working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

ٹرکوںپر لکھی عبارتیں اور طالبان
طارق رحمن

کسی بھی خطے میں موجود لوگوں کی روایات اور رسومات رفتہ رفتہ ان کی زندگی کے استعمالات میں بھی در آتی ہیں۔ اس وقت کہ جب انسان آمد و رفت کے لیے جانوروں کو استعمال کرتا تھا اس کے تہذیبی اور ثقافتی عناصر ان جانوروں پر دھرے جانے والے کپڑوں پر نقش و نگار کا حصہ ہوتے تھے۔ آج انسان ترقی کی عظیم منازل طے کر چکا ہے اور ذرائع آمدورفت بھی جدید سے جدیدتر ہو چکے ہیں۔ ٹرک تجارت کے دیگر سامان کے ساتھ ساتھ خورو نوش کی اشیا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا اہم وسیلہ ہیں اور بعض اوقات تو ایک ملک سے دوسرے ملک آتے جاتے سفر میں کئی دن اور کئی راتیں آن پڑتی ہیں۔ اپنی تنہائی اور اکیلے پن کو ٹرک ڈرائیورز اور کلینرز حضرات کس طرح کم کرتے ہیں نیز ہمارے تہذیبی عناصر کو ثقافت اور فنون لطیفہ کا حصہ کس طرح بنایا جا رہا ہے۔ طارق رحمٰن کا یہ تحقیقاتی مضمون ہمیں اسی جہان کی سیر کرواتا ہے۔ (مدیر)

میں ٹرکوں پر لکھی عبارتیں پڑھنے اور جمع کرنے میں بہت دلچسپی رکھتا ہوں۔ اسی لیے میں نے ان کے بارے میں لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ ڈرائیوروں اور یہ عبارتیں لکھنے والے پینٹروں کی سوچ کو سمجھا جائے بلکہ اس بات کا پتہ چلانے کے لیے بھی کہ کیا یہ اس بات کی شہادت نہیں کہ آیا عام آدمی نے اسلام کی اس شدت پسندانہ شکل کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے جو ایسے آرٹ کو اخلاقیات کے خلاف قرار دیتی ہے اور کیا ان عبارتوں سے ہم اپنے کلچر میں جھانک سکتے ہیں جس پر اس اعصاب شکن جنگ کے خاتمے کے بعد ہم نے ایک روادار پاکستان تعمیر کرنا ہے؟ اس سلسلے میں کچھ زیادہ امید تو دکھائی نہیں دیتی لیکن ٹرکوں پر درج عبارتوں میں مَیں کچھ ایسا محو ہوا کہ ان کے بارے میں راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، حیدرآباد اور رحیم یارخان تک جاکر تحقیق کی۔

ٹرک آرٹ ایسا شعبہ نہیں کہ پہلے کسی نے اس پر توجہ ہی نہ دی ہو۔ بیس سال پاکستان میں تحقیق کرنے والے مشہور ماہر آثار قدیمہ پروفیسر مارک کینائر نے 2008 میں مجھے بتایا تھا کہ وہ کس طرح ایک سجا ہوا ٹرک کراچی سے امریکہ لے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ لاس اینجلس میں جہاز سے اتارا گیا اور وہاں سے اسے چلا کر ڈی سی لے گئے۔ یہ اتنا طویل فاصلہ ہے کہ چا ر ٹائم زون عبور کیے۔ ڈی سی میں 2002ء کے سمتھ یونین فوک لائف فیسٹول میں اس ٹرک کی نمائش کی گئی۔

