working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

تعلیم کے بارے میں سوچنا منع ہے
خالد احمد
پاکستان میں تعلیمی نظام ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے نہ صرف تعلیمی نظام بلکہ پاکستان میں شرح تعلیم کے بارے میں بھی مختلف اعداد و شمار پائے جاتے ہیں یہ بات بھی اس قدرباعثِ تشویش نہیں جس قدر یہ کہ نظام تعلیم دراصل ہونا کس طرح کا چاہہیے۔ خالد احمد کے بقول پاکستانی استاد یا ماہر تعلیم ملک میں تعلیم کے تین نظام دیکھتا ہے تو غصے سے اس کا خون کھولنے لگتا ہے۔ وہ سب کے لیے واحد نظام تعلیم کی سفارش کرتا ہے۔ یہ واحد نظامِ تعلیم کیا ہے۔ یہ مضمون اسی سلسلے میں ہی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ (مدیر)
دو موضوعات ایسے ہیں جن پرگفتگو پاکستانیوں کے لیے ممنوع ہونی چاہیے۔ایک ہے ریاست کی نوعیت اور دوسرا تعلیم۔ چونکہ اسلام میں ریاست کی تھیوری زیادہ واضح ہے اس لیے اس بارے میں بات چیت جلد ہی کج بحثی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس کے بعد کفر کے فتوے شروع ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں میں اس امر پر عجیب اتفاق پایا جاتا ہے کہ دنیاوی اور دینی مدارس میں کوئی دوئی نہیں چنانچہ تعلیم کو بھی مذہب سے الگ نہیں کیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم کی ناگفتہ بہ حالت کو بہتر بنانے کیلئے جو بھی حل تجویز کیے جاتے ہیں خود تعلیم کا شعبہ ان کی راہ میںرکاوٹ بن جاتا ہے۔

پاکستانی استاد یا ماہر تعلیم ملک میں تعلیم کے تین نظام دیکھتا ہے تو غصے سے اس کا خون کھولنے لگتا ہے وہ سب کیلئے واحد نظام کی سفارش کرتا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ یہی پاکستان کیلئے موزوں ترین ہے۔ لیکن وہ اس نتیجے پر کس طرح پہنچا ہے وہ اس کی وضاحت نہیں کرتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سوال اس سے کوئی کرتا بھی نہیں ہے۔ تین نظام ، مدارس، سرکاری سکول اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں وہ پہلے کو تو چھوڑ دیتا ہے لیکن تیسرے پر برستا ہے کہ اس کی بنیاد طبقاتی امتیاز پر ہے ایلیٹ سکولوں کو سبھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں حتیٰ کہ مدرسوں کے مخالف بھی۔ایلیٹ کہلانے والے سکول انگلش میڈیم بھی ہیں ان کی نظریاتی بنیاد کے علاوہ سیکھنے کی تھیوری کی بناء پر بھی مخالفت کی جاتی ہے۔ ماہرین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو سمجھتے ہیں کہ انگریزی نو آبادیاتی دور کی باقیات میں سے ہے جو مغرب اور بالخصوص امریکہ کی غلامی سکھاتی ہے۔ گویا انگریز اپنے دور میں اپنی زہریلی زبان کے ذریعے اکیسویں صدی میں امریکی غلامی کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں۔
سیکھنے کی تھیوری کا فسانہ
اس تھیوری پر یقین رکھنے والے انگریزی کی اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں مادری زبان کے سوا کسی زبان میں تعلیم غیر مؤثر ہوتی ہے۔ لیکن وہ مادری زبان اردو کو قرار دے دیتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اردو بیشتر پاکستانیوں کی ماردری زبان نہیںہے۔اگر وہ اردو کو بطور ذریعہ تعلیم قبول کرلیتے ہیں تو پھر انگریزی کو بھی رد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب وہ بحث کے اس مشکل مرحلے میں پہنچتے ہیں تو پارہ چڑھنے لگتا ہے فاتحین کی زبانیں مثلاً عربی ، فارسی اور انگریزی معاشرے میں نفوذ کرتی ہی جاتی ہیں اور پھر انگریزی تو عالمی زبان بھی ہے۔

دوسری طرف ''مکار بھارت'' انگریزی کو جبر نہیں سمجھتا بلکہ دنیا میں اس کا جو اثر و رسوخ ہے اس کی وجہ بھارت میںانگریزی کا بہت زیادہ رواج بھی ہے۔ ''ملٹی نیشنل'' بھارتی جو فارمولا ون کاروں ور یورپ میں جائیدادوں کا مالک ہے بے شرمی سے اپنے نو آبادیاتی آقاؤں کی طرح انگریزی بولتا ہے۔ذریعہ تعلیم کے سلسلے میں پاکستانی مسلمان خائف ہیں لیکن موجودہ تین نظاموں کی جگہ ایک نظام رائج کرنے کی تجویز بھی ناقص اور خطرناک ہے۔

