working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

دینی مدارس: اصلاحِ احوال کا لائحۂ عمل
فرید احمد پراچہ
ایک زمانہ تھا کہ برصغیر سمیت تمام بلاد اسلامیہ میں مدارس کو علمی، تہذیبی اور تمدنی مراکز کی حیثیت حاصل تھی۔ جہاں دینی اور مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ، ریاضی، طب، جغرافیہ اور علمِ نجوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ یہ مدارس ہی تھے جہاں سے تاریخ اسلامی کے کئی نامور اور معتبر علماء و فضلاء نے اپنے علم کی بنیاد پر پوری دنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔ ان مدارس کے ذریعے ہی تعلیم حاصل کرنے والے فلسفہ دانوں، ریاضی دانوں، علمِ طب، علمِ نجوم، کیمیا، علم عروض اور علم بیان کے ماہرین کے قائم کیے سانچوں پر جدید علوم کی بنیاد رکھی گئی اور یورپ سمیت پوری دنیا کے اہل علم نے ان کے بتائے راستوں سے منزل کا سراغ پایا۔ لیکن بعد میں کیا وجہ ہوئی کہ ان مدارس میں تعلیم و تعلم کی جگہ دیگر معاملات نے لے لی۔ زیرِنظر مضمون میں مضمون نگار نے دینی مدارس کے نصاب کے حوالے سے اس زوال کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے اور بہتری کی تجاویز پیش کی ہیں۔ (مدیر)

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کسی بھی اجتماعیت کی اصل روح اس کے ادارے ہوتے ہیں۔ اداروں کی زندگی معاشرت کو زندگی کی حرارت اور ان کی حرکت و فعالیت معاشرے کو توانائی و تابندگی فراہم کرتی ہے۔ جب ادارے مضمحل ہوتے ہیں اور ان سے زندگی کی علامتیں رخصت ہو جاتی ہیں تو پھر معاشرہ بھی آہستہ روی سے اجتماعی ہلاکت کی راہوں پر چل نکلتا ہے۔ اسلامی معاشرت کی ہیئت ترکیبی میں خاندان، مسجد اور ریاست کے ساتھ ساتھ اہم ترین عنصر مکتب ہے۔ یہ شروع ہی سے اسلامی معاشرت کا اہم جزو رہا ہے اور اسے ہر دور میں کسی نہ کسی انداز میں قوتِ حاکمہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ان دینی مدارس نے تدوینِ علم کے فرائض بھی انجام دیے اور تدریسِ علم کے بھی۔ اشاعتِ علم و عرفان کا ذریعہ بھی بنے اور تزکیہ و تربیت کا سبب بھی۔ کبھی یہ ادارے محض علمی جامعات تھے۔ کبھی یہ تحقیقی مرکز بنے۔ کبھی انھوں نے سائنسی رصدگاہوں کی شکل اختیار کی۔ کسی دور میں دینی مدارس ملٹری اکیڈیمیاں تھے اور کبھی دورِ بادشاہت کے ظلمت کدوں میں یہی دینی مدارس ملتِ اسلامیہ کی مؤثر حزبِ اختلاف کی صورت میں مینارۂ نور تھے۔ فتنۂ تاتار ہو یا سقوطِ بغداد، عروجِ امت کا دور ہو یا زوالِ اندلس کا ، سانحہ سیاسی غلبے کا زمانہ ہو یا اجتماعی غلامی کا عرصۂ نحوست، سقوط مشرقی پاکستان ہو یا جہاد افغانستان کے روح پرور مواقع،ہر دور اور ہر مرحلے پر ملتِ اسلامیہ کی رہنمائی و نمائندگی کا فریضہ یہی ادارے انجام دیتے رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی یہ دینی مدارس ہی تھے جنھوں نے ترویج علم و عرفان کے ساتھ ساتھ قیادت ملک و ملت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ غیرملکی آقائوں کے دورِ غلامی میں جب آج کے برسرِ اقتدار سیاسی خاندانوں کی پہلی نسل انگریز کی فوج کو سپاہی فراہم کر رہی تھی، دینی مدارس کے طلبہ و اساتذہ نانِ جویں پر گزارہ کر کے انگریز کی گولیاں کھا رہے تھے اور آزادی وطن کی جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن پھر یہ بھی ایک ناقابلِ تلافی سانحہ ہے کہ اتنے عظیم الشان تاریخی کردار ادا کرنے والے ادارے آہستہ آہستہ غیر مؤثر ہوتے چلے گئے۔ حکمرانوں کی ساحری نے انھیں عین میدان جہادمیں سلا دیا اور دشمنوں کی سازش نے انھیں افتراق و انتشار اور فروعات و روایات میں الجھا دیا۔ اس طرح ان مدارس کی ایک تعداد اس کردارکو ادا کرنے سے قاصر رہی جو ان اداروں کا اصل مقصدِ وجود ہے۔

