working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

لندن اور پاکستان
جیسن بروک
جولائی 2001ء میں لندن میں اوپرتلے ہونے والے چار بم دھماکوں میں 52 افراد مارے گئے اور قریب قریب 700 زخمی ہوئے۔ ان مناظر نے لندن والوں کو تو سہما کر رکھ ہی دیا، خود برطانوی حکومت کے سامنے بے شمار سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے۔ عدم تحفّظ کے احساس سے بھرے! دھماکوں کی ایک بڑی وجہ امریکہ کے ساتھ حد سے زیادہ تعاون اور بُش انتظامیہ کی پالیسیوںکی بے جا حمایت کو بھی قرار دیا گیا۔ جیسن بروک نے اپنی کتاب ''آزادی روڈ ٹو قندھار''کے آخری باب میں ان تمام حقائق کا ماہرانہ اور دیانت دارانہ تجزیہ کیا ہے جو اس ساری صورت حال کے پیچھے کارفرما ہے۔ بلکہ وہ تمام تر حالات بھی درج کر دیے ہیں جو اس نے اپنے ایک دورۂ پاکستان کے دوران دیکھے اور تجربہ کیے اور ان دنوں یہاں پنپنے والی مذہبی تنظیموں اور ان لوگوں کے بارے میں بھی کھل کر لکھا ہے جن سے اس کی گاہے بگاہے ملاقاتیں رہیں اور جن کے روزافزوں بدلتے ہوئے رویوں اور رجحانات پر وہ مستقل پچھتاوے کا شکار رہا۔ آخر مین مضمون نگار جیسن بروک کہتے ہیں کہ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کو ان مغربی لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنا چاہیے جو ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کی تعداد کم نہیں، اور ہمیں عیسائیوں، یہودیوں اور ان تمام لوگوں کے ساتھ جو تشدد کو پسند نہیں کرتے اور آپس میں کوئی ڈائیلاگ بھی نہیں کرتے۔ لازماً ایسا کوئی لائحۂ عمل بنانا چاہیے کہ فاصلے کم ہو سکیں۔ اس باب کا ترجمہ نذر قارئین ہے۔(مدیر)
اور پھر، 7 جولائی 2001ء کو لندن میں چار بم دھماکے ہوئے۔ تین زیر زمین ٹرین میں اور چوتھا بس میں۔ 52 لوگ مارے گئے اور تقریباً 700 افراد زخمی ہوئے۔ وہ مناظر جو کسی اورجگہ کی منظر کشی کرتے تھے وہ آج میرے سامنے وقوع پذیر ہو رہے تھے۔ سائرن، ہجوم، زخمی، تھکے ماندے ریسکیوکارندے، ٹی وی سیٹلایٹ کا ٹریک، دیواروں پر جھلسنے کے نشانات، سڑکوں پر دھماکے کی تباہ کاریاں، عموماً کم ہلاکتوں کی اطلاعات اور پھر اچانک ان میں اضافہ اور پھر سیاہ خالی اعداد و شمار، ان تمام خوفناک عوامل سے پہلے ہی اطلاع تھی لیکن ٹیلی فون دفاتر کے سامنے بے چین قطاریں، سورج کی تمازت میں سرائے کے باہر ہجوم اوران ٹیوب سٹیشن کے باہر نیلی اور سفید ٹیپ۔ جسے میں نے ساری زندگی استعمال کیا تھا بہت سے لوگوں کی طرح میں لندن میں پہلے حملے کے بعد بہت چلا۔ اس لیے کہ ٹیوب نیٹ ورک کو بند کر دیا گیا تھا۔ شاید اس لیے کہ موسم حسین تھا۔ شاید اس لیے کہ میں زیر زمین ٹفلز میں وقت گزارنا نہیں چاہتا تھا یا پھرشاید اس لیے کہ میں اپنے آپ کو یقین دہانی کرانا چاہتا تھا کہ سب پہلے کی طرح ہی ہے۔

میرے اندر اس بڑھتی ہوئی خوش امیدی کا خاتمہ دھماکوں کی اطلاعات کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ میں بہت اداس ہوگیا تھا اور یقینا شدید غصہ میں بھی۔ مجھے سیاست دانوں اور کیمونٹی لیڈروں کے بار بار ایک جیسے بیانات کے دہرائے جانے پر غصہ تھا۔ درحقیقت میرے مطابق یقین / ایمان میں وہی کچھ ہے جو اس کے پیروکار بناتے ہیں اور اسلام میں وہ طریقہ کار ہے جو بربریت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ رحمدلی اور صبر برداشت کا بھی درس دیتا ہے۔ مجھے برطانوی حکومت کے اڑیل پن اور غیر منصفانہ عذر پر بھی غصہ تھا کہ حملوں اوران کی عراقی پالیسی میں کوئی وابستگی نہیں۔ جیسا کہ حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ لندن عراق جنگ سے پہلے ہی دہشت گردی کا نشانہ تھا لیکن امریکہ کے ساتھ تعاون اور بُش انتظامیہ کی پالیسیز کے حمایتی ہونے کے باعث لندن نے اپنے آپ کو اور ٹارگٹ بنا دیا۔ شدت پسندوں کے ساتھ انٹرویوز اور میری فہم نے مجھے یہ سکھا دیا تھا مگر جواب دہ کابینہ اور وزرا کے بیانات انتہائی مایوس کن تھے، مگر سب سے زیادہ غصہ ان حملہ آوروں پر تھا۔ جو انھوں نے کیا تھا اس پر غصہ تھا کیونکہ انھوں نے کبھی وہ تصاویر نہیں دیکھی ہوں گی۔ گوشت کے بکھرے ہوئے چیتھڑے Tavishock square میں، تصاویر جو کسی اخبار نے شائع نہیں کی تھیں۔ کیونکہ انھوں نے کبھی آگ بجھانے والوں کی ان مشکلات کا اندازہ نہیں لگایا ہو گا جو انھیں ٹکڑے ہوئی لاشوں کو جمع کرتے ہوئے ہوتی ہوں گی اوراس وجہ سے بھی غصہ ہے کہ وہ کبھی یہ جان نہیں سکیں گے کہ قتل و غارت کا اصل مطلب کیا ہے۔ مار دینا، اپاہج/ معذور کر دینا اوران گنت والدین، بیویوں اور بچوں کو غم زدہ کر دینا اور آخر میں مجھے غصہ تھا کیونکہ جدید مسلم شدت پسندی کا مطالعہ کر کے بھی، ان دھماکوں کو خارج از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ بے شک میں اس دلیل سے واقف ہوں، جومیں غزہ، خیرباس اور درجنوں مرتبہ اس سے قبل سن چکا ہوں اور میں اس منطق کو بھی جانتا ہوں جو شاید کسی کویہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجائے کہ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو ٹارگٹ کرنا یقینا آسان ہے، لیکن جب میں جگہ پرحملے کی نوعیت پر غور وخوض کرتا ہوں تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر دھماکہ کرتے وقت ان لوگوں کے دماغ میں کیا ہوتا ہے۔

