working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

کیا ہم زلزلے کی زد میں ہیں؟
محمد مبشر

قدرتی آفات خصوصاً زلزلوں کے بارے میں عمومی تصور قدرت کی طرف سے عذاب کا ہے۔ حالانکہ زمین کی طبعی ساخت اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیاں زلزلوں کا موجب بنتی ہیں۔ زمین پر کسی بھی طبعی تغیّر کو عذاب سے موسوم کرنے اور اسے کسی ایک فرد یا طبقے کے اعمال سے منسلک کرنا درست نہیں کیونکہ کرۂ ارض پر موجود مخلوق بلاتخصیص نیک و بد انسانوں کے سبھی اس کی زد میں آتے ہے۔ آفات کو عذاب پر منطبق کرنے سے انسان کی فعالیت متاثر ہوتی ہے۔ زیرنظر مضمون اس حوالے سے فکر کے بعض نئے دریچے وا کرتا ہے۔ (مدیر)

زمین نظام شمسی کا واحد سیارہ ہے جہاں زندگی موجود ہے جبکہ پانی زمین کی2/3سطح کو ڈھکے ہوئے ہے۔زمین کی بیرونی سطح ریت،مٹی اور پہاڑوں سے مل کر بنی ہے ۔پہاڑزمین کا توازن برقرار رکھنے کے لئے بے حد ضروری ہیں۔اگر زمین کا خلاء سے نظارا کیا جائے تو ہمیں سفید رنگ کے بڑے بڑے نشانات نظر آئیں گے۔ یہ دراصل پانی سے بھرے بادل ہیں جو زمین کی فضا میں ہر وقت موجود رہتے ہیں ۔پچھلے چند برسوں میں ان کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے جس کا اثر زمین کی فضا پر پڑا ہے۔

موجودہ دور میںسائنسدان جدید تحقیق کی سہولیات کے باعث زمین کے ماضی سے متعلق زیادہ تفصیلی معلومات رکھتے ہیں۔ زمین اور نظام شمسی کے دیگر سیارے شمسی نبیولاجو سورج کی تشکیل کے بعد بچ جانے والے گردوغباراور گیسو ں کی تشتر ی سے 4.57ارب سال پہلے وجود میں آئے۔آغاز میں زمین پگھلی ہوئی حالت میں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی فضا میں پانی جمع ہونا شروع ہوگیااور اس کی سطح ٹھنڈی ہوکر ایک قشر (crust)کی شکل اختیار کر گئی۔اس کے کچھ عرصے بعد ہی چاند کی تشکیل ہوئی۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ کی جسامت کا ایک جسم(theia)جس کی کمیت زمین کے دسویں حصے کے برابر تھی، زمین سے ٹکرایا اور اس تصادم کے نتیجے میں اس جسم کا کچھ حصہ زمین کے ساتھ مدغم ہو گیا ،کچھ الگ ہو کر دور نکل گیا،اور کچھ حصہ زمین کی ثقلی گرفت میں آگیاجس سے چاند کی تشکیل ممکن ہوئی۔

پگھلے ہوئے مادے کے گیسی اخراج اور آتش فشانی عمل سے زمین کی ابتدائی تشکیل ہوئی، بخارات نے ٹھنڈاہوکرمائع کی شکل اختیار کر لی اور اس طرح سمندروں کاوجود عمل میںآیا۔مزید پانی دُمدار سیاروں کے ٹکرانے سے زمین تک پہنچا۔بلند درجہ حرارت پر ہونے والے کیمیائی عوامل سے ایک سالمہ(Molecule)تقریباََ 4 ارب سال قبل وجود میں آیا ،اور اس کے تقریباََ 50کروڑسال بعدزمین پر موجود تمام حیات کا جد امجد پیدا ہوا۔

زلزلوں کے حوالے سے تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آج سے 20کروڑ سال پہلے سائبیریا کے علاقے میں ہزاروں آتش فشاں بیک وقت پھٹ پڑے جن کی وجہ سے انتہا ئی ہولناک زلزلوں نے جنم لیا اور اس زمانے میں زمین پر جو بھی مخلوق آباد تھی وہ نیست ونابود ہوگئی۔ پھرتقریباَچھ کروڑ سال پہلے زمین پر ایک اور دہشت انگیز زلزلہ آیا۔ یہ زلزلہ ایک شہابیہ کے زمین پر ٹکرانے سے پیدا ہوا جو اندازاََ 10 مربع کلومیٹر لمبا چوڑا تھا ۔اس کے اس طرح ٹکرانے سے زمین پر سخت بھونچال پیدا ہوئے اور اس وقت کی مخلوق ڈائینوسارس ان تباہ کن زلزلوںکی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ اسی نوعیت کا ایک اور زلزلہ آج سے 50 ہزار سا ل پہلے آیا۔ اس وقت زمین پر 2 پیروں پر چلنے والی انسان سے ملتی جلتی مخلوق آباد تھی۔ وہ اس زلزلے کے سبب فنا ہوگئی اس کی وجہ بھی ایک شہابیہ ہی بناتھا اب تک زمین ایسے 5 بڑے زلزلے جھیل چکی ہے۔ اگر جغرافیہ اور تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کے ہر26 ملین سال بعد زمین اس قسم کی تباہی سے دوچار ہوتی ہے۔