مستحسن صورت یوں ہے کہ درسِ نظامی کے نصاب میں مؤثر تبدیلیاں عمل میںلائی جائیں اور یہاں بعض جدید علوم کو متعارف کرایا جائے۔ اسی طرح جدید مدارس میں بی اے تک مکمل قرآن مجید باترجمہ، اسلامیات اور عربی زبان کی تعلیم لازم قرار دی جائے۔ میٹرک کی سطح تک نصاب تعلیم یکساں ہو۔ سکول میں جو تعلیم دی جائے اس میں قرآن، حدیث اور عربی کے مضامین رکھے جائیں۔ عربی کی تعلیم میں گرائمر اور صرف و نحو کی کتب بھی شامل کی جائیں۔ میٹرک کے بعد عام تعلیم کے طلبہ سکولوں، کالجوں یا پیشہ وارانہ اداروں میں چلے جائیں گے اور درس نظامی حاصل کرنے والے طلبہ دینی مدارس میں داخلہ حاصل کریں گے۔ درس نظامی کا یہ نصاب آٹھ سالوں پرمحیط ہو۔ اس میں طلبہ کو اصلاً دینی تعلیم مکمل توجہ و محنت سے پڑھائی جائے اور ضمناً میٹرک کے بعد تسلسل کے ساتھ انگریزی کی تعلیم جاری رکھی جائے۔

جہاں تک درسِ نظامی کے نصاب میں تبدیلیوں کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں اور اس امر پر قریباً اتفاق رائے ہے کہ درسِ نظامی کے نصاب میں بعض تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں۔ اصولاً تو ان تبدیلیوں کا فیصلہ علمائے کرام کا کوئی بورڈ ہی کر سکتا ہے۔ تاہم ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے جو کچھ محسوس کیا ہے، تجاویز کی شکل میں علمائے کرام حضرات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ان تجاویز سے پہلے میں ضروری سمجھتاہوں کہ اجمالاً اس تاریخی تسلسل کا تذکرہ کروں جو دینی مدارس میں نصاب تعلیم کو حاصل رہا ہے۔ عہد نبویۖ میں تعلیم کا تعلق قرآن و سنتِ رسول اللہۖ سے تھاا ور اس زمانے میں اہلِ علم سے مراد ہی قرآن و حدیث کے عالم لیے جاتے تھے، پھر جب مکہ اور مدینہ کے علاوہ کوفہ، دمشق، بغداد اور فسطاط بھی علمی مراکز بن گئے تو نصابِ تعلیم میں قرآن و حدیث کے علاوہ فقہ اور قواعد و ادب عربی بھی شامل ہو گئے۔ عراق ہی کی درس گاہوں میں امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین کے ہاتھوں احکام شرعیہ کی تدوین کا اہم کام انجام پایا۔ اس مرحلہ پر معانی و بیان اور تجوید و تفسیر کے علوم کا آغاز ہوا۔ حضرت سعید بن المسیب حدیث و تفسیر کے علاوہ اپنے حلقہ درس میں اشعار پر بھی بحث کرتے تھے۔ الطبری کے بیان کے مطابق انھوں نے جامع عمرو بن عاص قاہرہ میں الطرماح کی نظموں کو املاکرایا۔

جامعہ بنی امیہ دمشق، جامع ابن طولون وغیرہ میں بھی اسی نصاب کے مطابق تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ اموی دور کے نظام تعلیم میں علوم و فنون کے لیے تالیف و تصنیف اور ترجمے کا سلسلہ قائم ہوا۔ اساتذہ و طلبہ کے لیے وظائف مقرر کیے گئے۔ زبانی تعلیم کے علاوہ املا کا طریقہ بھی رائج کیاگیا۔

عباسی دور میں دینی تعلیم نے زیادہ منظم صورت اختیار کی اور اسے حکومت کی سرپرستی صرف مالی و انتظامی انداز کی ہی نہیں علمی انداز کی بھی حاصل ہو گئی۔ اسی دور میں یونانی فلسفہ شامل نصاب ہوا۔ چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مدارس کے لیے علیحدہ اور مستقل عمارت بنانے کی ابتد ا ہوئی۔ پہلی عمارت نیشا پور میں ناصر الدولہ نے امام ابوبکر محمد بن حسین کے لیے بنائی۔ نظام الملک طوسی نے اپنی وزارت کے دوران نیشاپور میں ایک مدرسہ امام الحرمین کے لیے تعمیرکرایا تھا۔ غرضیکہ ایک طویل عرصہ تک تعلیم کا مطلب صرف دینی تعلیم خیال کیا جاتا تھا۔ پھر استبداد زمانہ سے نصاب تعلیم میں قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر علوم اسی طرح شامل ہوتے گئے کہ کل جزو بن گیا اور جزو پھیل کر کل بن گئے۔

