working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

افغانستان میں مصالحتی کوششوں کا ایک جائزہ
جوانا ناتھن
پوری دنیا کے اندر یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ امنِ عالم کے لیے افغانستان میں استحکام پیدا کرنا لازم ہے۔ تاہم بین الاقوامی سیاسی اور جنگی امور کے ماہر جوانا ناتھن کے لفظوں میں اس سلسلے میں اب تک جو کوشش کی گئی اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی ربط نہیں دکھائی دیتا بلکہ خلوص بھی مفقود ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ باغیوں کے رہنمائوں کے ساتھ مقامی سطح پر یا وسیع تر سمجھوتے کی کوشش کی جائے۔ اس کا ایک مقصد ان لوگوں کو خرید کر شورش کرنے والوں سے علیحدہ کرنا بھی تھا۔
اس مضمون میں 2001ء سے اب تک کی مصالحانہ کوششوں کا ایک جائزہ پیش کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے ایک طرف اگر جنگ کا عمل جاری ہے تو دوسری طرف ہر دوسرے فریق کے دل میں امن کی خواہش بھی جاگزیں ہے۔(مدیر)
افغانستان میں استحکام کی خاطر اس بات پر زور بڑھتا جا رہا ہے کہ باغیوں کے ساتھ سیاسی تصفیہ کیا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں اب تک جو کوشش کی گئی اس میں کوئی ربط نہیں تھا بلکہ اکثر وہ باہم متضاد تھیں۔ افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری میں اس بارے میں کوئی اتفاق رائے نہیں کہ سیاسی تصفیہ کیا ہو، کس کے ساتھ کیا جائے اور سب سے اہم یہ کہ استحکام کی وسیع تر حکمت عملیوں میں اس کا کیا مقام ہو۔ بڑھتی ہوئی خون ریز شورش کے دوران یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ باغیوں کے لیڈروں کے ساتھ مقامی طور پر یا وسیع تر سمجھوتے کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر اس کی ضرورت ہو بھی تو یہ حکمت عملی غیر حقیقت پسندانہ ہے کیونکہ حکومت دشمن عناصر نے ایسے سمجھوتوں کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔ پھر یہ بہتر گورنس اور نمائندہ حکومت کا قیام یقینی بنانے کے لیے پائیدار سیاسی سمجھوتوں (باغیوں کے ساتھ نہیں، افغان عوام کے ساتھ) خطرناک حد تک دور لے جاتی ہے۔

یہ مضمون 2001ء کے بعد کی مصالحانہ کوششوں کا ایک مختصر خلاصہ ہے اس میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ 2001ء کے بعد سے اب تک بین الاقوامی برادری اور افغان حکومت کس طرح کسی مربوط پالیسی پر کام کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ حتیٰ کہ یہ فیصلہ کرنے میں بھی کہ طالبان کے کس گروپ کو نشانہ بنایا جائے کس کو الگ تھلگ کیا جائے اور کس سے رابطہ کر کے بات کی جائے۔ مزید یہ کہ مصالحتی کوششیں بالعموم حقیقی قیام امن کی بجائے عام معافی اور ہتھیار ڈالنے تک محدود رہی ہیں ان میں وسیع قومی پروگرام کو تو مدنظر رکھا گیا لیکن اہم پوشیدہ محرکات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔(1) ان کوششوں میں جنگجوئوں کو اپنے اپنے گھر بھیجنے پر جو زور دیا جاتا ہے وہ بیکار بات ہے۔ سیاسی حل کو جلد انخلا کی حکمت عملی نہ سمجھا جائے کیونکہ اصل مقصد تو استحکام ہے۔ کامیابی کے لیے تمام فریقوں کے درمیان مسلسل رابطے کے عزم شورش اور سیاسی نظام کی پیچیدہ نوعیت کی فہم اور ایسی حکومتی کوششوں کی ضرورت ہو گی جن سے لوگوں میں شورش کی ممکنہ حمایت کو ختم کیا جا سکے۔

