working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

شدت پسندی کے خلاف فکری اور عملی اقدامات
صبا نور، شگفتہ ہیات
جہاد کے درست معنی کیا ہیں اور یہ کن کن مقاصد کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے؟ … دنیا کے مختلف ممالک جہاں جہادیوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، میں ان کی اصلاح احوال کے کئی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ ان منصوبوں کا دائرۂ کار کیا ہے؟ کیا ان لوگوں کی گرفتاریوں، جیلوں میں ان کی بندش اور ان پر تشدد سے یہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مختلف اسلامی اور خاص کر بعض عرب ممالک میں منفی ڈگر پر جاری اس صورت حال میں تبدیلی کیسے لائی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں کو جو دراصل اس معاشرے کا جزولاینفک ہیں، پھر سے کارآمد شہریوں کے طور پر کیونکر فعال کیا جا سکتا ہے۔ زیرنظر مضمون اس حوالے سے ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے۔ (مدیر)
تعارف
انتہاپسندی کے تدارک کے ضمن میں کئی اصطلاحات مستعمل ہیں۔ ان میں فرائض سے آگہی، لام شکنی، فرائض سے غفلت، دوبارہ بحالی، تجدیدِ تعلقات، مختلف گروہوں سے گفت و شنید اور تعلقات میں رخنہ اندازی جیسے الفاظ شامل ہیں۔ ان مختلف الخیال الفاظ کے پیچھے جو بنیادی وجوہات کارفرما ہیں، ان کی معاشرے کے سماجی حالات اور زمینی حقائق نے قطع و برید کی ہے۔ لیکن ان میں سے دو اصطلاحات اہم ہیں یعنی انتہا پسندی کا تدارک (deradicalization) اور تعلقاتِ کار میں رخنہ اندازی (disengagement) اور عموماً یہی استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ پہلی اصطلاح ایشیائی معاشروں میں جبکہ دوسری اصطلاح یورپی ممالک کے نقطۂ نظر سے مطابقت رکھتی ہے۔ جبکہ دونوں کا مشترکہ مقصد ایک ایسے باہمی طریقۂ کار کو اپنانا ہے جس کے تحت تشدد اور عسکریت پسندی سے نجات حاصل ہو۔ Disengagement رویوں کی تبدیلی کا نام ہے جبکہ Deradicalization ایک ایسا سنگِ میل ہے جس میں بنیاد پرستوں میں سمجھ بوجھ اور ادراک سے تبدیلی کے عمل کا آغاز کیا جاتا ہے۔

11/9 کے خوفناک حملے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا۔ بڑی تعداد میں دہشت گرد مار ڈالے۔ بعض کو گرفتار کر کے جیلوں میں بھجوا دیا لیکن بعدازاں یہی جیلیں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں اور ان کی بھرتیوں کا محور بن گئیں۔ گرفتار شدہ تنظیموں کے لیڈروں اور کارکنوں نے باقی ماندہ قیدیوں کو بھی قائل کر کے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔

اس طرح اس خیال کو تقویت ملی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک نظریاتی مسئلہ بھی ہے جسے محض دہشت گردوں کے قتل اور ان کی گرفتاریوں سے جیتنا ناممکن ہے اور باہمی کوششیں اور مشترکہ حفاظتی سرحدوں کا حصار بھی کمزور ثابت ہوا ہے اور یہ حقیقت تسلیم کر لی گئی ہے کہ نفرت، عدم برداشت اور مذہبی تبلیغ کی انتہا پسندانہ تشریح کے خاتمے کی ضرورت ہے۔

اس پس منظر میں انتہا پسندی کے تدارک اور علاقہ بدر لوگوں کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے دنیا کے مختلف خطوں میں تیزی سے کام جاری رہا اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہوا۔ کئی ممالک میں لوگوں کے دل جیتنے اور ان میں ذہنی تبدیلی لانے کے لیے کئی پروگراموں پر کام ہو رہا ہے۔
اس مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مختلف ریاستوں اور معاشروں میں انتہا پسندی کے تدارک کے لیے جو مثالی اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان کی نشاندہی ممکن بنائی جائے۔

