working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

بیت اللہ محسود کا سفر
سجاد اظہر
پاکستان میں خود کش حملوں کے حوالے سے شہرت حاصل کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود آج پاکستان کے انتہائی مطلوب افرادمیں سرفہرست ہیں انہوں نے وزیرستان کے اندر اپنی ایک الگ ریاست بنا رکھی ہے جہاں سے وہ پاکستان بھر میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور انہیں عملی شکل دے رہے ہیں۔ سیکورٹی ادارے ان کا اولین ہدف ہیں اور اس کے بعد ہر وہ فرد ان کی ہٹ لسٹ پر ہے جو انہیں غلط اور حکومت کو صحیح قرار دیتا ہے۔ اس حوالے سے سینکڑوں ہزاروں لوگ ان کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں بعض انتہائی نامی گرامی لوگ بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو ایک خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا ہے جو خود کش حملوں کو حرام قرار دیتے تھے اور اس سے قبل پشاور میں مولانا حسن جان کو بھی اسی بنا پر شہید کیا گیاتھا۔

حال ہی میں حاجی ترکستان بٹینی نے ایک زبردست انکشاف کر کے ہلچل مچا دی ہے کیوں کہ اس سے قبل بیت اللہ محسود اس بات سے انکاری تھے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو قتل کرایا ہے مگر حاجی ترکستان کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت وہ بیت اللہ محسود کے ساتھی تھے اور خود بیت اللہ محسود نے انہیں بتایا تھا کہ انہوں نے بے نظیر کو قتل کرانے کے لیے دو بندے راولپنڈی بھیج دیے ہیں۔ حاجی ترکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیت اللہ محسود امریکی ایجنٹ ہے اس لیے اسے ڈرون حملوں میں کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ادھر بیت اللہ محسود کے حریف کمانڈ ر قاری زین الدین محسود کا بھی بیان بہت انکشاف انگیز ہے جو کہتے ہیں کہ بیت اللہ محسود کے اسرائیل اور بھارت کے ساتھ رابطے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بیت اللہ محسود نے تحریک طالبان پاکستان بنائی تو ہمارے درمیاں اختلاف پیدا ہوئے کیوںکہ ہم ملک کے اندر کارروائیوں کو خلاف اسلام سمجھتے ہیں اور جب مولانہ حسن جان نے خود کش حملوں کو حرام قرار دیا تو تین دن بعد انہیں قتل کروا دیا۔ قاری زین الدین کے اس انٹرویو کے چار دن بعد اسے اپنے ایک محافظ نے قتل کر دیا۔ جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اس کے پیچھے بھی بیت اللہ محسود کا ہاتھ ہے۔

بیت اللہ محسود کے ایک حلیف اور ایک حریف کے بیانات سے قبل پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ فوج کو بیت اللہ محسود کے خاتمے کا ٹارگٹ مل چکا ہے ۔ مالاکنڈ کے ساتھ ہی وزیرستان آپریشن کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ آنے والے دن یہ فیصلہ کریں گے کہ بیت اللہ محسود کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ پاکستان کے انتہائی مطلوب ملزم کے سفر زیست پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہمارے قارئین یہ جان سکیں کہ بیت اللہ محسود کون ہے اور وہ کیا کرتا رہا ہے؟

بیت اللہ محسود 1970 کے اوائل میں ضلع بنوں کے گائوں لنڈی ڈھوک میں پیدا ہوا جو وزیرستان ایجنسی کے محسود قبائل کا علاقہ بھی ہے۔ وہ محسود قبائل کی ذیلی شاخ برومی خیل سے،جو کہ شبی خیل قبیلہ سے جڑی ہوئی ہے ، تعلق رکھتا ہے۔ وہ اپنے پانچ بھائیوں میں سے ایک ہے۔ بیت اللہ تصویر کو حرام سمجھتا ہے اس لیے ایک آدھ تصویر کے علاوہ اس مشہور و معروف کمانڈر کی تصاویر اور وڈیوز دستیاب نہیں ہیں۔ وہ سکول کبھی نہیں گیا البتہ کچھ حد تک دینی تعلیم بنوں میں ایک مدرسہ سے حاصل کی۔ ایک نوجوان طالب علم کے طور پر بیت اللہ محسود افغانستان چلا گیا جہاں وہ طالبان کے دور حکومت میں شریعت کے نفاذ میں ان کی مدد کرتا رہا۔