اب ان میں دنوں پاکستانی ٹرکوں پر درج عبارتیں جمع کر رہا تھا۔ اس دوران میرے علم میں آیا کہ متعدد افراد نے ٹرک آرٹ اور ان پر لکھی عبارتیں جمع کی ہیں۔ ایک پاکستانی سکالر جمال جے الیاس جو ان دنوں ایک امریکی یونیورسٹی میں ہیں شاید اس شعبے میں اولین سکالر تھے۔ وہ اس بارے میں ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ جرمن سکالرز نے بھی اس موضوع میں دلچسپی لی۔ میں نے اینا شمڈ کی جرمن میں ایک کتاب دیکھی جس کا عنوان تھا۔ "Die Fliegenden Pferde vom Indus" (وادی سندھ کے اڑتے گھوڑے)۔ اس کتاب میں ٹرکوں کی تصاویر اور تفصیلات تھیں۔ پاکستانی بالعموم اپنے ملک کی رنگا رنگی سے بے پرواہ رہتے ہیں لیکن انہوں نے بھی ان عبارتوں میں دلچسپی لی ہے۔ سرمد صہبائی نے آراستہ ٹرکوں کے بارے میں ایک فلم بنائی۔ پارکو (پاک عرب ریفائنری) نے ٹرکوں اور دوسری گاڑیوں پر درج تحریروں کے دو مجموعے شائع کیے۔ ''پپو یار تنگ نہ کر'' کے عنوان سے ان مجموعوں کی پہلی جلد میں ٹرکوں وغیرہ پر لکھے اردو اشعار ہیں جن میں عشقیہ قسم کے بھی ہیں اور '' قول دانا'' قسم کے بھی۔ دوسری جلد رکشائوں، ٹیکسیوں اور ٹرکوں پر لکھے غالب کے اشعار پر مشتمل ہے۔ اپنی تحقیق کے دوران میں نے صوبہ سرحد ، پنجاب، سندھ، گلگت، آزاد کشمیر میں رجسٹرڈ 627 ٹرکوں کا مطالعہ کیا۔ ان پر لکھی عبارتوں کو نوٹ کیا اور ان کی تصاویر اتاریں پھر ان عبارتوں کو درج ذیل موضوعات میں تقسیم کیا۔
 
مشورے
جن میں کوئی نصیحت کی گئی تھی یا زندگی کی کوئی حقیقت بیان کی گئی تھی۔ مثلاً ''پھل موسم دا گل ویلے دی'' (بہترین پھل وہ ہوتا ہے جو موسم کا ہو اور بہترین بات وہ ہوتی ہے جو موقع کے لحاظ سے مناسب ہو)۔

ڈرائیور کی زندگی
ڈرائیور کے مسلسل سفر میں رہنے ، کوئی پکا ٹھکانہ نہ ہونے اور اپنے پیشے پر فخر کرنے کی باتیں مثلاً '' ڈرائیور کی زندگی موت کا کھیل ہے، بچ گیا تو سنٹر جیل ہے۔

تقدیر
ایسی باتیں کہ قسمت کے لکھے کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ مثلاً ''نصیب اپنا اپنا''۔

خیر اور بھلائی
سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار مثلاً ''خیر ہو آپکی''۔

اسلام
قرآنی آیات، صوفیاء کے اقوال، مقامات مقدسہ کی تصاویر اور بسم اللہ وغیرہ۔

اسلامی بنیاد پرستی
مذکورہ بالا موضوع کا ایک ذیلی موضوع تبلیغی نوعیت کی عبارتیں ہیں۔ مثلاً نماز کی تلقین کی گئی ہے۔ کچھ سال پہلے اس طرح کی چیزیں عام نہیں تھیں۔ اسلام کے نام پر عسکریت پسندی کے نتیجے میں ''دعوت تبلیغ زندہ باد'' جیسی تحریریں بھی دیکھنے میں آئیں۔
 
اسلامی تصوف
ایک اور ذیلی موضوع اسلامی تصوف ہے۔ یہ عبارتیں کسی درگاہ یا مرشد سے متعلق ہوتی ہیں۔ مثلاً ''ملنگنی سخی شہباز قلندر دی''

ماں کی محبت
ماں کی محبت اور احترام کے حوالے سے عبارتیں مثلاً ''ماں دی دعا جنت دی ہوا''۔

قوم پرستی
پاکستانی قومیت کے حوالے سے مثلاً ''پاکستان زندہ باد''