عسکریت پسندی کے تدارک کی کوششوں کی کامیابی اور ناکامی کے درمیان امتیازی تناسب قائم کرنا آسان کام نہیں ہے۔ مختلف ممالک نے اپنے معروضی حالات کے مطابق اقدامات کیے ہیں اور مختلف نظریات کے پس منظر میں ابھی تک کسی ایسے فارمولے یا پروگرام پر اتفاق رائے حاصل نہیں کیا جا سکا جو ہر ایک کے لیے قابل قبول ہو۔

تاہم یہ تمام پروگرام ایک درست راستے کی جانب ضرور راہنمائی کرتے ہیں یعنی ہر کوئی انتہاپسند شخص اور دوسرے زیرِحراست افراد کے بدلتے ہوئے نظریات پر اپنی توجہ کا ارتکاز کر رہا ہے۔ مزید برآں ان تمام اقدامات کو اس مفروضے کی نظر سے پرکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مذہب کی غلط توجیہہ کی وجہ سے انتہا پسندی کے نظریے کو فروغ ملا ہے اور اس نے آگے چل کر سماجی اور نفسیاتی رویوں کوتبدیل کرنے کی کوشش کی۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک بشمول سعودی عرب، یمن، مراکش اور عراق اور یورپی ریاستوں بشمول ناروے،جرمنی اور برطانیہ نے بنیاد پرستی کے خلاف اور بحالی کے لیے کئی پروگرام ترتیب دیے ہیں۔ امریکا، سنگاپور، انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی ان ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے بنیادپرستی سے نمٹنے کے لیے اپنے اپنے منصوبے وضع کر رکھے ہیں۔ کچھ مغربی ممالک ان پروگراموں کی آڑ میں ان آبادیوں پر بھی نظر رکھتے ہیں جو بنیادپرستی کو ہوا دینے کا موجب بن سکتے ہیں۔ اس طرح کے کڑے اقدامات اور پروگراموں کی وجہ سے مختلف ریاستوں کی ہمہ جہت تصاویر اور نظریات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
سنگاپور
جب سنگاپور کو جمعیہ اسلامیہ تنظیم سے خطرہ محسوس ہواتوحکومت نے 2003ء میں بنیاد پرستی کے خلاف ایک پروگرام ترتیب دیا جس کا نام Religious Rehabilitation Group یعنی (RRG) رکھا گیا۔ جنوب مشرقی ایشیا کی مذکورہ عسکری تنظیم انڈونیشیا کے جزیرے ''بالی'' میں بھی 2002ء کے بم حملے میں ملوث پائی گئی تھی۔

PRG کا اصل مقصد عسکریت پسندوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے ان عناصر سے پیشہ ورانہ طریقے سے مشاورت کے ذریعے حکمت عملی ترتیب دینا ہے۔ مسلمان علماء نے نظربند عسکریت پسندوں کے خیالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اس پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جمعیہ اسلامی تنظیم کے زیرِحراست کئی ممبران کو اپنی تسلی کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ مضبوط ڈھانچے پر استوار بحالی کے یہ پروگرام ان انتہاپسندنظریات کی بیخ کنی میں ممدومعاون ثابت ہوئے ہیں جنھیں معاشرے کے منفی عناصر کی پشت پناہی حاصل تھی۔