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی دینی مدارس کا آغاز ہو گیا۔ ابتدائی دور میں منصورہ (سندھ) اور ملتان اسلامی علوم کے مراکز تھے۔ اس زمانے میں بھی نصاب تعلیم میں قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، عربی ادب اور تاریخ کے مضامین شامل تھے۔ غزنوی دور میں لاہور پونے دو سو سال تک علما و فضلا کا مرکز رہا ہے۔ غوری خاندان کے عہد میں یہ حیثیت اجمیر کو حاصل رہی ہے اور یہاں مساجد و مدارس قائم ہوئے۔ خاندانِ غلاماں (1206-1287ئ) کے عہد میں بختیار خلجی نے بنگال میں رنگ پور کا شہر آباد کیااور یہاں دینی مدارس قائم کیے۔ التمش نے دہلی اور بدایوں میں علمی مراکز استوار کیے۔ ان تمام ادوار میں نصاب تعلیم میں غالب قرآن و حدیث کے علوم ہی رہے اور عربی زبان کو خصوصی اہمیت حاصل رہی۔ سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء نے اپنی خانقاہ میں ایک مختصر لیکن جامع یک سالہ نصاب جاری کیا جس میں قرآن مجید باترجمہ اور قدوری کو اہمیت حاصل رہی۔ فیروزشاہ نے 753 ہجری میں فیروزآباد اور دہلی میں مدارس قائم کیے۔ اسی طرح لودھی خاندان (1451-1526ئ) کے عہد میں ہندوئوں نے بھی ان مدارس سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور یوں نصابِ تعلیم میں فارسی زبان کی تدریس کو اولیت اور دینی علوم کو ثانوی حیثیت حاصل ہونے لگی۔ سلاطین مغلیہ نے بھی ملک بھر میں دینی مدارس کو فروغ عطا کیا۔ بابر نے دہلی میں جو مدرسہ قائم کیا اس کے صدر مدرس شیخ حسن تھے۔ اس موقع پر نصاب میں علم ہیئت اور جغرافیہ بھی شامل ہو گئے۔

ہمایوں نے دہلی، شیرشاہ سوری نے پٹیالہ اور اکبر نے فتح پور سیکری میں مدارس قائم کیے۔ عہد جہانگیری میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے دہلی کو ہمیشہ کے لیے علوم دین کا دارالسلطنت بنا دیا۔ ان کے نصاب میں قرآن و حدیث مبارکہ کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ خود انھوں نے ایک سو سے زیادہ کتب تصنیف کیں، جن میںسب سے زیادہ مشہور مشکوٰة کی عربی اور فارسی شرحیں ہیں۔ شاہجہان (1648-1659ئ) کے عہد میں دلی کی جامع مسجدکے ساتھ دارالبقاء کے نام سے مدرسہ موجود تھا جہاں مفتی صدرالدین آزردہ تعلیم دیتے تھے۔ عہد شاہجہانی میں سیالکوٹ میں ملاعبدالحکیم سیالکوٹی کا مدرسہ زیادہ مشہور تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں لکھنؤ میں مدرسہ فرنگی محل کی بنیاد پڑی۔ مدرسے کے بانی ملا نظام الدین تھے جن کے انتساب سے درس نظامی مشہور ہوا۔ اس نصاب میں نحو، منطق و فلسفہ، فقہ اور اصول فقہ پر زور دیا گیا ہے۔ اس نصاب سے پہلے مغلیہ سلطنت کے زوال تک ہندومسلمان اکٹھے عام مکاتب میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس نصاب میں زیادہ تر کتب فارسی مثلاً پند نامہ عطار، کریما، مامقیماںاخلاق محسنی، گلستان، بوستان، سہ نثر ظہوری، اخلاق ناصری، سکندرنامہ، یوسف زلیخا وغیرہ کتابیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ ابتدائی تعلیم میں خوشخطی، نوشت و خواند اور ابتدائی حساب بھی جزونصاب تھا۔ یہ صورت حال انیسویں صدی کے آخر تک رہی ۔

1771ء میں وارن ہیٹنگز نے کلکتے میں ''مدرسہ عالیہ'' کے نام سے مدرسہ کھولا۔ اس کے نصاب میں فارسی و عربی کو بنیادی اہمیت حاصل تھی لیکن اس کو اس انداز میں ترتیب دیا گیا کہ طلبہ کا علم محض زبان دانی تک محدود رہے۔ 1791ء میں بنارس میں ہندوسنسکرت کالج کا افتتاح کیا گیا۔ 1800ء میں لارڈ ولزلی نے فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ 1822ء میں آگرہ کالج اور 1827ء میں دہلی کالج قائم ہوئے۔ جبکہ 1870ء میں علوم مشرقیہ کی تعلیم کے لیے لاہور میںاورینٹل کالج کا قیام عمل میںلایا گیا۔ یوں درس نظامی اور دنیاوی تعلیم کے راستے یکسر مختلف ہو گئے۔ حکومتی سرپرستی میں علوم شرقیہ کی تعلیم میں بھی بنیادی اہمیت لسانیات کو ہی حاصل رہی اور سکول کالج اور یونیورسٹیوں سے اس تعلیم کا اہتمام ہوا جس کی ضرورت زمانے کی مارکیٹ میں تھی۔ ادھر دینی مدارس سرکاری سرپرستی سے محروم ہو کر اسی درسِ نظامی پر سختی سے کاربند ہو گئے جو صدیوں سے رائج تھا۔

