working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

میں پاکستانی ہوں ، مجھے یہاں سے نکالو:
فائزہ شاہ
کسی بھی ملک کا ویزا اور کسی بھی ملک قونصلیٹ کا ان اوامر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اس قوم اور اس ملک کی شناخت دنیا میں کس حوالے سے کی جاتی ہے؟
ذیل کے مضمون میں اس المیے کی بازگشت ہے، جو ہمیں ملکوں ملکوں سنائی دے جاتی ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کا نام ویزا انڈکس میں ہمیشہ اختتام پر آتا ہے، لیکن اس سے بھی دلچسپ صورت حال تب پیدا ہوتی ہے جب ٹریولر ایجنٹ آپ پر پورے وثوق سے یہ واضح کر دیتے ہیں کہ جن کے نام محمد سے شروع ہوتے ہیں انہیں ویزا پروسسینگ کے لیے انتظام کرنا پڑے گا۔ اس مضمون میں ویزا کے حصول کے سلسلے میں مسلم لوگوں کو درپیش مشکلات کا نہایت تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔ (مدیر)

دنیا کے سامنے پاکستان کی تنقیدی صورتِ حال کے باعث پاکستانیوں کے لئے غیر ملکی ویزوں کا حصول مشکل تر ہوتاجارہاہے۔

آنے والے موسم گرما کیلئے دوست احباب، خاندان سب اپنے سوٹ کیس تیار کررہے ہیں تاکہ اپنی چھٹیاں اپنوں کے ساتھ گزار سکیں۔بے شک وہ کینڈا میں اپنے خاندان کے ساتھ ملاقات ہو یا بچوں کے ساتھ سیر و تفریح یا ان کی دیرینہ خواہش، یورپ میں چھٹیاں گزارنا۔

ہم میں سے بیشتر کے پاس ان لوگوں کی درجنوں کہانیاں ہوںگی جن کی چھٹیاں ان کی گرین کارڈ پر لگنے والی خوفناک سٹیمپ کی وجہ سے برباد ہوئیں''داخلہ ممنوع''

آج کی سکڑتی ہوئی دنیا میں بھی سرحد پار غیر ملکیوں کی آمدورفت کو کنٹرول کرنے کے لیے ویزا کی تجدید اہم کردار ادا کرتی ہے تقریباً اب ہر ملک ان غیر ملکیوں سے ویزا کے خواہش مند ہوتے ہیں جو ان کے علاقے میں داخلے کے متمنی ہوتے ہیں۔

انٹرنیشنل ریزیڈنس اینڈ سیٹیزن شپ پلاننگ میں حصے دارHenley & Postniss نے Herly Visa Restrichion index مرتب کی جس میں ممالک کی رینکنگ، ان کے شہریوں کو دوسرے ممالک میں جانے کے لیے فری ویزے کی سہولت دستیاب ہونے کے مطابق کی۔ اس انڈکس میں نہ صرف دنیا کے 89 فیصد ممالک کی رینکنگ شامل ہے جو انٹرنیشنل آزادانہ سیر وسیاحت سے مستفید ہوتے ہیں بلکہ یہ انٹرنیشنل ریلیشنز کی بھی عکاسی کرتی ہے اور ہر ملک کی انفرادیت کو دوسرے ملک کے ساتھ مشاہدہ بھی کرتی ہے۔

ستمبر2008ء کی لسٹ کے مطابق ڈینز، فنز اور امریکن ،150 مختلف ممالک میں سہل اور آزادانہ سیروسیاحت سے مستفید ہوسکتے ہیں اور ہم کہاں رینک کرتے ہیں؟

یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں کہ پاکستان کا نام انڈکس کے اختتام پر آتا ہے ، کیونکہ ہمارے ہمسائے اسلحہ سے لیس ہیں جیسا کہ افغانستان، ایران اور عراق گزشتہ عشرے میں اس گرین پاسپورٹ نے بڑی مستعدی سے کئی رلا دینے والی کہانیاں جمع کرلی ہیں بڑی تعداد میں صرف پاکستانیوں کا ہی انتخاب کیا گیا حقیقت میں وہ گرین پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے زخم رسیدہ تھے۔ انہیں ہوائی اڈوں پر امیگریشن کے دوران توہین آمیز رویہ برداشت کرنا پڑرہا ہے وہ سفارت خانوں میں انٹرویوز کی غرض سے ہی قطاروں میں غیر معینہ ویزا پروسیسنگ اوقات کے لیے انتظار کرتے رہتے ہیں ویب سائٹ اور سفارت خانے بڑی خوش طلبی سے درخواست دہندہ کو بتاتے ہیں کہ ویزا پروسیسنگ کیلئے طے شدہ وقت ایک سے چھ ہفتوں کا ہے اگرچہ یہ بھی حیران کن امر ہے جب اس دستیاب وقت میں بھی ویزا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