مسلم علماء کا 30 افراد پر مشتمل ایک گروپ بنیاد پرستی کے خلاف سرگرم عمل رہا۔ انھوں نے تشدد پسندانہ روےّوں کو اسلام کے قانونی دائرے سے خارج ثابت کیا۔ استاذ محمد بن علی جو کہ انتہاپسندوں کی بحالی کے حوالے سے تشکیل دیے گئے گروپ کے اہم رکن ہیں، دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''جہاد اسلام کا ایک ہمہ جہتی رکن ہے اور اس کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً قانونی اور علمی میدان کا جہاد بھی اتناہی اہم جہاد ہے۔ چنانچہ جو کچھ یہ نوجوان کر رہے ہیں، اسے ہرگز جہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔'' اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے مذکورہ افراد کے اہلِ خانہ کو بھی شامل کیا گیا تاکہ ثمرآور نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

سعودی عرب
بنیاد پرستی کو کچلنے کے حوالے سے پورے مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کا کردار سب سے مثالی رہا ہے۔ انھوں نے اپنے پروگرام میں ان انتہا پسند عناصر کے مقاصد کو نشانہ بنایا جو ابھی تک تشدد کی کارروائیوںکے لیے پوری طرح میدان میں نہیں اترے تھے۔ اس معتدل رویے کی رُو سے تین محرکات پر کام کیا گیا۔

ا۔ تدارک
انتہاپسند یا متشدد تنظیموں میں شمولیت سے پہلے ہی افراد کی حوصلہ شکنی کرنا تاکہ وہ اس راہ پر گامزن ہی نہ ہوں۔
ب۔ بحالی
تشدد آمیز روےّے ترک کرنے پر ہرطرح کی مدد اور ہمدردی مہیا کرنا تاکہ وہ پُرامن طور پر معاشرے کی صحت مند سرگرمیوں کا حصہ بن سکیں۔
ج۔ اثرات
جرائم کے اعادہ سے بچائو کے لیے معاشرے کے ہجوم میں باقاعدہ شمولیت تاکہ وہ اس دھارے میں پوری طرح شامل ہو کر معاشرے کا فعال حصہ بن جائیں۔

قیدیوں کے لیے کیے جانے والے امدادی کام اس پروگرام کی طاقت کی دلیل سمجھے جاتے ہیں۔ بحالی کے پروگرام مذکورہ افراد کی ملازمتوں کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ انھیں رشتۂ ازدواج میں باندھنے یا گھریلو زندگی اختیار کرنے کے لیے بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ان پروگراموں کے عہدیداران ملک کے طول و عرض میں سفر کرتے ہیں۔ وہ قیدخانوں میں جاتے ہیں اور زیرِحراست لوگوں سے بحث و تمحیص کے بعد اپنے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ یہ مذہبی گروہ یا کمیٹیاں اس حرکی مشینری کا سب سے اہم کل پرزہ تصور ہوتے ہیں۔

مذہبی سکالر اور ماہرین قیدیوں کو قرآن و سنت اور مذہبی تعلیمات کی روشنی میں حقیقی تعلیم سے روشناس کراتے ہیں۔ زیرِحراست افراد کے اہلِ خانہ کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر ان کے عزیز نے دوبارہ کسی دہشت گرد تنظیم کی رکنیت اختیار کی تو وہ براہِ راست اس کے ذمہ دار ہو ں گے۔

2004ء میں مذہبی مشاورتی پروگراموں میں تقریباً 2000 افراد کو شامل کیا گیا۔ 2007ء میں 2000 زیرِحراست افراد میں سے 700 کو رہا کر دیا گیا تاہم ان میں سے نو (9) افراد دوبارہ گرفتار کر لیے گئے۔ ان پروگراموں کے محرک اس بات کے حامی ہیں کہ ان زیرِحراست افراد کی رہائی اور بحالی عسکریت پسندوں کے پروپیگنڈے سے نمٹنے کے لیے ضروری عمل ہے۔

یمن
2002ء میں یمن میں علماء اور جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی تاکہ بنیاد پرستی کے خلاف پالیسی بنائی جا سکے۔ اس کمیٹی میں شامل زعما اور سکالروں نے بحث کا آغاز کیا جس میں مذہبی علماء نے جہادیوں کے نظریات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

