے کے لیے لائحہ عمل فراہم نہیں کرتا جو طالبانائزیشن کی بڑھوتری کے اہم ذمہ دار عناصر ہیں تاہم صوفیانہ خیالات کی ترویج سے طالبانائزیشن کے آگے کسی حد تک بند باندھا جا سکتا ہے۔

جنوبی پنجاب میں مزاری، لغاری، گیلانی اور متعدد دوسرے جاگیردار خاندان سماج میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں۔ یہ خاندان محض سیاسی اثر و رسوخ کے حامل ہی نہیں بلکہ ان میں سے بیشتر کے پاس پیروں کی گدیاں بھی ہیں۔ معاشرے میں انتہائی اثر و رسوخ رکھنے کے باوجود ان خاندانوں نے مقامی لوگوں کی بہتری کے لیے قابل ذکر کام نہیں کیا۔ سابق صدر فاروق لغاری کے آبائی ضلع ڈیرہ غازی خان میں پسماندگی کی شرخ خوفناک حدود کو چھو رہی ہے۔ اس علاقے میں چھوٹے زمیندار لغاری قبیلے کے سرداروں کی اجازت کے بغیر اپنی زمین بھی فروخت نہیں کر سکتے۔ ان حالات میں غریب اور بے اختیار لوگ شدت پسند تنظیموں کا آسان ہدف ہیں جو انہیں رقم کی پیشکش کرتی ہیں۔ ملک میں جاری حالیہ مہنگائی کی لہر انتہا پسند تنظیموں کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

پنجاب میں انتہا پسندی اور جہاد کا نمونہ ملک کے دیگر علاقوں میں موجود شدت پسندی سے قدرے مختلف ہے۔ یہ نمونہ سوات سے ملتا جلتا ہے جہاں صوفی محمد اور ان کی تنظیم ''تحریک نفاذ شریعت محمدیۖ'' نے چند برس کھل کر سامنے آنے اور ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کے بجائے لوگوں میں ذہنی تبدیلی لانے کے لیے سماجی تحریک کی حیثیت سے کام کیا۔ جنوبی پنجاب کی کہانی اس حوالے سے سوات سے مطابقت رکھتی ہے کہ انتہا پسندی کے داعی یہاں کسی مسلح جدوجہد سے قبل بتدریج اپنے لیے میدان ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 1980ء کے بعد صدر ضیاء الحق کی حکومت نے ان علاقوں میں دینی مدرسوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جو صوفیاء کی خانقاہوں سے ملحق روایتی مدرسوں سے بالکل مختلف تجربہ تھا۔ روایتی مدرسوں میں صوفیانہ افکار کی تعلیم دی جاتی تھی جبکہ نئے قائم ہونے والے مدرسوں سے کوئی اور کام لیا جانا تھا۔ بعد ازاں جنوبی پنجاب ''جہاد کشمیر'' کے لیے نوجوانوں کی بھرتی کا اہم مرکز بنا رہا۔

جنوبی پنجاب میں 1980ء کے دوران اور اس کے بعد دینی مدرسوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 1996ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بہاولپور میں 883، ڈیرہ غازی خان میں 361، ملتان میں 325 اور سرگودھا میں 149 مدرسے موجود تھے۔ آج 13 سال بعد ان کی تعداد یقینی طور پر پہلے سے بڑھ چکی ہے۔ بہاولپور میں مدرسوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایک سال قبل انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بہاولپور ڈویژن میں 1383 مدرسے کام کر رہے ہیں جن میں 84 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح ضلع رحیم یار خان میں 559 اور بہاولنگر میں 310 مدرسے موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طلبہ کی مجموعی تعداد 10,00000 سے زائد ہے۔

فی الوقت فاٹا اور صوبہ سرحد کی صورتحال نے ہر ایک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رکھی ہے اور ایسے میں کسی نے جنوبی پنجاب کے اضلاع میں مدرسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا نوٹس نہیں لیا۔ معروف محقق ڈاکٹر طاہرکامران کی تحقیق کے مطابق ''1988ء میں پنجاب میں مدرسوں کی مجموعی تعداد 1320 تھی جو 2000ء میں بڑھ کر 3153 تک جا پہنچی ہے۔ یہ اضافہ کم و بیش 140 فیصد ہے۔ 9/11 کے وقت صرف بہاولپور ڈویژن میں 15 تا 20 ہزار تربیت یافتہ جہادی موجود تھے جن میں سے بیشتر مشرف دور میں مختلف شعبہ ہائے زندگی جیسے کاروبار، ایجوکیشن سیکٹر حتّٰی کہ میڈیا تک میں کھپ گئے۔''