بے شک تمام مغربی سفارت کاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ ویزا کیلئے بندش صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر لاگو ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ آج کل جو چہروں میں ایک ٹینشن پائی جاتی ہے وہ بد قسمتی سے ایک ہی مذہب اور ایک ہی عقیدہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بدنامی کا یہ داغ ہمارے دامن پر ہی لگایا جاتا ہے۔

ملک کی اندورنی سیروسیاحت، پر تشدد واقعات کی وجہ سے غیر محفوظ قرار پائی ہے اور ساتھ ہی بڑھتے ہوئے ویزا اخراجات، پروسیسنگ کے لیے ناگزیر التوانے اور اپنے شہر سے دوسرے شہر میں سفارت خانوں کے باہر انٹرویو کے لئے اخراجات میں مزید اضافہ نے بیرون ملک سفر کو مزید مشکل اور برق رفتار ہونے کی بناء پر بھی کم کردیا ہے۔

عربی ناموں کو قرین قیاس دہشت گردی کے سبب بلیک لسٹ میں شامل کردیا جاتا ہے اور فوراً ہی ٹیررالرٹ کو دیا جاتا ہے جن کے نام مشہور طالبان دہشت گردوں سے مناسبت رکھتے ہوں انہیں تفصیلی تحقیقات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ٹریولر ایجنٹ پورے وثوق سے یہ واضح کردیتے ہیں کہ جن کے نام محمد سے شروع ہوتے ہیں انہیں ویزا پروسیسنگ کے لیے لمبے دورانیہ کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔

بہت سے ویزا پروسیسنگ آفیسر متذبذب ہوتے ہیں کہ درخواست دہندہ اپنے ملک لوٹے گا کہ نہیں؟ آپ بیشتر اخبارات میں ایڈیٹر کی ڈاک میں شکایات بھرے خطوط دیکھیں گے جن میں سن رسیدہ لوگ برطانیہ میں اپنے خاندان سے ملنے کے لیے اور طلباء بروقت ویزا نہ ملنے کی بناء پر اپنی ابتدائی کلاسسز کے چھوٹنے کا گلہ کر رہے ہوں گے۔ یہ تمام لوگ متعلقہ حکام بالا کو اس ہولناک رویے کی طرف متّوجہ کرنے کے لیے زور دے رہے ہوں گے۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ویزا آفس کی کھڑکی میں بیٹھنے والے مرد یا عورت ، انکے مستقبل کے لیے اختیارِ شاہی رکھتے ہیں وہ آپ کی حب الوطنی اور مستقبل کی رہائش کا تعین کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار اپنے سفر کو طول دینے والوں میں ہوگیا تو اپنے ویزے کی سلامتی کیلئے اور قونصل خانے کو مطمئن کرنے کیلئے ان کے پاس بہترین لائحہ عمل اپنے مالی اثاثوں کا استعمال ہوگا۔

جرمن سفارت خانے، ویب سائٹ پر شاچنجن میں مختصر مدت کے قیام کیلئے لکھتا ہے کہ:
یورپین کونسل فیصلے کے مطابق ویزا ہولڈرز پر یہ قانون لاگو ہوتا ہے کہ جب تک وہ شینجین علاقہ میں رہیں تو ان کے پاس ہیلتھ انشورنس ہو اگرچہ یہ درخواست دہندہ کے ملک سے ہی ہونا چاہیے پھر بھی وہ میزبان ملک سے خرید سکتا ہے یہ طریقہ کار درخواست دہندہ کی واپسی کی اہلیت اور ادارہ کو بھی جانچنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ درخواست دہندہ اپنی انفرادی قابلیت پر پرکھا جائے گا بڑھتی ہوئی ویزا فیس ان لوگوں کے لیے ایک اضافی بوجھ ہے۔ بڑھتے ہوئے اخراجات میں سے سالانہ سیر وسیاحت کے لیے کیش نکالنا دشوار ہوتا جارہا ہے امریکہ کے قانون کے مطابق سیکورٹی چیک اور امیگریشن پروسیس کے اخراجات بھی یوزرپیڈ کے زمرے میں آتے ہیں اس عشرے میں امیگریشن کے طریقہ کار میں بہت سے تبدیلیاں آئی ہیں جس میں درخواست دہندہ کی تفتیش کے طریقہ کار کو مزید سخت اور اٹل اور قابل سٹاف کی تقرری شامل ہے تاکہ طریقہ کار اور کارکردگی میںبہتری لائی جاسکے ہمارے لیے یہ ویزے کے لیے وہ نا قابلِ واپسی فیس ہے جو ہمیں کبھی نہیں مل سکتی۔ نیہا انصاری کالج کی طالبہ ہیں انہوں نے کینڈا کے ویزے کیلئے تین مرتبہ کوشش کی ۔ایک بار واشنگٹن سے اور دو بار کراچی سے تینوں دفعہ ان کو انکار ہی ملا۔ پہلے رائونڈ میں مطلوبہ مالی اثاثوں کے نہ ہونے کی وجہ سے انکار ہوا۔ باقی دونوں دفعہ انکار کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ انہوں نے اندورنی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اس معمہ کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی تو انہیں یہ بتایا گیا کہ کینڈا میںشادی کے قابل لڑکیوں کو اکیلے رہنے کی اجازت نہیں اور یقیناً یہ کسی جگہ کی ویزا پالیسی میں صریحاً بیان نہیں کی جاسکتی، نیہا دکھ سے کہتی ہیں کہ اس طرح کے قوانین سفارت خانوں کو وضاحت سے پہلے ہی بیان کردینے چاہئیں تاکہ ہزاروں کے قریب درخواست دہندہ جو اس جانچ پر پورا نہیں اترتے، اس ویزے کے لیے اپنا پیسہ برباد کرنے سے بچ جائیں جس میں ہر حال میں انکار ہی ملے گا۔