گفت و شنید اس پروگرام کا پہلا زینہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگلا قدم سابقہ عسکریت پسندوں کو معاشرے کا دوبارہ کارآمد حصہ بنانا ہوتا ہے۔ اس پروگرام کی حقیقی طاقت جو کہ سماجی سمجھوتے (social contract) پر مبنی ہوتی ہے۔ یک صفحاتی کتابچے میں درج ہے۔برابری اور عزت کے اصولوں پر مبنی یہ کتابچہ مغرب کے تفتیشی طریقہ کار سے خاصا مختلف ہے۔ اس پروگرام میں حصہ لینے والوں کی رضاکارانہ شمولیت ضروری ہے۔ بنیادپرستی کے اس پروگرام کے تحت ابھی تک یعنی جون 2005ء تک 364 مشکوک افراد کو رہا کیا جا چکا ہے۔

مصر اور مراکش
مراکش میں 2008ء میں Search for Common Ground (SFCG) نامی NGO نے بنیادپرستی کے خلاف پروگرام تشکیل دیے۔ اس میں نوجوانوں کو قیدیوں کے ساتھ تعمیری کردار سازی کے لیے گفت و شنید میں مصروف کیا گیا۔ SFCG نے روشن خیالی اور جدّت پسندی کی بنیاد پر ان قیدیوں میں مثبت سماجی روےّوں کی تخم ریزی کی کوشش کی۔

تربیت دینے والوں کی تربیت کے لیے بھی خاص کوششوںکا اہتمام کیا گیا۔ ذہنی نشوونما کے لیے باہمی پروگراموں کے حوالے سے برطانیہ میں بھی تجزیاتی دورے کیے گئے۔ ماہانہ بنیادوں پر گفت وشنید اور بات چیت میں جماعت بندی، نظم و ضبط اور اصول و ضوابط پر حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ SFCG نے قیدیوں کے اسٹاف کی خاطر علیحدہ پروگرام مرتب کیے تاکہ وہ بنیاد پرست قیدیوں میں برداشت اور باہمی افہام و تفہیم پیدا کر سکیں۔

مصر میں بھی بنیاد پرستی کے خلاف کام کے حوالے سے مصری جہادی تنظیموں خصوصاً جامع السلامیہ اور جہاد میں سے شدت پسندی کے رجحانات کا خاتمہ ہے۔ ان کے تعمیراتی ڈھانچے میں ان دونوں گروپوں کے ماضی میں پھیلائے جانے والے نظریات اور اس کی چھان بین شامل ہے تاکہ تجربے میں پیش رفت ہو۔

انڈونیشیا
انڈونیشیا میں بنیاد پرستی کے فروغ اور عسکریت پسندوں کے بنیادپرستانہ نظریات کو بے اثر کرنے پر خاصا کام کیا گیا ہے۔ دراصل یہ پروگرام جہادیوں کے اس نظریے کو باطل قرار دینے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے جس میں وہ حکومت کو اسلام مخالف سمجھتے آئے ہیں اور اس مفروضے کو تحلیل کرنے کی خاطر پولیس کو جہادیوں کے نظریات میں تبدیلی کی خاطر آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پولیس نہ صرف جہادی قیدیوں سے محبت اور خوش دلی سے پیش آتی ہے بلکہ ان کی اقتصادی حوالے سے مدد بھی کرتی ہے۔ اس پروگرام میں جہادیوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کے لیے دو بنیادوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف مقصود اس طرح شہریوں کو ہلاکتوں سے بچانا ہے تو دوسری جانب ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لانا ہے۔ پولیس قیدیوں اور ان کے گھر والوں اور سماجی گروہوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ پولیس پرانے قیدیوں سے معلومات اکٹھی کرتی ہے جو ان کے لیے خاصی مددگار ثابت ہوئی ہے۔

