working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

امریکی خارجہ پالیسی کون مرتب کرتا ہے
مائیکل کرائولے
کیا امریکی خارجہ پالیسی نیک نیتی پر مبنی ہے اور اس پر عمل درآمد بھی احسن طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اور کیا آنے والے دور کے گوناگوں چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے کافی ہے؟ کیونکہ ان کا تعلق صرف اوباما کے اقتدار سے نہیں بلکہ مستقبل بعید سے بھی ہے۔ خارجہ پالیسیوں کی تدوین اور دنیا بھر کے ممالک پر اپنی مرضی کے مطابق ان کا اطلاق بظاہر ایک آسان عمل لگتا ہے لیکن فی الحقیقت ایسا ہرگز نہیں۔ امریکا نے دنیا میں جو طاقت حاصل کر رکھی ہے، اس کو برقرار رکھنے کے لیے اسے کئی ایک سطحوں پر جتن کرنا پڑتے ہیں۔ بلکہ بعض ا وقات تو اسے حکومت میں شامل اپنے ہی لوگوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی اپنے ہی لوگوں سے کیے گئے فیصلوں کے نتیجے میں انتہائی خفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو بعد ازاں راستے کی مشکلوں کی شکل بھی اختیار کر جاتے ہیں۔ زیر نظر مضمون سے نہ صرف موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کے مستقبل کے منصوبے ظاہر ہیں بلکہ ایک ایسا آرڈر جسے اوباما کے سینیئر ساتھی ریگولر آرڈر کہتے ہیں یعنی ایک ایسا نظام جس کے تحت بلا کم و کاست صدر کو مختلف نقطہ ہائے نظر سے آگاہ رکھا جائے نہ صرف یہ کہ پریس کی جس کو بہنک نہ پڑے بلکہ نامناسب باتوں کا عوام کو بھی علم نہ ہو اس سب کا بھی اس مضمون سے اظہار ہوتا ہے۔ (مدیر)

ایران کے صدارتی الیکشن سے ایک دن بعد ہفتہ 13 جون کی شام کو نائب صدر جو بائیڈن اگلی صبح این بی سی کے پروگرام ''میٹ دی پریس'' میں شرکت کی تیاری کر رہے تھے۔ ایران میں محمود احمد نژاد بھاری اکثریت سے دوبارہ منتخب ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے اور تہران کی سڑکوں پر الیکشن میں مبینہ دھاندلی پر احتجاج کرنے والے اصلاح پسندوں کی بسیج ملیشیا سے جھڑپیں ہو رہی تھی۔ اوباما حکومت کو ایک نازک اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال کا سامنا تھا اور یہ بالکل واضح نہیں تھا کہ بائیڈن کو کیا کہنا چاہیے۔ اس طرح کے حالات میں نائب صدر (اور بالخصوص یہ نائب صدر) بغیر سوچے سمجھے یاتیاری کے ایسے پروگرام میں نہیں جا سکتے تھے۔ اوباما حکومت کو ایک واضح اور دوٹوک موقف پیش کرنے کی ضرورت تھی۔

امریکی دارالحکومت میں عام طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ کئی معاونین گھنٹوں بحث مباحثے اور بار بار لکھ کر اپنے ''باس'' کی گفتگو کے لیے نکات تیار کرتے ہیں لیکن بش انتظامیہ میں لگتا ہے کہ یہ طریق کار کچھ الٹ سا گیا ہے کہ نائب صدر معاونین اور خارجہ پالیسی کے مشیران سے بات کرنے یاخود اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے کوئی موقف اختیار کرنے کی بجائے براہ راست صدر اوباما سے رجوع کرتا ہے۔ وائٹ ہائوس کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ ''نائب صدر نے صدر سے پوچھا'' آپ بتائیں مجھے کیا کہنا چاہیے؟ پھر صدراور نائب صدر نے بیٹھ کر صلاح مشورہ کیا اور جس نتیجے پر پہنچے وہ ہمارے حوالے کیا۔''

چھ ماہ قبل جب اوباما نے صدارت سنبھالی تو لگتا تھا کہ وہ داخلی سیاست میں الجھ کر رہ جائیں گے معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ صحت عامہ اور گلوبل وارمنگ سے متعلق مسودہ ہائے قانون فوری توجہ طلب تھے۔

