working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

جامعالکام ازمحمد سعید الراعی
مجتبیٰ محمد راٹھور

''جامع الکلام'' محمد سعید الراعی کی تصنیف ہے۔وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ہیں۔ اس کتاب کے علاوہ پاکستان کے نظام تعلیم ان کا خاص شغف رہا ہے۔

''جامع الکلام'' میں محمد سعید الراعی نے دین اسلام کے احکامات ، تعلیمات اور تشریحات کو سہ رخی زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب میں قرآن و حدیث کی شرح و تاویل سے جو سہ رخی انداز فکر اپنایا ہے اسے(Three Dimensions 3D) کا نام دیا گیا ہے۔ یہی مصنف کی تحقیق کا بنیادی نکتہ ہے۔ اس حوالے سے مصنف نے اہل علم اور اہل فکر کی خدمت میں تحقیق کا ایک نیا زاویہ پیش کیاہے۔ اگرچہ اسلامی احکام میں تحقیق و تصنیف کے اعتبار سے مصنف کا منفرد طریقہ کار دینی و علمی حلقوں میں شاید قابل قبول نہ ہو مگر مصنف نے قرآن و حدیث کی مثالوںسے سہ رخی انداز فکر ثابت کرکے اپنی تحقیقی کاوش کی بدولت خود کو اہل علم کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ مصنف کے مطابق قرآن و حدیث کے مطالب و معانی سمجھنے کے لیے غور و فکر کا ہر وہ زاویہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس سے دین کی حدود میں رہتے ہوئے حقائق تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہو۔ مصنف کی اس تحریر سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے۔ کہ اگرچہ ان کے سہ رخی انداز فکر کی بعض جزئیات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کتاب کے مطالعے کے دوران یہ بات کہیں بھی نظر نہیں آتی کہ مصنف نے دین کی حدود کو پار کیا ہو۔

مصنف نے اپنی کتاب میں حضرت عبداللہ ابن مسعود کے اقوال و روایات سے جابجا استفادہ کیا ہے اور کتاب میں جس بات کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے وہ اسلام کا نظام معیشت ہے۔ جس طرح مصنف نے اسلامی نظام معیشت کے لیے سہ رخی انداز فکر اپنایا ہے اور قانون ثلاثہ کو پیش کیا ہے ۔ اس سے ایک نئی جہت تخلیق کی ہے۔ وہ قابل قدر اور قابل تقلید ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب کی تحقیق کے لیے 500 سے زائد کتابوں کے حوالے دیے ہیں۔ قرآن و حدیث کے معاشی فلسفے پر مصنف کی تحقیق منفرد اور جداگانہ ہے۔ جس میں سائنسی انداز کے ساتھ ساتھ ہمیں پیشہ وارانہ نظم و نسق کی جھلکیاں ملتی ہیں۔جدید دور کے علم معاشیات کواس کی تین جہتوں سرمایہ ، انتظامیہ اور محنت میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک کو Capital دوسرے کوManagement اور تیسرے کو Labour کہا جاتا ہے۔ یہ قرآنی نظام ہے۔ اس نظام کو نبی کریم ۖ نے عملاً نافذ کرکے دکھایا۔ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مدینہ منورہ کے اندر کوئی زکوةٰ لینے والا نہ رہا۔ سوشل سکیورٹی کا نظام حضرت عمر فاروق نے متعارف کروایا۔ اس میں ہر پیدا ہونے والے بچے کا وظیفہ مقرر ہوتا تھا۔

مصنف نے اپنی تحقیق کی بنیاد اسلام کے قانون ذبح سے لی ہے۔ اور پھر اسی کو بنیاد بنا کر سہ رخی سوچ کو پروان چڑھایا۔ قانون ذبح یعنی قرآن میں قربانی کا فلسفہ اور پھر اس کی تقسیم( سورة حج آیت نمبر 22سے 26 تک میں قربانی کے گوشت کی تقسیم مذکور ہے) میں تین حصے کرنا اسلامی نظام معیشت کی بنیاد بنتے ہیں۔

ان تین حصوں میں پہلا حصہّ گھر والوں کا ہوتا ہے۔ یعنی جو انسان خود کھاتا ہے، دوسرا حصہّ قانع کا ہوتا ہے۔ یعنی عزیزوں ، رشتہ داروں اور ہمسایوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ یہ انسان کا سوشل سرمایہ ہوتا ہے۔ جب کہ تیسرا حصہّ معتر، غریب لوگوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔

اسی طرح کھیتی باڑی کرنے والا شخص بھی اپنے باغ کی آمدنی کی تقسیم کرتا ہے۔ ایک تہائی صدقہ کر دیتا ہے جو غریب لوگوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ ایک تہائی خود کھاتا ہے جبکہ ایک تہائی ''اَرَدُّفیہ '' کے تحت اسی باغ میں Reinvest کر دیتا ہے۔

