working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

سوات حقیقت اور افسانے کے درمیان
سلطان رومی
سلطان رومی، سیدو شریف کالج میں تاریخ کے استاد ہیں۔ انہوں نے سوات کے حالات کو نہ صرف اس کے تاریخی، تہذیبی اورسیاسی پس ِ منظر میں دیکھا ہے بلکہ وہ سوات کے اس عہد کے جس میں حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا اس کے چشم دید گواہ بھی ہیں، یوں تو سوات پر ان کے کئی تحقیقی مقالے چھپ چکے ہیں مگر ان کا حالیہ مقالہ اس لیے بہت اہم ہے کہ یہ موضوع کا مکمل احاطہ کرتا ہے، سلطان ِ رومی کا یہ مقالہ بھارت کے ادارہ برائے مطالعہ تنازعات نے شائع کیا ہے،قارئین اسے پڑھ کر سوات کے مسئلے کو اس کے مکمل پس منظر میں سمجھ سکیں گے(مدیر)
سوات، جسے اس کے خوب صورت قدرتی مناظر کی وجہ سے سوئیٹزرلینڈ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جغرافیائی طور پر بھی یہ علاقہ دنیا میں مسلمہ اہمیت رکھتا ہے جہاں پر جنوبی، وسطی ایشیا اور چین کے سلسلے آکر باہم ملتے ہیں۔ سوات عملداری کے حوالے سے صوبہ سرحد کے پاٹا(PATA)حصے میں آتا ہے۔ اس علاقے کی قدیم تہذیب و ثقافت ہے۔ گندھارا تہذیب کا یہ بہت اہم مرکز رہا ہے۔ سوات کی پہچان صرف اس کے مثالی قدرتی مناظر ہی نہیں بلکہ اس کے پرامن باشندے، زرخیز زمینیں ، معدنیات اور جواہرات، بھرپور ثقافتی ورثہ ، آثار قدیمہ میں ایسی کشش ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی رہی ہے۔ اسی سوات نے 1990میں دنیا بھر کے میڈیا کو اس وقت اپنی جانب مبذول کیا جب یہاں پر اسلامی قوانین کے نفاذ کی تحریک نے زور پکڑا جس میں مسلح جدوجہد بھی شامل تھی۔ چنانچہ جو کچھ آج ہو رہا ہے یہ عمل نیا ہرگز نہیں بلکہ تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی1990سے یہی کچھ کرتی آرہی ہے۔ اس کے کارکنوں نے 1994، 2007 اور 2008 میں حکومت اور فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کی جو آج بھی جاری ہے۔ جس کی وجہ سے سوات آج دنیا بھر کے لیے مرکزِ نگاہ بن چکا ہے۔ سیاست دان اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے طرح طرح کی ہانک رہے ہیں جس کی وجہ سے سوات ایک پیچیدہ معاملے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ چنانچہ اس معاملے کو اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھے بغیر صورت حال کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔زیر نظر مضمون اسی سلسلہ میں ایک کاوش ہے۔

سوات اپنی معلوم تاریخ کے تناظر میں یا تو کلی خود مختار ریاست یا پھر نیم خود مختار ریاست کے طور پر رہا۔ سولہویں صدی میں افغانستان سے آنے والے یوسف زئی قبائل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ تاہم وہ کوئی مضبوط حکومتی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے۔ پھر وہ قبائل افراتفری کا شکار ہو کر رہ گئے جس کی وجہ سے ریاست سوات دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔ 1879-8میں ہمسایہ ،خان آف دیر نے سوات کے دائیں حصے پر قبضہ کر لیا اور 1885میں انگریزوں نے اس کے بائیں حصے کو اپنے زیر تسلط کر لیا۔ جس کے بعد دیر اور سوات کو ایجنسی کا درجہ دیا گیا جس میں1897میں چترال کو بھی شامل کر لیا گیا۔

دیر کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور بے رحمانہ ٹیکسوں کے خلاف سوات کے دائیں حصے کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ شامزئی ، سبوجنی اور نکیئی خیل قبیلے کے لوگوں نے عوامی مفاد کے تحت تحریک کو منظم کیا اور اس وقت کے ایک معروف مذہبی رہنما والی احمد المعروف سند کئی بابا کی زیر قیادت اکٹھے ہو گئے۔ یہ 1917کے اوائل کا زمانہ تھا۔ کافی معرکوں کے بعد وہ دیر کی فوجوں کو شکست دینے اور انہیں وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ پہلے انہوں نے پانچ ممبروں کی کونسل بنائی جس نے معاملات سنبھال لیے بعد ازاں انہوں نے 24اپریل1915کو سید عبد الجبار شاہ کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ عبد الجبار شاہ کو بھی بعد ازاں نہ صرف اقتدار سے دستبردار کرا لیا گیا بلکہ اسے 1915میں سوات چھوڑنے پر مجبور بھی کرد یا گیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کہ عبد الجبار شاہ پورے سوات کا حکمران نہیں تھا۔ اس کے بعد میاں گل عبد الودود جو کہ اخوند عبد الغفور المعروف سید و بابا کا پوتا تھا اس کو تخت پر متمکن کر دیا گیا۔ عبد الودود المعروف باچہ صاحب کا دور حکمرانی کئی حوالوں سے شاندار رہا جس کے دور میں ریاست مستحکم ہوئی۔ ان کے اقدامات سے جنگ و جدل کے حامل پختون معاشرے میں سوات ایک پرامن ریاست کے طور پر ابھری، ناخواندہ مگر روشن خیال لوگوں نے سوات کو ایک منفرد ریاست کی حیثیت دے دی۔ اور یہ ریاست پختون معاشرے میں امن، سکون اور ترقی کی علامت بن گئی۔

دسمبر1994میں عبد الودود نے تختِ شاہی اپنے بیٹے میاں عبد الحق جہانزیب کے لیے خالی کر دیا ۔ میاں گل جہازیب نے اپنی ترجیحات میں تعلیم ، ذرائع رسل و رسائل اور صحت کی سہولتوں کو اولیت دی۔ انہوں نے ریاست اور معاشرے کو مغربی رنگ دکھانے میں بھی مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ 29جولائی1969کو جب چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان صد رپاکستان تھے تب سوات کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر دیا گیا اور آخر کار سوات کا حکمران 15اگست 1969کو اپنے اختیارات سے دستبردار ہو گیا۔ سوات کی ریاست کے خاتمے کے بعد اس کے علاقے اور کالام کو ملا کر ایک ضلع کا درجہ دے دیا گیاجو مالاکنڈ ڈویژن کا حصہ تھا۔ اور جس کا سربراہ ڈپٹی کمشنر کو مقرر کیا گیا جو کمشنر مالاکنڈ کے ماتحت بنا۔

