working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

گلگت بلتستان داخلی خود مختاری پیکیج 2009 ، خدشات اور توقعات

مجتبیٰ محمد راٹھور
پاکستان کا انتہائی اہمیت کا علاقہ گلگت بلتستان گذشتہ 62سال سے آئینی اور سیاسی حقوق سے محروم رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے کسی حد تک ان کے مسائل کے حل کے لیے داخلی خودمختاری پیکج کا اعلان کیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں مصنف نے گلگت بلتستان کے لیے حکومت کے اس پیکج کے حوالے سے توقعات اور خدشات کا تجزیہ کیا ہے۔ (مدیر)

30 اگست 2009 کو وفاقی کابینہ نے اپنے متفقہ فیصلے میں گلگت و بلتستان کے انتظامی و قانونی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے اور وہاں کے عوام کو مزید اختیارات اور داخلی خود مختاری دینے کے لیے ایک نئے اصلاحاتی پیکیج کی منظوری دی ہے جسے ''ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آرڈیننس ''لیگل فریم ورک آرڈر 1994 '' کی جگہ لے گا۔ صدر پاکستان نے 7 ستمبر 2009 کو آرڈیننس پر دستخط کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا اور نومبر 2009 میں نئے الیکشن کروانے کی منظوری دی۔ گلگت بلتستان کے عوام گزشتہ 62 سالوں سے اپنے آئینی، سیاسی اور قانونی حقوق و تشخص سے محروم چلے آرہے ہیں اور ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں بھی پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح اختیارات دیئے جائیں۔ موجودہ حکومت نے عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کے لیے ایک نئے اصلاحاتی پیکیج کا اعلان کیا۔ یہ پیکیج کس حد تک گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرے گا اور اس پیکیج کے مسئلہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ دو اہم نکات ہیں جن کو اس مضمون میں زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

تاریخی پس منظر
پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام انتہائی شمال کا علاقہ ہے۔ جس کا رقبہ 72496 مربع کلومیٹر ہے جب کہ اس کی آبادی تقریباً 22 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش پر پھیلا گلگت بلتستان کا خطہ جہاں عوامی جمہوریہ چین اور جنوبی ایشیاء کے درمیان زمین رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔ وہیں اس خطے کی سرحدیں، افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر تک پھیلی ہوئی ہیں جب کہ سٹریٹجک اہمیت کے حامل تین درے، قراقرم پاس، اندرا کلی پاس اور خنجراب پاس اس خطے کے شمالی حصہ کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ اور عوامی جمہوریہ چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ سے ملاتے ہیں۔ 8000 میٹر بلند دنیا کی 14 بلند ترین پہاڑی چوٹیوں میں سے 5 سلسلہ قراقرم کے بولتورو گلیشیر کے اوپر ایک مسلسل بلند ہوتا ہوا ڈھانچہ تشکیل دیتی ہیں۔

خوبصورت گلیشئرز اور جھیلوں سے آراستہ گلگت بلتستان آبی وسائل کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس خطہ نے قدیم انڈس سویلائزیشن میں آریائی اور منگولین تہذیب کے خوبصورت امتزاج کو بھی سمو رکھا ہے۔ یہاں کے آریائی نسل کے لوگوں کی شکلیں، پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان اور کشمیری لوگوں سے ملتی ہیں اور انہیں ایک نسل اور قوم بناتی ہیں۔ خطے میں آریائی نسل کی غالب اکثریت ہے جب کہ چائنیز شکل کے حامل منگولین بھی چند علاقوں میں بستے ہیں۔ یہاں کی اہم زبانوں میں بلتی، بروشسکی، شینا، داخی اور اردو نمایاں ہیں۔ تقریباً ایک ہزار سال قبل یہاں اسلام کی شمع روشن ہوئی۔ مسلمانوں کے چار فرقے، شیعہ، سنی اسماعیلی اور نور بخشی ہیں، جو خطے کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔

پانچویں صدی عیسوی سے اس خطے کی مبہم سیاسی تاریخ کا پتہ چلتا ہے ۔ جہاں دردستان، بلورستان اور بروشال کی ریاستیں قائم رہیں۔ اس کے بعد یہ ریاستیں چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تقسیم ہونا شروع ہوگئیں۔ ہر علاقے ، شہر اور وادی کا اپنا حکمران ہوتا اور ان کے آپس کے تنازعات جاری رہتے۔ اندرونی تنازعات نے ان ریاستوں کو مزید کمزور کر دیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے یہ خطہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے۔ تاہم جغرافیائی اور موسمی سختیوں اور مشکلات کے باعث زیادہ تر بیرونی حملہ آوروں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 19 وی صدی تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔ برصغیر میں برطانوی تسلط کے ساتھ خطے میں جدید دور کا آغاز ہوا۔ 19 صدی میں گلگت بلتستان پر سکھوں نے قبضہ کر لیا اور 100 سال تک ڈوگرہ راج کے تحت رہا۔ ڈوگرہ حکمران بلتستان پر براہ راست حکومت کرتے تھے جو کہ ضلع لداخ کا حصہ تھا اور اس کا ہیڈ کوارٹر لیہ میں تھا۔ برطانیہ نے شمالی علاقہ جات پر قبضے کے لیے پہلے جموں کشمیر کے مہاراجہ کے ذریعے اور بعد میں براہ راست کوشش کی۔ برطانیہ نے وادی کشمیر کو جموں کے ''ڈوگرہ مہاراجہ کے ہاتھ بیچ دیا اور بعد میں اس نے سکھوں کی گلگت اور دوسری چھوٹی ریاستوں پر حملہ کر کے قبضہ کرنے میں بھی مدد کی۔

1877 میں برطانیہ نے اس علاقے کی اہمیت کے پیش نظر ایک برطانوی ایجنٹ کے زیر انتظام گلگت کی سیاسی ایجنسی تشکیل دی۔ جسے کچھ سال بعد واپس لے لیا گیا۔ اور دوبارہ 1892 میں تشکیل دیا گیا۔ ہنزہ نگر اور دوسری چھوٹی ریاستیں یاسین پنیال اور گوپی کو برطانوی ایجنٹ کا وفادار رہنا پڑتا ہے۔ جس سے وہ برائے نام خود مختار رہ گئی تھیں۔ 1935 میں برطانیہ نے کشمیر کے مہاراجہ سے گلگت وزارت 60 سال کے عرصے کے لیے پٹے پر حاصل کی۔ تاہم برطانیہ نے برصغیر سے اپنے انخلا کے وقت اسے منسوخ کردیا۔

گلگت بلتستان کے عوام اور حکمران 19 وی صدی میں ڈوگرہ اور برطانوی حکمرانوں سے آزادی کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہے۔ 1947 کی آزادی سے کچھ پہلے گلگت کشمیر کے مہاراجہ کو واپس کردیاگیا۔ جس نے بریگیڈیئر گھنسارہ سنگھ کو گلگت کا گورنر مقرر کیا۔ جس کے خلاف وہاں کے لوگوں نے ہتھیار اٹھالیے۔ یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کی آزادی کے بعد مقامی لوگوں نے سپریم کونسل کے ذریعے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ اپنے نمائندے بھیج کر علاقے کو اپنی پناہ میں لے لیں۔ 16نومبر 1947 کو سردار محمد عالم خان پہلے پولیٹیکل ایجنٹ بنا کر گلگت بھیجے گئے۔1934 ،1937 اور 1941 کے ریاستی انتخابات میں ان علاقوں سے 5 نمائندے کشمیر اسمبلی میں منتخب کیے جاتے تھے۔ ڈوگرہ راج سے پہلے گلگت بلتستان کا کشمیر سے کوئی براہ راست تعلق نہیں رہا۔ البتہ لداخ کے ذریعے کشمیر سے زمینی رابطے کافی صدیوں سے قائم تھے۔ 14 اگست 1948 کو گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے مکمل طور پر نجات حاصل ہوئی اور گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کا اعلان کردیا۔ تاہم پاکستانی حکمرانوں نے اس وقت کشمیر میں استصواب ِ رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی مدد آپ حاصل کرنے والے اس خطہ کو پاکستان کا مستقل حصہ بنانے کی بجائے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنالیا تاکہ جنوری 1948 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قائم کیے گئے کمیشن کی جانب سے استصواب رائے کا فیصلہ ہونے کی صورت میں خطہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا ووٹ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دینے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکے۔ اس فیصلے نے گلگت بلتستان کے پاکستان میں شمولیت کے سفر کو طویل بنادیا۔