حب الوطنی
اپنے آبائی علاقے سے اپنی محبت کا اظہار مثلاً ''خوشاب میرا شہر ہے''۔

رومان
عشق محبت، حسن کی تعریف (تقریباً ہمیشہ نسوانی حسن کی) تھوڑی سی جنس آمیزی۔ مثلاً ''رات بھر معشوق کو پہلو میں بٹھا کر، جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں''۔

ٹرک
خود ٹرک بھی ان عبارتوں کا موضوع ہوتے ہیں۔ ٹرک کے لیے اکثر تانیث کا صیغہ استعمال کیا جاتاہے۔ امریکہ اور دوسرے ملکوں میں ٹرکوں کے زنانہ نام رکھے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں مسلمان زنانہ نام ان کے لیے استعمال نہیں کیے جاتے۔ یہاں ''شہزادی''، ''جاپان کی شہزادی'' قسم کے نام ہوتے ہیں۔

مذہبی علامتی، تصاویر اور عربی عبارتیں عام طور پر ٹرک کے سامنے کی طرف اور اوپر کے حصے پر درج ہوتی ہیں۔ بعض اوقات عبارتیں بمپر یا انجن پر بھی درج ہوتی ہیں۔ یہ ٹرک کی بیک اور سائڈز پر بھی ہوتی ہیں۔ البتہ مقدس نام سامنے کی طرف ہی ہوتے ہیں۔ یہ عربی عبارتیں پاکستانی مسلمانوں کی روز مرہ زندگی پر عام نظر آتی ہیں یہ خیرو برکت کے لیے ہوتی ہیں اور ایک ثقافتی عادت سی بن گئی ہیں۔ یہ ''اسلامی بنیاد پرستی'' کی ذیل میں بیان کردہ عبارتوں سے ہٹ کر ہیں۔ بنیاد پرست اسلام، پیروں سے دعائیں کرانے اور صوفیانہ طریقوں کے خلاف ہے ۔ اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً وہابیت (جنوبی ایشیاء میں اہل حدیث) اور دیوبندی ذیلی فرقہ اور گذشتہ چند عشروں میں نفوذ کرنے والی زبان بنیاد پرستانہ اور عسکریت پسندانہ تعبیریں۔ بعض ٹرکوں پر نماز کی تلقین کی گئی ہوتی ہے۔ اس لیے ''نماز راہ نجات '' جیسے فقرے لکھے ہوتے ہیں۔ جمال الیاس کا کہنا ہے کہ وہ چار سال سے ٹرکوں پر تحقیق کر رہے تھے۔ اسی طرح کی تبدیلی 2003ء میں دیکھی۔ یہ مولانا الیاس (1944ئـ1885ئ)کی تبلیغی جماعت کا بھی اثر ہے۔ یہ عبارتیں ٹرک کے اوپر کے حصے میں بہت کم نظر آتی ہیں۔

پاکستان میں طالبان سب سے نمایاں بنیاد پرست ہیں۔ بعض ٹرکوں پر ''طالبان زندہ باد'' بھی لکھا دیکھا۔ اس کے علاوہ نماز روزے کی تلقین اور نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی نظر آتا ہے۔ یہ گذشتہ چند سالوں میں سامنے آئے ہیں۔ اور بالعموم صوبہ سرحد کے ٹرکوں پر ہوتے ہیں۔ صوفیانہ عبارتیں پیروں،درگاہوں اور آستانوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی ثقافت کا ایک حصہ ہیں۔ بنیاد پرست انہیں شرک قرار دیتے ہیں۔ وہ مقبول شاعری اور گیتوں کو بھی برا سمجھتے ہیں۔

ٹرک کے پیچھے جو عبارتیں ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ پیچھے چلنے والی گاڑیوں والے پڑھیں یہ زبان زیادہ تر رومانی ہوتی ہے۔ اکثر یہ غزلیہ اشعار ہوتے ہیں۔ جن میں عشق و محبت، نسوانی حسن، زندگی کی ناپائیداری اور تقدیر کا تذکرہ ہوتاہے۔