ابتدائی سال: ربط کی کمی
2001ء میں طالبان سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ سلوک بہت غیر منصفانہ ثابت ہوا۔ امریکی افواج نے نئے اتحادیوں کی مخبری پر فضائی حملے کئے یا لوگوں کو گرفتار کیا لیکن ان لوگوں (اتحادیوں) نے دراصل اپنی پرانی دشمنیاں نکالیں۔ ان اندھا دھند کارروائیوں کی ناکامی کی وجہ بھی ابتدائی امریکیوں کا الگ تھلگ ہونا تھا۔(2) طالبان کے کیمپ کے باورچیوں کو تو پکڑ لیا گیا لیکن ایک سابق بین الاقوامی ترجمان بھاگ کر ییل (YALE)پہنچ گیا۔(3) کچھ سابق طالبان لیڈر گوانتاناموبے میں قید کیے گئے اور کچھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے۔ ایسے فیصلوں کا کوئی شفاف معیار نہیں تھا۔ طالبان حکومت کے ارکان کے سرکاری عہدے سنبھالنے پر کوئی قانونی پابندی نہیں تھی۔ ایک سابق طالبان ثاقب نذیر اور گلبدین حکمت یار کے ایک ایلچی کو سینیٹ میں تعینات کیا گیا۔ (حکمت یار کی ''حزب اسلامی'' شورش میں شریک ہے) 2005ء کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں سابق حکومت کے کم از کم دو ارکان ایوان زیریں کے لیے منتخب ہوئے۔(4) اس کے بعد ضرب اسلامی کے ایک گروپ نے حکمت یار سے الگ ہونے کا دعویٰ کیا اور حزب اسلامی افغانستان کے نام سے ایک سیاسی جماعت رجسٹرڈ کرا لی اس کا دعویٰ تھا کہ 249 ارکان کے ایوان زیریں میں اسے تیس ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ حزب اسلامی میں پروفیشنلز اور ٹیکنوکریٹس کا غلبہ رہا ہے۔ اسکے کئی سابق ارکان نے انتظامیہ میں اہم عہدے سنبھال لیے۔ یہ مثالیں بدلتی شناختوں اور وفارادیوں کے اس پیچیدہ جالے پر روشنی ڈالتی ہیں جو 2001ء کے بعد کی حکومت پر چھایا ہوا تھا۔

حکومت ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر چل رہی تھی اس نے پوری کوشش کی کہ مصالحتی کوششوں میں کوئی اور شریک نہ ہونے پائے لیکن وہ ایک مساویانہ اور موثر نظام کے لیے سنجیدہ تذویراتی طریق کار فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ اس کی بجائے کھلے عام طالبان کی قیادت کو پیشکش کی جاتی رہیں اور چوری چھپے افراد کے ساتھ سودے بازی کی کوششیں ہوتی رہیں۔ مختلف بے ترتیب قسم کے جو پروگرام سامنے آئے ان کا مقصد اکثر و بیشتر حکومتی اداروں کو مضبوط بنانے اور بغاوت کے اسباب پر قابو پانے کی بجائے ان پسندیدہ نیٹ ورکس کو نوازنا اور ڈونرز سے زیادہ فنڈز حاصل کرنا تھا۔(5)

بین الاقوامی برادری کے ارکان نے بھی اتفاق رائے کے ساتھ کام نہیں کیا۔ انھوں نے کئی یک طرفہ دو طرفہ اور کئی طرفہ کوششیں کیں حالانکہ اس سلسلے میں قیادت کیلئے اقوام متحدہ کا امدادی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) موجود تھا۔ جسے یہ مینڈیٹ حاصل ہے:

''افغان حکومت درخواست کرے تو اسے امداد کے لیے خدمات فراہم کرنا، افغانوں کی قیادت میں مصالحتی پروگراموں پر افغان آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اور سلامتی کونسل کی 1999ء کی قرار داد 1267 میں بیان کردہ اقدامات کے پورے احترام کے ساتھ عملدرآمد۔''(6)

درحقیقت عملاً جو کوششیں ہوتی رہیں ان میں قرارداد 1267 (7) کو بالکل الگ رکھا گیا۔ جس میں فہرست میں شامل طالبان کے ارکان کے سفر پر پابندی عائد کرنے۔ ان کے اثاثے ضبط کرنے اور اسلحہ کی فراہمی بند کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ قرارداد افریقہ میں القاعدہ کی ہدایات پر حملوں اور طالبان کے مشتبہ افراد کو حوالے کرنے سے انکار پر تیار کی گئی۔ یہ واضح نہیں کہ کیا پابندیاں صرف سابق طالبان حکومت کے ارکان پر رہیں یا پھر جیسا کہ قرارداد 1267 کی کمیٹی کے سربراہ نے کی یہ فہرست القاعدہ اور طالبان کے پھیلائو کے مطابق ہونی چاہیے۔(8)