آئینی اور انتظامی پس منظر
خطہ گلگت بلتستان کی جانب سے الحاق پاکستان کی درخواست کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ PA نے وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے گلگت بلتستان میں اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ اور اسی دوران خطے میں انتظامی ڈھانچے کو ایف سی آر اورایجنسی نظام کے تحت چلایا جاتا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وفاق کی جانب سے ان عہدوں میں تبدیلی آتی گئی، اور یہاں ریذیڈنٹ ، ایڈمنسٹریٹر، چیف کمشنر اور چیف سیکریٹریز کی حیثیت سے وفاقی نمائندے اس خطے کا انتظام و انصرام سنبھالتے رہے۔

علاقے کی سیاسی اور جمہوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1961 میں پہلی مرتبہ بنیادی جمہوریت کی بنیاد ڈالی گئی اور اسی بنیاد پر پہلی مرتبہ انتخابات کرائے گئے۔ 1969 میں پہلی مرتبہ ناردرن ایریاز ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات لاتے ہوئے گلگت بلتستان کو الگ الگ اضلاع کا درجہ دیا۔ اور FCR اور ایجنسی نظام ختم کر کے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا۔ 1972 اور 1974 کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کا خود دورہ کیا اور بھرپور عوامی مطالبات پر ضلع دیا میر، ضلع غذر اور ضلع گانجھے کا قیام عمل میں لایا اور گلگت بلتستان مسلم لیگ کے بعد دوسری قومی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی خود بنیاد رکھی۔ 1977 میں ملک میں مارشل لاء لگایا گیا تو گلگت بلتستان کو مارشل لاء کا پانچواں زون قرار دے کر یہاں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ 1979 میں گلگت بلتستان میں ناردرن ایریاز لوکل گورنمنٹ آرڈر نافذ کیا گیا۔ 1984 میں غلام مہدی (سکردو)، میر غضنفر (ہنزہ) اور وزیر افلاطون (استور) کو پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ میں مبصر نامزد کیے گئے۔ 1991 میں پہلی مرتبہ ناردرن ایریاز کونسل میں خواتین کے لیے دو نشستیں مختص کیے جانے کے باعث ارکان کی تعداد 16 سے بڑھ کر 18 ہوگئی۔

1994 سے لیکر اب تک گلگت بلتستان کے لیے 4 سیاسی اور انتظامی پیکج دیے گئے ہیں۔ پہلا پیکج شہید بے نظیر بھٹو نے دیا۔ جس کے تحت پہلی مرتبہ ناردرن ایریازکونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے اور ارکان کونسل کی تعداد کو 16 سے بڑھا کر 26 کر دیا گیا جس کے تحت غذر اور گانجھے کے اضلاع کو تین تین جب کہ دیگر تین اضلاع سکردو، گلگت ، دیامیر، کو 6,6 سیٹیں دی گئیں۔ گلگت بلتستان کے وفاقی وزیر کو چیف ایگزیکٹو بنایا گیا اور ناردرن ایریاز کونسل سے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اور 5 مشیر منتخب کیے گئے۔

عدالتی اصلاحات میں ایک چیف کورٹ کا اضافہ کیا گیا جو ایک چیئر مین اور دو ممبران پر مشتمل تھی۔