ان حملوں کے ذمہ دار چار جوان لوگ تھے۔ تمام برطانوی شہری، تین کی پیدائش لندن میں پاکستانی گھرانے میں ہوئی اور چوتھا جمیکا میں پیدا ہوا اور کافی عرصہ پہلے ہی مسلمان ہو ا تھا۔ کوئی ایسا ماسٹر مائنڈ نظر نہیں آتا تھا جس نے ان حملہ آوروں کو منتخب کیا جو کوئی شیل چلاتا تھا اور بعد میں ملک سے بھاگ گیا اور نہ ہی ان تینوں اور ان کے کسی قریبی کا اسامہ بن لادن کے ساتھ تعلق کا ثبوت مل سکا۔ یہ مغربی ملک میں ایسے شہریوں کی جو اسلام کے نام پر اپنی ہی سرزمین کو نشانہ بنائیں پہلی مثال تھی۔ یہ تنظیم بظاہر اپنی ہی پیداوار تھی۔ میں اس نظریہ کی حمایت کرتے ہوئے کہ شدت پسند نظریہ جو 1990ء کی دہائی کے بعد سے زور پکڑتے جا رہاہے، کہ کسی تنظیم، کیمپ یا قائدین کی جو لوگوں کو آواز بلند کرنے کی ترغیب دیں، قطعاً ضرورت نہیں اور یہ کہ اگر لندن کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو اسے اسلامک شدت پسندی سے نہیں بلکہ اپنے ہی اندر سے ہو گا۔ عراق اور دوسری مثالوں سے میں مانتا ہوں کہ دہشت گردی کا مطلب عمومی شدت پسندی میں معمولی تبدیلی لوگوں کو بڑے پیمانے پر تشدد پھیلانے کا موجب بن سکتی ہے اور یہ تبدیلی جس کی میں نے اور دیگر نے پیشین گوئی کی تھی، وقوع پذیر ہو گئی ہے۔

اگرچہ مجھے اپنی تحقیق پر خوش ہونے کا کم ہی حق ہے۔ لندن حملوں سے پہلے میں اس بات پر ثابت قدم تھا کہ لندن میں اسلامی شدت پسندی کے خطرات، باوجودعراق جنگ کے مبالغہ آمیزی کا شکار ہیں۔ یہ حتمی فیصلہ، برطانوی پولیس اور حکومت کا دہشت گرد کارروائیوں کے بارے میں استعمال ہوتا رہا۔ ان میں بہت سے مکمل طور پر بے بنیاد ثابت ہو چکے ہیں اورمیرے مطابق اس سنسنی خیزی نے عوامی بے چینی کو کافی خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ مزید یہ کہ ایک خاص دلیل کو اعلامیہ منظور کرنے کی بنا پر، میں قدرتی طور پر اپنے آپ کو درست ثابت کرنا چاہتا تھا۔اگرچہ میں اب تک یہ محسوس کرتا ہوں کہ حملے سے پہلے خوف کی فضا بے بنیاد تھی اور اگرچہ کہ میں ہمیشہ کہتا تھا کہ کسی بھی قسم کا حملہ یقینی ہے لیکن میں یقینا خطرے کی نوعیت کا انداز لگانے میں ناکام رہا۔

دھماکوں کی تحقیقات کی ابتدا میں یہ بات واضح ہو گئی کہ کم از کم دو حملہ آور دھماکے سے سال پہلے پاکستان گئے تھے۔ گروپ کے قائد ،تیس سالہ محمد صدیق خاں نے لاہور شہر میں وقت گزارا تھا۔ انڈین بارڈر سے 15 میل دور، پھر دھماکوں کے سات دنوں کے بعد میں صبح کے 5 بجے اسلام آباد ائیر پورٹ کی امیگریشن قطار میں کچھ حیران کھڑا تھا۔ میں ٹرمینل کی کھڑکیوں سے، ان آدمیوں کو دیکھ رہا تھا جو بکھرے ہوئے پرندوں کا نشانہ لے رہے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے اسی قسم کا منظر تب بھی دیکھا تھا جب میں سات سال پہلے یہاں رہنے کے لیے آیا تھا۔

پاکستان واپسی بڑی حیران کن تھی۔ کافی سالوں سے میں پاکستان نہیں آیا تھا اور ان دھماکوں کے بعد، میرا اور میرے اردگرد رہنے والوں کا بڑا محتاط رویہ تھا۔ دھماکوں کے نتائج میں آنے والا غصہ اب تک میرے اوپر حاوی تھا اور میں اس بے یقینی کی کیفیت میں تھا کہ کیا میں اس غصہ پر قابو پا لوں گا اور یا قابو پا سکتا ہوں۔ میں اسلام آباد میں چند پرانے عزیزوں سے ملا، بہت کم فون کالز کیں، کم معلومات حاصل کیں، ایک گاڑی لی اور لاہور کی جانب نکل پڑا۔ پاکستان زیادہ بدلا نہیں تھا۔ قصبوں کی گلیاں آج بھی پرہجوم تھیں۔ مرد حضرات سفید، نیلے و گہرے شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ سواری کے لیے اب بھی ویگن شیشوں والی، چمکدار اور بھڑکیلے کپڑوں کے ٹکڑوں سے سجی بس کا استعمال ہوتا ہے۔ سڑک کے کنارے، سکول جانے والے لڑکے بیگوں کو اپنے کندھے پر اٹھائے آئس کریم کے سٹالز کے اردگرد جمع ہیں۔ سفید سکارف اوڑھے، ہاتھ میں کاغذ پکڑے عورتیں قطار میں کچھ انتظامی کام کے سلسلے میں کھڑی ہیں اور چھوٹے بچے ان کے لمبے کپڑوں کے کنارے تھام کر کھڑے ہیں۔ پولیس افسروں کا گروہ نیلے رنگ کی شرٹس پہنے، سٹیشن کے باہر کرسیوں پر بیٹھے چائے پینے کے ساتھ ساتھ سلاخوں میں قید مجرموں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بیرک بلاک کے پینٹ شدہ گیٹ کے پاس، خاکی لباس میں ملبوس سپاہی ایک پرانی توپ اور رجمنٹل چوٹی کے پاس کھڑے ہیں۔ آرمی آج بھی پاور میں ہے اور کسی کو کوئی پریشانی بھی نہیں۔ کسی بھی قسم کی سخت بے چینی کے کم ہی شواہد ملتے ہیں لیکن پھر بہت کم علامات پائی جاتی ہیں۔ خوشحالی سے بھرے شہروں کے درمیان سڑک وسیع کھیتوں، پتھر کی کانوں، اینٹوں کے بھٹوں(جن میں غریب بچے کام کرتے ہیں) ہو کر گزرتی ہیں، گھروں کی چپٹی چھتوں سے دھواں ابھر رہا ہے اور پرانے ٹریکٹرز ہنگامہ کرتے ہوئے کیچڑ میں سے گزرتے ہیں اور ان کے پیچھے اطاعت شعار ہل بھی اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ دیہی زندگی کے سبز اور بھرپور مناظر شہر کی منظرکشی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جب تک کہ تمام کھیت غائب نہ ہو جائیں اور عمارتیں سب کنکریٹ اور رنگین پوسٹرز میں یکجا ہو کر ایک لڑی کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور پھر میں لاہور کو پہچانتا ہوں اور عظیم شاہی قلعہ اور مسجد کو، پرانے شہر کے تنگ گھروں اور پارکوں میں اڑتی پتنگیں اورمتوسط طبقے کے مضافات اپنے باغوں اور نہروں کے ساتھ جن میں نوکروں کے بچے تیر اور کھیل رہے ہیں۔

