working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

جنوبی پنجاب ایک اور سوات بننے والا ہے
عائشہ صدیقہ
کچھ عرصہ سے اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ جنوبی پنجاب نہ صرف دہشت گردوں کی بڑی پناہ گاہ بن چکا ہے بلکہ یہاں قائم مدرسوں میں ان کی پنیری بھی تیار ہو رہی ہے جو آئندہ چند برسوں میں ایک تیار فصل کی شکل اختیار کر جائے گی اور پھر مقولے کے مصداق ہمیں جو بویا ہو گا وہ کاٹنا پڑے گا …
کیا واقعی جنوبی پنجاب عسکریت پسندی کی زد میں ہے، اور کیا واقعی جنوبی پنجاب ایک اورسوات بننے جا رہا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو بحیثیت مجموعی ہم سے جواب طلب کر رہے ہیں۔ عائشہ صدیقہ ذاتی ریسرچ اور سروے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ اس میں بہت زیادہ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب میں شہادت کے لیے تیار نوجوانوں کے لشکر تیار کرنے والے یہ مدرسے چند سالوں سے بڑھتے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ درحقیقت جنوبی پنجاب جہادیت کا گڑھ بن چکا ہے اور چار بڑی عسکریت پسند تنظیمیں بلا روک ٹوک کام کر رہی ہیں۔ تاہم اس ساری صورت حال کی وضاحت کے باوجود دہشت گردوں سے متعلق اس علاقے میں موجودگی کے بارے میں ہنوز دو آراء پائی جاتی ہیں اور بعض لوگ اس بات سے قطعی اتفاق نہیں کرتے کہ یہ علاقہ اس طرح کی سرگرمیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ اس میں کس حد تک حقیقت ہے۔ عائشہ صدیقہ کے اس تجزیاتی اور تحقیقاتی مضمون سے بہت سے حقائق ہمارے سامنے روشن ہوتے ہیں۔ (مدیر)

چند سال پہلے میری ملاقات بہاولپور میں اپنے گائوں کے چند نوجوانوں سے ہوئی جو جہاد پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا وہ وہ آنکھیں بند کر کے اپنے مستقبل کا تصور کریں تو انھوں نے ترحّم آمیز مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ''ہم آنکھیں بند کیے بغیر بھی آپ کو بتا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنا مستقبل کچھ نظر نہیں آتا'' یہ قطعاً حیران کن نہیں تھا۔ جنوبی پنجاب غربت اور پسماندگی میں دھنسا ہوا خطہ ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بہت کم ہیں۔ حکومت نے جو چند ایئرپورٹس اور ہسپتال تعمیر کر دیے ہیں ان کی حیثیت محض نمائشی ہے۔ اقتصادی جمور کے شکار ایسے ہی علاقے مذہبی انتہا پسندوں کے لیے زرخیز زمین ہوتے ہیں جہاں ان کے نظریات پھل پھول سکتے ہیں۔

پہلا قدم بھرتی ہوتا ہے۔ اس کا طریق کار بہت سیدھا سا ہے۔ نو عمر بچے بلکہ مرد بھی قریبی قصبوں کے مدرسوں میں لے جائے جاتے ہیں۔ جہاں انہیں ان کے گھروں کے مقابلے میں بہت بہتر حالات میں رکھا جاتا ہے اور اچھا کھلایا پلایا جاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حکمت عملی ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھروں کے حالات کا عسکریت پسند تنظیموں کے فراہم کردہ حالات سے موازنہ کریں۔ اس کے بعد ان بچوں کی کسی مدرسے میں نظریاتی تعلیم ہوتی ہے۔ یہ بچے اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کو بھی لاتے ہیں اور یہ سلسلہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔

پنجاب میں شہادت کے لیے تیار نوجوانوں کے لشکر تیار کرنے والے یہ مدرسے چند سالوں سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ درحقیقت جنوبی پنجاب جہادیت کا گڑھ بن چکا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں اب بھی بہت سے لوگ اس خطرے کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔ چار بڑی عسکریت پسند تنظیمیں سپاہ صحابہ پاکستان، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور لشکر طیبہ بلا روک ٹوک جنوبی پنجاب میں کام کر رہی ہیں۔

باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جنوبی پنجاب کے پانچ سے نو ہزار نوجوان افغانستان اور وزیرستان میں لڑ رہے ہیں۔ معروف پاکستانی محقق حسن عباس کا کہنا ہے کہ یہاں کے نو ہزار نوجوان وزیرستان میں ہیں۔ یہ علاقہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی، بھرتی اور لاجسٹک سپورٹ کے لیے بہت اہم بن گیا ہے۔

حسن عباس نے قائم ہونے والے سرکاری ادارے نیشنل کائونٹرٹیررازم اتھارٹی (این سی ٹی اے) کے سربراہ طارق پرویز کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے پرانے جہادی القاعدہ کے تیار کردہ دہشت گردی منصوبوں پر عملدار کی حکمت عملی تیار کرتے اور افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ القاعدہ ہی سرمایہ بھی فراہم کرتی ہے۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ 1988-89 میں خوست فتح کرنے والی فورس میں جنوبی پنجاب کے کئی کمانڈر شامل تھے جو گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی سمیت کئی افغان وارلارڈز کے لشکروں میںشامل رہے۔ اب بھی چاروں متذکرہ بڑی تنظیمیں افغانستان میں برسرپیکار ہیں۔