دوسرا پیکج معرکہ کارگل کے دوران 28 مئی 1999 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دیا گیا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم جاری کیا کہ وہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو بنیادی حقوق فوراً فراہم کرے اور حکومت کا اختیار وہاں کے منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جائے اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے آزاد عدلیہ قائم کی جائے۔ وفاقی حکومت نے اکتوبر 1999 کو سیاسی، عدالتی اصلاحاتی پیکج کا اعلان کیا۔ جس کے مطابق ناردرن ایریاز کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دے دیا گیا۔ کونسل کو 49 شعبوں میں قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اپیلٹ کورٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ جب کہ کونسل میں خواتین نشستوں کو 2 سے بڑھا کر 5 کر دیا گیا۔ تیسرا پیکج صدر مشرف کے دور میں مرحلہ وار آیا۔ جس میں پہلے پانچ سال کے دوران 1999 سے 2004 تک ترقیاتی فنڈ کو 86 کروڑ سے بڑھا کر ساڑھے چار ارب کردیا گیا۔ جب کہ اکتوبر 2003 میں کونسل کے لیے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دیا گیا۔ 2004 میں لیگ فریم ورک آرڈر میں ترمیم کے ذریعے قانون ساز کونسل میںسے 6 خواتین اور پہلی مرتبہ 6 ٹیکنوکریٹ کی نشستیں دی گئیں۔ جس سے ارکان کونسل کی تعداد 26 سے بڑھ کر 36 ہوگئی اور ضلع دیامیر کے سب ڈویژن استور کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔

2007 میں 32 سال بعد کونسل کو ورک آرڈر ختم کرکے ناردرن ایریاز گورننس آرڈر نافذ کیا گیا۔ جس کے تحت قانون ساز کونسل کو اسمبلی کا درجہ دیا گیا۔ سپریم اپیلٹ کورٹ قائم کیا گیا اور وفاقی وزیر کو چیئر مین اور ڈپٹی چیف کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دیا گیا۔ جب کہ چوتھا اور آخری پیکج موجود حکومت نے ستمبر 2009 میں جاری کیا۔

گلگت بلتستان (ایمپاورمنٹ اینڈ سیل گورننس آرڈر 2009 )
گلگت بلتستان کے عوام کو سیاسی خود مختاری اور بہترین حکمرانی فراہم کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے یہ اصلاحاتی پیکج پیش کیا۔ جس کے مطابق
1۔ شمالی علاقہ جات کا نام گلگت بلتستان ہوگا جو سات اضلاع پر مشتمل ہو گا جن میں 1۔استور 2۔دیامیر 3۔گانچھے4۔غذر5 ۔گلگت6۔ہنزہ ۔ نگر اور 7۔ بلتستان شامل ہیں۔
2۔ گلگت بلتستان کا ایک گورنر اور وزیر اعلیٰ ہوگا۔ جب کہ وزیر اعلیٰ کی معاونت وزراء کریں گے۔ جب کہ وزیر اعلیٰ دو مشیر اور پارلیمانی سیکریٹری مقرر کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ گورنر کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کی مشاورت سے صدر پاکستان کریں گے۔ جب کہ منتخب اسمبلی وزیر اعلی منتخب کرے گی۔
3۔ قانون ساز اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 38 ہوگی۔ جس میں سے 24 براہ راست منتخب ہوں گے جب کہ سات سات نشستیں، خواتین اور ٹیکنو کریٹس کی ہوں گی۔ جو ہر ضلع سے ایک ایک لیے جائیں گے۔
4۔ جن امور پر قانون ساز اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے۔ ان کی تعداد 49 سے بڑھا کر 61 کر دی گئی ہے۔
5۔ کشمیر کونسل کی طرز پر گلگت بلتستان کونسل قائم کی جائے گی جس کے ممبران میں
1۔ وزیر اعظم پاکستان اس کے چیئر مین ہوں گے۔
2۔ گورنر اس کے وائس چیئر مین ہوں گے۔
3۔ 6 اراکین ہوں گے جنہیں وزیر اعظم وفاقی وزراء اور منتخب ارکان اسمبلی سے منتخب
کریں گے۔
4۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان بھی اس کے ممبر ہوں گے۔
5۔ 6 ممبران کو گلگت بلتستان کی اسمبلی منتخب کرے گی۔
6۔ کونسل اور اسمبلی کو مالی معاملات پر بااختیار بنانے کے لیے کونسل کنسولیڈ یٹڈ فنڈ قائم کیا جائے گا۔
7۔ سپریم کورٹ کے چیف جج کا تقرر کونسل کا چیئر مین گورنر کی ایڈوائس پر کرے گا۔ جب کہ ججوں کی تعداد 3 سے بڑھا کر 5 کر دی گئی ہے۔
8۔ گلگت بلتستان پبلک سروس کمیشن قائم کیا جائے گا۔
9۔ جب کہ گلگت بلتستان کے لیے علیحدہ آڈیٹر جنرل کا تقرر کیا جائے گا۔
10۔ چیف الیکشن کمشنر کا بھی تقرر ہوگا
11۔ اسمبلی اپنا بجٹ خود منظور کرے گی۔
12۔ وفاقی کابینہ کے موجودہ وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ گلگت بلتستان کے پہلے گورنر مقرر کر دیے گئے ہیں۔

