working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

میڈیا۔ زیر اثر یا بااثر
مدیحہ ستار

پاکستان میں میڈیا کے حالیہ انقلاب کے بعد جہاں پر یہ طاقت کے ایک نئے عنصر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے وہاں پر اس کا کردار بہی موضوع بحث ہے، کیا اس کو صرف خبر دینی چاہیے یا پھر خبروں کا حصہ بھی بن جانا چاہیے ، رپورٹنگ، نیوز کاسٹنگ اور ٹاک شوز کا موجودہ انداز ، آزادی صحافت کے زمرے میں آتا ہے یا پھر سیاست کے، اس حوالے سے ہیرالڈ نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی جس کو مذکورہ جریدے کے تشکر کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔(مدیر)
حالات پہلے ہی دگرگوں تھے مگر جب پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات فوزیہ وہاب نے 19مارچ2009کو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھارتی ویب سائیٹ تہلکہ ڈاٹ کا م کا حوالہ دیا کہ 2001میں اسے حکومت کی جانب سے اس وقت بند کر دیا گیا تھا جب اس نے بھارتی حکومت کی بد عنوانیوں کو سامنے لایا تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ پیغام کن صحافیوں کے لیے تھا جن کو وہ ''Self censorship'' کا مشورہ دے رہی ہیں۔ ضیا الحق نے بھی 80ء کی دہائی میں پریس پر ایسی ہی پابندیاں لگائی تھیں۔

میڈیا کے خلاف متوقع حکومتی پابندیوں کی بازگشت اس وقت سنائی دی جب کچھ ٹیلی ویژن چینلز نے فروری میں مسلم لیگ(ن) اور وکلا کی ریلی کی براہ راست کوریج کی۔ یہ ریلی شریف برادران کی نااہلی، پنجاب میں گورنر راج اورمعزول ججوں کی بحالی کے سلسلہ میں نکالی جارہی تھی۔ دی نیوز میں 27فروری کو حامد میر نے لکھا کہ حکومت کے اندرونی حلقوں میں ہونے والی گفت و شنید سے میڈیا کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں کیوں کہ حکومت کا خیال ہے کہ میڈیا اس کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ اگلے دو ہفتوں میں حالات حاضرہ کے پروگرام ان مباحثوں سے گرما گرم ہو گئے جن میں پیپلز پارٹی پر غیر جمہوری اور غیر آئینی رویوں کا الزام عائد کیا جارہا تھا۔ آخر کار13مارچ کو جیو نیوز کو بلا ک کر دیا گیا یا پھر اُسے آخری نمبروں پر شفٹ کر دیاگیا جس سے بہت سے پرانے ٹیلی ویژن سیٹ رکھنے والے ناظرین کے لیے جیو کی نشریات دیکھنا ممکن نہیں رہا۔ایک طرف وزیر اطلاعات شیری رحمان نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا اور دوسری طرف کیبل آپریٹرز یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ انہوں نے جیو کی نشریات کو متاثر کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وکلا اور سیاست دانوں کی ریلی کی براہ راست کوریج کی جارہی ہے جس میں آنسو گیس، لاٹھی چارج اور تصادم کے مناظر دکھائے جاتے رہے۔ ایک بار پھر2007کی صورت حال سامنے آگئی جب یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ سیاسی عدم استحکام کے دور میں اس طرح کے مناظر دکھائے جائیں یا نہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تنقیدکا سامنا جنگ گروپ کو کرنا پڑا تھا جس پر صدر مملکت کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

ایک بار پھر موضوع بحث یہ ہے کہ میڈیا2002سے جس آزادی سے محظوظ ہو رہا ہے اُس میں اس کے فرائض اور مقصدیت کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے۔ اس میں آرا مختلف ہو سکتی ہیں بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ میڈیا کو پاکستانی سیاست میں ایک اہم عنصر کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔

''ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران میڈیا کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور میڈ یاکی پُرجوش مزاحمت اور اس کے بعد آنے والے پارلیمانی انتخابات نے اس چیز کو یقینی بنا دیا کہ میڈیا سیاسی رسہ کشی میں ایک اہم کردار بن چکا ہے اور اس کی اہمیت سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔''یہ بات انٹر نیوز پاکستان کی مئی2008میں سامنے آنے والا رپورٹ میں کہی گئی ہے اس ایجنسی کے ڈائریکٹر عدنان رحمت نے رپورٹ میں اپنی یہ دلیل واضح طور پر پیش کی ہے کہ 2007-08میں ریاست کی معلومات کے بہائو کے اوپر اجارہ داری ختم ہو گئی۔ اور عوام کو بروقت اور مبنی بر حقیقت معلومات پہنچانے کی نئی روایت قائم ہوئی۔ مشرف نے نومبر2007کو جب ایمرجنسی نافذ کی اور گرفتاریاں شروع ہوئیں تو دوسروں کی خبر دینے والا میڈیا از خود سال کی سب سے بڑی خبر بن گیا۔ عدنان رحمت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ براہ راست کوریج نے گھروں میں بیٹھے پاکستانی ناظرین کو سوچنے سمجھنے کی نئی طرح دی کے طور پر لال مسجد آپریشن،ایمرجنسی کا نفاذ، بے نظیر بھٹو کاقتل ان سب واقعات کی کوریج نے یہ ثابت کیا کہ معاشرہ ایسی معلومات کا ریسا ہو چکا ہے۔ جب کہ عوام کو اصل حقائق سے باخبر رکھنے کے لیے آج تک ذرائع ابلاغ نے مکمل وضع داری نبھائی ہے کیوں کہ معلومات کا یہ جال ایسے ملک میں بچھایا گیا ہے جہاں ملکی ادارے بیرونی عناصر سے جلد تاثر قبول کرتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں بھی اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتی ہیں۔ لال مسجد کا ابتدائی مسئلہ اور اس کے حل کے لیے تمام آپشنز جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں ایک بار ضرور ہے کہ ریاست میں میڈیا سب سے طاقت ور عنصر کے روپ میں ابھرا کیوں کہ میڈیا کی بے نظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل کے خلاف چلائی گئی ہمدردی کی مہم کے باوجود بھی پاکستان پیپلز پارٹی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی اور اسے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ معلومات کے اس بہائو نے فوجی طاقت اور ایجنسیوں کو لگام دی ہے یا ہمارے روایتی سیاسی نظام کے ناخدائوں اور امریکہ کو معلوم ہو گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ بھی اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔

ذرائع ابلاغ کی موجودہ شعوری سطح کئی تحفظات کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میڈیا نے مضبوط فیصلوں اور تحریکوں کو جنم دیا ہے اور یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف کو ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنا پڑا جبکہ وکلا کی تحریک بھی ایک ایسے ہی متبادل پلیٹ فارم کے طور پر سامنے آئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر میڈیا کی یہ آزادی ایک آدھ عشرہ پہلے وجود میں آچکی ہوتی تو شاید پاکستان کی تاریخ کچھ مختلف ہوتی۔ یعنی اگر1971اور1979میں الیکٹرانک میڈیا تشکیل پا چکا ہوتا تو اس کے ثمرات بھی محسوس کیے جاسکتے تھے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری جنرل کی رائے میں اگر میڈیا اس دور میں مضبوط ہوتا تو شاید مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی شکل میں نہ موجود ہوتا اور ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر نہ لٹکایا جاتا۔