اس وقت کئی رکن ممالک نہ اس اس پر عملدرآمد یقینی بنا رہے ہیں اور نہ فہرست کو اپ ڈیٹ کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ 2003ء میں حکمت یار کا نام شامل کیا گیا لیکن طالبان کے ناموں پر بہت معمولی تبدیلی ہوتی ہے۔ بڑی طاقتوں میں سے صرف روس نے ایک واضح پالیسی اختیار کی ہے۔ اس نے کوئی نام حتیٰ کہ مر جانے والوں کے نام بھی خارج کرنے سے روکا ہے۔ آج طالبان سے منسلک 142 افراد کی فہرست کا موجودہ لڑائی اور موجودہ سیاسی ڈھانچے دونوں سے تعلق نہیں ہے۔(9) 2006-07ء میں ازرگان کے گورنر کے طور پر کام کرنے والے عبدالحکیم منیب(10) اور حکومت میں طویل عرصے کام کرنے والے دوسرے افراد کے نام تو فہرست میں موجود ہیں لیکن جنگجوئوں کی نئی نسل کے نام نہیں ہیں۔ اکتوبر 2007ء میں بین الاقوامی اور لبنان سیکورٹی ایجنسیوں کو انتہائی مطلوب بارہ باغیوں میں سے صرف دوکے نام اور باغیوں کے 58 اہم ترین لیڈروں میں سے صرف 19 کے نام فہرست میں ہیں۔

2005ء کا اطاعت پروگرام اور پروگرام تحکیم صلح
امریکی فوج کی طالبان کے ساتھ مصالحت کی ابتدائی کوششوں میں سے ایک 2005ء کا اطاعت پروگرام تھا۔افغانستان میں کمانڈر فورسز کے اس وقت کے چیف آف سٹاف کرنل ڈیوڈلیم نے بتایا کہ سفیر کو بریفنگ دینے اور افغان حکومت سے اجازت حاصل کرنے کے بعد کمانڈر نے تیزی سے سابق طالبان کے لیے ایک مصالحتی پروگرام تیار کیا اور افغان حکومت کو مرکزی کردار دیتے ہوئے ہر ماہ 80 سابق طالبان کو امریکی حراست سے رہا کرنے کا پروگرام شروع کیا۔(12) ان دنوں ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا کہ کرنل لیم کہتے ہیں کہ انہیں توقع ہے کہ موسم گرما تک اکثر طالبان عام معافی کی پیشکش قبول کر لیں گے۔ ان کے اندازے کے مطابق ان کی تعداد چند ہزار تھی۔(13)

ان کی جگہ لینے والی افغان حکومت نے اسی سال امریکی فوج سے قریبی رابطے کے ساتھ پروگرام تحکیم صلح (پی ایس ٹی) شروع کیا۔ اس کے سربراہ صبغت اللہ مجددی تھے جو صدر کرزئی کے جنگ کے زمانے کے دھڑے کے لیڈر اور ایک مذہبی رہنما تھے۔(14) مجددی نے ایک بار کہا کہ مصالحت میں ملا عمر اور حکمت یار تک کو شریک کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کوئی بڑی شرائط نہیں ہیں بس یہ ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔ آئین کا احترام اور حکومت کی اطاعت کریں۔(15) مجددی تو جلد ہی پیچھے ہٹ گئے۔ صدر کرزئی اس طرح کی پیشکشوں کا اعادہ کرتے آ رہے ہیں۔(16)

عملاً دونوں پروگراموں میں توجہ کا مرکز قیدیوں کی رہائی اور نچلے درجے کے جنگجو تھے۔ پی ٹی ایس کے تحت ستمبر 2007ء تک 4599 افراد سے مصالحت کا دعویٰ کیا گیا۔(17) پروگرام کی پیش رفت کا پیمانہ ان افراد کی ماہانہ تعداد ہے جن سے مصالحت ہو گئی۔ لیکن اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق جن افراد سے صلح کا دعویٰ کیا گیا ان میں سے پچاس فیصد تو حقیقی جنگجو تھے ہی نہیں۔ اس سے جنوبی اور مشرقی علاقوں کے ان قصوں کی تصدیق ہوئی کہ واپس آنے والے پناہ گزینوں اور دوسرے افراد کو لالچ یا دھمکی دے کر مصالحت ناموں پر دستخط کرائے گئے تاکہ زیادہ تعداد کے دعوے کیے جا سکیں۔(19)

