working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

تاریخ کا خوف
(روبینہ سہگل)


''یاد ماضی عذاب ہے یارب'' یہ محض ایک شاعرانہ خیال نہیں بلکہ کئی موقعوں پر قومیں بھی اپنے تاریخ کو اسی نظر سے دیکھتی ہیں۔ یا تو وہ تاریخ کو بھلادینے میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں یہ پھر حقائق کو مسخ کرکے بیان کرتی ہیں ۔ زیر نظر مضمون معروف محقق روبینہ سہگل نے اسی پس منظر میں لکھا ہے اور اس کا جائزہ اپنے قومی کردار کے تناظر میں بھی لیا ہے۔ مضمون کا اندازِتحریر اور اس میں دی جانے والی معلومات قارئین کے لیے ازحد دلچسپ ثابت ہوں گی۔ (مدیر)
آج سے کوئی سات ،آٹھ سال قبل ہندوستان کے ایک اخبار نے حمو دالرحمن کمیشن رپورٹ کے چند حصے شائع کر دیے ۔ یہ وہ رپورٹ ہے جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جسٹس حمود الرحمن کے زیر نگرانی ایک تحقیقی کمیشن نے تیار کی تھی تا کہ 1971ء میں ہونے والے واقعات کی وجوہات جانی جائیں اور ان کا تجزیہ کر کے ان افراد اور عوامل کی نشاندہی کی جائے جو 1971ء کے گھنائونے واقعہ کے ذمہ دار تھے ۔پاکستان کے فوجی اور نہ ہی منتخب حکمرانوں نے اس رپورٹ کے نتائج لوگوں تک پہنچائے ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ رپورٹ اور اس میں قلمبند تلخ حقائق تاریخ کی تاریکی میں کھو گئے اور ہماری قومی یادداشت کا حصہ نہ بن سکے ۔ پوری قوم ایک اجتماعی فراموشی کا شکار ہو گئی۔

جب ہندوستان کے اخبار نے چند تکلیف دہ حقائق اجاگر کئے تو ہماری قوم چونک گئی۔ چند لوگوں کو ماضی کی درد بھری یادوں نے گھیر لیا اور وہ اس رپورٹ کو عام کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف وردی کی عطا کی ہوئی طاقت میں پوری طرح لپٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب ماضی کی ان تلخ حقیقتوں سے مکمل طور پر انکار کرنا تو مشکل ہوگا، تاہم ایک چھوٹی موٹی معافی مانگ کر اس معاملے کو خاموشی کی گہرائیوں میں ایک دفعہ پھر دھکیلا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جنرل پرویز مشرف نے بادل ناخوا ستہ اس بات کا اعتراف کیا کہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں سے چند زیادتیاں ہوئیں اور سرسری انداز میں معافی بھی مانگ لی ۔او ر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے قوم کو یہ مشورہ دیا کہ'' ہمیں تاریخ میں نہیں رہنا چاہیے۔ ماضی کو بھلا کر اب آگے بڑھنا چاہیے۔'' سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنے ماضی سے خوف کیوں تھا؟و ہ کیا تھا کہ جس کی پردہ داری تھی؟ اس سوال کا جواب ہمیں اُن بے شمار کتابوں اور دستاویزی فلموں میں ملتا ہے جو 1971ء کے واقعات پر بنائی گئیں ۔ پاکستانی حکمرانوںاو ر مسلح افواج نے مشرقی پاکستان کے عوام پر بہیمانہ ظلم ڈھائے ،خونریزی کی اور ہولناک جنسی تشدد کا مظاہرہ کیا تھا۔1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور اس پارٹی کو حکومت بنانے کا قانونی حق تھا۔ لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں اور فوجی قوتوں کو یہ منظور نہیں تھا کہ وہ عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کریں۔ اس لیے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن پر غداری اور سازش کے مقدمات بنا کر اسے نظر بند کیااور مشرقی پاکستان کی سیاسی قوتوں کو تباہ کرنے کی مہم بنائی۔ نتیجتاًوہاں بغاوت ہو گئی،فوج کشی کی گئی اور بالآخر 17دسمبر 1971ء کو پاکستان کی مسلح افواج نے ہندوستان کی فوج کے آگے ہتھیار ڈال دیے ۔ ہندوستان نے بنگالیوں کی جنگ آزادی میں ان کا ساتھ دیا تھا اور مغربی پاکستان سے مشرقی حصے کے تمام تر رابطے توڑ دیے تھے۔ یہ تھے وہ دردناک حقائق جو مغربی پاکستان کے عام شہریوں کی نظروں سے اوجھل رکھے گئے تھے اور جن کا سامنا کرنے کی ہمت پاکستان کے حکمرانوں میں نہیں تھی۔