کوئی بھی پیش بینی اور کسی طرح کی مدد نظر نہیں آتی جو ان درخواست دہندہ لوگوں کو اس گراں مصرفی سے بچا سکے کہ شینجن ویزے کی لاگت60 یورو امریکی ویزا تقریباً 131 ڈالر میں، برطانیہ کا ویزا 55 پائونڈ میں اور کینڈین ویزا 550 ڈالر لاگت کے ہیں سب سے کم لاگت کا ویزا ملایشیاء کا ہے جو تقریباً 600 R.S میں ملتا ہے اوریہ پھر چین کا جو30 ڈالرکا ہے۔

ایک پاکستانی جو امریکہ کے انڈر گریڈ کالج کا سند یافتہ تھا جب اس نے چھٹیاں اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے کے لیے ارادہ کیا تو اسے بھی ناکامی کا سامناہوا۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ہے جو امریکہ کے ویزے کے لیے دوبارہ کوشش نہ کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ہر بار اس بلا جواز تفریق کا نشانہ بنایا جاتارہے گا اکثریت اس میں دوبارہ درخواست دیتے رہتے ہیں کہ اک دن وہ منتخب ہو ہی جائیں گے۔ فارن پالیسی تعلقات اور سیاسی لوگ بھی پاکستانی شہریوں کے وقار کو پوری دنیا میں درپیش اس تنقیدی رائے سے نہیں بچا سکتے۔

امریکی سفارت خانے کے کونسلر سیکشن کے چیف کرسٹوفر رچرڈ کہتے ہیں کہ''دنیا کا بد ترین عمل جوآپ کرسکتے ہیں وہ انٹرویو میں سچ نہ بولنے کا عمل ہے(اپنے ویزے کے لیے) رچرڈ پہلے درخواست دینے پر زور دیتے ہیں اپنے سفر کی تاریخ سے پہلے( تجویز کردہ وقت سفر کے مقرر وقت سے تیس مہینے پہلے) اور یہ پوری طرح انٹرویو کے لیے تیار ہونے کے لیے طے شدہ وقت ہے۔

رچرڈ مزید تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوگوں میں پھیلنے والی کہانیوں کی طرف بھی کوئی دھیان نہیں دینا چاہیے۔کیونکہ وہ مبالغہ آرائی سے مزین ہوتی ہیں لیکن بہت سے ایسے مقبول عام کیسزز پائے جاتے ہیں جو اس خیال کی مکمل طور پر نفی کرتے ہیں۔ شاہ رخ خان کو اگست میں نیویارک ائیر پورٹ پر ڈیٹینڈ قرار دیا گیا اور مئی میں محمد حنیف کو انگلینڈ میں اسی تفریق کوظاہر کرتا ہے جو مسلم نام رکھنے والی شخصیات کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اور جو آج کل کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

اپنے آرٹیکل ''برطانیہ کا ویزا۔ شرمندگی'' جو گارڈین میں شائع ہوا، میں کہتے ہیں کہ بارڈر اور امیگریشن ایجنسی کا ادغام، کسٹم اور یو کے ویزا کو ایک ہی ایجنسی ''یو کے بارڈر ایجنسی'' میں ضم کرنے کا نتیجہ ویزا پروسیسنگ کا ہے۔اس کا جواب صیغہ جمع کی صورت میں نکلتا ہے۔ بجائے اس کہ کے پاکستان میں ہی پروسیسنگ اور سٹیمپنگ کے لیے ریجنل سنٹر ہوں، اب تمام پاکستانی ویزا ابوظہی میں پروسیس ہونے کے بعد اسلام آباد دوبارہ سٹمیپ کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ اس نے 40,000 پاکستانی ویزوں کی پروسیسنگ کی پیش رفت روک دی ہے۔