پی ٹی ایس کا بعض مغربی ملکوں کے فراہم کیے ہوئے کروڑوں ڈالر کا بجٹ بدعنوانیوں کے مسلسل الزامات کا باعث رہا ہے۔ برطانوی حکومت کی اندرونی خط و کتابت میں اس پروگرام کے ایک صوبائی دفتر کے بینک اکائونٹ کھولنے کا ذکر بڑے معنی خیز انداز میں کیا گیا ہے۔(20)

اطاعت اور پی ٹی ایس دونوں پروگراموں میں نگرانی اور تکمیل کے بعد جائزہ لیتے رہنے (مانیٹرنگ) کی کمی تھی۔ جنوبی افغانستان میں سازش کے طور پر پھیلائی گئی ان افواہوں کو کہ طالبان امریکیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اس بات سے مزید ہوا ملی کہ جن لوگوں سے مصالحت ہو گئی ان میں سے کچھ کو جو شناختی کارڈ دیئے گئے وہ انگریزی زبان میں تھے۔(21) اس وقت سیکورٹی کی جو صورت حال تھی اس میں ہتھیار ڈالنے والوں کو صرف 1500 افغانی تقریباً 30 ڈالر کی پیشکش بہت کم تھی۔ پی ٹی ایس کا سینئر سٹاف چاہتا تھا کہ پیشکش رہائش، گاڑیوں اور تنخواہوں تک بڑھا دی جائے۔ اس کے نتیجے میں یہی ہونا تھا کہ انعام کی توقع میں زیادہ سے زیادہ لوگ ہتھیار اٹھا لیں۔ ان لوگوں کو باقی سے الگ کیسے کیا جاتا یہ واضح نہیں ہے۔(22)

متضاد پروگرام ۔ روابط کی کمی
ایسی غلط ترغیبات اور خصوصی انعامات کے تصور کے مضرات ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے پروگراموں کو ترک اسلحہ کی وسیع کوششوں سے مربوط کیا جائے۔ مثال کے طور پر مجددی پی ٹی ایس، نائب صدر کریم خلیلی کی سربراہی میں ترک اسلحہ اور بحالی کے کمیشن (ڈی آر سی) سے بالکل الگ تھا۔ ڈی آر سی ان علاقوں میں جہاں (غیر باغی) غیر قانونی مسلح گروپ غیر مسلح ہوئے تھے وہاں کمیونٹی کے لیے ترقیاتی منصوبے پیش کرنا تھا۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا تھا کہ شورش کے ہوتے ہوئے دوسرے گروپ غیر مسلح ہونے میں متاّمل تھے۔

باغیوں سے مصالحت کی کوششیں زیادہ تر فوجی اور سیکورٹی ایجنڈے پر مبنی تھیں۔ یہ انسانی حقوق کے حصول اور عبوری انصاف کے لیے اقدامات سے الگ تھیں۔ مثال کے طور پر دسمبر 2006ء میں شروع کیے گئے دور رس لیکن بالعموم نظر انداز امن مصالحت اور انصاف کے ایکشن پلان میں درحقیقت مصالحت چوتھا ستون تھا۔ اس پر کہا گیا کہ:
''پہلے قدم کے طور پر عبوری انصاف کی حکمت عملی کا مقصد قومی مصالحت اور امن کا قیام بقائے باہمی اور تعاون کی بحالی، متاثرین کے زخم بھرنا اور شہریوں کو معاشرے میں پرامن زندگی مہیا کرنا ہے۔''

تشدد کے تمام ادوار میں ایک ہم آہنگ سوچ کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے کردار کی چھان بین کے لیے مشترک معیار اور پیمانے اختیار کیے جائیں۔ فی الوقت اگرچہ اس بات پر عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ لاقانونیت اور انصاف نہ ہونا شورش اور بغاوت کا سبب بنتا ہے۔ باغیوں سے کسی سمجھوتے کا واحد معیار یہ ہے کہ آپ کس حد تک ان کو اپنے ڈھب پر لا سکتے ہیں۔