مساوات کے بغیر انہدام
پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی ماہر تعلیم (ویسے ہر مسلمان خود کو ماہر تعلیم سمجھتا ہے) ان مدرسوں کی طرف تو انگلی اٹھا نہیں سکتا جہاں ممبئی سے حال ہی میں واپس آنے والے کلاشنکوف بردار نان سٹیٹ ایکٹروں میں گھرے ہوئے طاقتور علماء غیر ملکیوں سے ملنے والے ڈالروں کے ڈھیر پر آرام فرما ہوتے ہیں اگر کوئی انگلی اٹھائے گا تو وہ کاٹ دی جائیگی اس لیے وہ غریبوں کو تعلیم دینے والے اردو میڈیم سرکاری سکولوں اور نجی شعبے کے انگلش میڈیم سکولوں (جہاں نسبتاً آسودہ لوگ اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں کے درمیان فرق پر غور کرتا ہے۔ان کا آئیڈیا یہ ہے کہ تینوں نظاموں کی جگہ سب کیلئے یکساں نظام بنایاجائے۔ یہ خیال بہت اچھا، مساوات پر مبنی اور انقلابی قسم کا لگتا ہے۔ لیکن اس کا ایک تباہ کن طالبانی پہلو بھی ہے ۔مدرسوں کو الگ چھوڑ کر ماہرین تعلیم اور سیاستدان تعلیم کے دو اداروں کوایک سطح پر لے آئیں گے۔ سرکاری سکولوں کی حالت کو دیکھیں تو امکان ہے کہ کچھ انقلابی عمل ظہور پذیر ہوگا۔ جب انقلاب فرانس میں اشرافیہ کو قتل کیا جانے لگا تو ایڈمنڈبرک نے کہا تھا انقلاب مساوات لائے بغیر معاشرے کو منہدم کررہا ہے۔

اسلامائز اینڈ کل پالیسی
پاکستان کے لیے واحد نظام تعلیم کے نظریے کے پیچھے بھی یہ منصوبہ ہے کہ انگلش میڈیم دھارے کو تباہ کرکے تعلیم کے قومی دھاروں کو منہدم کردیاجائے۔طلب کم ہونے اور تعلیم میں ریاست کا کردار بڑھنے کے نتیجے میں اس شعبے سے سرمایہ نکالا جائے گا۔ یار رکھیں کہ تعلیم کو کلی طور پر ریاست نے سنبھال لیا تو یہ مدرسے کے تحت ہو جائے گی۔، اس لیے نہیں کہ مدرسہ روزگار یقینی بناتا ہے اس لیے بھی کہ یہ طاقتور ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ تک خبر نہ پہنچی ہو یونیورسٹیاں پہلے ہی مغلوب ہوچکی ہیں کوئی قاری اسے عام سی غیر اہم بات سمجھتا ہے تو وہ تعلیمی پالیسی 2009 ء میں شامل کیا گیا باب چہارم دیکھے جس کے مطابق اسلامیات ہر سطح پر لازمی مضمون ہوگا انگلش میڈیم ادارے بلکہ خصوصی پیشہ وارانہ تعلیمی ادارے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوں گے۔ باغی ماہرتعلیم ڈاکٹر اے ایچ نیرّ کہتے ہیںکہ نصاب میں جہاد پر زور دیا گیا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت صرف اس لیے خودکشی کرنا چاہتی ہے کہ اس کے لیڈروں کے لیے مدرسوں کا پیدا کرہ خوف و ہراس نا قابل برداشت ہے۔

انسانیت مقصد ہی نہیں
پیپلزپارٹی کے لیڈروں کا خوف حقیقت پسندانہ ہے۔شائد مزید ایک آدھ دن اقتدار کیلئے اکیسویں صدی کی تعلیمی پالیسی میں انتہائی ریاست دشمن جہادی تصور شامل کرنا جائز ہو۔ لیکن یہ انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کی قیمت پر کیوں ہو ایک ماہر شاہد کار دار کے مطابق پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنی پراسپکٹس میں شامل تمام وعدے تو پورے نہیںکررہے پھر بھی ان کا معیاربہتر ہے۔ڈاکٹر طارق رحمن انگلش میڈیم سکولوں کو پسند نہیں کرتے اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ یہ ادارے کریم النفس اور ہمدرد طالب علم پیداکرتے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا نقطہ نظر ہے کہ مسلمان خالص(Pure) سائنسوں کی طرف اس لیے نہیں جاتے کہ یہ دماغ کو آزاد کرکے تشکیک پیداکرتی ہیں ایران کے سائیگان اس کے ثبوت پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اکثر ایرانی ٹیکنالوجی سیکھ کر اسے شکوک سے تحفظ کے لیے جادو کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اکثرمسلمان سائنس دان محمد ڈاکٹر عمرانیات پڑھنے والوں سے زیادہ کٹّر مسلمان ہیں۔سائنس دان اسلامی ہونا چاہتے ہوں تب بھی انہیں سرکاری سکولوں میں صرف لازمی انگریزی کا ایک مضمون پڑھنے کے بعد ساری سائنس انگریزی میںپڑھنا پڑتی ہے۔