سوات: بابوں اور ملائوں کا اثرورسوخ
سوات ایک دور میں بدھوں کا مذہبی مرکز تھا۔ جہاں بدھوں کی14سو خانقاہیں تھیں جن میں لگ بھگ 18ہزار سادھو موجود رہتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں پر بدھوں کا تیسرا مکتبۂ فکر و جرایانہ یاتانترک کا آغاز اور فروغ ہوا۔تب یہ تبتیوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت حاصل کر چکا تھا کیونکہ یہ پدما سمباوا کی جائے پیدائش تھا۔ سولہو یں اور سترہویں صدی میں یوسفزئیوں نے یہ علاقہ فتح کر لیا تب بھی مذہبی شخصیتوں مثلاً اخوند درویزہ اس کے بیٹے میاں کریم داد اور پوتے میاں نور کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔ انیسویں صدی میں میاں عبد الغفور سید وبابا اپنے صوفی پن کی وجہ سے بہت اثر و رسوخ کا حامل تھا۔ سید اکبر شاہ جو کہ سید علی ترمذی المعروف پیر بابا کے سلسلۂ نسب سے تعلق رکھتا تھا اسے سحقانہ سے بلا کر بادشاہ بنایا گیا۔ اس نے 1849 سے 1857 سے اپنی موت تک سوات پر حکمرانی کی۔ سیدوبابا کے بیٹوں کا اثر رسوخ یہاں بہت زیادہ تھا اور ان کا بڑا بیٹابھی سوات کا حکمران رہا۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں سید اللہ خان المعروف سر طور فقیر نے یہاں پر قدم جما لیے اور اُس نے برطانوی راج کے خلاف غیر مرئی قوت کا دعویٰ بھی کیا۔ بیسویں صدی کے پہلے 25سالوں میں سدکئی بابا نے بھی سوات کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے پیروکار شیخان کہلاتے تھے۔ جنہوں نے اپنے مسلح دستے بنا کر سوات کو پاک کرنے کی مہم شروع کی ایک شیخ ،خان بہادربہت طاقت ور اور مضبوط حکمران تھا ایک شعر پشتو شعران کے متعلق لکھا گیا۔

آسمان نہ لاردختو نشتئے
دزمکے سرد خان بہادر درسیدی

ترجمہ : آسمان کے سوا، فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں کیوں کہ زمین پر ہر طرف خان بہادر ہے۔

پیر بابا کے سلسلۂ نصب میں ایک نوعمر عبد الجبار شاہ کو تھانہ سے بلا کر 1915میں حکمران مقرر کر دیا گیا۔ اسی دوران میاں گل عبد الودود ان کے بھائی میاں گل شیریں جان اور ان کے چچا زاد بھی سوات میں سیاسی اثرورسوخ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے چوں کہ وہ بھی سید و بابا کے پوتے تھے اور اس لیے سواتیوں میں ان کے معتقدین کی بھی کمی نہ تھی۔ سیدوبابا کے صوفی اور مذہبی پس منظر کی وجہ سے عبد الودود کو بہت مدد ملی اوروہ 1917میں حکمران بن گئے۔

صوبہ سرحد میں مذہبی شخصیتوں مثلاً ملائوں ، فقیر، حاجی صاحب، پیر بابا اور اس طرح کے لوگوں نے بالخصوص قبائلی علاقوں اور سوات میںبیرونی حملہ آوروں کے خلاف اہم کردار ادا کیا ۔ اس طرح ان کے رابطے اور رشتے افغانستان، بھارت اور ترکی کی ریاستوں اور مذہبی رہنمائوں سے رہے ہیں یہ کوئی نیا امر ہرگز نہیں ۔ اس طرح بیرونی حملہ آور وں کے خلاف لڑنے والوں کو پناہ دینے کی روایت بھی نئی نہیں ہے۔ سید احمد شہید کے ساتھ آنے والے مجاہدین کو بھی سوات میں سیاسی پناہ دی گئی۔ اس طرح 1863کی امبیلہ جنگ جس میں سوات، دیر، بونیر اور باجوڑ کے لوگوں نے برطانوی فوجوں کے خلاف تقریباً دو ماہ تک جنگ کی۔ ملاوئوں نے ہمیشہ لوگوں کو بیرونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت پر اکسایا جیسا کہ رابرٹ وار برٹن نے ایک آفریدی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ُملاّ انہیں برطانوی پوسٹوں پر حملے کے لیے اکساتے ہیں ۔ اس پس منظر میں مولوی محمد فضل اللہ اور دوسرے مذہبی لیڈروں کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر شروع کی جانے والی مسلح جدوجہد، دوسرے علاقے کے لوگوں کو پناہ دینا، چاہے وہ لوکل ہوں یا بیرونی ممالک کے لوگ، حتیٰ کہ اپنے ہم خیال لوگ چاہے وہ بھارت سے ہوں یا افغانستان سے، یہ سب کچھ نیا ہرگز نہیں ہے۔ اسی طرح بہت سے مقامی لوگ چاہے وہ اپنے روزمرہ کے معاملات اسلام کے مطابق چلاتے نہ بھی ہوں تب بھی اسلام سے ان کی محبت اور رغبت بہت زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے مذہبی رہنما اپنے مفادات کے لیے مقامی لوگوں کو اسلام کے نام پر اکساتے رہتے ہیں۔ ریاست سوات کے قیام سے قبل مقامی لوگ پختون روایات پر مشتمل سماجی کوڈ''پختون ولی'' کو اولیت دیتے تھے۔ مذہبی تہواروں کے موقعوں پر مقامی نوجوان لڑائی جھگڑوں کے شغل بھی فرما کر حظ اٹھاتے رہے اور ایک گائوں کے لوگ دوسرے گائوں کے ساتھ لڑائیاں کرتے اس طرح خون خرابہ کافی عرصہ جاری رہا جس کو سوات کے حکمرانوں نے آکر ختم کیا۔

سوات میں آئینی وعدالتی مسائل کا جائزہ
قدیم سوات میں بھی قبائلی نظام رائج رہااور والی ، کے دورمیں بھی، چنانچہ اس کی حیثیت دیگر علاقوں کی نسبت مختلف ہے۔ سوات کو جب سے پاٹا کا حصہ بنایا گیا اُس کے بعد سے اس کی حقیقی آئینی حیثیت ایک مبہم معاملہ ہے۔وہاں پر اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیوں بڑھتا جارہا ہے اور وہاں طالبان کے اثرورسوخ میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے۔

تقسیم سے قبل برصغیر کے دو حصے تھے ایک وہ جو برطانوی راج کے زیر اثر تھا اور دوسرا وہ جہاں پر خود مختار ریاستیں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ ایک تیسرا حصہ بھی تھا جسے قبائلی علاقہ جات کہا جاتا تھا۔ 1935کے گورنمنٹ ایکٹ میں ان علاقوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا کہ انڈیا کے سرحدی علاقوں پر واقع یہ علاقے بلوچستان ، برما ، کسی بھارتی ریاست یا پھر کسی دوسرے ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ برصغیر کے ان تینوں قسم کے علاقوں کی آئینی حیثیت مختلف تھی جن پر الگ الگ قوانین کا اطلاق ہوتا تھا۔ برٹش انڈیا پر براہ راست حکمرانی تھی۔ اسی طرح خود مختار ریاستوں کا انتظام و انصرام اگرچہ ان ریاستوں کے حکمرانوں کے پاس تھا تاہم تقریباً سبھی ریاستوں نے برطانیہ کے ساتھ مختلف قسم کے معاہدے بھی کر رکھے تھے۔ اس طرح قبائلی علاقہ جات میں نہ تو برٹش انڈیا کے قوانین کا اطلاق ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی دوسرا نظام یہاں پر رائج کیا گیا البتہ ان علاقوں کی برطانیہ کے ساتھ تعلقاتِ کار کی وضاحت موجود تھی اور ایک طرح سے بہت لوز کنٹرول موجود تھا۔