بیت اللہ محسود کا نام پہلی بار 2004 میں اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنا جب نیک محمد مارا گیا اور اس کی جگہ ملا عمر نے بیت اللہ محسود کو کمانڈر نامزد کر دیا۔ اس سے قبل بھی ایک بار اسے مختصر مدت کے لیے کمانڈر مقرر کیا گیا تھا جب نیک محمد نے شکئی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس پرطالبان کو شدید تحفظات تھے۔جس کی روشنی میں طالبان کا وفد جس کی قیادت طالبان کے سپریم کمانڈر ملا داد اللہ اور طالبان کے سابق وزیر دفاع ملا جلال الدین حقانی کر رہے تھے ۔ اُس نے مئی 2004 کے پہلے ہفتے میں قبائلی علاقے کا دورہ کیا۔ طالبان ، نیک محمد کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے بالخصوص حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد ، علاوہ ازیں وہ جنگجو جو کہ زیادہ تر محسود قبائل سے تعلق رکھتے تھے ان کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ نیک محمد اقربا پروری کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس نے اہم عہدے زلی خیل ،جو کہ نیک محمد کا قبیلہ ہے ، سے وابستہ لوگوں کو دے رکھے ہیں۔ جس پر ملا داد اللہ نے نیک محمد کو ہٹا کر بیت اللہ محسود کو کمانڈر مقرر کر دیامگر زلی خیل قبیلہ سے وابستہ جنگجوئوں نے بیت اللہ محسود کو امیر ماننے سے انکار کر دیا بعد ازاں نیک محمد کو اس یقین دہانی پر کہ وہ طالبان کا وفادار رہے گا ، اسے عہدے پر بحال کر دیا گیا۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ متحدہ مجلس عمل کے رہنما ، جن میں مولانا فضل الرحمن بھی شامل تھے ، نیک محمد اور قبائلی جنگجوئوں پر خفیہ ایجنسیوں کے کارندے ہونے کا الزام عائد کرتے رہے۔ بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام (س) کے ایم این اے مولانا شاہ عبدالعزیز مجاہد نے ایک اخباری بیان میں مولانا فضل الرحمن کی جانب سے لگائے جانے والے الزام کی شدید مذمت کی اور کہا کہ قبائلی جنگجوئوں کے خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ کسی قسم کے کوئی مراسم نہیں اور وہ صرف خدا کی خوشنودی کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔

نیک محمد کی ہلاکت کے بعد بیت اللہ محسود طالبان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں وزیرستان میں چیف آپریشنل کمانڈر بنادیا گیا۔ بیت اللہ محسود نے نیک محمد کے زلی خیل قبیلہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں اہم عہدے دیے۔ ہزارہ وزیر خاندان کے کمانڈر جاوید ، یار گل خیل خاندان کے مولوی عبد العزیز اور اکا خیل قبیلے کے مولوی عباس کو اسی پس منظر میں آگے لایا گیا۔ بیت اللہ محسود نے اگرچہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد طالبان میں عملی شمولیت اختیار کر لی تھی مگر نیک محمد کے بعد اس کی بطور کمانڈر تعیناتی کے پیچھے طالبان کا یہ مقصد بھی کارفرماتھا کہ محسود قبائل کو متحرک کیا جائے جو کہ قبل ازیں طالبان کی کارروائیوں اور بغاوت میں سرگرمی سے حصہ نہیں لے رہے تھے۔ بیت اللہ محسود کے چونکہ طالبان کے ساتھ بہت مضبوط روابط تھے اس لیے پاکستانی حکام ان پر الزام لگاتے رہے کہ وہ مجاہدین کو افغانستان بھیجتے ہیں جو اتحادی افواج کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ بیت اللہ محسود کے علاقے کی سرحدیں اگر چہ افغانستان سے نہیںملتیںمگر ان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم طالبان کمانڈروں سے روابط ہیں جن کے ذریعے وہ مجاہدین کو افغانستان بھیجتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے افغان طالبان کو اپنے علاقے میں پناہ بھی دے رکھی ہے۔ 2006 میں حکومت کے حلیف قبائلی طالبان جن کی قیادت مولوی نذیر کر رہے تھے، انہوں نے ازبک جنگجوئوں کو وانا سے ،جو کہ وزیرستان کا صدر مقام ہے ، نکال باہر کیا جنہوں نے بیت اللہ محسود کے پاس پناہ لے لی ۔ وہ عرب مجاہدین جو کہ القاعدہ سے تعلق رکھتے تھے ان کو بھی بیت اللہ محسود نے پناہ دی اس کے علاوہ بیت اللہ کے جتنے ہم خیال لوگ تھے انہیں وہ اپنے علاقے میں اکٹھا کرتا رہا جو اس بات کا بھی بین ثبوت ہے کہ اس کے زیر اثر بہت سا علاقہ ہے جہاں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ اس دبائو کا نتیجہ تھا کہ حکومت بھی بیت اللہ محسود کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئی اور فروری 2005 میں جنوبی وزیرستان کے علاقے ساروغہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے گئے ۔ حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ عبداللہ کمال جب کہ طالبان کی جانب سے خود بیت اللہ محسود نے معاہدے پر دستخط کیے۔