سینیٹر ہلری کلٹن کی قیادت میں ان کی اعلیٰ اختیاراتی خارجہ پالیسی ٹیم اور تجربہ کار وزیر رابرٹ گیٹس کی موجودگی سے لگتا تھا کہ وہ عالمی امور ان لوگوں کو سونپنا چاہتے ہیں جو ان کی اپنی سینٹ خارجہ پالیسی کمیٹی کی چار سالہ رکنیت کے مقابلہ میں کافی زیادہ تجربہ رکھتے تھے۔ درحقیقت ان کی سفارتی ٹیم کو دیکھتے ہوئے، جس میں رچرڈ ہالبرک جیسے بڑے بڑے اناپرست بھرے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ صدر خارجہ پالیسی کو خود چلانا بھی چاہیں گے تو ایسا کرنہیں سکیں گے۔

چھ ماہ بعد یہ سب مفروضے اور اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اب ایران کے بارے میں وائٹ ہائوس کا موقف بیان کرتے ہوئے، شمالی کوریا کے خلاف کارروائی کے لیے آمادہ کرنے کے لیے ایشیائی لیڈروں سے ذاتی طور پر گفتگو کرتے ہوئے اور نیٹو اتحادیوں میںسمجھوتے کراتے ہوئے اوباما نے درحقیقت خود اپنے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور وزیر خارجہ کا کردار ادا کیا۔ بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش کے برعکس جنہیں بڑے عالمی واقعات کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا اوباما رچرڈنکسن یا جارج ڈبلیو بش سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں یعنی ایسا صدر جواپنی ترجیحات اور ذاتی دلچسپی کی وجہ سے خارجہ پالیسی کے معاملات میں بہت منہمک ہے۔

اوباما واضح تذویراتی مقاصد ساتھ لے کر ایوان صدر میں آئے تھے وہ ایران کے ساتھ رابطے چاہتے تھے۔ اسرائیلوں اور فلسطینیوں میں بات چیت دوبارہ شروع کرانے کے خواہش مند تھے۔ عراق سے فوج نکالنا اور افغانستان میں کوششیں تیز کرنا چاہتے تھے۔ وہ عالم اسلام کے قریب جانا اور دنیا میں امریکہ کے لیے نیک نامی چاہتے تھے۔ لیکن آپ ان کے سینئر سٹاف سے ملیں تو وہ جہاں عالمی بساطِ سیاست پر اوباما کی بصیرت کو سراہتے ہیں وہاں اس پر بھی فخرکرتے ہیں کہ ان کی انتظامیہ نے خارجہ پالیسی کا عمل کس طرح چلایا ہے۔ اس انتظامیہ کے لیے طریق عمل (Process) حکمت عملی کا محض ایک کمتر نمونہ نہیں۔ طریق عمل مختلف چیلنجوں اور نقطہ ہائے نظر میں ہم آہنگی اور پیش رفت فراہم کرتا ہے۔ اوباما کے سینئر معاونین اسے ایک باقامت نظم (regolar order) کہتے ہیں یعنی ایک ایسا نظام جس میں کم از کم بحث و تکرار اور اختلافات کے ساتھ صدر کو مختلف النوع خیالات فراہم کیے جاتے ہیں۔ پریس تک بات بہت کم پہنچتی ہے اور گندے کپڑے لوگوں کے سامنے نہیں دھوئے جاتے۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کے ڈائریکٹر تذویراتی مواصلات ڈینس مک ڈونف کا کہنا ہے ''ریگولر آرڈر آپ کا دوست ہے، نظام اسی وقت ہی چل سکتا ہے جب آپ بالغ رویہ اختیار کریں۔''

اب تک سسٹم نے ان شکوک اورخدشات کو غلط ثابت کیا ہے کہ بڑے ناموں والے مشیران میں اتفاق ہی نہیں ہو گا۔ یا یہ کہ اوباما اس طرح کے خطرناک زمانے میں حکومت کرنے کے لیے مطلوبہ تجربہ نہیں رکھتے۔

کلنٹن کے زمانے کے وائٹ ہائوس کے نیشنل سیکورٹی کے معاون اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات جیمز گولڈ چیئر نے اوباما کی ٹیم میں ہم آہنگی کی سطح کو حیران کن قرار دیا ہے۔ البتہ ایسے اشارے ملے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے لیے غیرمتوقع چیلنجز سامنے آ سکتے ہیں۔ صدر کی مدت جتنی بڑھتی جاتی ہے یہ امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔

اوباما کا طریق کار وہی ہے جو ان کی ٹیم نے ان کی پارٹی کے اندر صدارتی امیدواروں کی مہم کے وقت اختیار کیا تھا اور جس کے نتیجے میں ہلری کلنٹن کی مہم ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ اسی لیے یہ اوباما کا پسندیدہ طریق کار ہے۔

کولن پاول نے ایک بار نیشنل سیکورٹی کے نظام کو ''صدر کی شخصیت کامظہر'' کہا تھا۔ یہ بات اوباما پر بھی صادق آتی ہے لیکن یہ انتظامیہ طریق کار پر جس قدر زور دیتی ہے وہ صدر کے کردار سے بڑھ کر ہے۔ 1993ء کے موسم خزاں میں کلنٹن کی نیشنل سیکورٹی ٹیم کا برا حال تھا۔ آج کے اوباما کی طرح اس وقت بھی نئے صدر کی توجہ معیشت اور صحت عامہ کے منصوبوں پر تھی۔ کمیونزم کو شکست ہوچکی تھی۔ بیرون ملک گڑبڑ اور تصادم والے مقامات بہت کم تھے۔ اس کے باوجود صدر کے خارجہ پالیسی کے مشیروں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور صدر ان سے کیا چاہتے ہیں۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ٹونی لیک نے کلنٹن کو خط لکھا کہ وہ پے در پے ناکامیوں کااعتراف کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو نئے حالات میں ایجنسیوں کے روابط میں مشکلات ہیں اورایک وجہ وائٹ ہائوس بھی ہے۔ جو اب بھی خارجہ پالیسی کو اپنا ایک ذاتی ادارہ سمجھتا ہے جو اس کی مکمل ملکیت ہے۔ اسی صورت حال کے نتیجے میں صدارت کے پہلے سال کئی معاملات میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں فوج میں ہم جنس پرستوں کا معاملہ، صومالیہ میںBlack hawk down اور ہیٹی کا بحران شامل تھے۔ اکتوبر 1993ء میں کلنٹن نے اوول آفس پر ٹونی لیک کو دوسروں کے سامنے ڈانٹ پلائی۔

جارج ڈبلیو بش بڑے بڑے ناموں والی ٹیم وائٹ ہائوس لائے۔ اس کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے ان کی انتظامیہ اسی طرح کی بے عملی کا شکار رہی۔ آٹھ سال تک ڈک چینی، جان بولٹن اور ڈونلڈ رمزفیلڈ جیسے ''ہاک'' کولن پاول، کنڈولیزا رائس اور سفارت کاروں کی زبانی عملیت پسند پالیسیوں کی مخالف میں کوشاں رہے۔ کہا جاتا ہے کہ عراق جنگ کے دوران رائس اور رمزفیلڈ کے تعلقات اس حد تک بگڑ گئے کہ وزیر دفاع کو یہ باقاعدہ حکم دیا گیا کہ وہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کا ٹیلی فون کالز کا جواب دیا کریں۔ چینی نے ایک درجن سے زیادہ خارجہ پالیسی کے مشیر جمع کر کے اپنی ایک شیڈو نیشنل سیکورٹی کونسل بنا لی جس کے نتیجے میں صدر کو درپیش بعض انتہائی اہم سیکورٹی معاملات پر ایک جنونی قسم کا نقطہ نظر اختیار کیا گیا۔ ان میں صدام حسین کے ایٹمی پروگرام اور القاعدہ سے تعلقات کے بارے میں جنگ سے پہلے کی انٹیلی جنس اور جنگ کے بعد کی منصوبہ بندی شامل تھے۔

جزوی طور پر اس کے نتیجے میں اوباما کی ٹیم کو ایک مضبوط نیشنل سیکورٹی ٹیم بنانا پڑی جس کی قوت کا مرکز وائٹ ہائوس ہے۔ جارج ڈبلیو بش نے 2001ء میں صدارت سنبھالی تو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور کنڈولیزا رائس نے چاہا کہ نیشنل سیکورٹی کونسل کاعملہ ایک تہائی کم کر دیا جائے اس کے برعکس اوباما کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جیم جونز نیشنل سیکورٹی کونسل کو مضبوط کرنے میں لگ گئے۔ 23 فروری کو اوباما نے جو پہلا صدارتی حکم نامہ جاری کیا اس کے ذریعے نیشنل سیکورٹی کونسل میں ڈرامائی توسیع کر دی گئی۔ کونسل کے اہم اجلاس کے شرکا میں کئی اہم عہدیداروں کا اضافہ کردیا گیا جن میں اٹارنی جنرل توانائی اورہوم لینڈ سیکورٹی کے وزارء اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر شامل ہیں۔