جنوبی پنجاب میں تمام شدت پسند تنظیموں کے لیے بھرتی کی غرض سے تین علاقے بے حد زرخیز تصّورکیے جاتے ہیں، جن میں ضلع بہاولپور میں چولستان، ڈیرہ غازی خان میں ریکھ اور راجن پور میں کچے کا علاقہ شامل ہیں۔ متذکرہ بالا دو علاقے ریگستانی ہیں جواپنی غربت اور پسماندگی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں جبکہ تیسرا علاقہ ڈاکوئوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ کچےّ کے علاقے سے متعلق یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا اور انہوں نے یہاں سے ڈاکوئوں کی سرکوبی میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے انہوں نے ڈاکوئوں کے قلع قمع کے لیے پولیس کی مدد حاصل کی اس وقت سے علاقے میں ان مذہبی رہنمائوں کے اثر و رسوخ میں بے حد اضافہ ہوا۔ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں اپنے نیٹ ورک میں خواتین کو بھی بھرتی کرتی ہیں۔ ان خواتین کو 21 روز تک نظریاتی اور فوجی تربیت دی جاتی ہے جس کامقصد ان عورتوں کو اپنے مردوں کی غیر موجودگی میں کسی سنگین صورتحال سے خود عہدہ بر آہونے کے قابل بنانا ہے۔

انتہا پسند مذہبی تنظیمیں نظریاتی اورمادی اعتبار سے خاصی امیر ہیں۔ انہیں چار مختلف ذرائع سے بھاری فنڈ حاصل ہوتے ہیں جس کی بدولت وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سرکاری ذرائع (بعض صورتوں میں)، مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستیں (سرکاری سطح پر مدد ملنا ضروری نہیں) عطیات اور پنجاب کی مڈل کلاسز شامل ہیں جوسماجی، اخلاق اور سیاسی مقاصد کے لیے مدرسوں اور جہاد کے لیے فنڈ کا اہتمام کرتی ہیں۔ جہادی تنظیمیں فنڈ کے حصول کے لیے ایسے طریقے اختیار کرتی ہیں جن کی بدولت زیادہ سے زیادہ رقم کا حصول آسان ہوتا ہے۔ اب ٹین کے ڈبوں میں چندہ جمع نہیں کیا جاتا بلکہ دیہی علاقوں میں مذہبی تنظیمیں اپنے پیروکاروں کو تیار فصل میں سے حصہ علیحدہ کرنے کو کہتی ہیں۔ شہری علاقوں میں متوسط تاجران تنظیموں کے لیے مسلسل چندہ جمع کرتے ہیں جس کا مقصد اپنے ''گناہوں کا کفّارہ'' ادا کرنا ہوتا ہے۔ دیوبندی اور وہابی ازم کو عام طور پر شہری مظاہر سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر دیہی پنجاب میں ان مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کا پھلنا پھولنا ایک نئے سماجی رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی (موبائل فون، ٹیلی ویژن، سٹیلائٹ ریسیورز) کی بدولت پنجاب کے دیہی علاقے پہلے کی نسبت خاصے تبدیل ہو گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں دیہی علاقے کسی منصوبہ بندی کے بغیر قصبات میں تبدیل ہو رہے ہیں جہاں صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کا نام و نشان تک نہیں۔ ایسے میں سماجی و سیاسی طور پر پیدا ہونے والا یہ خلا شدت پسند مذہبی تنظیمیں اور ان سے وابستہ دوسرے ادارے پُر کر رہے ہیں۔

خوش قسمتی سے جہادی تنظیمیں جنوبی پنجاب میں عام لوگوں کا طرز زندگی تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ شاید اس کی وجہ ان لوگوں کی کثیر العناصر ثقافت ہے جو جہادیوں کو اپنے احکامات، مقامی آبادی پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتی جیسا کہ انہوں نے قبائلی علاقوں اور سوات وغیرہ میں کیا۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ معاشرتی اقدار کو طالبان سے کوئی خدشتہ لاحق نہیں۔ لبرل ازم اورکثیر قطبی معاشرے کو یقینی طور پر طالبانائزیشن سے شدید خطرات لاحق ہیں، مذہبی مدرسے اور جہاد میں حصہ لینے والے نئے لوگ معاشرتی اقدار کو بتدریج تبدیل کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے علاقے کے لوگوں کی تقدیر کے مالک بڑے جاگیردار سیاسی خانوادوں کو صورتحال کی سنگینی کا کوئی احساس نہیں جس کا ثبوت ان کی جانب سے شدت پسند مذہبی تنظیموں کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی نہ ہونے سے ملتا ہے۔

جنوبی پنجاب میں سماجی ترقی کے شعبے میں سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہاں ایک ایسے بڑے سماجی ڈھانچے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جو نوجوانوں کو روزگار اور ایسا نظام تعلیم فراہم کرے جوعوام اور مقتدر طبقے کے مابین خلا پُر کرنے میں معاون ثابت ہو۔ پسماندہ دیہات سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوانوں کے لیے، جو اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہوتے ہیں، شدت پسند مذہبی تنظیموں کا پیغام خاصا ''توانا'' ہوتا ہے۔ جہاد نوجوانوں کو ''بے اختیاری'' کی حالت سے نکال کر تصوراتی ''ممتاز'' مقام تک لے جاتا ہے۔ ایسے میں یہ نوجوان خود کو محمد بن قاسم اور خالد بن ولید جیسی عظیم تاریخی ہستیوں کے برابر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایسے خواب ہیں جن کا متبادل پیش کرنا ریاست کے لیے از بس ضروری ہے۔