ایسے کیسنز بھی ہیں جن میں اوپر واضح کردہ بیانات کے بعد بہت سے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیداکر دیئے ہیں۔ حنا عثمانی اور ان کے خاندان نے اسی سال جولائی کے آغاز میں برطانیہ ویزا کے لیے درخواست دی۔ سفارت خانہ سے جواب آنے کا کم از کم دورانیہ دس دن ہوتا ہے۔ کیس کی انفرادیت پر وقت بدل بھی سکتا ہے لیکن حنا عثمانی سے درخواست دینے کے دو تین دن بعد ہی رجوع کیا گیا۔ مسٹر اور مسز عثمانی اور ان کے تینوں بچوں کے ویزوں کو ردّ کر دیا گیا تھا جواب کے طور پر صرف ایک بیان جو انہیں ملا وہ یہ تھا کہ ''وہ قونصلیٹ کے ذریعے، دوبارہ تفتیش کی اپیل کر سکتے ہیں۔ اسی فیملی نے کم از کم 10,000 کے ٹکٹ بک کرا دیے تھے اور ناقابل واپسی ویزا کے اخراجات 30,000 تھے۔

حسن عابد شمسی جو اُوسس ٹریولز میں Visa faislitetion services میں منیجر کے فرائض انجام دیتے ہیں، پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ویزے کے حصول میں تاخیر کے اسباب سیکورٹی خطرات اورمسلمانوں کے بارے میں بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات ہیں۔ ہم شاید کبھی بھی ان درخواست دہندہ کی جانچ کے طریق کار کو نہ جان سکیں گے!!

یہ حقیقت ہے کہ نام جیسا کہ محمد نام والوں کو خود یا خودانوسٹی گیشن کے عمل سے گزرنے کا اندازہ ہو جاتا ہے یا پھریقینی طور پر انہیں کافی لمبے دورانیے تک انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے انکے مطابق ٹریول ایجنسیز ویزوں کی فراہمی کے لیے بہتر ذریعے ہیں کیونکہ وہ درخواست دہندہ کو پوری وضاحت سے بیان بھی کردیتی ہیں اور انکے لئے ایک لائحہ عمل بھی ترتیب دے دیتی ہیں'' انکار ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے'' عام طور پر وہ لوگ جو اپنی فیملی سے ملنے یا پھر کاروبار کی وجہ سے جارہے ہوتے ہیں یا پھر وہ نسبتاً آسان مرحلہ سے گزرتے ہیں جو مردیا عورت اکیلے چھٹیاں گزارنے جارہے ہوتے ہیں۔
برطانوی ویزا ایک تو بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور زیادہ دقت طلب اور وقت ضائع کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ کم از کم دو ہفتوں سے چھ ہفتے یا اس سے بھی زیادہ دورانیہ یہ ہے اس کا قت صرف تھائی قونصلیٹ سب سے کم وقت لیتا ہے اس میں آپ کو درخواست داخل کرنے کے دو دن بعد ہی ویزا فراہم کردیا جاتا ہے ۔ ملایشیاء اور سنگاپور بھی زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ تین یا پانچ دن سفارت خانے سے منظوری آنے تک کا وقت درکار ہوتا ہے۔ امریکی سفارت خانہ اپنے مخالفانہ امیج کی عکاسی کا ہرگز خواہش مند نہیں ہے پچھلے سال ستمبر میں شروع ہونیوالے سالانہ سروے کے مطابق تقریباً32,000 ویزے پاکستان کو دیئے گئے ہیں ایجنسی کہتی ہے کہ یقینی طور پر انٹرویوز کے بعد کے مراحل لمبے تو ہوسکتے ہیں لیکن ویزا پالیسی کا مدعا پوسٹ 9/11 کو نہیں بدل سکتا۔

پہلے درخواست دینا ہی واحد حل ہے اور انکار کا اقرار میں بدلنے کا واحد حل سچ اور اپنے ملک کے لئے محبت کا اظہار ہے۔بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود ٹریول ایجنٹ حالات کو بے انتہا خراب نہیں گردانتے، غیر ملکی بارڈرز ابھی بھی پاکستانیوں پر بند نہیں ہوئے کیونکہ انکار کی وجہ کیس کی نوعیت پر انحصار کرتی ہے یہ اس طرح کی کسی یقین دہانی کی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو قسمت اور کسی بھی قسم کے ہرجانہ کی غیر واپسی کا کھیل ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: سعدیہ جاوید)