جس طرح زمین کی پیدائش کے عمل میں زلزلوں کا ایک کردار ہے اسی طرح زمین کے اختتامی مراحل بھی سخت ترین زلزلوں کے ذکر سے خالی نہیں۔ مثال کے طور پر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ20اگست ،2126ء کو ایک دم دار ستارہ 10میل فی سکینڈکی رفتار سے زمین سے ٹکرانے والا ہے جس کے اتصال سے 10 ہزار سخت ترین زلزلوں کے جھٹکے زمین کو برداشت کرنا پڑیں گے اور محض 15 سکینڈمیں زمین تباہ وبرباد ہو جائے گی ۔اس دمدار ستارے کا نام سوئفٹٹ ٹسٹل ہے لیکن بعد میں کیے جانے والے حساب کتاب کے بعداندازہ لگایا گیا کے یہ ستارہ زمین سے ٹکرائے گا نہیں بلکہ صرف 2 ہفتوں کے فاصلے سے گزر جائے گا۔

ایک بڑے زلزے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس کی شدت کے بارے میں صرف قیاس آرائی کی جاسکتی ہے ان کی بروقت پیشین گوئی ممکن نہیں۔ دنیا کا بڑے سے بڑا سائنسدان بھی آنے والے جھٹکوں کے بارے میں ٹھیک ٹھیک اعداد وشمار نہیں بتاسکتا نیز جھٹکوں کے بعد عام لوگ سخت خوف کا شکار ہو جاتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ایک بڑے زلزلے سے پہلے چھوٹے چھوٹے زلزے نمودار ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زلزلے کیسے پیدا ہو تے ہیں اور یہ کہ کیا زمین ایک سخت زلزے کا شکار ہونے والی ہے۔ جیسا کہ ہمیں مختلف شواہد سے معلو م ہوتاہے سب کچھ لمحوں میں ختم ہوجائے گا امید واثق ہے کہ ایسا ضرور ہو گا مگر صرف ایک وہی زلزلہ نہیں جو زمین میں وارد ہو گا ۔

اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ دنیا میںبہت سے مقامات پر چھوٹے چھوٹے زلزلے آتے رہتے ہیں جس میں لاکھو ں افراد کی اموات واقع ہوچکی ہیں اور اربوں ڈالر کامالی نقصان ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمین میں حیرت انگیز کیمیائی تبدیلیاں بھی واقع ہوئی ہیں ۔
اب ہم دنیا میں آنے والے تباہ کن زلزلوں پر ایک نظر ڈالتے ہیںکہ وہ کب اور کہاں آئے اور ان سے کتنا جانی نقصان ہوا۔(میزانیہ نمبر1 ملاحظہ کیجیے)


3

26 دسمبر 2004ء سماٹرا انڈونیشیا میں آنے والا زلزلہ جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 9.1تھی۔ 1964ء کے بعد سے اب تک آنے والا دنیا کا سب سے بڑا زلزلہ تھا۔ اس سے تقریباَ228,000 افراد ہلاک ہوئے اور تقریبا1.7ملین افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے اس کی وجہ سے ہولناک سمندری لہروں نے جنم لیا جن کے اثرات 14 ممالک میں محسوس کیے گئے جن میں جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ کے ممالک شامل تھے۔ یکم نومبر 1755ء کو پرتگال میں آنے والے زلزے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8.7تھی۔ اس میں 70,000ہزار افراد مارے گئے۔ 23 جنوری 1556ء میں چائینہ میں آنے والا زلزلہ جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8 کے لگ بھگ تھی اور اس میں 830,000 افراد ہلاک ہوئے۔ یکم ستمبر 1923ء کو جاپان میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیلپر 7.9 تھی جس سے 143,00 افراد مارے گئے۔ 16 دسمبر1920ء کو چائینہ میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.8تھی جس سے 2 لاکھ افراد مارے گئے۔ 31 مئی 1970ء میں پیرو میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.9 تھی اور اس سے70,000 افراد ہلاک ہوئے۔ 11 جنوری1693ء کو اٹلی میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.5تھی اس میں 60,000 افراد ہلاک ہوئے۔ 5 اکتوبر 1948ء کو ترکمانستان سوویت یونین میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.3 تھی اور اس سے 110,000 افراد ہلاک ہوئے۔ 28 دسمبر1928ء کو اٹلی میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.2 تھی اور اس سے 72,000 افراد ہلاک ہوئے۔ 11 اکتوبر1737ء کو انڈیا کے شہر کلکتہ میں ایک زبردست زلزلے کی وجہ سے تقریباََ 300,000افراد ہلاک ہوئے بعد میں ہونے والی تحقیق کے مطابق زیادہ ہلاکتیں زلزلے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں آنے والے سمندری طوفان کی وجہ سے ہوئیں ۔
یہ وہ تباہ کن زلزلے تھے جنھوں نے پوری دنیا میں تباہی مچائی اب بر صغیر پاک وہند میں آنے والے زلزلوں پرایک نظر ڈالتے ہیں ۔(میزانیہ نمبر ٢ ملا حظہ کیجیے)