متذکرہ بالا حقائق سے صوبائی اور وفاقی حکومتی اور فوج ناواقف نہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے جنوبی پنجاب کی صورتحال سوات جیسی بتائی تھی۔ آئی جی پنجاب نے کہا تھا کہ یہ کہنا درست نہیں۔ شاید یہ اعلیٰ پولیس افسر اپنے باس کی تردید نہیں کر رہے تھے بلکہ نیویارک ٹائمز کی سبرینا ٹیورنیز کی اس رپورٹ کی تردید کر رہے تھے جس میں جنوبی پنجاب بالخصوص ڈیرہ غازی خان میں جہادیت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر پاکستانی میڈیا نے بھی ردعمل کا اظہار کیاتھا۔ کوئی بھی یہ نہیں سمجھا کہ جنوبی پنجاب کو بجاطور پر سوات سے ملایاجا رہا ہے۔ تشدد کی وجہ سے نہیں بلکہ ان عناصر کی موجودگی کی وجہ سے جو معاشرے اور ریاست کو کسی اور سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔

ایک انگریزی روزنامے نے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر ردعمل کے طور پر ایک صحافی کو جنوبی پنجاب بھیجا جس نے کئی مضامین لکھے جن میں مسئلے کے تجزیے کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے ایک مضمون میں بہاولپور کے ریجنل پولیس آفسر (آر پی او) مشتاق سکھیرا سے گفتگو شامل تھی جنہوں نے اس بات کی تردید کی کہ جنوبی پنجاب میں طالبانائزیشن کا کوئی خطرہ ہے اورکہا کہ اس طرح کی رپورٹیں محض مغربی پریس کی خیال آرائی ہے۔ بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔ اس کی پانچ وضاحتیں ہیں:

اوّل یہ کہ پالیسی ساز اور رائے عامہ بنانے والے مسئلے کی سنگینی سے مسلسل انکاری ہیں۔ مزید یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے زیادہ تذکرے سے یہ امریکہ کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ اس لیے اس خطے میں جہادیوں کی سرگرمیوں کی واقعاتی شہادتیں ڈھونڈنا تو مشکل ہے۔ ہم صرف بعض واقعات سے کچھ معلومات حاصل کر سکتے ہیں مثلاً میاں چنوں کے مدرسے میں جو دھماکہ ہوا اس کے اسلحہ کا پتہ چلا جو مدرسے کے مالک نے وہاں ذخیرہ کر رکھا تھا۔
دوسرے یہ کہ پولیس آفیسر مشتاق سکھیرا اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کو خطرہ اس لیے نظر نہیں آتا کہ پنجاب کی جہادی تنظیمیں یہیں کی ''جم پل'' ہیں اور افغانستان کی جنگ سے براہ راست منسلک نہیں سمجھی جاتیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے جہادی 1980ء کے عشرے سے افغان جہاد سے منسلک چلے آ رہے ہیں اوران کی اکثریت اب بھی افغانستان میں لڑ رہی ہے۔

تیسری بات یہ کہ چونکہ یہ تمام تنظیمیں آئی ایس آئی نے جنرل ضیاء الحق کے اسلامائزیشن کے عمل کو تقویت پہنچانے کے لیے بنائی تھیں اور یہ پہلے شیعہ برادری کو نشانہ بنا کر ایران کے خلاف سعودی عرب کی پراکسی وار لڑتی رہیں اور بعدمیں کشمیر میں مصروف ہو گئیں۔ اس لیے حکام کو اطمینان ہے کہ یہ کبھی قابو سے باہرنہیں ہوں گی۔ جو کنٹرول سے نکل جاتی ہیں وہ الگ تھلگ کر دی جاتی ہیں۔ اس کی مثال الفرقان ہے جو پرویز مشرف کے قتل کی دوسری کوشش میں ملوث تھی۔ یہ گروپ قیادت میں اثاثوں، اختیارات اور حکمت عملی کے اختلافات کی وجہ سے جیش محمد سے ٹوٹ کر بنا تھا۔ اسی لیے ضلعی حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مئی 2009ء میں بہاولپور میں الفرقان کے ضلعی امیر کو قتل سے چشم پوشی کی کے جہاں تک جیش محمد کا تعلق ہے اس کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے برقرار ہیں۔ وہ گروپ جوکشمیر کاز اور بھارت سے تصادم کا نصب العین رکھتے ہیں ہر صورت میں قائم رہیں گے۔ لشکر طیبہ کے بارے میں بھی یہی بات کی جا سکتی ہے لیکن یہ تنظیم دوسرے علاقوں میں بھی مصروف عمل ہے۔ مثلاً 2004ء سے افغانستان کے صوبوں کنٹر اور بدخشان میں۔
چوتھی بات یہ کہ حکومت آپریشنل سطح پر طالبانائزیشن کی تعریف کے سلسلے میں واضح نہیں ہے جس کا اظہار اس معاملے پر بحث مباحثے میں ہوتا ہے۔ آر پی او سمیت کئی لوگ اس عمل کو کسی مسلح گروپ کے طاقت کا استعمال کر کے کسی علاقے میں رہن سہن کا انداز تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ چونکہ پنجاب میں عسکریت پسند تنظیمیں پیروں فقیروں، طوائفوں اور ڈرگ مافیا کو چھیڑے بغیر چل رہی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ صوفی محمد اور مولانا فضل اللہ یا بیت اللہ محسود کے نقش قدم پر چلیں گی۔

چونکہ حکام صرف اس طریق کار کوجانتے ہیں جو وارلارڈز نے افغانستان میں یا پھر پاکستانی قبائلی علاقے میں اختیار کیا اس لیے وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے وہ خواہ اس طرح کی طالبانائزیشن نہ ہو لیکن بالآخر اس طالبانائزیشن سے زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔

آخری بات یہ کہ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ طالبانائزیشن اس علاقے میں نہیں ہو سکتی جہاں لوگ صوفیانہ اسلام پر عمل پیرا ہیں۔ بہاولپور کے آر پی او سمیت بہت سوں کا یہی نظریہ ہے۔ کوئی ایک سال پہلے قومی اسمبلی کی رکن اور امریکہ میں پاکستانی سفیر کی اہلیہ فرح ناز اصفہانی نے ایک امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ انتہا پسندی جنوبی پنجاب میں نہیں پھل پھول سکتی کیونکہ یہ صوفی خانقاہوں کا خطہ ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے۔ صوفیانہ اثرات معاشرے کی طالبانائزیشن کے سامنے ایک رکاوٹ کا کام تو کریں گے لیکن صوفی اسلام غربت، پسماندگی اور حکومتی بدانتظامی کے خلاف نہیں لڑ سکتا۔ جو طالبانائزیشن کی حوصلہ افزائی کرنے والے کلیدی عوامل ہیں۔

جنوبی پنجاب کے بیشتر سیاستدان جاگیردار اور بڑے زمیندار ہی نہیں بلکہ کئی اہم پیر خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے علاقوں کے لوگوں کے مصائب کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آپ ڈیرہ غازی خان جائیں تو لوگوں کی حالت دیکھ کر دکھ ہو گا۔ اس کے باوجود کہ اسی ڈویژن سے ایک صدر بھی بنا۔ اس کی پسماندگی بہت تکلیف دہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لغاری قبیلے کے علاقے میں لوگ اپنی زمین بھی سردار (سابق صدر فاروق لغاری) کی اجازت کے بغیر نہیں بیچ سکتے۔ ان حالات کے نتیجے میں غریب اور بے زمین نوجوان عسکریت پسند تنظیموں کے لیے بہت پرکشش شکار بن گئے ہیں جو انہیں پیسہ بھی دیتی ہیں۔ ملک کی موجودہ معاشی بدحالی عسکریت پسند تنظیموں کی مقبولیت مزید بڑھا سکتی ہے۔

حالیہ تاریخ میں صوفی خانقاہوں اور بریلوی اسلام کی بے عملی یا ان اداروں کے استحصالی رویے سے پیدا ہونے والے خلاء کو جزوی طور پر دیوبندی اور اہل حدیث مدرسوں، تبلیغی جماعت جیسے گروپوں اور عسکریت پسند تنظیموں نے پر کیا ہے۔

بدقسمتی سے یہ متبادل بھی اتنا ہی استحصالی نوعیت کا ہے۔ افسوس کہ آج درگاہیں، آستانے اور بریلوی اسلام آخرت کے لیے سلفیوں کے پیکج ڈیل کے مقابلے میں کچھ خاص پیش نہیں کرتا۔ سلفی جو پیکج دیتے ہیں اس میں خاص طور پر شہید کے لیے ستر حوروں، ایک ملکہ حور، جواہرات کے تاج اور ستر دوسرے افراد کی بخشش کا وعدہ شامل ہے۔ یہ وعدہ موجودہ سماجی اقتصادی اور سیاسی نظام میں غریب نوجوانوں کے لیے بڑی بات ہے۔ سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی جو 1984-90 کے عرصے میں خود بھی جہادی رہے، کہتے ہیں کہ ایک غریب نوجوان کا اچانک ایک جہادی کمانڈر بن جانا اسے جو شناخت اور تفاخر دیتا ہے، وہ موجودہ سماجی اقتصادی نظام میں ویسا مرتبہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ دیوبندی اور اہل حدیث اپنے پیکج کی بنیاد اپنی کتابوں پر رکھتے ہیں جسے رد کرنا پیروں کے لیے مشکل ہے۔ پیروں کی موجودہ نسل میں سلفیوں کی اس نظریاتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی علمی قیل و قال نہیں ہورہی۔ سلفیت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام مسلمان اس اسلام پر عمل کریں جو پیغمبر اسلام حضرت محمد ۖ کے دور میں تھا۔ ان کے نزدیک اسی وقت ہی اسلام بالکل درست اور کامل تھا۔ سلفیت وہابیت سے پہلے کی ہے لیکن دونوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کر لیا جاتا ہے۔ درحقیقت وہابیت سلفیت کی توسیع ہے۔

پنجاب میں ایک مختلف قسم کی انتہاپسند ی اور جہادیت پائی جاتی ہے۔ یہ سوات سے ملتی جلتی ہے جہاں صوفی محمد اور ان کی تحریک نفاذ شریعت محمد نے ریاست سے تصادم میں الجھنے سے پہلے چند سال، معاشرے کو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے تبلیغی سرگرمیوں اور ایک سماجی تحریک پیدا کرنے میں صرف کیے۔ جنوبی پنجاب کا قصہ بھی ایک طرح سے سوات جیسا ہی ہے، جہاں سلفیت آہستہ آہستہ مضبوط ہورہی ہے اور عسکریت پسندی جڑ پکڑ رہی ہے۔ اگرچہ تبدیلی کا عمل 1947 سے پہلے سے چل رہا ہے لیکن 1980 کا عشرہ وہ زمانہ ہے جب واضح طور پر انتہا پسند نظریات اور جہاد اس علاقے میں متعارف کرائے گئے۔
ضیا الحق نے دینی مدارس کھولنے کی حوصلہ افزائی کی جو اس علاقے کے روایتی مدرسوں ( جو بالعموم خانقاہوں سے منسلک تھے) کے برعکس سلفی عقائد کے تھے۔ بعد کے سالوں میں جنوبی پنجاب جہاد کشمیر کے لیے مجاہدین کی بھرتی کے لیے بہت اہمیت اختیار کر گیا۔ تبلیغی جماعت اور کٹر عقائد والے مدارس کے زور پکڑنے کے بعد میں عسکریت پسند گروپوں کے لیے راہ ہموار کی۔