حکمران طبقوں کو ہر جگہ ،ہر خطے میں تاریخ کا خوف ہو تاہے۔ تاریخ فراموشی کے سمندروں میں ڈوبے ہوئے سچ کو سطح پر لے آتی ہے اور ایسے سچ کو سورج کی روشنی کے حوالے کر دیتی ہے۔ یہ ہمیںخود فریبی کے تاریک خوابوں میں ڈوبنے نہیں دیتی۔ تاریخ زخموں کو بھلا دینے کی صلاحیت کو بے دست و پا کر دیتی ہے ۔جیسے ایک شخص اپنے تکلیف دہ تجربات کو بھول جانا چاہتا ہے اور اپنے غلط اعمال کو یاد نہیں رکھنا چاہتا کہ کہیں ندامت کا شکار نہ ہو جائے، اسی طرح قومیں بھی اپنے ناقابل قبول اعمال کو یا د نہیں رکھنا چاہتیں اور کوشش کر تی ہیں کہ صرف وہی باتیں قومی یادداشت کا حصہ بن جائیںجو خوشگوار ہوں یا جن اعمال پر قوم خود پر فخر کر سکے۔ تاریخ ، اگر ایمانداری اور سچائی سے لکھی جائے تو قوم کا ضمیر جھنجوڑ دیتی ہے۔

یاد رکھنا ، یا بھول جانا، ایک سیاسی عمل ہے۔ بطور سیاسی عمل یہ طاقت کے رشتوں سے جڑا ہوتا ہے ۔ حکمران او ر طاقتور طبقے اس بات کا تعین کرتے ہیںکہ قوم کو ن سی باتیں بھلا دے گی اور کون سی یاد رکھے گی۔ انتخاب کے اس عمل میں یادوں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ یادیں ہوتی ہیں جو جائز قرار دی جاتی ہیں۔ اور دوسری طرف ایسی یادیں ہوتی ہیں جنہیں دبا دینا ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے ضمیر ملامت کرتا ہے۔ یاد رکھنے کی بھول جانے کی پوری صنعت، اداروں اور ٹیکنالوجی پر حکمران طبقوں اور طاقتور افراد کا قبضہ ہوتا ہے ۔ اس صنعت میں سرکار کے ادارے بھی شامل ہوتے ہیں، خاص طور پر ذرائع ابلاغ، علمی ،تحقیقی اور تعلیمی ادارے اور نجی سیکٹر بھی شامل ہوتا ہے ۔مثلاًنجی ذرائع ابلاغ، اخبارات ، ٹیلیویژن، رسائل و جرائد ،ریڈیواور تدریسی ادارے۔ یادداشت اور فراموشی کی ٹیکنالوجی میں درسی کتب ،طریقہ تدریس،کالم نگاری، خبر لگوانے کے طریقے ، مذاکرات ،ڈرامے ،فلمیں اور دیگر چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہم کیا یاد رکھیں گے اور کیا بھول جائیںگے ہمارے حکمران اور طاقتور طبقے طے کرتے ہیں عام لوگوں کے پاس یادداشت اور فراموشی کی تعمیر کے ادارے ا ور ٹیکنالوجی نہیں ہوتی کیونکہ ان پر کثیر سرمایہ لگتا ہے جو عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہوتا۔