4

اس قدر خطرناک زلزلے جو بنی نوع آدم اب تک جھیل چکے ہیں اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کروڑں افراد اس سے برا ہ راست متاثر ہوئے ۔وطن عزیز کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو پاکستان کے وجود میںآنے سے پہلے اور بعد میں اس علاقے میں بہت سے سخت اور جان لیوا زلزلے آچکے ہیں اس لئے ہمارے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ یہ زلزلے کیوں آتے ہیں ان کے آنے کی وجوہات کیا ہوتی ہیں اور ان سے کیا کیا نقصا نات ہو سکتے ہیں اور ہمیں ان سے کس طرح بچنا چاہیے؟

زلزلے قدرتی آفات میں سب سے ہولناک اور تباہ کن تصور کیے جاتے ہیںزمین کے اندر تہوں میں چٹانوں کے درمیان عرصے سے جاری حرکات کے باعث پیدا ہونے والی توانائی کے اخراج سے سطح زمین پر پیدا ہونے والی ہلچل کا نام زلزلہ ہے ،یہ اچانک آتے ہیں اور پلک جھپکتے میں ہزاروں انسانوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں،اس بات سے تو ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ زمین کی کرسٹ مختلف سیکشن میں تقسیم ہے جسے عام زبان میں پلیٹس کہتے ہیں جو ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں لیکن یہ حرکت نہا یت خفیف ہوتی ہے۔ اگر یہ حرکت ذرا تیز ہو جائے تو زلزلہ آجاتا ہے لہٰذا زلزلے کی شدت کا انحصا ر پلیٹس کی حرکت پر ہوتا ہے۔جب یہ پلیٹس تیزی سے حرکت کرتی ہیں تو اس حرکت کی وجہ سے اسٹرین پیدا ہوتا ہے اور بعد ازاں یہ ہی اسٹرین قریب ترین فالٹ سے Relase ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اس عمل میں بہت سی چٹانیں بھی شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہیں ،اسی اسٹرین کی بدولت فالٹ سے نکلنے والی انرجی زمین کے اوپر سیسمک ویوز کی صورت میں پھیل جاتی ہیں اور تباہی پھیلاتی ہیں ۔
سائنسدان زلزلے کی تین اقسام کا ذکر کرتے ہیں :
Tectonic :1
Volcanic :2
Artificially Produced :3

ان تمام قسموں میں اول الذکر سائنسدانوں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے کیونکہ اس کی ٹھیک ٹھیک اور وقت سے پہلے پیشین گوئی کرنا ان کے لئے بے حد مشکل مرحلہ ہے ۔ ان تمام باتو ں کو تفصیل سے سمجھنے کیلئےTheory of Plate Tectonic کو سمجھنا ضروری ہے۔ Theory of Plate Tectonic، 1960ء کے عشرے میں پیش کی گئی جس کے مطابق زمین کی بیرونی سطح سخت پلیٹوں پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے کے اوپر حرکت کرتی ہیں،اور یہ پلیٹس مجموعی طور پر 7بڑی اور بہت سی چھوٹی پلیٹوں کا مجموعہ ہیں،یہ پلیٹس ہر وقت حرکت میںرہتی ہیں مگر یہ حرکت نہایت ہی خفیف ہوتی ہے اوریہ حرکت ان کے وزن کے باعث ہوتی ہے اس کے علاوہ زمین کی ثقلی قوت بھی ان کو حرکت کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ اوسطََ پلیٹس کی حرکت کرنے کی رفتار 2.5 سینٹی میٹر فی سال ہو تی ہے۔ پلیٹس کی یہ موومنٹ تین طرح کی ہوتی ہے ،پلیٹس آپس میں ٹکراتی ہیں اور ایک دوسرے کے مخالف حرکت کرتی ہیں،پلیٹس ایک دوسرے کو دھکیلتی ہو ئی ایک دوسرے سے دور ہٹتی جاتی ہیں،یا پھر ایک دوسرے کے اوپر پھسلتی چلی جاتی ہیں ان کی یہ معمولی حرکت زمین پر بڑی بڑی تبدیلیوںکا باعث بنتی ہے،زمین پر بننے والے بڑے بڑے پہاڑی سلسلے بھی اسی خفیف سی حرکت کے مرہونِ منت ہیں،آتش فشاں پہاڑوں کا بننا بھی اسی وجہ سے ہے اور دنیا میں آنے والے زبردست زلزلے جو انسانی آبادیوں کو چشم زدن میں صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیتے ہیں وہ بھی اسی سبب کا نتیجہ ہیں۔