موسم نم تھا اس لیے کوئی گرد نہ تھی لیکن سڑک پر گدلے پانی کے گڑھے جن میں ہر دوپہر بارش جل تھل کر دیتی ہے۔ اگرچہ میں جب یہاں رہتا تھا تب پاکستان ایک آسان ملک نہیں تھا۔ 9/11 کے بعد سے یہ ملک مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہے اس لیے اپنے آپ کو انٹرنیشنل نیوز میڈیا کے تنگ و تاریک فوکس سے نکال لایا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تحقیقات نے یہ ظاہرکیا ہے کہ پاکستانی سائنسدان نیوکلیر ٹیکنالوجی کو فروخت کر رہے ہیں جب کہ حادثی طور پر شمالی کوریا کو غیر پیشہ وارانہ نگرانی و معاونت فراہم کرنے کی افواہ کو درست قرار دے دیا گیا ہے اور یہ دوبارہ بھی دوہرائی جا سکتی ہے۔ اگر اسامہ بن لادن اور الظواہری کو گرفتار کرنے کے لیے پاکستانی کاوشوں کے لیے بڑھتے ہوئے غیرمسلسل طور پر مفادات کا تحفظ نہ کیا گیا جو کہ ملک کے قبائلی علاقہ جات میں چھپے بیٹھے ہیں۔ لندن میں دھماکوں کے فوراً بعد ہی پاکستان میں مذہبی مدارس سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ جس وقت میں پاکستان پہنچا تب تک درجنوں مغربی رپورٹرز پہلے ہی ان ''دہشت گرد ٹرنینگ سکولز'' میں جا چکے تھے جہاں حملہ آور پناہ لیے بیٹھے تھے۔ اس طرح ایک جدید complex مریدکے میں بھی تھا، جو میرے مطابق ایک شدت پسند گروپ کا ہیڈکوارٹر تھا۔ دونوں سکولوں نے لندن حملوں سے کوئی وابستگی کا اقرار نہیں کیا اور پاکستانی خفیہ ایجنسیز کی اطلاعات کے مطابق بھی کوئی ثبوت نہیں تھے۔ ایک حملہ آور نے سردیاں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ گزاریں جو چک 100/L سے زیادہ دوری پر نہ تھا۔ یہ وہ گائوں تھا جہاں میں نے Musadon Mai کے قتل کی تحقیقات کیں تھیں۔ ایک تصویر بھی ملی جو اس کی کراچی ائیرپورٹ پر لی گئی تھی اور فیصل آباد جیسے صنعتی شہر میں میٹنگز کی رپورٹز تھیں، مگر اطلاعات مہبم اور غیرواضح تھیں۔ دو ہفتے کا عرصہ گزارتے ہی، دنیا بھر کی توجہ پھر ایک مرتبہ پاکستان سے ہٹ گئی۔

ایک آدمی تھا جس سے میں ملنا چاہتا تھا۔ جاوید پراچہ، قبائلی سردار اور وکیل جو صوبہ سرحد میں کئی مدارس چلاتا تھا اور جس کے ساتھ، سال پہلے میری گفت وشنید ''انصاف اور اخلاقی کرپشن'' پر ہو چکی تھی۔ میں نے اسے لاہور سے فون کیا اس نے مجھے بھرپور طریقے سے خوش آمدید کہا اور کوہاٹ میں واقع گھر میں مدعو کیا۔ میں دوبارہ اسلام آباد گیا اورپھر جنوب مغرب کی جانب ایک لمبی سیدھی سڑک پر چل نکلا۔ پنجاب کے سرسبز اور لہراتے کھیتوں سے دریا انڈس کی جانب آیا جو قراقرم کی چٹانوں کے پگھلے پانی سے بھرا پڑا تھا اور اس کا رنگ رسوب کی وجہ سے گدلا ہو گیا ہے۔ برطانوی تعمیر کردہ پل سے پار صوبہ سرحد ہے، قبائلی علاقہ جات کا علاقہ جہاں پاکستانی جنگجو قابض ہیں اور پھر پہاڑوں کے سلسلے کے بعد افغانستان ہے۔

دریا پار کرتے ہی مجھے یاد آیا کہ میں تقریباً بھول ہی گیا ہوں کہ یہ صوبہ کتنا اجاڑ اور ویران تھا۔ ہوا میں شامل گرد نشان دہی کرتی تھی کہ چٹانیں افق کی دھند میں غیر واضح ہیں۔ ہم لوگ ایسے شخص کے پاس سے گزرے جس کی ٹانگیں نہیں تھی اور وہ دھوپ میں سڑک کنارے بیٹھا تھا۔ وہ ایک بچے کو دیکھ رہا تھا جو سڑک پر موجود گڑھوں پر کنکر ڈال رہا تھا اس امید پر کہ کوئی گزرتی ہوئی گاڑی انعام کے طور پر چند سکے اس کی طرح اچھال دے۔ سڑک کے دونوں جانب کھڑی چٹانیں، نوکیلے پتوں والے تھوہر کے پودے اور سیدھے کھڑے سفیدے کے درخت جو کاغذی چھال کے نیچے ہموار لکڑی کی نشان دہی کر رہے تھے جو اب پرانی موم کی طرح زرد ہو گئی تھی۔ ہر دوسرا درخت مویشیوں کی کھرلی یا لکڑی کے لیے کاٹ دیا گیا تھا۔ بکریوں میں سے کچھ اپنی اگلی ٹانگیں درخت پر چڑھا کر درخت کے پتے اور شاخیں کھانے کی کوشش کر رہی ہیں، حالانکہ وہ اپنے محدود حلقہ / دائرہ میں اپنے کھونٹے سے باندھی ہوئیں ہیں۔ ہم ایک چھوٹی اور تنگ گھاٹی سے گزرے جس کی ابھری سطح پر سفید، پیلے اور سرخ رنگ کی چٹانیں تھیں ان سے ہوتے ہوئے ہم ایک چھوٹی سی مسجد کی طرف نکل آئے جہاں پر ایک آدمی چارپائی پر نائیلون کا سبز چمکدار جھنڈا پکڑے لیٹا تھا۔ پھر ہم اونچی دیواروں والے گھروں تک پہنچے جن پر چھوٹے مینار اور کھاد کے بیگ دیوار پر خشک ہونے کے لیے چسپاں کر دیے گئے تھے اور بکریوں سے بچنے کے لیے ان کے اردگرد کانٹوں والی جھاڑیاں لگا دی گئیں تھیں۔ کھاد کے لیے یہ بیگ ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ہم ایک قبرستان سے بھی گزرے جسے غیر متناسب پتھروں سے تراش کر بنایا گیا تھا اور گائے کا ریوڑ مکئی کے زرخیز کھیت میں چررہا تھا۔ سڑک کی سطح غائب ہو چکی تھی۔ میرے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ یہ دو سال پہلے آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہوا ہے اور تب سے اس کی مرمت نہیں ہوئی ہے۔ پٹرول پمپ کے نزدیک جواب فون / فیکس اور ای میل کی سہولت بھی شاید فراہم کرتا تھا درجنوں آدمی کرسیوں پر درخت کے سائے تلے بیٹھے ریڈیو سن رہے تھے۔