عوام کے پاس صرف اپنی یادیں ہوتی ہیں جو انفرادی ذہن میں قید ہوتی ہیں۔ اگر یہ یادیں سرکاری یادداشت سے بر عکس ہوں تو اکثر افراد کواپنی یادوں پر شک ہونے لگتا ہے ۔ کیونکہ انسان ان یادوں میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے ۔ان کا اجتماعی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ مثلاً 1971کے بارے میں کئی افراد کو تلخ اور شرمناک حقائق یاد تھے۔ مگر یہ یادیں ٹیلیویژن ،ریڈیو،اخبارات اور درسی کتب کی طاقت کے آگے سراپا خاموشی بن گئیں۔ اسی طرح کئی عمر رسیدہ لوگوں کو تقسیم ہند کے دوران ہونے والے واقعات یاد تھے ،مگر وہ کچھ نہ کر پائے کیونکہ ان یادوں کا سرکاری یادداشت سے تضاد تھا۔ مثال کے طور پر میری والدہ(مرحومہ) ہمیں بتایا کرتی تھیں کہ جب ہندو مسلم فسادات ہوئے اور ان کے محلے میں ہندوئوں کے حملے کا ڈر پیدا ہوا تو ہمسائے میں رہنے والے خاندان کے 7ہندو بھائیوں نے ساری رات میری والدہ کے گھر پر پہرہ دیا اور میرے نانا سے کہا کہ وہ آرام سے سو جائیں ،اگر حملہ ہو اتو وہ پورے کنبے کی حفاظت کریں گے۔ میں نے اسی قسم کے واقعات اور بھی کئی بڑی بوڑھیوں سے سنے ۔مگر ان کا ذکر نہ تو درسی کتب میں پڑھا ،نہ تاریخ کی کتابوں میں اور نہ ذرائع ابلاغ کے مذاکروں اور پروگراموں میں سنا۔ قومی یادداشت تو صرف یہ بتاتی تھی کہ ہندوئوں اور سکھوں نے مسلمانوں کاقتل عام کیا اور عورتوں کی عزت لوٹی۔

کیا وجہ ہے کہ تاریخی یاداشت میں عام لوگوں کی ذاتی یادیں شامل نہیں ہوتیں؟ ایسے واقعات پر خاموشی کا پردہ کیوں ڈال دیا جاتا ہے ؟ کیا یہ یادیں غیر اہم ہوتی ہیں اور فرد کا تاریخ میں کوئی کردار نہیں ہوتا؟ اس خاموشی کی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ حکمران جب قومی یادداشت کی تعمیر کرتے ہیں تو ایک مخصوص نقطئہ نظر کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ جو بات اس مخصوص زاویے میںنہیں سما سکتی اسے فراموشی کے گہرے سمندر میں دھکیل دیتے ہیں ۔وہ صرف ان حقائق کا انتخاب کر لیتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہو اور ان کے نقطئہ نظر سے ہم آہنگ ہو۔ مثال کے طور پر سرکاری تاریخ اگر مذہب کے نقطئہ نظر سے لکھی جارہی ہو تو تمام تر ایسے واقعات کو بھلا دیا جاتا ہے جو لوگوں میں مذہبی تفریق کے خلاف ہوں ۔ایسی باتیں رقم نہیں کی جاتیں جو اس بات کا ثبوت دیں کہ مذہبی فرق کے باوجود لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھتے تھے، ایک دوسرے کی حفاظت کرتے تھے، ہندو عید مناتے تھے اور مسلمان ہولی اوردیوالی کے تہوار مناتے تھے۔ اس قسم کے واقعات ازلی ابدی دشمنی کے زاویے میں نہیں سماتے اور ذہن میں ہلچل پیدا کر دیتے ہیں ۔اگر تاریخ قوم پرستی کے نظریے کے مطابق قلمبند کی جائے تو تمام ایسی باتیں جو قوم کو کمزور اور ناتواں ظاہر کریں بھلا دی جاتی ہیں اور ان باتوں کو عیاں کیا جاتا ہے جو قوم کی طاقت ،عظمت اور شجاعت کی نشاندہی کریں ۔مثال کے طور پر پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے درمیانی عرصے میں جرمنی میں پڑھائی جانے والی تاریخ اس بات کا اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی کہ جرمن قوم پہلی عالمی جنگ ہار چکی تھی ۔ بلکہ یہ پڑھایا جاتا تھا کہ جرمن قوم نسلی طور پر دوسری قوموں سے برتر ہے اور عظیم ہے اور اس کی شکست کی وجہ اندرونی غداری اور یہودیوں کی سازش ہے۔قوم پرستی کے تحت پڑھائی جانے والی اس تاریخ میں جرمنی کی شکست کی وجہ بیرونی عوامل ٹھہرائے گئے اور جرمنی میں عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔ شکست اور جرمنی کی تضحیک کا ذمہ دار قطعی طور پر یہودیوں اور چند دیگر گروہوں کوٹھہرایا گیا۔ نتیجہ یہ ہو اکہ ساٹھ لاکھ یہودی مرد، خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور ہمسایہ ممالک پر یلغار کی گئی۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان کی نصابی کتب میں بھی قوم پرستی کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو تھا جس کی وجہ سے یہاں پر عسکریت پسندی اور جنگجو اقدار نے فروغ پایا۔ دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد دونوں ممالک ،جاپان اور جرمنی نے اپنے اپنے نصاب میںدور رس تبدیلیاں کیں۔