1994 کے آس پاس تیار کی گئی ڈسٹرکٹ کلکٹر بہاولپور اور حکومت پنجاب کی دو رپورٹوں میں مدرسوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے اور صوبے میں فرقہ وارانہ اور نظریاتی نفرت پھیلانے میں ان کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان سب مدرسوں کو حکومت زکوةٰ فنڈ سے رقم دیتی ہے۔
مدرسوں میں اضافہ 1980 کے عشرے میں اور اس کے بعد ہوا۔ 1996 کی ایک رپورٹ کے مطابق بہاولپور کے مدرسوں کی تعداد لاہور سمیت تمام اضلاع سے زیادہ تھی۔ مذکورہ تعداد صرف دیو بندی مدرسوں کی ہے۔ ان میں اہلحدیث، بریلوی اور دوسرے فرقوں کے مدرسے شامل نہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے 2008 کے تخمینے کے مطابق بہاولپور ڈویژن میں 1383 مدرسے ہیں جن میں چوراسی ہزار طالب علم ہیں۔ اگرچہ مدرسے ضلع رحیم یارخان میں زیادہ ہیں، جن کی تعداد 559 ہے ضلع بہاولپور میں 481 اور بہاولنگر میں 310 مدرسے ہیں لیکن سب سے زیادہ طالب علم (36000) بہاولپور کے مدرسوں میں ہیں۔ پاکستان بھر کے مدرسوں کے طلباء کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

لوگوں کی توجہ فاٹا اور صوبہ سرحد پر اتنی زیادہ رہی ہے کہ جنوبی پنجاب کے ان اضلاع میں دینی مدارس کی تعداد میں زبردست اضافے کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ مورخ طاہر کامران کے ایک جائزے کے مطابق پنجاب میں مدرسوں کی تعداد جو 1988 میں 1320 تھی 2000 میں 3153 ہوگئی۔ اس طرح قریباً 140 فی صد اضافہ ہوا۔ یہ مدرسے 1980 کے عشرے کی افغانستان کی جنگ کے لیے جہادی فراہم کرنے کے لیے تھے۔ نائن الیون کے وقت صرف بہاولپور ڈویژن میں پندرہ سے بیس ہزار تربیت یافتہ عسکریت پسند موجود تھے۔ ان میں سے بعض وہ تھے جو اس عرصے میں اپنے علاقے میں واپس آگئے تھے جو مشرف نے جہاد انڈسٹری کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان میں سے کئی تعلیم کے شعبے میں چلے گئے اور پرائیویٹ سکول کھول لیے۔ بعض میڈیا میں بھی آگئے۔

یہ مدرسے تین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ لوگوں کو سلفیت کی طرف لے جاتے ہیں اور معاشرے میں قرآن و سنت کی سخت تر تاویلات کی مزاحمت کو ختم کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بریلویوں کی اکثریت مخالف نظریے کی منطقی مزاحمت نہیں کرسکتی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ خود بریلوی، جہاد کے نظریے سے متاثر ہو کر ان کی طرف چلے گئے۔ دوسرا یہ کہ یہ مدرسے ان نوجوانوں کی تربیت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں جہاد میں شامل کیا جاتا ہے۔ بیشتر ''مجاہدین'' اپنی مدرسوں میں ہی آتے ہیں۔ ان مدرسوں میں طلباء کو جو اصول پڑھائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جہاد کا یہ تصور ہے کہ یہ ایک مقدس فرض ہے جو مسلمان کی زندگی یا دنیا کے خاتمے تک جاری رکھنا ہے۔ آخری یہ کہ مدارس سرکاری سکولوں سے بھرتی کئے گئے جہادیوں کے لیے ٹرانزٹ پوائنٹ کا کام کرتے ہیں۔ صوبہ سرحد یا کشمیر میں ابتدائی تربیت کے 21 روزہ پروگرام کے بعد انہیں عقائد کی اصلاح یا تبدیلی کے لیے مدرسوں میں لایا جاتا ہے۔ (دیکھیے چوکھٹا''ایک مختلف نسل'')

اس خطے میں جہادیت کے فروغ میں ریاستی امداد کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ سیاسی جماعتوں اور عسکریت پسند گرپوں میں بالعموم ایک رابطہ یا مفاہمت رہی ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں عسکریت پسندوں کا خاتمہ نہیں کرسکتیں یا بیشتر سیاستدان عسکریت پسندوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ وہ سیاسی ڈیل کر کے ان کی سرگرمیوں کو ایک حد میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1993 کے ایکشن کے بعد سپاہ صحابہ پاکستان اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مفاہمت یا 2008 کے الیکشن کے دوران مسلم لیگ (ن) اور سپاہ صحابہ کے، بین ڈیل بڑی سیاسی جماعتوں اور جہادیوں کے تعلقات کی مثالیں ہیں۔ آج کل جنوبی پنجاب میں سپاہ صحابہ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کررہی ہے۔

دوسرا ٹریک جہادی تنظیموں اور ریاستی انٹیلی جنس میں آپریشنل رابطے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے، بعض جہادی تنظیمیں دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوںسے تربیت حاصل کی ۔ اب بھی مقامی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلحہ سے بھرے ٹرک آدھی رات کو جیش محمد کے ہیڈ کوارٹر اور دوسرے مقامات پر آتے ہیں۔

