working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

حیات صحابہ اور تصوف
مجتبیٰ محمد راٹھور

تصوف اور روحانیت، شریعت اسلامیہ کا روحانی پہلو ہے۔ صوفیائے کرام اور اولیائے کرام نے قرآن مجید کے تصور تزکیہ اور حدیث شریف کی اصطلاح ''احسان'' کو بنیاد بنا کر انسانی طبیعت اور مزاج کی اصلاح کے لیے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی راہ اپنائی ، ان لوگوں نے علم و عرفان کے دونوں چشموں یعنی احکام شریعت اور اسرار طریقت سے فیض حاصل کیا اور شریعت و طریقت کے درمیان ''پل'' کا کردار ادا کیا۔ یہی نفوس قدسیہ اپنے کمال علم و معرفت کے باعث ''ورثہ الانبیاء '' قرار پائے۔ یہی آئمہ ملت ہیں جو فقہ و تصوف ہر دو میدانوں میں درجہ تحقیق پر فائز نظر آتے ہیں۔ حضرت امام مالک بن انس فرماتے ہیں۔

''جس نے فقہ سیکھی اور تصوف حاصل نہ کیا اس نے نافرمانی کی اور جس نے تصوف حاصل کر لیا اور علم فقہ سے حصہ نہ لیا وہ زندیق ہوا اور جس نے دونوں کو جمع کیا اس نے حق پالیا''

علم الاسرار اور روحانیت کا سرچشمہ بھی دیگر علوم اسلامی کی طرح قرآن مجید ہی ہے ۔وحی و الہام ، معجزات اور مکاشفات و کرامات کے علاوہ علم لدنی کے حقائق و معارف کا تذکرہ بھی اسی سے ملتا ہے۔ مگر یہ سب باتیں اس شخص کے لیے ہیں جو راہ حق کو پہچاننے والا ہو۔ اور جسے کسی ولی یا صوفی کی صحبت نصیب ہوئی ہو کیونکہ بغیر صحبت کے نہ تو آپ شرعی علوم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی علوم طریقت۔

صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے رسول اکرم ۖ کی خدمت اور ہم نشینی سے جو شرف حاصل کیاتھا اور تزکیہ نفس کی جس منزل پر پہنچے تھے اس کی بشارت خود قرآن پاک نے دی ہے اور ہم نشینی ِرسولِ خدا کے فیضان کو اس طرح ظاہر فرمایا۔ ''ویزکیہم و یعلمھم الکتاب والحکمة''

کتاب و حکمت ہی کی تعلیم کا یہ اثر تھا کہ خلفائے راشدین اور دیگر حضرات صحابہ میں سے ہر ہستی پاکیزہ کردار اور اعلی اخلاق سے متصف تھی اور ان میں سے ہر ایک کمالات انسانی کے منتہا کو پہنچ گیا تھا۔ تاریخ اسلام میں انہی نفوس قدسیہ کو صوفیائے کرام کا پہلا گروہ کہا جاتا ہے۔ یعنی تصوف اسلام کا پہلا دور انہی حضرات پر مشتمل تھا۔ تصوف کے بنیادی اصول یا ارکان تصوف جسے استغراق عبادت، توبہ، زھد، فقر، توکل، شریعت میں بھی اسی اہمیت کے حامل ہیں جس طرح طریقت میں تھے اور تصوف کے ابتدائی دور میں رہے۔

صحابہ کرام اور اصحاب صفہ میں سے ہر ہستی انہی اوصاف حمیدہ اور فضائل کی آئینہ دار تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق کاایثار تاریخ اسلام آج بھی فخر سے پیش کرتی ہے کہ گھر میں جس قدر اثاثہ تھا۔ وہ تمام رسول خداۖ کی خدمت میں پیش کر دیا اور جب رحمت عالم ۖ نے فرمایا کہ اے صدیق اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑا ؟ تو جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول کافی ہے۔ اسی کا نام کمال ایثار اور کمال توکل ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں یہ پاکیزہ صفات حضور اکرمۖ کی حیات طیبہ سے اخذ کی تھیں اور معرفت خداوندی کے تمام اسرار و رموز آپ سے ہی سیکھے تھے۔ اسی بناء پر حضرت شیخ داتا گنج بخش علی ھجویری رحمة اللہ علیہ حضرت ابو بکر صدیق کو مسلک تصوف کا امام گردانتے ہیں اور اکثر سلاسل تصوف آپ ہی پر منتہی ہوتے ہیں۔

یہی حال حضرت عمر کا تھا۔ زھد و فقر کا یہ حال کہ لوگوں نے آپ کے جسم مبارک پر کوئی ایسا کپڑا نہیں دیکھا جو پیوند دار نہ ہو۔ آپ اکثر دعا مانگتے کہ خدایا! دنیا میں کوئی چیز باقی نہ رہے گی اور نہ کوئی حالت قائم رہے گی تو مجھے ایسا کردے کہ میں اس میں علم کے ساتھ بولوں اور حلم کے ساتھ خاموش رہوں۔
اللہ! تو مجھے بہت دنیا نہ دے۔ کیونکہ شاید میں سرکش ہوجائوں اور نہ بہت تھوڑی کیونکہ کہ شاید میں تجھے بھول جائوں۔

صبر و توکل میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اپنی مثال آپ تھے۔ عظیم سے عظیم تر مصیبت پر بھی آپ نے صبر و توکل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ایثار و انفاق میں حضرت عثمان اپنی مثال آپ تھے۔ مدینہ منورہ میں بئر عثمان آج بھی آپ کے اس فضل کی نشانی ہے۔ آپ بارہ سال تک خلیفہ تھے مگر آپ نے وظیفہ خلافت سے ایک درہم بھی لینا قبول نہیں کیا۔ ان کا قول ہے کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں بہت مرغوب ہیں۔ تلاوت کلام پاک، بھوکوں کو کھانا کھلانا اور راہ حق میں بے دریغ خیرات کرنا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ایثار کا یہ عالم تھا کہ شب ہجرت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے شب بھر بسترِ رسالت پر دراز رہے اور آنحضرتۖ کی زندگی عزیز کو اپنی جان پر مقدم سمجھا، سادگی، فقر، رضائے الٰہی اور معرفت الٰہی میں بھی آپ بڑے ممتاز تھے۔ حضور اکرم ۖ کا ارشاد ہے ۔ ''انا مدینة العلم و علی بابھا'' کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی دروازہ ہیں۔ علوم اور اسرارِ حقیقت و طریقت میں ممتاز تھے۔ اسی بنیاد پر اہل تصوف کے بہت سے سلاسل آپ پر منتہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ سرخیل ارباب تصوف حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں۔ شیخنا فی الاصول والبلاء علی المرتضیٰ'' یعنی اصول معرفت اور آزمائش میں ہمارے مرشد حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے استغراقِ عبادت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ نماز پڑھتے تو آپ کو دنیا کی کچھ خبر نہیں رہتی۔ ان کا فرمان ہے کہ میں نے اپنے خدا کو ارادوں کے ٹوٹنے اور عقدوں کے حل ہونے سے پہچانا اور پھر فرمایا'' جب تم کسی کام کے کرنے میں تکلیف محسوس کرو تو اس میں کود پڑو کیونکہ اس سے بچتے رہنے کا اندیشہ اور خوف اس اندیشے اور خوف سے بدرجہا زیادہ ہے جو اس کام سے علیحدہ رہ کر محسوس کرتے ہو۔''