حیر ت انگیز طور پر چینی سائنسدان 780ق م میں زلزلے کی پیمائش کا طریقہ دریافت کر چکے تھے اور انہوں ہی نے 132ء میں دنیا کا سب سے پہلاSesmoscopeبھی ایجاد کر لیا تھا۔ جس کی مدد سے وہ اس قابل ہوگئے تھے کہ زلزلوں کی سمت وغیرہ کا تعین کر سکیں مگر یہ سب کا م ابھی ابتدائی نوعیت کے تھے اب تک زلزلوں پر کوئی قابل بھروسہ کا م نہیں ہوسکا تھا ۔1935 ء میں امریکن سائنسدان،Richterاور ان کے اسسٹنٹ نے ایک اسکیل متعارف کروایا۔ یہ ایک لوگرتھمک اسکیل تھاجس میں ایک پوائنٹ کی تبدیلی پچھلے سے دس گنا بڑے زلزلے کو ظاہر کرتی تھی۔ اس کی مثا ل کچھ ایسی ہے کہ اگر کسی علاقے میں 4.5 زلزلہ ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر دوسرا زلزلہ 4.6 ریکارڈ کیا جاتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعد میں آنے والا زلزلہ پچھلے سے 10 گنا بڑا تھا اور اگر پہلا زلزلہ 4.0ریکارڈ کیا جاتا ہے اور دوسرا 5.0 تو دوسرا زلزلہ پہلے سے 100 گنا بڑا ہو گا۔ اس اسکیل کی مدد سے Sesmologiestزلزلے کی طاقت کا صحیح اندازہ لگانے کے قابل ہوگئے اور یہ اسکیل اس قدر فعال ہے کہ آ ج تک Sesmologiestاس پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ Sesmologiestمختلف قسم کے اور بھی اسکیل استعمال کرتے ہیں ان میں سے ایک Moment Magnitude Scaleبھی ہے اس کی مدد سے زلزلے کی طاقت کا اندازہ زیادہ بہتر انداز میں لگایا جاسکتا ہے۔ایک اور Modified Mercalli Scaleبھی ہے اس سے زلزلے کی شدت کا اندازہ لگا نا آسان ہے اسے1902ء میں اٹلی کے ایک سائنسدان نے ڈیزائن کیا تھا۔ وہ کم سے کم زلزلہ جسے انسان محسوس کر سکتا ہے 2.0ہے ۔

زلزلے کی طاقت کے اندازے کے لئے تو اسکیل بن گئے مگر ابھی زلزلوں پر اور بھی کچھ کام ہونا باقی تھا ان میں سے ایک اہم جزو زلزے کے مقام پر موجود فالٹ کی نوعیت جاننے کی ضرورت تھی۔ آج سائنسدان جدید ریسرچ کی بدولت فا لٹ کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو چکے ہیں۔دراصل فالٹ ٣ قسم کے ہوتے ہیں ۔

1۔ نارمل فالٹ
ایسے فالٹ میں عموماً دو متوازی یا مخالف زیر زمین تہہ کے سرے ایک دوسر ے کا دبائو نہ برداشت کرتے ہوئے ایسی جگہ سے ملنے کی کو شش کرتے ہیںجہا ں دبائو نسبتاََ کم ہوتا ہے اس وجہ سے زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔

2۔ تھرسٹ فالٹ
زمین کے نیچے موجود ان تہوں کے باہم ملنے کی جگہیں موجود ہوتی ہیں،جہا ں فالٹس سے کچھ دور اس تہہ کے نیچے تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے اور جس تہہ کے نیچے تبدیلی نہ ہو، وہ اپنے دبائو سے تہہ کو ایک جھٹکے سے دوسری طرف یا مخالف سمت میں دباتی ہے اور فالٹ کے نیچے تبدیلی نہ آنے کے باوجود وہ جگہ زلزلے کا شکار ہوجاتی ہے،ایسے فالٹ میں مرکز کہیں واقع ہوتا ہے جبکہ زلزلہ کسی اور جگہ آتا ہے۔

3۔ اسٹرائیک سلپ فالٹ
یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہا ں زمین کی ایک تہہ دوسری تہہ پر چڑھ دوڑتی ہے ،اس میں عین فالٹ کی لائن پر دور تک زمین کی ایک تہہ اپنی زیریں سطح کے پگھلنے یا کسی اور وجہ سے بیٹھ جاتی ہے اس طرح اس کے متوازی دوسری تہہ کا رقبہ اس پر چڑھ جاتا ہے جس سے زبردست زلزلہ پیدا ہوتا ہے اور زمین میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔

فالٹ کرسٹ کے اندر موجود اسٹریس کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا بنتا ہے،اگر ہم تجرباتی طور پر کسی جسم پر اسٹرس لگائیں تو وہ تین طرح سے رسپانس کرسکتا ہے۔
1۔ اسٹریس لگائے جانے والے جسم سے جب اسٹریس ہٹایا جائے تو وہ اپنی اصل صورت میں واپس آجائے۔
2۔ اسٹریس لگائے جانے والے جسم سے جب اسٹریس ہٹا یا جائے تو وہ اپنی اصل صورت میں واپس نہ آسکے۔
3۔ اسٹریس لگائے جانے والے جسم سے جب اسٹریس ہٹا یا جائے تو وہ چھوٹے چھوٹے اجزاء میں تقسیم ہوجائے۔

کیونکہ فالٹ کا تعلق چٹانوں سے ہے اس لئے ان چٹانوں پر اسٹریس تینوں ہی طرح سے اثر انداز ہوتا ہے اور یہ تینوں قسمیں الگ الگ قسم کے فالٹ بناتی ہیں۔ Geologiestکچھ چیزوں میں بے حد دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان میں سے ایک Net Slipہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتنے فاصلے تک فالٹ کی دو سائیڈز ایک دوسرے کے سا تھ حرکت کرتی ہیں۔ Net Slipکے مطالعے کے بعد Sesmolgiestsزلزلے سے نکلنے والی انرجی کا زیادہ بہتر اندازہ لگانے میںکامیاب ہوجاتے ہیں ۔ فالٹ سے نکلنے والی یہ انرجی ویوز کی صورت میں زمین کے اندر اور زمین کے اوپر سفر کرتی ہیں اور اپنے راستے میں آنے والی چیزوں کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں ،جیسے ہی کسی فالٹ سے انرجی کا اخراج ہوتا ہے تو فالٹ کے اطراف میں واقع چٹانیں اس زبردست انرجی کی وجہ سے تھرتھرانا شروع کر دیتی ہیں اور ان کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔،زیر زمین حرکت کرنے والی ویوز کو Body Wavesبھی کہتے ہیں جو دو قسم کی ہوتی ہیں۔
1۔P Waves
2۔S Waves

