working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

برطانوی سیاحتی ویزا کے حصول میں دشوادیاں
بشارت رٹوی
ایک وقت تھا جب غریب اور تیسری دنیا کے ممالک میں آباد لوگ امیر یورپی ممالک کا رخ کرتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہاں محنت مزدوری کے ذریعے اپنے حالات بہتر کر سکیں بلکہ اپنے ملک کے لیے زرِ مبادلہ بھی کماسکیں۔ ان ممالک میں برطانیہ کا نام ہمیشہ سرِ فہرست رہا ہے کہ جس نے نئے آنے والوں کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔ تاہم گذشتہ چند برس سے دنیا بھر میں معاشی طور پر عدم توازن ہونے کی جو لہر چلی ہے اس نے برطانیہ جیسے مضبوط ملک کو بھی متاثر کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں فلاحی ریاست کا وہ تصور جو اس ملک سے وابستہ تھا وہ بھی متاثر ہوا ہے۔ زیرِ نظر مطالعہ مضمون میں مصنف اسی امر کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ (مدیر)
پورے یورپ میں برطانیہ شاید پہلا ملک ہے جہاں ماضی میں لاکھوں میں نہیں تو وطن عزیز سے سیاحت کی غرض سے جانے والوں کی تعداد کئی ہزار رہی ہے۔ دیگر یورپی ممالک کی نسبت ہمارے لوگ بڑی تعداد میں برطانیہ کا رخ کرتے رہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً جرمنی، ہالینڈ مکمل طور پر پولیس اسٹیٹ ہیں۔ جہاں کسی بھی غیر ملکی کو راہ چلتے پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی وقت اور کہیں بھی اس سے اس کی شناخت اور اس ملک میں اس کے قیام کا اجازت نامہ طلب کر سکتے ہیں۔ جبکہ برطانیہ میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلکہ 9/11 سے قبل تو برطانیہ میں سیاحت کی غرض سے جانے والے تمام غیر ملکی ایسے گھوما پھرا کرتے تھے جیسے وہ اپنے ہی ملک میں ہوں۔ لیکن 9/11 کے بعد عالمی سطح پر جو واقعات وقوع پذیر ہوئے اور بالخصوص 7/7 کے لندن کے خونی واقعات کے بعد برطانیہ کے قانون میں کسی حد تک سختی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے لیکن اس طرح نہیں جس طرح دیگر ممالک میں غیر ملکیوں سے سلوک کیا جاتا رہا۔ برطانیہ سے اعلیٰ معاشرتی نظام۔ قانون کی سربلندی، انصاف کی عملداری نے برطانیہ کو ہمیشہ دوسرے یورپی ممالک سے ممتاز رکھا۔ دوسری وجہ برطانیہ سیاحت کی غرض سے جانے والوں کی یہ رہی کہ اس وقت پندرہ لاکھ کے قریب پاکستانی اور کشمیری نژاد پاکستانی تارکین وطن برطانیہ میں قانونی طور پر قیام پذیر ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا کہ اب ہمارے لوگوں کی چوتھی نسل بھی وہاں پروان چڑھ رہی ہے۔ یوں اسی طرح ان تارکین وطن کے عزیزو اقارب کسی شادی، خوشی غمی یا اپنے کسی عزیز کی بیماری کی صورت میں برطانیہ سیاحتی ویزا پر جاتے رہے۔ برطانیہ میں حتیٰ ویزا پر جانے والے ان افراد میں ان لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے کہ جو اس ویزا پر جا کر وہاں چھپ چھپا کر کام کرتے پائے گئے ہوں۔ اس طرح اگر کوئی کام کرتا پکڑا بھی گیا تو اسے فوراً ملک بدر کر کے ہمیشہ کے لیے اس کے لیے برطانیہ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ تو یہاں تک قانون سازی کردی گئی ہے کہ جوکوئی بھی فیکٹری، ریسٹورنٹ یا کسی بھی ادارے کا مالک کسی سیاحتی ویزا والے شخص کو روزگار مہیا کرے گا تو مذکورہ شخص کی ملک بدری کے ساتھ ساتھ اس فیکٹری یا ریسٹورنٹ کے مالک کو کئی ہزار پونڈ جرمانے اور سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ وہ وِزٹ ویزا حاصل کر کے وہاں جا کر روز گار حاصل کرے گا تو نئے قانون کی روشنی میں ایسے افراد کو یہ خیال بالکل ہی ترک کر دینا چاہیے۔ ایسا کرنے والے افراد کو نہ صرف وہاں مشکلات کا سامنا کرناپڑے گا بلکہ یہ اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جو ہم ویزا حاصل کرتے وقت برٹش ہائی کمیشن سے اس درخواست فارم کے ذریعے کرتے ہیں کہ ہمارا مقصد برطانیہ جانا سیرو تفریح کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور اگر کوئی شخص اسی طرح کے معاہدے کے بعد وہاں جا کر کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو پھر قانون کی گرفت سے بچنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ ایک تو پکڑے جانے کی صورت میں اس فرد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے دوسرا اس سے ہمارے اپنے ملک جس نے ہم کو جنم دیا جس نے ہم کو نام اور پہچان دی اس کا نام بدنام ہوتا ہے۔ یوں بھی بطور ایک مہذب شہری کے ہم سب پر لازم ہے کہ جس بھی ملک میں جائیں وہاں کی معاشرتی قدروں وہاں کے قانون اور نظام زندگی کا مکمل احترام کریں۔ ویسے بھی پوری دنیا کی طرح برطانیہ کا مالیاتی نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں بند ہو رہی ہیں۔ بے روز گاری کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ کے نظام حکومت کی داد دینا پڑتی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں بے روز گار ہونے کے باوجود وہاں سڑکوں پر کوئی بھیک نہیں مانگتا بلکہ ایک ویلفیئر سٹیٹ کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پور ی کی جاتی ہیں اورہر شخص کو گزارہ الائونس، سر چھپانے کے لیے چھت اور علاج معالجہ کی سہولت بلا تفریق حاصل ہے۔ وہاں کے اداروں میں کسی کو اس لیے نوکری نہیں دی جاتی کہ وہ گورا ہے یا کسی کو اس لیے انکار نہیں کیا جاتا کہ وہ کالا ہے بلکہ میرٹ، قانون اور انصاف اس معاشرے کی خوبصورتی اور حسن کا نتیجہ ہے کہ آج وہاں پولیس لوکل گورنمنٹ جوڈیشنل سسٹم۔ تعلیمی اداروں بلکہ وہاں کے دارالعلوم اور دارالاحرار یعنی پارلیمنٹ اور سینٹ میں بھی ہمارے لوگوں کو کارکردگی کی بنیاد پر بھرپور نمائندگی حاصل ہے اور یہ سلسلہ بغیر کسی امتیاز اور تفریق کے جاری ہے۔ برطانیہ میں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے جو مواقع موجود ہیں ان کی مثال دنیا میں مشکل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری تیسری نسل جو اب وہاں جوان ہوچکی ہے اس نے ان سہولتوں سے افائدہ اٹھا کر مہذب شہری بننے کے بجائے اپنے آپ کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کر دیا ہے۔ جس بنا پر ایک تو یہ نسل زیور علم سے محروم رہ گئی دوسرا سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹوں کی نسبت وہاں کی جیلوں میں ان نوجوانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ان والدین کے لیے جو برطانیہ میں رہ کر بھی اپنی اولادوں پر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھ سکے اور آج مصائب اور پریشانیوں کی صورت میں انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ماضی میں سوویت بلاک سے منسلک غریب یورپی ممالک جن میں پولینڈ، ہنگری، یوگو سلاویہ جیسے دیگر ممالک شامل ہیں یورپی یونین کے قیام اور ان ممالک کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد ان غریب یورپی ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کا ایسا سیلاب اٹھا جس نے برطانیہ کواپنا مسکن بنا لیا۔ جس وجہ سے آج برطانیہ میں وہ قانونی طور پر رہائش پذیر ہونے اور کام کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی اس غرض سے برطانیہ جانا چاہتا ہے کہ وہاں چوری چھپے کام کی تلاش کر کے اپنا پیٹ پال سکے گا تو اس کو یہ بھول کسی صورت نہیں کرنی چاہیے۔ گذشتہ چند ماہ سے برطانیہ کے سیاحتی ویزا کا حصول کافی مشکل ہو کر رہ گیا ہے بالخصوص اپریل سے جو صورت حال سامنے آئی ہے اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اب برطانیہ کا سیاحتی ویزا حاصل کرنا اتنا آسان نہیں رہا جس طرح ماضی میں تھا۔ نہ صرف یہ کہ نئے درخواست گزاروں کی ویزا درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں بلکہ نئی پالیسی کے تحت ایسے لوگوں کو بھی ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا ہے جو ماضی میں کئی بار برطانیہ جا چکے ہیں اور دی گئی مدت کے اندر واپس بھی آ جاتے رہے ہیں۔ اب بہت کم لوگوں کو ویزا دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ برطانیہ کی اپنی پالیسی ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد میں جو بہتر خیال کرے وہی پالیسی اپنائے۔ لیکن کم از کم ایسے لوگوں کو یہ سہولت ضرور حاصل رہنی چاہیے کہ جن کا ماضی کا ریکارڈ داغدار نہیں رہا۔ معاشرتی طور پر ہمارے خاندان تقسیم ہو چکے ہیں کسی کا بیٹا وہاں ہے تو کسی کی ماں یہاں ہے کوئی باپ کی بیماری کی صورت میں وہاں جانا چاہتا ہے تو کوئی اپنے کسی عزیز کی شادی کی خوشی میں شرکت کرنا چاہتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے مکمل طور پر برطانیہ کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں۔ یوں بھی اگر دیکھا جائے تو وطن عزیز اور برطانیہ دوستی کے لازوال اور مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہر مشکل وقت میں برطانوی حکومت اور وہاں کی عوام نے ہماری آواز پر لبیک کہا۔ آٹھ اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلہ کے موقع پر جب اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور پر قیامت ٹوٹی تو یہ برطانیہ کی ریسکیو ٹیمیں ہی تھیں جنہوں نے فی الفور اپنے جدید ترین آلات سے لیس ہو کر اسلام آباد کا رخ کیا اور کئی ٹن وزنی ملبے تلے دبے ہمارے زندہ لوگوں کو موت کے منہ سے چھپن کر ایک بار پھر زندہ رہنے کا موقع فراہم کیا اور یہ امید کی جانی چاہیے کہ جینوئن لوگوں کو جو کسی خوشی غمی، یا اپنے کسی عزیز رشتہ دار کی بیماری یا شادی کی خوشی میں شرکت کی غرض سے برطانیہ تھوڑی مدت کے لیے جاناچاہتے ہیں۔ انہیں ماضی کی طرح آسان ویزا کے حصول کی سہولت برقرار رہے گی۔ ان سطور میں اپنے ان لوگوں سے بھی یہی گزارش ہے کہ جو اگر وہاں وِزٹ ویزا کے نام پر روز گار کی تلاش میں جانا چاہتے ہیں تو اپنا وقت اور پیسہ برباد نہ کریں۔ بلکہ وہی روپیہ پیسہ وہ یہاں خرچ کر کے اپنا کاروبار کریں۔

برطانیہ جو ماضی میں کبھی روزگار کے حوالے سے ایک جنت تھا۔ اب بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں وہ حالات نہیں رہے۔ حکومت اپنے ہاں قانونی طور پر قیام پذیر کام نہ ہونے کی صورت میں بے روز گار لوگوں کو ہفتہ وار کروڑوں پونڈ گزارہ الاونس دینے پر مجبور ہے وہ غیر قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت کس طرح دے سکتی ہے۔ برطانیہ کا سارا معاشی نظام ٹیکسوں پر چل رہا ہے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر ایک بڑے سے بڑے عہدیدار تک ہر شخص ٹیکس گزار ہے۔ قانونی طور پر وہاں رہائش پذیر اگر کوئی فرد کام کرے گا تو جہاں وہ وہاں کے معاشی نظام کو گزارہ الائونس نہ لے کر استحکام بخشے گا وہاں وہ روزگار کی صورت میں ٹیکس بھی دے گا۔ جبکہ غیر قانونی طور پر کام کرنے والا شخص نہ تو وہاں کے معاشی نظام کو کوئی فائدہ پہنچاتا ہے اور نہ ہی ٹیکس دیتا ہے اور جب غیر قانونی طور پر کام کرتا ہے تو یہ اس شخص کی حق تلفی تصور کی جاتی ہے جو ہے تو وہاں قانونی طور پر رہائش پذیر لیکن روزگار نہ ہونے کی صورت میں گزارہ الائونس لینے پر مجبور ہے۔