میں معذرت خواہ ہوں کہ میں نے نصاب تعلیم میں تبدیلی کے تاریخی تسلسل کو ذرا وضاحت سے بیان کیا ہے، تاہم اس تاریخی تسلسل سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:
1۔ نصاب تعلیم میںہمیشہ وہی تبدیلی مؤثر رہی جسے کسی مؤثر ادارے یعنی کسی استادالاساتذہ یا علمائے کرام کے بورڈ کی سرپرستی حاصل تھی۔
2۔ ملت اسلامیہ کے اجتماعی زوال نے دینی تعلیم کے نصاب کو بھی متاثر کیا۔ جیسے جیسے سیاسی غلبہ کمزور ہوا اور معاشرتی انحطاط رونما ہوا، دینی تعلیم کا نصاب بھی بدلتا چلا گیا اور نسبتاً کم اہمیت کے مضامین بنیادی اہمیت اختیار کرتے چلے گئے۔
3۔ نصاب تعلیم کی تبدیلی سے دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد کامعیار بھی متاثر ہوا۔
4۔ علوم پر لسانیات کو ترجیح دینے کا عمل جو دورِ انحطاط میںمعاشی ضروریات کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا گیا۔

چنانچہ ناگزیر ہے کہ درسِ نظامی کے نصاب پر ازسرِنو غور کیا جائے اور ان میں ترمیم و اضافہ اور تنقیص و اصلاح کو عمل میں لایا جائے۔ درسِ نظامی کے نصاب میں جو چند تبدیلیاں ضروری ہیں، ان کے سلسلہ میں میری طالب علمانہ تجاویز حسب ذیل ہیں۔

اصل علوم قرآن و حدیث ہیں اور باقی علوم، علوم آلیہ ہیں یعنی چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے۔

قرآن پاک
میرے نزدیک درسِ نظامی کے موجودہ نصاب میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں پورا قرآن مجید شامل نصاب نہیں۔ قرآن پاک علوم کا مرکز ومحور بلکہ منبع و مصدر ہے۔ سرمایۂ حیات اور نورِ بصیرت ہے۔ اس کا مطالعہ انسان کو علم کی اوج گاہیں بھی عطا کرتا ہے اور کردار کی عظمت بھی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ درس نظامی کے نصاب میں پورا قرآن مجید باترجمہ و تفسیر شامل ہو اور اسے آٹھ سالوں پر تقسیم کر دیا جائے۔ نیز خصوصی مباحث الگ پڑھائے جائیں۔

تفسیر قرآن پاک
موجودہ نصاب میں سورة بقرہ تک قرآن مجید بالتفسیر پڑھایا جاتا ہے۔ تفاسیر میں جلالین اور تفسیرِ بیضاوی شاملِ نصاب ہیں۔ یہ تفاسیر نہایت اہم، مؤثر اور علوم وفنون کا خزانہ ہونے کے باوجود دور حاضر کی ضروریات کے پیش نظر کماحقہ رہنمائی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

جبکہ موجودہ زمانے کے کئی نامور مفسّرین کی عربی تفاسیر زبان و بیان اور مطالب و مفاہیم کے جملہ تقاضے پورا کر سکتی ہیں۔ علامہ سیوطی کی الاتقان فی علوم القرآن بھی رائج کی جا سکتی ہے۔ قدیم تفاسیر میں سے تفسیر قرطبی اور جدید تفاسیر میں سے فی ظلال القرآن کو شامل کرنا بھی مفید رہے گا۔

فقہ و اصولِ فقہ
نصاب میں شرح وقاریہ، نورالایضاح، کنزالدقائق، ہدایہ، نورالانوار، سراجی، اصول الشاشی، حسامی، توضیع ، مسلم الثبوت وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں کتاب کے اضافہ و کمی کی تو ضرورت نہیں البتہ ضروری ہے کہ دورِجدید کے مسائل مثلاً بلاسود بینکاری، عائلی قوانین وغیرہ کو الگ مباحث کے طور پر پڑھایا جائے۔ ان موضوعات پر عربی زبان میں کتب دستیاب ہیں۔ اصول فقہ (Jurisprudence) کے انداز میں پڑھایا جائے۔ نیز فقہ کو بھی Codifide طرز پر مرتب کرنے کی کوشش کی جائے۔

اس کی ضرورت اس دور میں اس لیے بھی اور بڑھ گئی ہے کہ اب شرعی عدالتوں کی صورت میں عدلیہ کے لیے ایسے افراد ناگزیر ہیں جو علوم دین کے ماہر ہوں اور فقہ کو جدید انداز میں سمجھتے ہوں۔

منطق و فلسفہ
منطق میں ایسا غوجی، صغریٰ کبریٰ، مرقات، سلّم، قال اقوال، شرح تہذیب قطبی جیسی کتب شاملِ نصاب ہیں۔ یہ کتب دورازکار بحثوں پر مشتمل ہیں اور طلبہ کی صلاحیتوںکا ایک بڑا حصہ ان کتب کو محض سمجھنے پر صرف ہوتا ہے جبکہ اس منطق کی پوری عملی زندگی میں کہیں ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی طرح یونانی فلسفہ بھی Out-dated ہو چکا ہے۔ آج کے دورمیں اس کی حیثیت ایک تاریخی تسلسل کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ ترمیم شدہ نصاب میں سے منطق و فلسفہ دونوں یکسر ختم کر دیے جائیں۔ ان کی جگہ اسلام اور سائنس کا مضمون متعارف کرایا جائے۔ اس موضوع پر عربی و اردو دونوں زبانوں میں کتب میسّر ہیں۔ بہتر ہو گا کہ اردو میں نئے سرے سے ایک کتاب مرتب کی جائے جس میں سائنس، اس کے اصول، سائنسی قوانین و نظریات، سائنسی ایجادات وغیرہ کا مختصر اور آسان تعارف کرایا جائے۔ قدیم مسلمان سائنس دانوں کی خدمات کا جامع تذکرہ ہو، چونکہ مغرب اب ایٹمی توانائی کے دور سے بھی آگے بڑھ رہا ہے اور ہمارا اصل حریف مغرب ہے، اس لیے مغربی فکر و فلسفہ کو شکست دینے کے لیے سائنسی علوم کا مطالعہ یقینا مفید رہے گا۔