معاہدے کے تحت فوج بیت اللہ محسود کے زیر اثر علاقوں سے چلی جائے گی لیکن ایف سی جو کہ زیادہ تر پشتونوں پر ہی مشتمل ہے وہ علاقے میں موجود رہے گی۔ جس کے جواب میں بیت اللہ محسود اور ان کے رفقا ء حکومتی اہل کاروں اور ترقی سکیموں کے لوگوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے ۔ غیر ملکی جنگجو صرف اپنے علاقوں تک محدود رہیں گے۔ بیت اللہ محسود کو 20 ملین امریکی ڈالر کی پیشکش بھی کی گئی مگر انہوں نے یہ رقم وصول کرنے سے انکار کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ یہ رقم فوجی آپریشن سے متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کی جائے۔ مگر یہ معاہدہ جولائی 2005 میں ختم ہوگیا ،بیت اللہ نے دوبارہ سیکورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیے۔ جون 2006 میں ڈان نیوز نے خبر دی کہ طالبان کے اتحادی وزیر قبائل پاکستانی فوج کے ساتھ ایک اور فائر بندی کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ فروری 2002 میں بیت اللہ محسود نے کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ ایک اور فائر بندی کے لیے راضی ہیں لیکن پاک فوج نے کہا کہ بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن جاری رہے گا۔ لیکن نیویارک ٹائمز کے بقول ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت بیت اللہ محسود کے ساتھ معاہدہ چاہتی تھی۔ جولائی 2008 میں بیت اللہ محسود نے سرحد میں اے این پی کو دھمکی دی کہ وہ پانچ دنوں کے اندر اندر حکومت سے الگ ہوجائے بصورت دیگر اسے نشانہ بنایا جائے گا۔ جس کے بعد اے این پی کے صدر اسفند یار ولی پر خودکش حملہ ہوا جب کہ اے این پی کے کئی کارکن مارے جاچکے ہیں۔

بیت اللہ محسود کو خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔ خود بیت اللہ محسود نے متعدد مرتبہ خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول بھی کی ہے۔ سیکورٹی فورسز نے جن خود کش حملہ آوروں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے گرفتار کیا وہ سبھی اپنا تعلق بیت اللہ محسود سے بتاتے ہیں اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بیت اللہ محسود ہی اکثر حملوںمیں ملوث ہے۔ 2004 میں50 ، 2008 میں63 اور 21 جون 2009 تک 29 خود کش حملے ہو چکے ہیں جن کا ذمہ دار بیت اللہ محسود کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ ایک بار پھر جیسے ہی فوج نے وزیرستان کا رخ کیا ملک بھر میں خودکش حملوں کی خطرناک لہر آگئی ہے۔ اس سے قبل میرٹ بم دھماکہ، ایف آئی اے لاہور ، ون فائیو لاہور، مناواں پولیس سٹیشن پر حملہ، پی سی لاہور جیسے بڑے حملوں کی ذمہ داری بھی بیت اللہ محسود قبول کر چکا ہے۔