اگرچہ سرکاری ذرائع مسلسل یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ جیش محمدپر پابندی ہے اور اب اس کا کوئی وجود نہیں اور یہ کہ مسعود اظہر بہاولپور میں اپنے گھر سے مفرور ہے۔ لیکن حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ مثلاً تنظیم علاقہ میں اراضی حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ چوک اعظم بہاولپور کے قریب زمین لی گئی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تربیتی مرکز کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ اگرچہ پولیس کے نئے سربراہ نے جیش محمد پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں اور اس زمین پر تعمیر کی اجازت نہیں دی، تنظیم ارد گرد مزید زمین حاصل کر رہی ہے۔ جونیئر پولیس اہلکار تو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس جگہ سرنگیں کھدتی بھی دیکھی ہیں۔ یہ جگہ لاہور کراچی نیشنل ہائی وے کے کنارے واقع ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بحران کی صورت میں جیش محمد سڑک بند کرسکتی ہے جیسا کہ کوہاٹ اور دوسرے مقامات پر ہوا۔ شہر میں تنظیم کے ہیڈ کوارٹر پر کلاشنکوف بردار پہرہ دیتے ہیں جو عمارے کی تصویر کھینچنے کی کوشش کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ ایک بار تو ایک پولیس والے کو بھی وہاں سے بھگا دیا گیا اور بعد میں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے آدمیوں نے یہ کہہ کر دھمکایا کہ وہ تنظیم کی جاسوسی کر رہا تھا۔ ان دعووں کے باوجود کہ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور جیش محمد نے انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ناتے توڑ لیے ہیں اور اب وہ وزیرستان میں فوج سے لڑ رہی ہیں، وہ بلا روک ٹوک بدستور موجود ہیں۔

یہ سرکاری حکام کی سادگی ہے یا نااہلی یا پھر اطلاعات کو چھپانے کی دانستہ کوشش ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ مولانا مسعود اظہر گزشتہ تین سال میں اپنے شہر بہاولپور نہیں آئے لیکن 28 اپریل 2008ء کو انہوں نے اپنی نئی کتاب ''فتح الجوار: قرانک ورسز آن جہاد'' کی رونمائی کی بھرپور تقریب بہالپور میں کی۔ اس دن شہر آنے اور جانے والے تمام راستوں پر جیش محمد کے مسلح افراد متعین رہے اور کوئی پولیس فورس نظر نہیں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی نے جیش محمد سے رابطے ختم کر دیئے ہیں کیونکہ اس نے ملک میں تشدد کی کارروائیوں کی ترغیب کے لیے پشتون طالبان کی مدد کی۔ البتہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ طالبان کو جیش محمد، حرکت المجاہدین اور لشکر طیبہ پر سرکاری ایجنسیوں سے روابط کا شبہ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص ان تنظیموں کے معاملات کی چھان بین کی کوشش کرے تو انٹیلی جنس ایجنسیاں اسے بھگانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بہاولپور میں ایک مقامی شخص نے ایک غیر ملکی صحافی کی اس سلسلے میں مدد کی تو ایک ایجنسی اس کے پیچھے لگ گئی۔ کچھ عرصہ پوچھ گچھ ہوتی رہی اسی طرح کوئی چھ ماہ قبل بی بی سی کی ٹیم کو بھی ایجنسی کے اہلکاروں نے علاقے سے نکال دیا تھا۔

میری پچھلی کتاب چھپے کافی عرصہ ہو گیا تھا اور انٹیلی جنس والے اب مجھے بھول بھال چکے تھے لیکن جب میں نے علاقے میں عسکریت پسندوں پر لکھنا شروع کیا تو انٹیلی جنس کے ا ہلکار پھر جنوبی پنجاب میں میرے گائوں پہنچ گئے۔ وہ اس حد تک گئے کہ مجھے علاقے میں بدنام کرنے کے لیے ایک اور اخبار میں میرے خلاف خبر چھپوا دی۔ بہرحال بمبئی حملوں اور ملک میں تشدد کی حالیہ لہر کے بعد ان تنظیموں کے خلاف کوئی سنجیدہ آپریشن نہیں کیا گیا۔ اس لیے وہ سب برقرار ہیں۔

جنوبی پنجاب میں صرف دیوبندی تنظیمیں مقبول نہیں۔ اہلحدیث/ وہابی تنظیموں مثلاً تحریک المجاہدین اور لشکر طیبہ کے حامی بھی موجود ہیں۔ تحریک المجاہدین نسبتاً چھوٹی تنظیم ہے۔ اس کے حامی ڈیرہ غازی خاں میں ہیں۔ لشکر طیبہ بہاولپور، ملتان اور وسطی پنجاب سے ملحق علاقوں میں مقبول ہے۔ اس کا ہیڈکوارٹر مریدکے میں ہے اور یہ پنجابی اور اردو بولنے والے مہاجرین اور آباد کاروں میں مقبول ہے۔ ان میں لشکر طیبہ کی شمولیت کی واضح عمرانیاتی وجوہات ہیں۔ اس آبادی کی اکثریت نچلے متوسط طبقے کے کاشتکاروں یا متوسط طبقے کے تاجروں اور دکانداروں پرمشتمل ہے۔ مڈل کلاس ان تنظیموں کو فنڈز مہیا کرتی ہے۔ اس کی حمایت صرف جنوبی پنجاب تک محدود نہیں درحقیقت پنجاب کے دوسرے علاقوں کے مڈل کلاس تاجر دوکاندار آڑھتی بھی جہاد کے لیے سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں تنظیموں میں سرائیکی بولنے والے شامل نہیں ہیں لیکن غالب اثر پنجابیوں اور مہاجروں کا ہی ہے۔ سرائیکی زیادہ تر سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اورجیش محمد سے منسلک ہیں۔ بعض سرائیکی جہادیوں کے براہ راست تحریک طالبان پاکستان سے روابط ہیں۔