صرف و نحو
موجودہ درس نظامی میں میزان، زبدہ، فصول اکبری، شافیہ، نحو میر، شرح مائتہ، عامل ہدایة النحو، کافیہ اور شرح ملا جامی وغیرہ کتب شامل ہیں۔ یہ کتب بلاشبہ نہایت جامع اور مفید ہیں لیکن ان میں گرائمر کی بجائے گرائمر کے فلسفہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔کیا ہے؟ کی بجائے کیوں ہے؟ کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ عرب دنیا میں گرائمر کی جدید کتب نہایت سائنٹفک انداز میں مرتب کی گئی ہیں۔ ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً النحو الواضح، البلاغہ الواضحہ اسی طرح کافیہ اور شرح جامی کی جگہ المغنی یا ابن عقیل وغیرہ شامل کی جا سکتی ہیں۔

عربی ادب و بلاغت
اس میںنفختہ العرب، سبعہ معلقہ، دیوان متبنیٰ، دیوان حماسہ، مقامات حریری، مفید الطالبین، مختصرالمعانی، تلخیص المفتاح، مطلول وغیرہ کتب شامل نصاب ہیں۔ ان کتب میں سے مقامات کو خارج کیا جا سکتا ہے۔ ان کی جگہ جدید عربی لٹریچرمیں سے کوئی کتاب شامل کی جائے ۔ عربی بول چال اور تحریر کو بنیادی اہمیت حاصل ہو۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہمارے علمائے کرام عربی زبان کے ماہرین ہونے کے باوجود عربی میںایک جملہ بھی بولنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ عربی بول چال کی کیسٹ اور وڈیو کیسٹ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح عربی ترجمے کی مشق خصوصی پروگرام کے تحت کروائی جائے۔ عربی رسائل و جرائد بآسانی میسر آ جاتے ہیں۔ اساتذہ و طلبہ ان کے مطالعہ کی عادت بنائیں تو عربی زبان کی تحصیل مزید آسان ہو سکتی ہے۔ کمرۂ جماعت کی زبان عربی ہو تا کہ خودبخود بول چال کی مشق ہوتی رہے۔

علم کلام
علم کلام کو درس نظامی میں خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے لیکن جن فرقہ باطلہ کا ردواستیصال اس علم کے ذریعے سکھایا جاتا ہے ان کا اب کہیں وجود نہیں۔ معتزلہ، خوارج، جبریہ، قدریہ وغیرہ جس جہالت کی نمائندگی کرتے ہیں اب وہی قدیم جہالت نئے انداز اور نئے ناموں کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہے۔ چنانچہ اب اس مضمون کو اسلام اور مذاہب عالم کا نام دے کر اس کے ذریعہ عیسائیت، یہودیت، بدھ مت، ہندومت، کمیونزم، سرمایہ دارانہ نظام، صیہونیت، قومیت پرستی وغیرہ کا تقابلی جائزہ اور مسلمان ممالک میں موجود فتنوں مثلاً انکارِ حدیث، قادیانیت وغیرہ کا رد وغیرہ سکھایا جائے تاکہ ہمارے علمائے کرام جدید دور کے فتنوں سے آگاہ ہوں اور ان کا مقابلہ دلائل وبراہین کے ہتھیاروں سے کر سکیں۔

سابقہ مضامین میں ان تبدیلیوں کے علاوہ مندرجہ ذیل مضامین کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

انگریزی
انگریری زبان کے غلبہ و حاکمیت سے انکار ومفر ممکن نہیں۔ قدیم دور میں یونانی (جو ایک مغربی زبان ہی تھی) کو سیکھنے کا چلن عام ہوا تو علمائے کرام نے اس کو رد کرنے کی بجائے، دیگر معاشرے سے بڑھ کر اسے اپنایا۔ متعدد علمائے کرام نے زبان میں مہارت حاصل کی اور یونانی علوم کو عربی میںمنتقل کیا۔ اسی طرح آج علوم کی زبان انگریزی ہے تو اس سے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے ضروری ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو اس سے آگاہ کیا جائے تاکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے مقابلے میں ان کی ذہنی مرعوبیت کا خاتمہ ہو۔ طلبہ کو امتحان تو بلاشبہ میٹرک کا دلایا جائے تاہم انگریزی زبان کی تعلیم و تحصیل تمام عرصہ جاری رہے۔ ایک عملی صورت یہ ہے کہ فارغ التحصیل حضرات کے لیے کم ازکم دو سالہ نصاب انگریزی شروع کیا جائے۔ دوسال میں اگر پوری محنت و توجہ سے پڑھایا جائے تو طلبہ جدید تعلیم یافتہ حضرات سے زیادہ انگریزی پڑھنے ، لکھنے اور بولنے پر قادر ہو سکتے ہیں۔