گلگت بلتستان کے لیے حکومت کے اس انتظامی اور اصلاحاتی پیکج پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک طرف اس پیکج سے شمالی علاقہ جات کے عوام خوشی کا اظہار کر رہے ہیں وہاں ان کے چند تحفظات بھی ہیں۔ جب کہ کشمیری قیادت نے اس پیکج کو تقسیم کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیاہے۔

گلگت بلتستان کے سیاسی مبصرین اس پیکج کو ملکی اور عالمی تناظر میں جرات مندانہ اور ماضی کی نسبت زیادہ مؤثر اقدام قرار دے رہے ہیں۔

ممبر قانون ساز اسمبلی فدا نوشاد نے موجودہ پیکج کو سیاسی منزل کی طرف ایک نہایت اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے اراکین اور راہنمائوں نے اس پیکج کو تاریخی قرار دیا۔

پیپلز پارٹی کے راہنمائوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینٹ میں بھی نمائندگی دی جائے اور یہی یہاں کے عوام کی خواہش ہے لیکن اس پیکج میں ہمارے اکثر دیرینہ مطالبات کو پوراکیا گیا ہے۔

دوسری جانب دیگر جماعتیں۔ مسلم لیگ (نواز گروپ) مسلم لیگ (ق) اور دیگر قوم پرست جماعتوں نے اس پیکج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق اس پیکج کی تیاری میں حکومت نے نہ تو یہاں کی عوام سے اور نہ ہی منتخب نمائندوں سے کوئی مشاورت کی ہے اور یہ پیکج بھی ماضی کے پیکجز کی طرح ہے۔ صرف نام بدل گیا گیا ہے۔ جب کہ اختیارات اب بھی گورنر کو سونپ دیئے گئے ہیں جو وفاق کا نمائندہ ہو گا۔ یعنی گورنر ایک مرتبہ پھر علاقے کا بے تاج بادشاہ ہوگا اور منتخب اسمبلی کے نمائندے اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھیں گے۔ اس پیکج کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ان کااعتراض یہ ہے کہ اسے ایک آرڈیننس کے ذریعے جاری کیا گیا ہے۔ جس کی مدت 6 ماہ سے زائد نہیں ہوتی۔ یہ پیکج نہ تو کسی آئین کا حصہ ہے اور نہ ہی خود ایک آئین ہے۔ اس لیے اگر حکومت اس آرڈیننس کو اسمبلی اور سینٹ سے پاس کرواتی ہے تو یہ ایکٹ کی صورت میں نافذ العمل ہوسکتا ہے وگر نہ اس کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔
گلگت بلتستان کے راہنمائوں کے مطابق خطے کی صورتحال اس طرح ہے کہ ابھی تک وفاقی حکومت یہاں کے مسائل سے ناواقف ہے۔ یہاںپر بیوروکریسی کا راج ہے۔ عوام اور منتخب نمائندوں اور سیاسی لوگوں سے بات چیت کی بجائے بیوروکریسی اور خفیہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی والے یہ پیکج صرف اس لیے لے کر آئے ہیں تا کہ آنے والے الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ اس پیکج کے تحت گورنر کے پاس چیف منسٹر سے زیادہ اختیارات رکھے گئے ہیں اور ہر معاملہ میں گورنر کی رائے کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس پیکج کے نافذ ہونے کے لیے 3 ارب سے زائد کی ضرورت ہے جس کے لیے ابھی تک بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس کے نفاذ میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حکومت کی اس کوشش کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پیکج سے منزلیں آسان ہوتی جائیں گی کیونکہ اس پیکج کے آنے سے میڈیا میں گلگت بلتستان کو بہت نمائندگی ملی اور یہاں کے عوام کے مطالبات میڈیا کی زبانی دیگر لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ (1)