جنوبی پنجاب میں لشکر طیبہ کی موجودگی دوسروں سے زیادہ نمایاں نظر آنے کی ایک وجہ دیواروں پر لکھے اس کے نعرے اور اس کی خواہر تنظیم جماعت الدعوة کے سماجی بہبود کے کام بھی ہیں۔لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة کی قیادت میں اختلافات کی افواہوں کے باوجود جنوبی پنجاب میں دونوں تنظیمیں ہم آہنگی سے کام کررہی ہیں۔ تمام تنظیموں کے لیے جنوبی پنجاب میں بھرتی کے لیے تین پسندیدہ ترین علاقے بہاولپور کا چولستان، ڈیرہ غازی خاں میں ریکھ اور راجن پور میں کچے کا علاقہ ہیں۔ پہلے علاقے صحرائی ہیں۔ جہاں انتہائی غربت اور پسماندگی ہے جبکہ تیسرا ڈاکوئوں کے لیے مشہور ہے۔ لال مسجد کے مولوی صاحبان بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکوئوں کے خلاف کچھ کردار ادا کیا ہے۔ مقامی ذرائع کا اظہار ہے کہ جب سے مولوی صاحبان نے ڈاکوئوں کے خلاف پولیس سے تعاون کرنا شروع کیا ہے ان کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔

لشکر طیبہ جیسی تنظیموں نے پنجاب میں عورتوں تک کو بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ خواتین 21 روزہ نظریاتی او فوجی تربیت حاصل کرتی ہیں۔ مقصد یہ بتایاجاتا ہے کہ اگر ان کے مرد جہاد پر گئے ہوں اور دشمن پاکستان پر حملہ کر دے تو یہ لڑنے کے قابل ہوں۔ جہادی تنظیمیں نظریاتی اور مادی دونوں لحاظ سے امیر ہیں۔ ان کے پاس وافر مالی وسائل ہیں جو چار ذرائع سے آتے ہیں:

سرکاری ذرائع (بعض حالات میں) مشرق وسطیٰ اور خلیج کی ریاستیں (لازماً سرکاری ذرائع نہیں)، عطیات، پنجابی مڈل کلاس جو سماجی، اخلاقی اور سیاسی مقاصد کے لیے مدارس اورجہاد دونوں کو فنڈز فراہم کر رہی ہے۔ جہاں تک عطیات کا تعلق ہے، عسکریت پسند تنظیمیں بدلتے ہوئے حالات سے بخوبی باخبر ہیں اور رقوم وصول کرنے کے اپنے خاص طریقے اختیار کر رہی ہیں۔ رقوم جمع کرنے کے لیے صندوقوں اور ڈبوں کے دن گئے۔ اب بالخصوص دیہات میں حامیوں سے کہا جاتا ہے کہ فصلیں بیچ کر رقم جمع کریں۔ جہاں تک پنجابی مڈل کلاس کاتعلق ہے اسلام آباد اور دوسرے شہروں کے تاجروں کی بڑی تعداد باقاعدگی سے خود چندہ دیتی ہے۔ یہ تاجر اور سرمایہ کار ان تنظیموں کو عطیات دینا اپنے گناہوں کی معافی کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ طاہر کامران کے جائزے ''پنجاب میں دیوبندیت'' کے مطابق دیوبندیت اور وہابیت کا ایک شہری Phenomenon ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسی پنجاب میں یہ عسکریت پسند تنظیمیں ایک نئے سماجی رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں۔ شاید ٹیکنالوجی تک زیادہ رسائی (موبائل فونز، ٹیلی وزن، سٹلائٹ ریسیورز، کیبل وغیرہ) سے پنجاب کے دیہی علاقوں کا طرز زندگی بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ دیہی علاقے بھی منصوبہ بندی کے بغیر شہری علاقوں میں تبدیل ہو رہے ہیں اس لیے ان چھوٹے شہروں میں سماجی ترقی اور صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات نہیں ہیں۔ ایک سماجی اور سیاسی خلا ہے جو یہ عسکری تنظیمیں یا ان سے متعلق نظریاتی ادارے پُر کر رہے ہیں۔

خوش قسمتی سے یہ عام آدمی کا طرز زندگی بدلنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ شاید اس لیے ہے کہ یہاں ایسے گوناں گوں ثقافتی تانے بانے ہیں جو جہادیوں کو اس طرح اپنے اخلاقی معیار مسلط نہیں کرنے دیتے جس طرح انھوں نے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں کیے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ لبرل ازم اور معاشرے کی کثیرقطبی یقینا خطرے میں ہیں۔ خطرہ انہیں مدارس اور نئے جہادیوں سے ہے جو سماجی معیاروں کو رفتہ رفتہ بدل دیتے ہیں۔ افسوس کہ علاقے کے مضبوط سیاسی نظام (جو ہر حال میں بری طرح متاثر ہوتا ہے) سمیت کوئی چیز انتہا پسندی اور جہادیت کے خطرے کو دور کرنے میں مددگار نہیں ہوتی۔ بالآخر جنوبی پنجاب اپنی حکمران اشرافیہ کی کوتاہ نظری کا شکار ہو سکتا ہے۔

ریاست اور سوسائٹی اس معالے سے کیسے نمٹے؟
فوج کشی کوئی حل نہیں ہے۔ پنجاب میں اس سے فوج کے اندر علاقائی وفاداری کی وجہ سے پھوٹ پڑ جائے گی۔ سب سے ضروری کام ریاست کے عسکریت پسندوں کے ساتھ بطور سٹرٹیجک پارٹیز تعلقات کا جائزہ لینا ہے۔ کیا یہ تعلق ریاست کونقصان پہنچنے تک جاری رہنا چاہیے؟ یہ مشکل سوال حل ہوجائے تو تمام عسکریت پسند قوتوں سے پولیس اور انٹیلی جنس کے مربوط آپریشن کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔

تاہم یہ محض آدھی جنگ جیتنا ہوگا۔ دوسرا نصف ان بنیادی مسائل کو حل کرنا ہو گا جو بہاولپور کے ان جہادی نوجوانوں کی طرح لوگوں کو درپیش ہیں جنھوں نے کہا تھا ''ہمیں اپنے مستقبل میں کچھ نظر نہیں آتا''۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں کوئی صنعت کاری نہیں ہو رہی۔ علاقے کا پورا دارومدار زراعت پر ہے لیکن وہ بھی لڑکھڑا رہی ہے۔ علاقے کو اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے زراعت میں نئی اختراعات آنی چاہیں۔ سرمایہ کاری ہونی چاہیے اور علاقے کی پیدوار اور ضرورتوں کے مطابق نئی صنعتیں لگانی چاہیں۔ حکومت کو اب معمول کی ٹیکسٹائل اور شوگر انڈسٹریز سے ہٹ کر کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے کیونکہ یہ تو بڑے مافیاز میں بدل چکی ہیں جو معیشت کی آبیاری کی بجائے اسے چوس رہی ہیں۔
سماجی ترقی میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ ایک بڑا سماجی انفراسٹرکچر جو روزگار کے مواقع پیدا کرے اور ایک تعلیمی نظام جو تمام آبادی کی ضرورتیں پوری کرے، خلا پر کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ عسکریت پسندی کا پیغام خاصا توانا ہے، خاص طور پر وہ خواب، جووہ میرے گائوں کے ان مایوس لڑکوں جیسے نوجوانوں کو بیچتا ہے۔ جہادا ان مایوس نوجوانوں کو محرومی اور کسمپرسی کی حالت سے نکال کر ایک خیالی اعلیٰ مرتبے پر سرفراز کر دیتا ہے۔ وہ خود کو تصور میں محمد بن قاسم اور خالد بن ولید جیسی تاریخی شخصیات کا ہم نشین دیکھتے ہیں۔
ریاست کو لازماً ان خوابوں کا نعم البدل فراہم کرنا چاہیے۔

(بشکریہ نیوز لائن)

ایک مختلف نسل
پنجابی جہادیت کی کچھ امتیازی خصوصیات ہیں۔ اس کی قیادت علماء پر مشتمل ہے جبکہ جہادی سپاہی دوطرح کے ہیں۔ ایک سرکاری سکولوں کے نسبتاً بہتر تعلیم یافتہ اوردوسرے مدرسوں سے پڑھے ہوئے۔ زیادہ تر جہادی مدرسوں سے آتے ہیں لیکن سرکاری سکولوں کے لڑکوں کو بھرتی کرنے کی بہت کوشش کی جاتی ہے کیونکہ وہ زیادہ تیز اور بہتر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم جہاد میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ ان بچوں کو بھرتی کرنے میں ذرا دیر نہیں کی جاتی کیونکہ دوستوں کے ذریعے عسکریت پسندانہ خیالات ان میں ویسے ہی گھر کر چکے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ محض والدین سے ناراض ہوتے ہیں اور گھر سے نکلنے کی خاطر جہادی تنظیموں میں چلے جاتے ہیں۔ نئے لڑکوں کو پہلے دورہ عام پر بھیجا جاتا ہے جو صوبہ سرحد یا کشمیر میں 21 روزہ تربیتی پروگرام ہوتا ہے جس میں زیادہ تر نظریاتی تعلیم دی جاتی ہے۔ جولڑکے جہاد میں دلچسپی لیتے ہیں انہیں تین سے چھ ماہ کے دورہ خاص پر بھیجا جاتا ہے جس میں ہتھیاروں کا استعمال سکھایا جاتا ہے اور دوسری فوجی تربیت دی جاتی ہے۔
اس کے بعد جو جہاد پر جانا چاہتا ہے اسے ایک اور خصوصی تربیتی مشن پر بھیجا جاتا ہے جس میں ان کی درد اور تکلیف برداشت کرنے کی صلاحیت بڑھائی جاتی ہے۔ یہ تربیت جہادی کو کسی خاص محاذ پر بھیجنے سے پہلے ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے ایک جنگجو اور گوریلا آپریشن اور فوجی ٹیکنالوجی کا ماہر کمانڈر تیار کیا جاتا ہے۔ افواہ ہے کہ اس مرحلے میں (بالخصوص لشکر طیبہ اور جیش محمد کے جہادیوں کو تربیت یافتہ فوجی (ریٹائرڈ یا حاضر سروس) بھی ٹریننگ دیتے ہیں۔ کیونکہ تربیت کا سلسلہ کوئی دو عشروں سے جاری ہے اس لیے تنظیمیں اپنے ان پرانے جہادیوں کی خدمات سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں جو افغانستان اور دوسرے محاذوں پر لڑ چکے ہوتے ہیں۔(ع۔ ص)