کوہاٹ میں اس کے بارے میں بیاں کردہ کہانیوں سے کہیں زیادہ زندگی موجود ہے۔ پرچار کی ہدایت کے مطابق میں کہاں رہتا ہوں کسی سے بھی پوچھ لینا۔ وہ سب مجھے جانتے ہیں۔ بڑا خوش آئند رہا اورہم جلد ہی بازار کی غرّاتی ٹریفک کے درمیان تھے۔ میں باہر نکلا اور قصابوں کی دکان پر لٹکتے گوشت، پھیپھڑوں، گردوں اور اوجھڑیوں کے درمیان سے گزرنے لگا جو لکڑی کی سل پر پڑے اعضا کی نمائش لگ رہے تھے اور سبزی فروشوں سے گزرتے ہوئے آموں، آڑو، لوکی کے ڈھیر لگے تھے اور ادرک ابھی تک زمین پر بکھرا پڑا تھا۔ سر سے لے کر پائوں تک ڈھکی کچھ خواتین بھی تھیں۔ میں زمین پر پڑے لکڑی کے پنجروں پر چڑھا جس میں مرغیاں رکھی ہوئیں تھیں۔ ان تمام سٹالز سے ہوتا ہوا آخر کار میں اس چھوٹے راستے پر آیا جو پر اچہ کے گھر تک جاتا تھا۔

بجلی بند تھی اور بھاری جسامت والا پراچہ چارپائی پر پائوں پسار کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے مجھے بھاری رعب دار آواز میں انگریزی زبان میں خوش آمدید کہا اور مجھ سے میرے بچوں کے بارے میں پوچھا۔ ہم نے کچھ دیر ''انٹرنیشنل جہاد تعاون کونسل'' اور اس کے کام کی نوعیت کے بارے میں بات کی جس پر اس نے کہا کہ سنی شیعہ گروپ میں اتحاد بہت سے مسائل کا حل ہے جیسا کہ فلاح و بہبود، صحت، بچوں کے لیے سکالر شپ، عمر رسیدہ خواتین کے لیے امداد اور افغانستان میں امریکہ کے خلاف جنگ بھی؟ میں نے پوچھا۔ پراچہ مسکرایا 'کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوں اور کوئی بندوق لے کر اندر داخل ہو جائے۔ آپ انھیں اپنے آپ کو بچانے کے لیے جانے کا نہ کہو۔

اس گفت و شنید نے اندازے کے مطابق ہی رنگ اختیار کیا۔ ہاں پراچہ نے ہزاروں قیدیوں جن میں سے درجنوں برطانوی ''مجاہدین'' تھے، پاکستان میں تھے ان کی آزادی کے لیے کام کیا۔ ہاں 9/11 ایک اچھا عمل تھا اور لندن پر حملہ بھی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ہمیں، ہمارے بیوی بچوں کو مار رہے ہیں۔ پراچہ ایک وکیل تھا اور اس نے یہ ثابت بھی کیا۔ ''کیا ابو غریب میں کوئی قانون ہے'' اس نے پوچھا ڈرامائی انداز میں وقفہ کرتے ہوئے میری طرف انگلی سے اشارہ کیا۔ کیا فالوجا میں کوئی قانون ہے۔ بوسنیا، کشمیر، چیچنیا میں کوئی قانون ہے؟ کیا ٹونی بلئیر عراق میں ہزاروں لوگوں کو نہیں مار رہا؟ کیا یہ تہذیبوں کا تصادم نہیں۔
میں نے پوچھا :کیا یہ تہذیبوں کا تصادم ہے؟
ہاں یقینا تہذیبوں کا تصادم ہے اس نے جواب دیا۔ یہ سب یہودیوں کا کیا دھرا ہے۔ اسلام امن کا دین ہے مگر یہودیوں نے سب غلط کر دیا ہے۔ یہ انسانوں میں تفریق پیدا کر رہے ہیں۔ یہودی انسانیت کے دشمن ہیں اورتمام مذہبی لوگوں کے۔
کیا تم کبھی کسی یہودی سے ملے ہو؟
پراچہ مسکرایا ''نہیں'' اس نے جواب دیا۔
افغانستان میں نہیں لگتا کہ طالبان کو زیادہ حمایت حاصل ہے۔ میںنے کہا۔
طالبان زندہ ہیں اور سرگرم ہیں۔ انھیں تمام افغانیوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس نے جواب دیا۔ وہ بہترین مسلمان ہیں۔ بہترین مسلمان جو کبھی ہو سکتے تھے۔ میرے سکول میں 500 شاگرد ہیں وہ سب طالبان کے حمایتی ہیں۔
کیا میں سکول جا سکتا ہوں؟
نہیں۔ آ پ کی سیکورٹی کا مسئلہ ہو گا۔ وہ لوگ غیرملکیوں کو پسند نہیں کرتے۔
لیکن میری طالبان سے اچھی بنتی ہے۔ انھوں نے قندھار میں میری دیکھ بھال کی تھی اور جب میں پچھلی مرتبہ یہاں تھا تو تمہارے مدرسے گیا تھا۔
وقت بدل گیا ہے۔
پچھلی مرتبہ جب میں یہاں تھا تو تم نے اخلاقی کرپشن کے متعلق بات کی تھی۔ میںنے کہا۔
ہاں ہاں پراچہ نے سرہلاتے ہوئے کہا۔ یہ ہر جگہ آ رہی ہے۔ ہم اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ ٹی وی انٹرنیٹ کے ذریعے آ رہی ہے اور اس پر تمام پروگرام یہودی اور امریکن کے ہوتے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کو تباہ کرسکیں۔
عزت کے نام پر قتل کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
یہ جدید علاقوں کا مسئلہ ہے جہاں بدی کی نمائش کی جاتی ہے۔ جب اخلاقی کرپشن آئے گی ہم مشکلات کا سامنا کریں گے لیکن ہماری سزائیں جرائم پر قابو پا سکتی ہیں۔
دو لڑکے جو لڑکپن کی عمر میں تھے اندر داخل ہوئے۔ یہ پراچہ کے بیٹے تھے۔ ایک نوکر خوشبودار چائے اور کیک لے کر آیا جس پر ناریل کی قاشیں لگی تھیں۔
ان ''اعتدال پسند'' مسلمانوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ میں نے پوچھا۔
اسلام امن ہے۔ اسلام انصاف ہے۔ اسلام صرف طالبان ہے اور کچھ نہیں۔
میری برداشت ختم ہوچکی تھی۔ لندن میں غصے کی لہر کواپنے اندر ابھرتے ہوئے میں نے دوبارہ محسوس کیا۔ میں پراچہ کو دلچسپ آدمی سمجھتا تھا لیکن اب وہ مجھے پریشان کر رہا تھا۔ میں وہاں سے جانا چاہتا تھا۔ میں جانے کے لیے کھڑا ہوا۔ تب میں نے غور کیا کہ ایک بچی سرخ شلوارقمیص میں مجھے دیکھ رہی ہے۔ وہ پراچہ کی بیٹی تھی۔ اس نے اسے بلایا اور وہ اس کی طرف دوڑی۔ باپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنا سراس کے کندھے کے ساتھ لگا دیا۔
اردو میں میں نے اس کا نام پوچھا۔
خدیجہ۔ اس نے کہا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی خودمختار اور اہلیت سے بھرپور بیوی جو سب سے پہلے اسلام لائیں۔
تم کتنے سال کی ہو؟
معلوم نہیں شاید چار سال۔
مجھے جیسن کہتے ہیں۔
خدیجہ نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جس نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے سرہلایا۔ تب وہ میرے پاس آئی اور میرے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام کر مسکرائی۔

