working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

طالبان، بلوچستان رابطے
زاہد حسین
بلوچستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو ہرجگہ موضوع گفتگو بنایا جا رہا ہے۔ اس میں حقیقت کس قدر ہے اور بلوچستان اور افغانستان نیز صوبہ سرحد کی جغرافیائی سرحدیں ان کے آپسی تعلقات کے فروغ میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ افغانستان میں لڑائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد طالبان کے ساتھ جا ملتی ہے۔ خود اس مضمون میں مرکزی کردار کی حیثیت رکھنے والے حافظ بسم اللہ کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہمارے ساتھ شامل نہیںہوئے تھے جتنے اب ہو رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا محرکات کار فرما ہیں۔ یہ مضمون انہی سے پردہ اٹھاتا ہے۔ (مدیر)

آنکھوں پر چشمہ لگائے ، سیاہ پگڑی کے باہر نکلے ہوئے بھاری لمبے بالوں والا حافظ بسم اللہ دیکھنے میں جنگجو سے زیادہ ایک سکالر لگتا ہے وہ ایک مدرسے میں استاد ہے اس کی عمر لگ بھگ 35سال ہے۔ وہ تربیت یافتہ گوریلا ہے اور حال ہی میں افغانستان سے آیا ہے جہاں وہ طالبان کے ساتھ مل کر لڑتا ہے وہ پنج پیری افغان مہاجر کیمپ کے احاط میں کچے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھا درس دے رہا تھا کہ جہاد میں حصہ لینا ہم سب کا مذہبی فریضہ ہے۔ کوئٹہ سے کوئی60 میل شمال مغرب میں یہ کیمپ وسیع چٹانی میدان میں واقع ہے اور طالبان کے مضبوط گڑھ افغان صوبہ قندھار کا علاقہ سلراٹ یہاں سے 25 میل سے بھی کم فاصلے پر ہے۔ درمیان میں بنجر پہاڑی علاقہ ہے یہ کیمپ 30 سال قبل افغانستان پر روسی قبضے کے بعد وہاں سے آنیوالے پناہ گزینوں کو ٹھہرانے کے لئے قائم کیا گیا تھا اور اب بھی وہاں 25 ہزار کے قریب افغان مہاجرین مٹی سے بنے کچے گھروں میں مقیم ہیں۔ ان کی اکثریت طالبان کی زبردست حامی ہے۔

ان میں سے بہت سے اسی کیمپ میں پروان چڑھے۔28،29 سالہ پیر نامی شخص جس کے والدین1980ء کے اوائل میں قندھار سے ہجرت کرکے یہاں آئے کا کہنا ہے کہ ''ہم اپنے ملک کو قبضے سے آزاد کرانے کے لئے جنگ کررہے ہیں تاکہ وہاں صحیح اسلامی نظام قائم کیا جاسکے۔ عسکریت پسندبارڈر کے دونوں اطراف آسانی سے آ جا سکتے ہیں کیونکہ بارڈر فورسز بہت دور دور متعین ہیں۔ افغانستان میں لڑائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد طالبان کے ساتھ جا ملتی ہے۔حافظ بسم اللہ کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے تھے جتنے اب ہورہے ہیں۔پنج پیری بلوچستان میںبارڈر پر پھیلے نصف درجن سے زائد مہاجر کیمپوں میں سے ایک ہے جو بتدریج طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں بن چکی ہیں۔ یہ کیمپ طالبان کو نہ صرف جنگجو مہیا کررہے ہیں بلکہ لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کرتے ہیں یہ کیمپ بڑھ کر چھوٹے قصبات بن چکے ہیں جہاں 10 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین مقیم ہیں۔ کوئٹہ سے کوئی30 میل کے فاصلے پر واقع سرخاب کیمپ کی آبادی 3 لاکھ کے قریب ہے اور یہ آبادی کے لحاظ سے صوبے کا چوتھا بڑا شہر بن چکا ہے۔
بارڈر سیکورٹی کی ذمہ دار فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل سلیم کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں آنے والے ہر شخص کی مانیٹرنگ کرنا نا ممکن ہے خاص طور پر اس لئے بھی کہ سرحد پر جگہ جگہ پہاڑی راستے اور درّے ہیں۔ کوئٹہ کے نواح میں واقع پشتون آباد، طالبان کے دور اقتدار کا قندھار دکھائی دیتا ہے۔ افغانوں کی آبادی مقامی پشتونوں سے بڑھ چکی ہے طالبان کی مخصوص کالی پگڑیوں والے لوگ گنجان بازاروں اور گلیوں میں سرعام نظر آتے ہیں۔ علاقے میں واقع بڑے مدرسہ (جسے سخت گیر مؤقف رکھنے والے عالم اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا نور محمد چلاتے ہیں) کے طلباء کی بڑی تعداد افغان ہے۔ مقامی سرکاری افسر مانتے ہیں کہ کوئٹہ کے اندر اور گردونواح میں افغانوں کی تعداد پچھلے چند برسوں کے دوران بہت بڑھ گئی ہے یہی صورت حال کوئٹہ کے علاقوں خروٹ آباد اور کچلاک کی ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق کوئٹہ کی17 لاکھ آبادی میں افغان باشندوں کا تناسب 30 فیصد تک پہنچ چکا ہے ۔ ان میں سے بہت سوں نے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنوالئے ہیں۔

سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ یہاں پر مقیم کسی طالبان کمانڈر کو ڈھونڈ نکالنا آسان نہیں البتہ جنرل نور کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ طالبان کی ساری قیادت یہاں بیٹھ کر آپریٹ کرسکے۔ طالبان کی سب سے زیادہ موجودگی چمن میں بتائی جارہی ہے۔ یہ ایک اہم سرحدی چوکی اور گردوغبار سے اٹا شہر ہے۔ اس علاقے میں واقع سینکڑوں مدارس طالبان کے لئے بھرتی کا بڑا مرکز بن چکے ہیں۔ ایک سینئر سیکورٹی افسر کے مطابق ان مدارس سے ہر سال 3 ہزار کے قریب طلباء فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں سے اکثریت افغانوں کی ہوتی ہے انہی میں سے طالبان جنگجو نکلتے ہیں۔

انہی مدارس جہاں سے1994 ء میں طالبان فورس نے جنم لیا تھا اب اسلامی جنگجوؤں کی نئی نسل پروان چڑھا رہے ہیں۔ چمن میں افغان اب کل آبادی کا 50 فیصد بنتے ہیں لیکن ان کے اور اچکزئی اور نوروزئی قبائل کے مقامی پشتونوں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہے۔ یہ قبائل سرحد کے دونوں طرف آباد ہیں۔بہت سے طالبان کمانڈر اپنے خاندانوں کے ساتھ چمن میں آباد ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سے سابق طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بھی شناخت بدل کر یہاں رہائش اختیار کرچکے ہیں۔ طالبان کے سپریم کمانڈر ملا عمر کا نائب برادر اکثر اس علاقے میں نظر آتا ہے۔ محکمہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نائب وزیر ملاسلیم کو بھی یہیں دیکھا گیا۔ نوروزئی قبیلے سے تعلق رکھنے کے باعث اس کے لئے مقامی افراد میں گھل مل جانا مشکل نہیں ہے افغان بارڈر فورس کے سربراہ جنرل عبدالرزاق سمیت افغان سپیشل آرمی اور بارڈر فورس کے بہت سے افسر بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں بس چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق افغان بارڈر فورس سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50 فیصد اہلکاروں نے پاکستانی علاقے میں گھر بنا لئے ہیں۔

اس موجودگی کے باوجود پاکستانی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان نے نیٹو فورسز پر حملے کے لئے کبھی پاکستانی علاقہ استعمال نہیں کیا۔ وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ طالبان جو کچھ کرتے ہیں سرحد پار افغان علاقے سے کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاسی رہنما اور تجزیہ نگار انتباہ کرتے ہیں کہ گنجان آباد علاقوں میں واقع ان مہاجر کیمپوں میں طاقت کے استعمال کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔وڈ روولسن سنٹر واشنگٹن کی سینئر فیلو امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ اگر ان کیمپوں میںصابرہ اور شتیلا کیمپوں جیسا آپریشن کیا گیا تو اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسکے نتائج کیا ہوں گے۔

(بشکریہ نیوز لائن)