قربانی یا کھیتی کی آمدنی کے 3 حصص دراصل اسی عالمی نظام معیشت کی بنیاد بنتے ہیں۔
(1) صدقہ یعنی جو غریب لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ وہ عمال (صادق اور امین ہوں) Management لیتی ہے اور پھر آٹھ حصوں میں اس کی تقسیم لازمی کرتی ہے۔
'' (انماالصدقت للفقراء وا لمساکین (سورة التوبہ آیت60)
(2) ایک تہائی واپس باغ میں دوبارہ خرچ ہو جاتا ہے۔ یہ ربوبیة یاتزکیة ہوتا ہے۔ یعنی اس سے سرمایہ نشونما پاتا ہے۔
(3) تیسرا حصہ محنت یعنی'' Labour ''(محنت کرنے والے۔ مئویة) کا حصہ ہے۔اس طرح خدائی تقسیم ، پیداواری عوامل کے تین بنیادی ارکان Capital, Managemaent اور Labour میں برابر برابر تقسیم ہے۔

مصنف نے پھر اس قانون سے استدلال کرتے ہوئے، سہ رخی انداز فکر کی ترویج کی مگر انتہائی خوبصورت انداز میں اسلام کے نظام معیشت کے زوال پر روشنی ڈالی۔

جیسا کہ حدیث میں ہے کہ فِتنَةُ أُمَّتِیْ اَلْمَالَ۔ جبکہ قرآن میں بھی مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا گیا۔ انسانی روح عالم بالا سے اس مادی دنیا میں لائی گئی تاکہ مادی وسائل میں اس کا امتحان لیا جائے۔ اس لیے آخری امت کو خصوصی طور پر خبردار کیا گیا کہ اس کا امتحان ''مال'' میں ہے، جو دنیاوی اصطلاح ہے۔ آخرت میں بھی اللہ کے حضور مال کا حساب کتاب ہو گا کہ (1) یہ مال کیسے کمایا (2) یہ مال کہاں خرچ کیا (3) اس مال کے بارے میں عمال نے اپنے عمل پر کیا کہا یعنی صحیح سائل تک پہنچایا؟

انہی تین چیزوں کو مصنف نے حق معلوم ، حق محروم اور حق سائل میں تقسیم کیا۔ حق معلوم (صدقات) دراصل حق اللہ ہوتا ہے۔ جو پیداواری عمل میں اللہ کا حصہّ ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عطیات اس پیداواری عمل میں مدد گار ہوتے ہیں۔ حق محروم "Capital" ہوتا ہے اور حق سائل Labour کا حصہّ ہوتا ہے۔ اس طرح مصنف نے ایک خوبصورت مثال دیتے ہوئے ایک نیا فریم ذکر کیاہے ۔ اس کے مطابق بارش کے پانی کی تقسیم کے بھی تین حصص کئے جاتے ہیں۔ یہ شریعت کی تقسیم ہے۔
(1) پانی کا جذب ہونا اور نئی گھاس پیدا ہونا۔ یہ Social Security کا عمل ہے۔ جس میں تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا اور مکان لازمی پوری کرنا ہوتی ہیں۔ یہ صدقہ کی صورت ہے۔ سورة ماعون میں ہے۔ ''ولا یحض علی طعام المکسین'' یعنی وہ مسکین کو کھانا کھلانے کی رغبت نہیں کرتے۔
(2) حوض کی صورت میں بارش کا پانی جمع ہونا اور اپنی محنت سے بارش کے پانی سے زراعت کرنا مویشی پالنا یہ محنت "Labour" کا حصہ ہے۔
(3) Overflow متعان آگے بھیج دینا، یہ آئندہ کے لیے Reinvest ہے۔ اس حدیث میں جسے ہدایت و علم اور فقہہ دین اللہ کی حدیث کہا گیا ہے۔ اس میں بھی مادی وسائل کی تقسیم ثلاثہ ہے۔ یعنی (1) علم (1) دین (3) ہدایت اس کے علاوہ مصنف نے قرآن پاک کے دیگر احکام میں سے جو ذکر ہیں ان کو بھی تقسیم ثلاثہ کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
جیسے
(1) اعطی، واتقی، صدق بالحسنی
(2) عدل، احسان، ایتائے ذی القربیٰ۔
(3) فحشائ، المنکر، البغی
(4) رب الناس، ملک الناس، الہ الناس۔

یعنی رب سے ربوبیہ Capital مراد ہے۔ ملک الناس میں نصاب اور ملکیت یعنی Labour اور الہ الناس میں اللہ کا حق ہے۔ جو صدقہ ہے۔ اور عمال سے لیتے ہیں حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی حدیث کو قانون ثلاثہ کی رو سے دیکھتے تھے۔