2007ء میں افغان پارلیمنٹ میں عام معافی کی جو قرار داد لائی گئی تھی اس کے لیے زیادہ تر وہ ارکان سرگرم تھے جو ''وارلارڈ'' اور کمانڈر رہے تھے اور جنہوں نے لاقانونیت کا بازار گرم کئے رکھا۔ انہیں دراصل اپنے انجام کی فکر تھی۔ غیرمعمولی طور پر اس میں ایسے لوگوں اور گروپوں کو عام اور مکمل معافی دی گئی تھی۔
''جو اب بھی اسلامی جمہوریہ افغانستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور اس چارٹر کے نافذ العمل ہونے کے بعد لڑائی بند کر کے قومی مصالحت کے عمل پر شریک ہوں گے اور آئین اور ملک کے دوسرے قوانین کا احترام اور ان پر عمل کریں گے۔''(23)

یعنی جنگجو اس وقت تک اپنی لڑائی جاری رکھیں گے جب تک وہ یہ محسوس کریں گے کہ یہ ان کے مفاد میں نہیں۔ انہیں اس بات کا اطمینان رہے گا کہ انہیں کوئی نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر قومی اسمبلی کی مذمت کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوششوں کے فریم ورک کا یہی تصور برقرار ہے جیسا کہ ایک تجزیہ کار نے کہا:
یہ دنیا کی بدترین بات ہو گی کہ نہ صرف وحشی کمانڈرز کو دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مامور کیا جائے بلکہ ''امن قائم کرنے کے لیے انتہائی متشدّد طالبان کمانڈرز کا غیر مشروط طور پر خیر مقدم کیا جائے۔(24)

اس سلسلے میں آخری حالیہ کوشش 2008ء کا "افغانستان سوشل آڈٹ ریج پروگرام "(ASOP) بھی وسیع تر حکومتی کوششوں سے باہر ہے۔ ASOP وردک اور ہلمند کے صوبوں میں شروع کیا گیا جس کے تحت ضلع کونسلیں نامزد کی گئیں تاکہ وہ:
''عوام اور ریاست کے درمیان فاصلہ ختم کر کے استحکام اور سلامتی یقینی بنائیں۔ روایتی قیادت کے کردار اور حکومت کے تعلقات کو مضبوط بنائیں اورباغیوں کی طرف سے تباہی کے خطرے کی روک تھام کریں۔''(25)
البتہ ASOP "انڈیپینڈنٹ ڈائریکٹوریٹ آف لوکل گورنس "کے ڈھانچے کا حصہ نہیں اگرچہ اس کی نگرانی یہی ایجنسی کرتی ہے۔(26)

عوام کے مقامی نمائندوں کو ان کے مسائل پیش کرنے اور اپوزیشن کو آواز اٹھانے کا موقع دینے کے لیے ملک بھر میں آئینی ڈسٹرکٹ کونسلوں کے انتخابات 2011ء میں کرانے کا پروگرام ہے لیکن ان کے لیے ضروری تیاریاں نظر نہیں آ رہیں۔ اس کے برعکس متوازی ASOP کونسلیں جومخصوص صوبوں میں ترجیحاً عارضی طورپر ڈسٹرکٹ گورنروں نے نامزد کیں۔(27) وہ عوام تک حقیقی رسائی نہیں دیتیں بلکہ اوپر سے سرپرستی کے عمل کا تسلسل لگتی ہیں۔ وردک میں اس پروگرام کے ایک جائزے کے دوران جن افغانوں سے رائے لی گئی انہوں نے کہا سب سے زیادہ تشدد والے علاقوں میں ایسے پروگراموں کی کیا تک ہے۔ عوام اور ریاست کے درمیان فاصلہ سارے ملک میں ہے، یہ صرف غیر محفوظ علاقوں تک محدود نہیں۔ انہوں نے کہا ''پہلے نسبتاً محفوظ علاقوں کو باغیوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا جائے۔''(28)

عوام جس بات پر زور دے رہے ہیں وہ وسیع تر معاملہ ہے کہ شورش کو علامات مرض کی بجائے خود بیماری سمجھا جا رہا ہے۔ افغانستان مختلف النوع خطوں پر مستقل کشیر نسلی ریاست ہے جو تین عشروں سے زیادہ عرصے سے مسلسل جنگ و جدل اور توڑ پھوڑ کا شکار ہے۔ اس کے پیچھے جو عوامل ہیں ان سے نمٹے بغیر صرف تشدّد پر توجہ دینی غیر ضروری ہے۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بغاوت کو کچلنے کی فوجی کوششوں میں باغیوں پر نہیں عام لوگوں کے تحفّظ پر توجہ دی جانی چاہیے۔ سیاسی حکمت عملی میں بھی اس منطق کے تحت متّشدد عناصر کی بجائے مقامی آبادی اور اسے بااختیار بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔
جوانا ناتھن 2003ء سے کابل میں پہلے" انسٹی ٹیوٹ فار وار اینڈ بیس رپورٹنگ" اور پھر "انٹرنیشنل کرائسس گروپ" کی سینئر تجزیہ کار کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی کے وڈروولسن سکول میں ماسٹر آف پبلک پالیسی کا آغاز کیا ہے۔