اصلاحاتی پیکج اور مسئلہ کشمیر
کشمیری قیادت نے اگرچہ اس پیکج کو اس حد تک درست قرار دیا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں لیکن انہوں نے طریقہ کار کو تقسیم کشمیر کی سازشوں کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ اس فیصلے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ مسلم کانفرنس کے راہبر سردارعبدالقیوم ، لبریشن فرنٹ کے راہنما امان اللہ خان، پیپلز مسلم لیگ کے بیرسٹر سلطان محمود ، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے خالد ابراہیم اور دیگر تمام قوم پرست جماعتوں نے اس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کے اس اقدام سے تحریک آزادی کشمیر اور مؤقف کو شدید نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ گلگت بلتستان کا فیصلہ کشمیر کے ساتھ منسلک ہے۔ حکومت کے موجودہ فیصلہ کے بعد گلگت بلتستان کی مقبوضہ کشمیر والی حیثیت ہوگئی ہے۔ اور اب پاکستان اور بھارت ایک ہی سطح پر آگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے سے قبل کشمیری قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا چونکہ آئین کی رو سے گلگت بلتستان جموں کشمیر کا حصہ ہیں۔ اس لیے یہاں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے عہدے نہیں دیے جاسکتے۔

گلگت بلتستان کے راہنمائوں اور عوام نے کشمیری قیادت کے اس احتجاج پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جن میں آزاد کشمیر کے حکمران بھی ہیں۔ 62 سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام جو بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ بجائے ان کی داد رسی کے، حقوق کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر آئے ہیں۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی بھی حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی پیکج آیا ہے تو یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ یہ لوگ ان کی محرومیوں پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کو فرقہ واریت میں دھکیلنے کے کھیل میں مکمل ہاتھ بٹاتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پیکج سے مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ صرف صوبائی طرز کا سیٹ اپ دیا گیا ہے۔ صوبہ نہیں بنایا گیا۔ یہ کشمیری رہنما اپنے مذموم عزائم بیان کر کے گلگت بلتستان کے ساتھ اپنی دیرینہ رنجش اور تعصب کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔
 