خال خال غالب اور میر جیسے اساتذہ کے اشعار بھی نظر آتے ہیں لیکن بالعموم ڈرائیوروں کا انتخاب گمنام شعراء کا یا پھر احمد فراز جیسے مقبول جدید شعرا کا کلام ہوتا ہے۔
اکثر اس طرح کے شعر اور مصرعے نظر آتے ہیں۔
 
اے شعر پڑھنے والے ذرا چہرے سے زلفیں ہٹا کے پڑھنا
غریب نے رو کر لکھا ہے ، ذرا مسکرا کے پڑھنا
انمول دام دوں گا ، اک بار مسکرا دو
اور یہ فقرہ تو بہت ہی عام ہے ''دیکھ مگر پیار سے''۔

مذکورہ بالا ''اشعار'' ایسے گمنام شاعروں کے ہیں جو بحر اور وزن کے قواعد سے زیادہ واقف نہیں لیکن غزل کا عمومی موضوع یعنی ''بے پرواہ حسینائوں سے نظر کرم کی التجا'' ان کے اشعار میں ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔

تقدیر یا قسمت پاکستان کے عوامی اعتقاد کا ایک حصہ ہے۔ اسلامی فلسفے میں اسے ''مسئلہ جبروقدر'' کہا جاتا ہے اور کم از کم اپنی انتہائی شکل میں یہ انسان کی آزادانہ مرضی کی نفی کرتا ہے۔ البتہ عام لوگ یہ اعتقاد رکھنے کے ساتھ ساتھ سمجھ بوجھ ، ذاتی دلچسپی اور زندگی میں جدوجہد کی اہمیت کا بھی عملیت پسندانہ جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ گفتگو سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ تقدیر پر اعتقاد پورے ملک میں عام ہے۔

ٹرکوں پر مائوں کے بارے میں بھی عبارتیں عام ہیں۔ ڈرائیور اکثر یہ مقولہ دہراتے ہیں کہ''جنت ماں کے پائوں تلے ہوتی ہے''۔ وہ بڑے احترام اور محبت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان کی کامیابی ماں کی دعائوں کا نتیجہ ہے۔ پشاور کے گل حسیب کی یہ بات اسی سوچ کی آئینہ دار ہے۔ ''صاحب! اگر میری ماں کی دعائیں میرے ساتھ نہ ہوتیں تو میں جیل میں ہوتا۔ ہمارا کام بڑا سخت ہے۔ اس میں بیچارہ ڈرائیور سیاہ بالوں کے ساتھ ہی قبر میں یا پھر جیل جاسکتا ہے۔

ایک اورڈرائیور نے ماں کو سورج سے تشبیہہ دی جو زمین کو زندگی دیتا ہے۔ اس نے کہا ''جب ماں مرتی ہے تو گھر سرد ہوجاتا ہے''۔ ملک کے ہرحصے کے ڈرائیوروں نے اپنی گفتگو میں مائوں کے لیے بے پناہ محبت اور احترام کا اظہار کیا۔