برصغیر کی آزادی کے ایکٹ 1947پر عمل درآمد کرتے ہوئے والی کی ریاست سوات اور قبائلی علاقہ جات کی آزاد حیثیت برقرا رکھی گئی تھی اور ان کے برطانوی راج کے ساتھ جو معاہدے تھے ان کی حیثیت بھی 15اگست 1947کو ختم کر دی گئی حکومت پاکستان اور سوات نے اپنے مستقبل کے تعلقات کار کے لیے راہ داری کا ایک معاہدہ کیا جس پر 3نومبر کو سوات کے حکمران نے اور 24 نومبر 1947کو گورنر جنرل پاکستان نے دستخط کردیے۔ اس معاہدے کے تحت سوات کے حکمران کو ریاست کے اندرونی معاملات میں مکمل خود مختاری حاصل تھی اور تاہم دفاع، ذرائع رسل و رسائل اور خارجہ امور کے حوالے سے تمام اختیارات حکومت پاکستان کو تفویض کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کی رو سے ریاست سوات ایک طرح سے فیڈریشن آف پاکستان کے زیر اثر آگئی۔ کیونکہ 1935کے ایکٹ میں فیڈریشن میں شامل ریاستوں کی تعریف اسی طور کی گئی تھی۔ چنانچہ اس طرح اسے نہ صرف پاکستان کا حصہ کہا جاتا تھا بلکہ یہ ایک وفاقی ریاست ہی تھی۔ دیر اور سوات کے حکمرانوں نے یہ بات تسلیم کر لی تھی کہ وہ اپنے اختیارات ، وفاق پاکستان کو دیتے ہیں۔ اور جس طرح وفاق اپنی دوسری اکائیوں پر قوانین کا اطلاق کرتا ہے اسی طرح کا اختیار اسے یہاں بھی ہوگا۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ ریاست سوات کے بارے میں قوانین بنا سکتی تھی چنانچہ بعد ازاں ریاست کو پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا۔ چنانچہ جب مغربی پاکستان کو ون یونٹ قراردیا گیا تو شمال مغربی سرحدی صوبہ کی تمام ریاستیں بشمول سوات اور قبائلی علاقہ جات کے مغربی پاکستان کا حصہ قرار دیے گئے۔ تاہم سوات کے لیے آئین میں کچھ خصوصی مراعات دی گئی تھیں 1956کے آئین کے تحت وفاقی یا صوبائی اسمبلی اس کے متعلق کوئی قانون اس وقت تک لاگو نہیں کر سکتی جب تک کہ گورنر یا صدر پاکستان اُسے ایسا کرنے کو نہ کہیں۔ اس طرح کی دفعات1962کے آئین میں بھی شامل کی گئی تھی جس میں قبائلی علاقہ جات کے لیے اس طرح کی رعایت کے لیے اعلان کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 25مارچ1969کو صدر ایوب نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سوات کی ریاستی حیثیت ختم کر دی تاہم اس علاقے کی خصوصی حیثیت برقرار رکھی۔ 1972میں آرٹیکل 260کے تحت پاٹا کی بنیاد رکھی گئی ۔ چترال ، دیر ، سوات(کالام سمیت) اور مالاکنڈ کے کچھ علاقوں ہزارہ سے متصل قبائلی علاقے اور امب کی ریاست کو پاٹا میں شامل کر دیا گیا۔

1973کے آئین کے آرٹیکل 247میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا۔
1۔ ریاست کا انتظامی سربراہ فاٹا اور صوبے کا انتظامی سربراہ پاٹا کے بارے میں اختیارات کا حامل ہوگا۔
2۔ صدر، گورنر کو صوبے میں شامل قبائلی علاقہ جات سے متعلق ہدایات دے سکتا ہے اور گورنر خود بھی اگر چاہے تو وہ یہ اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔
3۔ پارلیمنٹ کا بنایا ہوا کوئی قانون فاٹا سے متعلق اس وقت تک لاگو نہیں ہوگا جب تک صدر مملکت اس کی ہدایت نہیں کر دیتے اور صوبائی اسمبلی کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون پاٹا سے متعلق اُس وقت تک مؤثر نہیں ہوگا جب تک گورنر اس کی ہدایات نہیں دیتے۔
4۔ بہر حال آئین اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ صدر یا گورنر صوبے میں امن یا پھر وسیع تر عوامی مفاد کی خاطر صوبائی اسمبلی کو پاٹا سے متعلق ریگولیشن بنانے کا کہہ سکتے ہیں اور یہی اختیار فاٹا سے متعلق بھی۔

اس طرح فاٹا میں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا عمل دخل نہیں ہے اور وہ اس وقت تک عمل دخل نہیں کر سکتیں جب تک کہ پارلیمنٹ اُنہیں ایسا کرنے کو نہ کہے۔ یہی وہ آئینی پس منظر ہے جس کے تحت جب فاٹا کے حالات 1994،2007اور2008میں خراب ہوئے تو وہاں عدالتی نظام کے نفاذ کا مطالبہ نہیں آیا بلکہ شرعی و اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا اور اس سلسلے میں ایک مضبوط دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ جب یہاں باقی ملک سے ایک الگ نظام پاٹا ریگولیشن کے تحت رائج ہے تو پھر یہ ضروری نہیں کہ باقی ملک جسے نظام کا مطالبہ کریں، بلکہ اگر انہوں نے مطالبہ ہی کرنا ہے تو پھر شرعی نظام کا کیوں نہیں۔

اسی طرح پاٹا کی آئینی حیثیت کے بارے میں بھی کئی سوالات مبہم ہیں مثلاً ایک طرف یہاں امن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہے تو دوسری طرف صوبائی حکومت یہاں پر اپنی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق قوانین کا نفاذ نہیں کر سکتی اوراس کا اختیار بھی صوبائی اسمبلی کے پاس نہیں۔ ایسا کرنے کے لیے یا تو گورنر کے پاس جانا پڑے گا یا پھر صدر مملکت کے پاس اور ظاہر ہے کہ دونوں صوبائی نمائندے نہیں بلکہ وفاق کے نمائندے ہیں اور وہ دونوں علاقے کے لوگوں کو جواب دہ نہیں۔

یہی وجہ تھی کہ جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت سرحد میں تھی تب بھی وہ فاٹا میں مشرف پالیسیوں کی مخالف تھی مگر آئینی طور پر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ کیوں کہ اس سلسلے میں تمام اختیارات صدر کے پاس تھے اس طرح اب جب سرحد میں اے این پی کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے سواتی طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا جس میں شرعی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا گیا مگر چونکہ یہ صوبائی اختیارات سے تجاوز تھا اس لیے اگر اے این پی ایسا کرنا چاہتی تھی تو پھر اسے پاٹا سے متعلق نئے ریگولیشن بنانے چاہئیں تھے کیونکہ آئین میں یہ اختیارات صوبائی حکومت کے پاس نہیں ہیں۔ چنانچہ جب صوبائی حکومت نے نظام عدل ریگولیشن بل24نومبر2008کو صدر کی منظوری کے لیے بھیجا تو بہت تلخ صورت حال پیش آئی۔ ایک طرف سوات میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے اس کی فی الفور منظوری درکار تھی تو دوسری طرف آئینی موشگافیاں آڑے آرہی تھیں چنانچہ یکم دسمبر2008کو متعدد میٹنگوں اور رابطوں کے بعد طے پایا کہ ایسا ڈرافٹ تیار کیا جائے جس پر تمام پارٹیوں کا اتفاق رائے ہو۔ چنانچہ ایک نئے ڈرافٹ کی تیاری جس پر طالبان،تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی ، صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کی رضامندی شامل ہو کوئی آسان کام ہرگز نہیں تھا۔ بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ صورت حال بہت مخدوش تھی۔عدالتی نظام
ایک عام رائے ہے کہ ریاست سوات میں اسلامی نظام قائم تھا لیکن جب آپ اس پر نظر دوڑاتے ہیں تو ایسا قطعاً نہیں تھا۔ اسلامی نظام کے تحت دانت کے بدلے دانت، آنکھ کے بدلے آنکھ کا نظام رائج ہے اسی طرح چوری پر ہاتھ کاٹ دینے کی سزا ہے مگر سوات میں ایسے جرائم پریہ سزائیں نہیں دی جاتی تھیں۔ مثلاً قتل کے بدلے قصاص کا تصور بہت کم دیکھا گیا۔ مقامی جرگے اپنے دستور العمل کے تحت جرمانے عائد کرتے یا پھر سوات کے حکمران بھی اس تناظرمیں سزائیں دیتے۔ والی سوات کے قانون کے تحت زناکاری پر 500روپے جرمانہ، کسی پر حملہ کرنے پر 200روپے ،کسی عورت کو برا بھلا کہنے پر100روپے جرمانہ تھا اسی طرح بادشاہ کا حکم تھا کہ اگر کوئی اپنی بیوی کی ناک کاٹے گا تو اسے 2000روپے جرمانے کے علاوہ اپنی بیوی کو طلاق بھی دینی ہو گی۔ اسی طرح اگر قتل ہو جاتا تو اسلامی سزائوں کے علاوہ معاملے کو سیاسی طور پر یا گفت و شنید سے ختم کر دیا جاتا۔ مختصراً یہ کہ سوات میں رائج قوانین اسلامی نہیں بلکہ والی سوات کے بنائے ہوئے تھے۔ جس میں والی ہی سب سے مجاز اتھارٹی تھااور اسلامی قوانین، روایتی قبائلی معاشرے کے رسم و رواج اور والی کے قوانین کے ماتحت تھے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج لوگ ماضی کے اسی نظام کو حسرت کے ساتھ کیوں یاد کرتے ہیں ۔ اس کا جواب بڑا سادہ ہے کہ تب قانون موثر تھا ۔ انصاف فوری اور سستا تھا۔ مجرم کو سزا ضرور ملتی تھی اور ایسا پہلی یا دوسری پیشی پر ہو جاتا تھا جب کہ مغربی انصاف کا نظام بہت سست اور مہنگا ہے۔

1969میں ریاست سوات کے پاکستان میں ادغام سے صورت حال تبدیل ہو گئی۔ اور والی کے اختیارات صوبائی حکومت کے نمائندے کو تفویض کر دیے گئے۔ تمام پرانے قوانین اور وہ روایات جو قانون پر عمل درآمد کے لیے ضروری تھیں برقرار رکھی گئیں۔ جس سے صورت حال مزید گھمبیر اس لیے ہو گئی کہ کوئی متفقہ یا ایسا قانون موجود نہیں تھا جس کا اطلاق یکساں ہو۔ فیصلوں کے اختیار ات انتظامی و عدالتی اختیارات کے حامل افسروں کو تفویض کر دیے گئے۔ چنانچہ صورت حال مزید ابتر ہو گئی جس کے بعد لوگوں نے ''جسٹس لیگ'' بنا لی۔ آہستہ آہستہ حکومت نے پاکستان کے قوانین کا اطلاق شروع کر دیا اور سوات سمیت مالاکنڈ ڈویژن میں سیشن کورٹ بنا دیا گیا۔ حکومت کی کوشش اس لیے بھی ناکام ہو گئی کیوں کہ جس ''رواج'' کے تحت یہاں فیصلے ہوئے تھے وہ کوئی باقاعدہ ضابطہ نہیں تھا۔ اسی طرح عمومی جرائم اور بڑے جرائم کے درمیان کوئی فرق ہی روانہ نہ رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کا غم وغصہ بڑھتا گیا حتیٰ کہ عام لوگوں نے مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ رواج یا ایف سی آر کو ختم کر کے یہاں پر کلی طور پر پاکستانی قانون لاگو کیا جائے۔

پاٹا ریگولیشنز جو کہ19مارچ1976کو لاگو کی گئیں ان کے تحت سول اور کریمینل کیسوں کے اختیارات عدلیہ سے لے کر انتطامیہ کے سپرد کر دیے گئے تھے۔اور انتظامیہ ایسے کیس جرگوں کو بھیج دیا کرتی جن کے فیصلے بد قسمتی سے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے تھے اور بعض دفعہ انصاف میں غیر معمولی تاخیر کی جاتی تھی جس کی وجہ سے لوگ اس نظام سے مایوس ہوتے گئے۔ اس پس منظر میں پاٹا ریگولیشنز کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جس پر 24 فروری 1990کو پشاور ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے پاٹا ریگولیشنز کو کالعدم قرار دے دیا کہ اس کی پہلی اور دوسری شق آئین پاکستان سے متصادم ہے جس پر صوبائی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد روک دیا۔یہ وہ صورت حال تھی جس میں سے تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کی بنیاد پڑی جس نے مالا کنڈ ڈویژن اور کوہستان کے اضلاع میں اسلام کے شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ مئی 1994تحریک کے کارکنوں نے مالاکنڈ کی ایک بڑی سڑک پر دھرنا دے کر اسے ایک ہفتہ تک بند رکھا۔ جس پر میڈیامیں اس تحریک کا نام آنا شروع ہوا۔ 16مئی 1994کو وہ لوگ جنہوں نے بونیر ، مردان روڈ بند کی تھی ان کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں11افراد ہلاک اور21زخمی ہو گئے۔ جس پر مقامی لوگوں نے شدید مظاہرے کیے جس کے جواب میں صوبائی حکومت وہاں پر شرعی قوانین کے نفاذ کے مطالبے پر آمادہ ہو گئی اور پاٹا نفاذِ نظام شریعہ ریگولیشنز1994کا نفاذ کر دیا گیا۔ مگر صوفی محمد اور ان کے پیروکاروں نے نئے نظام پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کر دیا اور کہا کہ ان کی توقعات کے مطابق نظام لاگو کیا جائے۔ جس کے بعد 1999میں شرعی نظام عدل ریگولیشنز کا نفاذ کیا گیا۔ مگر ان دونوں ریگولیشنز کو نہ عوامی پذیرائی ملی اور نہ ہی تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی کے کارکن مطمئن ہوئے۔ کیوں کہ زمینی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ صرف یہ ہوا کہ عدالتی زبان انگریزی کی بجائے اردو ہوگئی باقی عدالتوں میں مقدموں کی سماعت کی رفتار انتہائی سست تھی معمولی معمولی جرائم پر فیصلے سالوں کے بعد ہوئے اور سول معاملات تو انتہائی درجے تک لٹکائے جاتے ۔تبدیلی تھی تو بس اتنی کہ سول جج، سینئر سول جج، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج اور ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کو علاقہ قاضی، اعلیٰ علاقہ قاضی، اضافی ضلع قاضی اور ضلع قاضی کے ناموں سے پکارا جانے لگا۔ اس طرح علاقہ قاضی، سول مجسٹریٹ کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔اس دوران سوات میں خواتین ججوں کو بھی تعینات کیا گیا تاکہ فیملی کیسوں کی سماعت ہو سکے۔ یہ ایک اور وجہ تھی جو کشیدگی کا باعث بنی کیوں کہ اسلامی نظام میں عورت بطور جج کا تصور نہیں ہے۔ علاوہ ازیں عدالتوں میں کیسوں کا التوا، رشوت اور سفارش سے بھی حالات خراب ہوئے۔ چنانچہ وہ لوگ بھی طالبان اور تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے حامی بن گئے جو اس سے قبل کہتے تھے کہ ان کے مطالبے جائز نہیں ہیں۔

یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ نظام تو پورے ملک میں چل رہا تھا پھر سوات کے عوام نے ہی اس نظام کے خلاف بغاوت کیوں کی۔ اس کا جواب بڑا سادہ ہے کہ والی کے دور میں امن اور فوری انصاف میسر تھا جو بعد میں ناپید ہو گیابعد ازاں جب وہ عدالتی نظام سے مایوس ہوئے تو انہوں نے تحریک شروع کر دی۔ یہ معاملہ صرف عدالتی نظام تک نہیں تھا بلکہ تعلیم، صحت، امنِ عامہ اور تحفظ کے حوالے سے بھی لوگ حکومتی اداروںسے مایوس تھے۔پولیس کا کردار
بحران کو موجودہ سطح پر پہنچانے میں پولیس نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے لوگوں پر بے جا تشدد، رشوت، اقربا پروری ، دھونس دھاندلی اور لوگوں کی ذاتی آزادیوں میں بے جا مداخلت کی وجہ سے عام لوگ پولیس سے بہت زیادہ نالاں تھے۔ پولیس عام لوگوں کو تحفظ دینے کی بجائے مجرموں کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور بھتہ وصول کر رہی تھی۔1994-95کے دوران جب تحریک نفاذِ شریعت محمدی نے اپنی تحریک چلائی تو پولیس نے اس کے کارکنوں کو گرفتار کر کے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے۔

انٹیلی جنس ایجنسیاں
بیرونی اور پاکستانی ایجنسیوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے مقاصد کے لیے جنگجوئوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ ان ایجنسیوں نے جہاد ی تنظیموں کی آبیاری کی تاکہ افغانستان میں اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔ پاکستانی ایجنسیوں نے بعد ازاں یہی کام کشمیر میں دہرایا۔ چنانچہ روسی استعمار اور کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ برسرِ پیکار یہ مجاہدین نہ صرف بہترین تربیت یافتہ بھی تھے بلکہ جدید ہتھیاروں سے لیس بھی تھے۔ اور جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے2001ء میں افغانستان پر چڑھائی کی اور طالبان کی حکومت کو ختم کر کے اپنی کاسہ لیس حکومت بنائی تو مسلح جہاد کو ایک بار پھر فروغ حاصل ہوا تھا جہادی، اسلامی ملک افغانستان کو بیرونی قبضے سے چھڑانے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ پاکستان نے امریکی دبائو کے تحت نہ صرف طالبان سے اپنی حمایت واپس لے لی بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صفِ اول کا اتحادی ہونے کے ناطے امریکی اور اتحادی افواج کو بھرپور مدد فراہم کی جس سے القاعدہ اور طالبان کی قیادت پاکستان سے ناراض ہو گئی اور پاکستان میں ان کے حمایتیوں کو بھی اس حکومتی اقدام سے شدید دھچکا لگا۔اتحادی اور امریکی افواج کی افغانستان کے اندر موجودگی اور پاک افغان سرحد کے ساتھ ان کی کارروائیاں جن کے تحت طالبان اور ان کے حمایتیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور حکومت پاکستان ان کارروائیوں میں نہ صرف خاموش ہے بلکہ اندرونِ خانہ اس نے اس بات کی اجازت بھی دے رکھی ہے اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طالبان دہشت گرد ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاہدہ یا کام نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی وجہ سے طالبان نہ صرف زیادہ ناراض ہو گئے بلکہ وہ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہر قیمت پر اپنا مقصد حاصل کرنے پرتیار ہو گئے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان کو پاک فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تخلیق کیا ہے اور ان کو نہ صرف افغانستان اور کشمیر میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا بلکہ پاکستان ان کو مستقبل میں بھی استعمال کرنے کے لیے بچا کر رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج نے جس طریقے سے طالبان کے خلاف 2007-2008میں آپریشنز کیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ''کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے'' سوات اور شمالی وزیرستان کی شورش کو بنیاد بنا کر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی جو یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں داخلی معاملات میں کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔

طالبان اس بات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے ساتھ ان کی جنگ محض دکھاوا ہے۔ طالبان کے ایک اہم رہنما شاہ دروان نے بھی اس پس منظر میں ایک ایف ایم ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ'' طالبان کو ان لوگوں کو بھی مارنا چاہیے جو یہ کہتے ہیں کہ طالبان اور فوج کے درمیان کوئی خفیہ معاہدہ ہے اور سوات میں حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ سراسر جھوٹ ہے۔ کیوں کہ طالبان ایک مسلم فوج کے ساتھ کیسے لڑ سکتے ہیں۔''2002-2007کے درمیان وفاقی حکومت ، انٹیلی جنس ایجنسیاں، پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی شیرپائو جو کہ مرکز میں اتحادی تھے نے مل کر سوات میں فضل اللہ کو خفیہ مدد فراہم کی تاکہ مولانا فضل اللہ ، صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت کے خلاف مشکلات پیدا کر سکیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا کیوں کہ ایم ایم اے تو طالبان کے بارے میں بہت نرم گوشہ رکھتی تھی اور پھر دونوں کے مقاصد بھی ایک تھے جو کہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں کوششیں کر رہے تھے۔ چنانچہ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے کسی بھی موقع پر فضل اللہ یا ان کے ساتھیوں کے لیے مشکلات کھڑی نہیں کیں۔سوات سے اس وقت کے ممبر قومی اسمبلی جو کہ ایم ایم اے سے تعلق رکھتے تھے کا کہنا تھا کہ 2002کے انتخابات میں متعدد طالبان نے ایم ایم اے کو ووٹ دیے تھے اس لیے ہم اپنے ووٹ بنک کو کس طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی پالیسیوں نے بھی علاقے میں فضل اللہ کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جس کے بعد ان کی حمایتی روز بہ روز بڑھتے چلے گئے۔

افغان جنگ کا شاخسانہ
خطے میں جدید سامراجی نظام، اپنے متنوع مقاصد کے ساتھ موجود ہے۔ روس پر نظر رکھنا ، وسط ایشیا تک رسائی اور دسترس اور چین کا مقابلہ کرنا ۔ اس کے چند بڑے مقاصد ہیں چنانچہ اس تناظر میں افغان جنگ کے مقاصد بہت وسیع ہیں۔ روس کے خلاف جہاد کے دوران جس طرح کی سوچ پروان چڑھائی گئی اور جس کا ایک منظر آج عیاں ہے۔ جس میں افغانستان کے اندر مغربی اور امریکہ کے خلاف جذبات بھڑکائے جارہے ہیں۔اگر اس وقت کی جنگ روس کے خلا ف تھی تو آج کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اور جنگ لڑنے والے کل کے مقابلے میں آج بھی اتنے ہی جنگجو اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور اس طرح اس جنگ نے افغانستان اور پختون علاقوں میں کچھ گروہوں کو یکجا ہونے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ جس میں سوات بھی شامل ہے اب یہ سارے گروہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اور مدد کے حوالے سے باہم منسلک ہیں۔