P-Wavesدراصل ان تیز ترین سسمیک لہروںکا نام ہے جو زمین کے اندر واقع چٹانوں کو Back and Forthحرکت دیتی ہیں۔ ان کی رفتار7.6کلومیٹر فی سکینڈہوتی ہے جبکہ S-Waves 5.3کلومیٹر فی سکینڈ کی رفتار سے زیر زمین حرکت کرتی ہیں۔ ان دونوں کی مدد سے Sesmologiestsفوکس یا Epicenterکا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کے یہ لہریں روشنی کی لہروں کی طرح Reflection,Refraction,Bentہونے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔

زمین کی سطح پر سفر کرنے والی ویوز بھی دو طرح کی ہوتی ہیں
1۔ Reyleigh Waves
2۔ Love Wave

مذکورہ بالا دونوں ہی لہریں P-Wavesسے کم رفتار ہوتی ہیںجبکہS-Wavesسے کبھی کبھار کم رفتار ہوتی ہیں۔ سطح زمین پر آنے والی تمام تباہی کی ذمہ دار یہی ویوز ہوتی ہیں۔ ان کے راستے میں جو کچھ آتا ہے یہ اسے ملیا میٹ کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔
عام طور پر آنے والے زلزلے پلیٹس کے سِروں پر آتے ہیں۔ Sesmologiestsنے 20 ویں صدی میں آنے والے بہت سے زلزلوں کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور انہیں دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

1۔Interplate
یہ وہ زلزلے ہیں جو بہت عام ہیں اور عام طور پر پلیٹس کے سِروں پر آتے ہیں۔

2۔Intraplate
یہ زلزلے وہا ں آتے ہیں جہاں کرسٹ میں فریکچرز ہوں یہ Tectonic اور Volcanic ہو سکتے ہیں۔ s Sesmologiestزلزلے سے متاثر علاقے کا تفصیلی سروے کرکے معلوم کرتے ہیںکہ زمین کے اندر کون سی تبدیلی زلزلے کا باعث بنی، زلزلے کی وجہ سے کتنی انرجی کا اخراج ہوا، اس انرجی سے کتنا نقصان ہوا۔ ماہرین ان تمام باتوںکو ایک تکونیاتی طریقہ سے معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طریقہ کی مدد سے وقت کا بھی ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جاتا ہے پھر ان معلوما ت کے نتیجے میں Epicenterبھی معلوم کرلیا جاتا ہے جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ آنے والا زلزلہ زمین کے اندر کتنی گہرائی میں آیا۔ اگر زلزلے کا مرکز زمین کی سطح سے زیادہ سے زیادہ 70 کلومیٹر کے فاصلے پر آیا ہو تو ایسے زلزلے کو Shallow Earthquake کہتے ہیں۔ اوراگرزلزلہ 70 کلومیٹر سے زیادہ گہرائی میں ہو تو ایسے زلزلے کو Deep earthquake کہتے ہیں۔ مشاہدے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ زمین کی سطح پر آنے والے زیادہ تر زلزلے Shallow ہیںجو زیادہ نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ماہرین کا ایک گلوبل نیٹ ورک ان معلو مات کو اکٹھا کرنے کے لئے ہمہ وقت مصروف عمل رہتا ہے۔ پھراس کی روشنی میںSesmologiests تمام ڈیٹا کوبڑی احتیاط سے استعمال کرتے ہوئے کسی مخصوص علاقے میں آنے والے زلزلے کے متعلق بتانے کے قابل ہو تے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ ایسی لاتعداد پیشین گوئیاں بری طرح غلط بھی ثابت ہوچکی ہیں۔

محکمہ موسمیات پاکستان کے جاری کردہ نقشے کے مطابق پاکستان کو زلزلوں کے لحاظ سے 4 زون میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
زون1: بلوچستان کا مغربی بالائی حصہ اور بھارت کی سرحدوں کے سا تھ کا علاقہ
زون2: اسلام آباد ،راولپنڈی اور پشاور کا علاقہ
زون 3: سند ھ ،سرحد کا کچھ علاقہ اور کراچی کا علاقہ
زون 4: مکران،کوئٹہ کا اطراف اور افغان بارڈر کے ساتھ ساتھ سرحد کا کچھ علاقہ