کوہاٹ سے واپسی پر راستے میںمَیں یہ سوچ رہا تھا کہ پراچہ کس قدر بدل گیا ہے۔ یہ سوچنا بہت مشکل تھا کہ آخر میں کیوں اس کے بارے میں اتنا مختلف سوچ رہا ہوں۔ پانچ سال یا کچھ پہلے اس کے خیالات مزاحمتی تھے لیکن مجھے کبھی ذاتی خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا۔ پراچہ صوبہ سرحد کی اونچی پہاڑیوں پر رہنے والا مجھے بہت دورنظر آ رہا تھا۔ پراچہ کا مجھ سے کوئی تعلق نہ ہونا ابھی مجھے ایک غلطی تصور ہو رہا تھا۔ لندن دھماکوں نے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کردی تھی کہ 21 صدی کی پہلی دہائی میں دنیا خیالات اور عوامل کے لیے بہت چھوٹی پڑ جائے گی۔ دور دراز سے بھی تعلقات استوار کیے جا سکیں گے۔ پراچہ اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کی کارروائیاں اور بیانات، مزید غربت، غم و غصہ، ناانصافی کے احساسات، تذلیل اور کرپشن اور بہت سے دیگر مسائل نے اس شدت پسندی اور نفرت سے بھرپور نظریہ نے مزید آگ لگا دی ہے۔ یہ میرا بھی اتنا ہی مسئلہ ہے جتنا کسی دوسرے کا اور اسے کسی اور کا ظاہر کرنا غلط اور خطرناک ہے۔ اب کسی کا بھی صرف تماشائی بن کر رہنا ممکن نہیں۔

متناقضانہ انداز میں اگرچہ یہ اس سے بڑھتے ہوئے قرب سے منسلک تھی جو پراچہ سوچتا اور کہتا تھا جو کچھ اس نے کہا وہ میرے لیے ایسا ہی تھا کہ میں ایک سڑک پر دھکیلا جا رہا ہوں۔ دریا کے پل سے پار ہوتے ہوئے محافظوں سے گزارتے، چٹانوں پر اور اس کا مقصد صرف دوری ہو جو جدید دور کے ملاپ اورباہمی ربط کو روک سکے۔ وہ خود بھی اسے واضح طور پر ضروری محسوس کرتا تھا اگر وہ کسی بھی قسم کا بدلہ نہیں چاہتا یا کم از کم اپنی خواہشات کے مطابق تبدیلی۔ اس کے لیے اوردیگر قدامت پسندوں اور مسلم دنیا کے جنگجوئوں کے لیے شدت پسندی اصولوں کا ایسا مرکب اورایسا نظام ہے جو مل کر ''مغرب'' تخلیق کرتا ہے۔ مطلب اخلاقی کرپشن اور ذاتی خطرہ اس کا مطلب غیر یقینی اور تباہی ہے۔ اس کے طریقۂ زندگی اور طاقت کا خاتمہ لوگوں اور معاشرے کے درمیان حائل دوری کے خاتمہ کا مطلب ہے کہ خیالات معاشرے میں سرایت کر کے بڑی تعداد میں لوگوں پر اثر پذیر ہو کر ایسی تبدیلی لے کر آئیں ہیں جن پر قابو پانا دشوار ہے۔

اگر وہ تبدیلی چاہتے ہیں جسے وہ خود بھی محسوس کرتا ہے تو وہ کسی اور طرف سے اس پر لاگو نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اور اس قسم کے دیگر لوگ بڑے کامیابی سے اسے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ یہ وہ نتیجہ نہیں تھا جس پر پراچہ بڑے محتاط غور و غوض کے بعد پہنچا تھا یہ تو وہ چیز تھی جس سے وہ فطری طور پر آشنا تھا اور اسے سکول میں بچے جو غربت کے باعث کہیں اورنہیں جا سکتے تھے پڑھ رہے تھے۔

اور تب میں نے دیکھا کہ لندن دھماکے ہونے کی اہم وجہ تو اس ہم عصر دنیا میں بڑھتے ہوئے ملاپ میں مضمر ہے۔ میں اسے خارج از قیاس سمجھتا ہوں کیونکہ انھوں نے بلکہ وہی ٹارگٹ کیا جسے میں سب سے زیادہ فائدہ مند تصور کرتا تھا۔ مسلم دنیا اور مغرب میں مسلم معاشرے دونوں کے لیے اور جسے میں سب سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ صبر و برداشت اور تعصب کی عدم موجودگی اور فاصلہ کی بھی۔ لندن حملے Tavistock اور King's cross, elgwose Road, Aldgate East Square میں ہوئے۔ یہ تمام زمین پر واقع بے تعصب شہروں سے کہیں زیادہ قومی تعصب سے آزاد جگہیں تھیں۔ Tavistok Square سیاحوں اور نزدیکی یونیورسٹیوں کے شاگردوں سے بھرا رہتا تھا۔ Edgaose soad مختلف النوع کے عرب آبادی کا شہر تھا۔ Aldgate esst پاکستانی اور بنگلہ دیشی لوگوں کا علاقہ تصور کیا جاتا تھا اور Kingdom دنیا کے عظیم پگھلتے پوٹ (Pots) میں سے تھا اور جب انھوں نے بم کا دھماکہ کیا ہو گا جو آخری منظر نوجوان لوگوں نے دیکھا ہوگا وہ شاید ایک ٹرین ہو گی جو انسانوں سے بھری ہو گی۔ سب کا تعلق مختلف نسلوں اور مذاہب سے ہوگا۔ سب جدید وسیع کامیاب معاشرے کی تگ و دو میں لگے ہوں گے، سب مل کر چلتے ہوئے اپنی بقا کی فروغ پذیری کے لیے کوشاں۔