ابن ماجہ میں حدیث مذکور ہے۔ ''قال اذا حدتتکم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قطنوا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الذی ہوا اہناہ واھداہ واتقاہ۔
یعنی اھناء (ایسی کمائی جو بے محنت ملے یہ صدقات کی طرف اشارہ ہے۔) اھدیٰ ،یہ باعث ہدایت ہے۔ جو محنت کا حصہّ ہے۔ واتقیٰ، یہ متقی کا حصہ ہے۔ جو باقاعدہ بصورت زکوة عمل ربوبیت میں حصہ لیتا ہے۔مصنف نے پھر تصور نیکی کو نظام معیشت کے ساتھ منسلک کرکے قرآن وحدیث کے اس فلسفہ قربانی کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ جس پر آج بھی اگر عمل ہو جائے تو لوگوں کی معاشی پریشانیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔

مصنف نے لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں نیکی کے تصور کو افلاطونی Good or bad کی تعریف میں الجھا دیا گیا ہے۔ یہی تصورنیکی کنفیوشس کی تعلیم میں ہے۔ یہ تصور ہماری کتابوں میں بھرا پڑا ہے۔ جو سراسر غلط رخ کی تعلیم ہے۔ جب تک یہ بنیادی نکتہ نہ سامنے لایا جائے کہ امتحان امت مال میں ہے۔ اسی لیے قرآن پاک میں ہے کہ تم نیکی کی اعلیٰ ترین صفات کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک نفاق مال نہیں کرتے کیونکہ مال کی محبت تمہارے دل میں گھر کر چکی ہے۔ قرآن پاک کی آیت کریمہ اس پر دلالت کرتی ہے۔ لن تنالو البرّ حتی تنفقوا مما تحبون، تم ہر گز نیکی نہیں کما سکتے ، جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیز کو خرچ نہیں کرتے۔ اسی طرح فرمایا کہ نیکی صرف مغرب مشرق کی طرف منہ کرنا نہیں ہے۔ جہاں ایمان لازمی ہے۔ وہاں مال کی تقسیم تین حصوں میں کرنا لازمی ہے۔

اسی طرح اعمال کو بھی تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ (1) صدقات Management (2) اقامة الصلوٰة،Labour ، ایتائے زکوٰة Capital۔

اسی طرح اگر نیکی کا حصول انفاق مال سے منسلک ہے۔ تو اعلیٰ ترین صفات کا حامل انسان اسی process یعنی انفاق مال سے منسلک ہوتا ہے۔
(1) جیسے صدقہ یا صدقات کا مادہ صدق سے ہے۔ یعنی حکومتی ٹیکس دینا ہی سب سے بڑی سچائی ہے۔ اور ایسا شخص صدیق کہلاتا ہے۔ ابوبکر صدیق کا واقعہ یاد رہے جس میں انہوں نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیا اور پھر فرمایا۔'' میرے لیے خدا اور اس کا رسول کافی ہیں''اس طرح انہیں صدیق کا لقب عطا ہوا۔
(2) امین ہونا اعلیٰ خصوصیات میں سے ہے۔ نبی کریم ۖ نے ہجرت کے موقع پر حضرت علی کو اپنے بستر پر سلایا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کر دیں۔ لفظ ایمان بھی اسی مادہ سے ہے۔ اگر امانت دار نہیں تو ایمان کہاں سے ہو گا۔ ابوعبیدہ الجراح کو نجران کے عیسائیوں کے مالی امور کی نگرانی پر امین الامت کا خطاب ملا تھا۔
(3) عمال (عمل صالح کی بنیاد پر ہے) یہ وہ صادق لوگ تھے جو Tax Collector تھے اور عمال کہلاتے تھے۔ ان کا یہ عمل صالح ہی ان کو عمال بناتا تھا یعنی سب سے بڑا عمل یہی مالی امور میں Tax وصول کرنا ہے۔ گورنر کو قاری یا ملا نہیں کہا جاتا تھا بلکہ عمال کہا گیااسی طرح دیگر اعمال، نیکی، تزکیہ، خیر یا بھلائی سب تقسیم مال اور انفاق مال سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔

اسی طرح مصنف نے دیگر معاملات میں بھی اسی اصول ثلاثہ کو بیان کیا ہے۔ کتاب کا جوں جوں مطالعہ کرتے جائیں دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔
البتہ یہ نکتہ اعتراض بھی سامنے آسکتا ہے کہ اگر قانون ثلاثہ کو تسلیم کر لیا جائے تو عیسائیت میں مروجہ تصور تثلیث کو تقویت مل جائے گی۔ لیکن متذکرہ قانون ثلاثہ کو اس تناظر میں ہر گز نہیں دیکھا جا سکتا، اللہ کی یکتائی ہر حال میں مسلمہ امر رہے گی۔ مگر اسلامی نظام معیشت کے لیے ہم اصول ثلاثہ کو اپنائے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