یہ تمام بحث ایسے زلزلوں کے بارے میں تھی جو قدرتی طور پر ظہور پذیر ہوتے ہیں مگر زلزلے صرف قدرتی طور پر ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ ہم انسان بھی ان زلزلوں کو پیدا کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ ضروری ہے:
1۔زمین کی سطح پر گہرے کنوئوں کی کھدائی جس میں کچرا Desposeکیا جاتا ہو
2۔زیر زمین نیوکلئیر ٹیسٹ
3۔ زمین کی سطح پر بنائے جانے والے بڑے ڈیمز
4۔بڑے پہاڑوں کو ریت مٹی وغیرہ حاصل کرنے کے لئے ختم کرنے کی کوشش کرنا شامل ہے۔
انسانو ں کی اس مندرجہ بالا ایکٹویٹی سے جہاں قدرت کا بنایا ہوا خوبصورت ماحول بری طرح متاثر ہوتا ہے وہاں ان علاقوں کے تمام لوگ بری طرح متاثر ہوتے ہیں ان میں لاکھوں بے گھر ہوجاتے ہیں اور ہزاروں مر جاتے ہیں۔ مختلف ممالک کے زیر زمین نیوکلئیر ٹسٹ کی رپورٹ درج ذیل ہے۔

5

ایسے ٹسٹ زمین کی کرسٹ کا حشر نشر کر کے رکھ دیتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں زلزلے ضرورپروڈیوس ہوئے ہوں گے جن سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔

آسٹریلیا کی تاریخ میں آنے والے سخت ترین زلزلوں میں سے ایک زلزلہ جس کی شدت 5.8 تھی، انسانوں ہی کی وجہ سے آیا،یہ زلزلہ 28 دسمبر1989ء میں آیا اور اس سے تقریباََ13 لوگوں کی اموات واقع ہوئیںاور 3.5 بلین ڈالر کا نقصا ن ہوا۔اس زلزلے کے آنے کی وجہ اس علاقے میں 200 سو سال سے جاری کان کنی تھی جس سے لاکھوں ٹن کوئلہ نکالا جاتا رہا۔ یہی کان کنی رفتہ رفتہ زمین کے اندر موجود اسٹریس کو بڑھاتی رہی اور بالآخر ایک زبردست زلزلے کا موجب بنی ۔

یہی حال زمین پر بنا ئے جانے والے بڑے بڑے ڈیمز کا ہے جوں ہی ان بڑے ڈیمز میں پانی چھوڑا جاتا ہے تو لاکھوں ٹن پانی کا وزن زمین میں موجود اسٹریس کی مقدار کو تیزی سے بڑھادیتاہے اس کی مثالNaveda-Arizonaکے بارڈر پر آنے والے زلزلے ہیں جہاں Hoover Dam 1936ء سے لے کر 1946ء تک زیر تعمیر تھا۔ یہا ں اس مختصر سے عرصے میں 600 تک Shallow earthquakeریکارڈکیے گئے۔

نہ صرف یہ بلکہ آئل اور گیس کی تلاش کا عمل بھی زلزلو ں کا موجب بنتا ہے۔ ازبکستان میں واقع گزلی نیچرل گیس فیلڈ میں 1976ء سے1984ء تک میں تین بڑے زلزلے ریکارڈ کیے گئے ان آنے والوں زلزلوں کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.9 سے 7.3 تھی۔

کچھ سائنسدان جن کا تعلق Colorado Universityسے ہے اپنی ایک ریسرچ میں اس بات کا عندیہ دیتے ہیںکہ ہر 1000 سال کے بعد Indian and Tibetan Tectonic Platesاپنی انرجی کا اخراج کرتی ہیں جس کا مرکز ہمالیہ اور اس کے آس پاس ہوسکتا ہے۔ انرجی کے اس اخراج سے کم از کم8.4 شدت کا زلزلہ پروڈیوس ہونے کا امکان ہے۔ اس سے کم شدت کا زلزلہ اس علاقے میں موجود اسٹریس کو کم نہیں کرسکتا ،اپنی اس تحقیق میں وہ 2005ء میں آنے والے زلزلہ کشمیر کو شامل کرتے ہوئے کہتے ہیں کے یہ زلزلہ کم شدت کا تھا امکان ہے کہ اس علاقے میں اس سے زیاددہ تباہ کن اور شدید زلزلہ آسکتا ہے۔

کیا زلزلے بطور ہتھیا ر بھی استعمال ہوسکتے ہیں اس بات پر بحث کرنے سے پہلے میں High Frequency Active Auroral Research Program (HAARP) کے بارے میں کچھ بتانا چاہوں گا، اس ٹیکنا لوجی کے ذریعے کسی مخصوص علاقے میں ایک ہلکی شدت کا زلزلہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ ریاستوں پر بعض ممالک کی طرف سے الزاما ت بھی لگائے گئے ہیں کہ وہ اس مخصوص ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک مخصوص علاقے میں زلزلے پیدا کرنے کی کو شش کرتے رہے ہیں ،لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ الزام لگانے والوں نے تو ہر قسم کی شہادتیں مہیا کی ہیں تاہم وہ ممالک جو اس کام میں ملوث تھے انہوں نے اس کی تائید نہیں کی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی واقعی اپنا وجود رکھتی ہے تو انسانیت کو اس سے بڑے شدید خطرات لاحق ہیں اور خاص طور پر چھوٹے اور غریب ممالک کے حق میں یہ انتہائی بری ثا بت ہو سکتی ہے۔