پھر میں نے حملہ آور کے لیے محسوس کیا جو کہ کسی چیز کی اچھائی اور افادیت کے حوالے سے پُرامید نہ تھا بلکہ اسے ایک ڈرائونا خواب تصور کر رہا تھا۔ پراچہ کے لیے اور ان کے لیے بھی مغربی معاشرہ آزادی، ساز گار صورت حال اور نرمی کا ذریعہ نہیں بلکہ شخصیت کی نفی، تباہی، عدم تحفظ اور بے یقینی اور نقصان پر محیط ہے اوران کے تشدد کا مقصد معمولی تباہی سے کہیں زیادہ ہے۔ کسی نے لندن حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ کسی کی پشت پناہی پر الزرقاوی اور اس کی ظالمانہ ویڈیوز اسامہ بن لادن اور دیگر تمام شدت پسند، معلوم نہیں وہ اس سے آگاہ بھی ہیں یا صریحاً اس کااظہار کرتے بھی ہیں کہ نہیں۔ مظلوموں میں خوف اور غصے کا بیچ بو کر، عینی شاہدین کو حمایتی اور مخالفت کرنے پر مجبور کر نے کے مرتکبین اور ان کے حمایتوں کے درمیان مشکلات پیدا کر کے، جو حملے کا شکار ہوئے ان میں ہم آہنگی پیدا کر کے، جنگجو ایسی دیواریں کھڑی کرنا چاہتے ہیں جہاں وہ کم ہوتے ہوئے فاصلوں کو مزید بڑھا دینا چاہتے ہیں۔ مقصد صرف اپنی جگہ قائم رہنا یا پھر تبدیلی کو کسی طرح قابو پانا اور مختلف نسلوں اورمذاہب کے لوگوں کو حریفانہ حصوں میں منقسم کرناہے۔

اسلام آباد پہنچ کر میں نے اپنی کہانی لکھی اورکچھ کھانے کے لیے مارکیٹ چل پڑا۔ یہ جمعہ کی رات تھی۔ دوست سالگرہ کی خوشیاں منا رہے تھے۔ میں نے کچھ فون کالز کیں کچھ پیغامات چھوڑے اور رات کا کھانے اتنا مزیدار نہیں کھایا۔ حالانکہ اسی ہوٹل کا کھانا پہلے بہت لذیذ ہوتا تھا۔ یہ بہت پریشان کن دن تھا میں اچانک ہی بہت تھکا ہوا محسوس کررہا تھا اس عدم رواداری سے تھکاوٹ، تنگ نظری، ذہانت، ناواقفیت اور تشدد کی عمومی استعانت اسی نفرت سے جانبداری سے۔ میں بے چینی کی سنسناہٹ سے تھک چکا تھا۔ میں اس روز اپنے آپ کو کچھ اور ہی فرض کررہا تھا جب میں نے اذان کی آواز سنی۔ میں نے کچھ خشک میوہ جات ایک شال سے لیے اور ریشہ دار انجیر کو چباتے چباتے واپس گیسٹ ہاؤس آیا جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔

گیسٹ ہاؤس پر ایک پیغام میرا انتظار کررہا تھا۔ ارشد محمود کی جانب سے جو ایک پاکستانی اخباری رپورٹر اور قابل اعتماد دوست تھا جس نے مجھ سے بری امام کے مزار پر چلنے کی درخواست کی۔ میں ارشد سے کچھ دن قبل ہی اس کے اسلام آباد دفتر میں ملا تو میں نے اسے بتایا کہ میں مزار پر عرس کے بعد سے نہیں گیا۔ وہ تہوار جو میں نے سات سال پہلے دیکھا تھا اب یہ دیکھنے کے لئے بے چین تھا کہ اس میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ اسے یہ بات یاد ہو گی اس لیے مجھے اگلی شام وہاں لے جانے کے لئے فرمائش کربیٹھا۔

دوپہر کے بعد ارشد مجھے اپنی پرانی چھوٹی سی گاڑی پر لینے آیا۔ ڈپلومیٹک کاؤنٹر پر حفاظت کی بنا پر رکاوٹیں کھڑی تھیں۔ اس لئے ہم نے لمبا متبادل راستہ اختیار کیا۔ ایک تنگ سڑک پیلے پھولوں والی کانٹے دار جھاڑیوں اور اسلام آباد میں واقع گھنے درختوں سے گزر رہی تھی۔ ارشد ایک نوجوان دیندار آدمی ہے لیکن ایک مغربی بیوی سے شادی، بچوں اور دوستی جو اس کے مستقبل کے لئے بہت معاون ثابت ہوئی، نے اس کے خیالات کو بدل دیا۔ اگرچہ اب وہ اپنے آپ کو''لبرل'' کے طور پر متعارف کرواتا ہے مگر وہ اب تک اپنے مذہب پر بہت یقین رکھتا ہے۔ مجھے اچانک ہی یہ معلوم ہوا کہ تمام مذہبی کتابیں جو میں پڑھتا ہوں ایک ہی بات کرتی ہیں۔ اس نے مجھے دوران سفر بیان کیا اور جب میں مزید بوڑھا ہو جاؤں گا تو اس دنیا کے بارے میں بھی کچھ جان سکوں گا۔ارشد نے مجھے بری امام مزار پر ہونے والی تبدیلی کے بارے میں بتایا۔ یہ کچھ اچھی خبر تھی کچھ ہفتے پہلے ہی ڈرگ کا دھندہ کرنے والوں نے محرّر کو مار دیا جو اپنے گاؤں میں ہیروئن بیچتا تھا۔ سو اس کی لمبی مہم کا خاتمہ اس کی موت کے ساتھ ہوگیا۔ بہار کے موسم میں عین مزار کے درمیان ایک خودکش حملہ آورکے حملے نے درجنوں عقیدت مندوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ حملہ آور کا تعلق اس گروپ سے تھا جس میں پراچہ کے بھی شامل ہونے کا شبہ تھا۔ میںنے جب ارشد کو ایک دن پہلے انٹرویو کے بارے میں بتایا اس نے سر ہلایا مگر کچھ نہ کہا۔

ہم نے گاڑی پارک کی اور مزار سے جڑے گاؤں نور پور کے راستے پر چل پڑے اور اب تک سنگل سواری اینٹوں سے گڈمڈ اور کنکریٹ سے بنے گھر جن کو ٹین کی چھتوں سے ڈھانپا گیا ہے۔ کچے راستے اسے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ بجلی کی تاریں اور درجنوں ٹی وی ایریلز چھتوں پر موجود ہیں۔ بڑے تالاب میں بھینسیںاور بچے اس گندے پانی میں تیر رہے ہیں۔ گاؤں کے پیچھے مارگلہ کے پہاڑی سلسلے ڈھلوان کے طور پر کھڑے ہیں جیسا کہ مجھے یاد تھا میں اب تک درختوں پر بندروں کی نعرے بازی سن سکتا ہوں۔

ارشد اخبار میں ہفتہ وار کالم لکھتا ہے۔ جب ہفتہ پہلے ہم نے بات کی تو اس نے مجھ سے لندن دھماکوں کی وجوہات دریافت کیں۔ میں نے اپنے کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیا کہ کس طرح عراق جنگ نے بے چینی کی فضا کو ہوا دی۔ برطانیہ میںمقیم ایرانی نسل کےImmigrant اور ان کے بچوں کے درمیان مسائل کا ذکر کیا۔ حملہ آوروں نے برطانوی شناخت پر اسلامک شناخت پیدا کردی۔ میں نے کہا اور یہ ہی ایک سنگین وجہ تھی جس بنا پر انہیں روزگار کے لئے باقاعدگی سے لمبا سفر کرنے والے بھی دشمن نظر آئے۔ ہم نے بہت دیر تک گفت وشنید کی اور اس سے پوچھا کہ آخر کار اس نے کیا تحریر کیا ہے۔