اپنے ابتدائی مہینوں میں ہی اوباما کی ٹیم کا باقاعدہ نظم پر یقین دو گناہو گیا۔ اس کی ایک وجہ شروع کے زمانے کی وہ غلطی بھی تھی جب صدر اوباما نے گوانتا ناموبے حراستی کیمپ بند کرنے کا حکم دیا۔ وہاں موجود 240 غیرملکیوں کے بارے میں غور شروع ہوا تو یہ بات سامنے آئی کہ اوباما کئی چینی ویغور مسلمانوں کو جودہشت گرد نہیں پائے گئے، امریکہ میں آباد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کی سطح پر تواس پر اچھی طرح سوچ بچار کی گئی تھی لیکن ارکانِ کانگریس کو مناسب طور پر تیارنہیں کیا گیا تھا۔ خبر نکلتے ہی ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ہیری ریڈ جیسے ڈیموکریٹس نے تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ نتیجتاً اس تاریخ سے انتظامیہ کی ان کوششوں کو سخت نقصان پہنچا جو وہ بیرون ملک اتحادیوں کواس بات پرقائل کرنے کے لیے کر رہی تھی کہ ''کلیئر'' قرار دیئے گئے گوانتا ناموبے کے قیدیوں کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

گوانتاناموبے کا معاملہ محض ایک استثنیٰ ہے، بالعموم اوباما کی ٹیم کی پالیسیاں کامیابی سے آگے چلی ہیں۔ مارچ کے وسط میں انتظامیہ کے بڑوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں اوباما، جونز، بائڈن، ہلری کلنٹن، ہالبروک اور فوجی سربراہ شریک تھے۔ اجلاس میں ڈیڑھ گھنٹے تک افغانستان میں فوجوں کی تعداد پر بحث ہوئی۔ بائڈن کی قیادت میں ایک گروپ کا اصرارتھا کہ محدود تعداد میں فوج رکھی جائے اور صرف القاعدہ کے خلاف ایک مشن جاری رکھا جائے۔ ہلری کلنٹن اور ہالبروک کا موقف تھا کہ افغانستان میں استحکام کے لیے دہشت گردوں اور باغیوں کے خلاف ایک وسیع آپریشن کیا جائے۔ اوباما نے دونوں نقطہ نظر سن کر ایک درمیانی راہ نکالی اور کہاکہ امریکی مشن صرف دہشت گردوں کے خلاف محدود ہو گا لیکن مزید چار ہزار فوجی بھیجے جائیں گے جوافغان فورسز کو تربیت دیں گے اورافغانستان میں سول سوسائٹی بہتربنائیں گے۔ اگرچہ اجلاس میں ہونے والی بحث میڈیا تک بھی پہنچ گئی لیکن یہ محسوس نہیں کیا گیا کہ کسی کا وقارمجروح ہوا ہے۔ اوباما کی ٹیم اس وقت سے اب تک ایسی ہی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ بظاہر یہ ہم آہنگ خارجہ پالیسی سازی جم جونز کا کام ہے لیکن وہ مخالفوں اور حاسدوں کے پراپیگنڈے کا بھی مسلسل نشانہ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھلکڑ ہیں، وائٹ ہائوس کی چہل پہل سے دور رہتے ہیں۔ سائیکل پر کھانا کھانے نکل جاتے ہیں۔ پروپیگنڈہ اتنا بڑھا کہ وزیر دفاع گیٹس کو جونز کی تعریف کے لیے بیان دینا پڑا۔ سابق جنرل جونز کے حامیوں کا کہنا ہے کہ دراصل جونز اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جونز نے خود مجھے بتایا کہ وہ میڈیا کوریج پر بہت کم توجہ دیتے ہیں اور اپنے اثر و رسوخ کے اظہار کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ہاں کسی میٹنگ کے بعد صدر کو کوئی خاص بات بتانا ہو تو ان کے گوش گزار کرتے ہیں لیکن سب کے بعد۔