امریکہ ، افغان اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار
امریکی، افغان اور بھارتی ایجنسیوں کا کردار اس حوالے سے اہم ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کو یکجا ہو کر افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف لڑنے یا پھر کشمیر میں بھارتی افواج کے خلاف لڑنے کا موقع دینے کی بجائے انھیں پاکستان کے اندر ہی مشغول رکھنا چاہتی ہیں۔ یا پھر وہ پاکستان کے اندر ایسا ماحول پیدا کر دیں کہ اُسے افغانستان یا کشمیر کے اندراپنے مفادات پورا کرنے کا موقع مل ہی نہ سکے۔ یہ خواہش بھی ، سوات کی موجودہ شورش کا پس منظر سمجھنے میں مددفراہم کرتی ہے۔ اکتوبر2007میں اس وقت کے گورنر سرحد علی محمد جان اورکزئی نے کہا تھا کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ سوات اور وزیرستان میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا عمل دخل ہے۔ اب پاکستان کے وفاقی اور صوبائی سطح کے اعلیٰ حکام بھی اس بات کو دھرا رہے ہیں۔ کچھ مقامی لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ مجاہدین کے روپ میں بھارتی ایجنٹ اور جاسوس لڑ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ حاجی مسلم خان جو کہ سواتی طالبان کے ترجمان ہیں ان کا بھی کہنا ہے کہ کچھ داخلی اور کچھ خارجی طاقتیں جو کہ سوات میں امن نہیں چاہتیں وہ پولیس پر حملوں اور لڑکیوں کے سکول تباہ کرنے میں ملوث ہیں۔

امریکی بھی یہ چاہتے ہیں کہ خطے میں صورت حال موجود رہے تاکہ افغانستان میں اس کی موجودگی کا جواز بنا رہے تاکہ اس طرح وہ وسطی ایشیا چین اور روس پر بھی نظر رکھ سکے۔ اس تناظر میں ایک تجزیہ کار نے لکھا کہ''حکومت کی انہی پالیسیوں کے ردعمل میں جو فضا پیدا ہوئی اس نے غیر ملکی ایجنسیوں کو اپنے عزائم پورے کرنے اور حالات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔

دیگر عوامل
سوات کے خوبصورت قدرتی مناظر اور اس کا تاریخی ورثہ بھی شاید علاقے میں یورش کا ایک سبب ہے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ مری میں ہوٹل مالکا ن اور سیاحت کے شعبے سے وابستہ دوسرے لوگ سوات میں حالات خراب کرنے کے لیے فنڈ ز فراہم کر رہے ہیں تاکہ سیاحوں کا رخ سوات کی بجائے مری کی جانب ہو جائے اور اس مقصد کے لیے وہ میڈیا کو بھی فنڈ ز فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ سوات کے حالات کو خراب سے خراب دکھاتا رہے۔ چنانچہ اس تناظر میں علاقے کی خوب صورتی بھی وہاں حالات کی خرابی کا ایک محرک بن گئی ہے۔ ایک پشتو شعر ہے۔

خپلہ خوانی راپورے اور شوہ
لکہ مستہ پہ اور کنبے پتہ ناستہ یمہ

ترجمہ: میری جوانی مجھ پر آگ بن کر برسی، مجھے ستّی سمجھ کر لکڑیوں کے درمیان رکھ کر جلایا جارہا ہے۔

والی سوات کے دور میں غیر سواتی جو سوات میں رہنا چاہیں ان سے حلف نامہ لیا جاتا تھا کہ وہ سوات میں رہ کر کسی غیر قانونی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔ علاوہ ازیں وہ والی یا اس کے نمائندے کی مرضی کے بغیر سوات میں زمین بھی خرید نہیں سکتے تھے ماسوائے چند خصوصی کیسوں کے، اسی طرح یہ حلف نامے سوات میںکوئی بھی کاروبار چلانے یا صنعت کاری کے لیے بھی ضروری ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ پابندیاں ہٹا لی گئیں بالخصوص سوات کے پاکستان میں ادغام کے بعد چوں کہ یہ قبائلی علاقہ تصور ہوتا تھا اور یہاں پر ٹیکسوں میں چھوٹ تھی اس لیے یہاں بڑی تعداد میں غیر ریاستی باشندوں نے رخ کیا جو کہ صنعت و حرفت ، سیاحت،مزدوری اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کے لیے سوات آئے تھے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ لوگ بھی یہاں آگئے بالخصوص قبائلی علاقہ جات مثلاً دیر، باجوڑ،مہمند، خیبر اور افغانستان سے ،جنہوں نے یہاں سکونت اختیار کر لی، جس سے نہ صرف یہاں کی سیاست اور معاشرت کا توازن بگڑا ، بلکہ آگے چل کر یہ یہاں کی شورش میں بھی ایک اہم فیکٹر ثابت ہوا۔سیدو شریف ائیر پورٹ جو کہ تحصیل کبل میں واقع ہے اس کو ایک فوجی اڈے کے طور پر تبدیل کرنے کے منصوبے نے جلتی پر تیل کا کام کیا فوجی اڈے کی حدود جو کہ تین برس قبل متعین کی گئی تھیں اور اس سے متاثر ہونے والے گائوں ڈھیری اور بندئی کے لوگوں کو شدید تحفظات تھے کیوں کہ اس کے بعد سوات میں ملٹری کنٹونمنٹ بنانے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس لیے فوج یہ چاہتی تھی کہ یہاں شورش رہے۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی شیر پائو اور آئی ایس آئی نے مل کر فضل اللہ کو تھپکی دی تاکہ مستقبل میں فوج کے پاس اس شورش کو جواز بنا کر یہاں فوجی اڈہ اور ملٹری بیس بنانے کا جواز موجود ہو۔ کیوں کہ یہی وہ طریقہ کار تھا جو اس سے قبل سندھ میں پنوں عاقل اور بلوچستان کے اندر ڈیرہ بگٹی میں چھائونیاں بناتے وقت اختیار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس رائے کو اس وقت حقیقت سمجھ لیا گیا جب گورنر سرحد اویس احمد غنی نے کوہستان جاتے ہوئے مینگورہ میں قیام کیا اور جہاں پر یہ کہا کہ مینگورہ میں چھائونی بنانے کا فیصلہ اصولی طور پر کر لیا گیا ہے اور اس کے لیے ابتدائی منصوبہ بندی بھی کر لی گئی ہے۔ فروری2008میں یہ خبر آئی کہ سوات میں امن و عامہ کی خراب صورت حال کی وجہ سے یہاں پر مستقل طور پر چھائونی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے تاکہ فوجی چھائونی کے قیام سے یہاں پر نہ صرف پائیدار امن قائم ہو بلکہ علاقے کی تعمیر و ترقی بھی شروع ہواور سیاحت کو بھی فروغ ملے سوات کے پس ماندہ لوگوں کی حالتِ زار بھی بدلے اور ان کو خوش حالی نصیب ہو۔

عائشہ صدیقہ جو کہ فوجی معاملات پر لکھنے میں مہارت رکھتی ہیں انہوں نے دسمبر 2007 میں ''فوجی چھائونیوں کی سیاست '' کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔سوات میں فوجی چھائونی بنانے کا مقصد فوج کا اس نتیجے پر پہنچنا ہے جس کے تحت علاقے میں شورش اور اس کے خلاف پائی جانے والی رائے عامہ کا تقاضا ہے کہ سوات میں فوجی چھائونی بنائی جائے جب کہ اس کے دیگر فوائد بھی فوج کے پیشِ نظر ہیں۔ مثلاً یہ کہ فوج گلگت اور سوات کے درمیان سمگلنگ کے راستے پر نظر رکھ سکے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال اس راستے سے صرف چند ایک اشیا ء چین سے سمگل ہو کر پہنچ رہی ہیں۔