ملائیشیا
ملائیشیا میں بنیادپرستی سے نمٹنے کے لیے مذہبی طور پر آبادکاری کے سلسلے میں جو کام کیا جا رہا ہے، اسے حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے اور 1960ء کا International Security Act یعنی ISA ان کی رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام تعلیم و تربیت اور دوبارہ پُرامن شہری بنا کر ان کی مناسب آبادکاری پر محیط ہے۔ تعلیم کا مقصد عسکریت پسندوں کو ان کے فرسودہ نظریات کے خلاف سیاسی اور مذہبی حقائق سے روشناس کرانا ہے۔ جبکہ دوبارہ آبادکاری کا پروگرام ان کی جیلوں سے رہائی کے بعد سماجی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے اور اس میں عسکریت پسندوں کے خاندان والوں کی شرکت بھی ممکن بنائی جاتی ہے اور جب تک عسکریت پسند جیلوں میں قید رہتے ہیںان کے کنبے والوں کی مالی امداد بھی جاری رکھی جاتی ہے اور جونہی وہ جیلوں سے سزا کاٹ کر آتے ہیں تو معاشرے میں پنپنے کے لیے ان عسکریت پسندوں کو قرارواقعی مدد فراہم کر کے انھیں باعزت مقام دلایا جاتا ہے۔

اس پروگرام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مصروفیت کے دوران ان عناصر پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے تاکہ عسکریت پسند اور دہشت گرد دوبارہ منظم ہو کر مسائل کا باعث نہ بنیں۔ اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ بنیاد پرستی کے حوالے سے حکومت کی سخت ترین سزائوں کا خوف بھی ملک بھر میں زبان زد عام ہے کیونکہ عسکریت پسندوں کو زدوکوب کرنے کے علاوہ ان پر بھرپور تشدّد بھی کیا جاتا ہے اور دوسری سزائوں کے ساتھ ساتھ لمبے عرصے کے لیے قیدِتنہائی بھی دی جاتی ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا
بنیادپرستی کے حوالے سے امریکامیں بھی خاصے اقدامات کیے گئے ہیں۔ امریکا کی Bureau of Prisons نے آبادکاری کے پروگراموں کا خاکہ اس طرح تیار کیا ہے جس میں کٹّر عناصر کی تربیت کے لیے روایتی طریقے اپنائے گئے ہیں۔ اس سے ان کی عملی استعداد کار میں اضافہ ہوا اور معاشرے میںکامیابی سے گھل مل جانے کی حِس بیدار ہوئی۔

مزیدبرآں پولیس کی مذہبی اور ثقافتی حوالوں سے بھی تربیت کی گئی تاکہ وہ ملک کی مختلف قومیتوں میں افہام و تفہیم کی ثقافت کے فروغ کا باعث بنیں۔ Prison Radicalization Task Force اور امریکی سینٹ کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تشکیل شدہ ذیلی کمیٹی دونوں ہی اس ڈھانچے کا حصہ ہیں جو بنیاد پرستی کے خلاف پیش پیش رہی ہیں۔

2007ء میں امریکیوں نے اس پروگرام کو عراق میں بھی آزمایا جس کے تحت قیدیوں کے درمیان مذہبی مباحث کا انتظام کیا گیا اور اس کے علاوہ انھیں بڑھئی (ترکھان) کا کام اور دیگر فنون بھی سکھائے تاکہ ان کے لیے متبادل آمدنی کے ذرائع پیدا کیے جا سکیں اور وہ تعمیری زندگی میں اپنا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں۔ امریکا نے دوسرے ممالک کی مثال کی طرح عراق میں بنیادپرستی ختم کرنے کے لیے انتہا پسندوں کے کنبوں کی خدمات سے بھی استفادہ کیا ہے۔

ناروے
ناروے میں بنیاد پرستی کا قلع قمع کرنے کے لیے مقامی ایجنسیوں کی مدد سے پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں۔ ابھی تک تقریباً 700 افراد کو تربیت دی جا چکی ہے اور اس کارروائی میں انتہا پسندوں کے کنبوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ نارویجین پروگرام کو عالمی تناظر میں کامیاب ترین حکمت عملی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