فرقہ وارانہ تشدد جنوبی پنجاب میں ایک معمول ہے
''تمہیں پتہ ہے کہ ان کی عورتیں بھی شراب بناتی اور بیچتی ہیں؟''
ترنڈہ محمد پناہ (بہاولپور ڈویژن) کے ایک چھوٹے سے گائوں کے ایک جہادی نے شیعہ کمیونٹی کے بار ے میں یہ بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی۔ شیعہ کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ایسا پروپیگنڈہ ایک معمول ہے لیکن پاکستان اور پنجاب کے سرکاری حکام فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کو جہادی گروپوں کے بڑھتے ہوئے اثر کی علامت نہیں سمجھتے۔ کچھ عرصہ ہوا ڈیرہ غازی خاں کی ممتاز شیعہ شخصیات کو بند لفانے موصول ہوئے۔ ہر لفافے میں پانچ سو روپے کے نوٹ اورایک خط تھاجس میں لکھا تھا کہ اس سے اپنے کفن کا انتظام کر لو۔
سپاہ صحابہ پاکستان اور لشکر جھنگوی جیسی دیوبندی تنظیمیں شیعوں کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ اس معاملے میں وہ قبائلی علاقے کے طالبان سے ذرامختلف نہیں ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد جنوبی پنجاب میں ایک معمول بن چکا ہے۔ اس علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد 1980ء کے عشرے میں ضیاء الحق کے دور میں سپاہ صحابہ پاکستان اور پھر لشکر جھنگوی کے قیام سے پھیلا۔ عسکریت پسند افغانستان اور دوسرے محاذوں پر چلے گئے تو اس تشدد میں کمی آئی لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ عسکریت پسند تنظیموں نے اپنا فرقہ وارانہ ایجنڈا ترک کر دیا ہے۔ تشدد 1990ء کے عشرے میں بھی جاری رہا لیکن نسبتاً محدود پیمانے پر۔ صوبے کے اس حصے کے سینئر جہادیوں کی تربیت افغانستان اور کشمیر میں انتہائی دشوار حالات میں ہوئی اور انسانی جان لینا ان کے لیے معمولی بات ہے۔ اس کا مظاہرہ 1990ء کے عشرے میں ہوا جب انھوں نے 1997ء میں ملتان میں ایک ایرانی سفارت کار سمیت کئی شیعوں کو قتل کیا۔ 1997ء اور 1998ء میں ملتان اوراس کے ا ردگرد شیعوں کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔ اس زمانے میں مومن پورہ کا قتل عام ہوا۔ فروری 2009ء میں ڈیرہ غازی خاں میں ایک حملے میں 35 شیعہ جاں بحق اور 50 زخمی ہوئے۔ اسی ماہ ڈیرہ اسماعیل خان میں 27 شیعہ ہلاک 65 زخمی کیے گئے (ڈیرہ اسماعیل خان بھی سرائیکی اثر والا علاقہ ہے) اب وہی لوگ شیعوں کے ساتھ بریلویوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ 12 جون 2009ء کو جامعہ نعیمیہ لاہور پرحملہ جس میں مولانا سرفراز نعیمی جاں بحق ہوئے اس کی واضح مثال ہے۔ (ع ۔ص)

جہاد کے دو چہرے
پنجاب سے تعلق رکھنے والے جہادی فاٹا کے جہادیوں سے مختلف ہیں کیونکہ یہ مقابلتاً زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ مولانا مسعود اظہر سمیت بہت سوں نے کراچی کے مدرسہ بنوری ٹائون سے درس نظامی کا آٹھ سالہ کورس کیا ہے جس میں جہاد پر بھی بہت زور دیا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب سے دینی مدارس کے طلباء کی کراچی آمد کا سلسلہ مستقل جاری ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو عام سکولوں کی دنیاوی تعلیم حاصل کر چکے ہوتے ہیں اور انہیں دینی تعلیم کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنوبی پنجاب سے عسکریت پسند علماء ملک کے دوسرے حصوں میں بھی جا رہے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور ان کی اہلیہ کی ہے جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے۔
پشتون جہادیوں سے نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ پنجابی جہادیوں کا لڑنے کا انداز بھی مختلف ہے۔ بہت سے خود کش حملہ آور (فدائین) پنجاب سے آتے ہیں اور ان کی شہرت یہ ہے کہ وہ زیادہ سفاکی سے حملے کرتے ہیں۔ گورنر سرحد اویس غنی کا کہنا ہے کہ وزیرستان اور سوات کے زیادہ خطر ناک طالبان کمانڈر پنجابی جہادی ہیں اور پشتونوں کے مقابلے میں ان کے ساتھ نمٹا زیادہ مشکل ہے کیونکہ انہیں شمالی بالائی علاقوں کے لوگوں سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہو گی اور اپنے عرب اور ازبک جہادی ساتھیوں کی طرح ان کے ذہن میں صرف ان کے نظریات ہوتے ہیں۔ ایک جہادی نے راز داری سے بتایا کہ ازبک اپنے شکار کا سر بڑی صفائی سے قلم کرتے ہیں اور قابل رشک عزم کے ساتھ لڑتے ہیں۔ پنجابی جہادی چیچنیا، بوسنیا، فلسطین، کشمیر اور افغانستان میں مسلمان خواتین کے ساتھ زیادیتوں کا بدلہ لینے کے لیے غیرمسلموں سے لڑنا چاہتے ہیں۔ عسکری گروپ ان تصادم زدہ علاقوں میں مسلمانوں کے قتل اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادیتوں کی فلمیں دکھا کر لوگوں کو جہاد میں شامل ہونے پر قائل کرتے ہیں۔ مبلغین انہیں بتاتے ہیں کہ اسلام میں جہاد کی نہ صرف تاکید کی گئی ہے بلکہ یہ ہر تندرست مسلمان مرد پر فرض ہے۔
اس لیے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ مذکورہ بالا علاقوں سے ان جنگجوؤں کا کوئی سماجی تعلق نہیں ہے۔
جنوبی پنجاب کے جہادی پشتونوں کی طرح محض اسی لیے نہیں لڑتے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا کوئی اپنا مارا گیا بلکہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کے دوسرے افراد کی جانیں قربان کرنے کے لیے اس لیے تیار ہوتے ہیں کہ وہ بے لوث جہاد کے ارفع تصور سے سرشار ہوتے ہیں۔ جہاد ان لوگوں کو طاقت کا فوری احساس دیتا ہے کہ وہ دور دراز ملکوں کی لاچار مسلمان بہنوں کی مدد کے قابل ہیں۔ جن لوگوں کو جہاد پر بھیجا جاتا ہے ان کے عربی نام تک رکھے جاتے ہیں تاکہ ان میں تاریخ کا حصہ ہونے کا احساس پیداہو۔ (ع۔ ص)