ماحصل
گلگت بلتستان اصلاحاتی پیکج 2009 کو گلگت بلتستان کے عوام کی سیاسی خود مختاری اور 62 سالہ دور محرومی کے خاتمہ کی جانب اہم قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ نئے پیکج میں جہاں بہت سارے خدشات اٹھ رہے ہیں۔ وہاں گلگت بلتستان کے عوام کو قومی دھارے میں شامل ہونے کے کئی مواقع پیدا ہورہے ہیں، سیاسی سرگرمیاں، سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی تربیت کے لیے اسمبلی، الیکشن، وزارتیں، سب پلیٹ فارم موجود ہیں۔
'
گلگت بلتستان کے لیے علیحدہ پبلک سروس کمیشن کے قیام سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اعلیٰ ملازمتوں کے حصول میں سہولت ملے گی۔ ججوں کی تعداد میں اضافے سے غریب عوام کو فراہمی انصاف میں مدد ملے گی۔ سب سے بہتر اور مؤثر فیصلہ علاقے کے لیے وزیر اعظم پاکستان کی سربراہی میں انتظامی کونسل کا قیام ہے۔ جن کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان وقتاً فوقتاً سال میں کئی مرتبہ ایک خاص مدت کے اندر گلگت بلتستان کے مختلف مسائل پر صلاح مشورہ کرتے رہیں گے اور یوں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے مسائل براہ راست وزیر اعظم پاکستان تک پہنچا کر ان کا حل نکالنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ علاقے میں خود مختار اداروں کے قیام سے علاقے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی پر خوشگوار اثر پڑے گا۔ اس پیکج کی رو سے علاقے کے عوام کو پہلی مرتبہ آئینی اور انسانی حقوق حاصل ہوں گے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس پیکج کو عملی جامہ پہنائے اور بغیر کسی رکاوٹ کے اس پیکج کو صرف نام تک نہ رکھا جائے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ ان تمام خدشات اور تحفظات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ اس پیکج کو تمام جماعتوں اور عوام کے لیے قابل قبول اور قابل عمل بنایا جا سکے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ صرف اسی پیکج پر انحصار نہ کرے بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف سیاسی جماعتوں اور گلگت بلتستان اسمبلی کے فیصلوں کی روشنی میں اس آرڈیننس اور قانون میں بہتری لانے کے لیے کوششیں جاری رکھے۔ ابھی اس علاقے کے عوام کے حقوق کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں جو تجاویز گلگت بلتستان کے راہنمائوںاور دانشوروں کی جانب سے آئی ہیں۔ ان کے مطابق
1۔ سب سے پہلے جو بھی پیکج دیا جائے اسے آئین کا حصہ بنایا جائے اور کسی بھی پیکج کی منظوری یا اس کو بنانے سے پہلے گلگت بلتستان کے عوام ان کے منتخب نمائندوں کے ساتھ ساتھ خطے کی سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔
2۔ اس علاقے میں ابھی تک بیوروکریسی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا راج ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے یہاں پر کوئی بھی اصلاحاتی پیکج کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ دن بدن احساس محرومی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ بیوروکریسی کو کنٹرول کر نے کے لیے یہاں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک ایسا ادارہ بنایاجائے جس کو بیوروکریسی جواب دہ ہو۔ جواب دہی نظام کے بغیر بیوروکریسی کی مالی کرپشن پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
جب کہ خفیہ اداروں سے درخواست ہے کہ وہ یہاں کے عوام پر اعتبار کرنا سیکھیں۔ لوگوں کے درمیان نفرت کے بیج نہ بوئیں اور کسی خاص مکتبہ فکر یا جماعت کی سپورٹ نہ کریں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال بند کردیں۔
3۔ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے لیکن کشمیر کے ساتھ ساتھ اس کا تعلق ہے یا نہیں اس پر کئی رائے ہیں لیکن چونکہ اسے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنادیا گیا ہے اس لیے بجائے گورنر یا وزیر اعلیٰ کے آزاد کشمیر کی طرز پر صدر اور وزیر اعظم کے عہدے مقرر کیے جائیں۔
4۔ گورنر کو تمام اختیارات دینے کی بجائے وزیر اعلیٰ اور منتخب اسمبلی کو اختیارات دیے جائیں کیونکہ وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
5 ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز بشمول قوم پرست سب کو بٹھا کر ان سے تجاویز لیں اور اپنی مجبوریاں بتائیں تاکہ گڈ گورننس کا قیام عمل میںلایا جاسکے۔

1۔ انٹرویو 1۔ نواز ناجی چیئرمین BNFََ 2َ۔ فدا نوشاد ممبر اسمبلی 3۔ ڈی ۔ جے مٹھل صحافی ،کالم نگار 4۔ غلام عباس۔سیاسی کارکن5۔ حفیظ الرحمٰن صدر ۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) گلگت 6۔ فوزیہ سلیم عباس ممبر قانون ساز اسمبلی