تعلیم بمقابلہ نیوکلیائی معجزہ
پروفیسر پرویز ہود بھائی نے ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ہمارے سب سے بڑے سائنس دان سلطان بشیر الدین کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ وہ صرف ایک جن سے پورے پاکستان کے لیے بجلی حاصل کرسکتے ہیں اور تربیلا ڈیم کے نیچے ایک ایٹم بم چلا کر اس کی بھل صفائی کرسکتے ہیں۔ ایسے ہی دھماکے سے گوادر کے ساحل کو بھی ٹھیک کرسکتے ہیں ۔ سلطان بشیر الدین اسامہ بن لادن سے راہ و رسم بڑھانے پر پکڑے گئے تھے اور اب ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی طرح مقید زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اپنے اخباری کالموں میں بھوپال کے مافوق الفطرت واقعات بیان کرتے رہتے ہیں۔مسلمانوں پر تعلیم کی بے اثری کی کوئی شہادت چاہیے؟

14 اگست 2009 ء کے روز نامہ ایکسپریس میں عباس اطہر نے اپنے کالم میں لکھا کہ پاکستان کے بڑے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک نے ایک تقریب میں حاضرین کو بتایا کہ ایک دفعہ وہ ایٹمی تجربے کیلئے خاران گئے ہوئے تھے عملے کے کھانے کیلئے صرف پانچ مرغیاں مل سکیں۔ وہ پکائی گئیں اللہ نے اتنی برکت ڈالی کہ 183 افراد نے کھانا کھا لیا۔ پھر بھی برتن بوٹیوں سے بھرا ہوا تھا۔

تینوں نظام چلنے دیں
انسانیت کی خاطر درخواست ہے کہ پاکستان میں تینوں نظام چلنے دیئے جائیں ایک نظام مدرسہ تو اس لیے قائم رہے گا کہ وہ بہت طاقتور ہے ۔اسے ملازمتوں کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے طلباء تو اس ریاست پرراج کریں گے جو ڈر کے مارے جہاد کی تعلیم دیتی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق سے پوچھیں کہ وہ سرکاری تعلیم کے نظام کی سربراہی کرتے ہوئے کیامحسوس کرتے ہیں جب سکولوں اور کالجوں میں کوئی نہیں پڑھا رہا ہوتا اور غیر حاضر اساتذہ اکثرکراچی کی سڑکوں پر گریڈ بڑھانے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔

تمام مسلمان''ماہر تعلیم'' ہوتے ہیں ۔ ہر شخص ایک امتناعی وعظ کرتا ہوا عامر لیاقت حسین بن چکا ہے۔ بہتر تو یہ ہو گا کہ ایسے لوگوں کو تعلیم کی منصوبہ بندی سے دور ہی رکھا جائے لیکن ایسا نہ ہوسکے تو وہ کیا جانے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے1990 ء کے عشرے میں کہا تھا انہوں نے نہ چلنے والے سرکاری سکول فلاحی کام کرنیوالی این جی اوز کے حوالے کردیئے تھے۔

تعلیم کا وہ واحد دھارا جو کام کررہا ہے اسے آہستہ آہستہ توسیع دینی چاہیے۔ سندھ میں پیر مظہر الحق نے ایک سکول پاپ سنگر شہزاد رائے کی ذاتی تنظیم کو دے کر اچھا کیا ہے اس کے طلباء کیلئے یہ بہت اچھا رہا ہے تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کا حصہ صرف ایک چوتھائی ہے۔آزاد کشمیرمیں سرکاری شعبے کے سکول کافی اچھے تھے انہیں 2005 ء کے زلزلے نے تباہ کردیا۔ اس کے بعد صوبہ سرحد کے سکول آتے تھے جنہیں طالبان نے تباہ کردیا۔ مدرسہ ''پیک مین'' کی طرح سکول کو کھا گیا۔

اگر مدرسے کسی سرکاری کنٹرول کے بغیر چل سکتے ہیں تو نجی شعبے کے سکولوں پر بھی کوئی کنٹرول نہیںہونا چاہیے۔ مسلمان ریاست چلا سکتے ہیں اور نہ تعلیم کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔پاکستان کی ریاست عارضی طور پر اس وقت تک چل رہی ہے جب تک اسلامی مفکر مدرسے کے اندر ہے یا قبائلی علاقے میں چھپتا پھر رہا ہے۔ سرکاری شعبے میں تعلیم کا برا حال ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں یہ پھر بھی ٹھیک چل رہی ہے۔ اسے چلنے دیں۔