27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد واپس جارہی تھیں۔ اس حملے کی ذمہ دری بھی بیت اللہ محسود پر ڈالی جاتی ہے۔ 28 دسمبر کو حکومت نے دعوی کیا کہ اس نے بیت اللہ محسود اور ایک مولوی کے درمیان ہونے والی گفتگو ریکارڈ کی ہے۔ جس میں مولوی صاحب کارروائی مکمل کرنے کی اطلاع دے رہے ہیں۔ جس کے بعد بیت اللہ محسود پوچھتے ہیں کہ یہ کارروائی کس نے کی تو مولوی صاحب جواب دیتے ہیں کہ سعید، بدر والا بلال اور اکرام اللہ نے، بیت اللہ محسود اس وقت مکین میں موجود تھے ۔ تاہم بیت اللہ کے ترجمان نے بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کو ڈرامہ قرار دیا اور کہا کہ بے نظیر بھٹو کی موت ایک المیہ ہے جس پر بیت اللہ محسود کو بھی صدمہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلیوں کی اپنی روایات ہیں اور وہ عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے مگر 2 جنوری 2008 کو پرویز مشرف نے اپنے قوم سے خطاب میں ایک بار پھر کہا کہ مولانا فضل اللہ اور بیت اللہ محسود ہی بے نظیر کے قتل میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ 18 جنوری 2008 کو واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے پیچھے بیت اللہ محسود کا ہاتھ ہے۔ اور ساتھ القاعدہ نیٹ ورک کی مدد بھی شامل ہے۔ جس کے بعد امریکی صدر جارج بش نے بیت اللہ محسود کو اس لسٹ میں شامل کر لیا جس کے تحت انہیں زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر 5 ملین ڈالر انعام کا اعلان کیا گیا۔ تاہم اس سے قبل پاکستانی حکام یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ انہوں نے تین بار بیت اللہ محسود کی موجودگی کا پتہ بتایا مگر امریکی ڈرون نے اسے نشانہ نہیں بنایا۔ جس کے پس منظر میں ایک مفروضہ یہ بھی پروان چڑھا کہ بیت اللہ محسود امریکہ کا آدمی ہے۔ کیونکہ2005 سے جب سے بیت اللہ محسود نے پاکستانی فورسز کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا ہے اس کے بعد سے افغانستان میں امریکہ کے خلاف طالبان کی کارروائیوں میں کمی آگئی ہے۔ کیونکہ وہ طالبان جو کہ پاکستان سے افغانستان جاتے تھے اب وہ پاکستان میںہی مشغول ہو گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ بات امریکہ کے مفاد میں جاتی ہے۔ خود امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کے اندر طالبان کی کارروائیاں بڑھنے کے بعد، افغانستان کی تحریکِ مزاحمت میں 40 فی صد کمی آئی ہے۔

بیت اللہ محسود ، تحریک طالبان پاکستان کے امیر ہیں جنہوںنے وزیرستان میں ریاست کے اندر اپنی ریاست بنا رکھی ہے۔ جہاں ان کی اپنی فوج ہے، اپنا نظام ہے اور اپنی عدالتیںہیں ایک اندازے کے مطابق ان کے پاس 40 ہزار تک جنگجو موجود ہیں، جن کو ماہانہ بنیادوں پر دس سے بارہ ہزار فی کس تک تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ گورنر سرحد اویس احمد غنی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ بیت اللہ محسود کا سالانہ خرچہ تین ارب روپے ہے اور یہ سارا پیسہ اسے پاکستان سے باہر موجود اپنے خیر خواہوں سے مل رہا ہے۔ اسے اسلحے کی خریداری اور خودکش حملوں کے لیے بارود کی دستیابی میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا ۔ مثلاً اسلام آباد میں ڈنمارک کے سفارت خانے کو نشانہ بنانے کے لیے ملا عمر نے اسے 70 ہزار ڈالر ادا کیے۔