ٹرکوں پر تحریروں کے لیے جو زبانیں استعمال کی جاتی ہیں۔ ان میں عربی ، اردو، پشتو، سندھی، بلوچی، براہوی، اور انگریزی شامل ہیں۔ انگریزی میں عام طور پر رجسٹریشن نمبر مثلاً ''پشاور 1234'' ہوتا ہے یا پھر بعض اوقات سائڈوں پر کمپنی کا نام انگریزی میں لکھا ہوتا ہے۔ زیادہ تر انگریزی نام بھی اردو میں ہوتے ہیں۔ ہاں ''گڈ لک'' جیسے انگریزی الفاظ بھی نظر آتے ہیں۔ بلوچی اور براہوی میں ہر موضوع کی عبارتیں لکھی جاتی ہیں لیکن یہ بہت کم نظر آئیں۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے بلوچستان میں ایسے نو ٹرک ڈھونڈے ۔ سندھ میں سندھی استعمال کی جاتی ہے لیکن اردو سے کم۔ عربی تحریر میں کوئی شعوری انتخاب نہیں، اسلام کی زبان ہونے کی وجہ سے اسلامی معاشروں میں یہ روز مرہ کا حصہ ہے۔ البتہ دوسری زبانوں کا انتخاب لکھنے یا لکھوانے والے کی اپنی مرضی سے ہوتا ہے۔ اس سوال پر کہ ٹرک پر لکھوانے کے لیے زبان کا انتخاب کون کرتا ہے، اکثر ڈرائیوروں اور پینٹروں نے کہا کہ انہوں نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا اور ان کے سامنے یہ بات تھی کہ عبارت ایسی زبان میں ہو جو اپنی بھی سمجھ میں آتی ہو اور جن راستوں سے وہ گزرتے ہیں ان کے ساتھ بسنے والے لوگوں کو بھی۔ بعض ورک شاپس پر ڈائریاں یا رجسٹر رکھے ہوتے ہیں، جن میں اشعار وغیرہ لکھے ہوتے ہیں۔ جن میں سے ڈرائیور انتخاب کر سکتا ہے۔ میں نے ایسی کئی ڈائریاں دیکھیں۔ ایک ورکشاپ والے نے کہا میرے رجسٹر میں جو اشعار درج ہیں۔ وہ تیس برس کے مقبول ترین اشعار ہیں۔ میں جب ڈرائیوروں کو یہ دکھاتا ہوں تو وہ یہ سب کے سب لکھوانا چاہتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ٹرک پر گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔

ٹرکوں پر زیادہ تر تحریریں اردو میں ہوتی ہیں۔ اگرچہ راولپنڈی جیسے پنجابی اور اردو بولنے والوں کے شہر کے ٹرکوں پر پشتو عبارتیں بھی نظر آتی ہیں۔

پیر ودھائی، راولپنڈی کے قریب ایک ٹرک پر نقش نگار بناتے ہوئے پینٹر عبدالغنی نے بتایا کہ ''اس کی وجہ یہ ہے کہ چاروں صوبوں میں پشتو بولنے والے ڈرائیوروں کی تعداد یہی زبان ہے۔ ہم نے ڈرائیوروں کی خوشی کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اگر وہ پشتو چاہتے ہیں تو وہی ہوگی ۔ ہر پینٹر اردو کے ساتھ ساتھ پشتو بلکہ انگلش بھی لکھ سکتے ہیں۔ انگلش لکھنا تو سب سے آسان ہے''۔ اردو چونکہ پاکستان کے تمام شہری تجارتی مراکز میں استعمال ہوتی ہے۔ اور ملک بھر میں ابلاغ کی مشترک زبان ہے جو بیشتر پاکستانی لکھ پڑھ اور کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ اس لیے ٹرکوں پر سب سے زیادہ تحریریں اسی زبان میں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد پشتو آتی ہے اس لیے نہیں کہ یہ ملک بھر میں سمجھی جاتی ہے بلکہ اس لیے کہ ڈرائیور زیادہ تر پشتون ہوتے ہیں۔ اور اسے اپنی پشتون شناخت کا حصہ سمجھتے ہیں یہ اسے اپنی پشتون جڑوں کی علامت کے طور پر اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔

ٹرکوں کی پشت پر اردو عبارتوں کے سلسلے میں مختلف صوبوں اور علاقوں میں نمایاں فرق ہے۔ یہ فرق صوبہ سرحد میں زیادہ نظر آتا ہے جہاں اردو کے ساتھ پشتو بھی استعمال ہوتی ہے جب کہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں نمایاں فرق ہے۔ یہ فرق صوبہ سرحد میں زیادہ نظر آتا ہے جہاں اردو کے ساتھ پشتو بھی استعمال ہوتی ہے جب کہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں مقامی زبانیں زیادہ استعمال نہیں ہوتیں۔ صوبہ سرحد کو چھوڑ کر باقی پاکستان میں ٹرکوں پر اردو کے استعمال میں کوئی نمایاں فرق نظر نہیں آتا۔