میں نے لکھا ہے کہ ایک انگلش اخبارنویس دوست مجھے ملنے آیا جو پاکستان میں رہ چکا تھا جو اس ملک کا دوست تھا اور جیسا کہ میں نے کہا اب میں اسے بدلا ہوا پاتا ہوں۔ ارشد نے کہا کہ وہ کچھ ناراض اور اداس تھا7/7 کے حادثے کے باعث کیونکہ اس نے اپنے علاقے میں موت دیکھی تھی۔ اس نے مجھ سے ایک سوال کیا جس کا میں جواب نہ دے سکا۔اس نے پوچھا کہ عراق جنگ کے خلاف تو ہزاروں لوگ مظاہرے کرتے ہیں لیکن مسلم ملک میں تشدد کے خلاف ایک مظاہرہ بھی نہیں؟ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں مسکرایا۔ مظاہرے کے لئے اچھا بیان تھا جسے میں بھول چکا تھا۔ یہ اگرچہ کوئی حقیقت نہیں لیکن میں یقیناً اسے پورے جوش کے ساتھ بیان کرتا ہوں ارشد سے ملاقات سے ایک دن پہلے میں پاکستانی اخبارات میںلندن دھماکوں کے بارے میں خطوط پڑھ رہا تھا۔ جن میں وہ برطانوی حکومت ،اسرائیل کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے۔ اس نے میرے غصے کو دوبارہ آگ لگا دی۔ اس اخلاقی پہلوتہی اور عقلمندانہ بزدلی پر جو ہر جگہ موجود ہے خاص طور پر لندن میں جن کے پاس اس لا علمی کی کوئی دلیل ہے جو ان خطرناک نظریات میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔

تم نے واقعی یہی لکھا ہے میں نے لال بیگ کو مارتے ہوئے پوچھا۔ مزار کے راستے پر ایک بوڑھی عورت نے کہنی مار کر مجھے اپنے راستے سے پرے کیا۔ ہم آہستگی سے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے اور بڑے برگد کے درخت کے نیچے کھڑے عقیدت مندوں کا رش دیکھ رہے تھے جو ایک چھوٹے کمرے (جسے چمکیلے شیشوں سے سجایا گیا تھا) کے باہر تھا اور وہاں ہی بری امام کا مزار ہے۔

ہاں ارشد نے کہا، اور میں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ مسلمان شاید مجھے بے وقوف اور سادہ لوح تصوّر کریں گے اور یہ کہ مغرب سامراجی ذہانت کے حامل ملک میں جو مسلمانوں اور تیل کو حاصل کرنا چاہتے ہیں کافی حد تک درست بھی ہیں لیکن میرے مطابق چند خراب سببّوں کی وجہ سے اب پورے کھیت خراب نہیں ہوسکتے درحقیقت ارشد نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا وہ اپنے نازک ہاتھوں کی مٹھی بنا کر ہوا میں کھولتا تھا، مسلمانوں کے پاس بہت دلچسپ دلیل موجود ہے کہ کیا کرنا ہے اور اس کو میں اپنا بیاں بنانا چاہتا ہوں پھر میں نے کہا کہ میں نے جب بھی حضرت محمدۖ کی حیات مبارکہ کے بارے میں پڑھا تو میں نے مختلف نتائج اخذ کیے اور جب میں بہت سے عیسائیوں کے ساتھ ملا تو اس میں بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اچھے مذہبی لوگ تھے میں نے قرآن اور بائبل پڑھی ہے اور دونوں میں مجھے کچھ چیزیں مشترک لگتی ہیں اور میں نے کہا کہ ہماری اور مسلمانوں کی تاریخ ملی جلی ہے بری اور اچھی تاریخ لیکن ہمیں اچھی تاریخ پر ہی عمل کرنا چاہیے یہ ہماری ذمہ داری ہے اور سب سے مسلمان ایسا نہیں کررہے اور یہ بھی کہ عیسائیوں ،یہودیوں اور لادینی لوگوں کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ ان کی بری اور اچھی تاریخ ہے۔

ارشد نے نوٹ کیا کہ میں اپنی کاپی پر بد خطی سے مسکراتے ہوئے لکھتا جاتا ہوں اوربات کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کو ان مغربی لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنا چاہیے جو نا انصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان کی تعداد کم نہیں اور ہمیں عیسائیوں، یہودیوں اور وہ تمام لوگ جو تشدّد کو پسند نہیں کرتے لازماً کوئی لائحہ عمل بنانے اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس ڈائیلاگ کے حامی نہیں ہیں اور اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نے کہا: سو اب میں انتظار کروں گا اور دیکھوں گا کہ لوگ اس بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں۔

ہم لوگ وہیں کھڑے باتیں کرتے رہے اور پھرمزار کے پاس سے گزرے جوکہ چوڑے احاطے پر گھرا ہوا تھا۔ جہاں پر عرس کے دوران ٹینٹ لگائے جاتے ہیں، گیٹ سے پیچھے میں نے ناہموار تارکول سے بنی سڑک پر بھر بھرا حصہ دیکھا۔ جہاں خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو ختم کیا تھا اس سے پرے غریبوں میں مفت چاول تقسیم کیے جا رہے تھے۔ میں ایسے تمام جنگجوئوں کے بارے میں سوچنے لگا جنھیں میں جانتا تھا یا جن کے میں نے انٹرویوز کیے تھے۔ طالبان وہ لوگ جن کو میں پاکستان میں جانتا تھا، دیدر فٹ بال، سلمانیہ میں خودکش حملہ آوروں کو پسند کرنے والے، بغداد میں ابو مجاہد، نجف کے شیعہ جنگجو، کشمیر وقندھار کے قیدی اور باقی دیگر۔ کوئی ایک اصول نہیں کہ آخر مختلف مصائب میں گرفتار صرف اسلام کو ہی اپنا نشانہ کیوں بناتے ہیں۔ ہر ایک کا راستہ دوسرے سے مختلف ہے۔ کچھ معاشی و معاشرتی ناانصافیوں کے لیے برسرپیکار ہیں کچھ بدلے و تذلیل کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔ کچھ صرف دوست اور تفریح چاہتے ہیں۔ باقی اس لیے لڑنا چاہتے ہیں کہ وہ اسے اپنی سرزمین پر قبضہ سمجھتے ہیں۔ کچھ آغاز سے ہی بہت غصیلے اور ظالم ہیں۔ باقی دوسروں کو تکلیف دے کر طاقت کے نشے میں ہیں۔ دیگر ہر ممکن حالت میں بھی اپنے یقین و ایمان کی ترجمانی کرتے ہیں۔ چند یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کارنامے سیاست کی محتاط چالیں ہیں۔ کچھ توصیف کے سببّ معاشرے میں انہیں ہیروز کی طرح چاہتے ہیں۔ چند کو یہ بالکل پرواہ نہیں کی کہ ان کے مصاحب کیا سوچتے ہیں۔ بہت عرصے میں اسلامک جنگجو نظریہ کی حقیقت کی جانچ میں تھا تب مجھ پر یہ آشکار ہواکہ یہ تو ناممکن ہے۔ اس کا کوئی ایک جواب نہیں۔ اگرچہ نکتہ یہ ہے کہ کوئی ایک جواب تھا ہی نہیں۔