حوالہ جات
-1 جگہ کی کمی کی وجہ سے اس مضمون میں علاقائی معاملات پر بحث نہیں کی جائے گی۔ درحقیقت جب طویل مدتی استحکام کے لیے بیرونی مدد ضروری ہوتی ہے تو بالعموم ایسا اندرونی اقدامات سے گریز کے لیے بہانہ بن جاتا ہے۔
-2 International Crisis Group, "Afghanistan: The Problem of Pashtun Alienation,: August 5, 2003; Martine Van Bijlert, "Unruly Commanders and Violent Poer Struggles: Taliban Networks in Uruzgan," in Antonio Giustozzi, De-coding the New "Taliban: Insights from the Afghan Field (London: Hurst and Co, forthcoming). Van
بجلرٹ صوبہ ازگان کا احوال تفصیلاً بیان کرتا ہے۔
-3 "Guantanamo Prisoner says Taliban Forced him to be a Cook," Associated Press, August 11, 2005; Chip Brown, "The Freshman," New York Times, February 26, 2006.
اس کیس میں مشتبہ شخص کو امریکی فوجی ٹربیونل کے سامنے بظاہر معاون با ورچی ہونے کے الزام میں پیش کیا گیا۔
-4 جیتنے والے زابل کے کمانڈر ملا اسلام راکٹی اور طالبان کے بامیان کے ساتھ گورنر محمد اسلام محمدی تھے۔ محمدی بعد میں قتل ہو گئے۔ ان لوگوں میں جو کھڑے ہوئے لیکن ہار گئے سابق طالبان وزیرِ خارجہ وکیل احمد متوکل سابق نائب وزیر داخلہ ملا خاکسار اور طالبان کے محکمہ امر بالمعروف و انہی عن المنکر کے سربراہ مولوی قلم الدین شامل تھے۔ ملا خاکسار بھی قتل ہو گئے تھے۔
-5 موجودہ سیاسی ڈھانچے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے دیکھیے:
Martine Van Bijlert, "Between Discipline and Discretion: Policies Surrounding Senior Subnational Appointment," Afghanistan Research and Evaluation Unit (AREU), May 2009; Antonio Giustozzi and Dominique Orsini, "Centre Periphery Relations in Afghanistan: Badakhshan between Patrimonialism and Institution Building. "Central Asian Survey, March 2009.
-6 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد 1868 (2009ئ)
-7 مزید معلومات کے لیے دیکھیں:
"Security Council Committee Established Pursuant to Resolution 1267 (1999) Concerning al-Qaeda and the Taliban and Associated Individuals and Entities," available at:
www.un.org/sc/committees/1267/index.shtml.
-8 "Statement by the Chariman of the [1267] Committee Delivered at Briefing to Member States," United Nations, July 1, 2009, available at:
www.un.org/sc/committees/1267/index.shtml.
-9 فہرست ہمیشہ عارضی قسم کی ہوتی تھی۔ فوجی عہدوں کی بجائے حکومت میں انتظامی عہدے رکھنے والوں پر توجہ دی جاتی۔ مثلاً ملا داد اللہ نے بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے تباہ کئے اور مقامی ہزارہ برادری کے لوگوں کا قتل عام کیا۔ وہ 2001ء کے بعد طالبان کا جنوبی علاقے کا کمانڈر بھی بن گیا لیکن اس کا نام کبھی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
-10 دیکھیں: Colum Lynch, "UN, US actions Sometimes at Odds over Afghan Policy," Washingtion Post, July 5, 2007.
-11 "Letter Dated 13 May 2008 from the Chairman of the Security Council Committee Established Pursuant to Resolution 1267 (1999) Concerning al-Qaeda and the Taliban and Associated Individuals and Entities Addressed to the President of the Security council," United Nations, available at:
daccessdds.un.org/doc/UNDOC/GEN/NO8/341/88/ PDF/NO834188.pdf?OpenElement.