پنجابی بیشتر تعلیمی اداروں میں باقاعدہ طور پر نہیں پڑھائی جاتی۔ پشتو کی طرح یہ بعض سرکاری سکولوں میں اختیاری زبان ہے۔ پھر بھی یہ ٹرکوں پر نظر آتی ہے۔ کیونکہ یہ بے تکلفی ، ہنسی مذاق اور یاری دوستی کی زبان سمجھی جاتی ہے۔

ٹرکوں پر نظر آنے والی ایک پنجابی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
رُل تے گئے آں پر چَس بڑی آئی
(تباہ تو ہوگیا ہوں لیکن اس میں مزہ بہت آیا)
یہ جنسی مہم جوئی اور اس کے نتائج کی طرف اشارہ ہے۔ ایک اور عبارت میں محبوب کے مل نہ سکنے پرمایوسی کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے۔

اگ لاواں تیریاں مجبوریاں نوں
اس طرح کی فقرے بازی کو پاکستانیوں کی اکثریت، بالخصوص مرد بہت پسند کرتے ہیں۔ یوں ٹرک پاکستانیوں کی ٹوٹی پھوٹی ، گڑھوں سے پُر کہیںمیدان اور کہیں پھر پہاڑ والی سڑکوں پر تفریح طبع کا سامان بھی بہم پہنچاتے ہیں۔

طالبانائزیشن کے خطرے کے باوجود، ٹرکوں پر درج عبارتوں سے تو یہ لگتا ہے کہ ٹرکوں والوں (ڈرائیوروں، پینٹر، کلینر اور مالکان )کی سوچ بدستور ہے ۔ بے فکر، رومانی، توہم پرست، راضی بہ رضا اور حسن و محبت کی گرویدہ ہے۔ اسے ''لبرل'' کہنا شاید درست نہ ہو کیونکہ یہ خواتین کے حقوق اور سیاسی لبرل ازم کا احترام نہیں کرتی۔ ان کا اسلام عوامی ہے۔ طالبان والا سخت گیر اسلام نہیں جو ہر طرح کی تفریح اور عورتوں کے حقوق کے خلاف ہیں۔

اسلام کی انتہا پسندانہ تعبیر میں عاشقانہ شعروں یا پھر مردوں کی تفریح طبع کے لیے نسوانی حسن کی تعریف ممنوع ہوتی ہے لیکن جنوبی ایشیا کی اسی ثقافت میں رومانی شاعری کی ہمیشہ بہت قدر کی جاتی رہی ہے۔

ٹرکوں پر لکھی عبارتیں جنوبی ایشیا کے اسی جانے پہچانے کلچر کے مطابق ہیں جس میں شاعر، بالخصوص رومانی شاعری بہت پسند کی جاتی ہے۔ ٹرکوں پر سب سے اوپر لکھی ہوئی عبارتیں مذہب کے رسوماتی پہلو سے متعلق اور جنوبی ایشیا کی مقبول مسلم ثقافت کی مظہر ہوتی ہیں۔ تقدیر اور قسمت کے بارے میں تحریریں بھی اسی نقطہ نظر کا حصہ ہیں۔

ٹرکوں والے ،صوفیا اور ان کے خیالات سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ ٹرکوں پر صوفیا اور ان کی درگاہوں کے بارے میں تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول بری امام (اسلام آباد) داتا صاحب (لاہور) پیر بابا (بونیر) بابا فرید (پاکپتن) شہباز قلندر(سہون) ہیں۔صوفیانہ موضوعات پر دوسری تحریریں وحدت الوجود اور خدا کے ہر جگہ موجود ہونے کے حوالے سے ہوتی ہیں۔