کیا زلزلو ں کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے ،جدید ترین ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی اس کے بارے میں کچھ وثوق سے کہنا بے حد مشکل ہے۔ آج تک سائنسدان اس قسم کی پیشین گوئی کے لئے کوئی آلہ نہیں بنا سکے ہیں لیکن قدرت کے کچھ مظاہر ایسے ہیں جن کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقے میں زلزلہ آنے والا ہے۔ اس میں سب سے اہم تو جانورں کی حرکات و سکنات ہوتی ہیں۔ جانور زمین کے اندر ہونے والی انتہا ئی معمولی سی حرکت کو محسو س کر کے اس بات کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس علاقے میں زلزلہ آنے والا ہے۔ دوسرا اہم اور ناقابل یقین حد تک مظہرقدرت ہے یعنی زلزلے کے آنے سے کم از کم 50 سے 2 دن پہلے تک اس مخصوص علاقے میںیا ا س کے آس پاس عجیب وغریب رنگ دار بادل دکھائی دیتے ہیں۔ 9 مئی2008ء سے پہلے اس بات پر کوئی بھی یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ لیکن اس دن یہ مخصوص رنگ کے بادل چین میں دکھائی دیے تھے اور ان کے نظر آنے کے 2 دنوں بعد 12مئی کو 7.8 شدت کا زلزلہ چین میں آیا ۔ تا ہم سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ زلزلے سے پہلے اس قسم کا کوئی بادل نظر آسکتا ہے یا اس نظر آنے والے بادل کا کسی بھی زلزلے سے کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔

پاکستان کے اکثر بڑے اور صنعتی شہر زلزلوں سے متعلق فالٹ کے اوپر واقع ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا خوبصورت اور پیارا شہر ٹیکسلا بھی تو انہی فالٹ کے اوپر واقع نہیں اور کیا ہم بھی مستقبل میں کسی بڑے زلزلے سے متاثر ہونے والے ہیں؟ اس کا جواب ہے ایسا ممکن ہے۔ روایت مشہور ہے کہ ماضی میں یہ شہر کسی بڑی آفت سے متاثر ہوچکا ہے اور گمان یہ ہے کہ وہ بڑی آفت ایک دہشت انگیز زلزلہ ہی ہوگی جس نے تہذیبوں کے مرکز ٹیکسلا کو نہ صرف تہس نہس کر دیا بلکہ منوں مٹی تلے بھی دبا کر رکھ دیا تھا ۔

ٹیکسلا نقشے میں 33 ڈگری Latitudeاور 72 ڈگریLongitudeپر واقع ہے۔ اس سے قر یب ترین فالٹ کا فاصلہ شاید چند کلومیٹر سے زیادہ نہیں، ان فا لٹ میں سے زیادہ تعداد ایسے فالٹس کی ہے جو Shallow Earthquakeپروڈیوس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔اور کسی بھی وقت ایک بڑا اور زبردست زلزلہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ زیر زمین واقع فالٹ کی انرجی اسٹور کر نے کی صلاحیت کتنی ہے اورکب وہ انرجی اس کیCapacityسے باہر ہو جائے اور ایک بڑے اور زبردست زلزلے کا سبب بن جائے۔ خود ہمارا اپنا روےّہ بھی اس زلزلے کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہاہے کیونکہ ٹیکسلا کے قرب میں واقع مرگلہ کے حسین اور خوبصورت سلسلے کو ہم خود بڑی بے دردی کے ساتھ تہس نہس کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ روزانہ ہزاورں ٹن وزنی ریت اور پتھر اس علاقے سے نکال کر ہم نہ صر ف اس علاقے کا حسن برباد کر رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہ ہم قدرت کی ان خاموش اور ان دیکھی طاقتوں کو بھی جگانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ حقیقت میں ہم سب اس خوبصورت شہر پر اس آنے والی تباہی کے منتظر ہیں جو ایک دفعہ پہلے بھی اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اگر ہم اب بھی باز نہ آئے تو آنے والی تباہی اس پچھلی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔

کیا ہم آنے والے اس زلزلے سے بچ سکتے ہیں ؟اس کا جوا ب یہی ہے کہ ایساکرنا کسی حد تک ممکن ہے۔ یعنی یہ کہ ہم زلزلے کو آنے سے روک تو نہیں سکتے تاہم ، کچھ احتیاطی تدابیر استعمال کر کے ان نقصانات سے بروقت بچ سکتے ہیں۔

جدید دنیا میں زلزلوں سے آگاہی کا علم بہت ترقی کر چکا ہے ترقی یافتہ ممالک میں حکو متی سطح پر ایسے ادارے قائم ہیں جو لوگوں کو زلزلوں سے متعلق تعلیم دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیارر ہیں اور دوسروں کی بہتر انداز میں مدد کرسکیں ۔ مزید برآں ان اداروں کے سائنسدانوں نے کچھ عمارتی کوڈز وضع کر رکھے ہیں۔ یہ ان علاقوں کے لئے مخصوص ہیں جو ایکٹِو سسمیک زون میں واقع ہیں ۔ ان عمارتی کوڈز پر عمل کر کے ایسی عمارتیں بنائی جاتی ہیں جو زلزلوں کے خلاف بہتر انداز میں مزاحمت کر سکتی ہیں اور زیادہ شدت کے زلزلے برداشت کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں ،اس لئے عمارتیں بناتے وقت اس بات پر عمل کیا جائے کہ عمارت کی افقی اور عمودی سطحوں پر لوہے کا استعمال عمل میں لایا جائے۔ کیونکہ عام عمارتیں زمین میں ہونے والی افقی حرکت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں جہاں فا لٹس موجود ہیں بلند عمارتیں قطعی تعمیر نہ کی جائیں تا کہ مستقبل میں کسی بڑی تباہی سے بچا جا سکے۔ مزید برآںان اقدامات کی بدولت سانامی وارننگ سسٹم کا بھی اجرا کیا گیا ہے۔ یہ سسٹم اس وقت ایکٹیویٹ ہوتا ہے جب دنیا کے کسی بھی ساحلی علاقے میں زلزلہ آجائے۔ اگر زلزلہ شدید ہو تو یہ سسٹم ایک وارننگ جاری کرتا ہے۔ Sesmologestsاس وارننگ کو پرکھنے کے بعد متعلقہ ملک کوبروقت خبردارکر دیا کرتے ہیں۔ اس طرح اس سسٹم کی بدولت نقصانات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے اور بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں۔