پھر میں نے دیگرلوگوں کے بارے میں سوچا، جن کے ساتھ میں نے باتیں کیں۔ ہزاروں کے حساب سے جو میرے ساتھ اٹھتے بیٹھتے سفر کرتے رہے۔ ان گزرتے ہوئے سالوں کے دوران میں نے 1991ء کے ماجد خاں کے بارے میں سوچا جو جواں کرد تھا اور اس کی عمر بھی لندن حملہ آور کی عمرجتنی ہی تھی جو بری امام کے مزار پراپنی توصیف بیاں کر رہا تھا اور جب سات سال پہلے اس نے مجھ سے اپنی نماز چھپائی۔ میں نے اکرام کے بارے میں سوچا۔ جب میں نے کابل کی ناہموار زمین سے گزرتے ہوئے اسے بُرا لطیفہ سنا کر ہنسا دیا تھا، تب میں نے ان تمام افغانیوں کے بارے میں سوچا جو اس پتھریلی سرزمین پر اپنی سلامتی کی جنگ لڑتے ہیں، ان پناہ گزینوں کے بارے میں جو 2001ء کی شام کو سکول میں سردی سے مر گئے تھے۔ جلال آباد، کے کھیل کے میدانوں میں لڑکیاں اوران کے باوقار اساتذہ، وہ جنگجو جو مختلف محاذوں پر لڑتے ہیں جن میں سے بیشتر پیادہ دستے ہیں جیسا کہ پیادہ دستے ہر زمانے کی ہر افواج میں ہوتے ہیں، میں نے دوبارہ محمد سیکوون اور اس کی فیملی جو شمالی لندن اور Algiers میں ہے سوچا اور عراقیوں کے بارے میں جیسا کہ وہ نجف کا بوڑھا آدمی جس نے ہمیں پناہ دی یا بغداد کی وہ عورت جس کے دو معذور بچے تھے اور وہ آدمی جس نے لغت میں سے پہلے سادہ ورق کو پھاڑ کر مجھے بیچ دی تھی جو اب تک لندن میں میرے گھر کی شیلف پر موجود تھی اور ان تمام لوگوں کے بارے میں جو بم، سیاست اور جنگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن کی آوازیں جنگ میں دب جاتی ہیں اور ہر طرف آگ میں گھرے ہوئے لوگوں کی چیخیں، طیش، راست بازی اور تنگ نظری تب مجھ پر آشکار ہوا کہ شدّت پسندی کا کوئی واحد نظریہ نہیں ہے جو 'اسلامک دنیا' کو بیان کر سکے اور اس کی تلاش بھی کوئی سودمند نہیں بلکہ درحقیقت توقع کے برعکس ہے۔ یہ وہی کر رہی ہے تو تشدّد سے بھرپور لوگ چاہتے ہیں۔ یہ لوگوں کے درمیان دوریاں پیدا کرتی ہے۔ ایک حصّے کو دوسرے حصّے سے الگ کرتی ہے۔ فیصلہ کرتی ہے۔ بنا سوچے کہ کوئی لمبا، چھوٹا، ضعیف، کمزور، بوڑھا جواں لائق جاہل، مرد عورت، بغیربچوں کہ بچوں والا، نوکری پیشہ یا فارغ، توانا یا بیمار، مسلماں یا غیر مسلم اور یہ یقینا خود ساختہ تقسیم ہے۔ کس طرح لوگوں کو تقسیم در تقسیم کر کے معاشرت کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس کی نوعیت کے مطابق واحد چیز جو مسلم شدت پسندی کو بیاں کر سکتی ہے وہ اسلام اور تشدد ہے۔ درحقیقت تشدد جس نے ہمیں شکار کر رکھا ہے وہ ایک پیچیدہ امر ہے جس کی جڑیں تہذیب، سیاست، معاشی بہبود میں اور افراد گروپ معاشرے اورصوبوں سے دنیا میں پھیلے ہوئے تمام اقوام کے درمیان میل جول میں پہناں ہیں اورجیسا کہ اس کا مطلب ہے، جس تشدد نے ہمیں گھیر رکھا ہے اس کا چنائو نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بم کے نتیجہ میں قتل و غارت، عزت کے نام پر قتل اور ویڈیو پر قتل کے منظر ہمیں صرف تقسیم یا اس کے مترادف ہی زور دیتے ہیں۔ اگر لندن دھماکوں نے مجھے کوئی ایک راہ سجھائی تو وہ لوگوں کو جمع کرنا ہے اگرچہ اس کرہ ارض کے لاکھوں لوگوں کو یا زیر زمین ٹیوب میں سوار 50 لوگوں کو اوران کی شناخت ایک چیز یا دیگر کی طرح، دوست و دشمن کی طرح، مغربی و مشرقی کی طرح، مسلم و غیرمسلم کی طرح، یقین رکھنے والے اورنہ رکھنے والوں کی طرح کرنا ایسا ہی ہے جسے کبھی نہیں کرنا چاہیے اور اگر گزشتہ سال کے دوران سفر نے مجھے کچھ سمجھایا تو یہ تھا کہ دوریوں پر زور دینا جب باندھنے کے لیے بہت کچھ ہو، تقسیم کی طلب جب بہت کچھ مشترک ہو، فاصلہ ہر روز جب بہت کچھ قریب ہو صرف خطرناک ہی نہیں بلکہ غلط ہے۔

میں اور ارشد کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ جب ہم چلے تو میں نے محسوس کیا کہ وہ امید جو میں لندن دھماکوں سے پہلے محسوس کرتا تھا وہ لوٹ آئے گی، اچانک مزار پر ہمارے گرد کا ہجوم کم ہونے لگا۔ ماربل کی سیڑھیوں پر اب چند ہی جوتیوں کے جوڑے رہ گئے تھے۔ کار پارک کے گرد سٹالز پرشٹر گرا دیے گئے ہیں جو تلے ہوئے آلووں کو اخبار میں لپیٹ کر بیچتے ہیں، گلابی اور سبز رنگ کی چوڑیاں ایک روپے کی ایک، اور ایک چھوٹا لڑکا پرانے کپڑوں میں میری قمیص کو کھینچ کر مسکراتا ہوا بھاگ گیا۔ گائوں سے پرانے تیل کی خوشبو اور لکڑیوں کے دھواں اور کچھ دیر پہلے کی بارش کے اثرات ہیں۔ لائٹ / روشنی سے دور شہر میں آتی ہے پھر گائوں کے پاس اور پھر مزار کے گیٹ پر ٹپکتے رنگ برنگ بلبوں میں پھڑپھڑاتی ہے۔ جلد ہی اندھیرا ہر سمت چھا جائے گا سو ہم وہاں سے نکل پڑے۔