جرمنی اور جاپان کی ان مثالوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تاریخ کو دور حاضر کی ضروریات کے تحت لکھا جاتا ہے۔ جس دور میں حکمرانوں کے جو مقاصد سر فہرست ہوتے ہیں۔ یادداشت انہی مقاصد کی روشنی میں تعمیر کی جاتی ہے ۔ جب جرمن قوم کی غیرت جگانا اور یہودیوں کو مورد الزام ٹھہرانا مقصود تھا تو قوم پرستی کے آ ئینے میںیادوں کی ساخت کی گئی۔ لیکن آج جرمنی اپنی تاریخ کا یہ سیاہ باب بھول جانا چاہتا ہے۔ جرمنوں کے سامنے ہٹلر یا نازی دور کا ذکر کیا جائے تو وہ شرمندہ نظر آتے ہیں اور نظریں چراتے ہیں۔ انہیں اس یادداشت پر فخر نہیں شرمندگی ہے اور چند مؤرخ خاص طور پر اس دور کی یادوں کو تروتازہ رکھتے ہیں تاکہ آئندہ کبھی جرمنی یا کوئی اور ریاست اس قسم کے ظلم نہ ڈھائے۔

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ بشمول اخبارات اور تجزیہ نگار پوری طاقت کے ساتھ اس یاد کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کی کشمکش ہر دم عالمی ذرائع ابلاغ کا من پسند موضوع ہے۔ لیکن وہ اس بات کے تذکرے سے گریز کرتے ہیں کہ یہودیوں پر بہیمانہ ظلم فلسطین کے معصوم عوام نے نہیں کیا تھا بلکہ جرمنی کے شقی القلب حکمرانوں نے کیا تھا۔ اگر ماضی کا صحیح تجزیہ کیا جاتا تو ہٹلر کے کیے کی سزا فلسطین کے عوام کو نہ دی جاتی بلکہ اس کا ازالہ جرمنی کو کرنا چاہیے تھا ۔لیکن جرمنی طاقتور اور معاشی طور پر ترقی یافتہ ملک ہے۔ یہ امریکا اور برطانیہ کا اتحادی ہے لہذٰا اسے مورد الزام ٹھہراکر عالمی طاقتیں اس بات کا اعترا ف نہیں کرنا چاہتیں کہ دہشت گردی کے مرتکب کسی بھی مذہب کے عوام ہو سکتے ہیں ۔ جرمن مسلمان نہیں تھے بلکہ پروٹیسٹنٹ تھے لیکن آج کل مذہبی تعصب اور مذہبی نسل پرستی عروج پر ہے چنانچہ ماضی کو بھلا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مسلمان ہی دہشت گرد ہو سکتے ہیں اس لیے ان کے خلاف کارروائی کرنا جائز ہے ۔ لوگ اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیں گے میں اس کو تاریخ کی ستم ظریفی کہوں گی ۔اس تاریخ کی نہیں جو سچ پر مبنی ہو بلکہ اس تاریخ کی جو آج کل میڈیا میں بنائی جارہی ہے۔ اور میڈیا پھر بھی خود کو آزاد تصور کر تا ہے! اگر عالمی میڈیا آزاد ہوتا تو مذہبی ،نسلی اور قومی تعصبات کی غمازی کیونکر کرتا؟ چنانچہ آزاد میڈیا کی متھ جھوٹ پر پردے ڈالنے کی غرض سے بنائی جاتی ہے۔ ماضی کی کہانی کو از سر نو دیا جارہا ہے۔ چنانچہ تاریخ موجودہ حالات کے پیش نظر لکھی جا رہی ہے اور ہر دور کے اپنے تقاضوں کے تحت ہی لکھی گئی۔