اگر جونز کے اوباما کے ساتھ اتنے قریبی ذاتی تعلقات نہیں ہیں جتنے ان کی انتخابی مہم کے ساتھیوں مک ڈونف اور لپرٹ وغیرہ کے ہیں لیکن وہ ہراہم خارجہ پالیسی میٹنگ میں صدرکے ساتھ ہوتے ہیں۔ پوپ سے ملاقات ہو یا ولادی میرپوٹن سے بات چیت، جونز ہرجگہ اوباما کے ساتھ تھے۔ جونز نادانی میں کہا کرتے ہیں کہ فوجی ہونے کی وجہ سے وہ اب بھی بعض ماتحتوں پر فوجی طرز کا ڈسپلن نافذ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

میں پچھلے دنوں جونز سے ملنے وائٹ ہائوس میں ان کے دفتر گیا۔ وہ ایک سیاہ رنگ کی فائل پڑھ رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو وہ فوراً بند کر کے ایک طرف رکھ دی اورمیری طرف متوجہ ہوئے۔ بات شروع ہوئی تو جونز نے کہا۔ اوباما ٹیم فیصلے کرتے ہوئے مختلف وزارتوں اور ایجنسیوں، دفتر خارجہ سے لے کر پینٹاگان اور سی آئی ا ے تک سب کے رابطے کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ اوباما کوشش کرتے ہیں کہ ہر شخص یہ محسوس کرے کہ اس کی آواز سنی گئی ہے۔ اس طرح یہ خطرہ کم ہوجاتا ہے کہ پالیسی پر بحث میں ہارنے والا پریس کے پاس جائے گا اور اپنے اختلافی خیالات کا اظہار کر کے طریق عمل کو نقصان پہنچائے گا۔ طریق عمل اس طرح کا ہے کہ کوئی بھی شخص یہ نہیں سمجھتا کہ اس کی بات ان سنی کر دی گئی۔

جونز کے نائب ٹام ڈونی لون ان کے لیے بہت اہم کردارادا کرتے ہیں۔ جونز جہاں قومی سلامتی کے ڈھانچے کا اوپر سے جائزہ لیتے ہیں وہاں ڈونی لون بیشتروقت حکومت کے مختلف شعبوں کے کم معروف حکام کے ساتھ بحث مباحثے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ ان کی تجاویز کی روشنی میں پالیسی آپشنز اوول آفس پہنچائی جا سکیں۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کے طریق کار سے واقف ایک شخص نے بتایا کہ ڈونی لون پالیسی سازی کے فیصلوں کے سلسلے میں ایک اہم شخص ہیں۔ وہ جمی کارٹر اور والٹر مونڈیل کے سیاسی کارکن رہے، جو بائیڈن کی 1988 ء اور 2008ء کی صدارت کے لیے کوششوں میں اہم کردار ادا کیا۔ کلنٹن حکومت میں ڈونی لون کی قانونی فرم کے ساتھی وارن کرسٹوفر وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے ڈونی لون کو اپنا چیف آف سٹاف بنایا۔ ٹام ڈونی لون ان میں چار چار میٹنگز کرلیتے ہیں۔ ہفتے میں ایک بار وائٹ ہائوس کے تہہ خانے میں واقع سچویش روم میں افغانستان کے بارے میں میٹنگ ہوتی ہے۔