جرمنی
تخریبی سرگرمیوں کو معطل کرنے کے حوالے سے جرمنی نے بھی کئی ہمہ جہتی اقدامات اٹھائے ہیں۔ مختلف ایجنسیوں مثلاً پولیس، مقامی حکومتوں اور غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) نے باہمی تعاون اور روابط استوار کر رکھے ہیں تاکہ کامیابی کی کلیدی طاقت کو مضبوط بنیاد فراہم کی جا سکے۔

بنیادپرستی کے خلاف آن لائن حکمت عملی
سعودی عرب میں بنیادپرستی کو دبانے کے لیے رسمی ذرائع کے علاوہ Al-Sakinah نامی مہم کا آغاز کیا گیا جس میں اگر کوئی متاثرہ شخص اس سائٹ پر گپ شپ لگانا چاہے تو اسے مکمل طور پر بنیاد پرستی کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر رضاکاروں کی مدد سے چلائی گئی یہ مہم رفتہ رفتہ سعودی وزارت مذہبی امور نے بھی اپنا لی کیونکہ انتہا پسندوں نے اس سے متاثر ہو کر خاصے اثرات قبول کیے تھے جو بالآخر ان کے منفی نظریات کی تبدیلی پر منتج ہوئے۔ تربیت یافتہ عملے نے انتہا پسندوں کو آن لائن بات چیت کے ذریعے اپنے کٹّر نظریات کو ترک کرنے پر مجبور کیا۔ اس مہم سے مذکورہ افراد کو اسلام کی اصل روح سے آگاہ کیا گیا۔

Al-Sakinah نے اپنی سرگرمیوں کو پھیلانے کے لیے اپنی ویب سائٹ پر مزید کام کا آغاز کیا جس میں امام اور مشائخ کی تربیت کے لیے پروگرام تشکیل دیے گئے۔ Al-Sakinah کی مقبولیت دیکھتے ہوئے دیگر ممالک مثلاً الجیریا، امریکا اور برطانیہ نے بھی انتہا پسندی کے خلاف ویب سائٹ شروع کیں۔

برطانیہ میں بھی مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے لیے انٹرنیٹ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ Radical Middle Way پراجیکٹ کی ویب سائٹ Islam Online (
www.islamonline.net) کے ایڈریس پر دستیاب ہے۔ جس میں مسلمانوںکے تمام مکاتیب فکر کے خیالات اور آراء محفوظ ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں جس میں ان اقدامات پر غور کیا جاتا ہے جن سے دہشت گردی اور بنیاد پرستی سے انٹرنیٹ کے ذریعے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔ اس منصوبے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف انٹرنیٹ کے پروگراموں کے ذریعے مؤثر جال پھیلا کر مدد لی جائے۔

اختتامیہ
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بنیاد پرستی کے خاتمے کے لیے مختلف ممالک میں جو تجربات او راقدامات کیے گئے وہ کچھ لحاظ سے تو کامیاب ثابت ہوئے مگر بعض پہلوئوں سے ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ درحقیقت پس منظر جانے بغیر یا سیاق و سباق کی عدم موجودگی میں کامیابی یا ناکامی کا دعویٰ عبث ہے۔کیونکہ بعض ایسے منصوبے تھے جو ناکامی سے دوچار ہوئے حالانکہ وہ بہتر انداز میں شروع کیے گئے اور ان کے لیے مالی معاونت کے بھرپور مواقع بھی دستیاب تھے۔ سعودی عرب، ملائیشیا اور سنگاپور کے نمونوں کی کھلم کھلا تعریف کی گئی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ان کے ساختی ڈھانچے میں کوئی جھول نہیںپایا گیا۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پروگراموں کے کامیاب پہلوئوں سے سبق حاصل کیا جائے تاکہ وہ اپنی افادیت برقرار رکھ سکیں۔

(انگریزی سے ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)