ایک اور خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ سوات کے لوگ چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان میں شرح خواندگی بھی ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اس لیے وہ تمام شعبوں پر حاوی نظر آتے ہیں جن سے ملک اور صوبے کے دیگر لوگ حسد کرتے ہیں اس لیے انہوں نے انتقاماً سوات کے اندر یہ حالات پیدا کر دیے ہیں۔

سوات کے تمام انتظامی اداروں کے اندر بد انتظامی انتہا کو تھی۔ جن کی ناقص کارکردگی نے بھی لوگوں کو موجودہ نظام سے منتفر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علاوہ ازیں افغانستان میں بیرونی افواج کی موجودگی حکومت پاکستان کے فاٹا، وزیرستان، لال مسجد آپریشن اور سوات کی عدالتوں میں شرعی قوانین کے عدم نفاذ ، تحریک شریعت محمدی کے ساتھ معاہدوں کی خلاف ورزی ، یہ سارے وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے پاکستانی طالبان کا اثر ورسوخ وزیرستان سے سوات تک پھیل گیا اور یہاںپر مسلح جدوجہد کی موجودہ شکل سامنے آئی۔

تحریکِ نفاذ شریعت محمدی اور اس کے بعد
1989میں دیر میں ایک تحریک نے جنم لیاجس کے سربراہ صوفی محمد تھے اور اس کا نام تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی رکھا گیا۔ جس کا مقصد حکومت کو مجبور کرنا تھا کہ وہ مالاکنڈ میں اسلام کا عدالتی نظام رائج کرے۔ اس تنظیم کا دائرہ اثر دیر سے سوات تک پھیل گیا اور ریاست سوات کے خاتمے کے بعد یہاں جو عدالتی نظام رائج تھا لوگ اس کی خامیوں کی وجہ سے از حد نالاں تھے، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور پھر سپریم کورٹ کی جانب سے اس کو یہ کہہ کر کالعدم قرار دینا کہ پاٹا ریگولیشنز آئین کا حصہ ہیں اور اس سے ہٹ کر وہاں کچھ کرنا، عدالتی دائرہ اختیار سے ماورا ہے جس سے مالاکنڈ ڈویژن کے لوگوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ حکام کا خیال تھا کہ صرف مالاکنڈ ڈویژن میں اسلامی قوانین کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ اور اگر ایسا کیا گیا تو حکومت کو پاٹا ریگولیشنز کے جواب میں متبادل ریگولیشنز کو آئین کا حصہ بنانا ہوگا۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ حکومت نے اوّل اوّل تحریک کو مدد فراہم کی اور اس کی سرگرمیوں کو جاری رہنے دیا۔ جس کا نتیجہ تحریک کے ساتھ عوامی شمولیت کے اضافے کی صورت میں نکلاحتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا جب 1994میں یہ مسلح تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ تحریک کے سربراہ صوفی محمد نفاذِ شریعت کے لیے غیر متشدد اور پرامن طریقے سے جدوجہد کے حامی تھے تاہم وہ کہتے ہیں آج انتظامیہ اور فوج پر ہونے والے حملے اس عوامی مطالبے کو نہ ماننے کی پاداش میں کیے جارہے ہیں۔ جب یہ تحریک 1990میں شروع ہوئی تو غیر متشدد تھی مگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو انہوں نے اپنی تقریر میں عوام سے کہا کہ وہ اپنے زیورات بیچ کر اسلحہ خریدیں اس دور میں تحریک کا نعرہ تھا''شریعت یا شہادت''۔16مئی 1994کو جب بونیر میں سیکیورٹی فورسز نے تحریک کے کارکنوں پر فائرنگ کی تو اس کے بعد صوفی محمد نے اپنے کارکنوں کو حکم دیا کہ انہیں جہاں بھی حکومتی اہل کار نظر آئیں انہیں مار دیا جائے۔

یہ بات بھی خاص توجہ کے لائق ہے کہ سوات میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں1949میں سراج الدین خان نے والیٔ سوات سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ریاستی عوام کی محرمیو ں کے خاتمے کے لیے یہاں پر شریعت کو نافذ کریں۔ جب کہ1971میں ریاست کے ادغام کے بعد مینگورہ کے ایک رہائشی دائی گل نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا جب1994میں پاٹا ریگولیشنز میں کئی گئی ترامیم سے تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی مطمئن نہ ہوئی تو اس نے جون1995میں جیل بھرو تحریک کا آغاز کر دیا۔ جس کے بعد 1999میں حکومت نے شرعی نظام عدل ریگولیشنز کے نام سے پاٹا ریگولیشنز میں دوبارہ نئی ترامیم کیں مگر صورت حال اس سے بھی بہتر نہ ہوئی جس پر مولانا صوفی محمد اور ان کے ساتھی اپنی کوششوں میں مشغول تھے کہ امریکہ2001میں افغانستان آگیا جس پر مولانا صوفی محمد طالبان کے منع کرنے کے باجود اپنے ساتھ ہزاروں کارکنوں کو لے کر نومبر 2001میں افغانستان چلے گئے تاکہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف لڑ سکیں۔ افغانستان میں ان کے ہزاروں ساتھی امریکی بم باری کا نشانہ بن گئے۔ مولانا صوفی محمد اپنے داماد مولانا فضل اللہ کو لے کر واپس پاکستان آگئے جہاں پر انہیں گرفتارکر لیا گیا۔

مولانا صوفی محمد جیل میں ہی تھے جب کہ ان کے دامادمولانا فضل اللہ کو 17ماہ بعد رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد مولانا فضل اللہ نے ایف ایم ریڈیو پر تبلیغ شروع کر دی انھیں تحریک کے کارکنوں کی ہمدردیاںاور مدد میسر تھی اس لیے وہ جلد ہی مشہور ہو گئے۔ انہوں نے اپنے آبائی گائوں مام ڈیری جسے اب امام ڈھیری کہا جاتا ہے وہاں ایک مدرسے اور مرکز کی تعمیر شروع کر دی لوگوں نے انہیں دل کھول کر عطیات دیے اور جلد ہی مدرسہ مکمل ہو گیا۔ مولانا فضل اللہ جیسے جیسے مشہور ہوتے گئے میڈیا میں وہ متنازعہ حیثیت اختیار کرتے گئے۔ اپنے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کی وجہ سے مولانا نے متعدد بار حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ چانچہ ہر بار حکومت نے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حالات کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ مولانا فضل اللہ کے طریقہ کار اور حکمت عملی کو نفاذ شریعت کے کارکنوں نے خیر آباد کہنا شروع کر دیا حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا جب تحریک کے کارکنوں نے خود کو مولانا فضل اللہ سے الگ کر لیا مگرا س کے باوجود مولانا فضل اللہ کے اثر و رسوخ میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ 2007میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب انہوں نے ایک نئی تنظیم تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی جس کے سربراہ بیت اللہ محسود تھے جو کہ مختلف ہم خیال گروہوں پر مشتمل تنظیم تھی۔ جس کی وجہ سے مولانا فضل اللہ اپنے سسر مولانا صوفی محمد کی تحریکِ نفاذِ شریعت ِ محمدی کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہو گئے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مولانا فضل اللہ اور مولانا صوفی محمد کے مقاصد اگرچہ ایک جیسے ہیں مگر دونوں کی حکمت عملی اور طریقہ کار میں بہت فرق ہے ۔ صوفی محمد نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اگر ان کے مطالبے کے مطابق شرعی قوانین کا نفاذ ہو جاتاہے تو وہ سوات جا کر مولانا فضل اللہ سمیت سب کو غیر مسلح کر دیں گے۔ اور حاجی مسلم خان نے بھی کہا تھا کہ اسلامی قوانین صوفی محمد کے ڈرافٹ کے مطابق ہی نافذ کیے جائیں۔