عالم اسلام
ہمارے علمائے کرام اسلامی ممالک اور عالم اسلام کے بڑے بڑے مسائل وغیرہ سے قریباً نابلد ہوتے ہیں۔ اس مضمون کی اہمیت آج کے دور میں اور بھی زیادہ ہے۔ ضروری ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو سبقاً سبقاً عالم اسلام کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی احوال سے آگاہ کیا جائے۔ پھر بالخصوص مطالعۂ پاکستان کو اسی طرح نصاب کا حصہ بنایا جائے کہ پاکستان کی نظریاتی اساس طلبہ پر اچھی طرح واضح ہو جائے۔

تاریخ اسلام
تاریخ اسلام بالخصوص سیرت النبیۖ اور تاریخ خلافت راشدہ کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لیے کوئی مختصر کتاب مقرر کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تاریخ دعوت کو حضرات انبیائے کرام سے دور حاضرہ تک نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

اسلامی نظریۂ حیات
اگرچہ سارا نصاب ہی اسلامی نظریۂ حیات سے متعلق ہے تاہم ساتویں سال اسلامی نظریۂ حیات کو اس انداز میں سبقاً سبقاً پڑھایا جائے کہ اسلام کا معاشی نظام، مبادیات معاشیات کی تشریح و توضیح کے ساتھ، اسلام کا سیاسی نظام جدید سیاسی نظریات کے تقابل کے ساتھ، اسلام کا معاشرتی نظام جدید معاشرتی افکار کے ہمراہ بالکل واضح ہو جائے اور طلبہ کو اسلام کی جامعیت اور اس کے کامل ترین ضابطۂ حیات ہونے کا کماحقہ علم حاصل ہو اور وہ پڑھے لکھے طبقہ میں اسلامی نظام کے تمام پہلوئوں کو اچھی طرح اجاگر کر سکیں۔ نیزانھیں معاشیات کی اصطلاحیں مثلاً زرِمبادلہ، کرنسی کا پھیلائو، روپے کی قیمت، بجٹ وغیرہ اچھی طرح سمجھ آ جائیں اور مغربی جمہوریت و دیگر نظام ہائے حکومت سے بھی مکمل آگاہی حاصل کر سکیں۔

نصاب کی تبدیلی کا یہ عمل بذریعہ وفاق ہائے مدارس عربیہ اگر ہو گا تو اپنی نتیجہ خیزی اور قبولیت کے لحاظ سے زیادہ بہتر رہے گا۔

کتب کی تیاری
یہ امرِ واقعہ ہے کہ دورِ حاضر میں طباعت کی جدید ترین سہولتوں کے باوجود ابھی تک درسِ نظامی کی بیشتر کتب قدیم طرز تحریر اور انداز میں طبع ہوتی ہیں۔ اسی طرح حواشی در حواشی کے سلسلہ کی صورت میں کتاب کی ایسی صورت بن جاتی ہے کہ اس سے استفاد ہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ کتب کو نئے سرے سے طبع کروایا جائے۔ چونکہ حواشی انتہائی ضروری اور مفید ہیں، طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے موجب رہنمائی ہیں، اس لیے تمام حواشی کو ترتیب وار، صفحہ نمبر اور حوالہ نمبر کے ساتھ کتاب کے آخر میں یکجا کر کے شامل کر دیا جائے ۔ اس طرح اصل تحریر کا حسن بھی باقی رہے گا اور حواشی سے استفادہ بھی ممکن ہو گا۔ نیز قدیم کتب کی تبویب کی جائے اور ہر باب کے آخر میں سوالات اور تمرینات کو تحریر کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔

اسی طرح کوئی ادارہ ان مضامین پر کتابوں کی تیاری کا فریضہ انجام دے جو پہلے شامل نصاب نہیں۔ مثلاً اسلام اور سائنس، عالم اسلام، انگریزی، اسلامی نظریۂ حیات، عرب ممالک سے یہ کتب بزبان عربی بھی میسر آ سکتی ہیں اور انھیں اردومیں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے۔

تحریری مشق
بیشتر دینی مدارس میں طرز تدریس صرف تقریری ہے اور اس میں تحریر کو بہت کم عمل دخل حاصل ہے۔ ضرورت ہے کہ پہلے سال سے ہی تحریر کی عادت ڈالی جائے۔ اساتذہ باقاعدہ نوٹس لکھوائیں۔ طلبہ کو ہوم ورک دیا جائے اور ان کی کاپیاں چیک کی جائیں۔ اس طرح طلبہ میں تحریر کی صلاحیت پیدا ہو گی اور آموختہ پر بھی ان کی گرفت مضبوط رہے گی۔