جرمنی اور جاپان کی مانند فرانس، برطانیہ اور امریکا بھی اپنی تاریخ سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر نو آبادیاتی اور سامراجی نظام کی تاریخ کا معائنہ کیا جائے تو برطانیہ اور فرانس کے متعلق بہت سے تصورات تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ مغربی ممالک کے باشندے خود کو مہذب، جدید، عقلمند اور انسان دوست اقدار کے حامل تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے رڈیارڈکپلنگ کا یہ تصور اپنایا کہ وحشی ،پسماندہ اور جاہل لوگوں کو مہذب اور جدید بنانا سفید فام آدمی کا بوجھ ہے۔ انہوں نے اپنے فنون لطیفہ،علمی نظام،مصوری،شاعری اور دیگر طریقوں سے پوری دنیامیں یہ ثابت کر نے کی کوشش کی کہ سفید فام نسل کے افراد مادی،روحانی اور اخلاقی طور پر غلام قوموں کے افراد کی نسبت برتر ہیں اور عقل و فہم سے کام لیتے ہیں اورخود کو جذبات اور تعصبات اور توہم پرستی سے بچا کر رکھتے ہیں۔ لیکن اگر تاریخ کے اوراق کھولے جائیں تو ہمیں 1857ء نظر آتا ہے جب ہندوستان کے لوگوں کو توپوں کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا۔ دہلی میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا اور متعدد مقامی لوگوں کو صرف شک کی بنیاد پر گولی مار دی گئی۔ اسی طرح اگر ہم بیسویں صدی میں دیکھیں تو جلیانوالہ باغ میںجنرل ڈائر کے حکم پر ہزاروں افراد کے مجمع پر گولی چلا دی گئی۔ اسی قسم کے واقعات سے فرانس کی تاریخ بھی بھری پڑی ہے۔ ان واقعات سے اس تاثر کی نفی ہو جاتی ہے کہ یورپی قومیں اعلیٰ اقدارکی حامل ہیں اور اعلیٰ کردار کی مالک ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ کسی قوم سے کم قتل و غارت نہیں کرتیں۔اسی لیے ان قوموں کو بھی تاریخ کا خوف ہے کیونکہ ماضی ان کے دعویٰ سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔

امریکا میں تو تاریخ کو بالکل ہی اہمیت نہیں دی جاتی۔ کئی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تدریسی اداروں میں تاریخ کے شعبے ہی ختم کر دیے گئے ہیں۔ امریکی ماہرین نے 1959ء میں پاکستان کے نصاب سے بھی تاریخ کا حصہ کم کرنے کی تجویز دی اور اسے جغرافیہ اور شہریت کے ساتھ ملا کر معاشرتی علوم میں تبدیل کر دیا۔ امریکی ماہرین نے تاریخ کو قطعی طور پر ایک غیر ضروری اور شوقیہ مضمون قرار دیا۔ امریکا کے پاس تاریخ سے خوف محسوس کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔امریکا میں کرسٹوفر کولمبس کو بہت بڑا ہیرو مانا جاتا تھا کہ اس نے امریکا کو دریافت کیا۔ لیکن جب امریکا کے مقامی باشندوں نے اپنی تاریخ رقم کی تو انہوں نے کولمبس کو لٹیرا قرار دیا اور اس کے منفی پہلوئوں کو اجاگر کیا۔ تاریخ کے اس واقعہ سے پردہ ہٹا کر مقامی باشندوں نے ایک بہت بڑا جھوٹ کھول کر رکھ دیا ۔ اسی طرح امریکا میں لوگ تھینکس گیونگ(Thanks giving)کا تہوار بہت خوشیوں سے مناتے ہیں۔ لیکن وہاں کے مقامی باشندوں نے اس رازکو فاش کر دیا کہ جس واقعہ کو اس تہوار میں منایا جاتا ہے وہ دراصل سامراجی قوتوں کی فتح کا واقعہ ہے اور مقامی باشندوں کی شکست کا دن ہے۔ عام لو گ یہ تہوار اس طرح مناتے ہیں جیسے انہیں ماضی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔یہ وہ دن تھا جب مقامی لوگوں سے ان کی زمین چھین کر اس پر قبضہ جمایا گیا تھا۔ ایک شخص کی روٹی دوسرے شخص کا زہر ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے حکمران طبقوں کو تاریخ سے ڈر لگتا ہے کیونکہ وہ ایسے راز فاش کر سکتی ہے جو باعث شرمندگی ہوتے ہیں اور ایک جدید ،جمہوری اور اصولوں پر مبنی ریاست کے پول کھول دیتی ہے۔

امریکا کے لیے تاریخ سے فرار حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کی تاریخ تشدد، دہشت گردی اور سامراجی عزائم سے بھر پورہے۔ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے نہتی آبادیوں کے خلاف ایٹم بم کا استعمال کیا۔ کسی اور ملک نے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا ظلم نہیں کیا۔ اسی طرح ویتنام میںامریکا نے ایجنٹ اور نج(Agent Orange)کا استعمال کیا جو ایک مہلک ہتھیار ہے۔ ایٹم بم اور ایجنٹ اورنج کا استعمال صرف ایشیائی ممالک پر کیا گیا جس سے نسل پرستی کی بو آتی ہے ۔ ایسے ہتھیاروں کو سفید فام حریفوں کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا ۔ماضی قریب میں امریکا اور برطانیہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے دس لاکھ سے زائد افرادکو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ابھی موت اورخون کا یہ کھیل جاری ہے ۔ آئے دن بے شمار نہتے شہری ہلاک ہو رہے ہیں مگر امریکا اپنے تیور بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ ایسا ملک تاریخ کا سامنا کیسے کر سکتا ہے جس کو صرف عسکریت اور بربریت پر اعتقاد ہو اور پر امن طریقے سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو؟ چنانچہ امریکا تاریخ سے ہر دم خوفزدہ دکھائی دیتاہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

تاریخ کا خوف اور ماضی کو نئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش پاکستان اور بھارت نے بھی بڑھ چڑھ کر کی۔پاکستان میں اس عمل نے زیادہ تیزی جنرل ضیاء الحق کے دور میں اختیار کی ۔ جنرل ضیاء نے خاص طورپر کوشش کی کہ نصاب کی کتابوں میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں جن سے قوم کے جرائم قطعی طور پر چھپ جائیں اور صرف کارنامے نظر آئیں۔ قومی فراموشی کے اس باضابطہ عمل کی وجہ سے پاکستانی قوم 1971ء کے واقعات سے نبرد آزما نہ ہو سکی اور اس دور کو بھولنے کی کوشش کرتی رہی۔ ہندوستان میں یہ کوشش بھارتی جنتا پارٹی (BJP)دور میںعروج پر تھی۔ اگرچہ ہندوستان میں تاریخ کو قلمبند کرنے کی روش ابھی قائم ہے اور وہاں پر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تاریخ کی تلخیوں کو بھلانے کی کوشش کی گئی او ر قوم پرستی کے تحت تمام ترمظالم کا الزام دوسری قوموں، خصوصاً مسلمانوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں ابتدائی برسوں میں عوامی لیگ کی سوچ کے تحت تاریخ لکھی گئی جس میں مغربی پاکستان کا نام ہٹا کر صرف ''دشمن'' کا لفظ ڈال دیا گیا جس کی وجہ سے نئی نسل کے کئی طالب علموں نے سمجھا کے شاید بنگلہ دیش کی جنگ پاکستان سے نہیں بلکہ ہندوستان سے ہوئی تھی۔ جب ایک دفعہ پھر عوامی لیگ کا دور آیا توتاریخ سازی کا عمل ایک دفعہ پھر تبدیل ہو گیا۔

چنانچہ ہر دور میں تاریخ سازی کا عمل بدلتا رہتا ہے اور کیسی تاریخ لکھی جائے گی اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس وقت کے حکمران طبقے کون سے ہیں اور ان کی کیا ترجیحات ہیں ۔ماضی کے واقعات اور حالات تو ظاہر ہے کہ نہیں بدلتے، انہیں دیکھنے اور پرکھنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ تاریخ کے لکھنے پر کشمکش جنوبی کوریا، جاپان ،چین حتیٰ کہ ہر ملک میںہوئی ہے چین اور جاپان کو بھی ایک دوسرے کی تاریخ نویسی پر اعتراض ہے۔ ہر ملک اپنے جرائم پر پردہ ڈال رہا ہے اور اپنی خوبیوں کو اجاگر کر نا چاہتا ہے۔