ڈونی لون بل کلنٹن کی انتظامیہ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لے وہ اوباما کی ٹیم کو گزشتہ ڈیموکریٹک صدارت کے زمانے کے اوائل کی غلطیوں سے بچنے پر مدد دیتے ہیں۔ وائٹ ہائوس کے ایک سینئر معاون کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں طریق عمل کے سلسلے میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں کچھ وقت لگا تھا۔ اوباما حکومت میں نیشنل سیکورٹی کونسل وائٹ ہائوس میں اپنے پالیسی کیسز کی وکالت کرنے والے حکام سے یہ طے کرتی ہے کہ بحث شفاف اور کھلی ہو گی اور خود ہی فیصلے کیے جائیں گے اورایک نئی با ت یہ ہے کہ میٹنگ کی سمریاں وسیع پیمانے پر تقسیم کی جاتی ہیں اور وہ بھی چوبیس گھنٹے کے اندر تاکہ کوئی شخص اندھیرے میں نہ رہے۔ اب تک یہ طریق عمل کامیابی سے چلا ہے۔ رچرڈ ہالبروک کی مثال لیں، جن کی مشہور ڈیموکریٹک چال بازیاں اور میڈیا سے تعلقات اوباما کے غیر ڈرامائی طور طریقوں کے برعکس ہیں۔ چھ ماہ گزر چکے ہیں اورحیران کن طور پر ہالبروک کسی گڑبڑ کا سبب نہیں بنے۔ وہ براہ راست ہلری کلنٹن کو رپورٹ کرتے ہیں۔ ان کے بغیر وہ وائٹ ہائوس نہیں جاتے اور (صرف ایک مثال اس کے برعکس ہے جب ہلری دفتر خارجہ کے ایک گیراج میں آ کر کہنی تڑوا بیٹھیں تو انہوں نے خود ہالبروک کو اجازت دی کہ وہ ان کے بغیر کام جاری رکھیں)۔ یہ صحیح ہے کہ نیشنل سیکورٹی کونسل میں ہالبروک کا افغانستان میں فوجی کارروائی کے نگران ڈگلس لیوٹ سے افغانستان میں فوج کے لیے کوئی پیمانہ مقرر کرنے پر جھگڑا ہوا تھا اور اس سے پہلے ایک بار وائٹ ہائوس کے چیف آف سٹاف رحم عمانویل نے انہیں غصے میں فون کیا تھا جب یہ خیال کیا گیا کہ انہوں نے جنگی کوششوں کے سلسلے میں اوباما کے ایک بیان کے بارے میں ''دخل در معقولات'' کا مظاہرہ کیا۔ خارجہ پالیسی سے متعلق ایک ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہالبروک نے بالعموم کوئی اکڑ فوں نہیں دکھائی بلکہ ان کے ماضی کے کردار کوسامنے رکھیں تو وہ دبی بلی بن کر رہ رہے ہیں یہ طریق عمل کی ایک چھوٹی سی کامیابی ہے۔

اوباما کواس بات کا واضح ادراک نہ ہوتا کہ وہ خارجہ پالیسی کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں اور خود اس کا نگران بننے کا اعتماد ہوتا تو انتظامیہ کا طریق عمل پر زور کامیاب نہ ہوتا۔ مثال کے طور پر وہ شروع سے ہی اسرائیلی فلسطینی تصفیے کی خواہش ظاہر کرتے آ رہے ہیں۔ بش انتظامیہ کے ایک عہدیدار جو مشرقِ وسطیٰ پالیسی پر کام کرتے رہے ہیں اورغیر ملکی عہدیداروں سے رابطے میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ قیام امن کے لیے صدر اوباما ذاتی طور پر کوشاں ہیں۔ یہ کام جارج مچل نہیں کر رہے جوانہیں ہر دو ماہ بعد رپورٹ دیتے ہیں۔ اصل میں سارا کام صدر کر رہے ہیں اور وہی مچل کو ہدایات دیتے ہیں۔

اوباما شروع دن سے ایک عالمی لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ پہلے غیر ملکی دورے پر اپریل میں سٹراسبرگ گئے جہاں نیٹو کی سالانہ سربراہ کانفرنس ہو رہی تھی۔ وہاں اوباما کو ایک غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لیے ڈنمارک کے وزیر اعظم آندرس راس موسن کی ترکی مخالف کر رہا تھا۔ اوباما سرگرم ہو گئے۔ پہلے پروگرام کے بغیر ترکی کے صدر عبداللہ گل سے ملاقات کی۔ پھر گل اور راس موسن کو اکھٹے بٹھا کر بات کی۔ اوباما کی مداخلت کے نتیجے میں اور اس وعدے پر کہ راس موسن ایک ترک ڈپٹی سیکرٹری مقرر کریں گے۔ ڈیڈلاک ختم ہو گیا۔ جارج ڈبلیو بش اپنی صدارت کے زمانے میں ایسے ہی موقع پر فلیش کارڈز کے ذریعے غیرملکی سربراہوں کے نام جاننے میں مصروف رہتے۔ جونز نے مجھے بتایا کہ اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کی اوباما قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اوباما کے دوسرے مشیر بھی ایسی بہت سی باتیں بتاتے ہیں۔ کلنٹن اور بش کے برعکس اوباما کو ریاستی معاملات میں اپنے اختیار کے بارے میں کوئی شک شبہ نہیں ہوتا۔ وہ خارجہ پالیسی کے نظام کے رعب میں نہیں آتے وہ اپنے مشیروں کے خیالات اور مفروضوں کا ذاتی طور پر تجزیہ کرتے ہیں۔ کچھ حکام کا تو کہنا ہے کہ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوباما معاملے کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ موجود بعض ماہرین سے زیادہ سمجھتے ہیں۔

