working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

تارکین وطن کومسائل کے جہنم کا سامنا
بشارت رٹوی

تارکین وطن نے غیر ممالک میں جا کر ان ممالک کی تعمیر و ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے اور اس کے بدلے میں انھیں کیا حاصل ہوا ہے، وطن میں بسنے والوں اور وطن سے باہر ہر طرح کے لوگوں میں یہ موضوع بحث رہا ہے۔ پاکستان خاص طور پر آزاد کشمیر (میرپور) سے کثیر تعداد میں لوگ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں اور فیکٹری مزدور سے لے کر وہاں کی کونسلوں، تعلیمی اداروں، جوڈیشل سسٹم حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں بھی ان کی نمائندگی موجود ہے۔ یہ ایک خوش کن صورت حال ہے لیکن اس ساری صورت حال کے پیچھے ایک دکھ بھری داستان بھی موجود ہے اور اس میں اکثر ہمارے ملک کے قونصلیٹ اہم کردار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اس دکھ بھری داستان کا کچھ حصہ ہمیں بشارت رٹوی اپنے لفظوں میں سنا رہے ہیں۔ (مدیر)

یوں تو دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں پاکستانی تارکین وطن بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ ایشیا، یورپ، امریکا، مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں پاکستانی تارکین وطن موجود نہ ہوں۔ ان تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد برطانیہ اور سکینڈے نیویا کے ممالک میں ہے۔ صرف برطانیہ میں پندرہ سے بیس لاکھ تک پاکستانی موجود ہیں۔ اسی طرح ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فرانس اور بلجیم میں بھی ہزاروںکی تعداد میں پاکستانی بستے ہیں۔ سعودی عرب، دوبئی، قطر، بحرین، ابوظہبی اور مسقط کو بھی ہزاروں پاکستانیوں نے اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔

برطانیہ میں پاکستانیوںکی آمد کا سلسلہ تو قیام پاکستان سے قبل ہی شروع ہو گیا تھا جب سیکڑوں لوگ جہازرانی کی ملازمت کے دوران برطانیہ جا کر رُک گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ قیام پاکستان کے بعد بالخصوص پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں یہ تعداد لاکھوں میں چلی گئی۔ برطانیہ میں آباد ان تارکین وطن میں زیادہ تعداد کشمیری نژاد پاکستانی باشندوں کی ہے۔ شروع شروع میں صرف مرد حضرات نے بسلسلہ روزگار برطانیہ کو اپنی منزل بنایا۔ ساٹھ کی دہائی میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچے بھی اپنے والدین کے سپانسر کرنے پر برطانیہ جانا شروع ہو گئے۔ 1968ء میں برطانوی امیگریشن قانون کے تحت بچوں کی آمد کا سلسلہ بند ہو گیا جس کے بعد بچوں نے اپنی مائوں کے ساتھ برطانیہ ہجرت کی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ برطانوی حکومت کی طرف سے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اٹھارہ برس سے کم عمر کے بچے ہی باپ کے بلانے پر اپنی مائوں کے ساتھ برطانیہ جا سکتے ہیں۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ برطانوی امیگریشن قانون میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں اور جن بچوں کی عمریں اٹھارہ سال سے زائد تھیں، انھوں نے بطور منگیتر یا پھر برطانوی شہریت کے حامل مرد یا خاتون سے شادی کر کے برطانیہ آمد کے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ یوں یہ تعداد بڑھتے بڑھتے لاکھوںمیں چلی گئی۔ دیگر یورپی ممالک کی نسبت برطانیہ میں زندگی گزارنے کے کئی حوالوں سے بہتر مواقع میسر تھے۔ خلیفہ دوم امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور میں نوزائیدہ بچوں کے لیے بیت المال سے جو ماہانہ وظیفہ شروع کیا تھا، وہ آج دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں موجود نہیں ہے۔ جبکہ برطانیہ میں یہ سلسلہ آج بھی پوری طرح جاری و ساری ہے۔ برطانیہ میں موجود ایک فیکٹری مزدور ہے یا کوئی ارب پتی تاجر۔ غریب اور امیر کی تمیزرکھے بغیر بچہ پیدا ہوتے ہی بچے کے والدین کو پانچ سو پونڈ کا چیک فوری طور پر ارسال کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ بچے کے کپڑوں، کھلونوں سمیت ابتدائی ضروریات پوری کر سکیں اور ساتھ ہی پیدائش سے لے کر اٹھارہ سال تک اس بچے کو ہر ہفتے بیس پونڈ کے قریب گزارہ الائونس دیا جاتا ہے تاکہ بچے کے والدین اس بچے کو کسی قسم کا بوجھ تصور نہ کریں۔ صرف یہی نہیں ہر بچے کے لیے چار سال کی عمر سے لے کر اٹھارہ سال تک سکول اور کالج میں تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے تاکہ وہ عملی زندگی میں آ کر ایک اچھا شہری بن سکے۔ یہ تعلیم ہی صرف مفت نہیں بلکہ جن بچوں کے والدین بے روزگار ہوں ان بچوںکو لنچ بھی مفت مہیا کیا جاتا ہے۔ کالج سے فارغ ہو کر جو بچے بچیاں مزید تعلیم کے لیے یونیورسٹی جانا چاہیں انھیں خصوصی گرانٹ مہیا کی جاتی ہے۔ سر درد سے لے کر بڑے سے بڑے آپریشن تک علاج معالجہ مکمل طور پر فری کیا جاتا ہے اور یہ کام وہاں کے نیشنل ہیلتھ سسٹم کے ذریعے بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ ہسپتال کے بستر پر ایک عام مزدور ہو یا کوئی حکومتی وزیر یا اعلیٰ عہدیدار،سب کو یکساں توجہ دی جاتی ہے۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کو آمدورفت کے لیے فری سفری پاس مہیا کیا جاتا ہے۔ اندرون ملک وہ بس اور ٹرین کا سفر بغیر کسی خرچ کے کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ساٹھ سال سے زائد عمرکے لوگوں کو ریٹائرمنٹ پنشن باقاعدگی سے ملتی ہے۔ اس کے باوجود ہر سال اکتوبر میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی ان عمررسیدہ لوگوں کو چار پانچ سو پونڈ کا چیک محض اس لیے ارسال کیا جاتا ہے تاکہ وہ شدید سرد موسم میں گھر کے اندر ہیٹر جلا کر موسمی اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اس گرانٹ کا ان بزرگ شہریوں کو ملنے والی پنشن کی رقم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہماری طرح ان بزرگوں کو ''اوئے بڈھے''، '' اوئے بابے'' نہیں کہا جاتا بلکہ ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے انھیں سینئر سٹیزن کہا جاتا ہے۔ کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں آپ چلے جائیں، انگریزی، اردو، عربی، ہندی، پشتو، بنگالی غرضیکہ ہر زبان سے واقف ایک فرد موجود ہوتا ہے تاکہ ان اداروں میں جانے والے افراد کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہاں پٹرول میں مٹی کا تیل، آٹے میں چوکر، مرچوں میںاینٹوںکا برادہ اور چائے کی پتی میں لکڑی کا برادہ شامل نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر چیز خالص ہوتی ہے اور اس میں شامل تمام اجزا کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ کوالٹی اور معیار میںذرا سی بھی کوتاہی برداشت نہیں کی جاتی۔بلکہ کسی طرح کی اشیائے خورونوش کو مضر صحت سمجھا جائے تو نہ صرف اس تاجرکے خلاف قانون حرکت میں آجاتا ہے بلکہ بعض اوقات وہ دوکان بھی ہمیشہ کے لیے سیل کر دی جاتی ہے۔ قانون کی عملداری ایک مسلّمہ اصول ہے۔ دن کا اجالا ہو یا رات کاپچھلا پہر ٹریفک سگنل پر سرخ بتی روشن ہوتے ہی گاڑی روک لی جاتی ہے۔ برطانوی معاشرے میں یہی وہ خصوصیات ہیں جو ہمارے لوگوں کو یورپ کے دیگر ملکوں کی بجائے برطانیہ کی طرف راغب کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے تارکین وطن نے بھی وہاںدن رات محنت کر کے برطانیہ کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیاہے ۔ آج ایک فیکٹری کے مزدور سے لے کر وہاں کی مقامی کونسلوں، تعلیمی اداروں، جوڈیشل سسٹم سمیت پارلیمنٹ میں بھی ہمارے تارکین وطن موجود ہیں۔