کیا تکلیف دہ اور شرمندہ کر دینے والے ماضی سے دامن چھڑا لینا چاہیے؟ کیا فراموشی ایک ایسا مرہم ہے جس سے زخم مٹ جاتے ہیں ؟ کیا خود فریبی اعصاب کے لیے بہتر ہے تا کہ انسان ذہنی انتشار کا شکار نہ ہوجائے؟ کیا یادداشت ایک بیماری ہے جو انسان کو اضطراب میں مبتلا کر دیتی ہے ؟ کیا بھول جانے سے زخم ہلکے ہو جاتے ہیں ؟ قوموں اور ملکوں کا رویہ تو شتر مرغ سا ہی رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں گڑے مردے اُکھاڑنے کا کیا فائدہ؟ صرف مستقبل کا سوچنا چاہیے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ماضی سے نمٹے بغیر ہم حال کو سمجھ سکتے ہیں؟ آج جو فلسطین میںہو رہا ہے،یا عراق یا پاکستان میں قبائلی علاقوں میں ہو رہا ہے کیا ہم اس سب کو سمجھ سکتے ہیں۔ جب تک کہ ان معاملات کی تاریخ میںنہ جھانک کر دیکھیں؟ بلوچستان مرکز سے کیوں خفا ہے؟ سندھی پاکستان سے کیوں بیزار ہیں؟ خود کش حملے کیوں ہوتے ہیں؟ فرقہ ورانہ یا لسانی فسادات کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہم ان میں سے کوئی بھی بات صحیح طرح سمجھ پائیں گے جب تک کہ ہم ان امور کی تاریخ میں نہیں جائیں گے ؟ اگر ہم اپنے حال کو سمجھ ہی نہ پائے تو اس بات کا یقین کیسے کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟اگر کوئی شخص اپنی یادداشت کھو بیٹھے تو اپنی شناخت بھی کھو بیٹھتا ہے۔ وہ پاگل سا ہو جاتا ہے ۔اسے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کرے،کہاں جائے ،بلکہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ اسی طرح قومیں بھی اگر اپنا ماضی کھو دیں تو وہ اپنی پہچان بھی کھو بیٹھتی ہیں۔

آخر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم اجتماعی یادداشت کھو دیں تو کیا ہم مستقبل کو سنوار سکتے ہیں؟ جس طرح حال کا دارومدار ماضی پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح مستقبل کا انحصار بھی حال اور ماضی پر ہوتا ہے ۔کل ،آج اور کل تینوں ایک دوسرے سے ایک زنجیر کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔یہ زنجیر ٹوٹی تو ہم ٹوٹ جائیں گے۔

ماضی کو یاد رکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم اس سے سیکھ سکتے ہیں ۔اپنی غلطیوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کے تجربہ سب سے بہترین استاد ہوتا ہے لیکن اگر تجربات کو بھلا ہی دیا جائے تو ہم سیکھیں گے کیا؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو قومیں اپنا ماضی فراموش کر دیتی ہیں وہ اپنی غلطیوں کو دہرانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ آج ہم اگر اپنے سارے سرکاری ریکارڈ نذر آتش کر دیں گے تاکہ ہمارے جرائم راکھ کی ڈھیری کی طرح فضا میں تحلیل ہو جائیں تو کل مزید جرائم ہوں گے۔ کیا ہم چاہیں گے کہ 1971ء جیسا سانحہ ایک دفعہ پھر دہرایا جائے؟ اگر نہیں تو ہمیں نہ صرف ماضی سے فرار ترک کرنا ہوگا بلکہ ان تمام غلطیوں سے سیکھنا ہو گا جو ہم نے اجتماعی طور پر کیں اور اس بات کا اعادہ کرنا ہوگا کہ ہم سے پھر کبھی ایسی غلطیاں سرزدنہ ہوں۔

(بشکریہ : سہ ماہی ''تاریخ''لاہور)