-12 Colonel David Lamm, "Success in Afghanistan Means Fighting Several Wars At Once," Armed Forces Journal, November 2005.
-13 Victoria Burnett, "US Extends an Olive Branch to Taliban Moderates," Boston Globe, January 2, 2005.
-14 لاکھوں پروگراموں پر Carlotta Gall, "The Taliban's Rocky Road Back to Afghan Reconciliation," New York times, March 21,2005. میں بحث کی گئی ہے۔
-15 طالبان لیڈر کو معافی کی پیشکش بی بی سی 9 مئی 2005
PTS پروگرام کی کوئی سرکاری ویب سائٹ نہیں ہے۔ مجددی کی آن لائن سوانح عمری میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کو اپنے قیام کے بعد طالبان کے ہزاروں حامیوں اور اتحادیوں کو ہتھیار ڈال دینے پر قائل کرنے میں زبردست کامیابی ہوئی۔ اس کے علاوہ کمیشن نے سینکڑوں افغان قیدیوں کو افغانستان اور بیرون ملک جیلوں اور حراستی مراکز سے رہا کرایا۔ جن لوگوں نے مصالحت کر کے تشدد ترک کر دیا آج پر امن زندگی گزار رہے ہیں۔ دیکھیے:
"Biography of Professor Sibghatullah Mujaddedi," available at
www.mojaddedi.org.
-16 Ron Synoviz. "Karzai Confirms Amnesty Offer is for all Willing Afghans," Radio Free Europe, May 10, 2005.
-17 "Information Relating to British Financial Help to Afghan Government in Negotiations with the Taliban," Foreign and Commonwealth Office, July 8, 2008, p.l.
-18 ایضاً، ص13
-19 جلال آباد اور قندھار میں 2007 اور 2008ء میں شہریوں سے ذاتی انٹرویوز۔
-20 اس میں مزید کہا گیا ہے کہ جب مئی 2005ء میں پی ٹی ایس کمیشن قائم ہوا تو ایک بنک اکائونٹ کھولا گیا لیکن ڈونرز نے امریکی ڈالرز میں فنڈنگ کو ترجیح دی۔ اس کے نتیجے میں احتساب اور شناخت کے کئی مسائل پیدا ہوئے۔ دیکھیے:
"Infromation Relating to British Financial Help to Afghan Government in Negotiations with the Taliban." p.8.
-21 قندھار اور لشکر گاہ میں شہریوں سے ذاتی انٹرویوز 2006-07ئ۔
-22 پی ٹی ایس کے سینئر عہدیداروں سے کابل اور علاقائی دفاتر میں ذاتی انٹرویوز 2006ء اور 2008ئ۔
-23 دیکھیے عام معانی کی قرارداد آرٹیکل 3(ii)
اس بل / قرارداد کی حیثیت واضح نہیں ہے۔ افغان حکومت نے مئی 2009ء میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں رپورٹ پیش کی کہ اگرچہ قومی اسمبلی نے قومی مصالحتی بل کی منظوری دی، صدر نے اس پر دستخط نہیں کیے بلکہ بعض غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں 2008ء میں اس پروگرام پر عملدرآمدنہیں ہوا۔ دیکھیے:
"National Report Submitted in Accordance with paragraph 15(A) of the Annex to the Human Rights Council Resolution 5/1," (Universal Periodice Review), United Nations Human Rights Councial Working Group on the Univerisal Periodic Review, (A/HRC/WG.6/5/AFG/1), p.10.
-24 Van Bijlert, "Unruly Commanders."
-25 "Assessment Report on Afghanistan Social Outreach Program," The Asia Foundation, Novermber 10,2008.
-26 "Draft Subnational Governance Policy," Islamic Republic of Afghanistan, May 20,2009.
-27 جائزے میں کہا گیا ہے ''ایسے مواقع پر انتہائی اونچے درجے کے حکام (وزراء کی سطح کے) کمیونٹی کونسل کے ارکان کی سفارش کرنے میں ملوث تھے۔ معاملے کی حساس سیاسی نوعیت کی وجہ سے ان کے نام نہیں دیئے گئے۔ دیکھیے:
"Assessment Reoprt on Afghanistan Social Outreach Program."
-28 ایضاً