ایک اور مضبوط رائے یہ بھی ہے کہ میڈیا ہی طاقت ور طبقات کو وقت کے جبر میں نکیل ڈال کر رکھتا ہے اور ان کی عادات و اطوار کو مہذب بنانے کے لیے عوام کو شعوربخشتاہے۔ اور حقوق کے حوالے سے آگاہی دیتا ہے۔ اسلام آباد سے روزنامہ ''ڈان'' کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے''ہیرلڈ'' کے نمائندے کو آگاہ کیا کہ یہ کہنا ٹھیک طرح تو ممکن نہیں ہے کہ ''میڈیا'' کتنی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر لے کر آیا۔ لیکن گذشتہ دو سالوں سے اس نے عوامی رائے کے احترام کو استحکام بخشنے میں گراں قدر کام کیا ہے۔ مثلاً وزرا کی جانب سے کسی بھی اختلافی اقدام کو فوراً ہی عوام کی عدالت میں پیش کرنے کا سہرا میڈیا کے سر ہی جاتا ہے وہ لوگ جو پاکستانی تاریخ کے حوالے سے صفحہِ قرطاس سے غائب ہو چکے تھے ان کی رائے بھی کچھ خاص مختلف نہیں ہے مثلاًہاورڈ یونیورسٹی کے شعبہ پریس کے ڈائریکٹر الیکس جان کا خیال ہے کہ عوام تک اصل روح کے مطابق خیالات کا بہائو بھی حکومتی اداروں کی درستگی میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اور امریکی جرنلسٹ کرن خالد جس نے 2007میں پاکستان میں میڈیا پر سنسر شپ کے حوالے سے ایک فلم ''We re not free''نام کے ٹائیٹل سے بنائی کی رائے ہے کہ اگر وکلا کی تحریک کو میڈیاکی حمایت حاصل نہ ہوتی تو اس کی کامیابی مشکوک ہو جاتی کیوں کہ انہیں روک بھی دیا جاتا تو صحافی حضرات انہیں اپنی زبان عطا کر دیتے تھے۔ اور یہی وہ اٹوٹ عوامل تھے جس نے اسٹیٹ کے چوتھے ستون کی حیثیت سے اپنے مضبوط کردار کو منوایا۔

لیکن یہ تمام دلائل ذاتی جوب دہی سے مشروط ہیں ایک طرف تو میڈیا عوام کی پسند نا پسند سے جڑاہے اور دوسری جانب سیاسی تبدیلیوں کی بدولت لیڈر بھی مخصوص جواب دہی کے میکانکی اثرات کے فقدان سے دوچار ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سندھ شاخ کی ڈپٹی چیئرپرسن زہرہ یوسف جو کہ ایک منجھی ہوئی صحافی بھی ہیں نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کے حکومتی ڈھانچے میں طاقت کا توازن صنعتی اثرات کے مرہونِ منت رہا ہے۔ جیسا کہ نواز شریف کے کیس سے ظاہر ہوتا ہے جب وہ 15مارچ کو لاہور میں اپنے گھر سے رخصت ہو رہے تھے اور پاکستان ٹیلی ویژن نے ناظرین کو اس سے بے خبر رکھا اور پھر ان کی تحریک میں ایک دم اٹھان پیدا ہو گئی کیوں کہ یہ میڈیا ہی تھا جس نے خوب آگ بھڑکائی۔ زہرہ یوسف کے بقول ان تمام حقائق کے باوجود میڈیا خاصا کمزور واقع ہوا ہے اور اس میں ایسی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس طرح''واشنگٹن پوسٹ'' نے 1970کی دہائی میں نکسن کی حکومت کو اتارنے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا، پاکستان میڈیا بھی ویسا ہی ادارہ ثابت ہو۔

بعض اندرونی اور بیرونی ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ چیف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور امریکی دبائو سے مجبور ہو کر صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کیا حالانکہ پچھلے سال فروری اور15مارچ کو بھی اظہار خیال کیا جارہا تھا مگر یہ متذکرہ بالا دو صاحبان کا ہی کمال تھا جنہوں نے بالآخر صدر پاکستان کے ذہن کو ایک رات میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔

ایسے واقعات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جس میں پاکستانی میڈیا کی جانب سے مبالغہ آمیز خبریں پھیلائی گئیں1990میں اخبارات کے ذریعے پھیلائی جانے والی افواہوں کو بنیاد بنا کر بے نظیر بھٹو کی حکومت پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے اور بالآخر انہیں اقتدار سے الگ کر دیا گیا لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا کہ مس بھٹو کو دو مرتبہ معزول کرنے میں پریس کے منفی پیروپیگنڈے کا ہاتھ تھا یا کوئی خفیہ طاقت ور ہاتھ اس کے پیچھے موجود تھا۔