اب تک اوباما خارجہ پالیسی کے سلسلے میں اسی وژن پرعمل پیرا ہیں جوانہوں نے صدارتی انتخابی مہم میں اختیار کیا تھا۔ انہوں نے عراق چھوڑنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ افغانستان میں فوج بڑھانے کا وعدہ پورا کیا ہے۔ پراگ میں اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیا کے نصب العین کا اظہار کیا۔ نو روز پر تہنیتی پیغام بھیج کر ایران سے رابطہ کیا اور قاہرہ پر خطاب کرتے ہوئے عالم اسلام کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے۔ اس طرح اب اوباما کو حکمت عملی تیار کرنے والوں کی نہیں ڈینی لون اور جونز جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو طریق عمل وضع کرتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ طریق عمل پراعتماد اور زور دینے کے اوباما کو آنے والے مہینوں اور برسوں میں کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ طریق عمل صرف اسی وقت مفید ثابت ہوتا ہے جب وہ مفروضے درست ہوں جن کی بنیاد پر حکمت عملی تیار کی گئی۔ بیت المقدس سے ماسکو۔ ان سب مفروضوں کی آزمائش ہو سکتی ہے۔ اوباما کے ماڈل میں ایک رکاوٹ ، ایران کے سلسلے میں ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔

ایرانی انتخابات کے بعد اوباما اور بائیڈن نے گفتگو کے جونکات تیار کیے تھے وہ جہاں خارجہ پالیسی کے سلسلے میں حکومت کی سوچ کا نیا پن ظاہر کرتے تھے وہاں اس کی مدد کا بھی اظہار کرتے تھے۔ تہران میں عوامی ابھار کے بارے میں نائب صدر کا پہلا ردعمل محتاط تھا۔ انہوں نے کہا ''کوئی ٹھوس فیصلہ دینے کے لیے ہمارے پاس کافی حقائق نہیں ہیں۔'' چند دن بعد اوباما کا تبصرہ بھی ملتا جلتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ احمدی نژاد اور ان کے حریف میر حسین موسوی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ پھر جب ایرانی حکومت کے کارندے کئی دن تک مظاہرین کو مارتے پیٹتے اور ہلاک کرتے رہے تو اوباما نے کچھ سخت موقف اختیار کیا۔ انہوں نے کریک ڈائون کو ناجائز قراردیا۔ انہوں نے مارٹن لوتھر کنگ کنگ جونیئر کی ''آرک آف دی مورل یونیورس'' کا حوالہ بھی دیا۔ اس نرم ردِعمل سے ا وباما اور ان کے خارجہ پالیسی کے مشیروں میں پہلی بار خود اعتمادی میں کمی نظر آئی۔ انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے اوباما کے ردعمل کا دفاع کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ایرانی انتخابات کے بعد کے واقعات پر وائٹ ہائوس کا جو رویہ رہا اس پر اعتراض جائزہے لیکن کیا اس معاملے میں ہم کچھ بے خبر ہیں۔ حالانکہ اوباما کی ٹیم کا خیال تھا کہ وہ پوری طرح باخبر ہے۔ ایران کے بارے میں اوباما انتظامیہ کی پالیسی کا تفصیلی جائزہ جنوری سے اپریل تک جاری رہا تھا۔ اس میں بات چیت کے امکانات پر بھی غورکیا گیا اور اقتصادی پابندیاں لگانے پر بھی لیکن اس بات کا کسی کو خیال نہیں آیا کہ وہاں حکومت کے خلاف کوئی شورش ہو سکتی ہے۔ ایک عہدے دار نے کہا خود ایرانیوں کو اس بات پر حیرت ہوئی۔ انہیں اندازہ ہوتا تو وہ پانچ سو رپورٹرز کو نہ آنے دیتے۔ تہران کے شیراز تک ہنگاموں نے اوباما کی خارجہ پالیسی کے پہلے ماڈل کو دو طرح سے چیلنج کیا۔ پہلا یہ کہ اس نے انتظامیہ کے فخریہ طریق عمل کو چیلنج کیا۔ وائٹ ہائوس کے عہدیدار بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اوباما اعتماد کے ساتھ فوری فیصلے کرتے ہیں لیکن ایرانی انتخابات پر ان کا ردعمل ایسا نہیں تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ شاید وہ طویل غورو خوص کے ساتھ ترتیب دی ہوئی پالیسی کے پابند تھے؟ ان کا وہ بیان جس میں انہوں نے مارٹن لوتھر کنگ کا حوالہ دیا، بہت مناسب اور حقیقی اوباما کا بیان لگتا تھا لیکن اس سے پہلے والا محتاط بیان یہ ظاہر کرتا تھا کہ اس معاملے میں نہ طریق عمل کام آیا ہے نہ اس کی اپنی عقل و فہم۔ اوباما کا خیال تھا کہ وہ بش انتظامیہ کا راستہ چھوڑ کر ایران سے اس کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت کر سکتے ہیں لیکن اب ظاہر ہو گیا ہے کہ اس سوچ میں کیا مشکلات ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ا حمدی نژاد نے صدر اوباما کو دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا جواب نہیں دیا بلکہ اب ان سے بات کرنے کی خون آلود ہاتھوں والی متنازعہ حکومت کو جواز فراہم کرنے کے لیے کہا جائے گا۔