اب عمارتوں کے جدید کوڈز اور سونامی پیشگی وارننگ سسٹم کی بات کرتے ہیں کہ اگر زلزلہ آجائے تو تب کیااقدامات کرنا چاہئیں؟ اہم اور ابتدائی بات تو یہ ہے کہ زلزلے کے دوران اور اس کے بعد اپنے حواس پر قابو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ،زلزلے سے خوفزدہ ہونا ایک فطری بات ہے لیکن اگر ہم بہت زیادہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں تو نہ صرف اپنے بلکہ قریب ترین لوگوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث بن سکتے ہیںکیونکہ ایک بڑے زلزلے کی تباہ کاری کے بعد بہت سے لوگوں کو ابتدائی طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جانا ہوتا ہے۔ ملبے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو باہر نکالنا پڑتا ہے۔ اگر ایسی صورت حال میں سارے لوگ ہی خوف کا شکار ہوجائیں تو پھر ان ابتدائی کاموں میں بہت حد تک کوتاہی ہو جاتی ہے اور بہت سی جانیں ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا زلزلے کی صورت میں اپنے حواس پر قابو رکھنا ازحد ضروری ہے۔

زلزلے کے دوران کسی محفوظ جگہ منتقل ہوجانا چاہیے یعنی اگر آپ گھر میں یا اپنے آفس میں موجود ہیں تو فوری طور پر باہر نکلیے اور کسی کھلی جگہ جیسے کھیل کے میدان ،پارک یالان وغیرہ میں پہنچیے اور کھڑے رہنے کے بجائے بیٹھ جائیے تاکہ زلزلے کے جھٹکوں کی وجہ سے چوٹ پہنچنے کا اندیشہ کم سے کم ہو،اگر خدانخواستہ آپ ایسی جگہ ہیں جہاں سے فوری طور پر باہر نکلنا ممکن نہیں تو عمارت کے اس حصے میں پہنچنے کی کوشش کریں جوکنسٹرکشن کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہو ،یا پھر سیڑھیوں کے نیچے پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ فوری طور پر دروازے پر کھڑے ہوکر اسے مضبوطی سے تھام لیں اور اگر ان اقدامات میں سے کچھ بھی کرنا ناممکن ہو تو فوری طور پر کمرے میں موجود کسی میز کے نیچے چلے جائیں۔ اس طرح چھت سے اکھڑنے والے بلڈنگ مٹیریل سے محفوظ رہ سکیں گے۔یہ بات تو زلزلے کے دوران کی ہے زلزلے کے رک جانے کے بعد فوری طور پر ایک منظم انداز میں اس عمارت سے نکلنا لوگوںکی پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔

آنے والے زلزلے کی شدت سے آگاہی بھی ضروری ہے کیونکہ زلزلے کی شدت ہی ہمیں اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ کہیں آفٹرشاکس تو نہیں آنے والے اس مقصد کے لئے فوری طور پر ریڈیو یا ٹی وی پر نیوز بلیٹن سن یا دیکھ لینا چاہیے۔ عام طور پر 6.0شدت کے زلزلے اپنے بعد آفٹر شاکس لے کر آتے ہیں ان آفٹر شاکس سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ہمیں ان کا پامردی سے مقابلہ کرنا چاہیے اور اپنے اردگرد کے لوگوںکو بھی حوصلہ دینا چاہیے کیونکہ ایک بڑے زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس لوگوں میںسخت ہیجان پیدا کرتے ہیں اور ان کی پریشانی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں ۔

زلزلے کی صورت میں ساحلی علاقوں سے دور رہنا بھی ضروری ہے کیونکہ زلزلوں کے بعد ساحلی علاقوں میں سونامی لہروںکا شدید خطرہ موجود رہتاہے جس سے بھاری جانی اور مالی نقصان ہوسکتا ہے۔

زلزلے کے پروڈیوس ہونے کے وقت اگر آپ ڈرائیونگ کر رہے ہوں تو اپنی گاڑی کسی محفوظ جگہ روک لیں اس طرح کسی ناگہانی حادثے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ یقیناََ ان بنیادی نوعیت کی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوکر بڑی تباہی کے اثرا ت کو کم کیا جاسکتا ہے ۔
__________
ماخذات
1۔ The first three minutes از :وین برگ
2۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا
3۔ انسائیکلوپیڈیاآف پا کستان
4۔ انسائیکلوپیڈیاانکارٹیکا
5۔ ما ئیکرو سوفٹ ورلڈ اٹلس
6۔ وکیپڈیا انسائیکلو پیڈیا