دوسرے الفاظ میں کسی واقعہ کی مکمل اور جامع روداد ہی میڈیا کے اثرات کا اصل منبع ہے حالیہ دنوں میں پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں احتجاج کے مختلف واقعات کی بھرپور کوریج کی گئی مگر اصل حقائق سے پہلو تہی برتی گئی۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی خبریں کے حوالے سے بھی آنکھیں بند رکھی گئیں کبھی کبھار بلوچستان میں باغیانہ سرگرمیوں کی خبروں بھی اندرونی صفحات کی زینت بن جاتیں ہیں اور جب کبھی کراچی میں لسانی یا مذہبی فسادات پھوٹ پڑیں تو صورت حال کے ذمہ دار عناصر کے نام لینے سے ہمیشہ چشم پوشی برتی گئی۔ چاہے اس میں معلومات کا فقدان آڑے آیا یا کسی تنظیم کے خفیہ ہاتھوں کا کمال رہا ہو مگر پاکستان کے پریس نے اس سلسلے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔

''دبائو کا رجحان محض اوپر سے دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ میڈیا میں درمیانی طبقہ جو کہ شہروں سے تعلق رکھتا ہے چھایا ہوا ہے یا پھر مذہبی حوالوں سے راول پنڈی سے ملتان تک کی پٹی کے واقعات کو ہی رسائی حاصل رہی ہے۔'' ان خیالات کا اظہار سیاسی تجزیہ نگار اسد سعید نے کیا

''کراچی کے درمیانی کلاس کا دانش ور طبقہ بھی اس شعبے سے جڑا ہوا ہے جب کہ پس ماندہ طبقات اور چھوٹے صوبوں سے نمائندگی کا فقدان ہے اور ہر ایک یہی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سولہ کروڑ عوام کا نمائندہ ہے ایسے حالات میں اوسط پاکستانی کے معاملات کے واضح حل کی نشان دہی میڈیا کیسے انجام دے سکتا ہے۔'' یوسف کی رائے میں ہمیں حقیقی جمہوری اور بنیادی حقوق کاادراک رکھنے والے میڈیا کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ہم ابھی تک انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں اس ادارے کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس صنعت کو ان نکات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی جو بنیادی قدروں کی خاطر تبدیلی لانے کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دے چاہے اس کے لیے حکومت سے بنیادی معاشی ضرورتیں مہیا کرنے کے لیے آخری حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوری اور آئینی اداروں کو سیاست کی نذر کر دیا گیا ہو وہاں قانونی حصہ داری کی لائن نہایت مہین ہوتی ہے اور اسے عبور کرنا اور بھی مشکل ہوتا ہے ایسے حالات میں میڈیا حکومت سے کیوں کر جنگ لڑ سکتا ہے جب کہ تبدیلی کا عندیہ بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا اور یہ اس صورت میں بھی کیسے ممکن ہے جب خود جمہوری حکومت ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو۔ ظفر عباس کہتا ہے کہ ''ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ہم ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں جبکہ عوامی رائے کا احترام نہیں کرتے لیکن یہ دونوں اپنی جگہ برابر وقوع پذیر ہو رہے ہیں خصوصاً بحالی عدلیہ کی تحریک میں میڈیا خود بھی دائو پر لگا ہوا تھا کیوں کہ وہ سوچ رہا تھا کہ ان کی آزادی بھی عدلیہ کی آزادی کے ساتھ مشروط ہو چکی ہے۔

آزاد میڈیا کا ہمنوا یوسف خیال کرتا ہے کہ بعض نیوز چینل بے جا طرف داری کے مرتکب بھی ہوے ہیں جن میں گذشتہ تحریک کے حوالے سے صدارت کے منصب کو تنقید اور توصیف کا مرکز بنایا گیا اور بعد میں اسے عدلیہ اور وکلا کی حمایت کی جانب موڑ کر معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی۔