لگتا ہے کہ عام لوگ رومانی تحریروں پر اعتراض نہیں کرتے لیکن انسانی تصویریں بنانا پسند نہیں کرتے جسے وہ گناہ سمجھتے ہیں۔ اس سوال پر کہ عورتوں کی تصویریں ڈرائیوروں نے خود بنائیں یا کسی پینٹر سے بنوائیں اکثر ڈرائیوروں نے کہا کہ انہوں نے پینٹر سے تصویر بنوائی لیکن کچھ نے یہ تسلیم کیا کہ پہلے انہوں نے خود کوشش کی اور ناکامی پر پینٹر سے رجوع کیا۔ اکثر پینٹرز نے کہا یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ صرف ایک پینٹر نے کہا کہ اس نے عورتوں کی تصویریں بنانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ گناہ ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور گل خان نے کہا میں ایشوریا رائے کو بہت پسند کرتا ہوں اس لیے ٹرک پر اس کی تصویر بنانے کی کوشش کی لیکن (ہنستے ہوئے) وہ کچھ اور طرح کی بن گئی اس لیے میں نے خود کوشش چھوڑ کر ایک پینٹر سے ایشوریا کی تصویر بنوائی۔

راولپنڈی کے پینٹر حسیب اللہ نے مجھے بتایا کہ اسے تنگ پینٹ پہنے ہوئے عورتوں کی تصاویر اکثر پولیس یونیفارم میں، بنانا بہت پسند تھا۔ لیکن لوگ اس پر اعتراض کرتے تھے اس لیے ایسی تصویریں بنانا چھوڑ دیا۔ اس کے ایک شاگرد نے کہا۔ ''انہیں ایسی تصویریں بنانے سے زبردستی روکا گیا۔ ان تصویروں میں سب کچھ نظر آتا ہے۔ ہر شخص دیکھ کر ہنستا تھا''۔بہت تھوڑے (صرف 15 فیصد) ڈرائیوروں نے بتایا کہ انہوں نے لڑکوں کی تصویریں بھی ٹرکوں پر بنوائیں لیکن 70 فیصد پینٹروں نے کہا کہ وہ لڑکوں کی تصویریں بناتے رہے۔ صرف ایک نے کہا کہ اس نے یہ تصویریں بنانا چھوڑ دی ہیں کیونکہ یہ گناہ ہے۔

راولپنڈی کے پینٹر امان اللہ نے بتایا کہ کئی ڈرائیور لڑکوں کی تصویریں بنواتے تھے۔ اور وہ کتابوں رسالوں میں سے لڑکوں کی تصویریں نقل کیا کرتا تھا لیکن جب حضرت لوط کی امت کا قصہ سنا تو پھر یہ کام نہیں کیا ۔ بچوں کی تصویریں البتہ سب پسند کرتے ہیں۔ پتہ چلا کہ 3 سے 10 سال تک کے جن بچوں کی تصویریں ٹرکوں پر بنی ہیں وہ ٹرک مالکان اور بعض اوقات پینٹر کے بیٹے ہیں (بیٹیوں کی تصویریں نہیں بنائی جاتیں) اکثر ڈرائیوروں نے شکایت کی کہ وہ اپنے بچوں کی تصویریں بنوانا چاہتے ہیں لیکن مالک اس کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے بچوں کی تصویریں بنواتے ہیں ۔ ایک ڈرائیور عرفان اللہ نے کہ ''میں چاہتا تھا کہ میرے بچے میرے ساتھ ہوں لیکن جس بچے کی تصویر ٹرک پر ہے وہ مالک کا ہے۔ خیر سب بچے معصوم ہوتے ہیں۔ ڈرائیوروں کے عام طور پر ایسے ہی جذبات ہیں۔

پشاور کے ایک پینٹر نے کہا ''مجھے طالبان کی کوئی پروا نہیں۔ میں ان کی بات نہیں مانوں گا چاہے وہ میری دکان ہی جلادیں۔ ایک ڈرائیور نے بتایا کہ طالبان نے عورتوں کی تصویروں والے کئی ٹرکوں کو روکا اور ڈرائیوروں کو خبردار کیا کہ وہ یہ تصویریں اتار دیں۔