اسی طرح بیت اللہ محسود نے اپنے علاقے میں اپنی طرز کی شریعت قائم کر رکھی ہے ۔ لڑکیوں کے سکولوں کو بند کردیا گیا ہے۔میوزک اور ویڈیو کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ اگر کسی گاڑی میں ٹیپ ریکارڈر لگا ہو تو گاڑی ضبط ہوجاتی ہے ۔ بیت اللہ نے قبائلی علاقوں میں 20 ایف ایم سٹیشن قائم کر رکھے ہیں جن کے ذریعے تبلیغ اور اپنی رٹ قائم کرنے کا کام لیا جارہا ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے کمانڈر سیف الرحمن جنہوں نے عرصہ قبل اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی وہ بیت اللہ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ تکبیر کے صحافی اسلم اعوان کاکہنا ہے کہ بیت اللہ محسود نے گذشتہ سال جون میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جس کے ذمہ وزیرستان سے جرائم کا خاتمہ تھا۔ جس کے بعد مقامی لوگوں نے بیت اللہ محسود کی حمایت شروع کر دی۔ یہی وجہ تھی کہ فوج ، وزیرستان میں کامیاب نہ ہو سکی، حکومت اور امریکہ کے حامی لوگ وزیرستان میں قتل کر دیے گئے۔ بیت اللہ کا لشکر بہت منظم ہے جس کے کئی یونٹ ہیں اور ہر یونٹ کی الگ ذمہ داری ہے۔ حال ہی میں عقیل یوسفزئی کی کتاب ''طالبانائزیشن ''منظر عام پر آئی ہے جس میں بیت اللہ محسود کے نیٹ ورک پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس کے مطابق جن علاقوں میں اس گروپ کے کمانڈر اور حامی مصروف عمل ہیں ان میں جنوبی اور شمالی وزیرستان ، کرم اور کزئی، مہمند،خیبر اور باجوڑ کی قبائلی ایجنسیاں شامل ہیں۔ یہ واحد گروپ ہے جس نے پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں بھی اپنی شاخیں قائم کر رکھی ہیں اور اس کو وہاں سے افرادی قوت بھی ملتوی ہے۔ جب کہ صوبہ سرحد کے ایک درجن سے زائد اضلاع میں بھی اس کے حامی موجود ہیں۔ جنوبی وزیرستان کا علاقہ مکین اس کے گروپ کاہیڈ کوارٹر ہے۔ جنوبی وزیرستان میں (1)قاری حسین ولد محمد الیاس علاقہ سرا روغہ(2)کمانڈر سلیم ساکن لدھا(3)رئیس خان ساکن وزیرستان (شرعی عدالتوں کا قاضی القضاء بھی رہا ہے)(4)کمانڈر عظمت اللہ قوم شوبی خیل ساکن بروند(5)مولوی حکیم اللہ المعروف جمشید شامل ہیں۔ قاری حسین احمد کا یہ گروپ خود کش اسکواڈ اور پرتشدد کارروائیوں کی شہرت رکھتا ہے۔

شمالی وزیرستان میں محسود گروپ کے قابل ذکر عہدیدار کمانڈر یہ ہیں:
(1)مولانانور سید امیر برائے شمالی وزیرستان ساکن رزمک سروبی (یہ کمانڈر خیبر اورکزئی ایجنسی میں بھی فرائض انجام دے چکا ہے(2)کمانڈر فقیر داوڑ المعروف ڈاکٹر (کمانڈر برائے میران شاہ) (3)کمانڈر حاجی آفتاب خان (انچارج برائے میر علی اور مولوی عبداللہ۔ آخر الذکر وہ شخص ہے جس کا کام غیر ملکیوں کو پناہ دینا اور ان کے معاملات کی ذمہ داری پوری کرنا ہے۔

دیگر جو اہم کمانڈر دوسری ایجنسیوں میں بیت اللہ گروپ کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں ان میں کمانڈر حکیم اللہ (اورکزئی ، کرم خیبر کا انچارج) رحمان اللہ، حضرت علی (خیبر ایجنسی) کمانڈر عمر خالد (مہمند ایجنسی) اور حاجی فقیر محمد(باجوڑ ایجنسی قابل ذکر ہیں) ان کمانڈروں نے اپنے زیر قیادت علاقوں میں اپنے طور پر دوسرے کمانڈر بھی تعینات کیے ہوئے ہیں۔اسی طرح باجوڑ ایجنسی میں مولانا فقیر محمد کی ٹیم جن اہم کمانڈروں پر مشتمل ہے ان میں نائب امیر مولانا سید محمد، ترجمان مولوی عمر، محسود سالار، کمانڈر شینا، عنایت الرحمن اور کمانڈر عبداللہ شامل ہیں ۔ بعض فروعی اختلافات کے باوجود درہ آدم خیل طالبان کے کمانڈر طارق اور کرم ایجنسی کے کمانڈر قاری حسین کو عملاً بیت اللہ محسود گروپ ہی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات ، بلوچستان اور سندھ کے طالبان کی وابستگی بھی بیت اللہ محسود گروپ ہی کے ساتھ چلی آرہی ہے۔

اس کے علاوہ شمالی وزیرستان کے مقامی طالبان کا گروپ 2007-08کے دوران بیت اللہ محسود کی تحریک طالبان پاکستان ہی کا حصہ تھا تاہم بعض اختلافات کے باعث 2008 کے دوران یہ لوگ ٹی ٹی پی سے الگ ہو گئے (2009 کو دوبارہ اتحاد قائم کیا) اس گروپ کے امیر کا نام حافظ گل بہادر قوم خیل وزیر ہے۔ اس گروپ کے نائب امیر مولوی نذیر ہیں جو جنوبی وزیرستان میں اس گروپ کے انچارج ہیں۔ ترجمان کا نام مفتی ابو ہارون ہے جو جنوبی وزیرستان کے رہائشی ہیں۔ اس گروپ کو مشہور شخصیت مفتی صادق نور کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس گروپ کے دوسرے قابل ذکر کمانڈروں کے نام اور تفصیلات یہ ہیں:
مولوی علم خان قوم خوشحالی وزیر (کمانڈر میر علی) سیف اللہ قوم کابل خیل وزیر(کمانڈر شیواہ، سپین روم۔ کمانڈر آزاد خان(انچارج میران شاہ) ابو شعیب (کمانڈر غلام خان) خالد خان (کمانڈر جانی خیل ایف آر بنوں) گروپ کے سربراہ حافظ گل بہادر دتہ خیل علاقے کا عسکری کمانڈر بھی ہے۔

جنوبی وزیرستان میں گل بہادر کا اتحادی مولوی نذیر حقانی بیت اللہ گروپ کے بعد تیسری بڑی قوت کا حامل شخص ہے۔ مولوی نذیر اور عبد السلام ساکن وانا کا شمار ان کمانڈروں میں ہوتا ہے جو وزیرستان میں غیر ملکی جنگجوئوں کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے خلاف صف آرا ہوئے۔ کمانڈر نذیر نے 2007 کے اوائل میں حکومت پاکستان کی مدد سے ازبک کمانڈر طاہر یلدوف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف لشکر کشی بھی کی اور ان کو علاقے سے نکال دیا تھا۔ حافظ گل بہادر بھی اس کام میں ان کی معاونت کررہے تھے۔ بنیادی طور پر یہ گروپ غیر ملکیوں کی مخالفت، محسود مزاحمت کاروں سے مخاصمت اور حکومت پاکستان کی حمایت کا پس منظر رکھتا ہے۔ حاجی نذیر کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں جو اہم کمانڈر موجود ہیں ان میں کمانڈر محمد ولی المعروف ملنگ ساکن برمل قوم گنگی خیل، شمس اللہ ولد زرداد خان ساکن برمل قوم کرمل خیل وزیر، حلیم اللہ قوم طوبی خیل وزیر ساکن وانا اور تحصیل خان ساکن شکئی قوم وزیر شامل ہیں۔

نومبر 2008 کے دوران جنوبی وزیرستان میں مرحوم کمانڈر عبداللہ محسود کا گروپ پھر منظر عام پر آیا اس گروپ کی قیادت قاری زین الدین محسود کر رہے ہیں (اس تحریر کے چھپنے تک انہیں قتل کر دیا گیا)جب کہ ان کو پانچ سو کے قریب جنگجوئوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ گروپ بیت اللہ محسود کی مخالفت میں قائم کیا گیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس کو پاکستان کی ان قوتوں کی حمایت حاصل ہے جو کہ بیت اللہ کا اثر کم کرنا چاہتی ہیں۔ کمانڈر عبداللہ محسود پر چینی انجنیئروں کے اغوا کا بھی الزام ہے۔

وزیرستان میں امریکی جاسوس ہونے کے ناطے اب تک سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ مثال کے طور پر ایک لڑکے جس پر جاسوس ہونے کا شبہ تھا اس کو سوئی دھاگہ اور کفن بھیجا گیا اور کہا گیا کہ وہ آخرت کی تیاری کر لے ۔ اس کے 24 گھنٹوں بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ ایسے واقعات اب بیت اللہ کے علاقے میں معمول بن چکے ہیں۔ بیت اللہ محسود نے گذشتہ دنوں کیڈٹ کالج رزمک کے طلباء کو اغوا کر لیا ۔ جب ان طلبا کو مشروط طور پر رہا کیا گیا تو بیت اللہ محسود کا کہنا تھا کہ انہیں طلبا ء کی گرفتاری کا دکھ ہے اور وہ ایسا نہیں چاہتے تھے تاہم انہوں نے رہائی پر طلباء کو تحائف اور آٹو گراف بھی دیے۔

بیت اللہ محسود ایک عرصہ سے پاکستان بھر میں خوف اور دہشت کی علامت بنا ہوا ہے جس نے اب تک سینکڑوں لوگوں کو بموں اور خودکش حملوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس کے خلاف فوج ایک بار پھر فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کر چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آپریشن کامیاب ہوتا ہے یا پھر اسے ایک بار پھر کسی مصلحت کے تحت روک دیا جاتا ہے۔ ماضی میں جب فوج بیت اللہ کے خلاف برسر پیکار تھی تو اسے بیت اللہ کے کئی مخالف کمانڈروں کی حمایت بھی حاصل تھی، جب بعد ازاں فوج نے بیت اللہ کے ساتھ امن معاہدے کیے تو بیت اللہ کے مخالفین یا تو اس کے غیض و غضب کا نشانہ بن گئے یا پھر وہ بیت اللہ کا ساتھ دینے پر مجبور ہوگئے۔ وزیرستان میں گذشتہ مہینوں میں اسی تناظر میں ایک اتحاد وجود میں آیا جس میں بیت اللہ محسود کے مخالف کمانڈر وانا کے مولوی نذیر اور میرانشاہ کے حافظ گل بہادر نے اس کے ساتھ اتحاد کر لیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ملا عمر نے اس اتحاد کے لیے اہم ترین کردار ادا کیا ۔ مگر حالیہ دنوں میں حاجی ترکستان نے ان کے خلاف بیانات دے کر یہ ظاہر کر دیا ہے کہ حکومت بیت اللہ محسود کو تنہا کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک طرف بیت اللہ محسود کو الگ تھلگ کیا جارہا ہے اور دوسری طرف ان کے حریف کمانڈروں مثلا قاری زین الدین محسود جیسے لوگوں کو مدد فراہم کی جارہی ہے ۔ بیت اللہ محسود ایک خطرناک ٹارگٹ ہے جس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں وہ نہ صرف چھاپہ مار کارروائیوں کا ماہر ہے بلکہ دائو پیچ میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ قاری زین الدین کا قتل اس کی واضح مثال ہے۔ماضی میں جس طرح اس نے ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنایا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اس طرح کی کارروائیوں کا اتکاب کر سکتا ہے۔ دوماہ قبل اپنے ایک انٹرویو میں وہ ایک حیران کن حملے کی پیشگی اطلاع دے چکا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ نشانہ بناتا ہے یا پھر بن جاتا ہے۔