طرف داری کے پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھا جائے تو ہر ایک نیوز چینل کا ایک ہیجان انگیز اور مختلف قبلہ ہے اور شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مختلف چینلز اپنے ناظرین کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلے کی دوڑ میں الجھے ہوئے ہیں لیکن ''آج'' ٹی وی کے طلعت حسین کا کہنا ہے کہ ملک کے ہوشربا واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ انہیں بین ہی ایسے ہی تناظر میں پیش کیا جائے بہر حال''ڈان'' نیو ز کے نیوز کاسٹر کا15مارچ کو لاہور کےG.P.Oچوک میں پیش آنے والے واقعے کو ''جنگی صورت حال'' قرار دینا اس بات کا متقاضی ہے کہ صحافی طبقے کو بھی تربیت کی اشد ضرورت ہے او ران میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ کیوں کہ ایسے واقعات کا منظرِ عام پر آنا اشتعال انگیزی کا باعث ہو سکتا ہے۔

دراصل پاکستانی میڈیا کے نو آموز ہونے اور آمر دور کے اثرات میں پنپنے کی وجہ سے ایسی روایات سے دوچار ہونا ایک فطری امر بھی تھا۔ عرب چینل''الجزیرہ'' اپنے بے لاگ تبصروں اور مختلف موضوعات پر منفرد رائے زنی کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اسے اپنی آزاد رپورٹنگ کی وجہ سے کئی حکومتوں کی دشمنی بھی مول لینا پڑی مگر اس کے ساتھ اسے مشرق وسطیٰ کے ناظرین کی حمایت بھی حاصل رہی۔

آج کل ''فاکس نیوز'' اورMSNBCامریکن عوام کے جدت پسند رویے کے ساتھ سامنے آئے ہیں خبروں کی یہ ایجنسیاں اپنی بہی خواہوں کی جانب جھکائو یا گفت و شنید کا بے لاگ استعمال کرنی ہیں مختلف شو اور حکومتی عہدیداروں بشمول وزرائے اعظم کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے انگلستان میں پڑھے جانے والا اخبارات میں مکمل سیاسی فلسفہ کا طومار باندھ دیا جاتا ہے۔ ایک مزاحیہ پروگرام میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال سامنے آئی جب یہ پروگرام''لیس پرائم منسٹر'' کے ٹائٹل سے چلا اور اس میں پارلیمنٹ کے ایک منتخب رکن جم ہیکر نے تبصرہ کیا کہ''The Daily Mirror'' پڑھنے والے یہ سمجھتے ہیںکہ ملک ان کے دم سے چل رہا ہے۔'The Guardian"پڑھنے والے خیال کرتے ہیں کہ وہ ملک کے لیے نہایت ضروری ہیں جبکہThe Timesکے قارئین اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ملک کا کاروبار انہوں نے سنبھال رکھا ہے۔ اگر عالمی صحافت کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے اور خصوصاً اپنے ملک کے ناکام جمہوری کلچر کو جانچتے ہوئے پاکستانی میڈیا جو کردار ادا کر رہا ہے اسے قدرے خوش آئند ہی کہا جاسکتا ہے۔

وکلا اور مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی گونج کو جو کہ جمہوریت اور جج صاحبان کی بحالی کے لیے تھے میڈیا ہی نے اس آگ کو ٹھنڈا نہ پڑنے دیا اور اس میں مسلسل تیل چھڑکتا رہا اور اس وجہ سے حکومت پر مسلسل دبائو بڑھتا ہی رہا کیوں کہ پاکستان کے لیے ایک انصاف پسند معاشرے کی راہ ہموار کرنے میں ججوں کا اپنے سابقہ عہدوں پر بحال ہونا ایک سنگِ میل حیثیت رکھتا تھا لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوئی کہ میڈیا کس قسم تبدیلی کا خواہاں ہے اور وہ اپنی صداقت کہاں تک منوا سکتا ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اقتدار کی رسی کا سرا ابھی تک عوام کے ہاتھ میں نہیں ہے اور نہ ہی رائے عامہ کے احترام کی اصل سند میڈیا کے پاس ہے۔ ہمیں ابھی بھی ایک لمبا سفر درپیش ہے۔ لبوں تک جام آنے میں ہزاروں لرزشیں حائل ہیں۔ البتہ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں غار کے دوسرے سرے پر روشنی کی کرن جگمگا رہی ہے۔ جس کے لیے عوام کو پلِ صراط سے گزر کر جانا ہوگا۔

(بشکریہ ہیرالڈ)