خارجہ امور چلانے میں اوباما کے اعتماد کی حدود واضح ہیں لپرٹ کا کہنا ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ وہ کیا نہیں جانتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اوباما نے حال ہی میں اپنی نیشنل سیکورٹی کونسل کی ٹیم کو بہتر بنایا ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ کے تجربہ کار مذاکرات کار اور ایران کے امور پر نظر رکھنے والے ڈینس راس کو محکمہ خارجہ سے نیشنل سیکورٹی کونسل میں لے آئے ہیں۔ وہ وائٹ ہائوس کی ٹیم میں مزید تذویراتی گہرائی اور شاہانہ اہلیت چاہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اوباما کو ریاض کے دورے کے نتیجے میں سعودی حکمرانوں کی طرف سے اسرائیل کے لیے کوئی مثبت اشارہ نہ آنے پرمایوسی ہوئی تھی۔ اس لیے اب وہ مشرق وسطیٰ میں امن کے عمل کے لیے راس جیسے تجربے والا کوئی شخص چاہتے ہیں۔

آنے والے مہینوں میں یقیناکئی بحران آئیں گے۔ عراق، اسرائیل انخلا شاید اتنا پرسکون نہ ہو۔ یہ سوالات بھی جواب طلب ہیں کہ کیا افغانستان میں امن اور پاکستان میں استحکام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ شمالی کوریا کا مسئلہ بدستور حل طلب ہے۔ القاعدہ کسی بھی وقت پھر حملہ آور ہو سکتی ہے۔

کلنٹن انتظامیہ کے ایک سابق عہدیدار جو موجودہ امریکی خارجہ پالیسی سے اچھی طرح واقف ہیں، کہتے ہیں کہ ''اوباما خارجہ پالیسی کے جینیئسں صدر کا کردارادا کر رہے ہیں اور جب تک وہ یہ کردار ادا کرتے رہیں گے۔ یہ نظام چل سکتا ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تصور کرنا انتہائی مشکل ہے کہ بارک اوباما یہ بازی اگلے چار یا آٹھ سال جاری رکھ سکتے ہیں۔ ان کی توجہ ادھر ادھر ہو ہی جائے گی۔''

وائٹ ہائوس کے حکام کا کہنا ہے کہ بیرون ملک کوئی بڑا یا طویل بحران ہمارے پالیسی سازی کے نظام پر جو دبائو ڈال سکتا ہے، اس سے نمٹنے کی ہم نے پوری منصوبہ بندی کر رکھی ہے لیکن ان میں سے بعض نے تسلیم کیا کہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ کیا ہم واقعی پوری طرح تیار ہیں۔ وائٹ ہائوس کے ایک سینئر معاون نے کہا ''ہمیں احساس ہے کہ اب تک تو معاملات ٹھیک رہے ہیں لیکن آگے بڑے امتحان آ سکتے ہیں۔ جلد یا بدیر کسی موقع پر ہم کوئی بڑی غلطی کر سکتے ہیں اور تب ہم دیکھیں گے کہ سب کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔''