working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

عقیل یوسف زئی کی کتاب"طالبانائزیشن"
صفدر سیال
غالباً 30 مئی 2009 کو پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے یہ خبر شائع کی کہ پاکستانی فوج نے سوات کے ایک گائوں ''پیو چار'' سے طالبان اور دیگر جنگجوئوں کا صفایا کر دیا ہے۔

بہت سے اسلحہ اور بارود کے علاوہ سیکورٹی فورسز کو اقوام متحدہ کے زیر استعمال 12 گاڑیاں بھی ملیں جو جنگجواغوا کر کے یہاں لائے تھے۔ لیکن جب نظر ، خبر کے اس حصے پر پہنچی جس میں ''پیوچار'' میں موجود چار غاروں کا ذکر تھا تو ذہن عقیل یوسف زئی کی تازہ کتاب ''طالبانائزیشن '' اور اس کی باتوں کی طرف چلا گیا۔ وہ 2007کے اوائل سے یہ کہہ رہا تھا کہ سوات میں طالبان کے ساتھ ساتھ بہت سے جہادی گروہ اور القاعدہ سرگرم عمل ہیں اور پیوچار گائوں اس کا تربیتی کیمپ اور اس میں موجود غاریں ان کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ یہ سب باتیں اس نے اپنی اس کتاب میں بڑی تفصیل سے دہرائی ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب طالبان اور ان کے اتحادی قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد تک محدود نہیں رہے اور شاید پورے پاکستان میں اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں یہ کتاب اس لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ یہ سادہ زبان میں عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرتی ہے۔ پاکستانی عوام خاص طور پر اُس پشتون قوم کے لیے یہ آگاہی ازحد ضروری ہے جو ابھی تک طالبان اور دیگر جنگجو گروپوں کے اصل عزائم ، سرگرمیوں اور ''اعمال'' سے بے خبری کی وجہ سے بسا اوقات ان کی حمایت کرجاتے ہیں اور یہی حمایت یا عدم مخالفت ان جنگجوئوں کو تقویت دیتی چلی آرہی ہے۔

27 ابواب پر مشتمل یہ کتاب 70 کی دہائی کے اواخر میں شروع ہونے والی افغان سوویت جنگ سے لے کر سوات میں طالبان کے خلاف موجودہ حکومتی جنگ تک پاکستان میں طالبان اور دیگر مذہبی جنگجو گروہوں کے ارتقاء اور گٹھ جوڑ، حکومتی پالیسیوں، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے کردار، امریکہ اور دیگر ممالک کے کردار اور دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ کے مستقبل کے حوالے سے ایک بے لاگ تبصرہ ہے۔ اس کتاب کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ مصنف نے ہر بات کو پاکستان کے تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ ورنہ اس موضوع پر ہونے والی بہت سی بحث افغانستان اور امریکہ سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے اور طالبان کو بھی صرف افغانستان کا ایک مظہر گردانا جاتا ہے۔

مصنف نے پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں خاص طور پر سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران جب بہت سے ممالک مجاہدین کی بھرتی اور ان کی تربیت کے لیے پاکستان کو ایک بیس کیمپ کے طور پر استعمال کر رہے تھے تو کسی نے یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ اس جنگ کے مابعد اثرات کیا ہوں گے اور مختلف قومیتوں ، ثقافتوں اور روایات کی موجودگی میں کیا پاکستان اس کو برداشت کر بھی سکے گا یا نہیں؟ کیا پاکستان افغان مجاہدین کے توسط سے ہونے والی ثقافتی اور تہذیبی یلغار کا مقابلہ کر سکے گا ، جس میں کلاشنکوف کلچر، ہیروئن اور سمگلنگ کے مکروہ دھندے سامنے آئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن عناصر کو اسلامی جہاد کے لیے افغانستان بھیجا جا رہا ہے ان کا اگلا ہدف کیا ہوگا؟ اور اگر یہ ہدف پاکستان ٹھہرا جیسا کہ اب واضح ہو رہا ہے ،تو پھر کیا ہوگا؟

مصنف اس ضمن میں پاکستانی حکمرانوں، ریاستی اداروں، مذہبی رہنمائوں اور سیاست دانوں کے کردار میں کوئی زیادہ فرق نہیں دیکھتا۔

مصنف نے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں جنگجوئوں کے جن مختلف گروہوں اور ان کی ذیلی شاخوں پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے ان میں حقانی گروپ، بیت اللہ محسودکی تحریکِ طالبان پاکستان، مقامی طالبان تحریک، مہدی ملیشیا، حیدری طالبان، لشکر اسلام، انصار الاسلام اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر شامل ہیں۔

مقامی قیادت کے حامل ان آٹھ بڑے گروپوں کے علاوہ جو دوسرے جہادی گروپ قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کے متاثرہ اضلاع میں طالبانائزیشن کے لیے متحرک ہیں ان میں لشکر طیبہ ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، حرکة المجاہدین، جیش محمد اور حرکة المجاہدین الاسلامی جیسے سات منظم گروہ شامل ہیں جو کہ کشمیر کی تحریک میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ معاملات میں بھی ملوث رہے ہیں۔

یہ گرو پ عالمی دبائو کے تحت حکومت پاکستان کی طرف سے پابندیاں لگنے کے بعد ان علاقوں میں آئے، کشمیر اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی ان تنظیموں کے براہ راست رابطے وزیرستان کے حقانی گروپ کے ساتھ رہتے ہیں جب کہ بیت اللہ محسود بھی ان کی معاونت کرتے ہیں۔

بات صرف یہی ختم نہیں ہو جاتی۔ بہت سی غیر ملکی تنظیمیں اور ان کے جنگجو بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم عمل ہیں جن میں القاعدہ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور چینی مزاحمت کاروں پر مشتمل تین یا اس سے زیادہ گروپ شامل ہیں۔ ان غیر ملکی تنظیموں کے رہنما اور کمانڈر وزیرستان، کرم اور باجوڑ کی ایجنسیوں کو بطور بیس کیمپ استعمال کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر امریکی ڈرون حملے انہی علاقوں میں ہوئے ہیں۔ باجوڑ ایجنسی کے الزرقاوی اور الظواہری گروپوں کا القاعدہ کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔

مصنف کے نزدیک پاکستان کے مختلف علاقوں میں خصوصاً سات قبائلی ایجنسیوں اور نیم قبائلی علاقوں میں طالبان کی مختلف تنظیموں سے وابستہ عہدیداروں، کمانڈروں، ارکان اور عسکریت پسندوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ہے۔ مصنف نے ہر گروپ کے حوالے سے اسی تعداد کی تقسیم بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔

طالبان کے وسائل کے حوالے سے مصنف لکھتا ہے کہ ان کے پاس کسی ریاست سے کم جنگی طاقت نہیں۔ طالبان کے پاس پستول سے لے کر راکٹ لانچر، ٹینک ، بکتر بند گاڑیاں اور مہلک ہتھیاروں تک تمام اسلحہ موجود ہے۔ یہ لوگ جن ممالک کا اسلحہ استعمال کرتے آئے ہیں ان میں امریکہ، روس، چین اور پاکستان سرفہرست ہیں ۔

اسلحہ کے علاوہ مالی وسائل کی فراہمی کے لیے ان کو متعدد ممالک ، خفیہ اداروں ، بااثر جہادی شخصیات، کاروباری حلقوں، اسلامی این جی اوز، جہادی تنظیموں اور سب سے بڑھ کر القاعدہ نیٹ ورک کی معاونت حاصل رہی۔

پاکستانی اور افغانی عسکریت پسند گروپوں کو 35 سے زائد جہادی ٹرسٹ اور دوسرے متعلقہ ادارے مستقل بنیادوں پر فنڈز فراہم کرتے ہیں حالاں کہ ان میں سے متعدد کو 2002 اور 2007 میں بند کر کے ان کے اکائونٹس منجمد کر دیے گئے تھے۔ پاکستانی طالبان نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے جو دوسرا طریقہ ایجاد کیا وہ حکومتی شخصیات ، غیر ملکی اہلکاروں، این جی اوز کے سربراہوں اور اہم ترین افراد کو اغوا کر کے ان کے بدلے کروڑوں کا تاوان طلب کرنا ہے۔ چندے، ٹیکس، مجرمانہ سرگرمیاں اور لوگوں کی رضاکارانہ معاونت اس کے علاوہ ہے۔

فاٹا میں عسکریت پسندی کی ترویج کے حوالے سے مصنف جہاں ریاستی اور سیاسی قوتوں (بشمول مذہبی سیاسی جماعتیں) کو تنقید کا ہدف بناتا ہے وہیں ان علاقوں کی پسماندگی، غربت اورانتظامی، سیاسی اور عدالتی نقائص پر بھی بحث کرتا ہے۔ طالبان نے ان پہلے سے کمزور نظام ہائے کار کو مزید کمزور کیا اور اپنے لیے جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے چلے گئے۔ جرگہ، قبائلی مشیران، سیکورٹی فورسز اور پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن اس سلسلے میں ان کے بنیادی ہدف رہے ہیں۔

صوبہ سرحد کے اضلاع میں طالبان نیٹ ورک اور اس کی کارروائیوں کے حوالے سے مصنف لکھتا ہے کہ طالبان کی عملی سرگرمیاں سرحد کے 28 میں سے 16 اضلاع تک پھیل چکی ہیں۔ پشاور سمیت تقریباً ایک درجن اضلاع میں طالبان کے تنظیمی ڈھانچے موجود ہیں۔ 2008 کے دوران جن اضلاع میں طالبان نے عملی کارروائیاں کیں ان میں پشاور، نوشہرہ ، مردان، صوابی، سوات، دیر،(دو اضلاع)، کوہاٹ، ہنگو، بنوں، ٹانک، ڈی آئی خان، چار سدہ اور چترال شامل ہیں۔

قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں طالبان کی کارروائیوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ پاکستانی طالبان افغانستان کے طالبان کے مقابلے میں زیادہ سخت گیر ، متشدد اور بے رحم ہیں۔ پاکستانی طالبان نے 2004 کے بعد شروع کی گئی اپنی کارروائیوں میں نہ صرف پاکستانی سیکورٹی فورسز کو بدترین انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا بلکہ انہوں نے حکومت اور طالبان مخالف سیاسی قوتوں (خاص طور پر اے این پی) کے حامی عام لوگوں کو ایسے ایسے وحشیانہ طریقے استعمال کر کے ٹھکانے لگایا جس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران وزیرستان، کرم اور باجوڑ کے قبائلی ایجنسیوں میں جن عام لوگوں کو امریکہ اور پاکستان کے جاسوس قرار دے کر ذبح کیا گیا ، ان کی تعداد 55 بتائی جاتی ہے ۔ سوات میں بھی اس عرصہ میں 34 افراد کو جاسوس یاایجنٹ قرار دے کر بے دردی سے جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا۔ان لوگوں کو نہ صرف ذبح کیا گیا بلکہ متعدد کی نعشوں کو دفنانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کا دوسرا پہلو ان کے خود کش حملے ہیں جو اب تک سینکڑوں معصوم لوگوں کی جان لے چکے ہیں، مصنف نے طالبانائزیشن کے ایک اور بنیادی ہدف ''کلچر '' کے حوالے سے ایک پورا باب کتاب میں شامل کیا ہے۔ موسیقی کی دوکانوں اور اس سے وابستہ افراد پر حملے، لڑکیوں کے سکولوں کو بموں سے اڑانا اور بدھا کے مجسموں پر حملے اس کی چند مثالیں ہیں۔ ان سے سے بڑھ کر پشتو ادب کے باوا آدم رحمان بابا کے مزار کو بموں سے اڑانے کی کوشش کی گئی تاکہ کوئی ان کے مزار پر پھولوں کی چادر نہ چڑھا سکے کیوں کہ طالبان کے نظریات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میں بھی مزاروں پر ہونے والے حملے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

سوات، جہاں پاکستانی افواج طالبان کے خلاف نبرد آزما ہیں، کے بارے میں دو باتیں مصنف نے بڑی چونکا دینے والی لکھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ مالاکنڈڈویژن میں عسکریت پسندی کی جاری تحریک کی بنیاد 1990 میں دیر اور سوات سے تعلق رکھنے والے سابق سرکاری افسران، خواتین، کاروباری افراد اور سمگلروں نے رکھی تھی۔ اور صوفی محمد کو انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے میدان میں اتارا، ان علاقوں میں پاٹا ریگولیشن کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح کے قوانین لاگو کرنے کا اشارہ دیا گیا تو ان اول الذکر عناصر نے حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے اسلامی قوانین کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا کیوں کہ مروجہ پاکستانی قوانین کے نفاذ کے بعد متعدد ٹیکسوں کے نفاذ اور بعض خصوصی مراعات کے خاتمے سے مذکورہ بالا حلقوں کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ ان عناصر کو علماء کی حمایت کی ضرورت تھی اس کے لیے انہوں نے ایک تاجک النسل مقامی عالم مولانا صوفی محمد اور ان کے قریبی ساتھیوں کے ساتھ رابطہ کر کے ان کو نفاذ شریعت کے مطالبے اور جدو جہد کے لیے تیار کیا۔ بعد میں جماعت اسلامی کی ضد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے آفتاب شیر پائو اس کے حمایت کرنے لگے۔ یوں اس تحریک نے بعد میں پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

دوسری بات یہ کہ سوات کے پیو چار کیمپ کی بنیاد 1988 یا 1990 میں لشکر جھنگوی ، لشکر طیبہ اور جیش محمد کے مقامی کارکنوں یالیڈروں نے رکھی تھی۔ کمانڈر عمر رحمان کے بعد لشکر جھنگوی کے تو ر ملاّ اس کیمپ کو چلاتے رہے بعد میں تحریک طالبان کے کمانڈر ابن امین اس کیمپ کے چیف ٹرینر رہے۔ تحریک طالبان سوات کے امیر مولانا فضل اللہ کے ایک بھائی مولانہ سمیع اللہ بھی یہاں سے تربیت حاصل کرچکے تھے جن کو ڈماڈو لہ کے حملے کے دوران باجوڑ ایجنسی میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کے بعد فضل اللہ کی سرگرمیوں میں بھی یک دم اضافہ ہو گیا اور انہوں نے اپنے سسر مولانا صوفی محمد کی پرامن تحریک نفاذ شریعت محمدی کو لشکر جھنگوی ، جیش محمد، القاعدہ اور طالبان کمانڈروں کی مدد سے ایک عسکری اور پرتشدد تحریک میں بدل دیا۔ سال 2008 دراصل سوات کی تاریخ میں ایک تباہی کا سال تھا اور یہ سلسلہ بدقسمتی سے ابھی تک ختم نہیں ہو سکا ۔

کتاب کے آخری حصہ میں مصنف نے امریکہ کی نئی افغان پالیسی کو پاکستان کی جیو اسٹریٹجیک اہمیت کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی امریکہ نے اپنی ساری توجہ طالبان جنگجوئوں اور القاعدہ پر مرکوز رکھی ہے اور اس کے اسباب اور سیاسی و علاقائی حل کے بارے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کی۔ مصنف نے امریکہ ڈرون حملوں پر بھی ایک باب کتاب میں شامل کیا ہے جو صرف ان حملوں کے اعداد و شمار اور ہلاکتوں پر مشتمل ہے۔

آخری باب میں مصنف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ طالبان سمیت بعض عالمی اور علاقائی طاقتیں اس پیچیدہ صورتحال میں اندرون خانہ متعدد دوسرے امکانات پر بھی تیزی سے کام کرتی دکھائی دے رہی ہیں سوال یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی سیکولر اور جمہوری پارٹیوں نے قبائلی عوام کا اعتماد کھودیا اور طالبان نے اپنی سخت گیر پالیسی پر نظر ثانی کر کے پشتون قوم پرستی سے متعلق ایشوز کو اپنی تحریک کے اندر جذب کر لیا تو اس سے پیدا شدہ صورت حال کیا رخ اختیار کر ے گی۔