موجودہ منظر نامہ
سوات میں متذکرہ بالا صورت حال 2007سے اس وقت بہت زیادہ خراب ہو گئی جب حکومت اور مولانا فضل اللہ دونوں نے اپنے اپنے مؤ قف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ حکومت نے علاقے میں فوج تعینات کرنا شروع کر دی جس کا نتیجہ جھڑپوں کی صورت میں سامنے آیا۔ حکومت کا یہ مؤقف تھا کہ وہ یہ معاملہ پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتی ہے اور صوبائی گورنر نے بھی بیان دیا تھا کہ فوجی آپریشن آخری آپشن ہوگا۔ پرویز مشرف نے بھی جنگجوئوں سے ہتھیار پھینکنے اور معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا تھا۔ دوسری طرف جنگجوؤں کا مطالبہ تھا کہ فوج علاقے سے نکل جائے۔ اسلامی قوانین کانفاذ کیا جائے اور مولانا صوفی محمد کو رہا کیا جائے۔ جھڑپیں جاری رہیں مولانا فضل اللہ نے اپنے جنگجوئوں کو کہا کہ وہ سڑکوں سے ہٹ کر انڈر گرائونڈ چلے جائیں تاکہ عوام کا نقصان نہ ہو۔ جنوری 2008میں بے پناہ جانی و مالی نقصان(جس کا خمیازہ سواتی عوام کو بھگتنا پڑا)کے بعد معاملہ وقتی طور پر ٹھنڈا ہو گیا۔ فروری 2008میں عام انتخابات ہوئے جس کے بعدعوامی نیشنل پارٹی نے اتحادی حکومت قائم کی۔ جس نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اعلان کیا کہ وہ صوبے میں امن وامان کو بحال کرے گی، صوفی محمد اور مولانا فضل اللہ کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے۔ جس کے بعد معاہدہ ہوا اور صوفی محمد رہا کر دیے گئے۔ حکومت نے کہا کہ وہ شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ پورا کرے گی جس کے جواب میں دوسرے گروہوں کو علاقے میں امن عامہ بحال کرنے میں حکومت کی مدد کرنی ہوگی۔

بعد ازاں کچھ معاملات میں اختلافات سامنے آگئے۔ ہر فریق نے دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جس کا نتیجہ پھر مسلح جھڑپوں کی صورت میں سامنے آیا۔ اور دونوں اطراف سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی سوات میں 22دن کرفیو نافذ رہا بجلی اور ٹیلی فون کا نظام بھی منقطع رہا۔ ایک طرف سے حکومتی اہل کاروں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا۔ سکول، پل، پولیس سٹیشن اور دوسری سرکاری عمارتوں کو اڑایا گیا تودوسری طرف کارپٹ بمباری کی گئی۔ اب یہ سب کچھ معمول بن چکا ہے۔ دونو ں اطراف سے عوام کی ہمدردیاں اور حمایت حاصل ہونے کے دعوے بھی مسلسل جاری ہیں۔ اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ طالبان نے مساجد ، حجروں، جرگوں اور حتیٰ کہ جنازوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جس پر ہم نے انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ فوجی ایکشن کے نتیجے میں لوگوں کو بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور اس سے طالبان کے ساتھ عوامی ہمدردیوں میں اضافہ ہوا۔ دلاور جان نے لکھا کہ لوگوں نے فوجی آپریشن کو اس لیے خوش آمدید کہا اور فوجیوں کو پھولوں کے ہار پہنائے کہ وہ جنگجوئوں کو علاقے سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر آج جب فوج عوامی ہمدردیوں کے باجود ایسا نہیں کر سکی تو اس سے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پید اہو گئے ہیں۔ ایک طرف ان کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں تو دوسری طرف ان کے نقصانات میں اضافہ ہو گیا۔ جس کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا کہ فوج ان کی مشکلات میں اضافہ تو کر سکتی ہے مگر ان کا تحفظ نہیں کر سکتی۔آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

موجودہ صورت حال کا المیہ یہ ہے کہ اس کے محرکات کئی ہیں نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی، اور سب کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ لیکن جو چیز چکی کے پاٹ میں پس رہی ہے وہ سوات ہے اور اس کے شہری، حکومت کا موقف ہے کہ مذکرات سے قبل جنگجوئوں کو غیر مسلح ہونا پڑے گا، جب کہ دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ فوجی دستوں کا علاقے سے انخلا کیا جائے، اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے۔ گرفتار شدگان کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔ تاکہ ہماری جدوجہد کا اختتام ہو مگر شاید یہ جدوجہد کا اختتام نہ ہو بل کہ وہ اپنی حکومت بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ شاہ داوران نے ایف ایم ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ ان پولیس اہل کاروں کو جنہوں نے حکومتی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ہے ان کو دوبارہ ملازمت دیں گے انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ عشر کے ذریعے ان لوگوں کی مدد کریں بلکہ اس سال خریف میں طالبان نے اسی مقصد کے لیے عشر اکٹھا بھی کیا۔

آج سوات دو راہے پر کھڑاہے کوئی فریق اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اس صورت حال میں سوات اور اس کے شہری برباد ہو رہے ہیں۔ بلکہ برباد ہو چکے ہیں۔ اور اگر تیسرے مرحلے میں آرمی نے کوئی آپریشن کیا تو ایک لاکھ سواتیوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل محمود اعظم نے نومبر2007میں کہا تھا کہ فوجی طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیںاکتوبر 2007میں طالبان کمانڈر اکبر حسین نے کہا تھا کہ یہ مقامی مسئلہ ہے اور مسئلے کے حل کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی آبادی پر طالبان کا اثرو رسوخ زیادہ ہے اور اگر باہر سے آکر کسی نے رخنہ اندازی کی کوشش کی تو حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو سوات کے حالات عراق سے بھی خراب ہو جائیں گے۔

سوات کے مسئلے سے وابستہ سبھی لوگوں کو چاہے وہ حکومت ہو یا طالبان یا کوئی اور انہیں مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ صوبائی حکومت نے اپریل اور مئی 2008میں جو معاہدے طالبان کے ساتھ کیے اگر ان پر عمل کیا جائے تو جیو اور جینے دو کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے ۔ یہ ایک راستہ ہے جس کے ذریعے سوات میں دیر پا امن قائم ہو سکتا ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر صورت حال کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں رہے گی۔ جب تک افغانستان سے بیرونی فوجوں کا انخلا نہیں ہوتا، علاقے سے مغرب کے خلاف جذبات ختم نہیں ہو سکتے اور جب تک یہ جذبات موجود ہیں طالبان کا خاتمہ آسان نہیں۔

(انگریزی سے ترجمہ سجاد اظہر)