تحقیقی کام
ہمارے دینی مدارس تحقیقی مراکز بھی ہوا کرتے تھے اور ان سے متعلق اساتذہ کرام نے ہزاروں گراں قدر تحقیقی کتب تصنیف کیں لیکن ایک عرصہ ہوا ہماری بدقسمتی سے ان اداروں میں تحقیقی سوتے خشک پڑے ہیں۔ ہمارے قریبی دور میں شاہ عبدالحق محدث دہلوی سَو سے زیادہ کتب کے مصنف تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں علمائے کرام نے قانون سازی کا عظیم الشان کارنامہ فتاویٰ عالمگیری کی شکل میں سرانجام دیا۔ مولانا نورالحق محدث دہلوی نے تیسرالقاری کے نام سے صحیح بخاری شریف کی جامع شرح لکھی۔ شاہ ولی اللہ کے علمی کارناموں سے ایک دنیا واقف ہے۔ مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمدمدنی ، مولانا انور شاہ، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا ابوالحسن ندوی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور دیگر متعدد علمائے کرام نے تحقیقی ذمہ داریاں ادا کیں اور ملتِ اسلامیہ کی بھرپور رہنمائی فرمائی۔ اب بھی مدارس کو تحقیق اداروں کے طور پر بھی اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔

کتب خانہ
دینی ادارے کے لیے کتب خانے کا وجود ازبس ضروری ہے۔ زمانہ قدیم سے کتب خانے دینی مدارس کا جزولاینفک رہے ہیں۔ پہلے مسجدوں کے ساتھ کتب خانے کے لیے الگ کمرے ہوتے تھے۔ شیراز میں مقدسی کا بڑا کتب خانہ جسے عضدالدولہ نے قائم کیا جہاں خزانةالکتب ڈائریکٹر، معاون اور مشرف وغیرہ کے عہدے موجود تھے۔ فہرست کتب بھی ترتیب دی گئی تھی۔ عباسیوں کا بیت الحکمت تو علمی دنیا میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ قاہرہ میں فاطمیوں کے عہد میں چالیس کمروں پر مشتمل لائبریری موجود تھی جہاں صرف علوم قدیمیہ پر اٹھارہ ہزار کتب رکھی گئی تھیں

موجودہ دور میں ہمارے دینی مدارس میں کتب خانے اتنے منظم اور بھرپور نہیں۔ بعض جگہ کتابوں کے قدیم اور بوسیدہ نسخے ہی موجود ہیں جبکہ کتابوںکی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ دینی مدارس اپنے کتب خانوں کو ازسرِنو ترتیب دیں۔ کتب میں اضافہ کیا جائے اور انھیں دورحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

نظام امتحانات
ایک عرصہ سے دینی مدارس میں اجتماعی سلسلہ امتحانات شروع کیا گیا ہے جو یقینا ایک مستحسن قدم ہے۔ اس سے معیار تعلیم میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ امتحانات کے لیے یہ اجتماعی تنظیمیں جو وفاق المدارس، تنظیم المدارس، رابطة المدارس وغیرہ کے نام سے قائم ہیں، یقینا اچھے اندازمیں کام کر رہی ہیں۔ ان کو مزید منظم و مربوط کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں میری تجاویز حسبِ ذیل ہیں: (1) مدارس میں ماہانہ ٹیسٹ کو رواج دیا جائے۔ اس طرح طلبہ زیادہ محنت و توجہ سے تعلیم حاصل کریں گے او ر ان کا اعتماد بھی قائم رہے گا۔ (2)سہ ماہی، شش ماہی اور نوماہی امتحان کا سلسلہ بھی مفید رہے گا۔ (3)وفاق وغیرہ کے تحت دو سالوں کی بجائے ایک سال کے بعد امتحان لیا جائے۔ اس طرح طلبہ زیادہ اچھی طرح تیاری کر سکیں گے۔ (4)معروف اساتذہ کی نگرانی میں باقاعدہ شعبہ امتحانات قائم کیا جائے اور اس سلسلہ میں یونیورسٹی اور ثانوی تعلیمی بورڈوں کے نظام امتحانات کا جائزہ لے کر نظام مرتب کیا جائے۔

سمعی و بصری آلاتِ تعلیم
اگرچہ سمعی و بصری آلاتِ تعلیم سے خود سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی کما حقہ استفادہ نہیں کیا جا رہاتاہم ان کی اہمیت و افادیت کسی سے مخفی نہیں۔ دینی مدارس میں ان کا استعمال اس لیے بھی آسان و ممکن ہے کہ یہاں کسی بھی دینی مدرسے میں طلبہ کی محدود تعداد طویل عرصہ تک اقامت پذیر رہتی ہے۔ اس لیے یہ طلبہ وی سی آر، سلائیڈز اور کیسٹ وغیرہ کے ذریعے جدید انداز میںاپنی دینی و دنیاوی معلومات بڑھا سکتے ہیں۔ اس کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہو گا کہ علمائے کرام میں جدید ذرائع ابلاغ کی مرعوبیت بھی ختم ہو گی اور ان کا مثبت و منفی پہلو بھی ان پر واضح ہو گا۔

تعلیمی سیاحت
سال میں ایک مرتبہ تعلیمی سیاحت کو بھی رواج دیا جا سکتا ہے۔ تمام طلبہ کو اجتماعی نظام میں معروف لائبریریاں، جامعات اور تاریخی مقامات وغیرہ کی سیر کرائی جائے۔ اس طرح علمی معلومات میں بھی اضافہ ہو گا اور طلبہ میں وسعت نظر بھی پیدا ہو گی۔ نیز تفریح کے فطری تقاضے کو بھی مثبت انداز میں پورا کیا جا سکے گا۔