طالبان رومانی اشعار پر بھی اعتراض کرتے ہیں بلکہ شاعری کو ہی گناہ قرار دیتے ہیں لیکن انہوں نے اشعار والے ٹرکوں کو روکا نہیں۔ وہ انسانی تصاویر پر زیادہ اعتراض کرتے ہیں اور اسے شریعت کے سخت خلاف قرار دیتے ہیں۔ مانسہرہ کے ڈرائیور محبت خان نے کہا ''میرے بزرگ مجھے کہتے تھے کہ انسانوں اور جانوروں کی تصویریں نہ بنوائو، انہیں مولویوں نے بتایا ہوگا کہ یہ گناہ ہے۔ اس لیے میں اچھے شعر ٹرک پر لکھواتا ہوں۔'' عورتوں کی تصاویر پر اعتراضات کی وجہ سے جو ڈرائیور پہلے اداکارائوں کی تصویریں ٹرکوں پر بنواتے تھے اب ان کی جگہ قومی ہیروز کی تصویریں بنواتے ہیں۔ کوئٹہ کے کئی ڈرائیوروں نے بتایا کہ ایک پولیس افسر ٹرک ڈرائیوروں کی بہت مدد کیا کرتا تھا۔ اس لیے ان میں اتنا مقبول ہوگیا کہ اس کی تصویر بھی بلوچستان کے کئی ٹرکوں پر نظر آتی ہے۔ صدر ایوب خان بھی ڈرائیوروں میں بہت مقبول رہا لیکن اب لگتا ہے کہ ان کی تصویر کا فیشن نہیں رہا۔ یہ کسی اور چیز سے زیادہ اداکارائوں اور اداکاروں کی تصاویر پسند کرتے ہیں۔
 
ایک جرمن سکالر پروفیسر مارٹن سوک فیلڈ جو 1990 کے عشرے میں پاکستان میں فیلڈ ورک کر رہے ہیں اور پاکستانی ثقافت کے دوسرے پہلوئوں کے علاوہ ٹرک آرٹ پر بھی لکھا ہے ، کہتے ہیں۔ ''ٹرکوں کی سائڈز پر عورتوں کی تصویریں بہت عام ہو گئی ہیں۔ اسے دو طرح سے سمجھا جاسکتا ہے یا تو ڈرائیوروں اور پینٹر ز کی یادداشت صرف دو تین سال پہلے تک جاتی ہے جب طالبانائیزیشن کے پھیلائو کا آغاز ہوا تھا اور اس وقت تک عورتوں کی تصویرروں کا رجحان بہت بڑھ چکا تھا، یا پھر شاید عورتوں کی تصویریں سائڈوں پر بیک سے منتقل کر دی گئی ہیں۔ جہاں وہ بہت نمایاں تھیں۔

ٹرکوں پر لکھی عبارتیں دیکھیں تو اطمینان ہوتا ہے کہ ٹرکوں سے وابستہ لوگوں ، ڈرائیوروں، کلینروں، پینٹروں اور مالکان کی سوچ ابھی تک شدت پسند اسلام کی طرف نہیں گئی۔ ابھی تک اس کی جڑیں مقبول عوامی ثقافت میں پیوست ہیں لیکن یہ مقبول ثقافت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور طالبانائیزیشن بڑھنے کے ساتھ اس میں تبدیلی آسکتی ہے لیکن اب تک جو صورت حال ہے وہ یہ امید دلاتی ہے کہ خود کش حملوں' سی ڈی شاپس کو آگ لگانے اور فنون لطیفہ پر پابندیوں کی شہ سرخیوں نے ہمیں جو کچھ ماننے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستانی ثقافت کی وہ بنیادی قدریں جنہوں نے اس ملک کو ایک مہمان نواز اور زندہ دل ملک بنایا ہے ، ان سے زیادہ توانا ہو سکتی ہے۔