ان تارکین وطن نے نہ صرف اپنی محنت شاقہ سے برطانیہ کو تعمیر و ترقی کی منزل سے کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ سالانہ کروڑوں اربوں روپیہ زرِمبادلہ کی شکل میں وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی بھیجا۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ درست ہو گا کہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے یہ تارکین وطن ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ملک میں کسی بھی ناگہانی آفت نازل ہونے کی صورت میں ان لوگوں نے ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ وہ ملکی تاریخ کے تباہ کن زلزلے ہوں یا سیلاب یا حکومت کی قرض اتارو ملک سنوارو اپیل۔ ان تارکین وطن نے وطن کی مٹی کی پکار پر ہمیشہ لبیک کہا۔

آئندہ سطور میں ان محب وطن تارکین کے چند مسائل کا جائزہ لینا مقصود ہے کہ دیارِ غیر میں رہ کر اپنے خونِ جگر سے وطن کی محبت کا چراغ روشن کرنے والوں کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔ ان ممالک میں اکثر تارکین وطن کو یہ گلہ رہتا ہے کہ وہاں مقیم ہمارے سفارتی مشن ان کے جائز کاموں میں بھی مدد نہیں کرتے۔ بیرونی ممالک میں ہمارے سفارت خانوں میں تعینات اعلیٰ افسران اور دیگر عملہ ان تارکین وطن سے وہ سلوک نہیں کرتا جس کے یہ لوگ مستحق ہوتے ہیں۔ وطن عزیز کے سرکاری دفاتر میں افسرشاہی کی طرح ان سفارتی مشنوں میں تعینات عملے اور سٹاف کے ناز نخرے دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں۔ ان کی گردن میں ہمیشہ سریا موجود ہوتا ہے۔ وہ ان تارکین وطن کے خادم کم اور باس زیادہ نظر آتے ہیں۔ راقم السطور کو ایک بار پاسپورٹ کی تجدید کے لیے برمنگھم میں پاکستانی قونصلیٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ برمنگھم کی مصروف ترین شاہراہ پر بسم اللہ بلڈنگ میں ہمارا قونصلیٹ قائم ہے۔ وطن عزیز کا سبز ہلالی پرچم قونصلیٹ کی عمار ت پر نصب کرنے کے بجائے دفتری اوقات شروع ہونے پر ایک کھڑکی سے باہر نکال لیا جاتا ہے اور اوقات کار کے اختتام پر اندر کھینچ لیا جاتا ہے۔ قونصلیٹ کے کھلنے کا وقت صبح دس بجے ہے۔ دور دراز سے آنے والوں کا سلسلہ علی الصبح ہی شروع ہو جاتا ہے۔ برفباری ہو رہی ہو یا شدید بارش، حفاظتی شیڈ نام کی کوئی چیز وہاں موجود نہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ یہ عمارت سٹی سنٹر کے قریب اور برلبِ سڑک ہے، صبح صبح اس سڑک پر ٹریفک کا بے پناہ رش ہوتا ہے۔ چار فٹ چوڑی فٹ پاتھ پر سیکڑوں لوگوں کا کھڑا ہونا ممکن ہی نہیں اور قونصلیٹ کے مرکزی دروازے کے دائیں بائیں جانب ایک ہندو کی دوکان او ردوسری طرف غالباً کوئی دفتر ہے۔ وہ اپنی دوکان اور دفتر کے سامنے کھڑا نہیں ہونے دیتے۔ ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہو رہی ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ بارش، دھوپ اور برفباری کے دوران قونصلیٹ کھلنے کے انتظار میں کھڑے بچے، بوڑھے اور خواتین کی حالت زار قابل رحم اور وہاں سے گزرنے والوں کے لیے ایک تماشے سے کم نہیں ہوتی۔ قونصلیٹ میں جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ جبکہ اندر نشستیں انتہائی کم تعداد میں موجود ہیں۔ کئی کئی گھنٹے لوگوں کو کھڑے رہ کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اندر موجود فوٹو اسٹیٹ مشینیں اکثر خراب ہی رہتی ہیں۔ پینے کے پانی کا بھی خاص انتظام نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کو ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ ایک سہولت اندر قائم کر دی گئی ہے کہ پاسپورٹ اور ویزا کی فیس کے لیے پہلے لوگوں کو دور پوسٹ آفس میں جا کر پوسٹل آرڈر خریدنا پڑتے تھے۔ اب اندر ہی ایک بینک کی شاخ قائم کر دی گئی ہے جس سے ایک مصیبت سے چھٹکارا مل چکا ہے۔ یورپ میں سکولوں اور کالجوں میں ہماری طرح چھٹیاں موسم گرما میں ہی ہوتی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو وطن سے محبت کا رشتہ برقرار رکھنے کی غرض سے ہر سال ان چھٹیوں میں وطن عزیز کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے مصائب کا آغاز ایئر پورٹ پر اترتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ البتہ موجودہ حکومت نے ایئر پورٹس پر پہلے کی نسبت بہتر سہولتیں مہیا کر دی ہیں۔ ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی ٹیکسی ڈرائیور اور بھکاری ان خواتین اوربچوں کو گھیر لیتے ہیں۔ آٹھ دس اور بارہ گھنٹے کے طویل سفر سے نڈھال ان تارکین وطن کا جو حشر یہ ٹیکسی ڈرائیور اور بھکاری کرتے ہیں، اس کے بیان کی ضرورت نہیں۔ پھر کھنڈرات بنی سڑکیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور دیگر مشکلات سے گزرنے کے بعد یہ خواتین اور بالخصوص بچے جب واپس جاتے ہیں تو دوبارہ واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ ہماری یہ ایسی قیمتی میراث ہے کہ حکومت کو ان بچوں کا وطن سے رشتہ محبت برقرار رکھنے کے لیے خاطرخواہ سہولتیں مہیا کرنا چاہئیں۔ اس کے علاوہ ان تارکین وطن کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ یہاں موجود ان کی جائیدادوں اور مکانات کا ہے۔ ان تارکین وطن کے برسہابرس سے بیرون ملک قیام کے باعث ان کی جائیدادوں، پلاٹوں اور مکانات پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ یہ سب یہاں موجود قبضہ گروپ، محکمہ مال اور ترقیاتی اداروں کے ملازمین کے ساتھ مل کر کرتے ہیں۔ چند ہفتوں کے لیے پاکستان آنے والے تارکین وطن کو جائیدادوں کے جھگڑوں میں اس قدر الجھا دیا جاتا ہے کہ بعض اوقات نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ بیرون ممالک میں مقیم تارکین وطن ایسا قیمتی اور قومی سرمایہ ہیں کہ ان کے یہاں مفادات کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اپنی جائیداد کی نقل انتقال او دیگر کسی اہم دستاویز کے حصول کے لیے انھیں کئی کئی ہفتے سرکاری دفاتر کا طواف کرایا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو لوٹنے کے لیے سرکاری اہلکار کام کو محض اس لیے الجھاتے چلے جاتے ہیں کہ رشوت کا ریٹ زیادہ سے زیادہ بڑھ سکے۔ اگر کسی تارک وطن کا باپ فوت ہو جاتا ہے تو وراثت کے فوتیدگی انتقال کے لیے پٹواری سے لے کر تحصیلدار تک ہزاروں روپے میں سودا طے کرتے ہیں۔ چند ہفتوں کے لیے پاکستان آنے والے یہ لوگ جلد واپسی کی غرض سے ان کو بھاری بھرکم رشوت دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر ترقیاتی ادارے اور محکمہ مال کے دفاتر میں اوورسیز ڈیسک قائم کرے۔ جو ان تارکین وطن کو ضروری معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کام فوری طور پر نمٹائے۔ جب ان محکموںمیں موجود کالی بھیڑیں تارکین وطن کو لُوٹنے کی غرض سے دفاتر کا چکر مہینوں لگواتی ہیں تو ان کے یہ مذموم ہتھکنڈے تارکین وطن کے دلوں میں وطن سے محبت کی بجائے نفرت کے بیج بوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان تارکین وطن کا تعلق چاہے کسی بھی صوبے سے ہو، ان کی جائیدادوں، پلاٹوں ، مکانات کے تحفظ کو یقینی بنائے تاکہ ان کی خون پسینے کی کمائی لڑائی جھگڑوں کی نذر نہ ہو سکے۔ ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت نے منگلا ڈیم اپ ریزنگ کے سلسلے میں متاثرین کے لیے اربوں روپیہ معاوضوںکے سلسلے میں مختص کیا۔ لیکن یہاں قائم وزارت امور منگلا ڈیم میں تعینات لوگوں نے دیارِ غیر سے معاوضہ جات کی وصولی کے لیے آنے والے تارکین وطن کو اس قدر ستایا کہ بعض لوگ تنگ آ کر اپنا حق لیے بغیر ہی واپس چلے گئے۔ کسی کو کہا گیا کہ تمھارے نام کے ساتھ خان ہے، حسین نہیں ہے۔ کسی کو کہا گیا کہ تمھارے باپ کے نام کے ساتھ خان نہیں لکھا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ رشوت کا ریٹ بڑھایا جا سکے۔ اگر کسی کا نام غلط لکھا گیا یا اس کے باپ کا نام صحیح نہیں لکھا گیا تو اس میں قصور تارکین وطن کا نہیں بلکہ محکمہ مال میں تعینات ان سرکاری ملازمین کا ہے جو اپنے فرائض کی درست ادائیگی اپنے لیے گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر تارکین وطن ملک آمد پر ایئر پورٹ سے گھر تک کے سفر کے دوران لُوٹ لیے جاتے ہیں۔ شاہراہوں پر تو موٹروے پولیس موجود ہے۔ جبکہ شہروں سے دیہات اور گائوں گوٹھوں کی طرف آنے والی سڑکوں پر راہزنی کی اکثر وارداتیں ہوتی ہیں۔ ان سڑکوں پر قائم پولیس چوکیاں ڈاکوئوں کو پکڑنے کے بجائے گاڑی کی چھت پر لدے اٹیچی کیس دیکھ کر ان تارکین وطن کی سفری دستاویزات دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالانکہ درست سفری دستاویز ہونے پر ہی انھیں ایئر پورٹ سے باہر نکلنے دیا جاتا ہے۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دیارِ غیر سے آنے والی یہ مچھلی بچ کر جانے نہ پائے۔

اس کے علاوہ وطن عزیز میں تفریحی مقامات پہلی ہی کم تعداد میں ہیں۔ اور جو ہیں وہاں سہولتوں کا فقدان ہے۔ ان تفریحی مقامات پر بعض اوباش نوجوان دیارِغیر سے آنے والی خواتین اور بچوں کو تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ان باتوں کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔ نہ صرف نئے تفریحی مقامات بنانا ہوں گے بلکہ پہلے سے موجودان مقامات پر ان کے تحفظ اور سہولیات کی دستیابی بھی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ یہ وطن ہم سب کا ہے۔ اس کا ذرہ ذرہ ہم سب کو جان سے پیارا ہے اور دیارِ غیر میں مقیم ہماری روزی روٹی کا انصرام کرنے والے یہ تارکین وطن ہمارا قومی سرمایہ ہیں۔ ان سطور کا مقصد اپنے اداروں پر بے جا تنقید نہیں بلکہ خرابیوں کی نشاندہی مقصود ہے تاکہ ذمہ دار ادارے اصلاح احوالے کے ذریعے ان لاکھوں تارکین وطن، ان کے بچوں اور دھرتی ماں کے درمیان محبت کے رشتوں کو برقرار رکھنے کا باعث بن سکیں۔ نفرتوں کی بجائے محبتوں کے بیج بونا ہوں گے۔ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہمارے یہ لاکھوں تارکین وطن ہماری ایسی قیمتی میراث ہیں جنھیں ہم کو کسی قیمت پر نہیں کھونا۔ اس کے لیے عوام، حکومت اور ذمہ داراور متعلقہ اداروں کو اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