صباحی خطاب
بیشتر دینی مدارس میں صباحی خطاب (اسمبلی) کا کوئی اہتمام نہیں۔مناسب رہے گا کہ اگر صبح کا آغاز اجتماعی شکل میں کیا جائے۔ مدرسہ کے تمام طلبہ کسی ایک مقام پر جمع ہوں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی استاد منتخب موضوعات پر درس قرآن مجید دیں۔ طلبہ سے باری باری تقاریر کروائی جائیں تاکہ ان کو بھی فنِ خطابت میں مہارت حاصل ہو۔

لازمی فوجی تربیت
جس طرح کالجز میں این سی سی کی ٹریننگ کا سلسلہ ہے، اسی طرح حکومت سے رابطہ کر کے دینی مدارس کے لیے بھی یہ سہولت حاصل کی جائے تاکہ دینی مدارس کے طلبہ جہاد کی عملی مشق حاصل کر سکیں اور ملک و قوم پر خدانخواستہ کوئی کڑا وقت آئے تو علمائے کرام ہراول دستہ بن کر جہاد میں حصہ لے سکیں۔

عملی کام
یورپ و امریکا وغیرہ میں بھی ہفتہ میں ایک روز عملی کام یا فیلڈورک شامل نصاب ہوتا ہے۔ لازم کرایا جائے کہ دینی مدارس کے طلبہ بھی مہینے میں دو مرتبہ عملی کام کریں گے۔ ان کاموں میں خود مدرسے کے کام، کھیتی باڑی، رنگ و روغن، تعمیر و مرمت، یا فیلڈ میں دعوت و تبلیغ اور خدمت خلق کے کام شامل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح طلبہ مستعد رہیں گے۔ ان کی صحت بھی قابل رشک ہو گی۔ ان سے روایتی سستی و کاہلی اور آرام طلبی کے طعنے بھی دور ہو سکیں گے۔ مدارس نے اب جو اپنے طلبہ کو بہتر سہولتیں فراہم کرنا شروع کی ہیں تو ان کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ مدارس کے طلبہ نازک مزاج اور چھوئی موئی سے بن گئے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ان کو عملی کام کرنے کی بھی تربیت دلائی جائے۔

ماحول
اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیںکہ ماحول بھی تعلیمی پروگرام پر مثبت و منفی دونوں نقوش ڈالتا ہے۔ دینی مدارس کے ماحول کو بھی اسی نقطۂ نظر سے ترتیب دینا چاہیے کہ طلبہ میں صحت مند خیالات پرورش پائیں اور ان کی سیرت و کردار کی اسلامی سانچے پر تعمیرہو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی طرف اجمالاً اشارہ کرتا ہوں:
1۔ مدرسہ کی عمارت کھلی، ہوادار اور صاف ستھری ہو۔ تنگ و تاریک اور پُرگھٹن ماحول میں پرورش پانے والے ذہنوں میں بھی تنگ نظری، تاریکی اور گھٹن پیدا ہو جاتی ہے۔
2۔ طلبہ میں صفائی کے مقابلے کروائے جائیں۔ ان کے کمرے صاف ستھرے ہوں، بستر ترتیب وار ہوں، کپڑے صاف اور اجلے ہوں، جوتے پالش ہوں، یہ چیزیں ایمان کا حصہ ہیں لیکن انھیں دینی مدارس کے طلبہ نے اپنے لیے شجرِممنوعہ سمجھ رکھا ہے۔
3۔ طلبہ کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ ناظم صلوٰة، ناظم صفائی وغیرہ مقرر ہوں۔ ان کا نظام الاوقات مقرر کر کے اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔

اساتذہ
ویسے تو دنیا کے ہر نظام تعلیم میں بنیادی حیثیت استاد کو حاصل ہے لیکن دینی تعلیم کا تو تمام تر انحصار ہی استاد پر ہے۔ استاد کی شخصیت ہی رازی و غزالی اور جنید و بایزید پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ کا انتخاب بڑی احتیاط کے ساتھ ہو۔تاریخ اسلام کے تمام ادوار میں اساتذہ کا بڑا مرتبہ و مقام رہا ہے۔ حجاج بن یوسف جیسے حکمران نے بھی اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے استاد کا انتخاب کرنا چاہا تو ایک نسبتاً لائق فائق لیکن بے دین استاد پر ایک دیندار استاد کو ترجیح دی۔ اساتذہ کے لیے ریفریشر کورسز کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ اس کا اہتمام کوئی بھی ادارہ کرے، اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ یہ چند گزارشات تجاویز کی صورت میں علمائے کرام حضرات کی خدمت میں اس لیے پیش کی ہیں کہ وہ ان پر غور فرمائیں۔ اگر تجاویز میں کوئی خامی ہو تو اصلاح فرمائیں اور اگر کوئی پہلو افادیت کا ہو تو ان سے استفادہ کیا جائے۔ اس لیے کہ حکومتی سطح پر تو تبدیلیوں کا عمل قبولیت سے لے کر عمل درآمد کے مرحلے تک ایک طویل عرصے کا متقاضی ہے۔

تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر